ایک جانب چاندنی - احمد فواد

سندباد

لائبریرین


اس لڑکیوں کی بھیڑ میں لیلیٰ نہیں کوئی
مجنوں بہت ہیں شہر میں صحرا نہیں کوئی

ہاتھوں میں ہاتھ دے کے یہاں گھومتے ہیں یہ
اب زندگی سے موت کا جھگڑا نہیں کوئی

اب آپکی نگاہ کسی اور سمت ہے
اچھا ہے دل کے جانے کا خطرہ نہیں کوئی

کیا بات ہے وہ سارے دِوانے کدھر گئے
چرچا تمہارے حُسن کا کرتا نہیں کوئی

سب مہ رخوں سے میرا تعارف ہے کچھ نہ کچھ
اس شہر میں جناب سے اچھا نہیں کوئی

یوں گھوم پھر کے اور بھی ہو جاؤگے خراب
اس درد کا جہاں میں مداوا نہیں کوئی

دل کی کلی کھلے تویہاں کس طرح کھلے
اس شہر میں تو پھول بھی ہنستا نہیں کوئی

مشکل نہیں ہے اتنی سمندر سے بات چیت
اچھا یہ ہے کہ راہ میں دریا نہیں کوئی

کھیلیں ضرور آپ مگر احتیاط سے
دل ہے مرا حضور کھلونا نہیں کوئی

تجھ سے ملے تو سب سے ملاقات ہو گئی
ملنے کی اب کسی سے تمنا نہیں کوئی

یوں کیسے منہ اٹھائے چلے آرہے ہیں سب
یہ زندگی ہے کھیل تماشا نہیں کوئی

رکھنا خیال اس کا تمہارا یہ فرض ہے
دل کے مکاں میں اور تو رہتا نہیں کوئی

تیرے خلاف آج سے اعلانِ جنگ ہے
اب مجھ کو اس جہان کی پروا نہیں کوئی

رہتے ہو تم بھی سارے جہاں سے الگ تھلگ
میرا بھی اس جہاں میں ٹھکانہ نہیں کوئی

دنیا سے آج تک ہے بس اس بات پر گلہ
دنیا میں آج تک مجھے سمجھا نہیں کوئی

۔ ۔ ۔ ٭٭٭۔ ۔ ۔​
 

سندباد

لائبریرین

صحرا میں گھومنے کا مجھے یونہی شوق ہے
میں نے تمہارے عشق کا دعویٰ نہیں کیا

رہتی تھی اس میں ایک محبت کی کائنات
دل توڑ کے یہ آپ نے اچھا نہیں کیا

جاں دے کے اور ہو گئے ہم لوگ سرخرو
گھاٹے کے کاروبار میں گھاٹا نہیں کیا

دنیا تو مل رہی تھی یہاں کوڑیوں کے مول
ہم نے ہی اپنے عشق کا سودا نہیں کیا

اخبار میں نہ دی کبھی اس درد کی خبر
اس ظلم پر بھی آپکو رسوا نہیں کیا

اس دل کو داد دیجئے سمجھا نہیں تمہیں
ورنہ جناب آپ نے کیا،کیا نہیں کیا

بس حُسن کا غلام رہا ہوں تمام عمر
شاہوں کے سامنے کبھی سجدہ نہیں کیا

دنیا کو چھوڑنے کا سبب مختصر یہ ہے
جینا ترے بغیر گوارہ نہیں کیا

انصاف تو یہی ہے تجھے بھی سزا ملے
جب میں نے کوئی جرم بھی تنہا نہیں کیا

کاٹی ہے اس جہان میں مٹی کی قید بھی
ہم نے تری خوشی کے لئے کیا نہیں کیا

پھینکا ہے یہ اٹھا کے کہاں سے کہاں مجھے
اس پر بھی آپ سے کبھی شکوہ نہیں کیا

خود بھی تمہاری راہ میں جلتا رہا ہوں رات
تاروں سے میں نے صرف اجالا نہیں کیا

کیوں ہو رہا ہے مجھ سے یہاں ناروا سلوک
تو نے اگر مذاق میں پیدا نہیں کیا

زندہ ہے مجھ سے آج یہاں رسم عاشقی
ناکامیوں پہ دل کبھی چھوٹا نہیں کیا

مرضی تھی دل کی اس لئے تجھ پر ہوئے نثار
ہم نے کسی کے کہنے پہ ایسا نہیں کیا

اب آپکی نگاہ میں جادو نہیں رہا
سچ کہہ دیا ہے آپ سے دھوکہ نہیں کیا

۔ ۔ ۔ ٭٭٭۔ ۔ ۔​
 

سندباد

لائبریرین


