بے پر کی

برادرم حاتم راجپوت صبح ہم عجلت میں تھے اس لیے تبصرہ نہ کر سکے۔ بخدا کیا ہی دلچسپ لکھا ہے، لطف آ گیا۔ کیا ہی اچھا ہوتا جو اسے علیحدہ لڑی میں ارسال کرتے کہ زیادہ محفلین تک اس کی رسائی ہوتی۔ اس لڑی میں مراسلوں کی ریڈر شپ محدود ہوتی ہے۔ :) :) :)
 

حاتم راجپوت

لائبریرین
برادرم حاتم راجپوت صبح ہم عجلت میں تھے اس لیے تبصرہ نہ کر سکے۔ بخدا کیا ہی دلچسپ لکھا ہے، لطف آ گیا۔ کیا ہی اچھا ہوتا جو اسے علیحدہ لڑی میں ارسال کرتے کہ زیادہ محفلین تک اس کی رسائی ہوتی۔ اس لڑی میں مراسلوں کی ریڈر شپ محدود ہوتی ہے۔ :) :) :)
پسندیدگی کا شکریہ سعود بھیا۔ :)
آپ کا کہا سر آنکھوں پر۔ ابھی ایک نئی لڑی بنا ڈالتے ہیں :):):)
روایتی لالچ اور کچھ زیادہ ہی بری بلا۔ لیجئے بنا ڈالی :)
 

ماہی احمد

لائبریرین
ایک دفعہ کا ذکر ہے اور یاد رکھیے کہ ذکر بس ایک دفعہ ہی کا ہوتا ہے ، دو دفعہ کا ذکر کبھی نہیں ہو سکتا کیونکہ ایسا ذکر جو دو دفعہ ہو جائے تو وہ دفعہ نہیں بلکہ دفع ہو جاتا ہے۔ جی تو ذکر ہے اس رات کا جب بجلیاں کڑک رہی تھیں اور طوفانِ بدتمیزی برپا تھا کہ ایک کتے کو جو کہ بھوکا تھا ایک گوشت کا ٹکڑا ملا ۔کہاں سے ملا یہ نہ پوچھیے گا بس مل گیا کہیں نہ کہیں سے۔اگر کہانی سن کر سوچنا ہی ہے تو پھر تو یہ بھی ہے کہ آخر اس کہانی کے کتے کو ایک ہی ٹکڑا کیوں ملتا ہے ؟ دو کیوں نہیں ملتے۔ بہرکیف بات ہو رہی تھی گوشت کے ٹکڑے کی ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ یار ایک منٹ۔۔۔ ۔۔ مجھے سوچنے دیں۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔کیا واقعی گوشت کے ٹکڑے ہی کی بات تھی ۔۔۔ !!
ہاں یاد آ گیا، بلکہ یاد کیا آنا ہے یہ سامنے ہی تو لکھا پڑا ہے کہ بات کتے کی ہو رہی تھی ۔ حد کرتے ہیں آپ بھی میری لکھی ہر بات پر ایمان لے آتے ہیں۔ لاحول ولا
جی تو ٹکڑا تو اسے مل گیا تو وہ شاداں و فرحاں کتا ٹکڑا منہ میں دابے ۔۔۔ ۔ جی ہاں منہ میں دابے۔۔۔ ۔ انسان ہوتا تو پلاسٹک بیگ میں ڈالتا اور ماحولیاتی آلودگی کا باعث بنتا۔۔۔ آپ کی طرح ،میری طرح۔۔۔ میری۔۔۔ !!
ہیں۔۔۔ ۔۔!! یہ میں خود کو گھور گھور کے کیوں دیکھنے لگ گیا ہوں۔۔۔ ۔۔ اہہم ۔۔۔ یہ آپ کیا تلاشنے لگ گئے، بے وقت کی تحقیق کوئی اچھی بات نہیں۔۔ وقت کا ضیاع ہے، جنرل ضیا کا ذکر بیچ میں یوں در آیا کیونکہ۔۔۔ کیونکہ۔۔۔ پتا نہیں کیوں در آیا۔۔ اب ہر ایک بات کا تو مجھے بھی نہیں پتا نا۔ آپ کے پاس بھی تو خالی سر ہے نا۔ تو مفید مشورہ یہ ہے کہ اسے بھرنے کی کوشش کیجئے، جو ہاتھ میں آئے وہی اندر ٹھونس ڈالیے۔ روئی، دھاگا، حلیم،بالو شاہی، ریڈیو، گلاس، لکڑی،تربوز،کپڑے دھونے والا صابن غرض یہ کہ جو چیز ہاتھ آئے اسے خوب ٹھونس ٹھونس کر بھر دیجئے اور پھر بالوں میں پونیاں اور کانوں میں بالیاں پہن کر تالیاں بجائیے۔
لیکن رک جائیے۔ اوہو بھئی پڑھنا بند نہ کیجئے ۔یہ جو آپ بچوں کی طرح تالیاں بجا رہے ہیں اسے روکئے۔ اب کھسیانا ہو کر کیا نوچنے لگے۔ !!! ارے۔۔۔ !! کہاں غائب ہیں !! کدھر گئے ۔۔۔ ۔!!
ہاں ۔۔۔ یہ رہے۔ کھسیانے پن کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔ چلئے پلنگ کے نیچے سے باہر آئیے۔۔ اور بقیہ کہانی سنئے۔۔ وعدہ رہا کہ اب بے سر و پا باتیں نہیں کروں گا۔۔۔ ہاں۔۔۔ !! بالکل!! شاباش !!
تو جناب وہ کتا اس ٹکڑے کو منہ میں دابے شاداں و فرحاں بڑی خندہ پیشانی سے خراماں خراماں چلا آرہا تھا کہ ایک پل پر سے گزرا۔۔ پل سے نیچے اس نظر جو پڑی تو کیا دیکھتا ہے کہ ایک اور کتا بھی منہ میں گوشت کا وہی روایتی ایک ٹکڑا پکڑے اس کی طرف دیکھ رہا ہے۔ بس جی پھر کیا تھا، کتا جی کے ذہن میں شیطانی آئی اور دل میں لالچ ۔۔۔ انہوں نے پاؤں پسارے اور باقاعدہ پوز بنا کر سوچنا شروع کیا کہ کیوں نہ میں وہ ٹکڑا بھی حاصل کر لوں تو میرے پاس دو روایتی ٹکڑے آ جائیں گے اور میری کہانی کی روایت بھی دہری ہو جائے گی مطلب کہ ڈبل فیم، اور شہرت۔۔۔ یکایک ان کے ذہن میں خیال آیا کہ کہیں دوسرے والا کتا رفو چکر نہ ہو گیا ہو اور اس طرح تو ان کے خوابوں کی فلموں والی تعبیر حاصل نہیں ہو پائے گی، انہوں نے نیچے نگاہ جو ڈالی تو اطمینان ہوا کہ دوسرا کتا ابھی وہیں موجود تھا اور اوپر ہی دیکھ رہا تھا۔ بے وقوف کہیں کا ۔۔۔ کتا جی ایک شیطانی مسکراہٹ سے مسکرائے۔
انہوں نے اپنے خیالی پر تولے اور ساڑھے بارہ کلو وزن کو اپنی جیبی ڈائری میں لکھ لیا تا کہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام آئے۔ بس پھر جو زقند انہوں نے بھری ہے اور نیچے جو آئے ہیں تو نچلا کتا دیکھتے ہی دیکھتے سنگ ہی آرٹ کا مظاہرہ کرتے ہوئے سائڈ پر ہٹ گیا۔اور یہ دھڑام کر کے زمین سے آ ٹکرائے۔ تین چار پسلیاں کریک ہو گئیں ،حواس گم اور ہوا میں ٹانگیں چلانے لگے،خیالی پرندے ان کے گرداگرد چوکور چکر کاٹنے لگے۔ اپنے تئیں سرکار پانی میں تیر رہے تھے۔

