این ایف سی ایوارڈ

کاشفی

محفلین
یہ تو سراسر زیادتی ہے میرے پیغام کو ڈلیٹ کر دیا گیا جو میں نے این ایف سی کے بارے میں لکھا تھا۔۔۔ ۔۔ دوسروں کی باتیں سننا بھی چاہیئے یہی جمہوری طریقہ ہے۔۔اس طرح پیغام کو ڈلیٹ کرنا صحیح نہیں۔
این ایف سی ایوارڈ میں آبادی کو بنیاد بنایا گیا ہے جو سراسر غلط ہے۔۔۔ اور میں نے کوئی غلط باتیں نہیں لکھی تھیں۔
این ایف سی ایوارڈ صرف ریوینیو کی بنیاد پر دینا چاہیئے بلکہ دینا کیاچاہیئے جو صوبہ جتنا ریوینیو حاصل کرتا ہے وہ اس کا اپنا ہونا چاہیے۔۔۔
ہمارا پڑوسی ملک بھارت جہاں ریوینیو ہر اسٹیٹ کا اپنا اپنا ہوتا ہے۔۔کوئی دوسرے کے حقوق پر قابض نہیں ہوتا۔۔۔چاہیے جس اسٹیٹ کی جتنی ہی آبادی کیوں نہ ہو۔۔۔مضبوط اسٹیٹس ہونے کی بنا پر ہی آج بھارت دنیا میں مضبوط ملک ہے اور اس وقت چائنا کے بعد دوسری بڑی فیوریٹ انویسمنٹ مارکٹ ہے ۔
اگر ہمارے حکمرانوں اور لوگوں کو تھوڑی سی بھی عقل ہوتی تو پاکستان کے صوبوں کو مضبوط کیا جاتا۔جس سے آج پاکستان معاشی لحاظ سے ایک مضبوملک ہوتا۔۔۔جو کہ نا ہوسکا اور آئندہ بھی نہیں ہوگا اگر یہی غیرجمہوری طریقہ اختیار کیا گیا اور دوسروں کے حقوق پر ایک صوبہ آبادی کی بنیاد پر غابض رہا تو۔۔۔
اسی قابضانہ رویے کی وجہ سے آج ہمارے بلوچستان کا حال یہ ہے کہ اب وہاں بچے بچے کی زبان پہ آزاد بلوچستان کا نام ہے۔۔۔اور غیرملکی قوتیں جوپاکستان کو مزید غیر مستحکم کرنا چاہتی ہیں وہ اس نعرے کو مالی اور مورل سپورٹ کر رہی ہیں تاکہ بلوچستان پاکستان کے ہاتھ سے نکل جائے۔۔۔۔
اور اسی طرح کی باتیں شمال مغرب کی سرحدوں پر بھی پائی جاتی ہیں۔۔
ان تمام مسائل کاحل صرف یہ ہے کہ تمام صوبوں کو مکمل خودمختاری دی جائے اور ان کو ان کا جائز حق دیا جائے یعنی کہ جو جتنا کماتا ہے وہ اپنے اوپر خرچ کرے۔۔اور ساتھ ساتھ وفاق کو کچھ وفاقی انتظامات کے لیئے دیا جائے۔۔برابری کی بنیاد پر۔۔۔
اگر ایسا نہیں ہوپاتا ہے تو جو کہ نظر بھی آرہا ہے کہ نہیں ہوگا۔۔تو پھر آنے والے وقتو ں میں اللہ نےچاہا تو پاکستان کو تو کچھ نہیں ہوگا لیکن یہاں پاکستانی قوم ایک ایسی انتہاہی پستی میں جاگرے گی جہاں سے نکلنے میں پتا نہیں کتنے سو سال لگ جائیں۔۔
صوبوں کو مضبوط کریں گے تو وفاق مضبوط ہوگا۔ ادر وائز دودھ سوڈا ہوگا۔۔یعنی کہ نہ دودھ نہ سیون اپ۔۔۔
 