اداسیوں نے بنائے ہیں گھونسلے اس میں
مسرّتوں سے کبھی سر ہوا نہ دل کا درخت

بہار آئی کئی بار اس طرف لیکن
تمہاری یاد سے جانبر ہوا نہ دل کا درخت

تمہارے جاتے ہی وہ دور اس کا ختم ہوا
پھر اُس کے بعد تناور ہوا نہ دل کا درخت

خزاں سے اپنے تعلق پہ اس کو ناز رہا
کبھی بہار کا نوکر ہوا نہ دل کا درخت

وہ پتے زرد ہوئے سارے پھول مرجھائے
کسی خوشی کا کبھی گھر ہوا نہ دل کا درخت

جہاں جہاں بھی گھنے مال و زر کے جنگل ہیں
پھر اُس زمیں کا مقدّر ہوا نہ دل کا درخت

تمہارے بعد کئی موسموں نے کوشش کی
مگر وہ پھولوں کی چادر ہوا نہ دل کا درخت

یہ سب طیور اُسی کا کلام پڑھتے تھے
پھر اُس طرح سے سخنور ہوا نہ دل کا درخت

وہ پہلے پیار کی بارش عجیب بارش تھی
کسی سے ویسا مسخّر ہوا نہ دل کا درخت

۔ ۔ ۔ ٭٭٭۔ ۔ ۔​
 

سندباد

لائبریرین

(1)

وہ اس زمین پہ رہتی تھی آسماں کی طرح
کوئی نہیں ہے یہاں آج میری ماں کی طرح

اب آنسوؤں کی کتابیں کبھی نہ لکھوں گا
کہ ڈال دی ہے نئی نالہ و فغاں کی طرح

اُسی کے دم سے یہ مٹی کا گھر منور تھا
وہ جس کی قبر چمکتی ہے کہکشاں کی طرح

وہ خود بھی لڑتی تھی سورج سے روز میرے لئے
ہے اُس کی یاد بھی اک ابرِ مہرباں کی طرح

طویل رات کا مسکن جو آج لگتا ہے
یہی مکان تھا اک روز لامکاں کی طرح

اب اُس کی موت پہ خود موت بھی پریشاں ہے
کہ اس طرح سے پڑی عمر جاوداں کی طرح

جہاں کو آج بھی اُس کی بڑی ضرورت ہے
رہے گی اب وہ محبت کی داستاں کی طرح

ترس رہا ہوں میں پانی کی بوند بوند کو اب
حیات ہو گئی اک دشتِ بے اماں کی طرح

۔ ۔ ۔ ٭٭٭۔ ۔ ۔​
 

سندباد

لائبریرین

(2)
زمیں سے خوب لڑا آسماں سے کچھ نہ کہا
تمہاری موت پہ اللہ میاں سے کچھ نہ کہا

یہ زرد رنگ ہی تشہیر کا سبب ہوگا
خود اپنے منہ سے تو میں نے جہاں سے کچھ نہ کہا

سلوک غم سے مناسب میں اور کیا کرتا
خموش ہو گیا آہ و فغاں سے کچھ نہ کہا

تمہارے دکھ نے کیا کتنا سربلند مجھے
کہ جل کے راکھ ہوا لامکاں سے کچھ نہ کہا

مقابلہ کی سکت موت سے کسی میں نہ تھی
اسی لئے تو کبھی انس و جاں نے کچھ نہ کہا

فضا میں درد بکھیرا ہوا سے باتیں کیں
زیادہ اور تو کون و مکاں سے کچھ نہ کہا

بچارے اتنا بڑا بوجھ کیا اٹھا ئیں گے
یہ بات سوچ کے لفظ و بیاں سے کچھ نہ کہا

جدائی میرے لئے کس قدر کٹھن ہوگی
میں جانتا تھا مگر پھر بھی ماں سے کچھ نہ کہا

فریضہ سونپ کے آنکھوں کو رونے دھونے کا
پھر اُس کے بعد دل ناتواں سے کچھ نہ کہا

وہ موسموں سے تعلق نہیں رہا باقی
تمہارے بعد بہار و خزاں سے کچھ نہ کہا

تمہارے ذکر سے دل میں شگاف پڑتے ہیں
اسی لئے تو کسی مہرباں سے کچھ نہ کہا

ان آنسوؤں نے جو دل کی زمیں پہ گرتے ہیں
تمہارے بارے میں آب رواں سے کچھ نہ کہا

تمہارے دکھ کا کسی سے علاج کیا ہوتا
یقیں کی بات تھی وہم و گماں سے کچھ نہ کہا

۔ ۔ ۔ ٭٭٭۔ ۔ ۔​
 

سندباد

لائبریرین

(3)

