نیرنگ خیال

لائبریرین
دوا اور دعا
ایک نوجوان کی شادی ہوتی ہے۔ اب کوئی یہ اعتراض نہ کرے کہ نوجوان کیوں۔ حکایت نہیں سننی تم لوگوں نے۔:p

شادی کے معاملات طے کرتے وقت تو اسکو باپ یاد نہ آیا۔ مگر جب وقت شہادت قریب آیا تو اک سیانے نے مشور ہ دیا
کاکا بزرگوں کی دعا لے لے۔ بھلا ہو جائے گا۔​

وہ اپنے والد کے پاس پہنچا کہ اس نئے ازدواجی سفر کے لیے برکت کی دعا کی جائے۔
باپ نے پہلے تو تیوری چڑھا کر کہا۔ آگئی پیو دی یاد۔:nerd: کدھر کمیوں میں تو رشتہ نہیں طے کر آیا۔ :idontknow:

اس پر اس نوجوان نے ہونے والی شریک حیات کے حسب نسب سے آگاہی دی۔ باپ اس خاندان کو جانتا تھا۔ اور معلوم تھا کہ لڑکی بہت ہی زبان دراز ہے۔ لیکن اب پدرانہ شفقت سے مجبور ہو کر کوئی ایسی نصیحت سوچنے لگا جس پر عمل سے اسکا بیٹا خوش رہے۔

با پ کو سوچ میں ڈوبا دیکھ کر بیٹے نے انتہائی مودب لہجے میں پوچھا۔
ابا جی خیر ہوئے۔ طبیعت ٹھیک ہے۔​
اس پر والدنے اُس سے ایک کاغذ اور قلم کا تقاضا کیا۔

بیٹے نے جھٹ سے اپنا ٹیبلٹ نکالا اور کہا ابا جی حکم کریں۔

باپ کو غصہ آگیا اور کہا کر دیا نہ اتنے خوبصورت خیال کا بیڑا غرق۔ جا کاپی پینسل لے کر آ۔ اور خیال آنے پر دوبارہ آواز دے کر کہا، کہ کہیں جیل والا یا کوئی اور سیاہی والا پین نہ اٹھا لائیں۔ ڈئیر والوں کی کچی پینسل ہی لے کر آنا۔ بیٹا جب تھوڑی دور اور پہنچا تو پھر آواز دی کہ ساتھ میں ربر بھی لے آنا۔

لڑکا تپ کر واپس آکر بیٹھ گیا اور بولا،
نئیں پیلے تسی یاد کر لو منگانا کی کی ائے (نہیں آپ پہلے یاد کر لو، چاہیئے کیا کیا۔ )​
باپ کا پارہ ساتویں آسمان پر پہنچ گیا
او جا کاکا، جو کام کہا ہے وہ کر۔​

لڑکاکو پہلے ہی شک تھا کہ ابا حضور اب سٹھیا چکے ہیں۔ مگر صرف اس امید پر کہ شائد اب والد محترم کوئی کام کی بات کر لیں مطلوبہ سامان لینے نکل کھڑا ہوا۔
عرصہ دراز بعد پینسل کاپی ہاتھ میں لے کر وہ ماضی کی یادو ں میں کھو گیا۔ جب اسے بٹرفلائی کی پینسل پسند تھی اور باپ تب بھی ڈئیر کی پینسل ہی لا کر دیتا تھا۔

باپ نے اسے سوچوں میں ڈوبا دیکھکر کہا کاکا ارسطو نہ بن۔ لکھ

بیٹا باپ کی جگت پر کھسیانہ ہوکر۔ کیا لکھوں

باپ بیٹے کے لاجواب ہونے پر طنزیہ ادا کے ساتھ۔ جو تیرا دل کرے۔

نوجوان ایک جملہ لکھتا ہے
"انسان حسن پرست ہے"​

باپ شرمندہ ہو کر: اسلاف کی روایات نہ چھوڑنا، چل مٹا اسے
اب نوجوان کے چہرے پر خوشی۔ اور مٹا دیتا ہے۔

باپ : کچھ اورلکھو
بیٹا : خدارا آپ کیا چاہتے ہیں ؟
باپ کہتا ہے : ٹھیک ہے اب اسے بھی مٹا دے۔


