تکلف برطرف ہوگا خطاب آہستہ آہستہ

تکلف برطرف ہوگا خطاب آہستہ آہستہ
اُٹھے گا ان کے چہرے سے نقاب آہستہ آہستہ

ہمیں مدہوش کردے گا شباب آہستہ آہستہ
دِکھاتی ہے اثر اپنا شراب آہستہ آہستہ

نہیں اب تاب اِس دل میں کوئی بھی درد سہنے کی
ستم صد شوق سے لیکن جناب آہستہ آہستہ

تکلف ہے، حیا ہے، یا مرے دلبر کی عادت ہے
نگاہیں ہیں زمیں پر اور خطاب آہستہ آہستہ

ہوئی محتاط سے انداز میں یوں گفتگو اپنی
سوال آہستہ آہستہ جواب آہستہ آہستہ

غضب یہ ہے کہ ہر سطرِ ورق میں نام اس کا ہے
لگی کھُلنے غمِ دل کی کتاب آہستہ آہستہ

جسے اہلِ چمن شبنم سمجھتے ہیں، حقیقت میں
غمِ راجا پہ روتے ہیں گلاب آہستہ آہستہ
 

امر شہزاد

محفلین
ہوئی محتاط سے انداز میں یوں گفتگو اپنی
سوال آہستہ آہستہ جواب آہستہ آہستہ
واہ

ایک شعر یاد آیا

سوال وصل پر ان کو عدو کا خوف ہے اتنا
دبے ہونٹوں سے دیتے ہیں جواب آہستہ آہستہ
 
بلا تمہید ۔۔۔۔۔۔

تکلف برطرف ہوگا خطاب آہستہ آہستہ​
اُٹھے گا ان کے چہرے سے نقاب آہستہ آہستہ​

پوری غزل کے تناظر میں مطلع کمزور ہے، خاص طور پر پہلا مصرع۔ بجا کہ اس انداز کی ردیفوں میں مطلع کہنا واقعی مشکل ہوتا ہے، تاہم مطلع کو حقیقی معانی میں مطلع (اٹھان) کا کام کرنا چاہئے، نہ کہ ۔۔۔۔۔

آگے چلتے ہیں۔
 
غضب یہ ہے کہ ہر سطرِ ورق میں نام اس کا ہے​
لگی کھُلنے غمِ دل کی کتاب آہستہ آہستہ​

اس کو غلطی یا خامی کا نام تو نہیں دیا جا سکتا، تاہم ’’ہر سطرِ ورق‘‘ وہ جسے کہتے ہیں حلق سے نہیں اتر رہا۔ اس میں لطافت اور ملائمت لا سکیں تو بہت خوبصورت شعر بنے گا۔
 
Top