ایم کیو ایم مذہب کی ٹھکیدار نہ بنے

دیکھیں ذرا غور کریں۔ سندھ ، پنجاب ، سرحد، بلوچستان یہ ایک وقتی نام ہیں۔ پہلے ملتان سندھ میں شامل تھا ۔وہاں کے لوگ کیا سندھی تھے؟ اپ پنجابی ہیں؟ پہلے پشاور پنجاب میں شامل تھاوہان کے لوگ پنجابی تھے؟ اب سرحدی ہیں؟ یا پختون ہیں؟ بلوچستان میں صدیوں سے بسے پختون کیا بلوچی ہیں؟ یا اپنے اپ کو پختون کہتے ہیں؟
پھر جب ون یونٹ بنا تو نہ پنجاب رہا نہ سندھی نہ ہی یہ قومیں۔
یہ سب وقتی نام تھے اور ہیں- حالت کی وجہ سے وجود میں اتے ہیں اور ختم ہوجاتے ہیں۔
مہاجر ایک نام ہے اب۔ اب اس کا مطلب ایک قوم ہے۔ یہ کسی ائسولیشن یا سیگریگیشن کے لیے نہیں بلکہ الگ پہچان کے لیے ہے۔ اس کامطلب یہ ہے کہ جس طرح سندھی ، بلوچی، سرحدی، پنجابی اپنا نام یہ رکھتے ہوئے پاکستانی ہیں۔ ان سے بڑھ کر مہاجر مہاجر نام رکھتے ہوئے پاکستانی ہیں۔

تو الگ پہچان کے لیے کراچی ، مہران، یا اس علاقے سے متعلق ہونے چاہیے تھے نا اگر سندھی نہیں؟؟؟
مہاجر؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
مہاجر تو ہم سب ہیں، کس قوم یا نسل نے ہجرت نہیں کی؟؟ پر اس لفظ کو قوم کسی نےنہیں بنایا، ہر ایک نے اپنے نئے وطن سے رشتہ جوڑنے کے لیے ہجرت کی تلخیوں کو اور اس ٹیگ کو جلد از جلد ختم کیا۔ لوگ دنیا بھر میں مائگریشن کے بعد کوشش کرتے ہیں کہ مائگریٹر یا مہاجر کا کسی طرح ٹیگ اتر جائے اور مقامیوں میں گھل مل جائیں اور ہر ایک کی خواہش ہوتی ہے کہ ان میں تفریق نہ کی جائے بس یہاں ہی ہم ایک یونیک کیس اور منٹیلیٹی کے سامنے کھڑے ہیں۔ جہاں ہم بار بار یقین دلا رہے ہیں کہ خدارا اب تم مہاجر نہیں ہو پاکستانی ہو۔ لیکن ایک ہی تکرار کہ مہاجر ہیں مہاجر رہیں گے۔
او بھئی ہر مہاجر کی کوئی قوم قبیلہ بھی تو رہا ہو گا یار اسے شناخت کیوں نہیں بناتے، اس نئے علاقے کو اپنی شناخت کیوں نہیں بناتے، کیا ہجرت کے بعد یہی ایک شناخت اور غیرت کھانے اور مرنے مارنے کی وجہ رہ گئی ہے لفظ مہاجر ؟؟؟

کب ختم ہو گی ہجرت؟؟؟
اس کیفیت سے باہر کب نکلیں گے؟؟
کب اس نئے علاقے کی نسبت کو اپنائیں گے؟؟

یا اس نئے علاقے کی نسبت اپنانااتنا شرمناک ہے کہ یہی سندھ کی نسبت سندھی اور بلوچ گوٹھوں کے جاہل ، ان پڑھ اور جنگلی پاکستانی بھی فخر سے بیان کرتے ہیں اور آپ چونکہ لکھنؤ ، دلی کی شاہی اور علمی تہذیب سے یہاں آئے تو آپ کو یہ نسبت ایڈاپٹ کرتے شرم آتی ہے اور آپ مُصر ہیں کہ نہیں ان گنواروں کی اور ہماری کوئی قدرِ مشترک نہیں سوائے اس کے کہ ہمیں بھی ان کے ساتھ رہنا پڑ رہا ہے؟
 