باپ : چل اب کچھ اورلکھو
بیٹا: میں یہاں دعا لینے آیا ہوں۔ خوشخطی کی کلاس لینے نہیں۔
باپ: نظر انداز کرتے ہوئے، می نویس۔۔۔۔
نوجوان لکھتا ہے :
عقل کے اجزاء بیان کرو​
باپ اس جملے میں چھپے طنز کو نظر انداز کرتے ہوئے۔ اسے بھی مٹا دو اب۔

لڑکا مٹاتے ہوئے دل میں، یا اللہ میرا ابا پاگل ہو کر نہ مرے۔ آمین

پھر باپ اُ س کی طرف دیکھتا ہے اور اُسے تھپکی دیتے ہوئے کہتا ہے :
بیٹا شادی کے بعد اریزر کی ضرورت ہوتی ہے
اگر ازدواجی زندگی میں تمہارے پاس ربرنہیں ہو گا جس سے تم اپنی بیوی کی غلطیاں اور کوتاہیاں مٹا اور معاف کر سکو
اور اسی طرح اگر تمہاری بیوی کے پاس ربر نہ ہوا جس سے وہ تمہاری غلطیاں اور ناپسندیدہ باتیں مٹا سکے تو تم دونوں خود سوچو کہ کتنا باعث اذیت ہوگا۔
میں تمہاری ان بدتمیزیوں پر تمہیں کتنا مارتا تھا۔ اور نہیں چاہتا کہ اب بیگم سے بھی تم پٹو۔
بیٹا۔۔ اور اگر اس نے روز اک پینسل ختم کرنی شروع کر دی۔ یا پھر پارکر کی سیاہی کا استعمال ۔۔۔
والد غصے سے: ابھی میری بات نہیں ختم نہیں ہوئی۔ اگر تمہارے پاس ربر ہوگا تو ہی تم اسکی کوتاہیاں معاف کر سکو گے۔ وگرنہ تمہاری حیات کا صفحہ تمہارے مقدر اور منہ کی مانند تیرہ نصیب ہی رہے گا۔
بیٹا: اباجی وہ دعا کدھر گئی۔ جس کے لیئے میں نے اتنے پاپڑ بیلے ہیں۔o_O
آپ کی یہ بیکار نصیحت تو آپ کی زندگی پر کارگر نہ ہوئی۔ اور ساری عمر ڈنڈا لیئے ہم لوگوں کو مارتے رہے۔ نتیجہ کے طور پر اب آپکی اولاد آپ سے دور ہے۔ اور جس ربر کی بات آپ کر رہے ہیں اس کی ہر انسان کو ہر وقت ضرورت ہوتی ہے۔ اور آپکو اس ربر کا استعمال بہت پہلے سیکھ لینا چاہیئے تھا۔

