ایک جانب چاندنی - احمد فواد

سندباد

لائبریرین
اور​
اور ہم نے ایک دوسرے کو کھو دیا
بادل دور سمندر کی آغوش میں پڑے سوتے رہے
بلیاں برسرِ عام
ہم بستری کے حق میں پر تشدد مظاہرے کرتی رہیں
شہر گالم گلوچ میں مصروف رہے
پہاڑ احمقوں کی طرح کھڑے آسمان کا منہ تکتے رہے
دریا ڈھلانوں پر پھسلتے رہے
گاؤں لاپرواہی سے سرجھکائے اونگھتے رہے
کسی نے ہماری طرف توجہ نہیں دی
جیسے ناخن کو گوشت سے الگ کردیا جائے
وہ چیخ کسی نے نہیں سنی
کوئی دروازہ نہیں کھلا
بس
ایک چھوٹے سے پرندہ نے اس درد کو سمیٹ لیا
اور
ایک گیت بن کر ان خالی صفحات میں اڑنے لگا
۔ ۔ ۔ ٭٭٭۔ ۔ ۔​
 

سندباد

لائبریرین
سبا تینی سبا تینی*​

تری آنکھیں زمیں کی آخری سرحد کی نگراں ہیں
محبت کی نگہباں ہیں
سباتینی سباتینی

سمندر کی جواں لہروں کا بہتا خواب ہیں دونوں
کسی کی جستجو میں رات دن بے تاب ہیں دونوں
مئے نایاب ہیں دونوں
سباتینی سباتینی

محبت کرنے والوں کی طرح ہر وقت لڑتی ہیں
کسی نوکیلے خنجر کی طرح سینہ میں گڑتی ہیں
سباتینی سباتینی

* ارجنٹائن کی ایک ٹینس کھلاڑی
یہ گہرے پانیوں کا عکس بن کر مسکراتی ہیں
زمیں کی بندشوں کو بھول جاتی ہیں
سباتینی سباتینی

میں نیرودا* کی نظمیں لیکے تیرے پاس آیا ہوں
جنوبی ایشیا کے جنگلوں میں رہنے والے خواب لایا ہوں
سباتینی سباتینی

مرے پہلو میں اک دریا ہے
جس کا
مضطرب بے چین پانی تیری تصویر یں بناتا ہے
مٹاتا ہے
سباتینی سباتینی

یہ دل اک آئینہ ہے جس میں تجھ کو باندھ رکھا ہے
ترے ہونٹوں کو لاکھوں بار چکھا ہے
مگر یہ پیاس ہر دم آس
کا پیالہ لئے کہتی ہے وہ تو اک سمندر ہے
سباتینی سباتینی

مجھے تو یہ زمیں ٹینس کا کوئی بال لگتی ہے
تری آنکھوں کی کوئی چال لگتی ہے
سباتینی سباتینی
کسی پچھلے جنم میں ایسا لگتا ہے
میں تیرے ساتھ گھوما ہوں
اجالوں سے بھی اُجلے یہ لب و رخسار چومے ہیں
سباتینی سباتینی

تری باھوں میں زخمی بجلیوں کی داستانیں ہیں
ہواؤں کی کمانیں ہیں
سباتینی سباتینی
۔ ۔ ۔ ٭٭٭۔ ۔ ۔​


* چلّی سے تعلق رکھنے والا ہسپانوی زبان کامشہور شاعر
 

سندباد

لائبریرین
گھوڑا گلی میں ایک شام​
جب دھوپ مر رہی تھی
شام آہیں بھر رہی تھی
گذرے ہوئے دنوںکے چہرے بجھے ہوئے تھے
آنکھیں دھواں دھواں تھیں
غنچے جلے ہوئے تھے
دور آسماں کے دل میں خنجر گڑے ہوئے تھے
ہر دن چلا گیا تھا ہر رات سو گئی تھی
ایسے میں تم نے آکر اس دل کو گدگدایا
انجاں مسرتوں نے دروازہ کھٹکھٹایا
برسوں کی وحشتوں کو اک دم قرار آیا
دیکھا تجھے تو ہرسو پھر سے بہار آئی
چہرہ تو جانتا ہوں کیا نام بھی وہی ہے
آنکھوں کو میرے دل سے کیا کام بھی وہی ہے
اے اجنبی شناسا
برسوں سے پھر رہا تھا میں اس طرح سے پیاسا
اے پہلی مسکراہٹ
تھوڑا سا دے دلاسہ

