اختر شیرانی او دیس سے آنے والے بتا !!!!!!

حجاب

محفلین
او دیس سے آنے والے بتا
او دیس سے آنے والے بتا
کس حال میں ہیں یارانِ وطن
آوارء غربت کو بھی سُنا
کس رنگ میں ہیں کنعانِ وطن
وہ باغِ وطن فردوسِ وطن
وہ سروِ وطن ریحانِ وطن
او دیس سے آنے والے بتا

او دیس سے آنے والے بتا
کیا اب بھی وطن میں ویسے ہی
سر مست نظارے ہوتے ہیں
کیا اب بھی سہانی راتوں کو
وہ چاند ستارے ہوتے ہیں
ہم کھیل جو کھیلا کرتے تھے
کیا اب بھی وہ سارے ہوتے ہیں
او دیس سے آنے والے بتا

او دیس سے آنے والے بتا
شاداب شگفتہ پھولوں سے
معمور ہیں گلزار اب کے نہیں
بازار میں مالن لاتی ہے
پھولوں کے گندھے ہار اب کے نہیں
اور شوق سے ٹوٹے پڑتے ہیں
نو عمر خریدار اب کے نہین
او دیس سے آنے والے بتا

او دیس سے آنے والے بتا
کیا اب بھی وہاں ویسی ہی جواں
اور مدھ بھری راتیں ہوتی ہیں
کیا رات بھر اب بھی گیتوں کی
اور پیار کی باتیں ہوتی ہیں
وہ حسن کے جادو چلتے ہیں
وہ عشق کی گھاتیں ہوتی ہیں
او دیس سے آنے والے بتا

او دیس سے آنے والے بتا
کیا اب بھی وہاں کے پنگھٹ پر
پِنہاریاں پانی بھرتی ہیں
انگڑائی کا نقشہ بن بن کر
سب ماتھے پہ گاگر دھرتی ہیں
اور اپنے گھر کو جاتے ہوئے
ہنستی ہوئی چہلیں کرتی ہیں
او دیس سے آنے والے بتا

او دیس سے آنے والے بتا
کیا اب بھی پہاڑی گھاٹیوں میں
گھنگھور گھٹائیں گونجتی ہیں
ساحل کے گھنیرے پیروں میں
برکھا کی صدائیں گونجتی ہیں
جھینگر کے ترانے جاگتے ہیں
موروں کی صدائیں گونجتی ہیں
او دیس سے آنے والے بتا

او دیس سے آنے والے بتا
کیا اب بھی وہاں میلوں میں وہی
برسات کا جوبن ہوتا ہے
پھیلے ہوئے بر کی شاخوں میں
جھولوں کا نشیمن ہوتا ہے
اُمڈے ہوئے بادل ہوتے ہیں
چھایا ہوا ساون ہوتا ہے
او دیس سے آنے والے بتا

او دیس سے آنے والے بتا
کیا اب بھی وہاں برسات کے دن
باغوں میں بہاریں آتی ہیں
معصوم و حسین دوشیزائیں
برکھا کے ترانے گاتی ہیں
اور تیتلیوں کی طرح سے رنگین
جھولوں پر لہراتی ہیں
او دیس سے آنے والے بتا

او دیس سے آنے والے بتا
کیا پہلی س ہے معصوم ابھی
وہ مدرسے کی شاداب فِضا
کچھ بھولے ہوئے دن گزرے ہیں
جس میں وہ مثالِ خواب فِضا
وہ کھیل ، وہ ہم سِن ،وہ میدان
وہ خواب گاہء مہتاب فِضا
او دیس سے آنے والے بتا

او دیس سے آنے والے بتا
کیا اب بھی کسی کے سینے میں
باقی ہے ہماری چاہ بتا ؟؟؟؟؟؟؟
کیا یاد ہمیں بھی کرتا ہے اب
یاروں میں کوئی آہ بتا ؟؟؟؟؟
او دیس سے آنے والے بتا
للہ بتا للہ بتا
او دیس سے آنے والے بتا

او دیس سے آنے والے بتا
کیا اب بھی فجر دم چرواہے
ریوڑ کو چرانے جاتے ہیں
اور شام کے دھندلے سایوں کے ہمراہ
گھر کو آتے ہیں۔۔۔۔۔۔
اور اپنی رسیلی بانسریوں میں
عشق کے نغمے گاتے ہیں
او دیس سے آنے والے بتا

