ایک نئی غزل - نہ سِرا ملا ہے کوئی، نہ سُراغ زندگی کا

محمد وارث

لائبریرین
ایک تازہ غزل جس کا 'نزول' پرسوں ہوا سو لکھ رہا ہوں۔ عرض کیا ہے۔

نہ سرا ملا ہے کوئی، نہ سراغ زندگی کا
یہ ہے میری کوئی ہستی، کہ ہے داغ زندگی کا

یہی وصل کی حقیقت، یہی ہجر کی حقیقت
کوئی موت کی ہے پروا، نہ دماغ زندگی کا

یہ بھی خوب ہے تماشا، یہ بہار یہ خزاں کا
یہی موت کا ٹھکانہ، یہی باغ زندگی کا

یہ میں اُس کو پی رہا ہوں، کہ وہ مجھ کو پی رہا ہے
مرا ہم نفَس ازَل سے، ہے ایاغ زندگی کا

اسد اُس سے پھر تو کہنا، یہی بات اک پرانی
میں مسافرِ شبِ ہجر، تُو چراغ زندگی کا
 

آصف شفیع

محفلین
وارث صاحب! مبارک ہو۔ بہت عمدہ اشعار ہیں۔ ان شعروں میں موسیقیت بھی اور شعریت بھی۔
مقطع کا دوسرا مصرع مجھ سے پڑھا نہیں گیا۔ ( اعجاز صاحب نے بھی شاید اسی طرف اشارہ کیا ہے)۔
 

محمد وارث

لائبریرین
بہت شکریہ آصف صاحب، ذرہ نوازی ہے آپ کی محترم۔

مقطع کے دوسرے مصرعے کے متعلق میں بھی سمجھنے سے قاصر ہوں :)،

میں مسافرِ شبِ ہجر، تُو چراغ زندگی کا
 

مغزل

محفلین


نہ سرا ملا ہے کوئی، نہ سراغ زندگی کا
یہ ہے میری کوئی ہستی، کہ ہے داغ زندگی کا

یہی وصل کی حقیقت، یہی ہجر کی حقیقت
کوئی موت کی ہے پروا، نہ دماغ زندگی کا

یہ بھی خوب ہے تماشا، یہ بہار یہ خزاں کا
یہی موت کا ٹھکانہ، یہی باغ زندگی کا

یہ میں اُس کو پی رہا ہوں، کہ وہ مجھ کو پی رہا ہے
مرا ہم نفَس ازَل سے، ہے ایاغ زندگی کا

اسد اُس سے پھر تو کہنا، یہی بات اک پرانی
میں مسافرِ شبِ ہجر، تو چراغ زندگی کا

وارث صاحب ،
آداب آپ کی تازہ غزل نظر نواز ہوئی۔ ماشا اللہ ، سبحان اللہ۔ داد دینے کا سزاوار نہیں کہ ابھی طفلِ مکتب ہوں، میری جانب سے مباکباد قبول کیجے۔ مالک و مولیٰ سلامتی نصیب فرمائے ۔ سرِ مقطع شعر پر سوال کرنا چاہوں گا۔ امید ہے آپ اسے میرے کم علمی و جہالت پر معمول کیجے گا نہ کہ یہ کہ اسے گستاخی تصور کیا جائے ۔۔ اجاز ت ہو تو۔۔ بلکہ ’’ مقدور ہو تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو میں ‘‘ ۔۔ امید ہے آپ محبتوں سے کسبِ فیض کا موقع نصیب ہوگا۔ پیشگی شکریہ ۔ والسلام
 

مغزل

محفلین
ذرہ نوازی ہے آپ کی مغل صاحب، نوازش۔
ضرور کیجیئے سوال محترم!

بہت بہت شکریہ ، وارث صاحب ،
دراصل میں سمجھنا چاہ رہا تھا کہ :
یہ میں اُس کو پی رہا ہوں، کہ وہ مجھ کو پی رہا ہے
مرا ہم نفَس ازَل سے، ہے ایاغ زندگی کا
ایاغ پیالے کو ( شراب کے پیالے کی بھی تخصیص ہے ) کہتے ہیں۔
اور ہم پیالے’’ سے ‘‘ پیتے ہیں نہ کہ پیالے’’ کو ‘‘ پتیے ہیں۔۔ کہ آپ کے شعر کے مطابق ۔ ہم نفس آپ کو اور آپ ہم نفس کو ۔ گر پی رہے ہیں تو ’’ ہے ایاغ زندگی کا ‘‘ کیا محل ؟ ( واضح رہے کہ میں شعر میں ۔ ’’ میں ‘‘ ’’وہ ‘‘ کو استعارہ ہی لے رہا ہوں )
اگر شعر کی تفہیم یہ ہے کہ : زندگی کا پیالہ ہم نفس ہے تو۔ آپ اسے کیسے پی سکتے ہیں ، ( کیا اس سے پینا اور اور اسے پینا میں کوئی تفریق نہیں ؟) ۔۔ ہاں اس (دوسرے) حوالے سے پیالے کا ’’ آ پ ‘‘ ( استعارہ ) کو پینے کا عمل مجرد کو مشخص کرنے کا عمل ہے جو شعر ی اظہار میں اپنی ندرت آپ ہے ۔ امید ہے آپ مجھے اس مخمصے سے نکالیں گے ۔ کوئی حرف و نقطہ طبیعت پر گراں ہوں تو معاف کیجے گا۔ امید ہے آپ کی وضاحت میرے لیے تحصیلِ علم کے در وا کرے گی ۔ والسلام
 