اخلاقی سبق: کسی ربر کی ضرورت نہیں ہے۔ ظرف ہونا چاہیئے بندے کا اور بس۔ زندگی کے لکھے نہیں مٹتے۔ بس ان کے ساتھ جینے کے فن پر دسترس ہونی چاہیئے۔ اور جب کوئی دعا کا کہے تو صرف دعا کرو۔ دوا کا بندوبست کر کے اپنا اور اسکا وقت ضائع مت کرو۔
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
زبان کا زخم (اصل حکایت)​
حکایات کا بے جا استعمال (نئی حکایت)​
ایک بچہ بہت بدتمیز اور غصے کا تیز تھا۔ اسے بات بے بات فوراً غصہ آجاتا ، وہ تمام عواملجن کی وجہ سے وہ اسقدر بدتمیز اور غصیلہ تھا اگران کا ذمہ دار والدین کو ٹھہرایا جائے گا تو کہانی آگے نہ بڑھے گی حالانکہ سچ بات یہی ہے۔ خیر حکایت آگے بڑھانے کو ہم وجہ کو نظر انداز کرتے ہیں تا کہ لوگوں کو عبرت آموز حکایت پڑھنے کو ملے۔ اور دیکھیں کے بچے کے والدین کو احساس ہوا یا نہیں اپنی کوتاہیوں کا اور انہوں نے اس کے سدھار کے لیئے کوئی کوشش کی یا نہیں۔ اور اگر ایسی حکایات نہ بنے گیں تو لوگوں کا کیا بنے گا۔ وہ عبرت کیسے پکڑیں گے۔ آخر انہوں نے بھی تو سبق حاصل کرنا ہے۔​
تو جناب ہوا یوں کہ والدین نے اس بچے پر کنٹرول کی بہت کوشش کی لیکن کامیاب نہ ہوئے، کیوں کہ اب پانی سر سے گزر چکا تھا اور بچہ بھی ماں باپ کے حربوں کو خوب سمجھنے لگا تھا۔الٹا وہ انکو بتاتا کہ انسان کو اپنے بچوں کی تربیت یوں کرنی چاہیئے۔ اسکی ان حرکتوں کی وجہ سے گھر میں ماں باپ الگ طوفان بدتمیزی برپا کیئے رکھتے۔ باپ کہتا بالکل اپنے نانا جیسا ہے۔ اور ماں کہتی دادا پر گیا ہے۔ جبکہ اسکی پیدائش پر پورا خاندان کہہ رہا تھا کہ میرے پر گیا ہے ۔۔۔ میرے پر گیا ہے۔
ایک روز اس کے والد کو ایک ترکیب سوجھی ۔ اور انٹرنیٹ پر "بدتمیز بچے کا علاج" سرچ کیا تو اک حکایت مل گئی۔خوشی سے اچھل پڑا کے لو جی مل گیا علاج ۔ شام کو دفتر سے واپسی پر کیلوں کا ڈبہ لے آیا۔ اور انتظار کرنے لگا کہ بچہ غصے میں آئے تو عملی انداز میں بچے کی تربیت کا کام سر انجام دیا جائے۔
زیادہ انتظار نہ کرنا پڑا ۔ بیٹے کے غصہ میں آتے ہی باپ نے خلاف توقع بڑی نرمی سے کہا کہ بیٹا وہاں میز سے کیلوں کا ڈبہ اٹھا لاؤ۔ بیٹا نے باپ کو حیرت سے دیکھا اور کچھ نہ سمجھنے کے انداز میں جا کر اک ٹرے میں پانچ چھ کیلے رکھ لایا۔ باپ کا دماغ گھوم گیا۔ مگر بڑی نرمی سے دوبارہ سمجھایا بیٹا کیلے نہیں کیلیں۔
اب بیٹے کو گھر کے پچھلے حصے کے پاس لے جا کر کہا، بیٹے جب تمہیں غصہ آئے اس ڈبہ میں سے ایک کیل نکال کر یہاں دیوار میں ٹھونک دینا پہلے دن میں ہی لڑکے نے دیوار میں لاتعداد کیلیں ٹھونک ماریں۔ باپ کو بڑا غصہ آیا کہ حکایت میں ۳۷ تھیں۔ خیر دو دن گزرے ہونگے کہ بیٹے باپ کے سامنے پیش ہوا۔ باپ خوش ہو گیا کہ دوسرے حصے کو سنانے کا وقت آگیا ہے۔ مگر بیٹے کی یہ بات سنکر ساری خوشی خاک میں مل گئی۔
کیلوں کا ڈبہ ختم ہو گیا ہے
اگلے دن باپ اک اور ڈبہ لے آیا۔ مگر اک دن بعد ہی دوبارہ بیٹا سامنے کھڑا دیکھکر اسکا پارہ ساتویں آسمان پر پہنچ گیا اور چیخ کر بولا تو کیا ڈبہ پھر ختم ہو گیا۔
نہیں پاپا۔ بیٹے نے جواب دیا۔ دیوار میں جگہ ختم ہو گئی ہے۔
تو دوسری دیوار میں شروع ہو جاو جا کر۔ باپ نے بیچارگی سے سر ہلاتے ہوئے کہا۔