دو دن میں پھیل جائے گی اس درد کی خبر
یہ بوجھ آنسوؤں سے سنبھالا نہ جائے گا

ہر سانس کی جبیں پہ ترے نقش ثبت ہیں
اس زندگی سے تیرا حوالہ نہ جائے گا

اب تو کرے گی ان کی وہاں خوب دیکھ بھال
تاروں کو اب خلا میں اچھالا نہ جائے گا

جب تو وہاں رہے گی تو کیا فکر ہے ہمیں
جنت سے اب کسی کو نکالا نہ جائے گا

تجھ سے سیاہ بخت کو وہ روشنی ملی
مٹی سے اب کبھی یہ اجالا نہ جائے گا

اب اس کے پاس کوئی نہیں ہے تری طرح
اب زندگی سے موت کو ٹالا نہ جائے گا

قدرت بھی آج سوچ کے یہ سوگوار ہے
مٹی سے اور یوں کوئی ڈھالا نہ جائے گا

۔ ۔ ۔ ٭٭٭۔ ۔ ۔​
 

سندباد

لائبریرین


کسی نے بھی تو محبت کی داستاں نہ سنی
تمہارے بعد یہاں میں بہت ذلیل ہوا

وہ جس پہ سرمد و حلاّج ہو گئے قرباں
اُسی نگاہ کا میں بھی یہاں قتیل ہوا

تمہارے جانے کا صدمہ عظیم صدمہ ہے
اُسی سے آج میں اشکوں میں خود کفیل ہوا

یہ عشق کھیل نہیں جناب بچّوں کا
یہاں جو آگ میں کودا ہے وہ خلیل ہوا

ہمیشہ سے یونہی پھولوں کو اس نے روندا ہے
شریف کب تھا زمانہ جو اب رذیل ہوا

یہ جس نگاہ سے دل کا علاج کرتے ہیں
اُسی نگاہ سے مل کر یہ دل علیل ہوا

حیات کیا تھی مسلسل عذاب کاٹا ہے
ہر ایک لمحہ ترے ھجر کا طویل ہوا

وہ جس نے کوہ و بیاباں کو کردیا سیراب
ذرا سا مجھ کو پلانے میں کیوں بخیل ہوا

غموں کی خوب یہاں دل نے سرپرستی کی
نہیں تھا جس کا کوئی اُس کا یہ کفیل ہوا

تری تلاش میں پھرتا نہ اس طرح بے کل
یہ دل کا درد تری ذات پر دلیل ہوا

۔ ۔ ۔ ٭٭٭۔ ۔ ۔​
 

سندباد

لائبریرین

تیری گلی میں ظرف سے بڑھ کر ملا مجھے
اک پیالہ جستجو تھی سمندر ملا مجھے

میں چل پڑا تھا اور کسی شاھراہ پر
خنجر بدست یادوں کا لشکر ملا مجھے

دریائے شب سے پار اترنا محال تھا
ٹوٹا ہوا سفینۂ خاور ملا مجھے

تاروں میں اُس کا عکس ہے پھولوں میں اُس کا رنگ
میں جس طرف گیا مرا د لبر ملا مجھے

ہر ذرّہ باکمال ہے ہر پتّہ بے مثال
دنیا میں خودسے کوئی نہ کمتر ملا مجھے

کب سے بھٹک رہا ہوں میں اس دشت میں مگر
خود سے کبھی ملا نہ ترا در ملا مجھے

ہوتا نہیں ہے تجھ پہ کسی بات کا اثر
لگتا ہے تیرے روپ میں پتھر ملا مجھے

بے کیف کٹ رہی تھی مسلسل یہ زندگی
پھر خواب میں وہ خواب سا پیکر ملا مجھے

اس بات پر کروں گا میں دن رات احتجاج
کس جرم میں یہ خاک کا بستر ملا مجھے

مجھ کو نہیں رہی کبھی منظر کی جستجو
گھر کے قریب کوئے ستمگر ملا مجھے

جب تک رہا میں خود میں بھٹکتا رہا یہاں
جب خود کو کھو دیا تو ترا در ملا مجھے

مٹی میں ڈھونڈتا ہوا کچھ بوڑھا آسماں
میں جس طرف گیا یہی منظر ملا مجھے

کرتے ہیں لوگ حسن سے یاں ناروا سلوک
روتے ہوئے ہمیشہ گلِ تر ملا مجھے

۔ ۔ ۔ ٭٭٭۔ ۔ ۔​
 

سندباد

لائبریرین

(1)

