نیرنگ خیال

لائبریرین
میں نے اک دو جگہ نیلم کی ارسال کردہ حکایتوں کا حشر نشر کیا۔ اور اک آدھی حکایت کا اور حشر نشر کرتے کرتے رک گیا تو یونہی ذہن میں آیا کہ یہاں تو اور بھی بہت سے قلمکار (مجھے قلمکاری کا کوئی دعوی نہیں) لوگ موجود ہیں جو کسی بھی حکایت کا خوب حلیہ بگاڑ سکتے ہیں۔ تو کیوں نہ اک دھاگہ ایسا شروع کیا جائے۔ جہاں پر حکایتوں کا مزاحیہ و طنزیہ رنگ دے کر نئے انداز میں پیش کیا جائے۔ لیکن اگر طنز کی بجائے مزاح پر زور دیا جائے تو یقیناً زیادہ لطف آئے گا۔

پیش خدمت ہیں پہلے وہ حکایتیں جن کو میں نے اُدھر پیش کر رکھا تھا۔ سوچا وہ بھی اٹھا کر اِدھر ہی لے آتا ہوں۔

(اصل حکایت ٹی-وی)
آئی پیڈ-III
ایک پرائمری اسکول ٹیچر نے کلاس کے بچوں کو کلاس ورک دیا کہ وہ ایک مضمون لکھیں کہ وہ (بچے) کیا چاہتے ہیں کہ ان کا خدا ان کے لیے کرے۔​

سب بچوں نے مضمون لکھا وہ تمام بچوں کے مضامین اپنے گھر پر چیک کرنے لگی اس دوران ایک مضمون نے اس کو آبدیدہ کردیا اور بے اختیاری میں اس کے آنسو نکل آئے​

اس کا شوہر اس کے قریب ہی بیٹھا تھا اس کے آنسو دیکھ کر پوچھنے لگا کہ کیا ہوا؟
...
ٹیچر بولی یہ مضمون پڑھیے یہ ایک بچے نے مضمون لکھا ہے​

شوہر نے مضمون لیکر پڑھنا شروع کیا اس میں لکھا تھا “اے خدا آج میں آپ سے بہت خاص مانگتا ہوں اور وہ یہ کہ مجھے آئی-پیڈ-III لے دے، میں بھی ایسے ہی جینا چاہتا ہوں کہ جیسے میرے امی ابو کی عیاشی لگی ہوئی۔ چلو ابو کا ٹیبلٹ تو آفیشل ہے پر امی نے جو دھوم مچائی ہوئی وہ۔ میں آئی-پیڈ-III لیکر بہت خاص بن جاؤں گا میرے ماں باپ، میرے بہن بھائی سب میرے ہی گرد بیٹھے رہیں گے۔ جب میں ٹیمپل-رن براوؤ کھیل رہا ہونگا تو سب کی نظر میری اچیومنٹس پر ہوگی۔ میں دی-کرس اور مشینیریم جیسی ذہنی گیمز کھیلوں گا تو سب دوست مجھ سے جلیں گے۔ میں تمام گھر والوں کی توجہ کا مرکز بنا رہوں گا۔ بہن بھائی جہاں بھی گیم میں اٹکیں گے تو مجھ ہی پکارا جائے گا۔دوست احباب پائریٹڈ گیمز کے لیئے میرے پیچھے پیچھے پھریں گے۔ ہر کوئی پوچھے گا مجھ سے کہ یہ جیل بریک کیسے ہوگا۔ امی جب ون ٹچ ڈرائنگ جیسی بچگانہ گیمز پر دو دو گھنٹے اٹکی رہیں گی تو میں دل کھول کر مذاق اڑاؤں گا۔​

اور تو اورابو کی توجہ کا بھی ایسے ہی مرکز بن جاؤں گا جیسے کوئی بلیک بیری۔جتنے بھی تھکے ہونگے مجھے کہیں گے کہ میری ٹیبلٹ پر بھی یہ والی گیمز کر دو نہ۔ الغرض سب کو خوب ذلیل کر کے دل کی بھڑاس نکالوں گا۔​

اے خدا میں نے تجھ سے زیادہ نہیں مانگا بس یہ مانگا ہے کہ مجھے اس نوکیا 1210کی جگہ آئی-پیڈ-III لے دے۔​