دیدے مجھے اجازت خود میں تجھے ملا لوں
اس بند کارخانے کاکام پھر چلا لوں

۔ ۔ ۔ ٭٭٭۔ ۔ ۔​
 

سندباد

لائبریرین

پانیوں کو جانے کیوں
اس طرح کی جلدی ہے
یہ زمیں کے چہرہ پر
کس نے خاک مَل دی ہے
۔ ۔ ۔ ٭٭٭۔ ۔ ۔​
 

سندباد

لائبریرین
آفاق کے کنارے ۔ ۔ ۔​

سورج کے بہتے خوں سے گلنار ہوگئے ہیں
وہ دھوپ کی صراحی ٹوٹی ہوئی پڑی ہے
پھر شام کی سیاہی دہلیز پر کھڑی ہے
کیا رات ہوگئی ہے
ڈرتے تھے جس سے سارے
وہ بات ہو گئی ہے
مہجور وادیوں میں
متروک راستوں پر
گمنام جنگلوں میں
روتی ہوئی شعاعیں اک خواب بُن رہی ہیں
ظلمت کی د استاں کا اک باب سن رہی ہیں
تیری تلاش میں پھر نکلیں گے چاند تارے
مجھ سے نہ جانے کتنے پھرتے ہیں مارے مارے

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ٭٭٭۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔​
 

سندباد

لائبریرین
یہ دل پاگل۔ ۔ ۔​

یہ دل پاگل
سدا بے کل
نظر آتی ہے ہر بستی اسے جنگل
یہ دل پاگل

حسیں چہروں پہ مرنے کے لیے ہر وقت آمادہ
بظاہر دیکھنے میں ہے بہت بھولا بہت سادہ
دھڑکتا ہے بہت مدّہم بہت کومل
یہ دل پاگل

محبت کی کہانی میں ہمیشہ مرکزی کردار کرتاہے
نہیں جو تھوکتا اس پر یہ اُس سے پیار کرتا ہے
ہمیشہ سے یہی گھاٹے کا کاروبار کرتاہے
ازل سے ہے بچارہ عقل سے پیدل
یہ دل پاگل
نہ اس کی بھوک مٹتی ہے نہ اس کی پیاس مرتی ہے
جھپٹ کر کھولتا ہے ہر حسیں آنکھوں کا دروازہ
بھگتتا ہوں میں اس کے بعد خمیازہ
مرے اعصاب اس نے کردے ہیں شل
یہ دل پاگل

بہت شوقین ہے وحشت کدے آباد کرنے کا
نئی ہنستی ہوئی آبادیاں برباد کرنے کا
سدا گزرے ہوئے لمحوں کو بیٹھا یاد کرنے کا
کبھی ہنستا ہوا شعلہ کبھی روتا ہوا بادل
یہ دل پاگل

کبھی شفاف نیلی جھیل سی آنکھوں پہ روتا ہے
کبھی کالی سیہ آنکھوں کے نقشے یاد کرتا ہے
کبھی ہونٹوں کا پیمانہ کبھی نظروں سے یارانہ
اٹھالیتا ہے مستی میں سبُو مل جائے یا بوتل
یہ دل پاگل

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ٭٭٭۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔​
 