سنتا ہے کوئی بات نہ کہتا ہے آسماں
دن رات بس زمین کو تکتا ہے آسماں

کوئی نہیں جو اس سے کرے دو گھڑی کو بات
میں سوچتا ہوں کتنا اکیلا ہے آسماں

آتا ہے اب وہ لطف نہ چڑھتا ہے وہ سرور
یوں دیکھنے میں آج بھی نیلا ہے آسماں

میں آج بھی جہاں میں غریب الدیار ہوں
اپنی ہوئی زمین نہ اپنا ہے آسماں

یہ کس کو جیتنے کے لئے بے قرار ہے
کیوں ہر گھڑی لباس بدلتا ہے آسماں

لگتا ہے اس کو بھی کوئی دکھڑا لگا ہوا
چھپ چھپ کے سب سے رات کو روتا ہے آسماں

قوّت میں آج بھی ہے جوانوں کے سر کا تاج
گو عمر کے لحاظ سے بوڑھا ہے آسماں

ذلّت ہے کائنات میں اب خاک کا مقام
جب سے مری زمین سے روٹھا ہے آسماں

اُس چشمِ نیلگوں کا سراپا نہیں اگر
پھر آپ ہی بتائیں مجھے کیا ہے آسماں

ہر وقت اس پہ ٹوٹتے رہتے ہیں اب عذاب
اچھی طرح زمیں کو سمجھتا ہے آسماں

جانے بھگت رہا ہے یہ کس جرم کی سزا
لٹکا ہوا خلا میں جو رہتا ہے آسماں

مجھ کو ذلیل کرکے ملے گی اسے خوشی
میں جانتا ہوں کتنا کمینہ ہے آسماں

نیلے سے ایک پل میں یہ ہو جائے گا سفید
دیکھو تو کیا عجیب تماشا ہے آسماں

کہتے ہیں لوگ اس کی حقیقت نہیں کوئی
کیا صرف دل زدوں کی تمنا ہے آسماں

۔ ۔ ۔ ٭٭٭۔ ۔ ۔​
 

سندباد

لائبریرین


(2)
نیلا اسی لئے نظر آتا ہے آسماں
آنکھوں سے تیرے رنگ چراتا ہے آسماں

ہر سال اس کو بھیج کے پھولوں کا اک لباس
مٹی پہ کتنا رعب جماتا ہے آسماں

ہر رات اپنے ہاتھ میں لیکر نئے چراغ
بھٹکے ہوؤں کو راہ دکھاتا ہے آسماں

اب بھی حرام خور کی چالیں نہیں گئیں
بالوں میں گو خضاب لگاتاہے آسماں

رہتا ہے اس پہ جیسے ہمیشہ ہی غسل فرض
ملتا ہے جب بھی پانی نہاتا ہے آسماں

تازہ نقوش دیکھتے رہنے کے شوق میں
پچھلے تمام نقش مٹاتا ہے آسماں

سنتا نہیں زمین کی چھوٹی سی کوئی بات
سب اپنا ہی کلام سناتا ہے آسماں

کرتی ہے رات اس لئے اس تیرگی پہ ناز
تاروں کی اس میں فصل اگاتا ہے آسماں

تنہا زمین کے لئے ممکن نہیں یہ کام
دن رات اس کا ہاتھ بٹاتا ہے آسماں

رہتی ہے میری خاک سدا حیرتوں میں گم
ہر روز اک کمال دکھاتا ہے آسماں

ہر رات کس کا کرتا ہے اس طرح انتظار
کس کے لئے یہ دیپ جلاتا ہے آسماں

ہم نے تو اس کا کچھ بھی بگاڑا نہیں کبھی
پھر کس لئے خلا میں نچاتا ہے آسماں

یا بھول کے بھی اس کی طرف دیکھتا نہیں
یا خاک میں گلاب کھلاتا ہے آسماں

ہم قید میں ہیں اس کے بھلا اور کیا کریں
بس دیکھتے ہیں جو بھی دکھاتا ہے آسماں

گلیوں میں سج کے رات کو پھرتے ہیں اس طرح
تاروں سے اب بھی پیشہ کراتا ہے آسماں

اس کو نہیں ہے گرچہ ہمارا کوئی خیال