تو الگ پہچان کے لیے کراچی ، مہران، یا اس علاقے سے متعلق ہونے چاہیے تھے نا اگر سندھی نہیں؟؟؟
مہاجر؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
مہاجر تو ہم سب ہیں، کس قوم یا نسل نے ہجرت نہیں کی؟؟ پر اس لفظ کو قوم کسی نےنہیں بنایا، ہر ایک نے اپنے نئے وطن سے رشتہ جوڑنے کے لیے ہجرت کی تلخیوں کو اور اس ٹیگ کو جلد از جلد ختم کیا۔ لوگ دنیا بھر میں مائگریشن کے بعد کوشش کرتے ہیں کہ مائگریٹر یا مہاجر کا کسی طرح ٹیگ اتر جائے اور مقامیوں میں گھل مل جائیں اور ہر ایک کی خواہش ہوتی ہے کہ ان میں تفریق نہ کی جائے بس یہاں ہی ہم ایک یونیک کیس اور منٹیلیٹی کے سامنے کھڑے ہیں۔ جہاں ہم بار بار یقین دلا رہے ہیں کہ خدارا اب تم مہاجر نہیں ہو پاکستانی ہو۔ لیکن ایک ہی تکرار کہ مہاجر ہیں مہاجر رہیں گے۔
او بھئی ہر مہاجر کی کوئی قوم قبیلہ بھی تو رہا ہو گا یار اسے شناخت کیوں نہیں بناتے، اس نئے علاقے کو اپنی شناخت کیوں نہیں بناتے، کیا ہجرت کے بعد یہی ایک شناخت اور غیرت کھانے اور مرنے مارنے کی وجہ رہ گئی ہے لفظ مہاجر ؟؟؟

کب ختم ہو گی ہجرت؟؟؟
اس کیفیت سے باہر کب نکلیں گے؟؟
کب اس نئے علاقے کی نسبت کو اپنائیں گے؟؟

یا اس نئے علاقے کی نسبت اپنانااتنا شرمناک ہے کہ یہی سندھ کی نسبت سندھی اور بلوچ گوٹھوں کے جاہل ، ان پڑھ اور جنگلی پاکستانی بھی فخر سے بیان کرتے ہیں اور آپ چونکہ لکھنؤ ، دلی کی شاہی اور علمی تہذیب سے یہاں آئے تو آپ کو یہ نسبت ایڈاپٹ کرتے شرم آتی ہے اور آپ مُصر ہیں کہ نہیں ان گنواروں کی اور ہماری کوئی قدرِ مشترک نہیں سوائے اس کے کہ ہمیں بھی ان کے ساتھ رہنا پڑ رہا ہے؟

دیکھیےسندھی کا مطلب کیا ہوتا ہے؟ سندھ؟ اسکا کیا مطلب ہے؟
پنجابی کا کیا مطلب ہوتا ہے؟ کیا پشاور یا اوکاڑہ خٹک دریا کے اس پاس نہیں۔ پھر بھی پنجابی نہیں
کچھ عرصہ تک سرحد ایک علاقہ تھا وہاں سرائیکی بھی رہتے ہیں۔
علاقے سے قوم نہیں بنتی۔ بلکہ کسی علاقے میں کئی اقوام رہ سکتی ہیں

جو لوگ اپنی شناخت بناتے ہیں یہ ان کا حق ہے۔ اپ ان پر اعتراض نہیں کرسکتے کہ پنجابیوں کا اصل نام گندم اگانے والوں کی نسبت سے گندمی ہونا چاہیے یا میدان میں رہنے والوں کی نسبت سے میدانی۔ یہ پنجابیوں کا حق ہے کہ وہ پنجابی کہلائیں۔ پنجابی قوم ادھی سے زیادہ ہندوستانی ہے۔ مگر اس پر ہم کوئی اعتراض نہیں کرتے کہ پنجابی پکارا جانا آصل میں پاکستانیت کی نفی ہے؟