سندباد

لائبریرین

بہہ رہی ہے قریہ قریہ کوبکو
چاندنی کی نرم شیریں گفتگو

جس کو بارش کی کتابیں یاد تھیں
پیاس کے صحرا میں ہے وہ آبجو

تو نہیں ہے گر تو دل کو رات دن
مضطرب رکھتی ہے کس کی جستجو

کس کو آنکھیں ڈھونڈتی ہیں ہر طرف
پل رہی ہے دل میں کس کی آرزو

تجھ سے ملنے کا اگر امکاں نہیں
کیا کروں گا میں جہانِ رنگ و بو

میں گرا دوں گا یہ دیواریں تمام
بات ہو گی تجھ سے اک دن روبرو

کس کی خاطر ہے یہ ہنگامہ بپا
کون ہے وہ کس کے ہیں یہ کاخ و کو

اب جدائی کی شکایت کیا کروں
اب تو ہر جانب نظر آتا ہے تو

آؤ میرے دل کے سایہ میں رہو
دیکھ باھر چل رہی ہے تیز لُو

کھل کے ہو جاتا ہے وہ ہنستا گلاب
خوں سے کرلیتا ہے جو غنچہ وضو

تیرا اک خاکہ بنانے کے لئے
پی رہا ہے کب سے دل اپنا لہو

یوں تو سب پھولوں میں تیرا عکس ہے
کوئی بھی تجھ سا نہیں ہے ہو بہو

۔ ۔ ۔ ٭٭٭۔ ۔ ۔​
 

سندباد

لائبریرین
تجھ تک آنے کے لئے ہے یہ نشانی کافی
مسکراتے ہوئے اک شاخ پہ دو رنگ کے پھول