او دیس سے آنے والے بتا
آخر میں یہ حسرت ہے کہ بتا
وہ غارتِ ایمان کیسی ہے
بچپن میں جو آفت ڈھاتی تھی
وہ آفتِ دوراں کیسی ہے
ہم دونوں تھے جس کے پروانے
وہ شمعء شبستان کیسی ہے
او دیس سے آنے والے بتا

او دیس سے آنے والے بتا
مرجانہ تھا جس کا نام بتا
وہ غنچہ دہن کس حال میں ہے
جس پر تھے فِدا طفلانِ وطن
وہ جانِ وطن کس حال میں ہے
وہ سروِ چمن وہ رشکِ وطن
وہ سیمیں بدن کس حال میں ہے
او دیس سے آنے والے بتا

او دیس سے آنے والے بتا
اب نامِ خدا ہوگی وہ جواں
میکے میں ہے یا سسرال گئی
گھر پر ہی رہی یا گھر سے گئی
خوشحال رہی ، خوشحال گئی
او دیس سے آنے والے بتا
او دیس سے آنے والے بتا ( اختر شیرانی )
٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪
 

فاتح

لائبریرین
بہت خوب حجاب صاحبہ! خوبصورت کلام شیئر کر رہی ہیں۔ شکریہ!
ویسے لگتا ہے کہ اختر شیرانی کی کلیات ہے آپ کے پاس۔:)
 

حجاب

محفلین
شکریہ فاتح، میرے پاس کلیات تو نہیں ہے بس کچھ مشہور نظمیں اور غزلیں ڈائری میں محفوظ ہیں۔
 

خاور بلال

محفلین
دیس کی یاد کیسی ہوتی ہے؟ اس کا تجربہ تو پردیس جاکر ہی ہوگا۔ اسی سے اندازہ لگالیں کہ ایف ایم پر دیارِ غیر سے ایک صاحب دیس کی یاد تازہ کرتے ہوئے روپڑے۔۔۔

لیکن ایسے لوگوں کی بھی بڑی تعداد ہے جو دیس میں بیٹھ کر دیس سے بیزاری کا اظہار کرتے ہیں۔ اور پردیس جانے کیلئے رال ٹپکائے پھرتے ہیں۔ کاش ہماری نوجوان نسل وطن کی مٹی سے پیار کرنا سیکھ لے۔:(
 

ابوشامل

محفلین
عابدہ پروین نے بھی تو اسے گایا تھا اور کیا خوب گایا تھا۔ میں نے سانحہ 27 دسمبر کے بعد جیو پر سنی تھی اور اس کے ساتھ جو مناظر دکھائے گئے وہ رلانے کے لیے کافی تھے۔
 

خاور بلال

محفلین
عابدہ پروین نے بھی تو اسے گایا تھا اور کیا خوب گایا تھا۔ میں نے سانحہ 27 دسمبر کے بعد جیو پر سنی تھی اور اس کے ساتھ جو مناظر دکھائے گئے وہ رلانے کے لیے کافی تھے۔

بھائ ابوشامل اگر اس کی آڈیو تلاش کرسکتے ہیں تو کردیں مجھے بہت خواہش ہورہی ہے اسے سننے کی۔
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
محفل میں پوسٹ کی گئی اس مشہورِ زمانہ نظم کے "چودہ بند" ہیں جبکہ میرے "گوپال متّل" کی مرتب کردہ "کلیاتِ اختر شیرانی" موجود ہے، اس میں 33 بند ہیں۔
اب میں کنفیوژ ہو رہا ہوں کیونکہ میں محفل کو بھی ایک مستند ویب سائٹ مانتا ہوں سخن کے معاملے میں۔
برائے مہربانی اس پہ روشنی ڈالیے
محمد یعقوب آسی صاحب
سید شہزاد ناصر صاحب
سید زبیر صاحب
طارق شاہ صاحب
 
