جناح پور نقشہ کی برآمدگی ڈرامہ تھی

گرائیں

محفلین
مگر یہ اخباری رپورٹس تو کچھ اور کہتی ہیں محترمہ۔

مثلا یہ رپورٹ کہتی ہے کہ
However, as soon as the operation was launched, Nawaz Sharif was taken by surprise as the Army opted to raid the Nine Zero headquarters of the MQM in Azizabad to arrest dozens of its activists and leaders who were wanted for their involvement in criminal and terrorist activities. By that time, while sensing the gravity of the situation, Altaf Hussain had already fled Karachi for London.

As pressure mounted on Nawaz Sharif by the component parties of the IJI, he decided to give a clear cut message to the Army by travelling to London to meet Altaf Hussain on June 19, 1992 when the operation clean-up was at its peak in Karachi and Hyderabad.

And his move explicitly meant to distance himself from the operation clean-up of the Pakistan Army that was being directed against one of his important coalition partners in Sindh — the Altaf-led MQM.

اور اس رپورٹ کو ذرا دیکھیں جو یہ کہتی ہے :

Reports carried by leading newspapers on the issue during 1992 show the Nawaz-led IJI government had completely denied the existence of Jinnahpur conspiracy but the PPP-led PDA (Pakistan Democratic Alliance) opposition charged the government of covering up the MQM’s conspiracy.

However, the Jamaat-e-Islami, a coalition partner in the government, once moved an adjournment motion in the National Assembly to discuss the Jinnahpur conspiracy. It was no less than opposition leader Benazir Bhutto, who had accused the Nawaz regime of trying to cover up the conspiracy of the MQM which, according to her, wanted to make a separate homeland with the support of India. The incumbent President, Asif Ali Zardari, had also demanded action against Jinnahpur planners.

یہ دراصل انصار عباسی کی رپورٹ ہے جو دی نیوز میں اس تاریخ کو شائع ہوئی تھی۔

کیا اب بھی آپ صرف نواز لیگ کو نشانہ بناتی رہیں گی؟ کیا یہ ثبوت کافی نہیں ہیں، آپ کی جانبداری کو ظاہر کرنے کے لئے؟
 

گرائیں

محفلین
انصار عباسی کی رپورٹ کے اردو ترجمے کا عکس ملاحظہ کیجئے :
ansar-abbasi-jinnahpur-conflitc-ppp-mqm-and-pmln.gif
 
دوران فتنہ 92 ، پیپلز پارٹی حکومت پر جناح‌ پور سازش میں‌ ملوث‌ ہونے کا الزام لگاتی رہی ۔
نصیر اللہ بابر کھجی گراونڈ‌ میں‌ کھڑا ہو کر چیلنج دیتا رہا کہ میرے سائز کی بوری متحدہ کو نہیں‌ ملے گی ۔
لیکن یہ سب باتیں‌ نہیں‌ ہونا چاہیے، قومی مصالحت بھی کسی شے کا نام، یہ باتیں‌ کرنے کے لئے ہم نواز شریف کی حکومت کا انتظار کر رہے ہیں‌ کہ اس میں‌ شامل ہو کر یاد کروایا جایا کہ آج جو شہید بی بی ہے اُس نے ہمیں‌ چوہوں‌ سے بھی تشبہیہ دی تھی ۔ لیکن قومی مصالھت میں‌ ہمیں‌ یہ باتیں‌ یاد نہیں‌ آ‌رہی ہیں ۔

جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے شھید بی بی نے کہا تھا کہ یہ لوگ (یعنی ایم کیو ایم کے دھشت گرد) گندے چوہے ہیں اور ان کا خون ہمارا خون نہیں ہے۔ یعنی ان کا خون بہانا جائز ہے۔
شاید گندے چوہوں‌کو یہ بات کچھ بھول گئی ہے۔
 

مہوش علی

لائبریرین
آپ نے وہی پرانی باتیں دہرا دی ہیں اور شاید میری پوسٹ کو غور سے پڑھا بھی نہیں۔
کیا آپ نے اس سوال کا جواب دیا کہ اگر نواز شریف ملوث نہیں تھے تو پھر لاہور ایئر پورٹ پر حقیقی کے دہشتگردوں کو چھڑانے کے لیے ایئر پورٹ پر ہائی کمانڈ میٹنگ طلب کرنے والے آسمان سے اترے فرشتے تھے؟ کیا حکیم سعید کیس میں پولیس والوں کو عہدوں و انعامات سے نوازنے والے فرشتے تھے؟ کیا 18 سال تک جب جماعت اسلامی اور پیپلز پارٹی اور عمران خان و منور حسن جیسے لوگ بنا کسی ثبوت کے چیخ چیخ کر متحدہ کے خلاف جناح پور کا جھوٹا پروپیگنڈہ کر رہے تھے تو کیوں نواز شریف نے اتنا ہی کھل کر ان کی تردید کیوں نہ کر دی؟ آخر کار یہ اتنا بڑا سنگین مسئلہ تھا کہ کڑوڑوں کی مہاجر آبادی پر ملک توڑنے و وطن غداری کا الزام لگ رہا تھا، اور اسی بہانے کو بنیاد بنا کر بینظیر حکومت نے اگلے کئی سالوں تک کراچی میں خون و موت کا کھیل جاری رکھا، تو کیا نواز شریف کو وطن کے انتہائی اہم لیڈر کے طور پر آگے بڑھ کر ان مہاجروں کے قتل و خون کو نہیں روکنا چاہیے تھا؟ یہ مہاجر کتے بلیاں تھے جنہیں مار مار قتل کر کے پھینکا جاتا رہا اور نواز صاحب کیسے لیڈر ہیں جو یہ سب کچھ ہوتا دیکھتے رہے؟

ادھر حال یہ ہے جب نواز شریف کو پکڑو تو وہ کہتا ہے کہ فوجی دباؤ میں آ کر یہ آپریشن ہوا۔
اور جب فوج کی تردید دکھائی جائے کہ کوئی نقشے برآمد نہیں ہوئے تو الزام لگایا جاتا ہے جناح پور کے نقشے تو برآمد ہوئے مگر فوج نے سیاسی دباؤ میں آ کر اُن کی تردید کی۔ [اسی بنیاد پر جماعت اسلامی، پیپلز پارٹی اور عمران خان، اور آج کی تاریخ میں جنرل صفدر اور ندیم ڈار جیسے لوگ متحدہ پر جناح پور سازش کا الزام لگا رہے ہیں]۔ بلکہ گرائیں آپ ہی امت اور ایکسپریس اخبارات کی وہ خبریں پیش کر رہے تھے جس میں حمید گل، جنرل صفدر اور برگیڈیئر صولت رضا اور برگیڈیئر آصف ہارون وغیرہ کے الزامات تھے کہ نقشے برآمد ہوئے تھے مگر یہاں الٹا فوج پر سیاسی دباؤ کا الزام لگایا جاتا ہے۔ [گرائیں، آپ تو دونوں وکٹوں پر کھیل رہے ہیں، ایک طرف متحدہ پر جناح پور کا الزام لگاتے ہیں تو دوسری طرف نواز لیگ کا دفاع کرتے ہیں کہ انہوں نے متحدہ کے خلاف اس جھوٹے الزام کو فقط فوجی دباؤ پر قبول کیا تھا، اور پیپلز پارٹی جھوٹی تھی جب وہ جناح پور کا الزام متحدہ پر لگاتی تھی]

تو کبھی نواز شریف پر فوجی دباؤ کے نام پر مہاجروں کا قتل ہوتا ہے، اور کبھی فوج پر سیاسی دباؤ کے نام پر جناح پور کا الزام لگایا جاتا ہے۔۔۔۔ اور نہ نواز شریف کھل کر سامنے آتے ہیں، نہ فوج کے جنرل ان پچھلے 18 سالوں میں کھل کر سامنے آتے ہیں اور یہ سنگین جھوٹا پروپیگنڈہ آج کی تاریخ میں بھی عمران خان اور منور حسن جیسے لوگوں کی زبانوں سے نان سٹاپ نکلتا رہتا ہے۔ کیا آپ کو اندازہ ہے اس سنگین الزام کی بنیاد پر پچھلے 18 سالوں میں مہاجروں کے خلاف کتنی نفرتیں پھیلائی گئیں؟

بتلائیے کہ ہم جا کر کس کا دامن پکڑیں، کس کس کے ظلم کا رونا روئیں؟

حامد میر ایک بوڑھے جنرل کا بیان اپنے کالم میں لکھتا ہے اور اس جنرل کے متعلق اسکا دعوی ہے کہ وہ 1992 میں جنرل آصف نواز کا دست راست تھا اور آپریشن براہ راست اس کی نگرانی میں کیا جا رہا تھا:
اس نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایک ٹی وی چینل پر ایک ریٹائرڈ بریگیڈئر کہتاہے کہ 1992 میں ایم کیو ایم نے کراچی کو جناح پور بنانے کی کوئی سازش نہیں کی تھی لیکن دوسرے ٹی وی چینل پر ایک ریٹائرڈ میجر کہتا ہے کہ 1992 میں ایم کیو ایم کے دفاتر سے جناح پور کے نقشے خود اس نے ہزاروں کی تعداد میں برآمد کئے۔ بوڑھے جرنیل نے طنزیہ انداز میں کہا کہ تم میڈیا والے یہ کیوں نہیں بتاتے کہ 1992 میں ایک غیر ملکی سازش کے تحت پہلے ایم کیو ایم کو وفاقی حکومت سے لڑایا گیا اور پھر وفاقی حکومت کو آرمی چیف سے لڑایا گیا۔
اس نے کہا کہ 1992 کے آپریشن میں ایم کیو ایم کے مراکز سے جناح پور کے نقشے برآمد کرنے والا میجر ندیم احمد ڈار دراصل احمدی تھا۔ وہ بظاہر تو ایم کیو ایم کا مخالف نظر آتا تھا لیکن حقیقت میں وہ کراچی کو خانہ جنگی کی طرف دھکیلنے کی سازش کا حصہ تھا، غیرقانونی سرگرمیوں کی وجہ سے اس کا کورٹ مارشل ہوا اور بعد ازاں احمدی ہونے کی وجہ سے اس نے ناروے میں سیاسی پناہ حاصل کر لی۔​
مزید حامد میر صاحب نے ان بوڑھے جنرل صاحب کے متعلق لکھا ہے کہ 1992 میں یہ جنرل آصف نواز جنجوعہ کے دست راست تھے اور براہ راست آپریشن کی نگرانی کر رہے تھے۔ تو سب سے پہلے ان جنرل صاحب سے سوال ہے کہ پچھلے 18 سال سے متحدہ پر جناح پور کے الزامات لگا کر کراچی کو خانہ جنگی کی طرف کھینچا جاتا رہا [کم از کم 1999 تک]، مگر آپ نے سب کچھ جانتے بوجھتے بھی یہ سازش جاری رہنے دی اور ان الزام لگانے والوں کی تردید نہیں کی؟ اگر یہ الزام لگانے والے نان سٹاپ افتراء پرادازی کی سازش کر کے خانہ جنگی پیدا کرنا چاہتے تھے تو اگر جنرل صاحب محب وطن تھے تو انہیں بھی نان سٹاپ انکی تردید کرنی چاہیے تھی۔
 

ماظق

محفلین
میرا تو یہاں قہقہے لگانے کو جی چاہ رھا تھا،یہ بے خبری ھے یا لوگوں کو بیوقوف سمجھنے کی غلط فہمی،بی بی نیٹ پر کبھی کسی اور پارٹی کی صفائی میں اس طرح کی پوسٹیں میں نے تو پڑھی نہیں اور نہ ھی کسی اور پارٹی کی حمایت کبھی کچھ لکھا گیا ھے،کیونکہ عوام کو جو کچھ بتایا جاتا ھے اور جو دکھایا جاتا ھے عوام اسے اپنے تجربے اور مشاھدے کی ناگہ سے دیکھتے ھیں،یہی وجہ ھے کہ ایم کیو ایم اپنا اثر رسوخ نہیں بڑھا سکی،مجھے یقین ھے کہ اگر آج بھی آزادانہ الیکشن ھوں تو ایم کیو ایم کو ایک سیٹ بھی ملنا مشکل ھو گی ۔
بے نظیر کے دور حکومت میں حیدر آباد پکا قلعہ 1989 میں ھوا،شاید اس مین بھی نواز شریف کا ھاتھ تھا،پچھلے دنوں الطاف بھائی نے برگیڈیر امتیاز کے بیان کے بعد اعلان کیا کہ وہ نواز شریف کو اپنے بھائی اور بھتیجے کا خون معاف کرتے ھیں،ان کے بھائی کا خون نصیر اللہ بابر کے آپریشن کے دوران ھوا تھا اور جواب میں اس وقت کے وزیر اعلٰی عبداللہ شاہ کے بھائی کو بھی مارا گیا تھا ۔ کس خوبصورت سے تاریخ کو جھٹلایا جا رھا ھے _
ایم کیو ایم اس کے بعد پیپلز پاٹی کے ساتھ حکومت میں شامل ھوتی ھے پھر 1997 میں نواز شریف کی ساتھ دوبارہ اتحاد کر کے حکومت میں شامل ھوتی ھے،پھر مشرف کے ساتھ مل کر حکومت کرتی ھے اس دوران اس کو ایک بار بھی خیال نہیں آتا کہ ھمارے پندرہ ھزار لوگ مارے گئے ھیں کم از کم ان کا حساب ھی لے لیا جائے،نہیں جناب انہیں صرف حکومت لینی ھے چاھے وہ اسٹیبلشمنٹ کی ھو یا سولین_
اردو کی بہت سی سائٹ میں آج کل اسی طرح ڈھنڈورہ پیٹا جا رھا ھے،کچھ ایم کیو ایم کے لے پالک اینکرز بھی ٹی وی پر ایسا ھی کام کر رھے ھیں لیکن آج تک نواز شریف یا زرداری یا کسی اور پارٹی نے نہیں کہا کہ ھمارے خلاف سازش ھو رھی ھو کیونکہ انہیں پتا ھے کہ لوگ ایسے اینکرز کے ٹاک شوز نہیں دیکھتے جھوٹ اور سچ مین سے عوام نے صرف سچ دیکھنا ھوتا ھے -
ایک اور بات برگیڈیئر امتیاز کا غبار تو آھستہ آھستہ بیٹھ ھی گیا ھے،اب تو میدان میں اور بہت سے کردار آ گئے ھیں ، آخر میں صرف سچ باقی رہ جائے گا آپ لاکھ حقیقت کو جھٹلائیں _
ویسے برگیڈیئر امتیاز،پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم این آر او کے تحت فائدہ اٹھانے والوں مین سے ھیں اور خطرہ سپریم کورٹ کی طرف سے ھے کہ وہ کب این آر او کو ختم کر دے،اس وقت تک اس طرح کے ابھی اور بھی کتنے ھی ڈرامے رچائے جائیں گے _

right]
متحدہ کے پیپلز پارٹی سے بھی بہت بڑے اختلافات ہیں اور پیپلز پارٹی کے دور میں بہت ظلم ہوا۔ مگر اس سارے ظلم و ستم کا نقطہ آغاز 1992 کا آپریشن، جناح پور کا الزام اور حقیقی کا قیام تھا جو سب کچھ نواز دور