کیفیت مہاجر کی نہیں ہے بیٹے یہ ایک نام ہے۔ بس جس طرح پختون نام ہے۔ سب سے بڑھ کر اس کو نسبت ہے پاکستان بننے سے ۔ بجائے اس کے کہ قبیلہ ، نسل، یا دریاوں سے نسبت ہو۔ کونسی نسبت اچھی ہوئی؟

اگر تعصب کے بغیر بات کو سمجھا جائے تو سمجھ اجاوے گی
 
ایچ اے خان بھائی میرا مشاہدہ ہے کہ قوم یا تو اپنی مادری زبان کی وجہ سے پہچانی جاتی ہے جیسے بلوچی بولنے بلوچ یا پشتو بولنے والے پٹھان۔
یا اپنے مسکن کی وجہ یعنی کس علاقے میں رہتے ہیں۔ جیسا کی ایران میں رہنے والے ایرانی اور بھارت میں رہنے والے بھارتی وغیرہ۔
اب ان دونوں فارمولوں کے مطابق "مہاجر" کسی قوم کا نام نہیں بنتا البتہ اسے ایک لقب کہا جا سکتا ہے جو ہجرت جیسے عظیم کام کی وجہ سے ملا جیسے حج کرنے والا حاجی ہوگیا تو ہجرت کرنے والا مہاجر۔
اب کراچی یا حیدرآباد میں رہنے والے جو لوگ مہاجر کہلائے جاتے ہیں ان کی پہچان یہ ہے کہ ان کی مادری زبان اردو ہے۔ مسکن کے اعتبار وہ سندھی ہی ہیں۔
اب مادری زبان کا اردو ہونا بھی الگ پہچان کی حیثیت ختم کرنے والا ہے کیونکہ پنجاب میں تو یہ عام رواج بن گیا ہے کہ لوگ اپنے بچوں کو بنجابی کی بجائے اردو بولنے کی عادت اپنا نے کی ترغیب دلاتے ہیں۔ بلکہ آپ اسی فورم میں سروے کروا کر دیکھ لیں اکثر لوگ اپنے بچوں کو اردو ہی عادت ڈال رہے ہونگے۔
 

x boy

محفلین
دبئی میں مقیم " کراچی دربار ریسٹورانٹ گروپ" کے مالک انڈین مدراسی ہیں جو کراچی سیٹل ہیں اب بھی وہ اپنے آپ کو مدراسی کہتے ہیں مہاجر کبھی نہیں کہتے۔۔
 
ایچ اے خان بھائی میرا مشاہدہ ہے کہ قوم یا تو اپنی مادری زبان کی وجہ سے پہچانی جاتی ہے جیسے بلوچی بولنے بلوچ یا پشتو بولنے والے پٹھان۔
یا اپنے مسکن کی وجہ یعنی کس علاقے میں رہتے ہیں۔ جیسا کی ایران میں رہنے والے ایرانی اور بھارت میں رہنے والے بھارتی وغیرہ۔
اب ان دونوں فارمولوں کے مطابق "مہاجر" کسی قوم کا نام نہیں بنتا البتہ اسے ایک لقب کہا جا سکتا ہے جو ہجرت جیسے عظیم کام کی وجہ سے ملا جیسے حج کرنے والا حاجی ہوگیا تو ہجرت کرنے والا مہاجر۔
اب کراچی یا حیدرآباد میں رہنے والے جو لوگ مہاجر کہلائے جاتے ہیں ان کی پہچان یہ ہے کہ ان کی مادری زبان اردو ہے۔ مسکن کے اعتبار وہ سندھی ہی ہیں۔
اب مادری زبان کا اردو ہونا بھی الگ پہچان کی حیثیت ختم کرنے والا ہے کیونکہ پنجاب میں تو یہ عام رواج بن گیا ہے کہ لوگ اپنے بچوں کو بنجابی کی بجائے اردو بولنے کی عادت اپنا نے کی ترغیب دلاتے ہیں۔ بلکہ آپ اسی فورم میں سروے کروا کر دیکھ لیں اکثر لوگ اپنے بچوں کو اردو ہی عادت ڈال رہے ہونگے۔

