ایم کیو ایم مذہب کی ٹھکیدار نہ بنے

تاریخ: 27 اکتوبر 2014
ایم کیو ایم مذہب کی ٹھکیدار نہ بنے
تحریر: سید انور محمود

بہتر ہوگا اگرمتحدہ قومی موومنٹ اپنا لبرل تشخص قائم رکھے مہاجروں کے نام پر مذہب کی دوکان نہ چلائے۔ یقینا قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف اور پیپلز پارٹی کےرہنما سید خورشید شاہ نے غلطی کی تھی اور مہاجر کو گالی قرار دیا تھا، لیکن جب ایم کیو ایم نے اس پر احتجاج کیا تو حیدر عباس رضوی کی پریس کانفرنس کے دوران ہی خورشید شاہ نے میڈیا پر آکر "لیکن، اگر، مگر،چونکہ" کو استمال کیے بغیر نہ صرف ایم کیو ایم سے بلکہ پاکستان میں ہر اُس شخص سے معافی مانگ لی جس کو اُن کے مہاجر کو گالی قراردینے سے تکلیف پہنچی تھی، وہ اور بھی آگے گے اور انہوں نے اپنے آپ کو مہاجر قرار دئے دیا اور کہا کہ اُن کے بزرگ بھی مہاجر تھے۔ لیکن ایم کیو ایم نے اپنا احتجاج جاری رکھا اور 26 اکتوبر کو خورشید شاہ کے بیان پر احتجاج کرتے ہوئے پورئے پاکستان میں یوم سیاہ کا اعلان کیا۔ سندھ کے بڑئے شہروں کراچی، حیدرآباد، نواب شاہ اور سکھرمیں ایم کیو ایم نے اپنی بھرپور طاقت کا اظہار کیا ۔ آدھے سے زیادہ سندھ بندکرنے کے علاوہ کراچی میں شارع قائدین پر متحدہ قومی موومنٹ کی ایک بڑی ریلی سے ایم کیو ایم کے قایدین نےخطاب کیا۔

ایم کیوایم کے رہنما ڈاکٹر فاروق ستار کا کہنا تھا کہ پورے پاکستان کےوسائل پروڈیروں کاقبضہ ہورہاہے، سندھ کےشہری علاقوں میں اس یزیدیت کوقائم نہیں ہونےدیں گے، ہمارا احتجاج عظیم مقصد کے لیے ہے، خورشید شاہ نے ہوش و حواس میں لفظ مہاجرکو گالی کہا، کراچی میں سندھ کےوسائل پرجاگیرداروں اور وڈیروں کاقبضہ ہورہاہے، سندھ کے شہری وسائل پر قبضہ برقراررکھنے کے لیے یہ سازش کررہےہیں، سندھ میں عوام نے یوم سیاہ کو کامیاب بنایا۔ خالد مقبول صدیقی کا کہنا تھا کہ آج یہاں لاکھوں لوگ موجودہیں، پناہ گزینوں اورمہاجروں میں بہت فرق ہوتاہے، ہم وہ لوگ ہیں جنھوں نے ہندوستان کو پاکستان بنایا، آج کا مہاجر اپنے حصے کا پاکستان بن چکا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے کبھی اپنے لیے کسی چیز کا مطالبہ نہیں کیا، مہاجرصرف سندھ کے نہیں پاکستان کے بھی مالک ہیں،ہم ہرایک کےلیے قربانی دیناجانتےہیں۔ ہمیں کہاجارہا ہےکہ ہم ایک انتہاپسند جماعت بنتےجارہےہیں، جب بات ناموس رسالت پرآجائےوہاں ہم کسی کو نہیں دیکھتے۔

پاکستان پیپلزپارٹی کے رہنما سید خورشیدشاہ نے کہاکہ ایم کیو ایم کو سیاست آتی ہے۔وہ پہلے مہاجر قومی موومنٹ تھے، پھر سمجھ گئے کہ کراچی میں بیٹھ کر سیاست نہیں کرسکتے اور بعد میں لفظ مہاجر بدل کر پارٹی کا نام متحدہ قومی موومنٹ رکھ لیا ۔ اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ نے کہاکہ سندھ تو ایک تاریخ ہے، اس کی تقسیم ہر گز برداشت نہیں کی جائے گا۔سید خورشید شاہ کا کہنا تھا کہ مہاجر یا سندھی تو لفظ ہیں ، سندھ میں مختلف علاقوں سے آئے لوگ آباد ہیں جو اب خود کو سندھی کہتے ہیں اور اب سندھ ہی ان کی پہچان ہے ۔ انہوں نےکہاکہ کراچی میں ایک کروڑ سے زيادہ دوسری قومیتیں آباد ہيں ۔ پاکستان پیپلزپارٹی کے رہنما عبدالقادر پٹیل نے کہا ہے کہ لبرل کہلائی جانے والی جماعت نے مذہبی انتہاپسندی کا سہارا لے لیا ہے۔ جبکہ پٹیل نے ایم کیو ایم سے یہ سوال بھی کیا کہ آج جو آپ لفظ مہاجر کی وجہ سے بلاجوازاشتعال پیدا کررہے ہیں خود آپ نے اپنی جماعت کے نام سے مہاجر کیوں نکال دیا ؟ جواب میں ایم کیو ایم کے رہنما عبدالرشید گوڈیل نے میڈیا سے گفتگو میں پیپلز پارٹی کے قادر پٹیل کے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ایم کیو ایم لبرل جماعت ضرور ہے مگر لادین نہیں۔ کیا بات ہے گوڈیل صاحب آپ تو ایم کیو ایم کے مفتی ہوگے۔

صرف چار دن پہلے میں نے ایک مضمون "کیا لفظ مہاجر ایک گالی ہے؟" لکھا تھا جس میں بتایا تھا کہ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کی وجہ سے ابھی تک مہاجروں کو صرف نقصان پہنچا ہے۔ ایک اور بات صاف ہوجانی چاہیے کہ مہاجر کون ہیں؟ 67 سال پہلے جو لوگ ہندوستان سے آئے آج انکی اولادیں مہاجر کہلاتی ہیں ، پہلے اُنہیں پناہ گزیں کہا گیا، بلکہ پناہ گیر اور بھی بہت سارئےگندئے نام دیے گے، پھر وہ مہاجر کہلانے لگے اور انہوں نے بھی اپنی اس پہچان کو قبول کرلیا، آجکل اُنہیں اردو بولنے والے بھی کہا جاتا ہے۔ سندھ میں اور خاصکر کراچی میں تعصب تو ایوب خان کے زمانے سے ہی شروع ہوگیا تھا، جبکہ ایوب خان نے دارلخلافہ اسلام آباد لےجاکرکراچی کے لوگوں کے ساتھ کھلا تعصب برتا تھا، لیکن اسکے باوجود 1970ء کے الیکشن میں کراچی سے پیپلز پارٹی کےدو صوبائی اسمبلی کے ممبرمحمد علی گبول اور عبداللہ بلوچ جو سندھی تھے مہاجروں کے اکثریتی علاقوں نیوکراچی، فیڈرل بی ایریا، پاک کالونی اور پرانا گولیمار سے جیتے تھے، جبکہ اُنکے مقابلے میں دوسری سیاسی جماعتوں کے امیدوارجو مہاجر تھے وہ ہار گے تھے۔

