امجد علی راجا
محفلین
تکلف برطرف ہوگا خطاب آہستہ آہستہ
اُٹھے گا ان کے چہرے سے نقاب آہستہ آہستہ
ہمیں مدہوش کردے گا شباب آہستہ آہستہ
دِکھاتی ہے اثر اپنا شراب آہستہ آہستہ
نہیں اب تاب اِس دل میں کوئی بھی درد سہنے کی
ستم صد شوق سے لیکن جناب آہستہ آہستہ
تکلف ہے، حیا ہے، یا مرے دلبر کی عادت ہے
نگاہیں ہیں زمیں پر اور خطاب آہستہ آہستہ
ہوئی محتاط سے انداز میں یوں گفتگو اپنی
سوال آہستہ آہستہ جواب آہستہ آہستہ
غضب یہ ہے کہ ہر سطرِ ورق میں نام اس کا ہے
لگی کھُلنے غمِ دل کی کتاب آہستہ آہستہ
جسے اہلِ چمن شبنم سمجھتے ہیں، حقیقت میں
غمِ راجا پہ روتے ہیں گلاب آہستہ آہستہ
اُٹھے گا ان کے چہرے سے نقاب آہستہ آہستہ
ہمیں مدہوش کردے گا شباب آہستہ آہستہ
دِکھاتی ہے اثر اپنا شراب آہستہ آہستہ
نہیں اب تاب اِس دل میں کوئی بھی درد سہنے کی
ستم صد شوق سے لیکن جناب آہستہ آہستہ
تکلف ہے، حیا ہے، یا مرے دلبر کی عادت ہے
نگاہیں ہیں زمیں پر اور خطاب آہستہ آہستہ
ہوئی محتاط سے انداز میں یوں گفتگو اپنی
سوال آہستہ آہستہ جواب آہستہ آہستہ
غضب یہ ہے کہ ہر سطرِ ورق میں نام اس کا ہے
لگی کھُلنے غمِ دل کی کتاب آہستہ آہستہ
جسے اہلِ چمن شبنم سمجھتے ہیں، حقیقت میں
غمِ راجا پہ روتے ہیں گلاب آہستہ آہستہ