دوست

محفلین
کل بجٹ کا چار فیصد صرف ایک پراجیکٹ پر خرچ ہوا ہے۔ اس کے علاوہ بھی لاہور میں بہت کچھ ہو رہا ہے۔ کئی سڑکیں بن رہی ہیں۔ اوور ہیڈ برج بن رہے ہیں۔
 

دوست

محفلین
کاشفی میاں آپ پھر حقائق کو موم کی ناک سمجھ کر مروڑ رہے ہیں۔ آدھے انڈیا کے پاس سمندر تک رسائی موجود ہے۔ وہاں کمپنیوں کے ہیڈ آفس کراچی میں نہیں بنائے جاتے۔
اور بلوچستان کی آدھی آبادی پشتون ہے۔ ان کے بچوں کو نکال کر بات کریں۔ بلوچستان میں تین چار بے غیرتیاں بیک وقت چل رہی ہیں۔ فرقہ واریت، غیر ملکی ایجنسیاں، پاکستانی ایجنسیوں کے ناعاقبت اندیشانہ اقدامات اور براہمداغ بگٹی وغیرہم کی تنظیمیں جو کوہلو، ڈیرہ بگٹی اور چند دوسرے اضلاع میں سرگرم ہیں۔
 

قیصرانی

لائبریرین
آبادی کی بنیاد پر پنجاب کو ملتا ہے نا جی۔ اور وہ لاہور میں لگ جاتا ہے۔ چونکہ وزیر اعلی لاہور کا ہے۔ اور باقی شہروں میں ناظم بھی نہیں ہے۔ ہر شہر کا ایک وزیر اعلی ہونا چاہیئے۔
36 اضلاع کے 36 ناظمین۔ جہاں شہباز شریف صاحب کے پاس اتنی وزارتیں پہلے سے ہی ہیں، وہاں 36 ناظمین بلکہ 35 ناظمین کے عہدے بھی سہی :)
 

زین

لائبریرین
پنجاب نے این ایف سی ایوارڈ میں "بڑے بھائی" کا ثبوت دیتے ہوئے اپنے حق سے بھی کم حصہ لیا تھا اور اس حوالے سے شہباز شریف کو بعض حلقوں کی طرف سے تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑا تھا ۔۔۔
میں آپ کی اس بات سے اتفاق نہیں کرتا ۔ قربانی ہمیشہ سے چھوٹے صوبے دیتے آرہے ہیں ۔ آٹھویں قومی مالیاتی کمیشن ایوارڈ میں اگرچہ کسی حد تک چھوٹے صوبوں تحفظات کو دور کیا گیا ہے لیکن باقی تینوں صوبوں کے عوام اب بھی مطمئن نہیں ۔ پنجاب کا صرف ترقیاتی بجٹ بلوچستان کے کل بجٹ سے بھی سو ایک سو دس ارب روپے زیادہ ہے۔
 