چنانچہ، نواز شریف اور انکے حامیوں کا اپنے آپ کو بالکل شریف ثابت کرنے کی کوششیں کرنا بھی اس کشمکش کا باعث بنا کہ سچی حقیقت بالکل صاف ہو کر سامنے آئے اور کوئی غلط باتوں کو اس میں شامل نہ کر دے۔


 

مہوش علی

لائبریرین
جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے شھید بی بی نے کہا تھا کہ یہ لوگ (یعنی ایم کیو ایم کے دھشت گرد) گندے چوہے ہیں اور ان کا خون ہمارا خون نہیں ہے۔ یعنی ان کا خون بہانا جائز ہے۔
شاید گندے چوہوں‌کو یہ بات کچھ بھول گئی ہے۔

ہمت بھائی،
مہاجروں پر پورے نواز دور اور پورے پیپلز پارٹی کے دور میں ظلم ہوتا رہا، مگر تمام تر تنقید اور اعتراضات صرف متحدہ پر ہیں کہ یہ حکومت کے مزے لوٹنے کے لیے ہر دفعہ حکومت میں شامل ہوتی رہی۔
ہمت بھائی، یہ الطاف حسین کا ظرف تھا کہ جس نے اپنے سگے بھائی اور سگے بھتیجے کے قتل کو معاف کیا۔ مگر کس لیے؟ کیا حکومت کے مزے لوٹنے کے لیے؟ تو بتلائیے کتنے مزے لوٹے الطاف حسین نے حکومت کے؟ کیا اسکے بھائی بھتیجے کڑوڑ پتی بن گئے؟ اسکے خاندان والوں میں سے کتنے وزیر و گورنر بن گئے؟
ہمت بھائی،
کوئی مانے نہ مانے، مگر حقیقت یہ ہے کہ الطاف حسین کا سب سے بڑا قصور تھا کہ وہ ایجنسیز کے سامنے جھکتا ہے اور نہ بکتا۔ پہلے دن جب حمید گل نے جھکانے کے لیے برگیڈیئر امیتاز کو بھیجا تو الطاف نہیں جھکتا۔ اگلی مرتبہ پیسے کے بریف کیس کے ساتھ بھیجا، مگر الطاف پھر نہیں بکتا۔ ۔۔۔۔۔ یہ نہ جھکنا اور یہ نہ بکنا الطاف کے وہ سب سے بڑے جرائم تھے جس کی سزا ہزاروں مہاجروں کو اپنے خون کی صورت میں بھگتنی پڑی۔
ہمت بھائی،
یہ حکومت کا مزہ لوٹنے کا الزام لگانے والے بتائیں وہ پیپلز پارٹی اور نواز شریف پر کیوں اعتراض نہیں کرتے کہ انہوں نے متحدہ جیسی ملک دشمن جماعت، کرپٹ جماعت اور کرمنل جماعت کے ساتھ کیوں اتحاد کیا؟ [آج وہ لوگ جو متحدہ پر الزام لگا رہے ہیں کہ وہ صرف نواز لیگ سے گلہ شکوے کر رہی ہے، وہ بتلائیں کہ انہوں نے فقط متحدہ سے گلے شکوے کرنا کیوں اپنی عادت بنائی ہوئی ہے اور کیوں وہ نواز لیگ اور پیپلز پارٹی سے سوال کیوں نہیں کرتے کہ وہ خود چل کر متحدہ جیسی کرمنل جماعت کے پاس کیوں جاتے رہے اور کیوں ان سے اتحاد کرتے رہے؟

اور ہمت بھائی،
کیا حکومت کے مزے لوٹنے والے بتا سکتے ہیں کہ وہ کون سی واحد جماعت تھی جو مشرف صاحب کے حکومت کے پہلے ضلعی انتخابات کا بائیکاٹ کرتی ہے؟ تو پھر اب بھی ان پر حکومت کے مزے لوٹنے کا الزام؟ اللہ جانتا ہے ان اعتراض کرنے والوں کی زبانوں کو پکڑا نہیں جا سکتا۔

اور ہمت بھائی،
یہ بتلائیں کہ وہ کون سی پارٹی تھی جس نے مشرف دور میں پہلی قومی اسمبلی کا بائیکاٹ کیا؟ کیا اب بھی ان پر حکومت کے مزے لوٹنے کا الزام؟

اور نواز اور بے نظیر تو وہ لوگ ہیں جو خود چل کر ہر دفعہ نائن زیرو آئے۔ مگر مشرف جس پر مہاجر ہونے کی وجہ سے مہاجر پرستی اور متحدہ کا سرپرست ہونے کا اور مہاجر نسل پرستی کا الزام لگایا جاتا ہے، یہ وہ واحد حکمران تھا جو چل کر نائن زیرو نہیں گیا۔ یہ سب حقائق واضح ہیں، مگر پھر الزامات لگانے والوں کی زبانوں کو کون لگام لگا سکتا ہے۔

آصف زرداری خود چل کر پہلے نائن زیرو نہیں آیا۔ بلکہ سب سے پہلے آصف زرداری اُس قبرستان شہداء میں جاتا ہے جس میں متحدہ کے شہید ہونے والے اراکین کی قبریں ہیں۔ متحدہ واحد جماعت ہے جس کے اتنے اراکین مارے گئے کہ پورا قبرستان انکے نام پر بنا۔ اور زرداری وہاں جا کر سب سے پہلے فاتحہ پڑھتا ہے، اور پھر نائن زیرو جاتا ہے۔ پھر پاکستان کا واسطہ دیتا ہے کہ پاکستان کو آگے بڑھانا ہے، معافی دو اور معافی لو اور تمام ماضی کو بھول جاؤ۔ اب بتلائیں کہ پاکستان کے لیے اگر متحدہ اس ماضی کو بھلاتی ہے، الطاف حسین اپنے بھائی و بھتیجے کا خون بھلاتا ہے تو بھی وہ سب سے بڑا گنہگار قرار پاتا ہے۔

کیا ملتا اگر متحدہ گھر آئے زرداری کو بے عزت کر کے گھر سے نکال دیتی؟ کیا ملتا اگر ماضی سے چمٹ کر پھر سے پیپلز پارٹی کو دشمن نمبر 1 بنا لیتی؟ تو آج کراچی میں جتنا تھوڑا بہت امن و امان رہ گیا ہے وہ بھی نہ رہتا اور پھر سے آپریشن شروع ہوتا اور پھر بقیہ پورا پاکستان بیٹھ کر ویسے ہی تالیاں پیٹ رہا ہوتا جیسا انہوں نے 1992 سے لیکر 1999 تک بجائیں تھیں، آج بھی جناح پور کا الزام انکے سر پر ہوتا اور کوئی آگے بڑھ کر اس شوشے کو بے نقاب نہ کرتا۔
اللہ کا شکر ہے متحدہ اس جنگ آرائی سے بچی رہی اور اسے حکومت میں آ کر پہلی مرتبہ موقع ملا کہ ثابت کرے کہ وہ کراچی کی ترقی و تعمیر کے لیے جو کر سکتی ہے اُس کی مثال پچھلے 62 سالہ تاریخ میں نہیں ملی۔ جو کام متحدہ نے کر دکھایا ہے، اس کے بعد اب مخالفین ہائے ہائے کرتے رہ جائیں گے مگر مصطفی کمال نے متحدہ کو اُس اونچائی پر لا کر کھڑا کر دیا ہے جہاں سے اُس کا سفر ترقی کی طرف ہی جاری رہے گا۔ انشاء اللہ۔
 

ماظق

محفلین
یہ بات ابھی کیسے یاد کریں گے ابھی تو زرداری ان کے پیر مرشد ھیں ھاں اگر آئندہ نواز شریف کی حکومت بنتی ھے اور یہ پھر اس میں شامل ھوتے ھیں تو آپ لکھ لیں کہ پھر یہ باتیں لازمی کی جائیں گی کیونکہ نواز شریف کے ساتھ 1997 میں جب یہ شامل تھے تو اس وقت یہ لوگ پکا قلعہ اور نصیر اللہ بابر کے خلاف تو بولتے ھی تھے اس بات کا بھی بڑا چرچا کیا جاتا تھا،آپ ان دنوں کے اخبارات دیکھ سکتے ھیں ۔
میں پاکستانی سیاست اور سیاستدانوں سے اسی لیے الرجک ھوں کہ یہ اپنے مفاد کے لیے ھم سب کو لڑاتے رھتے ھیں ۔ عوام کی بھلائی کے لیے کیا کرتے ھیں یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ۔میں نے سنا ھے کہ کراچی میں بہت عرصہ سے موٹر سائیکل پر ڈبل سواری کی پابندی لگی ھوئی ھے اور اس سے سب سے زیادہ پریشانی اردو اسپیکنگ لوگوں کو ھے لیکن آج تک ایم کیو ایم نے اپنے سابقہ رویے کے مطابق حکومت چھوڑنے کی دھمکی نہیں دی ۔ عوام کا کیا ھے اصل تو حکومت ھے کسی بھی طرح ملے ۔

جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے شھید بی بی نے کہا تھا کہ یہ لوگ (یعنی ایم کیو ایم کے دھشت گرد) گندے چوہے ہیں اور ان کا خون ہمارا خون نہیں ہے۔ یعنی ان کا خون بہانا جائز ہے۔
شاید گندے چوہوں‌کو یہ بات کچھ بھول گئی ہے۔
 

آفت

محفلین
مصطفٰے کمال نے کون سے کمال کیے ہیں ذرا ہمیں بھی تو پتا چلے
میں نے سنا ہے کہ کام سابقہ میئر نعمت اللہ نے شروع کیے اور افتتاح ان صاحب نے کیا ہے
ایک اور بات بھی سن رہیئ ہوں کہ موجودہ میئر ہر سال بارش کے بعد کہہ دیتے ہیں کہ تیس سال بعد اتنی بارش ہوئی ہے اس لیے شہریوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے
 

گرائیں

محفلین
ہمت بھائی،
مہاجروں پر پورے نواز دور اور پورے پیپلز پارٹی کے دور میں ظلم ہوتا رہا، مگر تمام تر تنقید اور اعتراضات صرف متحدہ پر ہیں کہ یہ حکومت کے مزے لوٹنے کے لیے ہر دفعہ حکومت میں شامل ہوتی رہی۔
ہمت بھائی، یہ الطاف حسین کا ظرف تھا کہ جس نے اپنے سگے بھائی اور سگے بھتیجے کے قتل کو معاف کیا۔ مگر کس لیے؟ کیا حکومت کے مزے لوٹنے کے لیے؟ تو بتلائیے کتنے مزے لوٹے الطاف حسین نے حکومت کے؟ کیا اسکے بھائی بھتیجے کڑوڑ پتی بن گئے؟ اسکے خاندان والوں میں سے کتنے وزیر و گورنر بن گئے؟
ہمت بھائی،
کوئی مانے نہ مانے، مگر حقیقت یہ ہے کہ الطاف حسین کا سب سے بڑا قصور تھا کہ وہ ایجنسیز کے سامنے جھکتا ہے اور نہ بکتا۔ پہلے دن جب حمید گل نے جھکانے کے لیے برگیڈیئر امیتاز کو بھیجا تو الطاف نہیں جھکتا۔ اگلی مرتبہ پیسے کے بریف کیس کے ساتھ بھیجا، مگر الطاف پھر نہیں بکتا۔ ۔۔۔۔۔ یہ نہ جھکنا اور یہ نہ بکنا الطاف کے وہ سب سے بڑے جرائم تھے جس کی سزا ہزاروں مہاجروں کو اپنے خون کی صورت میں بھگتنی پڑی۔
ہمت بھائی،
یہ حکومت کا مزہ لوٹنے کا الزام لگانے والے بتائیں وہ پیپلز پارٹی اور نواز شریف پر کیوں اعتراض نہیں کرتے کہ انہوں نے متحدہ جیسی ملک دشمن جماعت، کرپٹ جماعت اور کرمنل جماعت کے ساتھ کیوں اتحاد کیا؟ [آج وہ لوگ جو متحدہ پر الزام لگا رہے ہیں کہ وہ صرف نواز لیگ سے گلہ شکوے کر رہی ہے، وہ بتلائیں کہ انہوں نے فقط متحدہ سے گلے شکوے کرنا کیوں اپنی عادت بنائی ہوئی ہے اور کیوں وہ نواز لیگ اور پیپلز پارٹی سے سوال کیوں نہیں کرتے کہ وہ خود چل کر متحدہ جیسی کرمنل جماعت کے پاس کیوں جاتے رہے اور کیوں ان سے اتحاد کرتے رہے؟