دیکھیں یہ کوئی لکھا ہوا قانون نہیں ہے۔ جیسے سرائیکی ایک قوم ہے جو پنجاب میں اباد ہے اور سندھ میں بھی اور سرحد میں بھی
ایران اور توران یا بھارتی قومیتیں حالیہ ایجاد ہیں۔ جیسے بنگالی پہلے پاکستانی تھے اب نہیں ہیں۔ یہ سرحدیں بھی مستقل نہیں ہیں۔ پشاوری پہلے پنجابی تھے سرحد کے لحاظ سے اب پختون خواہ ۔ لہذا سرحد کوئی معنی نہیں رکھتی۔ اسی طرح پاکستانی ایک قوم ہے مگر وہاں بے شمار زبانیں بولنے والے رہتے ہیں اور سب پاکستانی۔ یہی حالت ہندوستان قوم کی ہے حالانکہ یہ دونوں اقوام 1947 سے پہلے موجود نہیں تھیں۔ لہذا زبانیں بولنے سے بھی قوم نہیں بنتی۔ حتیٰ کہ نسل سے بھی قوم نہیں بنتی۔ یعنی منگول ایک نسل ہے مگر یہ نسل تین سے زائد قوموں کی صورت میں موجود ہیں جیسے منگولیہ، کوریا، چائنیز۔ چائنیز بذات خود بے شمار نسل پر مشتمل ایک قوم ہے۔

لہذا کوئی قانون مستقلا موجود نہیں ۔ زبان بھی نہیں۔
حالات کے جبر کے تحت ایک قوم وجود میں اتی ہے۔ مہاجر قوم کا وجود حالات کا جبر ہے جس کی نسبت پاکستان کا قیام ہے ۔ یہ نسبت دنیا کی کسی بھی قوم کی نسبت سے بالاتر اور اعلیٰ ہے۔
 
دبئی میں مقیم " کراچی دربار ریسٹورانٹ گروپ" کے مالک انڈین مدراسی ہیں جو کراچی سیٹل ہیں اب بھی وہ اپنے آپ کو مدراسی کہتے ہیں مہاجر کبھی نہیں کہتے۔۔

اس میں کیا قباحت ہے۔ ایک شخص اپنی ایک شناخت الگ کروانا چاہتا ہے۔ یہ اسکا حق ہے۔ جہمور کا عمل برخلاف ہے
 
یہ سرائیکی قوم سرائیکی زبان کی وجہ سے پہچانی جاتی ہے۔ یہ تو آپ نے میرے مؤقف کی دلیل پیش کر دی :)

دیکھیں بہت سے نسبت سے اقوام پہچانی جاتی ہیں جیسے زبان، نسل، قبیلہ، برادری، سرحد، ملک وغیرہ۔ یعنی کوئی بھی قانون نہیں ہے۔ بلکہ مخصوص حالت کے تحت ایک قوم وجود میں اتی ہے جس کی وجہ وجود ہوتی ہے۔ یہ حالات کا جبر ہی ہوتا ہے۔
مہاجر قوم کی وجہ وجود پاکستان کا وجود میں انا ہے۔ لہذا مہاجر شناخت اور پاکستانی شناخت میں کوئی فرق نہیں ہے
 
نقطہ یہ ہے کہ ضمنی وجہ کوئی بھی ہو جیسے زبان، علاقہ، نسل، قبیلہ مگر اصل وجہ حالات کا جبر ہے جس سے قوم وجود میں اتی ہے
یہی وجہ ہے کہ ہندوستان میں رہتے ہوئے مسلمانوں نے دوقومی نظریہ پیش کیا ہے ہندوستان میں صرف دو اقوام بستی ہیں۔ یعنی مسلم اور غیر مسلم
 