دیکھو یہ جوش نمو کیسی قیامت شے ہے
لب آھن پہ کھلا دیتی ہے یوں زنگ کے پھول

کوئی موسم ہو انہیں اس سے سروکار نہیں
ہنستے رہتے ہیں ہر اک حال میں یہ سنگ کے پھول

آئینہ دیکھ کے یوں ناز سے شرماؤ نہیں
دیکھنا اور بھی ہوں گے کہیں اس ڈھنگ کے پھول

چاھنے والوں کی یہ فوج بکھر جائے گی
خواب ہو جائیں گے اک روز یہ اورنگ کے پھول

صرف عارض کے گلابوں کا نہیں مجھ پہ طواف
چومنا فرض ہے میرے لئے ہر رنگ کے پھول

ان کے آنگن میں بھی بربادی سدا راج کرے
بوتے رہتے ہیں جو ہر وقت یہاں جنگ کے پھول

آؤ سب مل کے کریں موت کی ایسی تیسی
توڑتی رہتی ہے بیدرد یوں ہر رنگ کے پھول​

۔ ۔ ۔ ٭٭٭۔ ۔ ۔​
 

سندباد

لائبریرین

اپنے گھر کو بھی کہیں آگ لگاتا ہے کوئی
دل میں رہنے کا نرالا ہے یہ دستور ترا

اور کیا تجھ سے محبت کا صلہ چاہے گا
ساری دنیا میں دوانہ ہوا مشہور ترا

وہ تو رہتا ہے کہیں تیرے رگ جاں کے قریب
اب بھی تو دور ہے اُس سے تو یہ مقدور ترا

کبھی تاروں کبھی پھولوں کی طرف جاتا ہوں
ہر طرف ڈھونڈ رہا ہوں رخ مستور ترا

تجھ پہ لاکھوں ہیں دل و جاں سے گذرنے والے
چاھنے والا ہر اک شخص ہے منصور ترا

دل ہے کم بخت یہ کہتے ہیں زمانے والے
میرے سینہ میں دھڑکتا ہے جوناسور ترا

تو کہے گر تو جھنّم بھی ہے ہروقت قبول
مجھ کو ہر فیصلہ اے دوست ہے منظور ترا

آسماں آکے درسنگ پہ جھک جاتے ہیں
ایسے رہتا ہے زمانہ میں یہ مغرور ترا

جب سے دیکھا ہے تجھے چین نہیں دل کو نصیب
رات دن یونہی دھڑکتا ہے یہ مزدور ترا​

تجھ کو پاکر بھی وہی زرد ہے رنگت اُس کی
اب بھی مغموم نظر آتا ہے مسرور ترا

میں نے گر ایک غزل بھی ترے ہونٹوں پہ لکھی
نام آفاق میں ہو جائے گا مشہور ترا

لوگ یہ بات نہ سمجھیں تو قصور ان کا ہے
میرے کس شعر میں ہوتا نہیں مذکور ترا

جانے کیا چیز نگاہوں سے پلا دیتا ہے
ہوش میں پھرنہیں آیا کوئی مخمور ترا

چاند تارے بھی اُسی وصف کے پیرائے ہیں
وہ جو کرتی ہے بیاں سورئہ النور ترا

چھوڑ اس بات پہ دن رات پریشاں رہنا
خود وہ کردے گا کسی روز یہ دکھ دور ترا

ہر طرف بکھرے ہوئے درد کے افسانے ہیں
شہر کا شہر نظر آتا ہے مہجور ترا

۔ ۔ ۔ ٭٭٭۔ ۔ ۔​
 

سندباد

لائبریرین

چھوڑ کر وہ جہاں چلا آیا
تجھ سے ملنے یہاں چلا آیا

یہ تو سوداگروں کی بستی ہے
سوچتا ہوں کہاں چلا آیا

عقل مجھ کو نہیں خرید سکی
ہو کے میں بدگماں چلا آیا

بچھ گئی ہے زمیں ضیافت کو
کون یہ میہماں چلا آیا

پھر فضاؤں سے وجد برسے گا
پھر وہی نغمہ خواں چلا آیا

ڈھونڈنے کس کو ان خلاؤں میں
نور کا کارواں چلا آیا

کون یوں رات کے اندھیرے میں
لیکے یہ کہکشاں چلا آیا

پھر ستاروں کو کون پوچھے گا
گر مِرا مہرباں چلا آیا

کیوں زمیں اس طرح ہے گردش میں
کیوں یہاں آسماں چلا آیا

سُن کے شہرت تمہاری آنکھوں کی
حلقۂ میکشاں چلا آیا

دیکھتے رہ گئے وہ سب طوفاں
کھول کے بادباں چلا آیا

شرم سے سرخ ہو گئیں کلیاں
کون یہ درمیاں چلا آیا

۔ ۔ ۔ ٭٭٭۔ ۔ ۔​
 