اگرآپ کراچی کے قدیم باشندوں کو دیکھیں تو اُنکی زبوں حالی انتہائی قابل افسوس ہے، کراچی میں مسائل کا انبار ہے اور ایک کراچی ہی پر کیا منحصر ہے سندھ کے باقی شہروں اور دیہاتوں کی حالت بھی بہت خراب ہے، ایسا کیوں ہے؟ یہ سوال تو طویل عرصے تک یہاں متعین مارشل لاء ایڈمنسٹریڑوں اور ان سیکریٹریوں سے پوچھا جائے جو صوبہ کے سیاہ و سفید کے مالک رہے ہیں یا پھر اس کا جواب پیپلز پارٹی کےممتاز بھٹو، غلام مصطفٰی جتوئی یا ان کے جانشین دیں جنہیں ون یونٹ کے خاتمے کے بعد سندھ کے بااختیار وزیر اعلٰی رہنے کا شرف حاصل رہا ہے۔ پیپلز پارٹی جو اسوقت سندھ کی پانچویں مرتبہ حکمراں ہے اپنی لوٹ ماراور وڈیرہ شاہی سے سندھ کو برباد کرتی رہی ہے اور کررہی ہےیا پھر ایم کیو ایم سے پوچھا جائے جو گذشتہ 30 سال سے سندھ کے شہری علاقوں کی نہ صرف نمایندگی کررہی ہے بلکہ کافی عرصہ اقتدار میں اُسکا آنا جانا لگا رہا ہے جو کبھی مہاجروں کی نمایندہ بن جاتی ہے اور کبھی پورئے پاکستان کے غریبوں کی ہمدرد۔ جھگڑا یہ نہیں ہےکہ وہ لوگ جو 1947ء کے بعد ہندوستان کے مختلف علاقوں سے سندھ میں آئے انہوں نے تاریخی رواج کے مطابق اپنے آپ کو ابھی تک سندھ کی تہذیب میں مدغم کیوں نہیں کیا۔ بلکہ اصل جھگڑا اور بنیادی مسئلہ بلاتفریق سندھ کے تمام باشندوں میں تکلیف دہ حد تک معاشی ہے، بے روزگاری اور اقتدار میں عوام کی عدم شرکت ہے اور اس آگ میں سندھی اور مہاجر یکساں جل رہے ہیں۔

پیپلز پارٹی جو ملک گیر پارٹی تھی آج اسکی حالت یہ ہے کہ وہ اپنی حرکتوں کی وجہ سے اندرون سندھ کی پارٹی بن گئی ہے۔پارٹی کے اسی سالہ بوڑھے وزیراعلی قائم علی شاہ جو انتہاہی نہ اہل اور کرپٹ ہیں اور زرداری صاحب کے 26 سالہ نوجوان لاڈلے سپوت بلاول زرداری جو انتہائی بدتمیز ہیں سندھ کی موجودہ صورتحال کے ذمیدار ہیں۔ قائم علی شاہ، بلاول زرداری ، خورشید شاہ اور دوسرئے پیپلز پارٹی کے رہنماوں کی ڈور ہلانے والےخود زرداری ہیں، شاید وہ ابھی تک اقتدار میں آنے کی باری کے خمار میں مبتلا ہیں۔ ایم کیو ایم کو اس وقت جو خطرہ ہے وہ اپنی پوزیشن کوبرقرار رکھنا ہے گذشتہ سال الیکشن میں ایم کیو ایم کو اسکا اندازہ ہوچکا ہے، لہذا اُسکو کوئی بہانہ چاہیے تھا اپنی سیاسی ساکھ کو بچانے کےلیے جو پہلے بلاول نے اور بعد میں خورشید شاہ نے مہیا کردیا۔ پیپلز پارٹی سندھیوں کے نام پر اور ایم کیو ایم مہاجروں کے نام پر اگر سیاست نہ کریں تو یہ سندھ کے عوام پر احسان ہوگا۔ پاکستان کا آئین ہر گز نئے صوبے کے قیام سے منع نہیں کرتا لیکن وہ لسانی بنیاد پر صوبہ بنانے کی اجازت نہیں دیتا، ایم کیوایم کو پورا حق ہے نئے صوبے یا انتظامی یونٹ کی مانگ کا لیکن لسانیت کی بنیاد پر نہیں صرف اور صرف انتظامی بنیاد پر۔ خورشیدشاہ نے لفظ مہاجر کو گالی کہا اور پھر معذرت کرلی اسلیے یا تو ایم کیو ایم اب اس مسلئے کو درگذر کرئےاور اگر ایسا ناممکن ہو تو علماءدین سے رجوع کرئے خود ایم کیو ایم مذہب کی ٹھیکدار نہ بنے۔
 

زرقا مفتی

محفلین
10351404_919913384705174_8213658343923471296_n.jpg
 

محمد امین

لائبریرین

زرقا آپا ایسی کومکس انتہائی فضول ہوتی ہیں انہیں مت شیئر کیا کریں۔ کوئی منطقی بات نہیں ہے یہ۔ کراچی میں رہنے والے 50 لاکھ پختون 68 سال گزرنے کے بعد بھی پختون کے پختون ہی ہیں، خود کو کبھی کراچی والا نہیں کہتے۔۔۔ نہ ہی ان کی "ایتھنی سٹی" تبدیل ہوئی اور نہ ہی شناخت، نہ ہی کسی پختون نے 68 سال میں خود کو سندھی کہلانا شروع کردیا۔۔۔۔ اسی طرح جو لوگ انڈیا کے مختلف علاقوں سے یہاں آئے، ان کی نسلیں بھی خود کو یہاں رہنے والے "typical سندھیوں" سے الگ سمجھتی ہیں اور انہیں "پاکستانی" کے علاوہ اور کوئی نام نہیں دیا جاتا جبکہ یہاں ہر بندہ سندھی پنجابی پختون اور بلوچ وغیرہ کہلا کر حقوق لے لیتا ہے لڑتا ہے جھگڑتا ہے۔ جب یہ "ہندوستانیوں" کی اولادیں خود کو کوئی نام دینا چاہیں تو اس کو تحقیر کیوں سمجھا جاتا ہے گالی کیوں سمجھا جاتا ہے؟؟؟ لفظ مہاجر اور مہاجرین جید و مستند مؤرخین، ادیبوں، شعرا اور مصنفین و صحافی حضرات نے لاکھوں مرتبہ استعمال کیا ہے۔۔۔ اس میں کوئی شرم کی بات نہیں، شرم کی بات تو یہ ہے کہ آج تک کراچی میں بس جانے والے "مہاجروں" کو نہ ہی سندھی سمجھ کر حقوق دیے جاتے ہیں اور نہ ہی صوبائی طور پر مناسب نمائندگی دی جاتی ہے۔ اس بات کا ثبوت سندھ میں اربن اور رورل کی واضح تفریق ہے جو کہ نوکریوں کے سلسلے میں نظر آتی ہے۔ جس کے نتیجے میں کراچی میں تو "رورل" سندھ سے کوئی بھی جاہل اور سیاسی بھرتی والا شخص بڑی بیوروکریٹک پوسٹ پر آسکتا ہے جبکہ "اربن" سندھ والا شخص جو کہ 99٪ اردو بولنے والا "مہاجرین" کی اولاد میں سے ہوتا ہے، وہ نہ ہی اپنے علاقے میں اور نہ ہی "میرٹ" پر رورل" سندھ میں اور نہ ہی کسی دوسرے علاقے میں باآسانی کسی بڑی بیوروکریٹک پوسٹ پر جا سکتا ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ بالکل نہیں ہونگے سرکاری افسران اربن سندھ کے لیکن اس طور نمائندگی نہیں دی جاتی، تحقیر کی جاتی ہے۔ آخری بات یہ کہ متحدہ کا جائز مطالبہ ہے، اردو بولنے والا "مہاجروں" کی اولاد سندھ کا وزیرِ اعلیٰ کیوں نہیں بن سکا ابھی تک 68 سالوں میں؟ وڈیرے کب تک سندھ کے چیف ایگزیکٹو بنتے رہیں گے؟؟ کراچی کا مئیر جب مصطفیٰ کمال "مہاجر" بنا تھا تو پوری دنیا میں اس کے کام اور جوش کی دھوم تھی۔۔۔ فرق صاف ظاہر ہے، میں اس شہر کا باسی ہوں، اس ملک سے محبت کرتا ہوں، میں صوبائیت سے پاک ہوں، وڈیروں کا غلام نہیں ہوں، اسلیے میں اپنے شہر اور اپنے علاقے کی خدمت "رورل" سندھ سے لائے جانے والوں سے زیادہ بہتر اور شوق سے کر سکتا ہوں۔۔۔