زرقا مفتی

محفلین
یہ تو سراسر زیادتی ہے میرے پیغام کو ڈلیٹ کر دیا گیا جو میں نے این ایف سی کے بارے میں لکھا تھا۔۔۔ ۔۔ دوسروں کی باتیں سننا بھی چاہیئے یہی جمہوری طریقہ ہے۔۔اس طرح پیغام کو ڈلیٹ کرنا صحیح نہیں۔
این ایف سی ایوارڈ میں آبادی کو بنیاد بنایا گیا ہے جو سراسر غلط ہے۔۔۔ اور میں نے کوئی غلط باتیں نہیں لکھی تھیں۔
این ایف سی ایوارڈ صرف ریوینیو کی بنیاد پر دینا چاہیئے بلکہ دینا کیاچاہیئے جو صوبہ جتنا ریوینیو حاصل کرتا ہے وہ اس کا اپنا ہونا چاہیے۔۔۔
ہمارا پڑوسی ملک بھارت جہاں ریوینیو ہر اسٹیٹ کا اپنا اپنا ہوتا ہے۔۔کوئی دوسرے کے حقوق پر قابض نہیں ہوتا۔۔۔ چاہیے جس اسٹیٹ کی جتنی ہی آبادی کیوں نہ ہو۔۔۔ مضبوط اسٹیٹس ہونے کی بنا پر ہی آج بھارت دنیا میں مضبوط ملک ہے اور اس وقت چائنا کے بعد دوسری بڑی فیوریٹ انویسمنٹ مارکٹ ہے ۔
اگر ہمارے حکمرانوں اور لوگوں کو تھوڑی سی بھی عقل ہوتی تو پاکستان کے صوبوں کو مضبوط کیا جاتا۔جس سے آج پاکستان معاشی لحاظ سے ایک مضبوملک ہوتا۔۔۔ جو کہ نا ہوسکا اور آئندہ بھی نہیں ہوگا اگر یہی غیرجمہوری طریقہ اختیار کیا گیا اور دوسروں کے حقوق پر ایک صوبہ آبادی کی بنیاد پر غابض رہا تو۔۔۔
اسی قابضانہ رویے کی وجہ سے آج ہمارے بلوچستان کا حال یہ ہے کہ اب وہاں بچے بچے کی زبان پہ آزاد بلوچستان کا نام ہے۔۔۔ اور غیرملکی قوتیں جوپاکستان کو مزید غیر مستحکم کرنا چاہتی ہیں وہ اس نعرے کو مالی اور مورل سپورٹ کر رہی ہیں تاکہ بلوچستان پاکستان کے ہاتھ سے نکل جائے۔۔۔ ۔
اور اسی طرح کی باتیں شمال مغرب کی سرحدوں پر بھی پائی جاتی ہیں۔۔
ان تمام مسائل کاحل صرف یہ ہے کہ تمام صوبوں کو مکمل خودمختاری دی جائے اور ان کو ان کا جائز حق دیا جائے یعنی کہ جو جتنا کماتا ہے وہ اپنے اوپر خرچ کرے۔۔اور ساتھ ساتھ وفاق کو کچھ وفاقی انتظامات کے لیئے دیا جائے۔۔برابری کی بنیاد پر۔۔۔
اگر ایسا نہیں ہوپاتا ہے تو جو کہ نظر بھی آرہا ہے کہ نہیں ہوگا۔۔تو پھر آنے والے وقتو ں میں اللہ نےچاہا تو پاکستان کو تو کچھ نہیں ہوگا لیکن یہاں پاکستانی قوم ایک ایسی انتہاہی پستی میں جاگرے گی جہاں سے نکلنے میں پتا نہیں کتنے سو سال لگ جائیں۔۔
صوبوں کو مضبوط کریں گے تو وفاق مضبوط ہوگا۔ ادر وائز دودھ سوڈا ہوگا۔۔یعنی کہ نہ دودھ نہ سیون اپ۔۔۔

پاکستان میں زیادہ تر محکمے وفاق کے زیرِ انتظام ہیں اسی لئے زیادہ تر آمدن پہلے وفاق کے پاس جاتی ہے وفاق اس آمدن میں سے تقریبا ۴۲ فیصد خود رکھ کر بقیہ صوبوں میں تقسیم کرتا ہے۔ اگر محکمے صوبوں کے زیرِ انتظام ہوں تو اپنی اپنی آمدن ہو گی۔ اگر وفاق صرف دفاع اور خارجہ پالیسی اپنے پاس رکھے تو یہ اصول لاگو ہو سکتا ہے مگر اس کے لئے قانون سازی کی ضرورت ہے۔ تاہم ایسا نہیں ہے کہ صوبوں کے اپنے ذرائع آمدن نہیں ہیں . درج ذیل تفصیل دیکھیئے