اور ہمت بھائی،
کیا حکومت کے مزے لوٹنے والے بتا سکتے ہیں کہ وہ کون سی واحد جماعت تھی جو مشرف صاحب کے حکومت کے پہلے ضلعی انتخابات کا بائیکاٹ کرتی ہے؟ تو پھر اب بھی ان پر حکومت کے مزے لوٹنے کا الزام؟ اللہ جانتا ہے ان اعتراض کرنے والوں کی زبانوں کو پکڑا نہیں جا سکتا۔

اور ہمت بھائی،
یہ بتلائیں کہ وہ کون سی پارٹی تھی جس نے مشرف دور میں پہلی قومی اسمبلی کا بائیکاٹ کیا؟ کیا اب بھی ان پر حکومت کے مزے لوٹنے کا الزام؟

اور نواز اور بے نظیر تو وہ لوگ ہیں جو خود چل کر ہر دفعہ نائن زیرو آئے۔ مگر مشرف جس پر مہاجر ہونے کی وجہ سے مہاجر پرستی اور متحدہ کا سرپرست ہونے کا اور مہاجر نسل پرستی کا الزام لگایا جاتا ہے، یہ وہ واحد حکمران تھا جو چل کر نائن زیرو نہیں گیا۔ یہ سب حقائق واضح ہیں، مگر پھر الزامات لگانے والوں کی زبانوں کو کون لگام لگا سکتا ہے۔

آصف زرداری خود چل کر پہلے نائن زیرو نہیں آیا۔ بلکہ سب سے پہلے آصف زرداری اُس قبرستان شہداء میں جاتا ہے جس میں متحدہ کے شہید ہونے والے اراکین کی قبریں ہیں۔ متحدہ واحد جماعت ہے جس کے اتنے اراکین مارے گئے کہ پورا قبرستان انکے نام پر بنا۔ اور زرداری وہاں جا کر سب سے پہلے فاتحہ پڑھتا ہے، اور پھر نائن زیرو جاتا ہے۔ پھر پاکستان کا واسطہ دیتا ہے کہ پاکستان کو آگے بڑھانا ہے، معافی دو اور معافی لو اور تمام ماضی کو بھول جاؤ۔ اب بتلائیں کہ پاکستان کے لیے اگر متحدہ اس ماضی کو بھلاتی ہے، الطاف حسین اپنے بھائی و بھتیجے کا خون بھلاتا ہے تو بھی وہ سب سے بڑا گنہگار قرار پاتا ہے۔

کیا ملتا اگر متحدہ گھر آئے زرداری کو بے عزت کر کے گھر سے نکال دیتی؟ کیا ملتا اگر ماضی سے چمٹ کر پھر سے پیپلز پارٹی کو دشمن نمبر 1 بنا لیتی؟ تو آج کراچی میں جتنا تھوڑا بہت امن و امان رہ گیا ہے وہ بھی نہ رہتا اور پھر سے آپریشن شروع ہوتا اور پھر بقیہ پورا پاکستان بیٹھ کر ویسے ہی تالیاں پیٹ رہا ہوتا جیسا انہوں نے 1992 سے لیکر 1999 تک بجائیں تھیں، آج بھی جناح پور کا الزام انکے سر پر ہوتا اور کوئی آگے بڑھ کر اس شوشے کو بے نقاب نہ کرتا۔
اللہ کا شکر ہے متحدہ اس جنگ آرائی سے بچی رہی اور اسے حکومت میں آ کر پہلی مرتبہ موقع ملا کہ ثابت کرے کہ وہ کراچی کی ترقی و تعمیر کے لیے جو کر سکتی ہے اُس کی مثال پچھلے 62 سالہ تاریخ میں نہیں ملی۔ جو کام متحدہ نے کر دکھایا ہے، اس کے بعد اب مخالفین ہائے ہائے کرتے رہ جائیں گے مگر مصطفی کمال نے متحدہ کو اُس اونچائی پر لا کر کھڑا کر دیا ہے جہاں سے اُس کا سفر ترقی کی طرف ہی جاری رہے گا۔ انشاء اللہ۔

جب ایک فریق کے لئے اتنی وسعت قلبی کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے تو لِلہ دوسرے فریق کو بھی معاف کر دیجئے نا۔۔
مجھے تو اس وسعت قلبی اور معافی تلافی میں بھی گڑ بڑ نظر آ رہی ہے۔
 

گرائیں

محفلین
آپ نے وہی پرانی باتیں دہرا دی ہیں اور شاید میری پوسٹ کو غور سے پڑھا بھی نہیں۔
کیا آپ نے اس سوال کا جواب دیا کہ اگر نواز شریف ملوث نہیں تھے تو پھر لاہور ایئر پورٹ پر حقیقی کے دہشتگردوں کو چھڑانے کے لیے ایئر پورٹ پر ہائی کمانڈ میٹنگ طلب کرنے والے آسمان سے اترے فرشتے تھے؟ کیا حکیم سعید کیس میں پولیس والوں کو عہدوں و انعامات سے نوازنے والے فرشتے تھے؟ کیا 18 سال تک جب جماعت اسلامی اور پیپلز پارٹی اور عمران خان و منور حسن جیسے لوگ بنا کسی ثبوت کے چیخ چیخ کر متحدہ کے خلاف جناح پور کا جھوٹا پروپیگنڈہ کر رہے تھے تو کیوں نواز شریف نے اتنا ہی کھل کر ان کی تردید کیوں نہ کر دی؟ آخر کار یہ اتنا بڑا سنگین مسئلہ تھا کہ کڑوڑوں کی مہاجر آبادی پر ملک توڑنے و وطن غداری کا الزام لگ رہا تھا، اور اسی بہانے کو بنیاد بنا کر بینظیر حکومت نے اگلے کئی سالوں تک کراچی میں خون و موت کا کھیل جاری رکھا، تو کیا نواز شریف کو وطن کے انتہائی اہم لیڈر کے طور پر آگے بڑھ کر ان مہاجروں کے قتل و خون کو نہیں روکنا چاہیے تھا؟ یہ مہاجر کتے بلیاں تھے جنہیں مار مار قتل کر کے پھینکا جاتا رہا اور نواز صاحب کیسے لیڈر ہیں جو یہ سب کچھ ہوتا دیکھتے رہے؟

ادھر حال یہ ہے جب نواز شریف کو پکڑو تو وہ کہتا ہے کہ فوجی دباؤ میں آ کر یہ آپریشن ہوا۔
اور جب فوج کی تردید دکھائی جائے کہ کوئی نقشے برآمد نہیں ہوئے تو الزام لگایا جاتا ہے جناح پور کے نقشے تو برآمد ہوئے مگر فوج نے سیاسی دباؤ میں آ کر اُن کی تردید کی۔ [اسی بنیاد پر جماعت اسلامی، پیپلز پارٹی اور عمران خان، اور آج کی تاریخ میں جنرل صفدر اور ندیم ڈار جیسے لوگ متحدہ پر جناح پور سازش کا الزام لگا رہے ہیں]۔ بلکہ گرائیں آپ ہی امت اور ایکسپریس اخبارات کی وہ خبریں پیش کر رہے تھے جس میں حمید گل، جنرل صفدر اور برگیڈیئر صولت رضا اور برگیڈیئر آصف ہارون وغیرہ کے الزامات تھے کہ نقشے برآمد ہوئے تھے مگر یہاں الٹا فوج پر سیاسی دباؤ کا الزام لگایا جاتا ہے۔ [گرائیں، آپ تو دونوں وکٹوں پر کھیل رہے ہیں، ایک طرف متحدہ پر جناح پور کا الزام لگاتے ہیں تو دوسری طرف نواز لیگ کا دفاع کرتے ہیں کہ انہوں نے متحدہ کے خلاف اس جھوٹے الزام کو فقط فوجی دباؤ پر قبول کیا تھا، اور پیپلز پارٹی جھوٹی تھی جب وہ جناح پور کا الزام متحدہ پر لگاتی تھی]

تو کبھی نواز شریف پر فوجی دباؤ کے نام پر مہاجروں کا قتل ہوتا ہے، اور کبھی فوج پر سیاسی دباؤ کے نام پر جناح پور کا الزام لگایا جاتا ہے۔۔۔۔ اور نہ نواز شریف کھل کر سامنے آتے ہیں، نہ فوج کے جنرل ان پچھلے 18 سالوں میں کھل کر سامنے آتے ہیں اور یہ سنگین جھوٹا پروپیگنڈہ آج کی تاریخ میں بھی عمران خان اور منور حسن جیسے لوگوں کی زبانوں سے نان سٹاپ نکلتا رہتا ہے۔ کیا آپ کو اندازہ ہے اس سنگین الزام کی بنیاد پر پچھلے 18 سالوں میں مہاجروں کے خلاف کتنی نفرتیں پھیلائی گئیں؟

بتلائیے کہ ہم جا کر کس کا دامن پکڑیں، کس کس کے ظلم کا رونا روئیں؟

حامد میر ایک بوڑھے جنرل کا بیان اپنے کالم میں لکھتا ہے اور اس جنرل کے متعلق اسکا دعوی ہے کہ وہ 1992 میں جنرل آصف نواز کا دست راست تھا اور آپریشن براہ راست اس کی نگرانی میں کیا جا رہا تھا:
اس نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایک ٹی وی چینل پر ایک ریٹائرڈ بریگیڈئر کہتاہے کہ 1992 میں ایم کیو ایم نے کراچی کو جناح پور بنانے کی کوئی سازش نہیں کی تھی لیکن دوسرے ٹی وی چینل پر ایک ریٹائرڈ میجر کہتا ہے کہ 1992 میں ایم کیو ایم کے دفاتر سے جناح پور کے نقشے خود اس نے ہزاروں کی تعداد میں برآمد کئے۔ بوڑھے جرنیل نے طنزیہ انداز میں کہا کہ تم میڈیا والے یہ کیوں نہیں بتاتے کہ 1992 میں ایک غیر ملکی سازش کے تحت پہلے ایم کیو ایم کو وفاقی حکومت سے لڑایا گیا اور پھر وفاقی حکومت کو آرمی چیف سے لڑایا گیا۔
اس نے کہا کہ 1992 کے آپریشن میں ایم کیو ایم کے مراکز سے جناح پور کے نقشے برآمد کرنے والا میجر ندیم احمد ڈار دراصل احمدی تھا۔ وہ بظاہر تو ایم کیو ایم کا مخالف نظر آتا تھا لیکن حقیقت میں وہ کراچی کو خانہ جنگی کی طرف دھکیلنے کی سازش کا حصہ تھا، غیرقانونی سرگرمیوں کی وجہ سے اس کا کورٹ مارشل ہوا اور بعد ازاں احمدی ہونے کی وجہ سے اس نے ناروے میں سیاسی پناہ حاصل کر لی۔​
مزید حامد میر صاحب نے ان بوڑھے جنرل صاحب کے متعلق لکھا ہے کہ 1992 میں یہ جنرل آصف نواز جنجوعہ کے دست راست تھے اور براہ راست آپریشن کی نگرانی کر رہے تھے۔ تو سب سے پہلے ان جنرل صاحب سے سوال ہے کہ پچھلے 18 سال سے متحدہ پر جناح پور کے الزامات لگا کر کراچی کو خانہ جنگی کی طرف کھینچا جاتا رہا [کم از کم 1999 تک]، مگر آپ نے سب کچھ جانتے بوجھتے بھی یہ سازش جاری رہنے دی اور ان الزام لگانے والوں کی تردید نہیں کی؟ اگر یہ الزام لگانے والے نان سٹاپ افتراء پرادازی کی سازش کر کے خانہ جنگی پیدا کرنا چاہتے تھے تو اگر جنرل صاحب محب وطن تھے تو انہیں بھی نان سٹاپ انکی تردید کرنی چاہیے تھی۔

بی بی ، میں نے نواز کی حمایت نہیں کی۔ آنکھیں کھو ل کر پڑھیں میں نے کیا پیش کیا ہے۔ میں نے ثبوت پیش کئے ہیں کہ آپ جس فریق کو معصوم بنانے پر تلے ہوئے ہیں اس نے بھی آپ کے ساتھ زیادتی کی تھی۔ کم از کم نصیر اللہ بابر والا کام تو شائد میری زندگی میں کو ئی مائی کا لال نہ کر سکے۔ تو کیا بات ہے کہ آپ اس کا سارا ملبہ نواز پر ڈال رہی ہیں؟ آپ ادھر ادھر کی بات مت کریں۔ میرے سوال کا جواب دیں۔ پیپلز پارٹی والے اتنے بھی معصوم نہیں ہیں۔ پتہ نہیں کیوں آپ کو یہ بات سمجھ نہیں آ رہی ہے ۔
 

گرائیں

محفلین
گرائیں، آپ تو دونوں وکٹوں پر کھیل رہے ہیں، ایک طرف متحدہ پر جناح پور کا الزام لگاتے ہیں تو دوسری طرف نواز لیگ کا دفاع کرتے ہیں کہ انہوں نے متحدہ کے خلاف اس جھوٹے الزام کو فقط فوجی دباؤ پر قبول کیا تھا، اور پیپلز پارٹی جھوٹی تھی جب وہ جناح پور کا الزام متحدہ پر لگاتی تھی]