مجید لاہوری جو کہ "پنجابی مہاجر" تھے اور کراچی سے شدید محبت کرتے تھے، ان کا ایک شعر:

وزارت کو تھی خود میری ضرورت
میں ٹنڈو جام سے لایا گیا ہوں!

جب کوئی "مہاجر" یہ باتیں کرتا ہے تو اس کو تعصب سمجھا جاتا ہے اور جب سندھی سندھ کا رونا ڈالے تو یہ عین محبت ہے اور اس عین محبت میں سندھ کے اندر پاکستان کے جھنڈے جل رہے ہیں کوئی کچھ نہیں کہتا کیوں کہ غدار تو صرف کراچی والے مہاجر ہیں۔۔۔ انہیں تو "پاکستانی" ہونا چاہیے تھا ۔۔۔ جبکہ دوسروں کو حق ہے خود کو پاکستانی کے ساتھ ساتھ ذیلی طور پر سندھی پنجابی کہلا لیں۔۔۔ جب میں سندھی یا پنجابی زبان نہیں بولتا تو خود کو سندھی یا پنجابی کیوں کہلاؤں؟؟

ایک بات واضح کردوں، میں ننھیال اور ددھیال دونوں طرف سے "اردو بولنے والا پنجابی مہاجر" ہوں اور ایم کیو ایم سے میری کوئی وابستگی نہیں ہے۔ لہٰذا سیاسی الزامات نہ لگائے جائیں۔
 
میرے پیارے بھائی پٹھان ،پنجابی قوم ہے ۔ مہاجر ہونا کوئی قومیت نہیں ہے۔ خود کومہاجر کہلانے والے ہمارے بھائی ہیں ۔اور پاکستانی ہیں مہاجر بالآخر اپنے وطن واپس لوٹ جانے والے کو کہتے ہیں یا کم از کم لوٹ جانے کی خواہش رکھنے والے کو کہتے ہیں
 

کاشفی

محفلین
رات سوئے ہندوستان میں اور صبح اُٹھے تو پاکستان بنا ہوا پایا۔۔ ایسے لوگوں کو نہیں معلوم کہ مہاجر کیا ہیں اور مہاجر قوم کیا ہے۔
جن لوگوں کے اجداد نے پاکستان کے لیئے کچھ نہیں کیا وہ ہمیشہ سے مہاجروں کے خلاف سازش کرتے پھرتے ہیں۔۔

نام نہاد جہاد، دہشت گردی، بھیک منگی، اغواء برائے تاوان، قرآن سے شادی، اسلام کے نام پر لوگوں کو بیوقوف بنانا، مذہبی انتہا پسندی، فرقہ واریت، پورے ملک میں اسلحہ کلچر متعارف کروانے، کشمیر کے نام پر فنڈ ہڑپ کرنے والے، پاک فوج کے گردن اُڑانے والے، بلوچستان کو آزاد بلوچستان بنانے کی تحریک چلانے والے، سندھو دیش کا نعرہ لگانے والے اور دیگر غلط کام کرنے والے مہاجر نہیں ہیں۔۔
مہاجر کو گالیاں دینے والے خود اس ملک کے لیئے گالی کا درجہ رکھتے ہیں۔۔ یہ گالیاں اور اس کی طرفداری کرنے والے وہ لوگ ہیں جو اپنے بیٹیوں اور بہنوں کی شادیاں قرآن سے کرواتے ہیں بےغیرت قسم کے لوگ اپنی ماؤں بہنوں اور بیٹیوں کے خلاف بھی گالیاں سنتے ہوئے خوش ہوتے ہیں۔
 

کاشفی

محفلین
دنیا والوں یاد رکھو!
جب مہاجر یا مہاجر شہیدوں کے لیے منہ کھولو تو یاد رکھنا جنہوں نے مہاجروں کے شہداء، انکے بزرگوں کی تذلیل کی انہیں نہ زمین کھا سکی نہ آسمان نگل پایا۔ نہ وہ سمندر میں ڈوبے نا انہیں کہیں پناہ ملی۔ ہم یاد رکھتے ہیں بھولتے نہیں ہم تاریخ کے ساتھ چلتے ہیں گم نہیں ہوتے اور ہم انشاء اللہ تمہیں بھی رسواء ہوتے دیکھیں گے۔ ظلم کی رات لمبی مگر سحر کا اُجالا ظلم کی رات کو فنا کردیتا ہے۔
 

x boy

محفلین
لوٹا گروپ ہے
ہر دور میں ہر کسی کے ساتھ شامل ہونا، پھر الگ ہونا پھر لندن میں طے پانا پھر شامل ہوتا،،
مک مکا سیاسی پارٹی ہے یہ کچھ دنوں تک عمران خان صاحب کو برا بھلا کہہ رہے تھے
پھر اس مافیا نے " گو نواز گو" کا نعرہ لگایا،، اب نواز شریف سے ملنے گئے اور " نواز شریف ذندہ باد کے نعرے بلند۔
جسطرح سندھ میں پی پی پی بدنام ہوئی جیسے "منی بدنام ہوئی" اسی طرح انکا حال ہونے والا ہے
 

x boy

محفلین
لوٹا گروپ ہے
ہر دور میں ہر کسی کے ساتھ شامل ہونا، پھر الگ ہونا پھر لندن میں طے پانا پھر شامل ہوتا،،
مک مکا سیاسی پارٹی ہے یہ کچھ دنوں تک عمران خان صاحب کو برا بھلا کہہ رہے تھے
پھر اس مافیا نے " گو نواز گو" کا نعرہ لگایا،، اب نواز شریف سے ملنے گئے اور " نواز شریف ذندہ باد کے نعرے بلند۔
جسطرح سندھ میں پی پی پی بدنام ہوئی جیسے "منی بدنام ہوئی" اسی طرح انکا حال ہونے والا ہے
 