Tax Receipts​
I. Receipts from Direct Taxes (Agricultural Income Tax, Property Tax, Land​
Revenue, Professional Tax, Capital Value Tax etc.)​
II. Receipts from Indirect Taxes (Sales Tax on Services, Provincial Excise,​
Stamp Duties, Motor Vehicle Taxes, Electricity Duty etc​
Non-Tax Receipts​
I. Income from property and enterprises​
II. Receipts from civil administration and other functions​
III. Miscellaneous Receipts (other receipts excluding Federal Grants and​
Development Surcharges and Royalties​
IV. Extraordinary Receipts​
 

زرقا مفتی

محفلین
کل بجٹ کا چار فیصد صرف ایک پراجیکٹ پر خرچ ہوا ہے۔ اس کے علاوہ بھی لاہور میں بہت کچھ ہو رہا ہے۔ کئی سڑکیں بن رہی ہیں۔ اوور ہیڈ برج بن رہے ہیں۔
لاہور کا ترقیاتی ادارہ ایل ڈی اے ایک خود مختار ادارہ ہے جو اپنی آمدن لاہور پر خرچ کرتا ہے۔ آج کل آمدن کا بڑا ذریعہ کمرشلائزیشن فیس ہے ۔ اس کے علاوہ پلاٹ یا گھر خریدنے اور نقشہ بنوانے کی فیس ہوتی ہے
لاہور کی سڑکیں اور انڈرپاس وغیرہ اس ادارے کے بجٹ سے بنتے ہیں
دوسرے شہروں کے ترقیاتی اداروں کے بھی اپنے فنڈز ہوتے ہیں
 

کاشفی

محفلین
کاشفی میاں آپ پھر حقائق کو موم کی ناک سمجھ کر مروڑ رہے ہیں۔ آدھے انڈیا کے پاس سمندر تک رسائی موجود ہے۔ وہاں کمپنیوں کے ہیڈ آفس کراچی میں نہیں بنائے جاتے۔
اور بلوچستان کی آدھی آبادی پشتون ہے۔ ان کے بچوں کو نکال کر بات کریں۔ بلوچستان میں تین چار بے غیرتیاں بیک وقت چل رہی ہیں۔ فرقہ واریت، غیر ملکی ایجنسیاں، پاکستانی ایجنسیوں کے ناعاقبت اندیشانہ اقدامات اور براہمداغ بگٹی وغیرہم کی تنظیمیں جو کوہلو، ڈیرہ بگٹی اور چند دوسرے اضلاع میں سرگرم ہیں۔
حقائق کو موڑ نہیں رہا بھائی جی۔۔سمندر تک جو جو رسائی رسائی حاصل کرنا چاہتے ہیں وہ اس کا ٹیکس پے کرتے ہیں اس اسٹیٹ کو۔۔اور اس ٹیکس کو وہ ٹیکس حاصل کرنے والا اسٹیٹ اپنے اوپر خرچ کرتا ہے نا کہ دوسرے صوبے اس کو نگل جاتے ہیں۔۔جس طرح سندھ اور بلوچستان کے ساتھ ہوتا ہے۔۔ سندھ اور بلوچستان کے حاصل کردہ ٹیکس کہیں اور دے دیا جاتا ہے۔

بھارت میں ملٹائی نیشنل کمپنیوں کے ہیڈ آفس جہاں جہاں بنتے ہیں اس کے پیچھے اس اسٹیٹ کا ہاتھ ہوتا ہے۔۔وہ انویسمنٹ لے کر آتے ہیں اپنے اپنے اسٹیٹ میں۔۔اور جہاں تک میری معلومات ہے ملٹائی نیشنل کمپنیوں کے آفس تقریباَ ہر اسٹیٹ میں ہیں انڈیا میں۔۔ اسی طرح کراچی میں اگر کمپنیاں اپنے ہیڈ آفس بناتے ہیں تو اس میں کراچی کا کیا قصور ہے بھائی میرے۔۔۔ لیکن کراچی سے ایک سازش کےتحت فیکٹریاں باہر اور دوسری جگہوں پر منتقل کرنے میں کس کا ہاتھ ہے۔۔اس کو لوگ بہت جلدی جان جائیں گے۔۔وہ وقت آنے والا ہے۔
کراچی میں ہیڈ آفس ہونے پر کیا آبجیکشن ہے بھائی۔۔۔ اور دوسرے صوبے میں بھی آفس بنیں تو ہمیں کیوں آبجیکشن ہو۔۔۔لیکن کراچی سے دارلخلافہ کہیں اور منتقل کیا گیا جو کہ سراسر زیادتی تھی ناانصافی تھی۔۔۔

