ایم کیو ایم مذہب کی ٹھکیدار نہ بنے

قیصرانی

لائبریرین
کوئی اوریجنل پاکستانی نہیں ہے
سب پنجابی ہی ہیں یا پختون یا سندھی یا بلوچی یا بنگالی
صرف مہاجر اوریجنل پاکستانی ہیں۔
اوریجنل پاکستانی بنو۔
مہاجر گالی نہیں۔ مہاجر ایک قوم ہے یہی قوم پاکستانی ہیں
باقی قومیتیں یا تو راجہ داھر کی یا رنجیت سنگھ کی پجاری ہیں
یعنی آپ یہ فرمانا چاہتے ہیں کہ پاکستان میں آباد تمام اقوام دوسرے ملکوں سے آئی ہیں جبکہ "مہاجر" افراد یہیں پیدا ہوئے؟ کچھ زیادہ نہیں ہو جاتا؟
ویسے چونکہ آپ گاہے بگاہے مذہب کو بھی درمیان میں لے آتے ہیں، اس لئے مذہبی نکتہ نظر سے اپنے بیان کی توجیہ فرما دیجئے :)
 
ویسے آپ کی بات سے مجھے یاد آگیا چند دن پہلے ایک قوم "رانا " کا معنی یاد آگیا۔
ویسے آپ کی بات سے مجھے یاد آگیا چند دن پہلے ایک قوم "رانا " کا معنی یاد آگیا۔
چند دن پہلے تاریخ فرشتہ پڑھی تھی اس میں پاکستان میں موجود ایک برادری "رانا" کا ذکر تھا۔ تاریخ فرشتہ میں لکھا تھا کہ یہ لوگ رانا کیوں کہلائے۔
نا تو یہ لوگ علاقے "رانا" سے تعلق رکھتے تھے اور نا ان کی زبان "رانا" تھی۔ رانا ایک صفت تھی۔ جو ایک خاندان میں پائی گئی اور پھر یہی صفاتی نام اس خاندان سے چلنے والی نسل کا نام بن گیا :)
 
یعنی آپ یہ فرمانا چاہتے ہیں کہ پاکستان میں آباد تمام اقوام دوسرے ملکوں سے آئی ہیں جبکہ "مہاجر" افراد یہیں پیدا ہوئے؟ کچھ زیادہ نہیں ہو جاتا؟
ویسے چونکہ آپ گاہے بگاہے مذہب کو بھی درمیان میں لے آتے ہیں، اس لئے مذہبی نکتہ نظر سے اپنے بیان کی توجیہ فرما دیجئے :)

آپ میری بات کا غلط مطلب سمجھے ہیں
اب یہ بات مانی جاتی ہے کہ انسان افریقہ سے نکل کر ایشیا اور یورپ پہنچا۔ یعنی تاریخی طور پر تمام افراد بالاخر ہجرت کرکے کہیں مقیم رہے۔ اور لمبے عرصے سے مقیم رہنے والے فرزند زمین کہلائے۔
دوسرے پاکستان کے وجود کے ساتھ ہی مہاجرقومیت وجود میں ائی۔ جب کہ دوسری قومیتوں کی وجہ وجود مختلف ہے
 
ویسے آپ کی بات سے مجھے یاد آگیا چند دن پہلے ایک قوم "رانا " کا معنی یاد آگیا۔
چند دن پہلے تاریخ فرشتہ پڑھی تھی اس میں پاکستان میں موجود ایک برادری "رانا" کا ذکر تھا۔ تاریخ فرشتہ میں لکھا تھا کہ یہ لوگ رانا کیوں کہلائے۔
نا تو یہ لوگ علاقے "رانا" سے تعلق رکھتے تھے اور نا ان کی زبان "رانا" تھی۔ رانا ایک صفت تھی۔ جو ایک خاندان میں پائی گئی اور پھر یہی صفاتی نام اس خاندان سے چلنے والی نسل کا نام بن گیا :)

عرض کی ہے کہ قوم کے وجود میں انے کی کوئی ایک وجہ ہوتی ہے۔ کچھ حالات ہوتے ہیں۔ ضروری نہیں کہ تمام اقوام ایک مخصوص شرائظ پر پوری اتر کر قوم کہلاویں
 