کاشفی

محفلین
مہاجر دشمن عناصر تاریخ کا مطالعہ کریں، گزشتہ67برسوں سےکن چوروں، ڈاکوں نےملک کودونوں ہاتھوں سےلوٹا، قرضےمعاف کروائے۔
 

زرقا مفتی

محفلین
زرقا آپا ایسی کومکس انتہائی فضول ہوتی ہیں انہیں مت شیئر کیا کریں۔ کوئی منطقی بات نہیں ہے یہ۔ کراچی میں رہنے والے 50 لاکھ پختون 68 سال گزرنے کے بعد بھی پختون کے پختون ہی ہیں، خود کو کبھی کراچی والا نہیں کہتے۔۔۔ نہ ہی ان کی "ایتھنی سٹی" تبدیل ہوئی اور نہ ہی شناخت، نہ ہی کسی پختون نے 68 سال میں خود کو سندھی کہلانا شروع کردیا۔۔۔۔ اسی طرح جو لوگ انڈیا کے مختلف علاقوں سے یہاں آئے، ان کی نسلیں بھی خود کو یہاں رہنے والے "typical سندھیوں" سے الگ سمجھتی ہیں اور انہیں "پاکستانی" کے علاوہ اور کوئی نام نہیں دیا جاتا جبکہ یہاں ہر بندہ سندھی پنجابی پختون اور بلوچ وغیرہ کہلا کر حقوق لے لیتا ہے لڑتا ہے جھگڑتا ہے۔ جب یہ "ہندوستانیوں" کی اولادیں خود کو کوئی نام دینا چاہیں تو اس کو تحقیر کیوں سمجھا جاتا ہے گالی کیوں سمجھا جاتا ہے؟؟؟ لفظ مہاجر اور مہاجرین جید و مستند مؤرخین، ادیبوں، شعرا اور مصنفین و صحافی حضرات نے لاکھوں مرتبہ استعمال کیا ہے۔۔۔ اس میں کوئی شرم کی بات نہیں، شرم کی بات تو یہ ہے کہ آج تک کراچی میں بس جانے والے "مہاجروں" کو نہ ہی سندھی سمجھ کر حقوق دیے جاتے ہیں اور نہ ہی صوبائی طور پر مناسب نمائندگی دی جاتی ہے۔ اس بات کا ثبوت سندھ میں اربن اور رورل کی واضح تفریق ہے جو کہ نوکریوں کے سلسلے میں نظر آتی ہے۔ جس کے نتیجے میں کراچی میں تو "رورل" سندھ سے کوئی بھی جاہل اور سیاسی بھرتی والا شخص بڑی بیوروکریٹک پوسٹ پر آسکتا ہے جبکہ "اربن" سندھ والا شخص جو کہ 99٪ اردو بولنے والا "مہاجرین" کی اولاد میں سے ہوتا ہے، وہ نہ ہی اپنے علاقے میں اور نہ ہی "میرٹ" پر رورل" سندھ میں اور نہ ہی کسی دوسرے علاقے میں باآسانی کسی بڑی بیوروکریٹک پوسٹ پر جا سکتا ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ بالکل نہیں ہونگے سرکاری افسران اربن سندھ کے لیکن اس طور نمائندگی نہیں دی جاتی، تحقیر کی جاتی ہے۔ آخری بات یہ کہ متحدہ کا جائز مطالبہ ہے، اردو بولنے والا "مہاجروں" کی اولاد سندھ کا وزیرِ اعلیٰ کیوں نہیں بن سکا ابھی تک 68 سالوں میں؟ وڈیرے کب تک سندھ کے چیف ایگزیکٹو بنتے رہیں گے؟؟ کراچی کا مئیر جب مصطفیٰ کمال "مہاجر" بنا تھا تو پوری دنیا میں اس کے کام اور جوش کی دھوم تھی۔۔۔ فرق صاف ظاہر ہے، میں اس شہر کا باسی ہوں، اس ملک سے محبت کرتا ہوں، میں صوبائیت سے پاک ہوں، وڈیروں کا غلام نہیں ہوں، اسلیے میں اپنے شہر اور اپنے علاقے کی خدمت "رورل" سندھ سے لائے جانے والوں سے زیادہ بہتر اور شوق سے کر سکتا ہوں۔۔۔

مجید لاہوری جو کہ "پنجابی مہاجر" تھے اور کراچی سے شدید محبت کرتے تھے، ان کا ایک شعر:

وزارت کو تھی خود میری ضرورت
میں ٹنڈو جام سے لایا گیا ہوں!

جب کوئی "مہاجر" یہ باتیں کرتا ہے تو اس کو تعصب سمجھا جاتا ہے اور جب سندھی سندھ کا رونا ڈالے تو یہ عین محبت ہے اور اس عین محبت میں سندھ کے اندر پاکستان کے جھنڈے جل رہے ہیں کوئی کچھ نہیں کہتا کیوں کہ غدار تو صرف کراچی والے مہاجر ہیں۔۔۔ انہیں تو "پاکستانی" ہونا چاہیے تھا ۔۔۔ جبکہ دوسروں کو حق ہے خود کو پاکستانی کے ساتھ ساتھ ذیلی طور پر سندھی پنجابی کہلا لیں۔۔۔ جب میں سندھی یا پنجابی زبان نہیں بولتا تو خود کو سندھی یا پنجابی کیوں کہلاؤں؟؟

ایک بات واضح کردوں، میں ننھیال اور ددھیال دونوں طرف سے "اردو بولنے والا پنجابی مہاجر" ہوں اور ایم کیو ایم سے میری کوئی وابستگی نہیں ہے۔ لہٰذا سیاسی الزامات نہ لگائے جائیں۔

امین بھائی میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ جو لوگ اپنا گھر بار روزگار چھوڑ کر پاکستان آئے تھے وہ سب سے پہلے پاکستانی ہیں۔ وہ پاکستان کو اپنا وطن مان کر ہندوستان سے یہاں آئے تھے ۔ اُن بزرگوں کی توقیر کے لئے میرے پاس الفاظ نہیں ہیں
مگر میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ جو بچہ پاکستان میں پیدا ہوا وہ اپنے وطن میں خود کو مہاجر کیوں سمجھتا ہے یا کیوں کہلواتا ہے ۔ لاہور میں اور پنجاب کے دیگر شہروں میں بھی بہت سے لوگ ہجرت کر کے آئے وہ تو خود کو مہاجر نہیں پاکستانی کہلواتے ہیں۔ میری پھپھو کی اور میری دونوں نندوں کی شادیاں ایسے خاندان میں ہوئیں۔ پنجاب میں ایسی کوئی تخصیص نہیں ہے ۔ سندھ میں بھی ایسا نہیں ہونا چاہیئے