پاکستان میں موجود تمام صوبے انویسمنٹ باہر سے لے کر آئیں اور اس کے ذریعے جینیرٹ ہونے والے ریوینیو کو خود پر استعمال کریں۔۔

میری بات صرف اتنی سی ہے کہ میں صرف یہ کہنا چاہتا ہوں کہ این ایف سی میں جو آبادی کو بنیاد بنایا گیا ہے وہ سراسر زیادتی ہے۔۔ اور اس فارمولے کی طرفداری کرنے پر سندھ، بلوچستان اور پختونستان کے لیڈران بھی قصوروار ہیں۔۔ان کی کھنچائی ہونی چاہیئے۔۔۔ اور ہوگی کبھی نہ کبھی۔۔
وسائل کے غیرمنصفانہ تقسیم کی وجہ کر ایک حصہ کھو چکے ہیں ۔۔۔باقی کا کچھ خیال کر لینا چاہیئے ابھی تھوڑا وقت ہے۔۔

بلوچستان کی پوری آبادی پشتون ہویا پنجابی ۔۔اس سے مجھے کوئی غرض نہیں۔۔۔ لیکن بلوچستان کے وسائل بلوچستان کو مل جائیں اور ان کا پیسہ بلوچستان میں خرچ ہو تو پھر بلوچستان میں رہنے والے سب خوشحال ہوں گے۔۔ اور یہی فلاحی ریاست کا مقصد ہے۔۔۔
اسی طرح سندھ کا پیسہ سندھ میں۔ پنجاب کا پیسہ پنجاب میں اور پختونستان کا پیسہ پختونستان میں۔
باقی اس کو مانیں یہ مانیں ۔میں کیا کہہ سکتا ہوں۔۔آنے والے دنوں میں معلوم ہوگا کہ کیا ہوچکا ہے اور کیا ہوگیا ہے۔۔۔
 

کاشفی

محفلین
پاکستان میں زیادہ تر محکمے وفاق کے زیرِ انتظام ہیں اسی لئے زیادہ تر آمدن پہلے وفاق کے پاس جاتی ہے وفاق اس آمدن میں سے تقریبا ۴۲ فیصد خود رکھ کر بقیہ صوبوں میں تقسیم کرتا ہے۔ اگر محکمے صوبوں کے زیرِ انتظام ہوں تو اپنی اپنی آمدن ہو گی۔ اگر وفاق صرف دفاع اور خارجہ پالیسی اپنے پاس رکھے تو یہ اصول لاگو ہو سکتا ہے مگر اس کے لئے قانون سازی کی ضرورت ہے۔ تاہم ایسا نہیں ہے کہ صوبوں کے اپنے ذرائع آمدن نہیں ہیں . درج ذیل تفصیل دیکھیئے
یہی تو مسئلہ ہے۔۔وفاق کے پاس صرف دفاع، خارجہ پالیسی اور کرنسی ہونی چاہیئے۔باقی تمام کے تمام محکمے صوبائی حکومت کے پاس ہونے چاہیئے۔۔۔اور صوبائی حکومت اپنی آمدنی میں سے برابری کی بنیاد پر دفاع کے لیئے خرچ کریں۔۔اور اس دفاعی فورسس میں بھی تمام صوبوں سے برابری کی بنیاد پر بندے شامل ہوں میرٹ کی بنیاد پر۔۔
میں یہ نہیں کہہ رہا کہ صوبوں کے اپنے ذرائع آمدن نہیں۔ذرائع آمدن ہیں۔۔جب ان کے ذرائع سے وفاق کی صورت کوئی اور لے جاتاہے تو ظاہر سی بات ہے کچھ ذرائع تو ہوں گے تھوڑی بہت آمدنی کے لیئے۔اور یہ ذرائع بھی پرویز مشرف سید کے مرہونِ منت ہیں۔۔۔۔
ویسے وفاق بھی اسی لیئے تبدیل کیا گیا تھا تاکہ سندھ کی آمدنی منشی بن کر کہیں اور دے دی جائے۔۔ وفاق اگر بلوچستان منتقل ہوتا تو کوئی مسئلہ نہیں ہوتا۔۔کیونکہ وہ بھی سندھ سے کسی بھی صورت کم نہیں وسائل کے لحاظ سے۔۔۔ خیر جو ہوا سو ہوا پر اچھا نہ ہوا۔۔۔۔۔وفاق کو چاہیئے کہ وہ منشی بننے کا کردار ختم کرے اور صرف منصف اور امین بنے۔اور جو جس کا حق ہے وہ اس کو دے دے۔۔
 