سندباد

لائبریرین


عالمِ نزع میں اب تیرہ شبی لگتی ہے
آج سورج کی ہر اک بات کھری لگتی ہے

چاندنی حسن کا بازار لگا ہو گویا
مجھ کو یہ تاروں بھری رات بھلی لگتی ہے

ایک ٹوٹا ہوا پیمانہ لئے ہاتھوں میں
روز آتی ہے سحر روز نئی لگتی ہے

موت سے اب کوئی سمجھوتہ نہیں ہو سکتا
اب مجھے اس کی ہر اک بات بُری لگتی ہے

یہ جو مٹی سے نکلتے ہیں گلابی چہرے
اُسی فنکار کی سب کاریگری لگتی ہے

دن کی قسمت میں تو لے دے کے یہی سورج ہے
جو سمجھتے ہیں انہیں رات غنی لگتی ہے

یہ جو ہر وقت یوں بولائے ہوئے پھرتے ہو
ہو نہ ہو یہ تو وہی دل کی لگی لگتی ہے

جسم و دل جس کے لئے سارے زمانے سے لڑے
اب اُسی بات پہ دونوں میں ٹھنی لگتی ہے

اب تو ہر شہر ترا شہر نظر آتا ہے
اب تو ہر ایک گلی تیری گلی لگتی ہے

دل کو کس کس سے کہاں تک میں بچائے رکھتا
ہر حسیں آنکھ یہاں جادو بھری لگتی ہے

دل کے جانے کا ہی خطرہ تھا مجھے پہلے پہل
عشق میں اب تو مِری جاں پہ بنی لگتی ہے

اس سے بڑھ کر کوئی تعریف بھلا کیا ہوگی
اچھی صورت ہے نگاہوں کو بھلی لگتی ہے

دل کی بے چینی تجھے پاکے ذرا کم نہ ہوئی
اب بھی دنیا میں کسی شے کی کمی لگتی ہے

سانس لینے میں جو اک لطف تھا باقی نہ رہا
زندگی اب فقط اک دردِ سری لگتی ہے

آپ چاہیں تو زمانہ کو بدل کر رکھ دیں
آپ کے ہاتھ میں جادو کی چھڑی لگتی ہے

شہر وحشت ابھی آباد رہے گا کچھ دن
ابھی قسمت میں مری دربدری لگتی ہے

۔ ۔ ۔ ٭٭٭۔ ۔ ۔​
 

سندباد

لائبریرین


دل میں پوشیدہ کیا خزینے ہیں
آنسو نکلے ہیں یا نگینے ہیں

آسماں تیری جھیل میں کب سے
روشنی کے رواں سفینے ہیں

جس پہ مرتے ہیں اس سے ڈرتے ہیں
چاھتوں کے عجب قرینے ہیں

تم بھی کچھ بے وفا سے لگتے ہو
دوست احباب بھی کمینے ہیں

جن کی اشکوں سے آبیاری کی
بیٹھ کر اب وہ زخم سینے میں

پھول ہنستے ہیں جب بھی آتے ہیں
خاک میں کس کے یہ دفینے ہیں

یا جدائی گراں تھی لمحوں کی
راہ میں یا کھڑے مہینے ہیں

۔ ۔ ۔ ٭٭٭۔ ۔ ۔​
 

سندباد

لائبریرین


تری نگاہ کا نیلم ترے لبوں کے عقیق
سوادِ غم میں سدا سے مرے جنوں کے رفیق

زمانہ اس لئے سب تجھ پہ جان دیتا ہے
تری نگاہ عنایت تری زبان خلیق

یہ آسمان کی ہم عصر نیلگوں آنکھیں
نظر ملائیں تو گہرے سمندروں سے عمیق

جو لوگ دور کھڑے ہم پہ مسکراتے ہیں
انہیں بھی حد سے گذرنے کی اب ملے توفیق

تری نگاہ بھی ناکام لوٹ جائے گی
کتاب عشق کا کھلتا ہے اب وہ باب دقیق

زمین ماں کی طرح سب سے پیار کرتی ہے
شفیق باپ سے بڑھ کر ہے آسمان شفیق

۔ ۔ ۔ ٭٭٭۔ ۔ ۔​
 

سندباد

لائبریرین


چاہنے والے خوب جیتے ہیں
زخم کھاتے ہیں اشک پیتے ہیں

تری یاد یں بھی ساتھ چھوڑ گئیں
ایسے لمحے بھی ہم پہ بیتے ہیں

ایسے لوگوں کی اب ضرورت ہے
وہ دلوں کے جو چاک سیتے ہیں

کیا عجب کھیل ہے محبت بھی
ہارنے والے لوگ جیتے ہیں

جب سے آنکھوں کی یہ دکان کھلی
رات دن ہم شراب پیتے ہیں

دل سے سب کو لگا کے رکھوں گا
آپ کے سارے غم چہیتے ہیں