لیکن ہمیں تو آج بھی بھاتا ہے آسماں

سیلاب بھیجتا ہے کبھی قحط سالیاں
مجھ کو طرح طرح سے دباتا ہے آسماں

کس طرح اس سے رکھے گا اچھی کوئی امید
جب رات دن عذاب ہی لاتا ہے آسماں

ملنے کی جانے کس سے یہ تقریب ہے کہ یوں
ہر رات اپنے گھر کو سجاتا ہے آسماں

میں جانتا ہوں یہ بھی کوئی ہوگی اس کی چال
کب دوستی کا ہاتھ بڑھاتا ہے آسماں

میرا نہیں قصور ستاروں سے پوچھ لو
گھر کے چراغ خود ہی بجھاتا ہے آسماں

تاروں کو بیچ دیتا ہے ہر تیرگی کے ہاتھ
روزی اسی طرح سے کماتا ہے آسماں

آؤ تہیں بھی آج دکھائیں یہ معجزہ
آنکھوں میں کس طرح سے سماتا ہے آسماں

بس یونہی اس کے در کا کئے جاتی ہے طواف
قابو میں کب زمین کے آتا ہے آسماں

ممکن نہیں ہے خاک سے اس کا کوئی ملاپ
یونہی مرا مذاق اڑاتا ہے آسماں

۔ ۔ ۔ ٭٭٭۔ ۔ ۔​
 

سندباد

لائبریرین

(3)
بن ٹھن کے رات آتی ہے ہر رات اس کے پاس
کہتے ہیں پھر بھی لوگ کنوارا ہے آسماں

اس کھیل میں بھی دیکھنا ہوگی ہمیں ہی مات
بازی کبھی زمین سے ہارا ہے آسماں

ٹوٹے ہوئے دلوں پہ اسی ناز سے چلو
سب جانتے ہیں آج تمہارا ہے آسماں

کس طرح روشنی کا چلائیںگے یہ نظام
تاروں کی تربیت کا ادارہ ہے آسماں

دل اس کو دیکھتے ہی مچلتے ہیں اسطرح
اڑتا کوئی خلا میں غبارہ ہے آسماں

مٹتا ہے دیکھ دیکھ کے احساس تشنگی
سیرابیوں کا ایسا نظارہ ہے آسماں

ہوں اس لئے اب اس پہ دل و جان سے فدا
میں نے زمین کے لئے ہارا ہے آسماں

یہ صاحبِ جمال ہے کیا صاحبِ کمال
آنکھوں میں اس طرح سے اتارا ہے آسماں

دیکھا نہیں کسی نے بھی جاکر قریب سے
شاید اسی لئے ہمیں پیارا ہے آسماں

اس حسن و دلکشی کا سبب صرف تو نہیں
ہم نے بھی آنسوؤں سے نکھارا ہے آسماں

سورج کو کیسے سونپ دیں اب اس کی باگ ڈور
تاروں نے اپنے خوں سے سنوارا ہے آسماں

مایوس ہوکے دیکھتے ہیں سب اسی طرف
ٹوٹے ہوئے دلوں کا سہارا ہے آسماں

۔ ۔ ۔ ٭٭٭۔ ۔ ۔​
 

سندباد

لائبریرین

اُن نگاہوں کو ہم آواز کیا ہے میں نے
تب کہیں گیت کا آغاز کیا ہے میں نے

ختم ہو تاکہ ستاروں کی اجارہ داری
خاک کو مائل پرواز کیا ہے میں نے

آپکو اک نئی خفّت سے بچانے کے لئے
چاندنی کو نظر انداز کیاہے میں نے

آسمانوں کی طرف اور نہیں دیکھوں گا
اک نئے دور کا آغاز کیا ہے میں نے

روٹھے لوگوں کو منانے میں مزہ آتا ہے
جان کر آپکو ناراض کیا ہے میں نے

تم مجھے چھوڑ کے اس طرح نہیں جا سکتے
اس تعلق پہ بہت نازکیا ہے میں نے

وہ جو صدیوں سے یہاں بند پڑا تھا دیکھو
شاعری کا وہی در باز کیا ہے میں نے

سُن کے مبھوت ہوئی جاتی ہے دنیا ساری
شعر لکھّے ہیں کہ اعجاز کیا ہے میں نے