x boy

محفلین
اس میں کیا قباحت ہے۔ ایک شخص اپنی ایک شناخت الگ کروانا چاہتا ہے۔ یہ اسکا حق ہے۔ جہمور کا عمل برخلاف ہے
میں نے معلومات دی ہے
مکہ معظمہ سے جتنے بھی لوگ مسلمان ہوکر مدینۃ المنورہ ہجرت کی وہ مہاجر کہلائے لیکن قبیلے سے بھی پہچانے جاتے تھے،
اور یہ مہاجرین مکہ مدینۃ المنورہ میں داخل ہوکر مدینے کے ہوکر رہ گئے جیسے مفہوم ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہاتھا
کہ " میرا مرنا جینا مدینے والوں کے ساتھ ہے " الحمدللہ آج مسجد نبوی سے متصل ماں عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں
سپرد خاک ہوئے اور تو اور خلیفہ راشد ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہہ اور خلیفہ راشد دوئم عمر فاروق رضی اللہ عنہہ بھی
سپرد خاک اس مکان میں ہوئے جسکی مالکہ ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا تھیں
 
میں نے معلومات دی ہے
مکہ معظمہ سے جتنے بھی لوگ مسلمان ہوکر مدینۃ المنورہ ہجرت کی وہ مہاجر کہلائے لیکن قبیلے سے بھی پہچانے جاتے تھے،
اور یہ مہاجرین مکہ مدینۃ المنورہ میں داخل ہوکر مدینے کے ہوکر رہ گئے جیسے مفہوم ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہاتھا
کہ " میرا مرنا جینا مدینے والوں کے ساتھ ہے " الحمدللہ آج مسجد نبوی سے متصل ماں عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں
سپرد خاک ہوئے اور تو اور خلیفہ راشد ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہہ اور خلیفہ راشد دوئم عمر فاروق رضی اللہ عنہہ بھی
سپرد خاک اس مکان میں ہوئے جسکی مالکہ ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا تھیں

بلکل
بعین اسی طرح جیسے مہاجروں میں اپ لو لکھنو کے مل جاویں گے،سادات مل جاویں گے، دہلی والے مل جائیں گے بھوپال والے مل جائیں گے۔ مگر ان کی عرفیت اب مہاجر بھی
اسی طرح مہاجر پاکستان کے لیے ائے تھے اور پاکستان کے لیے ہوگئے۔ حتیٰ کہ بہار کے مہاجر جو بنگال میں محصور ہیں اب تک محصورین پاکستانی کہلاتے ہیں۔کیا ہزاروں مردوں کا قتل عورتوں بچوں کا قتل کروانے کےبعد بھی وہ پاکستان کے علاوہ کوئی اور شناخت رکھ سکتےہیں؟ مہاجر پاکستان سے واپس جانے کے لیے نہیں ائے تھے۔ اب پاکستان ہے یا اگے سمندر
 
مہاجر شناخت اور پاکستانی شناخت میں کوئی فرق نہیں ہے
یہ بات تو بالکل درست ہے۔ جو لوگ اب مہاجر کہلاتے ہیں سندھ میں وہ بھی اتنے ہی پاکستانی ہیں جتنے کوئی اور۔
مادری زبان کی وجہ سے پہچان، یا علاقے کی وجہ سے پہچان تو نسل در نسل منتقل ہو سکتی ہے لیکن حاجی کا بیٹا حاجی یا مہاجر کی بیٹا مہاجر نہیں ہوسکتا جب تک وہ بیٹا خود حج یا ہجرت نا کر لے
 
یہ بات تو بالکل درست ہے۔ جو لوگ اب مہاجر کہلاتے ہیں سندھ میں وہ بھی اتنے ہی پاکستانی ہیں جتنے کوئی اور۔
مادری زبان کی وجہ سے پہچان، یا علاقے کی وجہ سے پہچان تو نسل در نسل منتقل ہو سکتی ہے لیکن حاجی کا بیٹا حاجی یا مہاجر کی بیٹا مہاجر نہیں ہوسکتا جب تک وہ بیٹا خود حج یا ہجرت نا کر لے