تحریک پاکستان کا سب سے مشہور نعرہ تو یہی تھا نا
پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الااللہ

تو پھر ہم تو یہی سمجھتے ہیں کہ
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لئے
نیل کے ساحل سےلے کر تابخاک کاشغر

مجھ سے کوئی پوچھتا ہے کہ آپ کی ذات کیا ہے تو میں یہی جواب دیتی ہوں میں ایک مسلمان پاکستا نی ہوں ۔ ذات برادری میں کچھ نہیں رکھا ۔ ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے آخری خطبے میں یہ تفریق مٹا دی تھی ۔ تو اگر ہم اُن سے محبت کے دعوے دار ہیں تو یہ تفریق ختم ہونی چاہیئے ۔ جو لوگ اسلام کے نام پر بننے والے ملک کو اپنا وطن مان کر پاکستان آئے تھے اُنہیں خود کو پاکستانی کہنا چاہیئے مہاجر نہیں۔

پوری دُنیا میں پیدائش کے حوالے سےشہریت کے دو قوانین ہیں
پیدائش سے
نسب سے
پیدائش کے لحاظ سے تو سندھ کے اردو اسپیکنگ پاکستانی ہیں۔ نسب کے لحاظ شاید ہندوستانی ہوں

یونی ورسٹی میں داخلے کے لئے اکثر بچوں کو ڈومیسائل بنانا ہوتا ہے ۔ ڈومیسائل پر ایک صوبے کا خانہ ہے ۔ سندھ میں پیدا ہونے بچوں کے ڈومیسائل پر کا لکھا جاتا ہے ۔ صوبہ سندھ ہی لکھا جاتا ہے نا۔ تو پھر یہ سب مہاجر کیسے ہیں؟ یہ سب پاکستانی ہیں

اگر نوکریوں میں اردو اسپیکنگ لوگوں کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جاتا ہے تو یہ سندھ حکومت کی زیادتی ہے اور اسے ختم ہونا چاہیئے ۔ یونی ورسٹی داخلوں میں ایسا کوئی امتیاز نہیں ہے کیونکہ میرے بہت سےاُردو اسپیکنگ رشتہ دار کراچی میں اعلی تعلیمی درسگاہوں سے وابستہ رہے ہیں۔طالب علم کی حیثیت سے بھی اور اُستاد کی حیثیت سے بھی اور کچھ تو پرنسپل کے عہدے تک بھی پہنچے
 
آخری تدوین:

سید زبیر

محفلین
یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ مہاجر کا مسئلہ سندھ کے شہری علاقوں ہی میں کیوں ہے سندھ میں بے شمار پنجابی ، پختون ، بلوچ کئی دہائیوں سے آباد ہیں اور سادات جو عرب سے آئے تھے تاریخ کے کسی ب ھی دور میں مہاجر نہیں کہلائے ۔ زرداری ، جتوئی جیسے متعدد قبیلے بلوچستان سے آ کر آباد ہوئے ۔ کیا پنجابی ، سندھی اور بلوچی سندھ کے مہاجروں سے تعصب کرتے ہیں ۔ اگر ہم جائزہ لیں تو سندھ کے نبی بخش بلوچ سے لے کر امر جلیل تک ،بلوچستان کے یوسف مگسی سے لے کر ڈاکٹر فردوس قاضی ا اور آگا گل جیسے لا تعداد نام ہیں پنجاب میں علامہ اقبال ، فیض ، احمد ندیم قاسمی اور بے شمار شعروں اور لکھاریوں نے اردو کو پروان چڑھایا ، احمد فراز ، صابر بنگش ، رحمت راہی ، جیسے عظیم شاعر کے پی کے سے تعلق رکھتے تھے ۔ مگر کتنے ایسے لکھاری ہونگے جن کی مادری زبان اردو ہو اور وہ پنجابی ، سندھی ، بلوچی میں لکھتے ہوں ۔ عوام الناس میں کتنے دیگر زبانوں والے اردو میں بات کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں اور اردو بولنے والوں میں کتنے فیصد لوگ دوسر زبان بولتے ہیں یا سمجھتے ۃیں ۔ متعصب کون ہوا ؟

اصل مسئلہ ہے کراچی کی بندرگاہ میں پرورش پانے والے ڈان کا ۔ جو اقتدار خصوصا بندرگا ہ پراپنا قبضہ جمانا چاہتے ہیں ۔ کیا یہ لوگ بھول گئے جب مدینہ میں کسی مسئلہ پر ایک شخص نے مہاجرین کو اپنی حمایت میں پکارا تو آقائے نامدار علیہ السلام کا چہرہ مبارک سرخ ہوگیا تھا ۔ کیا ہم تعصب ختم کرکے بھائی چارہ سے نہیں رہ سکتے ۔۔ مذہبی اجارہ داروں نے پہلے ہی ہمیں تقسیم کردیا ۔ میرا خیال ہے دنیا میں مسلمان واحد قوم ہے جو آپس میں لڑتی ہے اور ہر فریق یہ کہتا ہے کہ ہمیں اغیار لڑا رہے ہیں ۔
 

زرقا مفتی

محفلین
اب دیکھا جائے تو نواز شریف کا خاندان بھی ہجرت کرکے پاکستان میں آباد ہوا تھا۔ اب اگر اس خاندان کو بھی مہاجر سمجھ لیا جائے تو ایک مہاجر پنجاب کا وزیر اعلی ہے اور دوسرا پاکستان کا وزیر اعظم
پرویز مشرف کے والدین بھی ہجرت کر کے پاکستان آئے تھے ۔اور بھی کتنے ہی وزیر مشیر ایسے ہونگے
 

سید زبیر

محفلین
تعصب کرنے والا امت محمدیہ سے خارج ہے

عن جبیر بن مطعم ان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قَالَ لَیْسَ مِنَّا مَنْ دَعَا اِلی عَصَبِیَّةٍ وَلَیْسَ مِنَّا مَنْ قَاتَلَ عَصَبِیَّةً وَلَیْسَ مِنَّا مَنْ مَّاتَ عَلٰی عَصَبِیَّةٍ․ رواہ ابوداوٴد، مشکوة/۴۱۸۔

جبیربن مطعم سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلى الله عليه وسلم نے فرمایا جو عصبیت کا داعی ہو اور عصبیت کی خاطر قتال وجنگ وجدل کررہا ہو اور جو تعصب کی خاطر قتال کرتا ہوا مرجائے وہ ہم میں سے نہیں ہے۔

رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا ہم میں سے نہیں جس نے عصبیت کی دعوت دی اور ہم میں سے نہیں جس نے عصبیت کی خاطر قتال کیا اور ہم میں سے نہیں وہ جو عصبیت کی حالت میں مرگیا۔