قیصرانی

لائبریرین
آپ میری بات کا غلط مطلب سمجھے ہیں
اب یہ بات مانی جاتی ہے کہ انسان افریقہ سے نکل کر ایشیا اور یورپ پہنچا۔ یعنی تاریخی طور پر تمام افراد بالاخر ہجرت کرکے کہیں مقیم رہے۔ اور لمبے عرصے سے مقیم رہنے والے فرزند زمین کہلائے۔
دوسرے پاکستان کے وجود کے ساتھ ہی مہاجرقومیت وجود میں ائی۔ جب کہ دوسری قومیتوں کی وجہ وجود مختلف ہے
لیکن اس سے یہ مراد تو نہیں ہو رہی نا کہ مقامی افراد کو نکال کر اب "مہاجر" افراد بسا دیئے جائیں؟ جیسا شمالی اور جنوبی امریکہ کے کئی ممالک میں ہوا تھا؟ یعنی آپ اور میں اس بات پر متفق ہو رہے ہیں کہ پیس فل کو ایگزیسٹینس ہونی چاہیئے؟ :)
 
لیکن اس سے یہ مراد تو نہیں ہو رہی نا کہ مقامی افراد کو نکال کر اب "مہاجر" افراد بسا دیئے جائیں؟ جیسا شمالی اور جنوبی امریکہ کے کئی ممالک میں ہوا تھا؟ یعنی آپ اور میں اس بات پر متفق ہو رہے ہیں کہ پیس فل کو ایگزیسٹینس ہونی چاہیئے؟ :)
بلکل
میں تو مہاجر قوم کے نام کی وجہ تسمیہ بتلارہاتھا
حقیقت یہ ہے کہ مہاجروں کی پاکستان میں موجودگی خصوصا سندھ میں موجودگی پاکستان کی قوموں کے تحمل ، قربانی، ایثار کا ثبوت ہے۔ خصوصا سندھ کے بزرگوں نے جس طرح مہاجروں کا بسایا وہ بے مثال ہے۔ مہاجروں کو یہ قربانیاں یاد رکھنی چاہیں۔ خصوصا سندھ میں
میں نے کسی کو نکالنے کی بات نہیں کی۔
جب ملک ترقی کرے گا تو یہ مسائل ازخود حل ہوجاویں گے ۔ اللہ کرےکہ نواز شریف کی حکومت جاری رہے اور ملک ترقی کرتا رہے۔ ایک اور مارشل لا یا ان کے ایجنٹز نہ اجاویں
 
ویسے ایک حل یہ بھی ہے کہ سب صوبے توڑ کر ون یونٹ بنادیا جائے
ضلع کی سطح پر حکومت بنا کر معاملات وفاق چلائے
ہر فرد کو اس کا حق ملے
 
جو لوگ اپنی معاشی دینی یا سیاسی وجوہات کی بنیاد پر ہجرت کرتے ہیں وہ یقیناً مہاجر ہے کہلائیں گے ۔
صرف اس وقت تک جب تک کہ وہ اس جگہ میں عارضی طور پر مقیم ہوتے ہیں ۔وہاں ان کا قیام اس جگہ کے اصل مقیم لوگوں کی مرضی سے ہوتا ہے۔ وہ سب مراعات جو انہیں ملتی ہیں اس ملک کے قانون کے مطابق ہوتی ہیں۔ جب وہ لوگ وہاں کے مستقل شہری ہو جاتے ہیں تو اسی ملک کے "نیشنل" کہلاتے ہیں۔
حضرت محمد مصطفےٰ ﷺ اور ان کے جو صحابہ مدینہ ہجرت کرکے گئے تھے ایک تو جو بھی مراعات انہیں مدینہ کے انصار سے ملی تھیں وہ انہوں نے اپنی مرضی اور خوشی سے مہاجرین کو دی تھیں۔ نہ کہ کسی نے ان سے زبردستی "کلیم" کی تھیں۔ حضرت محمد مصطفےٰ ﷺ اور ان کے صحابہ کرام نے بالآخر مکّہ واپس جانا تھا۔
یہاں صرف انہیں کہا جا رہا ہے جو اردو زبان بولتے ہوں اور ہندوستان سے آئے ہوں، برائے مہربانی مقامی زبانوں کے حوالے سے پہچانے جانے والے پنجابی سندھی پٹھان یا بلوچ قوم کو اس بات سے نہ ملائیں کہ وہ بھی تو اپنے منفرد ناموں سے پہچانے جاتے ہیں۔ اردو بولنے والے بھی ہمیں اپنے انسانی رشتہ اور بہ حیثیت پاکستانی ماں جائے بھائی کی طرح ہی ہیں۔ اگر وہ بھائی بننا چاہیں۔ وہ بھی اب اسی طرح پاکستانی ہیں جس طرح کو ئی اور۔
 