دیکھیے یہ ایک نام ہے۔ مہاجر
اب یہ حالت نہیں۔ وجود اچکا جو بھی حالت تھی۔ اب حالت باقی نہیں رہی بلکہ صرف نام ہے پہچان کا
 
سندھی، پنجابی اور بلوچی پٹھان

سندھی سندھ ، پنجابی پنجاب بلوچی بلوچستان اور پٹھان پر اپنے علاقہ کے نام کا ٹھپہ لگا ہوتا ہے۔ اور یہ نام کے ٹھپے نہ تو اخلاقاً غلط ہیں نہ مذہباً۔
اور نام تو صرف پہچان کے لئے ہوتے ہیں۔
 
دیکھیےسندھی کا مطلب کیا ہوتا ہے؟ سندھ؟ اسکا کیا مطلب ہے؟
پنجابی کا کیا مطلب ہوتا ہے؟


کیا پشاور یا اوکاڑہ خٹک دریا کے اس پاس نہیں۔ پھر بھی پنجابی نہیں
کچھ عرصہ تک سرحد ایک علاقہ تھا وہاں سرائیکی بھی رہتے ہیں۔
علاقے سے قوم نہیں بنتی۔ بلکہ کسی علاقے میں کئی اقوام رہ سکتی ہیں

جو لوگ اپنی شناخت بناتے ہیں یہ ان کا حق ہے۔ اپ ان پر اعتراض نہیں کرسکتے کہ پنجابیوں کا اصل نام گندم اگانے والوں کی نسبت سے گندمی ہونا چاہیے یا میدان میں رہنے والوں کی نسبت سے میدانی۔ یہ پنجابیوں کا حق ہے کہ وہ پنجابی کہلائیں۔ پنجابی قوم ادھی سے زیادہ ہندوستانی ہے۔ مگر اس پر ہم کوئی اعتراض نہیں کرتے کہ پنجابی پکارا جانا آصل میں پاکستانیت کی نفی ہے؟

کیفیت مہاجر کی نہیں ہے بیٹے یہ ایک نام ہے۔ بس جس طرح پختون نام ہے۔ سب سے بڑھ کر اس کو نسبت ہے پاکستان بننے سے ۔ بجائے اس کے کہ قبیلہ ، نسل، یا دریاوں سے نسبت ہو۔ کونسی نسبت اچھی ہوئی؟

اگر تعصب کے بغیر بات کو سمجھا جائے تو سمجھ اجاوے گی
افسوس صد افسوس
سبحان اللہ کیا " منطق" ہے
 
کون مہاجر ہے ؟ کس کا نام مہاجر ہے؟ صرف 1947 میں ہندوستان سے ہجرت کرنے والا؟
ہمارے باپ دادا 1947 میں جالندھرسے براہِ راست نوابشاہ سندھ آ گئے تھے کیا ہم بھی مہاجر ہیں؟
یہ اپ کی مرضی ہے۔ میں اپ کو اسی نام سے پکاروں گا جس سے اپ چاییں
 