ش

شہزاد احمد

مہمان
آٹھویں قومی مالیاتی کمیشن ایوارڈ میں اگرچہ کسی حد تک چھوٹے صوبوں تحفظات کو دور کیا گیا ہے لیکن باقی تینوں صوبوں کے عوام اب بھی مطمئن نہیں ۔
آپ کو چاہیے کہ اپنے صوبوں میں ایسے نمائندوں کا چناؤ کریں جو کم از کم این ایف سی ایوارڈ میں ہونے والی مبینہ بے انصافی کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں ۔۔۔
 

سعود الحسن

محفلین
آپ کو چاہیے کہ اپنے صوبوں میں ایسے نمائندوں کا چناؤ کریں جو کم از کم این ایف سی ایوارڈ میں ہونے والی مبینہ بے انصافی کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں ۔۔۔

میرے بھائی مسلئہ یہ ہے کہ این ایف سی ایوارڈ اتفاق رائے سے پاس ہوتا ہے، اور جب تک نیا ایوارڈ سائن نہ ہوجائے پرانا فارمولا ہی چلتا رہتا ہے ۔ اور پنجاب کے نمایئندے اس ہی کا فائیدہ اٹھاتے ہیں ۔ اس مرتبہ بھی ہر ممکن ٹالم ٹالی کی گئی لیکن کیونکہ نواز لیگ پر پہلے ہی الزام تھا کہ وہ صرف پنجاب تک محدود ہو گئی ہے، پھر انہیں دوسرے صوبوں کے قوم پرستوں کو بھی پیپلز پارٹی کے مقابلہ میں ساتھ ملانا تھا لہذا وہ پہلی مرتبہ ٹیکس کولیکشن کو بھی این ایف سی کے فارمولے میں شامل کرنے پر تیا ہوگئے۔
 

کاشفی

محفلین
اس حوالے سے افتخار اجمل صاحب کے بلاگ پر کافی بحث ہوئی تھی لنک دے رہا ہو پڑھ لیجیے ہو سکتا ہے کہ شفا ہو۔
ان کے بلاگ پر میں پہلے جاتا تھا لیکن موصوف کے بلاگ پر حاضر ہونے والے حضرات ان کے ساتھ مل کرکراچی اور سندھ دشمنی نکالتے ہیں۔۔اس لیئے یہ سب دیکھتے ہوئے بلاگ پر جانا ہی چھوڑ دیا۔
 