ٹیچر کے شوہر نے افسوسناک انداز سے بیگم کو دیکھتے ہوئے کہا “ اے خدایا کتنا کمینہ بچہ ہے۔ اور اپنے ماں باپ کے پیسے کا کیسے اجاڑا کرنا چاہتا ہے۔​

ٹیچر نے نظریں اٹھا کر اپنے شوہر کی طرف دیکھا اور کہا کہ یہ مضمون “ہمارے اپنے بچے“ کا لکھا ہوا ہے.:cry:
====================
انوکھا بیج - اک سبق آموز کہانی
زید گملے والی کہانی سے مالک بن بیٹھا اور سابقہ مالک کی طرح اس نے بھی شادی نہ کی اور نہ ہی اسکی کوئی اولاد ہوئی۔ دور اندیش ہوتا تو شادی کرتا، ملوکیت کو فروغ دیتا اور اس جھنجٹ سے جان چھڑاتا مگر بوڑھا ہونے پر وہی مسئلہ دوبارہ درپیش آگیا۔ سست تو ازل سے تھا۔ نئی ترکیب کہاں سوچتا سو پرانی والی میں ہی ترمیم کرلی۔ اور بیج تمام ڈائریکٹرز کے درمیان بانٹ دیا۔ خوبی قسمت دیکھیئے کہ تمام پرانے ڈائریکٹرز اپنے ساتھ ہونے والی ظلم کی داستا ں مشہور کر گئے تھے۔ تو تمام نئے اس کمینگی سے بخوبی آگاہ تھے۔
کچھ عرصہ بعد سب ڈائریکٹر اپنے بیج کے سڑنے کی باتیں کرنے لگے سوائے جگے کے جو پریشان تھا ۔ وہ خاموش رہتا اور اپنی خِفت کو مٹانے کیلئے مزید محنت سے دفتر کا کام کرتا رہا ۔ دراصل جگے نے پرانا گملا خرید کر اس میں پرانی مٹی ڈالی اور کھاد بھی نہ ڈالی۔ مگر پھر بھی بیج سے پودا اگ آیا جو اصل پریشانی کا سبب تھا۔
ایک ماہ بعد زید نے پھر سب ڈائریکٹرز کا اجلاس بلایا اور کہا کہ سب وہ گملے لے کر آئیں جن میں انہوں نے بیج بویا تھا ۔ سب اجڑے اور سوکھے سڑے گملوں کے ساتھ اجلاس میں پہنچے مگر جگا جس کا بیج اُگا ہوا تھا وہ خوبصورت پودے کے ساتھ اجلاس میں شامل ہوا اور ادارے کے سربراہ سے دُور والی کرسی پر بیٹھ گیا ۔ اجلاس شروع ہوا تو سب نے اپنے بیج اور پودے کے ساتھ کی گئی محنت کا حال سنایا اور کہا کہ یہ نامراد پودا تو اگنے میں ہی نہیں آرہا۔ اور کسی دوشیزہ کے اخلاق کی مانند سڑتا رہا۔ اس اُمید سے کہ اسے ہی سربراہ بنایا جائے
سب کی تقاریر سننے کے بعد زید نے بھی حسب روایت کہا “ایک آدمی کم لگ رہا ہے” اور الفاظ کے چناؤ میں بھی تبدیلی نہ کی۔ اس پر جگا جو ایک اور ڈائریکٹر کے پیچھے چھُپا بیٹھا تھا کھڑا ہو کر سر جھکائے بولا “جناب ۔ مجھ سے جو کچھ ہو سکا میں نے کیا مگر میرے والا بیج اگ پڑا ”۔ اس پر کچھ ساتھی ہنسے اور کچھ نے جگے کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا۔ اک تو باقاعدہ لپٹ لپٹ کر رونے لگا۔ جگے نے اسے تسلی دی کہ کوئی بات نہیں ہوتا رہتا ہے۔
چائے کے بعد زیدنے اعلان کیا کہ اس کے بعد جگا ادارے کا سربراہ ہو گا ۔ اس پر کئی حاضرین مجلس جو دوراندیش تھے اور پہلے سے سوچ رہے تھے کہ اس بار بھی کوئی گھٹیا پن تو لازمی ہوگا آرام سے بیٹھے رہے۔ بقیہ نے حیرانگی کا اظہار کیا۔ ادارے کے سربراہ نے کہا “اس ادارے کو میں نے اک گملے کی وجہ سے اس مقام پر پہنچایا ہے اور میرے بعد بھی ایسا ہی آدمی ہونا چاہیئے اور جگا ہی وہ آدمی ہے جو محنتی ہونے کے ساتھ دیانتدار بھی ہے ۔ میں نے آپ سب کو صحیح اور بہترین بیج دیئے تھے جن کا نہ اگنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا ۔ سوائے جگے کے آپ سب نے بیج اگانے کی زحمت بھی نہ کی"۔