پہلے ہفتے میں ہی بچہ سمجھ گیا کہ غصہ کنٹرول کرنا آسان ہے لیکن دیوار میں کیل ٹھونکنا خاصا مشکل کام ہے۔ کیوں کہ غصے میں اندھے ہو کر کیل ٹھونکنے سے اکثر ہاتھ پر بھی چوٹ لگ جاتی۔ اس نے یہ بات اپنے والد کو بتا ئی۔
والد جو سوچ رہا تھا کہ یہ حکایت تو میرے گلے پڑ گئی۔ پورا گھر کیلوں کیل ہوا ہوا ہے۔ اور ہر وقت جو ٹھک ٹھک کی آواز وہ الگ۔ خوش ہو گیا۔ کہ بچہ تیز جا رہا ہے۔ پھر خیال آیا کہ حکایت والے نے اضافی وقت احتیاط لکھا ہوگا۔
اب پارٹ ٹو کے مطابق کہا کہ جب تمہیں غصہ آئے اور تم اسے کنٹرول کرلو تو ایک کیل دیوار میں نکال دینا۔اس کام میں بیٹے کو بہت جلد احساس ہو گیا۔ کہ کیل نکالنا کوئی آسان کام نہیں۔ جب کوئی کیل نکالتا تو کیل اکثر سیدھا نہ نکلتا اور زور آزمائی کی وجہ سے سارا پلستر اکھڑ جاتا۔ اب اسے اس بات پر غصہ آتا کہ اک تو غصہ کنڑول کرو اور اوپر سے کیل نکالنے کی مشقت۔ اس سے تو کہیں بہتر ہے کہ کسی کو چار گالیاں دے کر من کا بوجھ ہلکا کر لیا جائے۔ خیر لڑکے نے باپ کی ہدایت کے مطابق کا کیا اور بہت جلد دیوار سے ساری کیلیں جن کی تعداد کا کوئی حساب نہیں تھا ، نکال دیں۔​
باپ جب بیٹے کو لے کر نصیحت کی غرض سے دیوار کے پاس پہنچا تو پوری دیوار میں جابجا سوراخ اکھڑا پلستر اوراینٹوں کے ٹوٹنے سے بد ہیئت دیوار کو دیکھکر غصے میں پاگل ہو گیا۔سوراخوں میں چیونیٹیوں نے گھر بنا رکھے تھے۔ ابھی کچھ مہینے پہلے ہی پینٹ کروایا تھا۔ اسکا بھی ناس ہو چکا تھا۔ بیٹا باپ کی حالت دیکھ کر کیل اور ہتھوڑی لے آیا۔ اور کہا ابا جی آپ کو بھی اس مشق کی اشد ضرورت ہے۔
باپ نے باپنے غصے پر قابو پا کر اس حکایت لکھنے والے کے اسلاف کی شان میں دل ہی دل میں بے بہا نذرانہ عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا، بیٹا تم نے اپنے غصہ کو کنٹرول کرکے بہت اچھا کیا لیکن اب اس دیوار کو غور سے دیکھو یہ پہلے جیسی نہیں رہی، اس میں یہ سوراخ کتنے برے لگ رہے ہیں۔ پینٹ پر خرچہ الگ ہوگا اب بیٹا۔ جبکہ ہلکی پھلکی مرمت کا بھی بندوبست کرنا پڑے گا۔ کیوں کہ یہ ہمارا گھر ہے اور ہم نے اسے بنوانا ہے۔ بالکل اسی طرح جب تم کسی پر چیختے چلاتے ہو تو اس کے دل پر بھی زخم بنتے چلے جاتے ہیں۔ بھلے تم بعد میں معافی مانگ لو مگر نشان وہیں رہے گا۔ اور اگر وہ بندہ کمینہ ہے تو اپنی باری پر بدلہ ضرور لے گا۔ اور پھر زخم در زخم کی اک داستاں شروع ہو جائے گی۔بیٹا باپ کی بات سمجھ گیا۔ اور اس نے اک سیاسی وعدہ بھی کیا کہ اب وہ سدھر گیا ہے۔ مگر اک سوال جو اسکے ننھے ذہن میں آیا وہ یہ کہ چھوٹے بھائی کے دل میں جو سوراخ ہے وہ ماں باپ کے جملوں کی وجہ سے ہے؟ ان کی غصیلہ پن اور بدزبانی کو روکنے کے لیئے کیا کرنا چاہیئے۔ اس سوال پر باپ پر وہی غصے کا موروثی دورہ پڑ گیا۔ اور وہ دیوار میں کیلیں ٹھونکنے لگا۔ جبکہ بیٹے نے کمرے کی را ہ لی۔
اخلاقی سبق: جب آپ کسی کو نصیحت کرو تو لازم ہے کہ وہ برائی آپ کے اپنے اندر نہ پائی جاتی ہو۔ باقی بھلے ہزار برائیاں ہوں۔ اور بچوں کی تربیت پنگوڑے سے کرنی چاہیئے نہ کہ جب کہیں سے حکایت ہاتھ آجائے تب۔​