کیا مطلب ہے آپ کا؟ اس بات سے کیا مراد ہے آپ کی؟ کیا مجھے سوال پوچھنے کا حق بھی حاصل نہیں ہے؟ کیا غیر جانبداری کا مطلب آپ کی لغت میں ہر حال میں متحدہ کی حمایت ہے ؟ میں نے متحدہ پر کوئی الزام نہیں لگایا۔ میں نے جناح پور سے متعلق ہر دھاگے میں جو بھی بات کی، واضح حوالے سے کی۔ اور حوالہ بھی دیا۔ میں خود اس آپریشن میں شامل نہیں تھا۔ نہ ہی میرے پاس کوئی اختیار تھا۔
اب اگر دو شخص متضاد دعوے کر رہے ہیں تو ان میں اسے ایک یقینا درست ہوگا۔ اور سچائی کا تعین طعنوں اور جذباتی باتوں سے نہیں دلیل سے ہوتا ہے۔

اور ہاں نہ ہی میں نواز لیگ کا دفاع کر رہا ہوں۔ میں تو صرف اس بات کی طرف آپ کی توجہ مبذول کروا رہاہوں کہ پیپلز پارٹی نے تو ایم کیو ایم کو زیادہ نقصان پہنچایا ہے ، کیا بات ہے کہ آپ تو پیپلز پارٹی کو فراموش کئے بیٹھے ہیں اور نواز کے لتے لے رہے ہیں، کہیں ایسا تو نہیں کہ یہ سب صرف اس لئے ہے کہ نواز پنجابی ہے اور اس وقت واحد سیاست دان ہے جو مضبوطی سے مشرف کے احتساب کے مطالبے پر ڈٹا ہوا ہے؟

میں تو آپ سے درخواست کر رہا ہوں کہ اگر آپ کے ساتھ ظلم ہوا ہے تو سب ظالموں سے انصاف مانگیں، یہ کیا بات ہوئی کہ ایک ظالم کو تو وسعت قلبی کا مظاہرہ کرتے ہوئے معاف کر دیں اور دوسرے پہ سارا ملبہ ڈال دیا جائے؟

اللہ سے ڈرو۔ اللہ کو بھی منہ دکھانا ہے مرنے کے بعد۔
 

مہوش علی

لائبریرین
جناح پور: تمام الزامات و شواہد آمنے سامنے

جو لوگ متحدہ پر جناح پور سازش کے الزامات لگا رہے ہیں، انکے بیانات میں دو چیزیں ہیں:

  1. پہلا یہ کہ کچھ ایسے حیرت انگیز دعوے کر رہے ہیں جو کہ پاکستان کی تاریخ میں شاید ہی رونما ہوئے ہوں۔
  2. اور دوسرا اتفاق یہ ہے کہ یہ سب کی سب حیرت انگیز چیزیں ایک ساتھ صرف جناح پور کے واقعے میں پیش آتی ہیں۔
جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے، وہ انہی تضاد بیانیوں کی وجہ سے پہچانا جاتا ہے۔ آئیے جناح پور کے حوالے سے لگائے جانے والے تمام تر الزامات اور پیش کیے جانے والے تمام تر ثبوتوں کا تفصیلی تجزیہ کرتے ہیں۔
1۔ برگیڈیئر (ر) امتیاز

پہلی مرتبہ ایسا ہوا کہ آئی بی [انٹیلیجنس بیورو] کے کسی سربراہ پر وطن غداری کا الزام لگا اور کہا گیا کہ وہ وطن غدار اور انڈین را کی ایجنٹ متحدہ کو جھوٹ بول کر تحفظ فراہم کر رہے ہیں۔ یا حیرت! یا تعجب! پاکستان کی 62 سالہ تاریخ میں آج تک ایسا کوئی دوسرا واقعہ پیش نہ آیا۔
یاد رہے برگیڈیئر امتیاز کا متحدہ سے کبھی کوئی تعلق نہیں رہا، سوائے دو موقعوں کے۔ پہلے موقع پر حمید گل نے انہیں محترم قائد الطاف حسین کے پاس بھیجا کہ ان پر آئی جی آئی میں شامل ہونے کے لیے دباؤ ڈالا جائے۔ اور دوسرا موقع وہ جب حمید گل صاحب نے دیکھا کہ محترم الطاف حسین ایجنسیوں کے دباؤ میں آ کر جھکنے والے نہیں، تو پھر انہیں خریدنے کے لیے پیسہ دے کر بھیجا گیا۔ مگر الطاف حسین ایجنسیوں کے آگے جھکتے ہیں اور نہ بکتے، اور یہ ہی انکا وہ قصور تھا جس کی سزا پوری مہاجر قوم کو 15 ہزار لاشوں کی صورت میں دی گئی۔
جب انٹرویو کے دوران اچانک برگیڈیئر صاحب سے جناح پور کے متعلق سوال کیا جاتا ہے، اور وہ اپنے ضمیر کے مطابق جواب دیتے ہیں کہ جناح پور سازش اخبارات میں آنے کے بعد وہ بطور آئی بی کے سربراہ کے فورا کراچی جاتے ہیں اور چھ سات دن تک کراچی جا کر پورے دن رات اپنے تمام ممکنہ وسائل کو حرکت میں لا کر اس معاملے کی مکمل تحقیق کرتے ہیں، اور اسکے بعد اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ جناح پور فقط ایک شوشہ ہے جسے متحدہ کو بدنام کروا کر اسکے خلاف آپریشن مزید جاری رکھوانے کے لیے چھوڑا گیا ہے۔
برگیڈیئر امتیاز کے اس بیان کے فورا بعد متحدہ مخالفین نے ان پر الزام لگایا کہ برگیڈیئر امتیاز کرپشن میں مبتلا رہے ہیں۔ پھر اسی کرپشن کے الزام کو آگے بڑھا کر وہ ان پر وطن غداری کا الزام ڈال دیتے ہیں کہ وہ انڈین را کی ایجنٹ متحدہ کو پیسے لیکر تحفظ مہیا کر رہے ہیں۔
یاد رکھئیے کرپٹ ہونے اور وطن غدار سرگرمیوں میں ملوث ہونے میں بہت بڑا فرق ہے۔ اور یہ پاکستانی تاریخ میں پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ آئی بی کے کسی سربراہ کو براہ راست انڈین را کے ایجنٹوں سے پیسہ لیکر وطن دشمن قوت کو تحفظ فراہم کرنے کا الزام لگایا جا رہا ہے [حالانکہ دور دور تک کوئی ثبوت پیش نہیں کیا گیا ہے کہ برگیڈیئر امتیاز نے انڈین را ایجنٹوں سے کوئی پیسہ لیا ہو]
جہاں تک ہمیں برگیڈیئر امتیاز کو سمجھنے کا موقع ملا ہے، تو یہ شخص بطور مجموعی طور پر محب وطن شخص دکھائی دیا ہے۔ ہمیں برگیڈیئر صاحب کو معصوم فرشتہ ثابت نہیں کرنا، مگر جو لوگ انصاف کرنا چاہتے ہیں اور صرف الزامات ہی نہیں سننا چاہتے بلکہ فریق مخالف کو اپنی صفائی پیش کرنے کا موقع دے کر انصاف کے تقاضے پورا کرنا چاہتے ہیں، ان کے لیے ذیل کے دو لنک۔
برگیڈیئر (ر) امتیاز صاحب اپنے پر کرپشن کے لگنے والے الزامات کا جواب دے رہے ہیں کہ سول کورٹ نے انہیں بے گناہ قرار دیا تھا مگر نیب نے ان پر دوسرے الزامات لگا کر ہاتھ ڈالا۔ فیصلہ اب آپ لوگ لوگ خود کر سکتے ہیں۔
اور اے آر ؤائی پر ڈاکٹر دانش کے ساتھ اس پروگرام میں دیکھئے کہ برگیڈیئر (ر) امتیاز انتہائی محب وطن شخص ہیں جنہوں نے آئی جے آئی اور دیگر غلط سرکاری سرگرمیوں کے اوپر دوران سروس ہی اپنا استعفی پیش کر دیا تھا۔ تو ایسے شخص پر اب بغیر انڈین را کے ایجنٹوں سے پیسہ لینے کے کسی ثبوت کے یہ الزام لگا دینا کہ اس نے پیسے لیے ہیں، یہ کیسا انصاف ہے؟
حیرت ہے نا کہ متحدہ تو انڈین را کی ایجنٹ نہیں، مگر جب غلام مصطفی کھر کو انہیں برگیڈیئر صاحب نے انڈین را کے ساتھ سازش میں شریک ہونے کی وجہ سے پکڑا، تو اُس وقت تو ان پر کوئی پیسے لینے کا الزام نہیں لگا؟ آپ لوگ اور مصطفی کھر صاحب یہ بتلائیے کہ برگیڈیئر صاحب کی اُن چھ آرمی اور ایئر فورس کے افسران سے کیا دشمنی تھی کہ ان کے کیسز ملٹری کورٹ میں چلے اور کورٹ نے انکا کورٹ مارشل کرتے ہوئے انہیں عمر قید کی سزائیں سنائیں؟
چنانچہ جب یہ شخص کہتا ہے کہ بطور آئی بی کے سربراہ کے اسکی تحقیقات کے مطابق ایک ثبوت بھی جناح پور کا نہیں ملا، تو پھر اسکی گواہی کو بغیر ثبوت کو کیسے رد کیا جا سکتا ہے؟
یہ بھی یاد رکھئیے کہ برگیڈئر امتیاز پر الزام ہے کہ آج [یعنی اسی سال شاید] انہوں نے انڈین را کے ایجنٹوں سے پیسے لیے ہیں اور اس لیے اب ان انڈین را کے ایجنٹوں کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے جناح پور کا انکار کر رہے ہیں۔ مگر یہ الزام لگانے والے اُس وقت کو کیا کہیں گے کہ جب 1992 میں بریفنگ کے دوران جنرل نصیر اختر صاحب جب متحدہ کے دیومالائی عقوبت خانے اور ہتھیار دکھا رہے تھے تو یہی برگیڈیئر امتیاز تھے جو اپنی آئی بی کی معلومات کی بنا پر اٹھ کر بھرپور اختلاف کرتے ہیں اور ان ثبوتوں کو 80 فیصد جھوٹا اور گھڑا ہوا قرار دیتے ہیں [یاد رکھیں برگیڈیئر (ر) امتیاز کا متحدہ سے کوئی تعلق نہیں رہا تھا]۔ اسی وجہ سے یہ شخص جنرل آصف نواز جنجوعہ کی بارگاہ میں باعث عتاب قرار پاتا ہے۔
2۔ میجر جنرل (ر) نصیر اختر [کور کمانڈر سندھ]

اگلا حیرت انگیز دعوی ہے کہ میجر جنرل (ر) نصیر اختر [کور کمانڈر سندھ] بھی انڈین را کے ایجنٹوں سے پیسہ لیکر انڈین را کے ایجنٹوں کو تحفظ فراہم کر رہے تھے۔ یا حیرت! یا تعجب! ایسا پاکستان کی 62 سالہ تاریخ میں پہلے کبھی نہیں ہوا کہ کسی کور کمانڈر پر یوں انڈین را کے ایجنٹوں سے روابط اور تحفظ فراہم کرنے کا الزام لگا ہو۔
نصیر اختر صاحب کا قصور بھی یہ ہے کہ انہوں نے یہ کہہ دیا کہ بطور کور کمانڈر سندھ، ایک بھی ثبوت ان تک نہیں پہنچا کہ جناح پور کی کوئی سازش ہو رہی ہو۔
اور یاد رکھئیے، یہ جنرل (ر) نصیر اختر صاحب وہ تھے کہ جن کی براہ راست اجازت ملنے پر ہی متحدہ کے خلاف آپریشن کی کاروائیاں ہوتی تھی۔ اس لیے یہ اُس وقت متحدہ کے سب سے بڑے جاری آپریشن کے ماسٹر مائینڈز میں سے ایک تھے۔ ان پر بھی پہلے عام کرپشن کا الزام لگایا گیا، اور پھر اسی الزام کو بڑھا کر انہیں بھی وطن غدار اور انڈین را سے پیسہ کھانے والا بنا دیا گیا۔
وطن غداری کا الزام ان پر میجر (ر) ندیم ڈار نے لگایا کہ انہوں نے صرافہ بازار کے اُن تاجران کو چھوڑ دیا جن کے پاس سے سونا اور انڈین کرنسی نکلی تھی۔ تو پہلی بات یہ کہ انڈیا سے بے تحاشہ چیزیں سمگل ہو کر پاکستان آتی ہیں اور لین دین ہوتا ہے، تو ایسے میں انڈین کرنسی نکلنا کہاں سے ملک غداری کے زمرے میں آ گئی؟ فوج وہاں قاتلوں اور کرمنلز کے خلاف آپریشن کرنے گئی تھی یا سونے کی اسمگلنگ روکنے؟ اور پھر سب سے بڑی بات یہ کہ یہ جنرل نصیر اختر صاحب خود تھے جنہوں نے صرافہ بازار پر آپریشن کی اجازت دی تھی تاکہ قاتلوں اور ڈاکؤوں کو گرفتار کیا جائے، نہ کہ سناروں کو۔
اور یہ یاد رکھئیے کہ جنرل نصیر اختر کو متحدہ کا براہ راست حریف سمجھا جاتا رہا ہے کیونکہ متحدہ کے خلاف سارے آپریشنز کی انہوں نے اجازت دی۔ اس لیے جب پروگرام کے دوران انہوں نے جناح پور کے الزام کو مسترد کرتے ہوئے متحدہ کو اپنا بھائی کہا تو برگیڈیئر (ر) امتیاز نے سب سے پہلے متحدہ کے حیدر عباس رضوی صاحب کو مبارکباد دی کہ آج جنرل نصیر نے متحدہ کو اپنا بھائی تسلیم کر لیا۔
3۔ جنرل اسد درانی [سربراہ آئی ایس آئی]