یعنی جس وقت اس کا آخری وقت تھا اس وقت بھی وہ قوم وبرادری کی ظالم ہونے کے باوجود مدد کرہا تھا اور ظلم وتعدی کو ظلم نہیں سمجھ رہا تھا قومیت و برادری پر فخر کررہا تھا اسی حالت میں مرگیا تو رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے اس کیلئے یہ وعید بیان فرمائی ہے۔

متعصب کی نماز جنازہ نہیں پڑھی جائے گی

اگر یوں کہا جاوے کہ تعصب ناسور سے بھی بدتر ہے تو کوئی مبالغہ نہیں ہوگا کیونکہ ناسور جیسے امراض تو دنیوی زندگی کو تباہ وبرباد کرتے ہیں بلکہ ان امراض میں مبتلا انسانوں کو ایمان والوں کو اخروی ثواب سے نوازا جائے گا اور تعصب وعصبیت سے دنیا بھی برباد اور آخرت بھی، دنیا میں بھی رسوائی اور آخرت میں بھی۔ ایک تو اس وجہ سے کہ لوگ ان کو ذلیل وحقیر سمجھتے ہیں دوسرے حضور اکرم صلى الله عليه وسلم نے ان کو ملت بیضاء سے خارج کردیا تیسرے دنیوی رسوائی اس طرح سے کہ مذکورہ حدیث و دیگر احادیث کے پیش نظر فقہاء نے چار طرح کے لوگوں کی نماز جنازہ پڑھنے کو ناجائز لکھا ہے حالانکہ یہ تمام مسلمان ہیں: (۱) امام عادل کے خلاف اسلامی حکومت میں بغاوت کرنے والے، (۲) ڈاکو ، (۳) تعصب کی وجہ سے آپس میں لڑنے والے دوگروپ اور اسی حالت میں قتل ہوجائیں، (۴) شہر میں ہتھیار وغیرہ کے ذریعہ کسی بے گناہ کے قتل کے درپے ہونے والا یا مال غصب کرنے والا اور اسی حالت میں قتل ہوجائے۔ ان بدقسمت لوگوں کو نہ غسل دیا جائے گا اور نہ نماز پڑھی جائے گی تاہم یہ حکم اسی وقت ہوگا جب کہ یہ حضرات بغاوت کرتے ہوئے، ڈاکہ ڈالتے ہوئے، تعصب کی خاطر قتال کرتے ہوئے، شہر میں ہتھیار وغیرہ کے ذریعہ کسی بے گناہ کے قتل یا مال لینے کے فراق میں قتل ہوجائیں ورنہ اگر مذکورہ افعال کے صدور سے قبل یا بعد میں موت واقع ہوتو ان کو غسل بھی دیا جائیگا اور نماز بھی پڑھی جائے گی۔ (درمختار علی رد المحتار (شامی) ۱/۶۴۲-۶۴۳)

لیکن یہ حکم چونکہ شہداء کا ہے کہ ان کو غسل نہ دیا جائے تو ان لوگوں کی مشابہت بالشہداء سے احتراز کی وجہ سے ان کو غسل دیا جائے گا اور نماز نہیں پڑھی جائے گی اور اسی پر فتویٰ ہے۔ تاتارخانیہ ۱/۶۰۷، رد المحتار ۱/۶۴۳، اور ان کی نماز نہ پڑھنا اس لئے تاکہ لوگوں پر ان کی ذِلت واضح ہوجائے اور سبق حاصل کریں کہ یہ افعال قبیح اور قابل احتراز ہیں۔ شامی ۱/۶۴۲۔

تعصب کی وجہ سے آدمی کی ذلت وہلاکت

ایک حدیث میں اپنی قوم کی ناحق مدد کرنے والے کو اس اونٹ کے ساتھ تشبیہ دی ہے جو کنویں میں گرجائے اور اس کو دم پکڑ کر کنویں سے نکالا جائے۔ ملا علی قارینے اس حدیث کے دو معنی بیان کئے ہیں کہ اس ظالم نے اپنی قوم کی ناحق مدد کرکے اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالدیا کیونکہ اس کا ارادہ نصرتِ باطلہ سے عزت وسرفرازی رفعت وبلندی تھا پس یہ گناہوں کے کنویں میں گرگیا اور اونٹ کی طرح ہلاک ہوگیا پس یہ ناحق مدد اس کے لئے ایسے ہی غیر نافع ہے جس طرح اونٹ کو کنویں سے دم پکڑ کر نکالنا۔ (۲) دوسرا مطلب یہ ہے کہ سیدنا محمد عربی صلى الله عليه وسلم نے قوم کو ہلاک ہونے والے سے اونٹ کے ساتھ تشبیہ دی کیونکہ جو حق پر نہیں ہوتا وہ تباہ وبرباد ہی ہوجاتا ہے اور اس ناحق مدد کرنے والے کو اونٹ کی پونچھ (دم) کے ساتھ تشبیہ دی کہ جس طرح اس اونٹ کو دم کے بل کھینچ کرنکالنا ہلاکت سے نہیں بچاسکتا اسی طرح اپنی ظالم قوم کی ناحق نصرت کے ذریعہ اس قوم کو ہلاکت کے اس کنویں سے نہیں بچاسکتا جس میں یہ لوگ گرگئے ہیں۔ مرقاة المفاتیح ۹/۱۲۸۔
حدیث شریف ملاحظہ فرمائیں:
عن ابن مسعود عن النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم قَالَ مَنْ نَصَرَ قَوْمَہعَلٰی غَیْرِ الْحَقِّ کَالْبَعِیْرِ الَّذِیْ رَوٰی فَہُوَ یُنْزَعُ بِذَنْبِہ․ ابوداوٴد ۲/۶۹۸، مشکوة/۴۱۸۔
ابن مسعودنبی اکرم صلى الله عليه وسلم کا فرمان نقل فرماتے ہیں آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا جو شخص اپنی قوم کی ناحق مدد کرتا ہے وہ اس اونٹ کے مانند ہے جو کنویں میں گرگیا اوراس کی دم پکڑ کر اس کو نکالا جائے۔
 

محمد امین

لائبریرین
امین بھائی میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ جو لوگ اپنا گھر بار روزگار چھوڑ کر پاکستان آئے تھے وہ سب سے پہلے پاکستانی ہیں۔ وہ پاکستان کو اپنا وطن مان کر ہندوستان سے یہاں آئے تھے ۔ اُن بزرگوں کی توقیر کے لئے میرے پاس الفاظ نہیں ہیں
مگر میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ جو بچہ پاکستان میں پیدا ہوا وہ اپنے وطن میں خود کو مہاجر کیوں سمجھتا ہے یا کیوں کہلواتا ہے ۔ لاہور میں اور پنجاب کے دیگر شہروں میں بھی بہت سے لوگ ہجرت کر کے آئے وہ تو خود کو مہاجر نہیں پاکستانی کہلواتے ہیں۔ میری پھپھو کی اور میری دونوں نندوں کی شادیاں ایسے خاندان میں ہوئیں۔ پنجاب میں ایسی کوئی تخصیص نہیں ہے ۔ سندھ میں بھی ایسا نہیں ہونا چاہیئے