جو لوگ اپنی معاشی دینی یا سیاسی وجوہات کی بنیاد پر ہجرت کرتے ہیں وہ یقیناً مہاجر ہے کہلائیں گے ۔
صرف اس وقت تک جب تک کہ وہ اس جگہ میں عارضی طور پر مقیم ہوتے ہیں ۔وہاں ان کا قیام اس جگہ کے اصل مقیم لوگوں کی مرضی سے ہوتا ہے۔ وہ سب مراعات جو انہیں ملتی ہیں اس ملک کے قانون کے مطابق ہوتی ہیں۔ جب وہ لوگ وہاں کے مستقل شہری ہو جاتے ہیں تو اسی ملک کے "نیشنل" کہلاتے ہیں۔
حضرت محمد مصطفےٰ ﷺ اور ان کے جو صحابہ مدینہ ہجرت کرکے گئے تھے ایک تو جو بھی مراعات انہیں مدینہ کے انصار سے ملی تھیں وہ انہوں نے اپنی مرضی اور خوشی سے مہاجرین کو دی تھیں۔ نہ کہ کسی نے ان سے زبردستی "کلیم" کی تھیں۔ حضرت محمد مصطفےٰ ﷺ اور ان کے صحابہ کرام نے بالآخر مکّہ واپس جانا تھا۔
یہاں صرف انہیں کہا جا رہا ہے جو اردو زبان بولتے ہوں اور ہندوستان سے آئے ہوں، برائے مہربانی مقامی زبانوں کے حوالے سے پہچانے جانے والے پنجابی سندھی پٹھان یا بلوچ قوم کو اس بات سے نہ ملائیں کہ وہ بھی تو اپنے منفرد ناموں سے پہچانے جاتے ہیں۔ اردو بولنے والے بھی ہمیں اپنے انسانی رشتہ اور بہ حیثیت پاکستانی ماں جائے بھائی کی طرح ہی ہیں۔ اگر وہ بھائی بننا چاہیں۔ وہ بھی اب اسی طرح پاکستانی ہیں جس طرح کو ئی اور۔

اپ میرے تمام مراسلے پھر غور سے پڑھیں مہربانی ہوگی
 

زیک

مسافر
لیکن اس سے یہ مراد تو نہیں ہو رہی نا کہ مقامی افراد کو نکال کر اب "مہاجر" افراد بسا دیئے جائیں؟ جیسا شمالی اور جنوبی امریکہ کے کئی ممالک میں ہوا تھا؟ یعنی آپ اور میں اس بات پر متفق ہو رہے ہیں کہ پیس فل کو ایگزیسٹینس ہونی چاہیئے؟ :)
کیا آپ نے یورپ میں جینیٹکس اور پالیواینتھروپولوجی کی نئی ریسرچ پڑھی ہے؟
 

محمد امین

لائبریرین
مجھے آپ سے یہ امید نہیں تھی امین بھائی، کہ آپ جواب میں قائدِ اعظم کو ہی پاگل کا بچہ کہہ ڈالیں گے۔

بھائی صاحب میں نے کب کہا قائدِ اعظم کو پاگل کا بچہ؟؟؟؟؟ میں نے یہ دکھانے کی کوشش کی ہے کہ پاکستان کے بانیان اور قربانیں دینے والے مہاجروں کے لیے یہاں کے سندھیوں کے کیا خیالات ہیں۔۔۔
 