یعنی کچھ سمجھ میں آیا ۔۔۔ !! یہ وہ کہانی نہیں تھی جس پر آپ ایک طنزیہ انداز میں ہلکا ہلکا مسکراتے ہوئے یہ ظاہر کرتے رہے کہ آپ نے دوسری تیسری جماعت میں پڑھی ہوئی ہے۔ یہ دنیا کی حقیقتیں ہیں بچو جی۔۔!!

دوسرا کتا طنزیہ انداز میں گھنی مونچھوں تلے مسکرایا۔۔ اصل میں اس نے یہ روایتی کہانی پڑھ رکھی تھی۔ یہ احتیاط سے آگے ہوا ،اپنے ٹکڑے کے ساتھ دوسرا روایتی ٹکڑا بھی منہ میں دابا۔۔خوشی اور مسرت سے اس کی آنکھیں چمک رہی تھیں،ایک الودعی نظر کیساتھ اس نے اس داستانِ اوم روایتی اوم کو پیار اور دلار سے دیکھا اور ٹھنڈی ہوا کے جھونکے کی طرح آگے بڑھ گیا۔ ۔ ۔ :)
ویسے میں سوچ رہی تھی کہ اسے یہاں کیوں نہ لکھا گیا۔۔۔ :)
 
وہ تو ابھی سے نہیں کر سکتے جی پہلے بھابھی کو تو لا لون اُس کے بعد ہی
ارے ہاں، یہ تو ہم نے سوچا بھی نہیں کہ ابھی راستے میں ایک عدد بھائی بھی کھڑے پائے جاتے ہیں۔ :) :) :)
تو پھر تبسم بٹیا کے کیا ارادے ہیں، روایتی نندوں کی طرح بھابھی سے سارے ناز اٹھوانے ہیں یا نہیں؟ :) :) :)
 
Top