ہاہاہا
ہاہاہاہا
ہاہاہاہاہاہا
:rollingonthefloor:
 

رانا

محفلین
بہت ہی زبردست نیرنگ بھائی۔ کہا کہنے۔:haha:
کسی حکایت یا اچھے بھلے مضمون کی ایسی تیسی کروانی ہو تو بندہ آپ کا پتہ دے دے۔:)
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
قیصرانی بھائی اور تعبیر آپی
جسکو تیرنا نہ آتا ہو وہ بزدل۔ اس کے بارے میں حکایتی محترمہ نیلم صاحبہ کی پیش کردہ حکایت تو آپ نے پڑھ ہی رکھی ہے۔
بزدل غلام (اصل حکایت)​
مظلوم غلام اور احمق دانا
(شیخ سعدی کی روح سے معذرت کے ساتھ)​
ایک بادشاہ کشتی میں بیٹھ کر دریا کی سیر کر رہا تھا۔ کشتی اس لیئے کہ کروز اور لانچ کا دور نہ تھا۔ آبدوز بھی ایجاد نہ ہوئی تھی۔ کچھ درباری اور چند غلام بھی ساتھ تھے۔ وہ ساتھ نہ ہوتے تو پروٹو کول کسطرح پورا ہوتا۔ سب کہتے کتنا غریب بادشاہ ہے۔ بغیر پروٹوکول کے پھرتا ہے۔ یہ سارے غلام ایسے تھے جو پہلے کبھی کشتی میں نہ بیٹھے تھے اور شوق میں ساتھ چلے آئے تھے اور اب پچھتا رہے تھے۔ مگر اک ایسا تھا جو اپنا خوف نہ چھپا پا رہا تھا۔ اور ڈوب جانے کے خوف سے رو رہا تھا۔ موت برحق ہے والے مقولے پر اس کا ایمان بہت ناپختہ تھا۔ بادشاہ کو اس کی بھوں بھوں کر کے رونے کی آواز سے سخت الجھن ہو رہی تھی لیکن غلام پر منع کرنے اور ڈانٹنے ڈپٹنے کا بالکل اثر نہ ہوا اور وہ یونہی روتا رہا۔ بادشاہ سوچ رہا تھا کہ واپس جا کر اسکی گردن مار دینے کا حکم دے دے گا۔
کشتی میں ایک جہاندیدہ اور دانا شخص بھی سوار تھا ۔ اسکی وجہ یہ تھی کہ یہ اک مسافر کشتی تھی اور بادشاہ کو درباریوں نے مکمل کشتی کرائے پر لینے کی بجائے ضرورت کے مطابق ہی کرایہ ادا کر کے بقیہ رقم ڈکا ر لی تھی۔ کہ بادشاہ کو کونسا پتہ چلے گا۔ اور ملاح سے سازباز کر رکھی تھی کہ مسافر کو اپنا رشتےدار بتا دے اگر بادشاہ پوچھ بیٹھے۔دوسری مصلحت یہ بھی تھی کہ اگر اسکو بھی نکال دیتے تو حکایت آگے کیسے بڑھتی۔
اب دانا شخص نے فلمی انداز میں یکلخت کھڑے ہو کر کہا کہ اگر حضور اجازت دیں تو یہ خادم اس خوفزدہ غلام کا ڈر دور کر دے؟ تو بادشاہ جو پہلے ہی شیخ سعدی کے دور کے عقلمندوں کو یاد کر رہاتھا خوش ہوگیا کہ لو آیا اک دانا۔ اور اجازت عطا فرمائی۔