تحریک پاکستان کا سب سے مشہور نعرہ تو یہی تھا نا
پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الااللہ

تو پھر ہم تو یہی سمجھتے ہیں کہ
اک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لئے
نیل کے ساحل سے تابخاک کاشغر

مجھ سے کوئی پوچھتا ہے کہ آپ کی ذات کیا ہے تو میں یہی جواب دیتی ہوں میں ایک مسلمان پاکستا نی ہوں ۔ ذات برادری میں کچھ نہیں رکھا ۔ ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے آخری خطبے میں یہ تفریق مٹا دی تھی ۔ تو اگر ہم اُن سے محبت کے دعوے دار ہیں تو یہ تفریق ختم ہونی چاہیئے ۔ جو لوگ اسلام کے نام پر بننے والے ملک کو اپنا وطن مان کر پاکستان آئے تھے اُنہیں خود کو پاکستانی کہنا چاہیئے مہاجر نہیں۔

پوری دُنیا میں شہریت کے دو قوانین ہیں
پیدائش سے
نسب سے
پیدائش کے لحاظ سے تو سندھ کے اردو اسپیکنگ پاکستانی ہیں۔ نسب کے لحاظ شاید ہندوستانی ہوں

یونی ورسٹی میں داخلے کے لئے اکثر بچوں کو ڈومیسائل بنانا ہوتا ہے ۔ ڈومیسائل پر ایک صوبے کا خانہ ہے ۔ سندھ میں پیدا ہونے بچوں کے ڈومیسائل پر کا لکھا جاتا ہے ۔ صوبہ سندھ ہی لکھا جاتا ہے نا۔ تو پھر یہ سب مہاجر کیسے ہیں؟ یہ سب پاکستانی ہیں

اگر نوکریوں میں اردو اسپیکنگ لوگوں کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جاتا ہے تو یہ سندھ حکومت کی زیادتی ہے اور اسے ختم ہونا چاہیئے ۔ یونی ورسٹی داخلوں میں ایسا کوئی امتیاز نہیں ہے کیونکہ میرے بہت سےاُردو اسپیکنگ رشتہ دار کراچی میں اعلی تعلیمی درسگاہوں سے وابستہ رہے ہیں۔طالب علم کی حیثیت سے بھی اور اُستاد کی حیثیت سے بھی اور کچھ تو پرنسپل کے عہدے تک بھی پہنچے

دیکھیں آپ کی کسی بھی بات سے ذرا سا بھی اختلاف نہیں ہو سکتا۔ اگر تمام پاکستانیوں کی ایسی سوچ ہو جائے تو اور کیا چاہیے، پھر کوئی خود کو مہاجر نہیں کہے گا۔ مہاجر اس لیے کہتے ہیں کہ دوسری "قومیتیں" اس پر مجبور کرتی ہیں۔ میں یہ نہیں کہہ رہا کہ یہ مہاجر "قوم" بہت پاک صاف اور معصوم ہے، لیکن بات یہ ہے کہ اس طرح کی نفرتیں دوسری طرف سے زیادہ نظر آتی ہیں اس لیے تکلیف ہوتی ہے۔ میں آپ کو بتاؤں، سندھ میں یہ مسائل زیادہ تر سیاست کی وجہ سے ہیں۔ لوگ لسانی بنیاد پر نفرتیں پھیلاتے ہیں۔ مہاجروں کا بلوچوں، سندھیوں، پختونوں اور پنجابیوں سے جھگڑا رہا ہے مختلف اوقات میں۔ یہ ٹریگر اس لیے ہوتا رہا کہ کراچی معاشی حب کے طور پر کوئی بھی "ہندوستان" سے آنے والوں اور ان کی اولادوں کے حوالے کرنے پر راضی نہیں ہے۔ ہر ایک کو یہاں اپنی دکان چمکانی ہے، چاہے وہ سیاسی ہو، مذہبی ہو یا معاشی اور پھر غیر منصفانہ سیاسی نظام اور وڈیرہ شاہی ان نفرتوں کو پھلنے پھولنے میں مدد دیتے ہیں صرف اور صرف اس لیے کہ کراچی میں بسنے والے جو لوگ ہندوستان میں جاگیریں اور نوابیت چھوڑ آئے تھے، اس کو یہاں کلیم نہیں کیا اور یہاں کی چھوڑی ہوئی ہندؤوں کی جاگیریں یہاں رہنے والے سندھیوں نے جو کہ پہلے چور ڈکیت تھے یا کچھ بھی نہیں تھے، انہوں نے ہتھیا لیں۔ 50، 60 کی دہائی میں ایسی نئے نئے وڈیروں اور خود کو سندھ کا خدا سمجھنے والے جاگیر داروں نے کراچی آ کر بسنے والوں کے ساتھ بے حساب زیادتیاں کیں جن کی گواہی تاریخ اور صحافت یقینا دے گی۔ ان ہی زیادتیوں کی وجہ سے ان مہاجرین کی اولادیں بھی آج تک خود کو ایک الگ شناخت دینے پر مصر ہیں، جبکہ پنجاب میں بسنے والے مہاجرین کے ساتھ ایسا بڑے پیمانے پر نہیں ہوا کیوں کہ پنجاب میں "کراچی" جیسا معاشی حب موجود نہیں (گو کہ لاہور ہے، مگر لاہور کی ڈائنامکس الگ ہیں ۔۔۔ویسے بر سرِ تذکرہ ہمارے بہت رشتے دار پنجاب کے مختلف علاقوں میں دہائیوں سے آباد ہیں)۔۔۔

کراچی میں صرف اس لیے ہے کہ یہاں ہجرت کرنے والوں کا تناسب مقامی آبادی کے مقابلے میں بہت زیادہ تھا اور پھر 1971 میں بھی سب کے سب تقریبا یہیں آئے تھے۔۔۔ اس لیے یہاں کی مقامی آبادی کو اپنا وجود غیر ضروری طور پر خطرے میں نظر آیا۔ یہاں کے سندھیوں نے مہاجرین کو فقط پناہ گزین کہا اور حتیٰ کہ واپس جانے کو بھی کہتے رہے ہیں یہ ساری باتیں ریکورڈ پر ہیں۔

شاہی سید جو کہ کئی دہائیوں قبل مردان سے ہجرت (برائے روزگار) کر کے کراچی آئے تھے اور اس جماعت کے نامور رہنما ہیں کہ جس کے بانی پاکستان کے شدید ترین مخالف تھے اور سرحد کے گاندھی کہلاتے تھے۔ یہی شاہی سید اس جماعت اے این پی کے سینیٹر ہیں اور کچھ عرصہ قبل کراچی میں ایک لسانی نفرتی اجتماع میں فرماتے پائے گئے کہ یہ پاکستان میں آنے والے مہاجر پناہ گزین ہیں انہیں واپس انڈیا بھیجو۔۔ (وڈیو یوٹیوب پر موجود)۔۔۔