عشق میں نام کمانا کوئی آسان نہ تھا
سارے احباب کو ناراض کیا ہے میں نے

صرف لوگوں کو بتانے سے تسلّی نہ ہوئی
چاند تاروں کو بھی ہم راز کیا ہے میں نے

اور بھی ہوں گے کئی چاہنے والے لیکن
آپ کے نام کو ممتاز کیا ہے میں نے

آسمانوں سے پرے کرتا ہے اب جاکے شکار
طائرِ دل کو وہ شہباز کیاہے میں نے

شاعروں سے جو ترے بعد کبھی ہو نہ سکا
کام وہ حافظِ شیراز کیاہے میں نے

۔ ۔ ۔ ٭٭٭۔ ۔ ۔​
 

سندباد

لائبریرین

پھر آسمان کے نخرے اٹھا رہا ہوگا
کسی ستارہ سے آنکھیں لڑا رہا ہوگا

فواد کا تو یہاں اور کام ہی کیا ہے
صبا کو روک کے نظمیں سنا رہا ہوگا

اُسے یہ ہوش کی سب محفلیں پسند نہیں
پھر اُس گلی میں کہیں لڑ کھڑا رہا ہوگا

وہ ہنستے گاتے درختوں پہ جان دیتا ہے
انہیں کہیں پہ کھڑا گدگدا رہا ہوگا

بہت دنوں سے وہ گھر لوٹ کر نہیں آیا
ہوا کے ساتھ کہیں گنگنا رہا ہوگا

تمہارے آنے سے مایوس ہو کے غصّہ میں
پھر اٹھ کے چاند ستارے بجھا رہا ہوگا

یہ منہ بسورتے لوگ اُس کو زھر لگتے ہیں
وہ ان کا دور کھڑا منہ چڑا رہا ہوگا

وہ جانتا ہے کہ اُس کا دماغ ٹھیک نہیں
یہ سوچ سوچ کے خود مسکرا رہا ہوگا

وہ بیوقوف تمہیں آج بھی نہیں بھولا
تمہاری یاد میں آنسو بہارہا ہوگا

تمہارے آنے کی کوئی خبر ملی ہوگی
تمہاری راہ میں کلیاں بچھا رہا ہوگا

ہم اپنی مرضی کے مالک ہیں آسماں کیاہے
زمیں کو پھر یہی پٹّی پڑھا رہا ہوگا

تم اُس کو ڈھونڈنے آئے ہو نیند کے گھر میں
وہ چاندنی سے کھڑا گپ لگا رہا ہوگا

نئے شگوفوں کی بستی سے دو قدم آگے
وہ تتلیوں کے لئے گھر بنا رہا ہوگا

زمیں کو پھر کسی سورج نے آنکھ ماری ہے
یہ بات سُن کے وہ پھر تلملا رہا ہوگا

وہ جس کو سُن کے سب اس کا مذاق اڑاتے ہیں
کسی کو پھر وہی قصہ سنا رہا ہوگا

بہار آئی ہے اُس کو ابھی نہیں معلوم
وہ زرد پتوں کو ٹیوشن پڑھا رہا ہوگا

وہ اب یہاں سے کہیں دور جا نہیں سکتا
ستارہ بن کے یہاں جگمگا رہا ہوگا

خوشی سے اب بھی نہیں کوئی واسطہ اس کا
اداسیوں کا کہیں دل بڑھا رہا ہوگا

وہ آنسوؤں کی خطابت میں طاق ہے اب بھی
پھر اپنی باتوں سے سب کو رُلا رہا ہوگا

وہ زندگی سے تعلق پہ شرمسار رہا
اب اپنی موت پہ خوشیاں منا رہا ہوگا

کسی نے اُس سے کیا ہوگا شام کا وعدہ
وہ انتظار میں شب بھر کھڑا رہا ہوگا

۔ ۔ ۔ ٭٭٭۔ ۔ ۔​
 

سندباد

لائبریرین


ہوا نے چھین لیا آکے میرے ہونٹوں سے
وہ ایک گیت جو میں گنگنا رہا تھا ابھی

وہ جاکے نیند کے پہلو میں مجھ سے چھپنے لگا
میں اُس کو اپنی کہانی سنا رہا تھا ابھی

کہ دل میں آکے نیا تیر ہو گیا پیوست