دانشمند شخص نے اک نگاہ تکبرانہ سب بیوقوفوں مع بادشاہ پر ڈالی اور بقیہ غلاموں کو حکم دیا کہ اس والے غلام کو اٹھا کر دریا میں پھینک دو۔ درحقیقت وہ اک اذیت پسند شخص تھا۔ وگرنہ غلام کی توجہ باتوں میں لگا کر بھی بٹائی جا سکتی تھی۔ مگر ان دنوں شائد اس قسم کے موضوعات پر تحقیق نہ ہوتی تھی۔ غلاموں نے حکم کی تعمیل کی اور رونے والے غلام کو اٹھا کر دریا کے اندر پھینک دیا ۔ جب وہ تین چار غوطے کھا چکا تو دانا شخص نے غلاموں سے کہا کہ اب اسے دریا سے نکلا کر کشتی میں سوار کر لو. وہ غلام غوطے کھاتا کشتی سے دور جا چکا تھا۔ اب سب اک دوسرے کا منہ دیکھنے لگے کہ تیرنا تو کسی کو بھی نہیں آتا تھا۔ اب سب کی نظریں ملاح پر گڑ گئیں۔ مجبورا ملاح دل ہی دل میں بکتا جھکتا دریا میں چھلانگ لگا کر اسکو اوپر گھسیٹ لایا۔ اسکے پیٹ میں پانی بھی چلا گیا تھا۔ وہ بھی نکالا گیا۔ اب وہ غلام جو غوطے کھانے سے پہلے ڈوب جانے کے خوف سے بڑی طرح رو رہا تھا بالکل خاموش اور پر سکون ہو کر ایک طرف بیٹھ گیا۔
بادشاہ جو یہ بیکار حرکت دیکھ کر بور ہو رہا تھا،قدرے غصہ ہو کر سوال کیا کہ آخر اس بات میں کیا بھلائی تھی کہ تم نے ایک ڈرے ہوئے شخص کو دریا میں پھینکوا دیا تھا اور یہ بھی پوچھنے کی زحمت نہ کی کہ کسی کو تیرنا آتا بھی ہے یا نہیں؟ لیکن دلچسپ امر جس نے تمہاری جان بچا لی وہ یہ ہے کہ یہ اب خاموش ہوگیاہے۔​
دانا شخص جو پہلے داد طلب نظروں سے بادشاہ کو دیکھ رہا تھا۔پریشان ہوگیا اور سوچنے لگا کہ اخلاقی سبق ایسا ہونا چاہیئے کہ اب اپنی جان بچ جائے۔ اور آخر کار اس نے جواب دیا حضور والا! اصل بات یہ تھی کہ اس نے کبھی دریا میں غوطے کھانے کی تکلیف نہ اٹھائی تھی۔ اس طرح اس کے دل میں اس آرام کی کوئی قدر نہ تھی جو اسے کشتی کے اندر حاصل تھا۔ اب جب لگے غوطے تو عقل آگئی ٹھکانے۔ اور دونوں کی حقیقت اس پر روشن ہوگئی تو یہ خاموش ہو گیا۔​
حالانکہ غلام نے بعد میں اپنے دوستوں کو بتایا کہ میں اس وجہ سے چپ کر گیا کہ یہ آدمی پاگل ہے۔ اور تم لوگ احمق۔ اس بیوقوف کی اس حرکت سے اب میرا ڈر اور بڑھ گیا ہے۔
اخلاقی سبق: اگر آپ اپنے ڈر لوگوں کو بتائیں گے تو وہ نہ صرف آپ کو مزید ڈرائیں گے۔ بلکہ بعد میں آپکو اس میں اخلاقی سبق تلاشنے کا بھی کہیں گے۔ اور یہ کہ اگر کسی شخص نے کبھی کوئی مصیبت نہیں دیکھی تو اس کو اس مصیبت کا مزا چکھانا ضروری نہیں ہے۔ اس قسم کی حرکتوں سے اسکا دل بند ہو سکتا ہے۔ اور وہ مر بھی سکتا ہے۔ مزید یہ کہ اس قسم کے کام کرتے وقت ساتھ موجود لوگوں کی صلاحیتوں سے آگاہی ضروری ہے۔ ورنہ یہ دانائی جان لیوا بھی ثابت ہوسکتی ہے۔

:rollingonthefloor:
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
ہاہاہا
ہاہاہاہا
ہاہاہاہاہاہا
:rollingonthefloor:
:) :) :)