کاشفی

محفلین
میرے بھائی مسلئہ یہ ہے کہ این ایف سی ایوارڈ اتفاق رائے سے پاس ہوتا ہے، اور جب تک نیا ایوارڈ سائن نہ ہوجائے پرانا فارمولا ہی چلتا رہتا ہے ۔ اور پنجاب کے نمایئندے اس ہی کا فائیدہ اٹھاتے ہیں ۔ اس مرتبہ بھی ہر ممکن ٹالم ٹالی کی گئی لیکن کیونکہ نواز لیگ پر پہلے ہی الزام تھا کہ وہ صرف پنجاب تک محدود ہو گئی ہے، پھر انہیں دوسرے صوبوں کے قوم پرستوں کو بھی پیپلز پارٹی کے مقابلہ میں ساتھ ملانا تھا لہذا وہ پہلی مرتبہ ٹیکس کولیکشن کو بھی این ایف سی کے فارمولے میں شامل کرنے پر تیا ہوگئے۔
این ایف سی کے فارمولے میں آبادی کو شامل کرنا ہی نہیں چاہیئے۔صرف یہ ہونا چاہیئے کہ جو جس کا ہے وہ اسی کو دے دینا چاہیئے۔۔۔
 
ش

شہزاد احمد

مہمان
میرے بھائی مسلئہ یہ ہے کہ این ایف سی ایوارڈ اتفاق رائے سے پاس ہوتا ہے، اور جب تک نیا ایوارڈ سائن نہ ہوجائے پرانا فارمولا ہی چلتا رہتا ہے ۔ اور پنجاب کے نمایئندے اس ہی کا فائیدہ اٹھاتے ہیں ۔ اس مرتبہ بھی ہر ممکن ٹالم ٹالی کی گئی لیکن کیونکہ نواز لیگ پر پہلے ہی الزام تھا کہ وہ صرف پنجاب تک محدود ہو گئی ہے، پھر انہیں دوسرے صوبوں کے قوم پرستوں کو بھی پیپلز پارٹی کے مقابلہ میں ساتھ ملانا تھا لہذا وہ پہلی مرتبہ ٹیکس کولیکشن کو بھی این ایف سی کے فارمولے میں شامل کرنے پر تیا ہوگئے۔
پیپلز پارٹی کے مقابلے میں صوبے کے دوسرے قوم پرستوں کو ن لیگ نے ساتھ ملانے کی کوششیں تو بہت بعد میں شروع کی ہیں ۔۔۔ این ایف سی ایوارڈ تو کب کا سائن ہو چکا محترم ۔۔۔ خیر، چھوٹے صوبوں سے تعلق رکھنے والوں کو صرف ایک ہی زاویے سے دیکھنے کی روش ترک کر دینی چاہیے ۔۔۔ ان کے مسائل کے ذمہ دار ان کے اپنے منتخب کردہ نمائندگان بھی ہیں ۔۔۔
 

سعود الحسن

محفلین
پیپلز پارٹی کے مقابلے میں صوبے کے دوسرے قوم پرستوں کو ن لیگ نے ساتھ ملانے کی کوششیں تو بہت بعد میں شروع کی ہیں ۔۔۔ این ایف سی ایوارڈ تو کب کا سائن ہو چکا محترم ۔۔۔ خیر، چھوٹے صوبوں سے تعلق رکھنے والوں کو صرف ایک ہی زاویے سے دیکھنے کی روش ترک کر دینی چاہیے ۔۔۔ ان کے مسائل کے ذمہ دار ان کے اپنے منتخب کردہ نمائندگان بھی ہیں ۔۔۔

محترم موجودہ این ایف سی ایوارڈ 2010 میں سا ئن ہوا تھا اور سیاسی حالات اس وقت تقریبا یہی تھے اور نون لیگ جبھی اس سے پہلے سے سندھ میں قدم جمانے کی کوشیش کر رہی تھی۔

جہاں تک مسائل کی بات ہے تو حضرت یہاں مسائل نہیں وسائل کی بات ہورہی تھی ۔

جہاں تک آپکے مشورے کی بات ہے کہ چھوٹے صوبوں کو ایک ہی زاویہ سے دیکھنے کی روش ترک کردینی چاہیے ، تو میرا پنجاب کو مشورہ ہوگا کہ وہ دوسرے صوبوں کو مشورے اور حکم دینے کی روش ترک کردے تو پاکستان کے آدھے مسائل تو ایسے ہی حل ہو جائیں گے۔
 
Top