۔ ۔ ۔ ٭٭٭۔ ۔ ۔​
 

سندباد

لائبریرین


بدل گیا ہے وہ فرسودہ عاشقی کا نظام
چُنا ہے مُجھ کو نئے عاشقوں نے اپنا امام

جہاں سے سیکھ کے آتے ہیں گفتگو دریا
وہیں سے مجھ پہ اتارا گیا یہ درد کلام

کُھلا ملا تھا وہ آنکھوں کا میکدہ شب بھر
نہ پوچھ کیسے چڑھائے ہیں ہم نے جام پہ جام

نہ ڈھنگ سے کبھی عقل و خِرد کی بات سنی
نہ اختیار کیا ہے رہِ جنوں کو تمام

جو ترے ذکر سے لمحوں کا پیٹ بھرتے ہیں
اُن احمقوں میں نمایاں کھڑا ہے اب مرا نام

اب آکے بات کرے ہم سے وصل کا سورج
بہت سنا ہے شبِ ہجر کا سیاہ کلام

جو دھوپ بن کے مری زندگی میں پھیل گئی
ہمیشہ دل میں رہے گا اب اُس نظر کا قیام

جہاں پہ دل میں بھڑکتے تھے آگ کے شعلے
وہاں سے دور نہ تھا آنسوؤں کا صدر مقام

۔ ۔ ۔ ٭٭٭۔ ۔ ۔​
 

سندباد

لائبریرین

اب آسمان کے آگے نہ ہاتھ پھیلانا
زمیں کے حسن کی خود پاسبان ہے مٹی

کہیں گلاب سے چہروں کو روند ڈالا ہے
کہیں پہ ماں کی طرح مہربان ہے مٹی

کوئی بھی آئے سکندر ہو یا قلندر ہو
ہر اک کے واسطے جائے امان ہے مٹی

زمانہ چھین سکا ہے نہ اس کی شادابی
اُسی طرح سے ابھی تک جوان ہے مٹی

کوئی بھی آکے یہاں سے کہیں نہیں جاتا
عجیب جادو بھری داستان ہے مٹی

نکل کے اس سے میں باھر قدم نہ رکھّوں گا
مری زمین میرا آسمان ہے مٹی

خموش ہو گئے وہ ساز وہ جلال و جمال
اب اُن دنوں کی فقط ترجمان ہے مٹی

جو آسمان سے نیچے قدم نہ رکھتے تھے
اب اُن ستاروں کا نام و نشان ہے مٹی

قدم قدم پہ یہاں بستیاں ہیں پھولوں کی
حسین لوگوں کی اک ایسی کان ہے مٹی

کسی کے دور کے جلوؤں سے مجھ کو کیا لینا
مرا یقین ہے مرا گمان ہے مٹی

یہ گفتگو کا سلیقہ مجھے اسی سے ملا
دُکھی دلوں کی ازل سے زبان ہے مٹی

کھلا ہوا ہے ہر اک کے لئے یہ دروازہ
ہو میسہمان کوئی میزبان ہے مٹی

۔ ۔ ۔ ٭٭٭۔ ۔ ۔​
 

سندباد

لائبریرین

ہے سمندر کہیں چلّاتی ہوا ہے پانی
کہیں دریا ہے کہیں اڑتی گھٹا ہے پانی

اُس کے رخساروں میں بن جاتا ہے یہ سرخ گلاب
جلتی آہوں کی مرے دل میں چتا ہے پانی

کہیں شاداب درختوں کا نیا سبز لباس
آسمانوں کی کہیں نیلی ردا ہے پانی

سرخ پھولوں کے نئے شہر ہوئے ہیں آباد
خاک سے جب بھی یہاں آکے ملا ہے پانی

اس کی فرقت میں بیابانوں کے گھر جاگتے ہیں
جانے کیا بات ہے کیوں ان سے خفا ہے پانی

جس سے ملتا ہے اُسی رنگ میں ڈھل جاتا ہے
کہیں نغمہ ہے کہیں ناز و ادا ہے پانی

تازہ اشکوں کی روایات گواہی دیں گی
آگ سے کس نے کہا ہے کہ جد اہے پانی

ٹوٹ پڑتا ہے کہیں قہر و غضب کی صورت
پیار ہے بس کہیں تسلیم و رضا ہے پانی
ا
ب وہی پیڑ بنے سر پہ چڑھے جاتے ہیں
میں نے جن پودوں کو دن رات دیا ہے پانی

یوں تو ریشم کی طرح پاؤں میں بچھ جاتاہے
گر بپھر جائے تو پھر ایک بلا ہے پانی

گنگناتا ہے کہیں ناز سے بل کھاتا ہے
کس سے ملنے کے لئے گھر سے چلا ہے پانی
ا
س کی رگ رگ میں ترا عکس نظر آتا ہے
بس شب و روز تری حمد و ثنا ہے پانی

