سندباد
لائبریرین
جس کو اپنانے میں اک عرصہ لگا
اجنبی ہونے میں بس لمحہ لگا
لوگ تو پہلے سے تھے ناآشنا
آج آئینہ بھی بیگانہ لگا
اس لئے دل میں بلایا ہے تجھے
اپنا اپنا سا تیرا چہرہ لگا
ٹھیک ہے سب کچھ مگر اس کے بغیر
یہ جہاں مجھ کو تو ویرانہ لگا
سہمی سہمی جارہی ہے چاندنی
پیچھے پیچھے ہے وہی لڑکا لگا
سب کو دریا کے حوالہ کردیا
پھر کنارہ سے سفینہ آلگا
پہلے صحرا پر ہوا گھر کا گماں
رفتہ رفتہ گھر بھی اک صحرا لگا
کب اٹھالے ہاتھ سر سے آسماں
ہے زمیں کو رات دن دھڑکا لگا
اس قدر کھائے ہیں وعدوں سے فریب
اب ترا آنا بھی اک دھوکہ لگا
بارشوں کے بعد اُجلا آسماں
تیری آنکھوں میں بہت اچھا لگا
دیکھنے والوں کی حالت غیر ہے
اور ان آنکھوں میں مت سرمہ لگا
حسن ہو تو چاھنے والے بہت
عاشقوں کا ہے یہاں میلہ لگا
وہ جو پھولوں سے بھی نازک ہے اُسے
چومنے میں جان کا خطرہ لگا
چاندنی کے دیس سے آیا ہوا
اجنبی تھا وہ مگر اپنا لگا
اتنی آہیں اتنے آنسو چل بسے
اس محبت پر بڑا پیسہ لگا
عمر بھر کی ناتمامی کا صلہ
ہے یہ اُس کو دیکھ کے ایسا لگا
۔ ۔ ۔ ٭٭٭۔ ۔ ۔