محمد امین

لائبریرین
دبئی میں مقیم " کراچی دربار ریسٹورانٹ گروپ" کے مالک انڈین مدراسی ہیں جو کراچی سیٹل ہیں اب بھی وہ اپنے آپ کو مدراسی کہتے ہیں مہاجر کبھی نہیں کہتے۔۔

مدراسی کہتے ہیں۔۔ عربی تو نہیں کہتے؟؟؟ حالانکہ میں دبئی میں رہتے ہیں۔۔۔ تو آپ کے کہنے کا مطلب ہے کہ اگر میرے دادا امرتسر کے تھے تو میں خود کو پاکستان کے بجائے امرتسری کہوں۔۔۔ امرتسری حال مقیم پاکستان، بمعنیٰ مہاجر۔۔۔
 
مجھے آپ سے یہ امید نہیں تھی امین بھائی، کہ آپ جواب میں قائدِ اعظم کو ہی پاگل کا بچہ کہہ ڈالیں گے۔
مجھے تو یہی لگا کہ مجھے ویڈیو کے ذریعے وہ حقائق یا باتیں کہنے بتانے کی کوشش کر رہے تھے جو آپ ویسے نہیں کہہ پائے۔
 
دیکھیں آپ کی کسی بھی بات سے ذرا سا بھی اختلاف نہیں ہو سکتا۔ اگر تمام پاکستانیوں کی ایسی سوچ ہو جائے تو اور کیا چاہیے، پھر کوئی خود کو مہاجر نہیں کہے گا۔ مہاجر اس لیے کہتے ہیں کہ دوسری "قومیتیں" اس پر مجبور کرتی ہیں۔ میں یہ نہیں کہہ رہا کہ یہ مہاجر "قوم" بہت پاک صاف اور معصوم ہے، لیکن بات یہ ہے کہ اس طرح کی نفرتیں دوسری طرف سے زیادہ نظر آتی ہیں اس لیے تکلیف ہوتی ہے۔ میں آپ کو بتاؤں، سندھ میں یہ مسائل زیادہ تر سیاست کی وجہ سے ہیں۔ لوگ لسانی بنیاد پر نفرتیں پھیلاتے ہیں۔ مہاجروں کا بلوچوں، سندھیوں، پختونوں اور پنجابیوں سے جھگڑا رہا ہے مختلف اوقات میں۔ یہ ٹریگر اس لیے ہوتا رہا کہ کراچی معاشی حب کے طور پر کوئی بھی "ہندوستان" سے آنے والوں اور ان کی اولادوں کے حوالے کرنے پر راضی نہیں ہے۔ ہر ایک کو یہاں اپنی دکان چمکانی ہے، چاہے وہ سیاسی ہو، مذہبی ہو یا معاشی اور پھر غیر منصفانہ سیاسی نظام اور وڈیرہ شاہی ان نفرتوں کو پھلنے پھولنے میں مدد دیتے ہیں صرف اور صرف اس لیے کہ کراچی میں بسنے والے جو لوگ ہندوستان میں جاگیریں اور نوابیت چھوڑ آئے تھے، اس کو یہاں کلیم نہیں کیا اور یہاں کی چھوڑی ہوئی ہندؤوں کی جاگیریں یہاں رہنے والے سندھیوں نے جو کہ پہلے چور ڈکیت تھے یا کچھ بھی نہیں تھے، انہوں نے ہتھیا لیں۔ 50، 60 کی دہائی میں ایسی نئے نئے وڈیروں اور خود کو سندھ کا خدا سمجھنے والے جاگیر داروں نے کراچی آ کر بسنے والوں کے ساتھ بے حساب زیادتیاں کیں جن کی گواہی تاریخ اور صحافت یقینا دے گی۔ ان ہی زیادتیوں کی وجہ سے ان مہاجرین کی اولادیں بھی آج تک خود کو ایک الگ شناخت دینے پر مصر ہیں، جبکہ پنجاب میں بسنے والے مہاجرین کے ساتھ ایسا بڑے پیمانے پر نہیں ہوا کیوں کہ پنجاب میں "کراچی" جیسا معاشی حب موجود نہیں (گو کہ لاہور ہے، مگر لاہور کی ڈائنامکس الگ ہیں ۔۔۔ویسے بر سرِ تذکرہ ہمارے بہت رشتے دار پنجاب کے مختلف علاقوں میں دہائیوں سے آباد ہیں)۔۔۔