قیصرانی

لائبریرین
دیکھیں آپ کی کسی بھی بات سے ذرا سا بھی اختلاف نہیں ہو سکتا۔ اگر تمام پاکستانیوں کی ایسی سوچ ہو جائے تو اور کیا چاہیے، پھر کوئی خود کو مہاجر نہیں کہے گا۔ مہاجر اس لیے کہتے ہیں کہ دوسری "قومیتیں" اس پر مجبور کرتی ہیں۔ میں یہ نہیں کہہ رہا کہ یہ مہاجر "قوم" بہت پاک صاف اور معصوم ہے، لیکن بات یہ ہے کہ اس طرح کی نفرتیں دوسری طرف سے زیادہ نظر آتی ہیں اس لیے تکلیف ہوتی ہے۔ میں آپ کو بتاؤں، سندھ میں یہ مسائل زیادہ تر سیاست کی وجہ سے ہیں۔ لوگ لسانی بنیاد پر نفرتیں پھیلاتے ہیں۔ مہاجروں کا بلوچوں، سندھیوں، پختونوں اور پنجابیوں سے جھگڑا رہا ہے مختلف اوقات میں۔ یہ ٹریگر اس لیے ہوتا رہا کہ کراچی معاشی حب کے طور پر کوئی بھی "ہندوستان" سے آنے والوں اور ان کی اولادوں کے حوالے کرنے پر راضی نہیں ہے۔ ہر ایک کو یہاں اپنی دکان چمکانی ہے، چاہے وہ سیاسی ہو، مذہبی ہو یا معاشی اور پھر غیر منصفانہ سیاسی نظام اور وڈیرہ شاہی ان نفرتوں کو پھلنے پھولنے میں مدد دیتے ہیں صرف اور صرف اس لیے کہ کراچی میں بسنے والے جو لوگ ہندوستان میں جاگیریں اور نوابیت چھوڑ آئے تھے، اس کو یہاں کلیم نہیں کیا اور یہاں کی چھوڑی ہوئی ہندؤوں کی جاگیریں یہاں رہنے والے سندھیوں نے جو کہ پہلے چور ڈکیت تھے یا کچھ بھی نہیں تھے، انہوں نے ہتھیا لیں۔ 50، 60 کی دہائی میں ایسی نئے نئے وڈیروں اور خود کو سندھ کا خدا سمجھنے والے جاگیر داروں نے کراچی آ کر بسنے والوں کے ساتھ بے حساب زیادتیاں کیں جن کی گواہی تاریخ اور صحافت یقینا دے گی۔ ان ہی زیادتیوں کی وجہ سے ان مہاجرین کی اولادیں بھی آج تک خود کو ایک الگ شناخت دینے پر مصر ہیں، جبکہ پنجاب میں بسنے والے مہاجرین کے ساتھ ایسا بڑے پیمانے پر نہیں ہوا کیوں کہ پنجاب میں "کراچی" جیسا معاشی حب موجود نہیں (گو کہ لاہور ہے، مگر لاہور کی ڈائنامکس الگ ہیں ۔۔۔ویسے بر سرِ تذکرہ ہمارے بہت رشتے دار پنجاب کے مختلف علاقوں میں دہائیوں سے آباد ہیں)۔۔۔

کراچی میں صرف اس لیے ہے کہ یہاں ہجرت کرنے والوں کا تناسب مقامی آبادی کے مقابلے میں بہت زیادہ تھا اور پھر 1971 میں بھی سب کے سب تقریبا یہیں آئے تھے۔۔۔ اس لیے یہاں کی مقامی آبادی کو اپنا وجود غیر ضروری طور پر خطرے میں نظر آیا۔ یہاں کے سندھیوں نے مہاجرین کو فقط پناہ گزین کہا اور حتیٰ کہ واپس جانے کو بھی کہتے رہے ہیں یہ ساری باتیں ریکورڈ پر ہیں۔

شاہی سید جو کہ کئی دہائیوں قبل مردان سے ہجرت (برائے روزگار) کر کے کراچی آئے تھے اور اس جماعت کے نامور رہنما ہیں کہ جس کے بانی پاکستان کے شدید ترین مخالف تھے اور سرحد کے گاندھی کہلاتے تھے۔ یہی شاہی سید اس جماعت اے این پی کے سینیٹر ہیں اور کچھ عرصہ قبل کراچی میں ایک لسانی نفرتی اجتماع میں فرماتے پائے گئے کہ یہ پاکستان میں آنے والے مہاجر پناہ گزین ہیں انہیں واپس انڈیا بھیجو۔۔ (وڈیو یوٹیوب پر موجود)۔۔۔

یہ ایک مثال ہے ان لوگوں کے لیے جو یہ سمجھتے ہیں کہ "مہاجر شناخت" اور "قومیت" کراچی اور شہری سندھ میں بسنے والوں کی خود ساختہ اور خود اختیار کردہ اصطلاح اور پہچان ہے۔۔۔