پرانا زخم میں اُس کو دکھا رہا تھا ابھی

برس رہی تھی زمیں پر عجیب مدھوشی
نہ جانے کون فضاؤں میں گا رہا تھا ابھی

افق کے پار یہ ڈوبا ہے کس طرح سورج
یہیں پہ بیٹھ کے باتیں بنا رہا تھا ابھی

اٹھاکے دھوپ نے گھر سے مجھے نکال دیا
میں انتظار کی شمعیں جلا رہا تھا ابھی

جو سب کو ہنسنے کی تلقین کرتا رہتا ہے
وہ میرے سامنے آنسو بہا رہا تھا ابھی

وہ جس کا نام پڑا ہے خموش لوگوں میں
یہاں پہ لفظوں کے دریا بہا رہا تھا ابھی

۔ ۔ ۔ ٭٭٭۔ ۔ ۔​
 

سندباد

لائبریرین


میں کس کے کہنے پہ اس خاکداں میں آیا ہوں
نظر سے کس کے لئے آپ نے گرایا ہوں

کچھ ان پہ بھی تری آواز کی پھوار پڑے
حضور میں یہ سماعت کے پھول لایا ہوں

میں تجھ سے آج بھی انصاف کا نہیں طالب
میں جانتا ہوں وہ اپنے ہیں میں پرایا ہوں

ہمیشہ تجھ سے تعلق پہ مجھ کو ناز رہا
ہر ایک زخم پہ سوبار مسکرایا ہوں

وہ سوچتا تھا چلو کام ہو گیا اس کا
مگر میں خاک میں کچھ اور جگمگایا ہوں

یہ نغمہ بار پرندے یہ خوش گلو دریا
مقابلہ میں ذرا میں بھی گنگنایا ہوں

اسی لئے تو مجھے آنسوؤں سے رغبت ہے
میں اس جہان میں زخمی دلوں کا سایہ ہوں

مدام رہتی ہیں کیوں آندھیاں تعاقب میں
جلا نہیں ہوں میں خود آپ نے جلایا ہوں

وہ آسمانوں پہ جانے کی آرزو نہ رہی
کچھ اس طرح سے میں اس خاک میں سمایا ہوں

تو جانے کون جہانوں میں ہو گیا مصروف
یہ سوچ سوچ کے ہر لمحہ تلملایا ہوں

مری تلاش میں نکلے ہیں کیوں رسول یہاں
خود اپنے ہاتھ سے جب آپ نے گنوایا ہوں

۔ ۔ ۔ ٭٭٭۔ ۔ ۔​
 

سندباد

لائبریرین

ہمارے دل کی بجادی ہے اُس نے اینٹ سے اینٹ
ہمارے آگے کبھی اُس کا نام مت لینا

اُسی نگاہ سے پینے میں لطف ہے سارا
علاوہ اس کے کوئی اور جام مت لینا

اسی سبب سے ہے دنیا میں آسماں بدنام
تم اپنے ہاتھ میں یہ انتظام مت لینا

دل و نظر کی بقا ہے فقط محبت میں
دل و نظر سے کوئی اور کام مت لینا

یہاں پہ اچھا ہے جتنا بھی مختصر ہو قیام
ذلیل ہوگے حیاتِ دوام مت لینا

یہ سارے لوگ تمہارا مذاق اڑاتے ہیں
جہاں میں اور محبت کا نام مت لینا

رہوگے چاند کی سرگوشیوں سے بھی محروم
کسی سے دھوپ کا جلتا کلام مت لینا

اگرچہ تم پہ ہوا ہے یہاں پہ ظلم بہت
کسی سے اس کا مگر انتقام مت لینا

۔ ۔ ۔ ٭٭٭۔ ۔ ۔​
 

سندباد

لائبریرین


تمہارے لئے مسکراتی سحر ہے
ہمارے لئے رات کا یہ نگر ہے

اکیلے یہاں بیٹھ کر کیا کریں گے
بلایا ہے جس نے ہمیں وہ کدھر ہے

پریشاں ہوں کس کس کا سُرمہ بناؤں
یہاں تو ہر اک کی اُسی پر نظر ہے
ا
جالا ہیں رخسار جادو ہیں آنکھیں
بظاہر وہ سب کی طرح اک بشر ہے