کراچی میں صرف اس لیے ہے کہ یہاں ہجرت کرنے والوں کا تناسب مقامی آبادی کے مقابلے میں بہت زیادہ تھا اور پھر 1971 میں بھی سب کے سب تقریبا یہیں آئے تھے۔۔۔ اس لیے یہاں کی مقامی آبادی کو اپنا وجود غیر ضروری طور پر خطرے میں نظر آیا۔ یہاں کے سندھیوں نے مہاجرین کو فقط پناہ گزین کہا اور حتیٰ کہ واپس جانے کو بھی کہتے رہے ہیں یہ ساری باتیں ریکورڈ پر ہیں۔

شاہی سید جو کہ کئی دہائیوں قبل مردان سے ہجرت (برائے روزگار) کر کے کراچی آئے تھے اور اس جماعت کے نامور رہنما ہیں کہ جس کے بانی پاکستان کے شدید ترین مخالف تھے اور سرحد کے گاندھی کہلاتے تھے۔ یہی شاہی سید اس جماعت اے این پی کے سینیٹر ہیں اور کچھ عرصہ قبل کراچی میں ایک لسانی نفرتی اجتماع میں فرماتے پائے گئے کہ یہ پاکستان میں آنے والے مہاجر پناہ گزین ہیں انہیں واپس انڈیا بھیجو۔۔ (وڈیو یوٹیوب پر موجود)۔۔۔

یہ ایک مثال ہے ان لوگوں کے لیے جو یہ سمجھتے ہیں کہ "مہاجر شناخت" اور "قومیت" کراچی اور شہری سندھ میں بسنے والوں کی خود ساختہ اور خود اختیار کردہ اصطلاح اور پہچان ہے۔۔۔

جب تک شاہی سید، ڈاکٹر قادر مگسی، پلیجو خاندان اور ان جیسے دیگر سندھ اور مختلف "لسانی جماعتوں" کے سیاسی وڈیرے رہیں گے یہ سب چلتا رہے گا اور لڑ لڑ کر مرتے رہیں گے۔۔۔ نہ ہی ان قوم پرستوں نے سندھ کو کچھ دیا ہے اور نہ ہی یہ دینے کی آرزو رکھتے ہیں۔۔

ایم کیو ایم لاکھ بری سہی لیکن مصطفیٰ کمال کے دور میں سب نے دیکھا کہ شہری سندھ میں کس طرح فقید المثال ترقی ہوئی۔ ایم کیو ایم کے گناہوں کو اینڈورس نہیں کر رہا بلکہ یہ کہنے کی کوشش کر رہا ہوں کہ ایم کیو ایم نے جن سیاسی وڈیروں کی زیادتیوں کے خلاف تنظیم سازی کی تھی وہ مقصد بہرحال اچھا تھا، گو کہ وہ صرف ایک چھوٹی سی اکائی (مہاجر) کے حقوق کے لیے تھا اور یہ شناخت رکھنے والوں کو سندھ کے مفاد پرست قوم پرست عیاش اور اجڈ قسم کے وڈیروں اور غاصب سیاستدانوں سے بچانا تھا۔ افسوس ایم کیو ایم کے خلاف سازشیں بھی ہوئیں اور خود انہوں نے اپنے پیڑوں پر کلہاڑیاں بھی ماریں اور خود بھی امپلوڈ ہوتے رہے اور بلیک میل ہوتے رہے اپنے کالے کرتوتوں کی بدولت۔۔۔ آج کی ایم کیو ایم باقی جماعتوں سے ذرا بھی مختلف نہیں رہی۔ اس لیے ایم کیو ایم کی ستائش کے بجائے میں صرف یہی کہوں گا کہ کسی کو "مہاجر" کہلانے کا شوق نہیں ہے۔۔۔ صرف گذارش اتنی ہے کہ:

پاکستان میں بسنے والے خود کو لسانی و نسبی و علاقائی نفرتوں سے پاک کر لیں چاہے وہ کوئی بھی ہوں۔
کوٹا کا نظام سرے سے ختم کیا جائے۔ نوکریوں اور داخلوں کے لیے پورے پاکستان میں اوپن میرٹ ہو۔ کوئی بھی کہیں بھی داخلہ لینے کا اہل ہو نوکری کرنے کا اہل ہو بجائے اس کے کے ہر علاقے کے لیے نشستیں مخصوص ہوں۔
جن "قومیتوں" اور اکائیوں کو اکثریت سے، غالب طبقے سے یا مقتدر حلقوں سے کئی دہائیوں سے شکایتیں رہی ہیں، ان کی شکایتوں کو تحمل کے ساتھ قومی مسئلے کے طور پر سننا اور حل کرنا چاہیے۔ جب کوئی مسلسل شکایت کر رہا ہو تو یقینا کچھ نہ کچھ تو ہوا ہوگا۔ اگر شک ہی کرتے رہیں گے تو ہر شخص غدار دکھائی دیگا۔ اور نفرتیں بڑھتی رہیں گی۔
آخری بات یہ کہ گو کہ ایم کیو ایم مہاجروں کی بات کرتی ہے اور اکثر مہاجروں کی غیر شعوری ہمدردیاں بھی اسی وجہ سے ایم کیو ایم کے ساتھ ہو جاتی ہیں، اس چیز کو بالعموم مہاجروں پر طعن و تشنیع کرنے کے لیے نہ استعمال کیا جائے۔ اگر ایم کیو ایم کوئی غلط حرکت کرتی ہے تو اس پر تنقید کرنے کے لیے تمام ہی مہاجروں کوساتھ نہ لپیٹ لیا جائے۔ جیسا کہ سیاسی محاذ آرائی میں سندھی قوم پرست، شاہی سید جیسے لوگ یا پھر خورشید شاہ اور ہمنوا آجکل لگے پڑے ہیں۔ جز کو کل پر محمول نہ کیا جائے۔۔۔

آپ کی کسی ایک بات سے بھی اختلاف نہیں، لیکن مجھ سے ہزاروں لوگ یہ تفریق نہیں رکھنا چاہتے، ہم پیار پانا اور پیار لینا چاہتے ہیں، ہم کب تک پچھلے جھگڑوں میں پڑے رہیں گے، ہم کب آپس میں ایک ہونا سیکھیں گے، کب تک ہوئی غلطیوں کی پاداش میں مزید غلطیاں کریں گے۔

میرا درد صرف یہ ہے کہ میں کسی تفریق کو دیکھنا نہیں چاہتا، محسوس نہیں کرنا چاہتا اس کے بجائے میں چاہتا ہوں کہ ہم ایک وجود کے حصے بن کر رہیں۔ زخم نہ کریدیں۔
امین بھائی میں یہ اس فورم پر ہی نہیں کہہ رہا بلکہ کوئٹہ میں میرے بچپن کا سب سے بہترین دوست 2 کلاس سے ہے وہ اردو اسپیکنگ تھا بس اسی گھرانے کی محبت میں میرے لیے اردو اسپیکنگ لوگوں کے لیے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے سوفٹ کارنر رہا، میں نے بہت محنت کی ہے یہ خلیجیں پاٹنے میں یہاں تک کہ جب میں کراچی شفٹ ہوا تو اسی تفریق کو نہ مانتے ہوئے میں نے شادی بھی اردو اسپیکنگ فیملی سے کی۔ میری شادی پورے گاؤں کی پہلی شادی تھی جو اپنی گجر برادری سے باہر ہوئی۔ آپ اندازہ لگا لیں مجھے کتنی مخالفت کا سامنا رہا ہو گا۔

اب جب میری نظر میں ہم ایک ہی ہیں تو پھر مجھے تفریق کی باتوں پر دکھ ہوتا ہے۔ اس لیے ایم کیو ایم سے چڑتا ہوں کہ ہو ں کہ وہ مزید آئسولیشن کی بات کرتے ہیں اور ایسی باتوں کو بڑھاوا دیتے ہیں۔ ہم کیوں کوشش نہیں کر سکتے کہ پچھلی باتوں کو چھوڑیں سب سے غلطیاں ہوئیں لیکن اب یہ نسل تو امن اور محبت سے اپنی توجہ اس وطن کو دے سکے۔ بجائے جھگڑوں کے۔
 