پیاسے ہونٹوں سے کبھی اس کی حقیقت نہ کُھلی
بددعا ہے تو کبھی حرفِ دعا ہے پانی

گردش وقت سے تصویر نہ یہ دھندلائی
جب بھی ملتا ہے تو لگتا ہے نیا ہے پانی

اپنی تخلیق کے اس حال پہ روتا ہوگا
گرنہیں اشک تو کیا اور بتا ہے پانی

اُس کو پانے کے لئے خود کو مٹانا ہوگا
جان پر کھیل کے گلزار بنا ہے پانی

جاکے افلاک سے ہر بار پلٹ آتا ہے
خاک پر ایسے دل و جاں سے فدا ہے پانی

شہر کے شہر اٹھے اس کی سواگت کے لئے
جب کسی سمت محبت سے بڑھا ہے پانی

۔ ۔ ۔ ٭٭٭۔ ۔ ۔​
 

سندباد

لائبریرین


بارشوں کے گھر بساتے ہیں پرندے اور درخت
دھوپ کی قلمیں لگاتے ہیں پرندے اور درخت

چلتے چلتے ہر قدم پر لڑکھڑاجاتا ہوں میں
مجھ کو گرنے سے بچاتے ہیں پرندے اور درخت

کاغذی چہروں سے میری شاعری کو کیا غرض
میرے سارے گیت گاتے ہیں پرندے اور درخت

زندگی بے چین ہے دنیا سے جانے کے لئے
یہ تو اُس کا دل بڑھاتے ہیں پرندے اور درخت

سارے تنہائی کے قصّے بھول جاتا ہے یہ دل
محفلیں ایسی سجاتے ہیں پرندے اور درخت

آؤ کھل کر تم بھی اپنی داستانِ غم کہو
ہر کسی کا غم بٹاتے ہیں پرندے اور درخت

گنگناتے سرخ نغمے لہلہاتے سبز رنگ
خاک سے کیا کیا اٹھاتے ہیں پرندے اور درخت

کچھ نہیں کرتا میں ان کی میزبانی کے لئے
اپنے موسم ساتھ لاتے ہیں پرندے اور درخت

جب ہواؤں کو سناتا ہوں کوئی تازہ کلام
ساتھ میرے گنگناتے ہیں پرندے اور درخت

یہ ہوا بے چین پھرتی ہے یہاں کس کے لئے
بات کیا سب سے چھپاتے ہیں پرندے اور درخت

جب سے یادوں میں کھلی رکھی ہے دریا کی کتاب
روز اُس کو پڑھنے آتے ہیں پرندے اور درخت

وہ جو پہلی بار میں نے آنکھ کھولی تھی وہاں
یاد وہ منظر دلاتے ہیں پرندے اور درخت

خود سے کتنی بار میں ان راستوں میں گم ہوا
جاکے مجھ کو ڈھونڈ لاتے ہیں پرندے اور درخت

۔ ۔ ۔ ٭٭٭۔ ۔ ۔​
 

سندباد

لائبریرین


گھر کے باھر گھر کے اندر جو بھی ہو
دیکھتی ہیں سب بچاری کھڑکیاں

دھوپ میں کرتی ہیں شامل چاندنی
ایسی دیکھی ہیں لکھاری کھڑکیاں

جن سے آتی ہے دلوں میں روشنی
ہم نے کھولی ہیں وہ ساری کھڑکیاں

دھوپ کے آنگن میں کھلتی ہیں تمام
جانتا ہوں میں تمہاری کھڑکیاں

چاند ہو سورج ہو یا بادِ نسیم
ہار جاتی ہیں کنواری کھڑکیاں

بند رکھنا ان کا اب ممکن نہیں
کھول دو آکر ہماری کھڑکیاں

ہاتھ پھیلائے کھڑی ہیں سامنے
یہ ہمیشہ سے بھکاری کھڑکیاں

لوٹ جاتی ہے جنہیں چھوکر صبا
ہائے وہ قسمت کی ماری کھڑکیاں

لطف اٹھالیتے ہیں دروازے تمام
کرتی ہیں دن رات خواری کھڑکیاں

مجھ کو لیجاتی ہیں خوابوں کے نگر
اس لئے لگتی ہیں پیاری کھڑکیاں

۔ ۔ ۔ ٭٭٭۔ ۔ ۔​
 

سندباد

لائبریرین


شہر کی اس تنگ دامانی سے یہ دل تنگ ہے
مجھ کو رہنے کے لئے چھوٹا سا کوئی گاؤں دے

اب تو اس بستی پہ نازل موسموں کا قہر ہو
گرمیوں میں دھوپ ایسی سردیوں میں چھاؤں دے

یہ تو ہر رستے پہ چلنے کے لئے تیار ہیں
جو فقط تیری طرف اٹھیں مجھے وہ پاؤں دے

ہم تمہارے ہیں ہمیں اس بات سے مطلب نہیں
آنسوؤں کے شہر دے یا قہقہوں کے گاؤں دے

۔ ۔ ۔ ٭٭٭۔ ۔ ۔​
 
Top