سندباد
لائبریرین
اور
اور ہم نے ایک دوسرے کو کھو دیابادل دور سمندر کی آغوش میں پڑے سوتے رہے
بلیاں برسرِ عام
ہم بستری کے حق میں پر تشدد مظاہرے کرتی رہیں
شہر گالم گلوچ میں مصروف رہے
پہاڑ احمقوں کی طرح کھڑے آسمان کا منہ تکتے رہے
دریا ڈھلانوں پر پھسلتے رہے
گاؤں لاپرواہی سے سرجھکائے اونگھتے رہے
کسی نے ہماری طرف توجہ نہیں دی
جیسے ناخن کو گوشت سے الگ کردیا جائے
وہ چیخ کسی نے نہیں سنی
کوئی دروازہ نہیں کھلا
بس
ایک چھوٹے سے پرندہ نے اس درد کو سمیٹ لیا
اور
ایک گیت بن کر ان خالی صفحات میں اڑنے لگا
۔ ۔ ۔ ٭٭٭۔ ۔ ۔