بہت ہی زبردست نیرنگ بھائی۔ کہا کہنے۔:haha:
کسی حکایت یا اچھے بھلے مضمون کی ایسی تیسی کروانی ہو تو بندہ آپ کا پتہ دے دے۔:)
ہمیں اپنے شاگردوں میں شمار کر لیجیئے رانا بھائی :) :)
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
دوا اور دعا
ایک نوجوان کی شادی ہوتی ہے۔ اب کوئی یہ اعتراض نہ کرے کہ نوجوان کیوں۔ حکایت نہیں سننی تم لوگوں نے۔:p

شادی کے معاملات طے کرتے وقت تو اسکو باپ یاد نہ آیا۔ مگر جب وقت شہادت قریب آیا تو اک سیانے نے مشور ہ دیا
کاکا بزرگوں کی دعا لے لے۔ بھلا ہو جائے گا۔​

وہ اپنے والد کے پاس پہنچا کہ اس نئے ازدواجی سفر کے لیے برکت کی دعا کی جائے۔
باپ نے پہلے تو تیوری چڑھا کر کہا۔ آگئی پیو دی یاد۔:nerd: کدھر کمیوں میں تو رشتہ نہیں طے کر آیا۔ :idontknow:

اس پر اس نوجوان نے ہونے والی شریک حیات کے حسب نسب سے آگاہی دی۔ باپ اس خاندان کو جانتا تھا۔ اور معلوم تھا کہ لڑکی بہت ہی زبان دراز ہے۔ لیکن اب پدرانہ شفقت سے مجبور ہو کر کوئی ایسی نصیحت سوچنے لگا جس پر عمل سے اسکا بیٹا خوش رہے۔

با پ کو سوچ میں ڈوبا دیکھ کر بیٹے نے انتہائی مودب لہجے میں پوچھا۔
ابا جی خیر ہوئے۔ طبیعت ٹھیک ہے۔​
اس پر والدنے اُس سے ایک کاغذ اور قلم کا تقاضا کیا۔

بیٹے نے جھٹ سے اپنا ٹیبلٹ نکالا اور کہا ابا جی حکم کریں۔

باپ کو غصہ آگیا اور کہا کر دیا نہ اتنے خوبصورت خیال کا بیڑا غرق۔ جا کاپی پینسل لے کر آ۔ اور خیال آنے پر دوبارہ آواز دے کر کہا، کہ کہیں جیل والا یا کوئی اور سیاہی والا پین نہ اٹھا لائیں۔ ڈئیر والوں کی کچی پینسل ہی لے کر آنا۔ بیٹا جب تھوڑی دور اور پہنچا تو پھر آواز دی کہ ساتھ میں ربر بھی لے آنا۔

لڑکا تپ کر واپس آکر بیٹھ گیا اور بولا،
نئیں پیلے تسی یاد کر لو منگانا کی کی ائے (نہیں آپ پہلے یاد کر لو، چاہیئے کیا کیا۔ )​
باپ کا پارہ ساتویں آسمان پر پہنچ گیا
او جا کاکا، جو کام کہا ہے وہ کر۔​

لڑکاکو پہلے ہی شک تھا کہ ابا حضور اب سٹھیا چکے ہیں۔ مگر صرف اس امید پر کہ شائد اب والد محترم کوئی کام کی بات کر لیں مطلوبہ سامان لینے نکل کھڑا ہوا۔
عرصہ دراز بعد پینسل کاپی ہاتھ میں لے کر وہ ماضی کی یادو ں میں کھو گیا۔ جب اسے بٹرفلائی کی پینسل پسند تھی اور باپ تب بھی ڈئیر کی پینسل ہی لا کر دیتا تھا۔

باپ نے اسے سوچوں میں ڈوبا دیکھکر کہا کاکا ارسطو نہ بن۔ لکھ

بیٹا باپ کی جگت پر کھسیانہ ہوکر۔ کیا لکھوں

باپ بیٹے کے لاجواب ہونے پر طنزیہ ادا کے ساتھ۔ جو تیرا دل کرے۔

نوجوان ایک جملہ لکھتا ہے
"انسان حسن پرست ہے"​

باپ شرمندہ ہو کر: اسلاف کی روایات نہ چھوڑنا، چل مٹا اسے
اب نوجوان کے چہرے پر خوشی۔ اور مٹا دیتا ہے۔