محمد وارث

لائبریرین
شکریہ مغل صاحب، آپ صحیح پہنچے ہیں اس بات تک، گو بقول نوید صادق صاحب، شاعر اپنے شعر کی تشریح کرتا ہوا 'اچھا' نہیں لگتا لیکن بہرحال چونکہ آپ نے پوچھا تھا۔

'جام پینا' تو عام مستعمل ہے اور اسکا مطلب یہی ہوتا ہے کہ جام سے پینا۔

تفریق میں نے جان بوجھ کر کی ہے، 'وقت' (ایاغِ زندگی سے یہی مراد تھا) ہمارا ہم نفس تو ہے لیکن ظاہر ہے کہ میری ایک الگ پہچان بھی ہے، اسلیے 'اِس' کی بجائے 'اُس' اور 'یہ' کی جگہ 'وہ' استعمال کیے تھے۔
 

مغزل

محفلین
شکریہ مغل صاحب، آپ صحیح پہنچے ہیں اس بات تک، گو بقول نوید صادق صاحب، شاعر اپنے شعر کی تشریح کرتا ہوا 'اچھا' نہیں لگتا لیکن بہرحال چونکہ آپ نے پوچھا تھا۔ 'جام پینا' تو عام مستعمل ہے اور اسکا مطلب یہی ہوتا ہے کہ جام سے پینا۔
تفریق میں نے جان بوجھ کر کی ہے، 'وقت' (ایاغِ زندگی سے یہی مراد تھا) ہمارا ہم نفس تو ہے لیکن ظاہر ہے کہ میری ایک الگ پہچان بھی ہے، اسلیے 'اِس' کی بجائے 'اُس' اور 'یہ' کی جگہ 'وہ' استعمال کیے تھے۔


شکریہ وارث صاحب ،
یعنی میرے ذہن میں جو بات تھی اب اس کا اظہار بھی کردیا جائے کہ :’’ پیالے کو پینا ‘‘ ۔ دراصل مجازِ مرسل کی کیفیت ہے ’’ پیالے سے پینے کی ‘‘ ۔
بہت بہت شکریہ ، مہمیز کے لیے ، سدا سلامت رہیں ، والسلام
 

ایم اے راجا

محفلین
یہ میں اُس کو پی رہا ہوں، کہ وہ مجھ کو پی رہا ہے
مرا ہم نفَس ازَل سے، ہے ایاغ زندگی کا

اسد اُس سے پھر تو کہنا، یہی بات اک پرانی
میں مسافرِ شبِ ہجر، تو چراغ زندگی کا

واہ واہ لاجواب، پوری غزل ہی کمال ہے مگر مندرجہ بالا اشعار تو دل کو چھو گئے، جیسے ہماری ہی بات کہہ رہے ہوں:)
 

نایاب

لائبریرین
ایک تازہ غزل جس کا 'نزول' پرسوں ہوا سو لکھ رہا ہوں۔ عرض کیا ہے۔

نہ سرا ملا ہے کوئی، نہ سراغ زندگی کا
یہ ہے میری کوئی ہستی، کہ ہے داغ زندگی کا

یہی وصل کی حقیقت، یہی ہجر کی حقیقت
کوئی موت کی ہے پروا، نہ دماغ زندگی کا

یہ بھی خوب ہے تماشا، یہ بہار یہ خزاں کا
یہی موت کا ٹھکانہ، یہی باغ زندگی کا

یہ میں اُس کو پی رہا ہوں، کہ وہ مجھ کو پی رہا ہے
مرا ہم نفَس ازَل سے، ہے ایاغ زندگی کا

اسد اُس سے پھر تو کہنا، یہی بات اک پرانی
میں مسافرِ شبِ ہجر، تو چراغ زندگی کا

محترم محمد وارث بھائی
سدا سلامتی ہو آپ پر ۔
ماشااللہ
بہت خوب ۔
نہ سرا ملا ہے کوئی، نہ سراغ زندگی کا
یہ ہے میری کوئی ہستی، کہ ہے داغ زندگی کا

زبردست
اللہ کرے زور القا و آمد اور زیادہ ۔ آمین
نایاب
 
Top