اخلاقی سبق: اے بندے ۔ مت بھول کہ جب تجھے کوئی بیج اور گملا دے تو اسے اک بار اگا کر تو دیکھ لے۔ تیرا کیا جائے گا۔ ہو سکتا ہے قسمت کھل جائے۔


آگے موجود حکایتوں کے روابط:
 
آخری تدوین:

نیرنگ خیال

لائبریرین
پلاسٹک کی پلیٹ
پلاسٹک کی پلیٹ کسی کام کی نہیں ہے۔
----------------------------------------
یہ اس آدمی کے بچے کا قصہ ہےجس کے بڈھے باپ کے ساتھ کیئے گئے ناروا سلوک کی دل ہلا دینے والی داستاں آپ یہاں پڑھ چکے ہیں۔
باپ کی طرح وہ ہر طرح سے خوش حال تھا اور وجہ ورثہ میں ملنے والی بے بہا دولت تھی ۔
اس کی زندگی ہی میں اس کی ساری اولاد کی شادیاں ہوگئی تھیں۔ بالکل اپنے باپ کی طرح

بٹیاں شادی کے بعد سسرال جاکر بس گئیں کیوں کہ دستور یہی تھا۔ وگرنہ کسی اور کے گھر جا کر بَستیں تو بِستی کا مقام تھا۔ اور بیٹے بھی روایت کی پاسداری کرتے ہوئے شادی کے بعد بیویو ں کو ساتھ لیکر الگ الگ مکانوں میں رہنے لگے۔

تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے والے مقولےکےمصداق اب گھر میں صرف بوڑھے ماں باپ رہ گئے اور روایت کے مطابق ان کی خدمت کے لئے ایک ڈرائیور اور ایک نوکرانی گھر میں موجود تھی۔

وہ بیٹا جس نے دادا کے مرنے پر پلاسٹک کی پلیٹ سنبھال رکھی تھی سب سے بڑا تھا۔ کمینے نے پلیٹ بینک لاکر میں رکھوا چھوڑی تھی کہ اسی پلیٹ میں ہی کھانا دوں گا۔ اور بینک لاکر کا اتنا بل بھر رہا تھا کہ اس جیسی ہزاروں نئی پلیٹیں خرید لیتا، مگر ضد بھی آخر دنیا میں کسی چیز کا نام ہے۔ باپ نے اسے بارہا سمجھایا کہ سارا کرتوت تیری ماں کے ہیں پر بیٹے نے نہ ماننا تھا نہ مانا۔

بچوں کا معمول تھا کہ چھٹی کے دن زیادہ تر وقت اپنے والدین کے پاس ہی گزارتے۔ اس طرح بوڑھے والدین کو کوئی خاص تنہائی محسوس نہیں ہوتی تھی عام تنہائی کا ذکر اس افسانے میں اضافی ہے۔ بقیہ ہفتے کے دن وہ کن چیزوں سے دل بہلاتے تھے معلوم نہیں۔ :)

اب بڈھا اپنی بیوی اور بڑا بیٹا اپنے ماں کی موت کا منتظر تھا تاکہ کہانی آگے بڑھ سکے۔ دونوں کی اپنی اپنی جگہ نیند حرام تھی۔ ادھر وہ بڑھیا جس نے اپنے سسر کو سکھ کا سانس نہ لینے دیا وہ اب اپنے کیئے پر شرمندہ تھی کیوں کہ سارا کیا دھرا اسی کا تھا۔ مگر پھر یہ سوچ کر مطمئن ہو جاتی کہ میں نے تو پہلے ہی اس دنیا سے چلے جانا ہے۔:twisted:

وقت چیونٹی کی رفتار سے گزر رہا تھا۔ اس بات کا اندازہ ان تینوں کے علاوہ کسی کو نہ تھا۔ چند برس تھے کہ گزرنے میں ہی نہیں آ رہے تھے۔ باقی بہن بھائیوں نے بھی بڑے بھائی کو سمجھایا کہ مفت میں ہلکان مت ہو۔ مگروہ کسی کی سننے پر آمادہ نہ تھا۔اسے بس اک ہی دھن تھی کہ باپ جب اسکے گھر آئے گا ماں مرنے کے بعد تو اسے پلاسٹک کی پلیٹ میں کھانا دوں گا۔ یہ سنکر سب ہنستے کہ کھانا تو دے گا آخر۔ کچھ نیا کر۔۔۔۔ اور خوب قہقہے لگاتے۔ ادھر بڑھیا ہنستی کے دیکھ میں نے تیرے باپ کے ساتھ کیا کیا اور تیرے بچے تیرے ساتھ کیا کرنے کا منصوبہ بنائے بیٹھے ہیں۔ مگر بڈھا اس بات پر اک مسکراہٹ دے کرچپ کر جاتا۔ جیسے اسے کسی کی پرواہ نہ ہو۔ اسکا یہ سکون دیکھ کر بڑا بیٹا اور جل بھن جاتا۔

آخر وہ وقت آن پہنچا۔ موت سے کسی کو مفر نہیں۔ بڑھیا نے اک الوداعی نظر اپنے بوڑھے شوہر پر ڈالی جو آنکھوں میں خوشی کے آنسو لیئے اس کے مرنے کا منتظر تھا۔ اور داعی اجل کو لبیک کہا۔ ماں کے مرنے کی خبر سنتے ہی بڑے بیٹے نے یاہووووووو کا نعرہ مستانہ لگایا۔ اور پھرافسردہ سی شکل بنا کر رونے لگا۔تمام خاندان سوگ منا رہا تھا۔ مگر ہر کسی کی زبان پر یہی تھا۔ کہ اب بڈھے کا کیا ہوگا۔ کیسے کرے گا زندگی کے دن پورے۔ بڑا بیٹا دوڑا دوڑا بینک گیا اور پلیٹ نکلوا لایا۔ چوم کر دھو کر طاق میں سجائی اور اپنے بچوں کو بتایا کہ دادا جی کے آتے ہی اس میں کھانا دیا جائے گا انکو۔ اسکی بیوی بھی بہت خوش تھی کہ مجھے کوئی ڈرامہ بازی نہیں کرنی پڑے گی اور ماحول پہلے سے بنا ہوا ہے۔ اب سارے اس انتظار میں کہ کب بڈھا آئے اور کہے کہ میں اب تنہا نہیں رہ سکتا۔

مگر وہ دن نہ آیا۔ آخر انتظار سے تنگ آکر بیٹا اپنے باپ کے گھر پہنچا تو پہلے تو دروانے پر لگا بورڈ دیکھ کر ہی ہکا بکا رہ گیا۔
رند خراب حال کو زاہد نہ چھیڑ تو(یاد رہے بیٹے کا نام زاہد تھا)
تجھ کو پرائی کیا پڑی اپنی نبیڑ تو
اندر دیکھا کہ دنیا ہی بدلی ہوئی ہے۔ باپ کے تین دوست جو باپ جیسی ہی عادات و خصائل کے مالک تھے بیٹھے ہوئے تھے۔ اک بہترین سا ہوم تھیٹر بہترین ساؤنڈ سسٹم کے ساتھ چل رہا تھا۔ تاش کی بازیاں لگی ہوئیں۔ داؤ پرلگی رقم بھی سامنے دھری تھی۔ جبکہ ملازم پینے پلانے کے بندوبست کر رہا تھا۔ بیٹے کو دیکھ کر سب نے اک قہقہ لگایا اور کہا کہ اوئے پلاسٹک کی پلیٹ کدھر ہے آملیٹ۔ دوسرے نے جملہ کسا کہ یار اُدھر آ رہے تھا نہ ہمارا یار، تو نے جلدی کی آنے میں۔ چل جا کر چھت والا کمرہ سیٹ کرا۔ تیسرا کہنے لگا عقل کا اندھا ہے تیرا بچہ اس کی چھت پر تو کوئی کمرہ ہی نہیں۔ اک ممٹی سی ہے۔ CDA والے تو اب اجازت ہی نہیں دیتے چھت پرکمرہ بنانے کی۔ یہ سنکر سب قہقہے لگانے لگے۔ اور لوٹ پوٹ ہونے لگے۔ بیٹے کی رونی صورت دیکھ کر اک نے کہا کہ یار جا کچھ دن رہ آ اس کے گھر۔ اسکا جی ہلکا ہو جائے گا۔ ورنہ تاریخ بھی یہیں ختم ہو جائے گی۔ ویسے تو نے اتنے سال اسکو ذہنی اذیت میں رکھ کر اچھا نہیں کیا۔ باپ نے بیٹے کو پیار سے سمجھایا بیٹا ہمہ یاراں بہشت ہمہ یاراں دوزخ۔ یہ سنکر بیٹا وہاں سے بھاگااور گھر آکر پلیٹ پر کھڑا ہو کر کودنے لگا کہ کسی کام کی نہیں ہےپلاسٹک کی پلیٹ۔