باپ : کچھ اورلکھو
بیٹا : خدارا آپ کیا چاہتے ہیں ؟
باپ کہتا ہے : ٹھیک ہے اب اسے بھی مٹا دے۔


باپ : چل اب کچھ اورلکھو
بیٹا: میں یہاں دعا لینے آیا ہوں۔ خوشخطی کی کلاس لینے نہیں۔
باپ: نظر انداز کرتے ہوئے، می نویس۔۔۔ ۔
نوجوان لکھتا ہے :
عقل کے اجزاء بیان کرو​
باپ اس جملے میں چھپے طنز کو نظر انداز کرتے ہوئے۔ اسے بھی مٹا دو اب۔

لڑکا مٹاتے ہوئے دل میں، یا اللہ میرا ابا پاگل ہو کر نہ مرے۔ آمین

پھر باپ اُ س کی طرف دیکھتا ہے اور اُسے تھپکی دیتے ہوئے کہتا ہے :
بیٹا شادی کے بعد اریزر کی ضرورت ہوتی ہے
اگر ازدواجی زندگی میں تمہارے پاس ربرنہیں ہو گا جس سے تم اپنی بیوی کی غلطیاں اور کوتاہیاں مٹا اور معاف کر سکو
اور اسی طرح اگر تمہاری بیوی کے پاس ربر نہ ہوا جس سے وہ تمہاری غلطیاں اور ناپسندیدہ باتیں مٹا سکے تو تم دونوں خود سوچو کہ کتنا باعث اذیت ہوگا۔
میں تمہاری ان بدتمیزیوں پر تمہیں کتنا مارتا تھا۔ اور نہیں چاہتا کہ اب بیگم سے بھی تم پٹو۔
بیٹا۔۔ اور اگر اس نے روز اک پینسل ختم کرنی شروع کر دی۔ یا پھر پارکر کی سیاہی کا استعمال ۔۔۔
والد غصے سے: ابھی میری بات نہیں ختم نہیں ہوئی۔ اگر تمہارے پاس ربر ہوگا تو ہی تم اسکی کوتاہیاں معاف کر سکو گے۔ وگرنہ تمہاری حیات کا صفحہ تمہارے مقدر اور منہ کی مانند تیرہ نصیب ہی رہے گا۔
بیٹا: اباجی وہ دعا کدھر گئی۔ جس کے لیئے میں نے اتنے پاپڑ بیلے ہیں۔o_O
آپ کی یہ بیکار نصیحت تو آپ کی زندگی پر کارگر نہ ہوئی۔ اور ساری عمر ڈنڈا لیئے ہم لوگوں کو مارتے رہے۔ نتیجہ کے طور پر اب آپکی اولاد آپ سے دور ہے۔ اور جس ربر کی بات آپ کر رہے ہیں اس کی ہر انسان کو ہر وقت ضرورت ہوتی ہے۔ اور آپکو اس ربر کا استعمال بہت پہلے سیکھ لینا چاہیئے تھا۔

اخلاقی سبق: کسی ربر کی ضرورت نہیں ہے۔ ظرف ہونا چاہیئے بندے کا اور بس۔ زندگی کے لکھے نہیں مٹتے۔ بس ان کے ساتھ جینے کے فن پر دسترس ہونی چاہیئے۔ اور جب کوئی دعا کا کہے تو صرف دعا کرو۔ دوا کا بندوبست کر کے اپنا اور اسکا وقت ضائع مت کرو۔

:rollingonthefloor:
:rollingonthefloor:
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
بدقسمتی سے زیادہ تر لوگ اخلاقیات کا لبادہ اتارنے کے لئے ہی ان شعبوں میں داخل ہوتے ہیں
میں سمجھا کہ اتفاقاً ہر بار ایسا ہوتا ہے۔ پر اب مجھے لگ رہا ہے کہ آپ صحیح کہہ رہے ہیں۔ ورنہ ہر بار تو اتنا کوئی نہیں الجھ سکتا۔ اور وہ بھی ہر بات پر۔۔
 
Top