محفل میں پوسٹ کی گئی اس مشہورِ زمانہ نظم کے "چودہ بند" ہیں جبکہ میرے "گوپال متّل" کی مرتب کردہ "کلیاتِ اختر شیرانی" موجود ہے، اس میں 33 بند ہیں۔
اب میں کنفیوژ ہو رہا ہوں کیونکہ میں محفل کو بھی ایک مستند ویب سائٹ مانتا ہوں سخن کے معاملے میں۔
برائے مہربانی اس پہ روشنی ڈالیے
محمد یعقوب آسی صاحب
سید شہزاد ناصر صاحب
سید زبیر صاحب
طارق شاہ صاحب
اگر آپ کے پاس کلیات ہے تو وہ ہی مستند ہو گی
کیونکہ مشہور شاعروں کی جو طویل نظمیں ہیں ان میں سے اکثر و بیشترانٹرنیٹ پر پوری نہیں ملتیں
خیر میں اس بارے میں کچھ دیکھ کر ہی عرض کر سکوں گا
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
اگر آپ کے پاس کلیات ہے تو وہ ہی مستند ہو گی
کیونکہ مشہور شاعروں کی جو طویل نظمیں ہیں ان میں سے اکثر و بیشترانٹرنیٹ پر پوری نہیں ملتیں
خیر میں اس بارے میں کچھ دیکھ کر ہی عرض کر سکوں گا
بہت بہت شکریہ
میں پھر وہ نظم بھی ٹائپ کر کے بہت جلد اسی دھاگے میں پوسٹ کرتا ہوں۔
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
انٹرنیٹ پہ ہر جگہ تلاش کیا مگر یہ نظم اپنی مکمل شکل میں دستیاب نہ ہو سکی۔ لہٰذا اسے "کلیاتِ اختر شیرانی" سے مکمل نقل کر کے پوسٹ کر رہا ہوں۔

او دیس سے آنے والے بتا!


او دیس سے آنے والے بتا!
او دیس سے آنے والے بتا
کس حال میں ہیں یارانِ وطن
آوارۂ غربت کو بھی سُنا
کس رنگ میں کنعانِ وطن
وہ باغِ وطن، فردوسِ وطن
وہ سرو وطن، ریحانِ وطن
او دیس سے آنے والے بتا!

او دیس سے آنے والے بتا!
کیا اب بھی وہاں کے باغوں میں
مستانہ ہوائیں آتی ہیں؟
کیا اب بھی وہاں کے پربت پر
گھنگھور گھٹائی چھاتی ہیں؟
کیا اب بھی وہاں کی برکھائیں
ویسے ہی دلوں کو بھاتی ہیں؟
او دیس سے آنے والے بتا!

او دیس سے آنے والے بتا!
کیا اب بھی وطن میں ویسے ہی
سر مست نظارے ہوتے ہیں؟
کیا اب بھی سہانی راتوں کو
وہ چاند ستارے ہوتے ہیں؟
ہم کھیل جو کھیلا کرتے تھے
کیا اب بھی وہ سارے ہوتے ہیں؟
او دیس سے آنے والے بتا!

او دیس سے آنے والے بتا!
کیا اب بھی شفق کے سایوں میں
دن رات کے دامن ملتے ہیں؟
کیا اب بھی چمن میں ویسے ہی
خوشرنگ شگوفے کھلتے ہیں؟
برساتی ہوا کی لہروں سے
بھیگے ہوئے پودے ہلتے ہیں؟
او دیس سے آنے والے بتا!

او دیس سے آنے والے بتا!
شاداب و شگفتہ پھولوں سے
معمور ہیں گلزار اب کہ نہیں؟
بازار میں مالن لاتی ہے
پھولوں کے گندھے ہار اب کہ نہیں؟
اور شوق سے ٹوٹے پڑتے ہیں
نو عمر خریدار اب کہ نہیں؟
او دیس سے آنے والے بتا!

او دیس سے آنے والے بتا!
کیا شام پڑے گلیوں میں وہی
دلچسپ اندھیرا ہوتا ہے؟
اور سڑکوں کی دھندلی شمعوں پر
سایوں کا بسیرا ہوتا ہے؟
باغوں کی گھنیری شاخوں میں
جس طرح سویرا ہوتا ہے؟
او دیس سے آنے والے بتا!

او دیس سے آنے والے بتا!
کیا اب بھی وہاں ویسی ہی جواں
اور مدھ بھری راتیں ہوتی ہیں؟
کیا رات بھر اب بھی گیتوں کی
اور پیار کی باتیں ہوتی ہیں؟
وہ حُسن کے جادو چلتے ہیں
وہ عشق کی گھاتیں ہوتی ہیں؟
او دیس سے آنے والے بتا!

او دیس سے آنے والے بتا!
ویرانیوں کے آغوش میں ہے
آباد وہ بازار اب کہ نہیں؟
تلواریں بغل میں دابے ہوئے
پھرتے ہیں طرحدار اب کہ نہیں؟
اور بہلیوں میں سے جھانکتے ہیں
تُرکانِ سیہ کار اب کہ نہیں؟
او دیس سے آنے والے بتا!