اب تیسری گواہی سامنے آتی ہے جنرل اسد درانی صاحب کی جو کہ اُس وقت آئی ایس آئی کے سربراہ تھے۔ یاد رکھئیے آئی ایس آئی براہ راست کاؤنٹر قوت ہے انڈین را کی۔ اور اگر کسی کے پاس انڈین را کی معلومات ہیں، تو اُن میں سب سے پہلا نام آئی ایس آئی کا ہے۔
مگر آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل اسد درانی کہتے ہیں کہ انکے سامنے ایک ثبوت جناح پور کے حوالے سے نہیں آیا، اور آج 18 سال گذر جانے کے باوجود انہیں جناح پور کے متعلق ایک ثبوت دیکھنے کا موقع نہیں ملا۔
یا حیرت! یا تعجب! جس چیز کا ڈھنڈورا پورے پاکستان میں چپہ چپہ پر پیٹا جا رہا ہے، اُسکا علم اُسی شخص کو نہیں ہوتا جو اسکا سب سے بڑا ذمہ دار ہے؟ تو یہ چیز بھی پاکستان کی 62 سالہ تاریخ میں کبھی پیش نہیں آئی۔ جنرل (ر) اسد درانی صاحب پر یہ مخالفین ابھی تک کرپشن کا الزام نہیں لگا سکے ہیں، لہذا ان پر صرف یہ الزام لگا ہے کہ جنرل (ر) اسد درانی صاحب "جھوٹ" بول رہے ہیں۔
4۔ میجر (ر) ندیم ڈار

[نوٹ: ندیم ڈار صاحب کا 10 ستمبر کو تازہ بیان آگے آئے گا، اور ذیل میں میجر ندیم ڈار پر اُن سولات کے حوالے سے جرح کی گئی ہے جو ان سے براہ راست گفتگو کے دوران ہوئے، اور اسی کے نتیجے میں انکا 10 ستمبر کو تازہ بیان آیا۔ چنانچہ یہ جرح بہت زیادہ اہم ہے]
ندیم ڈار صاحب دعوی کرتے ہیں کہ انہوں نے نے نقشے کراچی الکرم سکوائر سے برآمد کیے۔
اتفاق سے ہمیں موقع ملا کہ ہم میجر (ر) ندیم ڈار صاحب سے براہ راست ایک بلاک پر اس موضوع پر گفتگو کر سکیں۔[مکمل گفتگو کے لیے بلاک کا لنک]۔ میجر صاحب کی خدمت میں پہلا سوال یہ تھا:

  • یہ بتلائیں کہ آپ نے آپریشن کر کے ہزاروں کی تعداد میں پوسٹرز، پمفلٹ اور نقشے برآمد کیے۔ تو کیا یہ پورا آپریشن آپ اکیلا کر رہے تھے؟ اگر نہیں، تو اسکا مطلب ہے کہ آپکے دیگر ساتھی بھی اس چیز کے چشم دید گواہ ہیں۔ تو کیا وجہ ہے کہ آپکے علاوہ کوئی بھی گواہی دینے کے لیے ان 18 سالوں میں سامنے نہیں آیا؟ اور اُس وقت بھی نہیں آیا جب جی ایچ کیو اس جناح پور کے الزام کو واپس لے رہا تھا؟
اس پر میجر صاحب نے جواب دیا:

  • نہیں، میں نے یہ آپریشن اکیلا نہیں کیا تھا بلکہ اور بہت سے ساتھی تھے جو کہ اسکے چشم دید گواہ تھے۔ اور ان ساتھیوں کے علاوہ سول مجسٹریٹ بھی ساتھ تھے جو اس واقعے کے عینی گواہ ہیں۔
    اور میرے ان عینی گواہ ساتھیوں نے آجتک گواہی اس لیے نہیں دی کیونکہ انہیں اپنی جانوں کا خطرہ ہے۔
یا حیرت! یا تعجب! کیا پاکستان کی 62 سالہ تاریخ میں قوم نے ایسے مجاہد نڈر و بہادر فوجی دیکھے ہیں جو انڈین را کے ان ایجنٹوں کے خوف سے ایسے دبک کر بیٹھے ہیں کہ کوئی آگے بڑھ کر اپنی گواہی نہیں دیتے؟ اب اس واقعے کو 18 سال گذرنے کو آ رہے ہیں اور یہ جری و نڈر قوم کے سپاہی ابھی تک ان انڈین را کے ایجنٹوں کے خوف میں ایسے مبتلا کہ میڈیا میں آ کر اپنی گواہی درج نہیں کرواتے؟
میجر صاحب سے اگلا سوال تھا:

  • وہ تاریخ بتلا دیں جس دن آپ نے یہ نقشے و پمفلٹ برآمد کروائے تھے۔
میجر صاحب نے اس سوال کا جواب دینے سے انکار کر دیا۔ اُنکا کہنا تھا کہ اگر وہ نقشہ برآمد ہونے کی تاریخ بتا دیں گے تو یہ پاکستان کی سیکورٹی کے لیے رسک ہے۔ یا حیرت! یا تعجب! 18 سال گذر جانے کے باوجود نقشہ برآمد ہونے کی تاریخ بتانا سیکورٹی کے لیے رسک کیسے ہوا؟
خیر میجر صاحب نے تو بتلایا نہیں، مگر دوسری خبروں سے علم ہوا کہ الکرم اور 90 پر آپریشن 19 جون کو ہی شروع ہو گیا تھا۔ اور اس سے قبل ہی متحدہ کی پوری قیادت روپوش ہو چکی تھی۔
اب آپریشن ہوتا ہے 19 جون کو، مگر برگیڈیئر ہارون آصف کی پریس کانفرنس ہوتی ہے 17 جولائی کو۔ چنانچہ میجر (ر) ندیم ڈار صاحب نقشے ملنے کی تاریخ اس لیے نہیں بتاتے کیونکہ تقریبا پورا ایک مہینہ گذر جانے کے باوجود جناح پور کے نقشوں کے متعلق کوئی ایکشن نہیں لیا جاتا۔ اسکا مطلب ہے یہ جناح پور کا شوشہ بعد میں چھوڑا گیا تاکہ متحدہ کے خلاف اس فوجی آپریشن کی پاکستانی عوام کے سامنے کوئی توجیہ پیش کی جا سکے اور اس بہانے کی مدد سے اسے مزید جاری رکھا جا سکے۔
۔۔۔۔ اور جھوٹ کا پول کھلتا ہے ۔۔۔۔

میجر صاحب کیپیٹل ٹالک میں دعوی کرتے ہیں کہ برگیڈیئر امتیاز جھوٹ بول رہے ہیں۔
پھر دعوی کرتے ہیں کہ جنرل نصیر اختر جناح پور کے نقشوں کے متعلق جھوٹ بول رہے ہیں۔
پھر وہ جنرل اسد درانی پر جھوٹ بولنے کا الزام لگاتے ہیں۔
انٹرویو کے دوران میجر ندیم ڈار دعوی کرتے ہیں کہ انہوں نے خود یہ تمام نقشے جنرل نصیر اور برگیڈیئر ہارون آصف کے سپرد کیے ہیں۔ ان کے الفاظ یہ ہیں:

  • میجر ریٹائرڈ ندیم ڈار نے کہا کہ پوری دنیا جانتی ہے کہ شہود ہاشمی ایک دہشت گرد اور قاتل تھا ۔ ندیم ڈار نے کہا کہ میں نے جناح پور کے نقشے نہ صرف آئی ایس پی آر کے بریگیڈئر ہارون بلکہ جنرل نصیر تک بھی پہنچائے۔ [لنک اخبار خبریں
    جہاں آپ انکی اپنی زبانی یہ بیان سن سکتے ہیں۔
مگر میجر صاحب، نہ صرف جنرل نصیر اختر، بلکہ بذات خود برگیڈیئر آصف ہارون اس بات کے مکمل انکاری ہیں کہ انہیں کراچی میں ملنے والے ان نقشوں کا کوئی علم تھا۔
، جہاں وہ کہہ رہے ہیں کہ پریس کانفرنس کے دوران جب صحافیوں نے ان سے جناح پور کا پوچھا تو انہیں ان نقشوں کا کوئی علم نہ تھا۔ بلکہ انکے ذہن میں صرف جنرل لوراب کا ایک بیان تھا جس میں انہوں نے کوٹری سے جناح پور کے نقشے برآمد کروانے کی بات کی تھی۔ اسکے بعد برگیڈیئر ہارون آصف کو جی ایچ کیو سے ثبوت اکھٹے کرنے کا بھی آڈر آتا ہے اور اُس وقت بھی انکے پاس کراچی کا کوئی نقشہ نہیں ہوتا اور بہت ہاتھ پاؤں مارنے کے بعد انہیں یہ جنرل لوراب سے ہی ملتا ہے۔ اس پورے انٹرویو میں برگیڈیئر ہارون نے ایک مرتبہ بھی کراچی سے ایک مہینہ قبل الکرم سے نقشے برآمد ہونے کا ہلکا سا بھی ذکر نہیں کیا اور نہ ہی میجر ندیم ڈار کا ذکر کیا، اور نہ ہی نقشے کی کاپی حاصل کرنے کے لیے انہوں نے کبھی میجر ندیم ڈار سے کراچی میں کوئی رابطہ قائم کیا۔
یا حیرت! یا تعجب! ایسا شاید ہی کبھی ہوتا ہو کہ ایک بندے کے حوالے باقاعدہ اتنی بڑی سازش کے پورے ثبوت بمع نقشے فراہم کیے جا رہے ہوں، اور انٹرویو کے دوران وہ بندہ ان سب کو بھول جائے اور خود میجر ندیم ڈار کے ذکر کو مکمل طور پر بھول جائے۔
5۔ برگیڈیئر آصف ہارون

برگیڈیئر آصف ہارون اپنی یہ کہانی کا خلاصہ یوں پیش کرتے ہیں []:

  • 17 جولائی کو جب پریس کانفرنس میں سوالات کے دوران ان سے جناح پور کا پوچھا گیا، تو اس وقت انہوں نے کوئی جناح پور کے نقشے نہیں دیکھے تھے۔
  • انکے ذہن میں جناح پور کی بات یہاں سے آئی کہ 24 جون کو جنرل لوراب نے کوٹری کے مقام پر ایم کیو ایم کے کسی دفتر سے جناح پور کے نقشے ملنے کا ذکر کیا تھا۔
اسکے بعد برگیڈیئر آصف ہارون کہتے ہیں کہ 18 جولائی کو پنڈی میں جنرل برقی صاحب کا جنازہ تھا جس میں پاکستان کے تقریبا سب بڑے ہائی رینکنگ لوگ جمع ہوئے اور یہ لوگ یہ ہیں:

  1. اسحق خان (صدر پاکستان)
  2. نواز شریف (وزیر اعظم پاکستان)
  3. جنرل آصف نواز جنجوعہ (چیف آف آرمی سٹاف)
  4. میجر جنرل جمشید ملک (وائس چیف آف جنرل سٹاف۔ یہ جنرل جمشید ملک وہ ہیں جو جی ایچ کیو میں بیٹھ کر کراچی کے اس پورے آپریشن کی کوآرڈینیٹنگ کر رہے تھے)
  5. جنرل نصیر ملک
برگیڈئر آصف ہارون کہتے ہیں کہ اسحق خان اور نواز شریف کے ہاتھوں میں اخبار تھا اور وہ جنرل آصّف نواز سے احتجاج کر رہے تھے کہ آپکے آئی ایس پی آر آفیسر یہ کیا میڈیا کو خبر دے رہے ہیں۔ اور جنرل آصف نواز جنجوعہ آگے جنرل جمشید ملک سے پوچھ رہے ہیں کہ اخبارات میں یہ کیا شائع ہو گیا۔ اور جنرل جمشید ملک کو خود کچھ علم نہیں اور وہ جی ایچ کیو آ کر آگے جنرل نصیر سے پوچھتے ہیں کہ یہ کیا ہے۔ اور جنرل نصیر ملک آگے برگیڈیئر آصف ہارون سے پوچھتے ہیں کہ یہ آپ نے کیا کہا۔ اور برگیڈیئر ہارون بجائے یہ کہنے کے میں نے بالکل صحیح کہا اور جنرل لوراب کے ثبوتوں کا حوالہ دینے کی بجائے کہتے ہیں کہ اخبارات نے خاہ مخواہ میں ہی سنسنی پھیلا دی اور یہ کہ ایک اور پریس کانفرنس کر کے بات کلیئر کر دی جائے۔
یا حیرت! یا تعجب!
میجر ندیم ڈار 19جون کو اور جنرل لوراب 24 جون سے پہلے جناح پور کے یہ ہزاروں کی تعداد میں پوسٹرز اور پمفلٹ اور نقشے برآمد کر لیتے ہیں، مگر اس جون کے مہینے سے لیکر 18 جولائی تک ذیل کے لوگوں کو جناح پور کا کچھ علم نہیں:

  1. اسحق خان صدر پاکستان
  2. نواز شریف وزیر اعظم پاکستان
  3. جنرل آصف نواز جنجوعہ
  4. پورا جی ایچ کیو اس خبر سے بے خبر ہے جس میں جنرل جمشید ملک سے لیکر جی ایچ کیو کے بقیہ تمام آفیشلز شامل ہیں۔
  5. جنرل نصیر اختر جو کہ سندھ کے کور کمانڈر ہیں اور پورا آپریشن انکے براہ راست زیر نگرانی ہو رہا ہے۔
  6. پوری آئی ایس آئی بمع اپنے سربراہ جنرل اسد درانی کے۔
  7. پوری آئی بی بمع اپنے سربراہ برگیڈیئر (ر) امتیاز صاحب کے
یا حیرت! یا تعجب، کیا کبھی پاکستان کی 62 سالہ تاریخ میں ایسا واقعہ پیش آیا جہاں پاکستان کے یہ سب سے ٹاپ رینکنگ ایجنسیز کے تمام تر سربراہان ایک مہینہ گذر جانے کے باوجود کسی بھی قسم کے جناح پور کے نقشوں سے لاعلم ہیں؟
برگیڈیئر ہارون آگے اپنی کہانی بیان کرتے ہیں کہ انہیں جنرل جمشید ملک حکم دیتے ہیں کہ وہ جناح پور کا نقشہ اور دوسرے ثبوت جمع کریں اور یہ کلیریفیکشن بنا کر انہیں پوسٹ کریں۔ برگیڈیئر ہارون کہتے ہیں کوئی مسئلہ نہیں اور وہ پھر ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر برگیڈیئر صدیقی اور تین چار اور لوگوں کے ساتھ مل کر یہ کلیریفیکیشن بنانا شروع کرتے ہیں۔ اس موقع پر یہ اہم بات نوٹ کریں کہ برگیڈیئر آصف ہارون کو کراچی سے ندیم ڈار صاحب کے ملنے والے نقشوں کا کچھ علم ہے، نہ ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر برگیڈیئر صدیقی کو اور نہ اُن دیگر دو تین لوگوں کو جو یہ کلیریفیکشن بنانے میں برگیڈیئر آصف ہارون کی مدد کر رہے ہیں۔ اس لیے اب اس نقشے کے حصول میں یہ حادثات پیش آتے ہیں:

  • برگیڈیئر آصف ہارون سب سے پہلے برگیڈیئر ممتاز سے بات کی اور انہوں نے حامی بھر لی کہ ہاں انکے پاس ہیں۔ مگر دو گھنٹےکے بعد برگیڈیئر ممتاز نے معذرت کر لی کہ انکے پاس نہیں ہیں۔ یا حیرت! یا تعجب! انڈین را کے ایجنٹوں کو پکڑنے میں ہماری ایجنسیز کیا ایسے ہی طرز عمل کا مظاہرہ کرتی ہیں؟
  • پھر برگیڈیئر آصف ہارون کور ہیڈ کوارٹر میں برگیڈیئر بلا صاحب سے درخواست کرتے ہیں تو وہ کہتے ہیں انکے پاس نقشے نہیں ہیں۔ یا حیرت! یا تعجب!
  • پھر برگیڈیئر آصف ہارون آئی ایس آئی کے ڈیسک سے رابطہ کرتے ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ انکے پاس نقشے نہیں ہیں۔ یا حیرت! یا تعجب!
  • پھر فائیو کور سے برگیڈیئر آصف ہارون رابطہ کرتے ہیں مگر وہ بھی انکار کر دیتے ہیں۔ یا حیرت! یا تعجب۔
ان تمام طرف سے مایوس ہو کر برگیڈیئر آصف ہارون جنرل لوراب [/لہراسپ؟ سپیلنگ] سے رابطہ کرتے ہیں، اور پھر حیدر آباد سے انہیں ریفرنس لیٹر لکھوایا جاتا ہے اور پھر انہیں فائیو کور ہیڈ کوارٹر سے آخر کار نقشہ مل جاتا ہے، اور اس نقشے کو یہ جی ایچ کیو بھی بھجوا دیتے ہیں۔
6۔ جی ایچ کیو

اب ان حیرت انگیز چیزوں کی کہانی آگے بڑھتی ہے۔ برگیڈیئر ہارون کہتے ہیں کہ آخر کار ایک مہینے سے زیادہ عرصے کے وقفے کے بعد آخر کار وہ نقشے اور ثبوت جی ایچ کیو پہنچ جاتے ہیں۔
مگر ان ثبوتوں کے ملنے پر جی ایچ کیو کیا کرتا ہے؟
سب سے پہلے تو جی ایچ کیو ان اسلام آباد سے آئے ہوئے صحافیوں کے سامنے برگیڈیئر آصف ہارون کی جناح پور والا الزام اگلے دن واپس لیتا ہے۔
یا حیرت! یا تعجب! ایسا حیرت انگیز واقعہ پاکستان کی 62 سال کی تاریخ میں کبھی پیش نہیں آیا کہ جی ایچ کیو انڈین را کے ایجنٹوں کے خلاف شواہد مل جانے کے باوجود انکے خلاف اپنے پچھلے الزامات بھی واپس لے رہا ہے۔
کیا جی ایچ کیو بھی برگیڈیئر امتیاز اور جنرل نصیر اختر کی طرح انڈین را سے پیسہ لیکر ان انڈین را کے ایجنٹوں کے تحفظ میں لگ گیا؟
7۔ جناح پور کے الزام واپس لینے کی کہانی

17 جولائی کو برگیڈیئر آصف ہارون پریس کو سوالات کے جوابات دیتے ہوئے جناح پور سازش کی موجودگی کا اقرار کرتے ہیں۔ اور اسکے بعد اگلے دن یہ الزام واپس لے لیا جاتا ہے۔
سوال: یہ الزام کس نے واپس لیا؟
اس سوال کے جواب میں یہ جو کہانیاں بیان ہوئی ہیں وہ یہ ہیں:

  • میجر (ُر) ندیم ڈار دعوی کرتے ہیں کہ یہ الزام جی ایچ کیو نے نہیں بلکہ جنرل نصیر اختر نے واپس لیا کیونکہ وہ کرپٹ تھے اور انڈین را کی ایجنٹ متحدہ کو تحفظ دینا چاہتے تھے۔
  • برگیڈیئر آصف ہارون اس کے متعلق خاموش ہیں کہ کس کے کہنے پر بالکل اگلے دن صحافیوں سے اس الزام واپس لینے کو کہا گیا۔
چنانچہ یہ بات ابھی کلیئر نہیں کہ یہ اگلے دن ہونے والی تردید صحافیوں کےسامنے کس نے کی اور کس کے کہنے پر کی۔ صرف یہ کہہ دینا کہ آئی ایس پی آر کے لوگوں نے کی، تو یہ کافی نہیں کیونکہ جبتک یہ پتا نہ چلے کہ کس کے کہنے پر کی، اُس وقت تک شکوک موجود رہیں گے۔

  • پھر برگیڈیئر آصف ہارون کلیریفیکیشن کے متعلق بتلاتے ہیں کہ انہوں نے ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر برگیڈیئر صدیقی اور آئی ایس پی آر کے دیگر دو تین بڑوں کے ساتھ مل کر ایک کلیریفیکیشن تیار کی جس کا براہ راست حکم انہیں جی ایچ کیو سے ملا تھا۔ مگر وہ کہتے ہیں کہ جنرل نصیر نے انہیں یہ کلیریفیکیشن پریس کے سامنے پیش نہ کرنے دی اور دھمکی دی ایسا کیا گیا تو کئی سروں سے ٹوپی اتر جائے گی۔ یا حیرت! یا تعجب! کیا جی ایچ کیو اتنا بے بس تھا کہ اپنے ہی ایک جرنیل کا محاسبہ نہ کر سکا جو انڈین را کی ایجنٹ کی سائیڈ ایسے کھلے انداز میں لیتا ہے، بلکہ دھمکیاں دیتا ہوا لیتا ہے، اور جی ایچ کیو ڈر کے مارے چپ ہو کر نیچے بیٹھ جاتا ہے؟
8۔ چار مہینے بعد جی ایچ کیو کا بالکل صاف اور واضح مؤقف

برگیڈیئر آصف ہارون کی کلیریفیکیشن کے برعکس، 4 ماہ بعد 19 اکتوبر کو جی ایچ کیو وہی بات پیش کرتا ہے جو جنرل نصیر اختر کہہ رہے تھے۔ جی ایچ کیو کے بالکل واضح اور صاف الفاظ یہ تھے:
Army had no evidence concerning the so-called Jinnah Pur Plan. It is clarified that newspaper story in question is baseless. Army has neither handed over to the government any document or map as reported nor is it in possession of any evidence concerning the so-called Jinnah Pur Plan. It is also factually wrong that the matter was discussed at any meeting of the corps commander​
ترجمہ:
”فوج کے پاس کسی نام نہاد جناح پور پلان کی کوئی شہادت نہیں ہے۔
(1) وضاحت کی جاتی ہے کہ اس سلسلے میں شائع ہونے والی اخباری خبر بے بنیاد ہے۔
(2) فوج نے نہ تو کوئی دستاویز یا نقشہ حکومت کے حوالے کیا ہے، جیسا کہ خبر میں دعویٰ کیا گیا ہے
(3) اور نہ ہی فوج کی تحویل میں نام نہاد جناح پور پلان سے متعلق کو ئی شہادت موجود ہے۔
(4) یہ امر بھی خلاف واقعہ ہے کہ یہ معاملہ کسی بھی کور کمانڈرز اجلاس میں زیر بحث آیا تھا۔“

لنک جنگ اخبار
یا حیرت! یا تعجب! بجائے جی ایچ کیو اپنے اس غدار اور انڈین را کی ایجنٹ کو تحفظ دینے والے جنرل نصیر کی چھٹی کرتا، 4 ماہ کے بعد جی ایچ کیو وہی سٹیٹمنٹ دے رہا ہے جو جنرل نصیر اختر نے دی تھی۔
پہلے تو برگیڈیئر آصف ہارون اور میجر ندیم ڈار سارے ملک غداری، جھوٹ بولنے اور کرپشن وغیرہ کے الزامات جنرل نصیر، برگیڈیئر امتیاز اور جنرل درانی پر لگاتے رہے، مگر اب کیا کریں گے جب جی ایچ کیو ہی کہہ رہا کہ انکے پاس جناح پور کا کوئی نقشہ پہنچا اور نہ ہی جناح پور پلان کے متعلق اسکے پاس کوئی شہادت موجود ہے؟
9۔ جی ایچ کیو پر سیاسی دباؤ میں آ کر یہ جھوٹا بیان دینے کا الزام

جب کہیں سے کچھ نہیں بنا، تو ان لوگوں نے یہ الزام لگا دیا کہ جی ایچ کیو نے یہ سیاسی دباؤ میں آ کر انڈین را کی ایجنٹ کے تحفظ کی خاطر یہ جھوٹا بیان دیا ہے کہ انکے پاس کوئی نقشے نہیں پہنچے اور نہ ہی کوئی پلان پہنچا۔ سبحان اللہ۔
اور جب ان لوگوں سے پوچھا گیا کہ ثبوت کیا ہے کہ جی ایچ کیو نے سیاسی دباؤ میں آ کر یہ جھوٹ بولا اور ان نقشوں اور پلان کی تردید کی، تو ثبوت ندارد۔ جی ہاں، ثبوت ندارد، اور بس قیاس آرائیاں جاری کہ جی ایچ کیو سیاسی دباؤ میں آ کر یہ حرکت کر گیا۔
یا حیرت! یا تعجب! بس خدا کی قدرت ہے کہ ان لوگوں کے لیے انکی یہ قیاس آرائیاں تمام تر ثبوتوں اور گواہیوں پر بھاری۔
برگیڈیئر (ر) صولت رضا کا بیان: متحدہ نے ہیڈکوارٹر سے ڈائریکٹ رابطہ کیا

برگیڈیئر صولت کے بیان پر تفصیلی بحث آگے آ رہی ہے۔ فی الحال انکا یہ متضاد بیان کہ کوئی دباؤ وغیرہ نہیں تھا، بلکہ متحدہ کے لیڈروں نے خود جی ایچ کیو سے رابطہ کیا جس کے بعد جی ایچ کیو نے جناح پور نقشے اور دیگر تمام ثبوت ملنے کی مکمل تردید کر دی۔ انکے الفاظ یہ ہیں:
۔۔۔ تفصیلات کے مطابق صولت مرزا نے بتایا کہ جونہی یہ بات ایم کیو ایم کے سینئر رہنماؤں الطاف حسین اور اشتیاق اظہر تک پہنچی کہ اس معاملے میں ایم کیو ایم کوملوث کیا جارہا ہے تو ایم کیو ایم کے سینئر رہنما ؤں نے براہ راست کور ہیڈ کوارٹر میں رابطہ کیا اور متعلقہ فوجی افسران کو واضح کردیا کہ اِن نقشوں سے ایم کیو ایم کا کوئی تعلق نہیں ہے۔
چنانچہ صولت رضا صاحب اس سیاسی دباؤ کی قیاس آرائی کے بالکل برخلاف ایک اور بیان دے رہے ہیں کہ کیوں یہ نقشے واپس لیے گئے۔
10۔ برگیڈیئر(ر) صولت رضا کا بیان

برگیڈیئر صولت آئی ایس پی آر [فوج کے تعلقات عامہ کے شعبے] میں اُس وقت آفیسر تھے۔یا۔
برگیڈیئر صولت رضا نے اپنے عہدے کا نہیں بتلایا کہ 1992 میں وہ آئی ایس پی آر میں کون سے رینک پر فائز تھے۔ انکی موجودہ عمر دیکھ کر اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ یہ اُس وقت سینیئر آفیسر نہیں تھے۔
برگیڈیئر صولت بیان کرتے ہیں کہ:
کراچی (جنگ نیوز) آئی ایس پی آر کے سابق ڈائریکٹر بریگیڈیئر (ر) صولت رضا کا کہنا تھا کہ 19/جون کو فوج ، رینجرز اور دیگر سیکورٹی ایجنسیوں نے اپنی کارروائی شروع کی تو ایک دفتر جسے ایم کیو ایم کا مرکز کہا جاتا تھا وہاں سے نقشے، جھنڈا ، پمفلٹ اور دیگر چیزوں برآمد ہوئیں جسے اگلے روز بریگیڈیئر آصف ہارون نے صحافیوں سے بات چیت میں بریف کیا [حوالہ جنگ نیوز پیپر]
افسوس کہ برگیڈیئر صولت صاحب جونیئر آفیسر ہونے کی وجہ سے، یا کسی اور وجہ سے حالات کو بالکل گڈمڈ کر گئے اور واقعے کے بیان میں بہت غلطیاں کر رہے ہیں۔ اسکی وجوہات یہ ہیں کہ:

  1. پہلا یہ کہ صولت رضا صاحب دعوی کر رہے ہیں کہ فوج نے 19 جون کو ایم کیو ایم کے مرکز سے نقشے، جھنڈے اور پمفلٹ برآمد کر لیے۔
  2. دوسرا دعوی کر رہے ہیں کہ ان چیزوں کو اگلے روز برگیڈیئر آصف ہارون نے صحافیوں کو پیش کیا۔
یہ دوسری بات بالکل غلط ہے کیونکہ:

  • برگیڈیئر آصف ہارون نے اگلے روز 20 جون کو نہیں، بلکہ اگلے مہینے 17 جولائی کو صحافیوں کو جناح پور سازش کی تصدیق کی۔
  • دوم یہ کہ برگیڈیئر آصف ہارون نے یہ تصدیق 19 جون کو کراچی میں ملنے والے کسی نقشے وغیرہ کی بنیاد پر ہرگز نہیں کی تھی۔ بلکہ وہ تو میجر ندیم ڈار یا کراچی سے ملنے والے کسی بھی نقشے کے وجود سے بے خبر تھے۔ انہوں نے تو صحافیوں کو یہ بات صرف جنرل لوراب [/لہراسپ؟] کی اس بات پر کہی تھی کہ کوٹری میں جناح پور کے کوئی نقشے برآمد ہوئے تھے۔
چنانچہ برگیڈیئر صولت رضا صاحب کراچی سے نکلنے والے نقشوں اور برگیڈیئر آصف ہارون کے متعلق دعوی کرنے میں بالکل غلطی پر ہیں۔ اب برگیڈیئر (ر) صولت رضا صاحب جان بوجھ کر جھوٹ بول رہے ہیں، یا کسی غلط فہمی کا شکار ہو کر یہ کہہ رہے ہیں، تو یہ بس اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔
آئی ایس پی آر کے سربراہان میں سے کسی کو کراچی میں ملنے والے نقشوں کا علم نہیں تھا

صولت رضا صاحب کے بیان میں ایک اور بہت بڑا جھول بھی موجود ہے جس سے یہ یقین مکمل طور ہر پختہ ہو جاتا ہے کہ برگیڈیئر صاحب کا دعوی مکمل طور پر غلط ہے۔
صولت رضا صاحب اُس وقت آئی ایس پی آر میں جونیئر آفیسر تھے، اور بہرحال یہ طے شدہ حقیقت ہے کہ آئی ایس پی آر کے اُس وقت کے سربراہان اور سینیئر آفیسرز میں سے کوئی بھی کراچی سے ملنے والے نقشوں سے واقف نہیں تھا۔
اوپر ہم نے برگیڈیئر آصف ہارون کی کہانی انکی زبانی بیان کی ہے۔ اپنی اس روئیداد میں وہ بتلا رہے ہیں کہ 19 جون کو نہیں بلکہ اسکے تقریبا ایک مہینے کے بعد 17 جولائی کو پریس کانفرنس ہوتی ہے جس میں جناح پور کا ذکر ہوتا ہے۔ اس پر جی ایچ کیو سے جنرل جمشید ملک غصے ہو کر آصف ہارون صاحب کو کہتے ہیں کہ وہ کلیریفیکیشن دیں اور نقشے اور دیگر ثبوت اکھٹے کریں۔ اس پر برگیڈیئر آصف ہارون کہتے ہیں کہ انہوں نے آئی ایس پی آر کے اُس وقت کے سربراہ برگیڈیئر صدیقی اور دیگر سینئر افسران کے ساتھ مل کر کلیریفیکشن بنانی چاہی، مگر جب نقشے اور ثبوتوں کی بات آئی تو وہ آئی ایس پی آر کے ان افسران نے انکے حوالے نہیں کی اور نہ ہی انکو ایک لفظ بتلایا کہ کراچی میں ایسے کوئی نقشے ملے ہیں، بلکہ آصف ہارون صاحب مستقل کئی جگہ پر نقشوں کے لیے سر پٹختے رہے اور آخر کار دوبارہ جنرل لوراب [/لہراسپ؟] کے پاس سے یہ نقشے ملے۔
چنانچہ ثابت ہوا کہ صولت رضا صاحب کے بیان کے برعکس، آئی ایس پی آر کے سربراہ برگیڈیئر صدیقی اور دیگر سینئر افسران کو کراچی سے ملنے والے ان نقشوں کا دور دور تک کوئی علم نہیں تھا۔ اور یاد رہے، یہ بات 19 جون کی نہیں، بلکہ اسکے ایک مہینے بعد 18 جولائی اور اسکے بعد کی ہے جب برگیڈیئر آصف ہارون کو کلیریفکیشن بنانی تھی۔
صولت صاحب کا بیان کہ ایم کیو ایم کے سینئر رہنماوؤں نے ہیڈ کوارٹر رابطہ کیا

صولت صاحب آگے بیان کرتے ہیں کہ ان کے علم میں یہ بات ہے کہ جونہی یہ بات ایم کیو ایم کے سینئر رہنماؤوں الطاف حسین اور اشتیاق اظہر تک پہنچی کہ متحدہ کو ملوث کیا جا رہا ہے تو انہوں نے ہیڈ کوارٹر فون کر کے متعلقہ فوجی افسروں کو واضح کر دیا کہ متحدہ کا ان نقشوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
صولت صاحب کا یہ بیان ٹھیک ہو سکتا ہے، مگر پھر بھی یہ واضح نہیں ہے۔ کیونکہ:

  • کیا متحدہ کے ان سینئر رہنماؤوں کا فون 19 یا 20 جون کو کراچی میں کسی قسم کے نقشے ملنے کے بعد اس سلسلے میں آیا تھا؟
  • یا پھر 19 جون کے ایک مہینے کے بعد 17 جولائی کو جب آصف ہارون صاحب پریس کانفرنس میں جناح پور سازش کو متحدہ کے حوالے سے بیان کرتے ہیں، تو اُس وقت اشتیاق اظہر صاحب کراچی ہیڈ کوارٹر میں فون کر کے واضح کرتے ہیں آصف ہارون کا یہ الزام غلط ہے اور انکا جناح پور سے کوئی تعلق نہیں؟ [یاد رہے برگیڈیئر آصف ہارون نے کراچی کے کسی نقشوں کی بنیاد پر یہ بات نہیں کہی تھی اور نہ ہی انہیں اسکا علم تھا]
تو قرائن تو یہی بتاتے ہیں 19 جون سے لیکر 17 جولائی تک متحدہ کو کسی نے بھی جناح پور الزام میں ملوث نہیں کیا۔ بلکہ یہ یہ الزام پہلی مرتبہ 17 جولائی کو لگا اور اسکا کراچی میں نکلنے والے کسی نقشے سے تعلق نہیں تھا، اور اگر برگیڈیئر آصف ہارون کے اس بیان پر متحدہ کے لیڈروں نے ہیڈ کوارٹر فون کر کے ان الزامات کر تردید کی تو اس سے کہیں یہ بات ثابت نہیں ہوتی کہ کراچی میں کوئی نقشے برآمد ہوئے تھے جس کی وہ تردید کر رہے تھے۔
آخر میں برگیڈیئر صولت رضا کے متعلق ہماری پرسنل Assessment اور ریماکس:

  • صولت رضا صاحب 1992 میں آئی ایس پی آر میں جونیئر آفیسر رہے ہونگے [تصدیق کی ضرورت ہے!!!]۔ انکے علم میں صرف ایک بات تھی کہ متحدہ کے اشتیاق اظہر صاحب نے ہیڈ کوارٹر فون کر کے جناح پور کے نقشوں میں متحدہ کے ملوث ہونے کی تردید کی ہے۔
  • مگر صولت رضا صاحب کو وہ تاریخ یاد نہیں جب اشتیاق اظہر صاحب نے یہ فون کیا۔
  • اور یہ یقینی بات لگ رہی ہے کہ صولت رضا صاحب کو اُس وقت کراچی سے ملنے والے کسی نقشے کا علم نہیں تھا، بلکہ ہوا یوں ہے کہ پچھلے دنوں جب ندیم ڈار صاحب ٹی وی پر آ کر نقشوں کا دعوی کرتے ہیں، تو وہاں سے یہ بات صولت رضا صاحب نے مستعار لے کر اس پر اپنی کہانی مکمل کرنے کی کوشش کی ہے۔ مگر چونکہ یہ سچ نہیں تھا، اس لیے انکی کہانی میں واضح جھول آ گئے۔
  • پہلا جھول یہ آیا کہ انہوں نے 19 جون کے اگلے دن آصف ہارون صاحب کی پریس کانفرنس کروا دی۔
  • دوسرا جھول یہ آیا کہ انہوں نے دعوی کر دیا کہ برگیڈیئر آصف ہارون نے کراچی سے ملنے والے نقشوں کی بنیاد پر اگلے دن پریس کانفرنس کی، حالانکہ آصف ہارون صاحب نے کراچی سے ملنے والے نقشوں کی بنیاد پر نہیں بلکہ کوٹری سے ملنے والے کسی نقشوں کے بنیاد پر یہ دعوی کیا تھا اور انہیں دور دور تک کراچی سے ملنے والے کسی نقشوں کا علم نہ تھا۔
  • تیسرا سب سے بڑا جھول صولت رضا صاحب کی کہانی میں آیا جب یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ آئی ایس پی آر کے اُس وقت کے سربراہ برگیڈیئر صدیقی اور دیگر سینیئر آفیسرز 18 جولائی اور اسکے بعد تک کراچی سے ملنے والے کسی بھی نقشوں سے ناواقف تھے۔
  • صولت صاحب کی صرف ایک بات صحیح ہو سکتی ہے، اور وہ ہے اشتیاق اظہر صاحب کا فون کرنا۔ مگر اس کو بھی صولت صاحب نے بالکل غلط طریقے سے ایسے پیش کیا جس سے لوگوں نے یہ نتیجہ نکالا کہ ان کا یہ فون کراچی میں ملنے والے نقشوں کی وجہ سے آیا۔ جبکہ قرائن سے یہ بالکل غلط دکھائی دے رہا ہے اور یہ فون برگیڈیئر آصف ہارون کی پریس کانفرنس کے بعد کیا گیا اور اسکی وجہ کراچی سے ملنے والے کوئی نقشے نہیں تھے۔
11۔ رینجرز کے سابق ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل (ر) صفدر علی خان

جاری ہے۔.....
 

راشد احمد

محفلین
کیا ایم کیوایم والے انوکھے مہاجر ہیں۔ پنجاب میں مہاجر سندھ سے کہیں زیادہ ہیں

پاکستان کو بنے 63 سال ہوچکے ہیں اس لئے ایم کیو ایم کو مہاجر لفظ سے اجتناب کرنا چاہئے
 

مہوش علی

لائبریرین
گذشتہ سے پیوستہ
11۔ رینجرز کے سابق ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل (ر) صفدر علی خان

ایک بیان میجر جنرل (ر) صفدر علی خان صاحب کا بھی آیا ہے:
لاہور (خبر نگار + مانیٹرنگ سیل) رینجرز کے سابق ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل (ر) صفدر علی خان نے کہا ہے کہ جناح پور کے نقشے ایک ریڈ کے دوران برآمد ہوئے تھے اور بعدازاں سیاسی دباؤ پر ان کی تردید کر دی گئی تھی۔ [پوری خبر]
جنرل (ر) صفدر علی خان صاحب کا یہ بیان بہت مبہم اور بہت سی الجھنیں لیے ہوئے ہے کیونکہ:

  • پوری خبر پڑھ لیجئے اور اس میں جنرل صاحب سوائے اس ایک لائن کے جملے کے جناح پور کے ان نقشوں کے متعلق کوئی تفصیل نہیں دیتے، بلکہ بقیہ پوری خبر میں ڈاکوؤں اور دوسری دوسری چیزوں کے متعلق بات کرنے لگتے ہیں۔
  • صفدر صاحب کے بیان سے یہ بات مکمل واضح نہیں کہ وہ کراچی سے نقشے ملنے کی بات کر رہے ہیں یا کوٹری سے نقشے ملنے کی بات کر رہے ہیں۔
  • صفدر صاحب کو یہ بھی واضح کرنا چاہیے کہ 1992 کے اُس آپریشن کے دوران انکا رینک کیا تھا، اُن کی پوسٹگ کہاں تھی۔
  • صفدر صاحب کو یہ بات بھی واضح بتانا ہو گی کہ ان نقشوں کی برآمدگی کی خبر ان تک کس شخص نے کیسے پہنچائی۔ یہ کیسے ممکن ہوا کہ جن نقشوں کے متعلق آئی ایس آئی کے چیف جنرل اسد درانی کو اس وقت علم ہوتا ہے اور نہ 18 سال بعد، جن نقشوں کا کراچی ہیڈ کوارٹر کسی کو علم ہوتا ہے، جن نقشوں کا سندھ کور کمانڈر جنرل نصیر اختر علم نہیں ہوتا، جن نقشوں کا آئی ایس پی آر کے سربراہ اور سینئر آفیسز کو علم نہیں ہوتا ، اور جی ایچ کو ایک مہینہ گذر جانے کے بعد جس کا کبھی علم نہیں ہو پاتا، اس کا علم صفدر صاحب کو ہو جاتا ہے؟
    چنانچہ اب یہ سوال تو اٹھے گا نا کہ صفدر صاحب کو کس نے اور کب یہ خبر پہنچائی۔
  • پھر صفدر صاحب دعوی کرتے ہیں کہ سیاسی دباؤ کی وجہ سے یہ الزام واپس لے لیا گیا۔
    تو صفدر صاحب ایک بار پھر 1992 میں اپنا رینک اور پوسٹنگ کی جگہ واضح کریں۔ صفدر صاحب کا تعلق رہا ہے رینجرز سے۔ انہیں جی ایچ کیو کے حالات کی خبر کیسے ہوئی؟ انہیں کیسے پتا چلا کہ چیف آف آرمی سٹاف جنرل آصف نواز جنجوعہ اور پورا جی ایچ کیو کسی قسم کے سیاسی دباؤ میں آ کر انڈین را کے ان ایجنٹوں کو تحفظ فراہم کر رہا ہے؟ قیاس آرائیاں الگ بات ہے، مگر ثبوت الگ چیز۔
  • یہ بات ثابت شدہ ہے کہ 19 جون سے لیکر 17 جولائی تک کوئی سیاسی دباؤ سرے سے ہی نہیں تھا۔ یہ تو 18 جولائی کو سیاسی قیادت کو پہلی مرتبہ جناح پور نقشوں کا علم ہوتا ہے۔ تو کیا وجہ ہے کہ اس پورے عرصے 19 جون تک 17 جولائی تک کراچی سے ملنے والے ان نقشوں کے متعلق ایک بھی لفظ کہیں سننے میں نہیں آتا؟ کراچی ہیڈ کوارٹر، آئی ایس آئی، سندھ کور کمانڈر آفس، آئی بی، آئی ایس پی آر، جنرل جمشید ملک، آصف نواز جنجوعہ، برگیڈیئر آصف ہارون، ۔۔۔۔ ان میں سے کسی کو بھی 17 جولائی تک کراچی سے ملنے والے نقشوں کا ذرہ برابر بھی علم نہیں۔ بلکہ اسکے بعد بھی ان میں سے کسی ایک نے بھی کراچی سے نقشے ملنے کی پچھلے 18 سالوں میں ایک بار بھی تصدیق نہیں کی بلکہ یہی کہہ رہے ہیں کہ انہیں کچھ علم نہیں۔ پورا جی ایچ کیو 19 اکتوبر کو بالکل صاف طریقے سے واضح کرتا ہے کہ اسکے پاس کوئی نقشے موجود نہیں ہیں۔
تو جب تک صفدر صاحب ان سوالات کے واضح جواب نہیں دیتے اُس وقت تک کیسے انکے ایک لائن کے مبہم بیان سے کوئی نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے؟ ہم ندیم ڈار صاحب کے اس دعوے کا حال اوپر دیکھ چکے ہیں کہ انہوں نے بذات خود جناح پور کے نقشے برگیڈیئر (ر) آصف ہارون اور میجر جنرل (ر) نصیر اختر کے حوالے کیے۔ پھر ہم برگیڈیئر (ر) صولت رضا کے متعلق بھی دیکھ چکے ہیں کہ انہوں نے کیسے ندیم ڈار صاحب کی کہانی کو بنیاد بناتے ہوئے اپنی کہانی بنانے کی کوشش کی۔
عدالت میں کب تک ایک شخص قصوروار نہیں؟

آخر میں ایک اصول:
کسی بھی عدالت میں ہر وہ شخص اُس وقت تک بے قصور ہوتا ہے جبتک اُس پر الزام مکمل ثبوتوں اور دلائل کے ساتھ ثابت نہ ہو جائے۔ یہ سوال اب پاکستان کی عوام کے سامنے ہے کہ کیا متحدہ پر جناح پور سازش اور انڈین را کے ایجنٹ ہونے کے متعلق کیا ثبوت اور دلائل مکمل طور پر عدالت میں پیش کیے جا چکے ہیں؟ کیا اُن پر جرح مکمل ہو چکی ہے؟ کیا متحدہ کو اپنی صفائی بیان کرنے کا پورا موقع فراہم کیا جا چکا ہے؟ کیا انصاف کے یہ سب تقاضے پورے کئے جا چکے ہیں؟
پچھلے 18 سال میں ان میں سے ایک بھی انصاف کا تقاضہ پورا نہیں کیا گیا، بلکہ 18 سال تک متحدہ کے خلاف بھرپور پروپیگنڈہ ہے تو وہ صرف اور صرف ملک غدار انڈین را کے ایجنٹ ہونے کا ہے۔
کیا ظلم ہے کہ ملک کی اتنی بڑی آبادی کو یوں ملک غدار ثابت کیا جاتا ہے، اور اب جب حقیقت واضح ہونے چلی ہے تو اب بھی بھرپور کوشش کی جا رہی ہے کہ شکوک کے بادلوں کو پھر سے ایسے پھیلا دیا جائے کہ جس کی آڑ میں یہ پروپیگنڈہ کسی نہ کسی طرح جاری و ساری رہ سکے۔
اے قوم والو!
بہت لازمی ہے کہ عمران خان اور جماعت اسلامی اور وہ دیگر تمام پارٹیاں جو متحدہ پر بنا کسی ثبوت کے ملک غدار اور جناح پور کا نان سٹاپ الزام لگاتی رہی ہیں، وہ اپنے یہ الزامات اور اپنے الفاظ واپس لینے کا واضح طور پر اعلان کریں اور اس میں تسلیم کریں کہ متحدہ ایسے ہیں محب وطن ہے جیسا کوئی پاکستانی ہو سکتا ہے۔
پاکستان زندہ باد۔
 

مہوش علی

لائبریرین
میجر (ر) ندیم کی وجہ سے اب بہت سے لوگ احمدی کمیونٹی کے لاکھوں پاکستانی شہریوں پر ملک غداری اور سازشی ہونے کا الزام لگا رہے ہیں۔
یہ انتہائی غلط بات ہے۔ ہمیں میجر (ر) ندیم سے اختلاف ہے تو فقط انکی ذات تک، اور اس میں دیگر لاکھوں پاکستانی احمدی ہرگز شامل نہیں ہیں اور وہ ایسے ہی اور اتنے ہی پاکستانی ہیں جتنا کہ آپ اور ہم۔
پوری احمدی پاکستانی کمیونٹی کو پاکستان غدار بنا کر انکے خلاف زہر گھولنے کی سب سے بڑی مثال یہاں پر ہے جب حامد میر صاحب ایک بوڑھے جرنیل صاحب (جنہیں انہوں نے بے نام رکھا ہے) کے حوالے سے اپنے کالم میں لکھتے ہیں:

اس نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایک ٹی وی چینل پر ایک ریٹائرڈ بریگیڈئر کہتاہے کہ 1992 میں ایم کیو ایم نے کراچی کو جناح پور بنانے کی کوئی سازش نہیں کی تھی لیکن دوسرے ٹی وی چینل پر ایک ریٹائرڈ میجر کہتا ہے کہ 1992 میں ایم کیو ایم کے دفاتر سے جناح پور کے نقشے خود اس نے ہزاروں کی تعداد میں برآمد کئے۔ بوڑھے جرنیل نے طنزیہ انداز میں کہا کہ تم میڈیا والے یہ کیوں نہیں بتاتے کہ 1992 میں ایک غیر ملکی سازش کے تحت پہلے ایم کیو ایم کو وفاقی حکومت سے لڑایا گیا اور پھر وفاقی حکومت کو آرمی چیف سے لڑایا گیا۔
اس نے کہا کہ 1992 کے آپریشن میں ایم کیو ایم کے مراکز سے جناح پور کے نقشے برآمد کرنے والا میجر ندیم احمد ڈار دراصل احمدی تھا۔ وہ بظاہر تو ایم کیو ایم کا مخالف نظر آتا تھا لیکن حقیقت میں وہ کراچی کو خانہ جنگی کی طرف دھکیلنے کی سازش کا حصہ تھا، غیرقانونی سرگرمیوں کی وجہ سے اس کا کورٹ مارشل ہوا اور بعد ازاں احمدی ہونے کی وجہ سے اس نے ناروے میں سیاسی پناہ حاصل کر لی۔


یہ الفاظ چاہے کسی نے بھی کہے ہوں مگر حامد میر صاحب کو یہ الفاظ شائع نہیں کرنے چاہیے تھے اور نہ لاکھوں پاکستانی احمدیوں پر یوں پاکستان غدار ہونے کا الزام لگانا چاہیے تھا۔
اگر میجر (ر) ندیم ڈار غلط بیانی سے کام لے بھی رہے ہیں تب بھی یہ معاملہ انہی تک رکھنا چاہیے اور دیگر معصوموں کو اس میں نہیں گھسیٹا چاہیے۔ اور ندیم ڈار صاحب کو تو آپ نے احمدیت کا طعنہ دے دیا، مگر آپ عمران خان اور منور حسن وغیرہ جیسے لوگوں کا کیا کریں گے جو بغیر کسی ثبوت کے اور جی ایچ کیو کی واضح تردید کے متحدہ کے خلاف پچھلے 18 سال سے نان سٹاپ جھوٹے سازشی پروپیگنڈے کرتے آ رہے ہیں کہ یہ ملک غدار جناح پور کی سازش کرنے والی جماعت ہے؟ اب عمران خان اور منور حسن وغیرہ تو احمدی نہیں بلکہ اپنے ہیں، تو پھر جب یہ کراچی کو خانہ جنگی کی طرف دھکیلنے کی کوشش کر رہے ہیں تو انکو کیا کہا جائے؟
انصاف سب کے لیے برابر ہوتا ہے۔


مزید حامد میر صاحب نے ان بوڑھے جنرل صاحب کے متعلق لکھا ہے کہ 1992 میں یہ جنرل آصف نواز جنجوعہ کے دست راست تھے اور براہ راست آپریشن کی نگرانی کر رہے تھے۔ تو سب سے پہلے ان جنرل صاحب سے سوال ہے کہ پچھلے 18 سال سے متحدہ پر جناح پور کے الزامات لگا کر کراچی کو خانہ جنگی کی طرف کھینچا جاتا رہا [کم از کم 1999 تک]، مگر آپ نے سب کچھ جانتے بوجھتے بھی یہ سازش جاری رہنے دی اور ان الزام لگانے والوں کی تردید نہیں کی؟ اگر یہ الزام لگانے والے نان سٹاپ افتراء پرادازی کی سازش کر کے خانہ جنگی پیدا کرنا چاہتے تھے تو اگر جنرل صاحب محب وطن تھے تو انہیں بھی نان سٹاپ انکی تردید کرنی چاہیے تھی۔

یہ بوڑھے جنرل صاحب کیوں اپنی گواہی چھپائے چھپائے قبر تک جانا چاہتے ہیں؟ کیا آفت ہے کہ ملک کے لاکھوں کی مہاجر آبادی پر ملک توڑنے کا الزام لگتا رہا، اسی بہانے کو آڑ بنا کر 1992 سے لیکر 1999 تک مہاجر خون بہتا رہا اور جنرل صاحب کراچی میں جس خانہ جنگی کا رونا رو رہے ہیں، وہی خانہ جنگی چھڑی رہی مگر جنرل صاحب خاموش؟
 

محسن حجازی

محفلین
چلیئے باقی تو ٹھیک لیکن ایک ذہنی مریض کو قائد ماننے والے کون ہیں؟
متحدہ کے ساتھ مزید آپریشن باقی ہے اگر کوئی مضبوط اور اصل حکومت آئی تو وہ متحدہ کا کیڑے مکوڑوں کی طرح خاتمہ کر دے گی کیونکہ یہ سندھی نیشنل ازم کے خلاف ایجنسیوں کا لگایا ہوا بے ثمر پودا ہے جو شاید تلف کر دیا جائے گا۔
 

کاشفی

محفلین
ایجنسی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔:grin: ۔۔ ۔۔ ایسی ایجنسی جس نے ملک کے ٹکڑے کر دیئے ۔۔ وہ اردو بولنے والوں کو ختم کرے۔۔۔۔۔۔۔ ناممکن ۔۔۔۔۔۔۔امپاسیبل۔۔۔۔
 

کاشفی

محفلین
کراچی والوں کے خلاف اردو بولنے کے خلاف آپریشن کا شوق پورا کریں۔۔۔۔۔۔۔ اللہ رب العزت اسی دنیا میں مزا چکھا دے گا انشاء اللہ پہلے ہونے والے آپریشنوں کی طرح۔۔ جن لوگوں نے اردو بولنے والوں کی نسل کشی کی تھی۔۔۔۔۔۔آج وہی لوگ اپنے ہی لوگوں کی نسل کشی کرنے میں مصروف عمل ہیں۔۔۔۔ اللہ کی لاٹھی بے آواز ہے۔۔۔
جن لوگوں نے کراچی میں نفرت کی آگ لگائی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ نفرت کی آگ اب پورے ملک میں پھیل چکی ہے۔۔۔۔

اردو بولنے والے کسی سے تعصب نہیں کرتے۔۔ پنجابی سندھی بلوچی پختوں کشمیری سرائیکی سب انسان ہیں ۔۔اللہ کی مخلوق میں سے ہیں۔۔۔ ہم بھی مسلمان ہیں ۔۔۔ہم سے تعصب پسندی اور نفرت کرنا چھوڑ دو۔۔۔۔۔۔۔۔ ورنہ اسی نفرت کی آگ میں جل جل کر بھسم ہو جاؤ گے سب۔۔۔۔
 
Top