ایک معلوماتی بات میں یہاں پیش کردوں کہ ملتان شہر میں بہت سے پنجابی بولنے والے جو بھارتی پنجاب سے ہجرت کر کے آئے تھے بستے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ ان پنجابیوں کی تعداد وہاں کے مقامی سرائیکی لوگوں سے زیادہ ہے۔
اب وہاں صورتحال یہ ہے کہ سرائیکی تو ان پنجابیوں کو مہاجر کہتے ہیں اور وہ پنجابی اپنے آپ کو مہاجر نہیں کہتے بلکہ صرف پنجابی کہتے ہیں۔ ان پنجابیوں کو خود کو مہاجر کہلوانے کا کوئی شوق نہیں۔
 
آپ کی کسی ایک بات سے بھی اختلاف نہیں، لیکن مجھ سے ہزاروں لوگ یہ تفریق نہیں رکھنا چاہتے، ہم پیار پانا اور پیار لینا چاہتے ہیں، ہم کب تک پچھلے جھگڑوں میں پڑے رہیں گے، ہم کب آپس میں ایک ہونا سیکھیں گے، کب تک ہوئی غلطیوں کی پاداش میں مزید غلطیاں کریں گے۔

میرا درد صرف یہ ہے کہ میں کسی تفریق کو دیکھنا نہیں چاہتا، محسوس نہیں کرنا چاہتا اس کے بجائے میں چاہتا ہوں کہ ہم ایک وجود کے حصے بن کر رہیں۔ زخم نہ کریدیں۔
امین بھائی میں یہ اس فورم پر ہی نہیں کہہ رہا بلکہ کوئٹہ میں میرے بچپن کا سب سے بہترین دوست 2 کلاس سے ہے وہ اردو اسپیکنگ تھا بس اسی گھرانے کی محبت میں میرے لیے اردو اسپیکنگ لوگوں کے لیے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے سوفٹ کارنر رہا، میں نے بہت محنت کی ہے یہ خلیجیں پاٹنے میں یہاں تک کہ جب میں کراچی شفٹ ہوا تو اسی تفریق کو نہ مانتے ہوئے میں نے شادی بھی اردو اسپیکنگ فیملی سے کی۔ میری شادی پورے گاؤں کی پہلی شادی تھی جو اپنی گجر برادری سے باہر ہوئی۔ آپ اندازہ لگا لیں مجھے کتنی مخالفت کا سامنا رہا ہو گا۔

اب جب میری نظر میں ہم ایک ہی ہیں تو پھر مجھے تفریق کی باتوں پر دکھ ہوتا ہے۔ اس لیے ایم کیو ایم سے چڑتا ہوں کہ ہو ں کہ وہ مزید آئسولیشن کی بات کرتے ہیں اور ایسی باتوں کو بڑھاوا دیتے ہیں۔ ہم کیوں کوشش نہیں کر سکتے کہ پچھلی باتوں کو چھوڑیں سب سے غلطیاں ہوئیں لیکن اب یہ نسل تو امن اور محبت سے اپنی توجہ اس وطن کو دے سکے۔ بجائے جھگڑوں کے۔

ویسے ایم کیو ایم سے مجھے بھی چڑ ہے
 

x boy

محفلین
مدراسی کہتے ہیں۔۔ عربی تو نہیں کہتے؟؟؟ حالانکہ میں دبئی میں رہتے ہیں۔۔۔ تو آپ کے کہنے کا مطلب ہے کہ اگر میرے دادا امرتسر کے تھے تو میں خود کو پاکستان کے بجائے امرتسری کہوں۔۔۔ امرتسری حال مقیم پاکستان، بمعنیٰ مہاجر۔۔۔
کراچی کا مدراسی ہے اپنے آپ کو پاکستانی مدراسی کہتا ہے مہاجر نہیں کہتا۔
 
Top