جب تک شاہی سید، ڈاکٹر قادر مگسی، پلیجو خاندان اور ان جیسے دیگر سندھ اور مختلف "لسانی جماعتوں" کے سیاسی وڈیرے رہیں گے یہ سب چلتا رہے گا اور لڑ لڑ کر مرتے رہیں گے۔۔۔ نہ ہی ان قوم پرستوں نے سندھ کو کچھ دیا ہے اور نہ ہی یہ دینے کی آرزو رکھتے ہیں۔۔

ایم کیو ایم لاکھ بری سہی لیکن مصطفیٰ کمال کے دور میں سب نے دیکھا کہ شہری سندھ میں کس طرح فقید المثال ترقی ہوئی۔ ایم کیو ایم کے گناہوں کو اینڈورس نہیں کر رہا بلکہ یہ کہنے کی کوشش کر رہا ہوں کہ ایم کیو ایم نے جن سیاسی وڈیروں کی زیادتیوں کے خلاف تنظیم سازی کی تھی وہ مقصد بہرحال اچھا تھا، گو کہ وہ صرف ایک چھوٹی سی اکائی (مہاجر) کے حقوق کے لیے تھا اور یہ شناخت رکھنے والوں کو سندھ کے مفاد پرست قوم پرست عیاش اور اجڈ قسم کے وڈیروں اور غاصب سیاستدانوں سے بچانا تھا۔ افسوس ایم کیو ایم کے خلاف سازشیں بھی ہوئیں اور خود انہوں نے اپنے پیڑوں پر کلہاڑیاں بھی ماریں اور خود بھی امپلوڈ ہوتے رہے اور بلیک میل ہوتے رہے اپنے کالے کرتوتوں کی بدولت۔۔۔ آج کی ایم کیو ایم باقی جماعتوں سے ذرا بھی مختلف نہیں رہی۔ اس لیے ایم کیو ایم کی ستائش کے بجائے میں صرف یہی کہوں گا کہ کسی کو "مہاجر" کہلانے کا شوق نہیں ہے۔۔۔ صرف گذارش اتنی ہے کہ:

پاکستان میں بسنے والے خود کو لسانی و نسبی و علاقائی نفرتوں سے پاک کر لیں چاہے وہ کوئی بھی ہوں۔
کوٹا کا نظام سرے سے ختم کیا جائے۔ نوکریوں اور داخلوں کے لیے پورے پاکستان میں اوپن میرٹ ہو۔ کوئی بھی کہیں بھی داخلہ لینے کا اہل ہو نوکری کرنے کا اہل ہو بجائے اس کے کے ہر علاقے کے لیے نشستیں مخصوص ہوں۔
جن "قومیتوں" اور اکائیوں کو اکثریت سے، غالب طبقے سے یا مقتدر حلقوں سے کئی دہائیوں سے شکایتیں رہی ہیں، ان کی شکایتوں کو تحمل کے ساتھ قومی مسئلے کے طور پر سننا اور حل کرنا چاہیے۔ جب کوئی مسلسل شکایت کر رہا ہو تو یقینا کچھ نہ کچھ تو ہوا ہوگا۔ اگر شک ہی کرتے رہیں گے تو ہر شخص غدار دکھائی دیگا۔ اور نفرتیں بڑھتی رہیں گی۔
آخری بات یہ کہ گو کہ ایم کیو ایم مہاجروں کی بات کرتی ہے اور اکثر مہاجروں کی غیر شعوری ہمدردیاں بھی اسی وجہ سے ایم کیو ایم کے ساتھ ہو جاتی ہیں، اس چیز کو بالعموم مہاجروں پر طعن و تشنیع کرنے کے لیے نہ استعمال کیا جائے۔ اگر ایم کیو ایم کوئی غلط حرکت کرتی ہے تو اس پر تنقید کرنے کے لیے تمام ہی مہاجروں کوساتھ نہ لپیٹ لیا جائے۔ جیسا کہ سیاسی محاذ آرائی میں سندھی قوم پرست، شاہی سید جیسے لوگ یا پھر خورشید شاہ اور ہمنوا آجکل لگے پڑے ہیں۔ جز کو کل پر محمول نہ کیا جائے۔۔۔
یہ ہوتا ہے غیر جانبدارانہ تجزیہ :)
 
Top