کاشفی
محفلین
غزل
(مہاراجہ بہادر سر کِشن پرشاد)
جام اک بھر کے دے اے پیرِخرابات مجھے
کر دے اب بہرِ خدا مستِ مے ذات مجھے
محو فی الذّات ہیں، خورشید سے نسبت ہے انہیں
نظر آتے ہیں جو اُڑتے ہوئے ذرّات مجھے
یار بر میں ہے، اِدھر جام لئے ہے ساقی
کس لئے راس نہ آئے گی یہ برسات مجھے
واعظا پندونصیحت یہ کِسے کرتا ہے
دل لگے جس سے سُنا ایسی کوئی بات مجھے
چشمِ موسیٰ یہی کہتی ہے کہ اے جلوہء طور
یاد اب تک ہے وہ اندازِ ملاقات مجھے
ذکر میرا وہ کیا کرتے ہیں کس خوبی سے
بھری محفل میں سُنا دیتے ہیں صلوات مجھے
زُلف اور رُخ کے تصور میں گذرتی ہے مری
جی بہلنے کا یہی شُغل ہے دن رات مجھے
رند مشرب ہوں، نہیں زہد و عبادت سے غرض
شاد آتی نہیں پابندیِ اوقات مجھے