او دیس سے آنے والے بتا!
کیا اب بھی مہکتے مندر سے
ناقوس کی آواز آتی ہے؟
کیا اب بھی مقدّس مسجد پر
مستانہ اذاں تھرّاتی ہے؟
اور شام کے رنگیں سایوں پر
عظمت کی جھلک چھا جاتی ہے؟
او دیس سے آنے والے بتا!

او دیس سے آنے والے بتا!
کیا اب بھی وہاں کے پنگھٹ پر
پنہاریاں پانی بھرتی ہیں؟
انگڑائی کا نقشہ بن بن کر
سب ماتھے پہ گاگر دھرتی ہیں؟
اور اپنے گھروں کو جاتے ہوئے
ہنستی ہویہ چہلیں کرتی ہیں
او دیس سے آنے والے بتا!

او دیس سے آنے والے بتا!
برسات کے موسم اب بھی وہاں
ویسے ہی سہانے ہوتے ہیں؟
کیا اب بھی کے باغوں میں
جھُولے اور گانے ہوتے ہیں؟
اور دُور کہیں کچھ دیکھتے ہیں
نو عمر دِوانے ہوتے ہیں؟
او دیس سے آنے والے بتا!

او دیس سے آنے والے بتا!
کیا اب بھی پہاڑی چوٹیوں پر
برسات کے بادل چھاتے ہیں؟
کیا اب بھی ہوائے ساحل کے
وہ رس بھرے جھونکے آتے ہیں؟
اور سب سے اونچی ٹیکری پر
لوگ اب بھی ترانے گاتے ہیں؟
او دیس سے آنے والے بتا!

او دیس سے آنے والے بتا!
کیا اب بھی پہاڑی گھاٹیوں میں
گھنگھور گھٹائیں گونجتی ہیں؟
ساحل کے گھنیرے پیڑوں میں
برکھا کی ہوائیں گونجتی ہیں؟
جھینگر کے ترانے جاگتے ہیں
موروں کی صدائیں گونجتی ہیں؟
او دیس سے آنے والے بتا!

او دیس سے آنے والے بتا!
کیا اب بھی وہاں، میلوں میں وہی
برسات کا جوبن ہوتا ہے؟
پھیلے ہوئے بڑ کی شاخوں میں
جھُولوں کا نشیمن ہوتا ہے؟
اُمڈے ہوئے بادل آتے ہیں
چھایا ہوا ساون ہوتا ہے؟
او دیس سے آنے والے بتا!

او دیس سے آنے والے بتا!
کیا شہر کے گرد، اب بھی ہیں رواں
دریائے حسیں لہرائے ہوئے؟
جُوں گود میں اپنے من کو لئے
ناگن ہو کوئی تھرّائے ہوئے؟
یا نور کی ہنسلی، حُور کی گردن
میں ہو عیاں بل کھائے ہوئے؟
او دیس سے آنے والے بتا!

او دیس سے آنے والے بتا!
کیا اب بھی فضا کے دامن میں
برکھا کے سمے لہراتے ہیں؟
کیا اب بھی کنارِ دریا پر
طوفان کے جھونکے آتے ہیں؟
کیا اب بھی اندھیری راتوں میں
ملّاح ترانے گاتے ہیں؟
او دیس سے آنے والے بتا!

او دیس سے آنے والے بتا!
کیا اب بھی وہاں برسات کے دن
باغوں میں بہاریں آتی ہیں؟
معصوم و حسیں دوشیزائیں
برکھا کے ترانے گاتی ہیں؟
اور تیتریوں کی طرح سے رنگیں
جھولوں پہ لہراتی ہیں؟
او دیس سے آنے والے بتا!

او دیس سے آنے والے بتا!
کیا اب بھی اُفق کے سینے پر
شاداب گھٹائیں جھومتی ہیں؟
دریا کے کنارے باغوں میں
مستانہ ہوائیں جھومتی ہیں؟
اور اُن کے نشیلے جھونکوں سے
خاموش فضائیں جھومتی ہیں؟
او دیس سے آنے والے بتا!

او دیس سے آنے والے بتا!
کیا شام کو اب بھی جاتے ہیں
احباب، کنارِ دریا پر؟
وہ پیڑ گھنیرے اب بھی ہیں
شاداب، کنارِ دریا پر؟
اور پیار سے آ کر جھانکتا ہے
مہتاب، کنارِ دریا پر؟
او دیس سے آنے والے بتا!