کہتے ہیں کہ اسکا دماغی توازن کھو گیا تھا اور وہ سڑکوں پر پکارتا پھرتا تھا۔
پلاسٹک کی پلیٹ کسی کام کی نہیں ہے۔​
اخلاقی سبق: انسان اپنے دوستوں سے پہچانا جاتا ہے۔ اگر بیٹا باپ کے دوست دیکھ لیتا تو کبھی بھی اس قسم کے منصوبے نہ بناتا۔ اور نہ ہی پاگل ہوتا۔ اور سب سے ضروری بات تاریخ اتنی جلدی اپنے آپ کو نہیں دہراتی۔ وہ کوئی رٹا تھوڑی لگا رہی ہوتی۔:laugh:
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
زبردست۔ دوسرا کمال کیا ہے نیرنگ خیال ہے :) پہلا بیج والے دفتر کا جواب تھا :)
شکریہ سر

تینوں حکایتوں کا حشر نشر کرنے میں بڑی ہی مہارت کا مظاہرہ کیا ہے نیرنگ خیال نے :clap:
ماشاءاللہ کمال کا مزاح تخلیق کیا ہے
فکاہیہ ادب لکھنے والوں میں ایک عمدہ اضافہ :applause:
آپی اس ذرہ نوازی پر از حد ممنون ہوں
 
بٹیاں شادی کے بعد سسرال جاکر بس گئیں کیوں کہ دستور یہی تھا۔ وگرنہ کسی اور کے گھر جا کر بَستیں تو بِستی کا مقام تھا۔ اور بیٹے بھی روایت کی پاسداری کرتے ہوئے شادی کے بعد بیویو ں کو ساتھ لیکر الگ الگ مکانوں میں رہنے لگے۔
اوہو! یہ خالص پنجابی لہجے میں ’’ بے عزتی‘‘ ہے۔ بہت خوب:ROFLMAO:
وہ بیٹا جس نے دادا کے مرنے پر پلاسٹک کی پلیٹ سنبھال رکھی تھی سب سے بڑا تھا۔ کمینے نے پلیٹ بینک لاکر میں رکھوا چھوڑی تھی کہ اسی پلیٹ میں ہی کھانا دوں گا۔
بہت مزے دار
عام تنہائی کا ذکر اس افسانے میں اضافی ہے۔ بقیہ ہفتے کے دن وہ کن چیزوں سے دل بہلاتے تھے معلوم نہیں۔ :)
تجاہلَ عارفانہ:applause:
اب بڈھا اپنی بیوی اور بڑا بیٹا اپنے ماں کی موت کا منتظر تھا تاکہ کہانی آگے بڑھ سکے۔
:lol:
وقت چیونٹی کی رفتار سے گزر رہا تھا۔ اس بات کا اندازہ ان تینوں کے علاوہ کسی کو نہ تھا۔
واہ کیا ما بعد الطبعیاتی نکتہ پیدا کیا ہے۔کہاں ہے آئن اسٹائن اور اس کا وقت کی ڈائلے شن کا نظریہ

آخر انتظار سے تنگ آکر بیٹا اپنے باپ کے گھر پہنچا تو پہلے تو دروانے پر لگا بورڈ دیکھ کر ہی ہکا بکا رہ گیا۔
رند خراب حال کو زاہد نہ چھیڑ تو(یاد رہے بیٹے کا نام زاہد تھا)
:biggrin:
کہا کہ یار جا کچھ دن رہ آ اس کے گھر۔ اسکا جی ہلکا ہو جائے گا۔ ورنہ تاریخ بھی یہیں ختم ہو جائے گی۔
:roll:
اخلاقی سبق: اور سب سے ضروری بات تاریخ اتنی جلدی اپنے آپ کو نہیں دہراتی۔ وہ کوئی رٹا تھوڑی لگا رہی ہوتی۔:laugh:
ہیلارئیس
 
Top