جام اک بھر کے دے اے پیرِخرابات مجھے - مہاراجہ بہادر سر کِشن پرشاد

کاشفی

محفلین
غزل
(مہاراجہ بہادر سر کِشن پرشاد)
جام اک بھر کے دے اے پیرِخرابات مجھے
کر دے اب بہرِ خدا مستِ مے ذات مجھے
محو فی الذّات ہیں، خورشید سے نسبت ہے انہیں
نظر آتے ہیں جو اُڑتے ہوئے ذرّات مجھے
یار بر میں ہے، اِدھر جام لئے ہے ساقی
کس لئے راس نہ آئے گی یہ برسات مجھے
واعظا پندونصیحت یہ کِسے کرتا ہے
دل لگے جس سے سُنا ایسی کوئی بات مجھے
چشمِ موسیٰ یہی کہتی ہے کہ اے جلوہء طور
یاد اب تک ہے وہ اندازِ ملاقات مجھے
ذکر میرا وہ کیا کرتے ہیں کس خوبی سے
بھری محفل میں سُنا دیتے ہیں صلوات مجھے
زُلف اور رُخ کے تصور میں گذرتی ہے مری
جی بہلنے کا یہی شُغل ہے دن رات مجھے
رند مشرب ہوں، نہیں زہد و عبادت سے غرض
شاد آتی نہیں پابندیِ اوقات مجھے
 

شمشاد

لائبریرین
کاشفی بھائی آپ کا شکریہ۔

محونی الذّات ہیں، خورشید سے نسبت ہے انہیں
نظر آتے ہیں جو اُڑتے ہوئے ذرّات مجھے
یار بر میں ہے، اِدھر جام لئے ہے ساقی
کس لئے راس نہ آئے گی یہ برسات مجھے
محونی الذات کا کیا مطلب ہے؟
یار بر میں ہے، اس کا کیا مطلب ہے؟
 

الف عین

لائبریرین
کاشفی بھائی آپ کا شکریہ۔
محونی الذات کا کیا مطلب ہے؟
یار بر میں ہے، اس کا کیا مطلب ہے؟
یہ محو فی الذات ہونا چاہئے۔
’یاربر‘ سمجھ میں نہیں آیا۔
یہ بتا دوں کہ کشن پرشاد شاد نظام حیدر آباد کے وزیر اعظم تھے۔
 

کاشفی

محفلین
غزل کی پسندیدگی کےلیئے تمام احباب کا بیحد شکریہ ۔۔ خوش رہیئے۔۔

Shad.jpg
 

حسان خان

لائبریرین
یار بر میں ہے۔۔۔۔۔۔ میرے خیال سے اس کا مطلب یہ ہے کہ یار سینے سے لگا ہوا ہے، کیونکہ بر تو سینے کو کہتے ہیں۔
 

حسان خان

لائبریرین
لغت کے مطابق 'در بر داشتن' فارسی محاورہ ہے جس کا مطلب ہے کسی کا آغوش یا بغل میں ہونا۔ یہاں اسی فارسی محاورہ کا اردو ترجمہ کیا گیا ہے۔
 

طارق شاہ

محفلین
واعظا پندونصیحت یہ کِسے کرتا ہے
دل لگے جس سے سُنا ایسی کوئی بات مجھے
کیا کہنے صاحب !
کاشفی صاحب بہت خوب رہی آپ کی یہ پیش کردہ غزل، بہت لطف دیا
بہت سی داد قبول کیجئے
تشکّر
"بر" (فارسی )، کےلغوی معنی ہیں آغوش، بغل ۔۔ بشرط تنہا لکھا جائے، تو
اور فارسی شعراء نے بر بمعنی نوجوان عورت بھی کہا ہے

اگریہ کسی اور لفظ کے وصل میں ہو ، یا ما قبل تو یہ مُتَّصِل لفظ کے معنی کو ہی واضح کرتا ہے یا تقویت دیتا ہے
زیادہ تر کسی لفظ سے قبل آنے پریہ اردو کے " پر "کا مفہوم دیتا ہے
مہاراجہ صاحب کی اس غزل میں یہ بغل کے معنی میں ہی لکھا گیا ہے
بر=بغل
بر= پر

دونوں"بر" کا استعمال اس شعر میں دیکھئے، پہلے مصرع میں آغوش یا بغل
جبکہ دوسرے مصرع میں "بر " بمعنی پر کے ہیں
فرق است میان آنکہ یارش در بر
وآنکہ در چشم انتظارش بر در
فرق ہے ان میں، کہ یار آغوش میں ہو
یا آنکھیں انتظار میں دروازہ پر لگی ہوں
تشکّر
کاشفی صاحب ایک بار پھر سے بہت سی داد
خیراندیش
 
Top