یہ ایک مثال ہے ان لوگوں کے لیے جو یہ سمجھتے ہیں کہ "مہاجر شناخت" اور "قومیت" کراچی اور شہری سندھ میں بسنے والوں کی خود ساختہ اور خود اختیار کردہ اصطلاح اور پہچان ہے۔۔۔

جب تک شاہی سید، ڈاکٹر قادر مگسی، پلیجو خاندان اور ان جیسے دیگر سندھ اور مختلف "لسانی جماعتوں" کے سیاسی وڈیرے رہیں گے یہ سب چلتا رہے گا اور لڑ لڑ کر مرتے رہیں گے۔۔۔ نہ ہی ان قوم پرستوں نے سندھ کو کچھ دیا ہے اور نہ ہی یہ دینے کی آرزو رکھتے ہیں۔۔

ایم کیو ایم لاکھ بری سہی لیکن مصطفیٰ کمال کے دور میں سب نے دیکھا کہ شہری سندھ میں کس طرح فقید المثال ترقی ہوئی۔ ایم کیو ایم کے گناہوں کو اینڈورس نہیں کر رہا بلکہ یہ کہنے کی کوشش کر رہا ہوں کہ ایم کیو ایم نے جن سیاسی وڈیروں کی زیادتیوں کے خلاف تنظیم سازی کی تھی وہ مقصد بہرحال اچھا تھا، گو کہ وہ صرف ایک چھوٹی سی اکائی (مہاجر) کے حقوق کے لیے تھا اور یہ شناخت رکھنے والوں کو سندھ کے مفاد پرست قوم پرست عیاش اور اجڈ قسم کے وڈیروں اور غاصب سیاستدانوں سے بچانا تھا۔ افسوس ایم کیو ایم کے خلاف سازشیں بھی ہوئیں اور خود انہوں نے اپنے پیڑوں پر کلہاڑیاں بھی ماریں اور خود بھی امپلوڈ ہوتے رہے اور بلیک میل ہوتے رہے اپنے کالے کرتوتوں کی بدولت۔۔۔ آج کی ایم کیو ایم باقی جماعتوں سے ذرا بھی مختلف نہیں رہی۔ اس لیے ایم کیو ایم کی ستائش کے بجائے میں صرف یہی کہوں گا کہ کسی کو "مہاجر" کہلانے کا شوق نہیں ہے۔۔۔ صرف گذارش اتنی ہے کہ:

پاکستان میں بسنے والے خود کو لسانی و نسبی و علاقائی نفرتوں سے پاک کر لیں چاہے وہ کوئی بھی ہوں۔
کوٹا کا نظام سرے سے ختم کیا جائے۔ نوکریوں اور داخلوں کے لیے پورے پاکستان میں اوپن میرٹ ہو۔ کوئی بھی کہیں بھی داخلہ لینے کا اہل ہو نوکری کرنے کا اہل ہو بجائے اس کے کے ہر علاقے کے لیے نشستیں مخصوص ہوں۔
جن "قومیتوں" اور اکائیوں کو اکثریت سے، غالب طبقے سے یا مقتدر حلقوں سے کئی دہائیوں سے شکایتیں رہی ہیں، ان کی شکایتوں کو تحمل کے ساتھ قومی مسئلے کے طور پر سننا اور حل کرنا چاہیے۔ جب کوئی مسلسل شکایت کر رہا ہو تو یقینا کچھ نہ کچھ تو ہوا ہوگا۔ اگر شک ہی کرتے رہیں گے تو ہر شخص غدار دکھائی دیگا۔ اور نفرتیں بڑھتی رہیں گی۔
آخری بات یہ کہ گو کہ ایم کیو ایم مہاجروں کی بات کرتی ہے اور اکثر مہاجروں کی غیر شعوری ہمدردیاں بھی اسی وجہ سے ایم کیو ایم کے ساتھ ہو جاتی ہیں، اس چیز کو بالعموم مہاجروں پر طعن و تشنیع کرنے کے لیے نہ استعمال کیا جائے۔ اگر ایم کیو ایم کوئی غلط حرکت کرتی ہے تو اس پر تنقید کرنے کے لیے تمام ہی مہاجروں کوساتھ نہ لپیٹ لیا جائے۔ جیسا کہ سیاسی محاذ آرائی میں سندھی قوم پرست، شاہی سید جیسے لوگ یا پھر خورشید شاہ اور ہمنوا آجکل لگے پڑے ہیں۔ جز کو کل پر محمول نہ کیا جائے۔۔۔
 

محمد امین

لائبریرین
میرے پیارے بھائی پٹھان ،پنجابی قوم ہے ۔ مہاجر ہونا کوئی قومیت نہیں ہے۔ خود کومہاجر کہلانے والے ہمارے بھائی ہیں ۔اور پاکستانی ہیں مہاجر بالآخر اپنے وطن واپس لوٹ جانے والے کو کہتے ہیں یا کم از کم لوٹ جانے کی خواہش رکھنے والے کو کہتے ہیں

ایسا تو نہیں ہے کہ مہاجر لوٹ جانے والے کو کہتے ہیں :)۔۔۔ دنیا میں مائگرینٹ، امیگرینٹ اور سیٹلر (migrant, immigrant and settler) کی اصطلاح بہت عام ہے۔ امریکہ میں پیدا ہونے، اور ساری عمر وہیں گذارنے والے ایشیائی افراد کی اولاد کو ایشیائی ہی کہا جاتا ہے امریکی نہیں۔۔۔ یا پھر ایشین امیریکن کہتے ہیں۔ تخصیص اور پہچان کی غرض سے مہاجر کہلانا گالی صرف پاکستان میں ہی سمجھا جا رہا ہے جو کہ میرے نزدیک خیالات کا تصادم اور غلط بات ہے، جبکہ مہاجر کہلانے کی وجوہات میں سے ایک سیاسی نفرتوں کا موجود اور ظاہر ہونا ہے۔
 

محمد امین

لائبریرین
اب دیکھا جائے تو نواز شریف کا خاندان بھی ہجرت کرکے پاکستان میں آباد ہوا تھا۔ اب اگر اس خاندان کو بھی مہاجر سمجھ لیا جائے تو ایک مہاجر پنجاب کا وزیر اعلی ہے اور دوسرا پاکستان کا وزیر اعظم
پرویز مشرف کے والدین بھی ہجرت کر کے پاکستان آئے تھے ۔اور بھی کتنے ہی وزیر مشیر ایسے ہونگے

پرویز مشرف کو تو مہاجر یا اردو اسپیکنگ ہی کہا جاتا ہے۔ پنجاب میں مہاجر کی اصطلاح عام نہ ہونے کی وجہ جو میری ناقص عقل میں آتی ہے وہ یہ کہ کراچی میں مہاجرین کی آبادی کی ڈینسیٹی (population density) اور تناسب بہت زیادہ تھا اس لیے یہاں یہ اصطلاح بالخصوص پروان چڑھتی گئی۔ پھر مسلسل نفرتوں اور زیادتیوں اور دونوں جانب سے شدتوں کے بعد تو گویا گھٹی میں پڑ گئی ہر آنے والی نسل کی۔۔۔
 
Top