وہ جس نے ہمیشہ ہمیں دکھ دیئے ہیں
تماشہ تو یہ ہے وہی چارہ گر ہے

نکل کر وہاں سے کہیں دل نہ ٹھہرا
بچارہ ابھی تک یہاں دربدر ہے

کسی دن یہ پتھر بھی باتیں کرے گا
محبت کی نظروں میں اتنا اثر ہے

جو پلکوں سے گِر جائے آنسو کا قطرہ
جو پلکوں میں رہ جائے گا وہ گہر ہے

وہ ذلّت وہ خواری بھی اس کے سبب تھی
محبت کا سہرہ بھی اس دل کے سر ہے

کوئی آرہا ہے کوئی جا رہا ہے
سمجھتے ہیں دنیا کو خالہ کا گھر ہے

نہ کوئی پیام اُس کی جانب سے آیا
نہ ملتا کہیں اب مرا نامہ بر ہے

۔ ۔ ۔ ٭٭٭۔ ۔ ۔​
 

سندباد

لائبریرین

سمندروں سے کوئی کام ہی نہیں پڑتا
ہمارے پاس ہے یہ آسماں کی نیلی جھیل

کوئی تو ایک ہی قطرہ سے ہو گیا مدھوش
کسی کی پیاس ہے یہ آسماں کی نیلی جھیل

سنا ہے ڈوب گئی رات چاند کی کشتی
بہت اداس ہے یہ آسماں کی نیلی جھیل

بھٹک رہی ہے خلاؤں میں کب سے اس کے لئے
زمیں کی آس ہے یہ آسماں کی نیلی جھیل

بہت سے لوگ تو کہتے ہیں اور کچھ بھی نہیں
بس اک قیاس ہے یہ آسماں کی نیلی جھیل

جڑے ہوئے ہیں ستارے اسی لئے اس میں
ترا لباس ہے یہ آسماں کی نیلی جھیل

وہ ناز کرنے میں ہر وقت حق بجانب ہے
وہ جس کے پاس ہے یہ آسماں کی نیلی جھیل

اسی کو پیتی ہیں دن رات تشنہ لب آنکھیں
مری اساس ہے یہ آسماں کی نیلی جھیل

تری نگاہ میں کھوئے ہوئے سمندر کا
اک اقتباس ہے یہ آسماں کی نیلی جھیل

اسی لئے تو گوارا ہوئی یہ خاک مجھے
نظر کو راس ہے یہ آسماں کی نیلی جھیل

میں دیکھ لینا کسی روز اس کو پی لوں گا
بھرا گلاس ہے یہ آسماں کی نیلی جھیل

۔ ۔ ۔ ٭٭٭۔ ۔ ۔​
 

سندباد

لائبریرین


زمین ان کی ہر اک بات مان لیتی ہے
کہاں سے سیکھ کے آتے ہیں گفتگو دریا

یہ کس کی یاد میں اشکوں کے بند ٹوٹے ہیں
یہ کس کو ڈھونڈتے پھرتے ہیں کوبکو دریا

جوان ہوتے ہی سب گھر سے بھاگ جاتے ہیں
کبھی نہ چھوڑیں گے لگتا ہے اپنی خو دریا

سمندروں سے بغاوت کا شوق ہے لیکن
مقابلہ پہ نہیں آتے دوبدو دریا

وہ جس کو دور کہیں آسماں میں بھول آئے
اب اس کی خاک میں کرتے ہیں جستجو دریا

جو میں نے خوابوں کی وادی میں بہتے دیکھا تھا
نہیں ہے کوئی یہاں ویسا ہوبہو دریا

کہیں پہ خاک میں پوشیدہ اک خزانہ ہے
اُسی کی کھوج میں پھرتے ہیں چار سو دریا

سفر میں رہنے سے آداب سیکھ جاتے ہیں
وگر نہ ہوتے ہیں حد درجہ تند خو دریا

گھروں سے حلف اٹھاتے ہوئے نکلتے ہیں
نہیں کریں گے کبھی گھر کی آرزو دریا

خود اپنے آپ سے لڑتے ہوئے شہید ہوئے
بہت سے ایسے بھی دیکھے ہیں تندخو دریا

تمام عمر یہ اپنوں سے دور رہتے ہیں
بس اتفاق سے ملتے ہیں روبرو دریا

یہ کس کے خون کا لیتے ہیں انتقام اس سے
زمیں کا پیتے ہیں ہر وقت کیوں لہو دریا

نہ جانے کون ہیں آئے ہیں کس کی شادی میں
یہ نغمہ بار پرندے یہ خوش گلو دریا

اسی لئے تو یہ سب میکشوں سے بہتر ہیں
شراب پیتے ہیں بے ساغر و سبو دریا

۔ ۔ ۔ ٭٭٭۔ ۔ ۔​
 

سندباد

لائبریرین

وہ دبدبہ نہ اجالا نہ شان و شوکت ہے
تمہارے سامنے بے اختیار ہے سورج

بچھڑ گئی ہے کہیں چاندنی اندھیرے میں
اُسی کی یاد میں یوں بے قرار ہے سورج

جہاں میں اس کا بھی شاید کوئی ٹھکانہ نہیں
مری طرح سے غریب الدّیار ہے سورج

خلا میں اور بھی روشن کئی ستارے ہیں
تمہارے فن کا مگر شاھکار ہے سورج

یہ اور بات سحر کو نہ کر سکا آزاد
لڑا تو رات سے مردانہ وار ہے سورج

بلند ہم نے کیا تھا علم بغاوت کا
ہمارے خون سے ہی داغدار ہے سورج

نہیں کریں گے کوئی ساز باز اس کے خلاف
دفع ہو رات ہمارا تو یار ہے سورج

یہ چاند تارے سبھی اُس کے ہاں ملازم ہیں
بہت بڑا کوئی سرمایہ دار ہے سورج

کسی نے رات کو پھر اس سے بات کی ہوگی
پھر آج غصہ میں جلتا شرار ہے سورج

چلو یہاں سے کہیں اور اب کریں ہجرت
یہاں تو سر پہ ہمیشہ سوار ہے سورج

کہیں پہ ایک بھڑکتا ہوا جہنّم ہے
کہیں پہ صرف محبت ہے پیار ہے سورج

بڑے بڑوں کو یہاں سے اکھاڑ ڈالا ہے
اگرچہ یوں تو نحیف و نزار ہے سورج

کہیں اٹھا کے اسے اب سنبھال کر رکھو
گئے دنوں کی کوئی یاد گار ہے سورج

خلا میں تاکہ وہ ہارے نہ حوصلہ اپنا
زمیں کے نام کسی کی پکار ہے سورج

کہیں پہ بیٹھ کے آرام کیوں نہیں کرتا
ہوا کے گھوڑے پہ ہردم سوار ہے سورج

نیا ستارہ کوئی آسماں سے ٹوٹا ہے
کئی دنوں سے بہت سوگوار ہے سورج

ہمیشہ ڈرتے ہوئے اس سے ملنے جاتا ہوں
نہ جانے نور ہے تیرا کہ نار ہے سورج

۔ ۔ ۔ ٭٭٭۔ ۔ ۔

ختم شد​
 
Top