او دیس سے آنے والے بتا!
کیا آم کے اونچے پیڑوں پر
اب بھی وہ پپیہے بولتے ہیں؟
شاخوں کے حریری پردوں میں
نغموں کے خزانے کھولتے ہیں؟
ساون کے رسیلے گیتوں سے
تالاب میں امرس گھولتے ہیں؟
او دیس سے آنے والے بتا!

او دیس سے آنے والے بتا!
کیا پہلی سی ہے معصوم ابھی
وہ مدرسے کی شاداب فضا؟
کچھ بھُولے ہوئے دن گزرے ہیں
جس میں، وہ مثالِ خواب فضا؟
وہ کھیل، وہ ہمسن، وہ میداں
وہ خواب گہِ مہتاب فضا؟
او دیس سے آنے والے بتا!

او دیس سے آنے والے بتا!
کیا اب بھی کسی کے سینے میں
باقی ہے ہماری چاہ بتا؟
کیا یاد ہمیں بھی کرتا ے اب
یاروں میں کوئی، آہ بتا؟
او دیس سے آنے والے بتا
لِللّٰہ بتا، لللّٰہ بتا؟
او دیس سے آنے والے بتا!

او دیس سے آنے والے بتا!
کیا ہم کو وطن کے باغوں کی
مستانہ فضائیں بھول گئیں؟
برکھا کی بہاریں بھول گئیں
ساون کی گھٹائیں بھول گئیں؟
دریا کے کنارے بھول گئے
جنگل کی ہوائیں بھول گئیں؟
او دیس سے آنے والے بتا!

او دیس سے آنے والے بتا!
کیا گاؤں میں اب بھی ویسے ہی
مستی بھری راتیں آتی ہیں؟
دیہات کی کم سن باہوشیں
تالاب کی جانب آتی ہیں؟
اور چاند کی سادہ روشنی میں
رنگین ترانے گاتی ہیں؟
او دیس سے آنے والے بتا!

او دیس سے آنے والے بتا!
کیا اب بھی گجر دم چرواہے
ریوڑ کو چرانے جاتے ہیں؟
اور شام کے دھندلے سایوں کے
ہمراہ گھروں کو آتے ہیں؟
اور اپنی رسیلی بانسریوں میں
عشق کے نغمے گاتے ہیں؟
او دیس سے آنے والے بتا!

او دیس سے آنے والے بتا!
کیا گاؤں پہ اب بھی ساون میں
برکھا کی بہاریں چھاتی ہیں؟
معصوم گھروں سے بھوربھئے
چکّی کی صدائیں آتی ہیں؟
اور یاد میں اپنے میکے کی
بچھڑی ہوئی سکھیاں گاتی ہیں؟
او دیس سے آنے والے بتا!

او دیس سے آنے والے بتا!
دریا کا وہ خواب آلودہ سا گھاٹ
اور اُس کی فضائیں کیسی ہیں؟
وہ گاؤں، وہ منظر، وہ تالاب
اور اُن کی صدائیں کیسی ہیں؟
وہ کھیت، وہ جنگل، وہ چڑیاں
اور اُن کی صدائیں کیسی ہیں؟
او دیس سے آنے والے بتا!

او دیس سے آنے والے بتا!
کیا اب بھی پرانے کھنڈروں پر
تاریخ کی عبرت طاری ہے؟
اَن پورنا کے اجڑے مندر پر
مایوسی و حسرت طاری ہے؟
سنسان گھروں پر چھاؤنی کے
ویرانی و رقّت طاری ہے؟
او دیس سے آنے والے بتا!

او دیس سے آنے والے بتا!
آخر میں یہ حسرت ہے کہ بتا
وہ غارتِ ایماں کیسی ہے؟
بچپن میں جو آفت ڈھاتی تھی
وہ آفتِ دوراں کیسی ہے؟
ہم دونوں تھے جس کے پروانے
وہ شمعِ شبستاں کیسی ہے؟
او دیس سے آنے والے بتا!

او دیس سے آنے والے بتا!
مرجانہ تھا جس کا نام بتا
وہ غنچہ دہن کس حال میں ہے؟
جس پر تھے فدا طفلانِ وطن
وہ جانِ وطن کس حال میں ہے؟
وہ سروِ چمن، وہ رشکِ سمن
وہ سیم بدن کس حال میں ہے؟
او دیس سے آنے والے بتا!

او دیس سے آنے والے بتا!
کیا اب بھی رخِ گلرنگ پہ
وہ جنّت کے نظارے روشن ہیں؟
کیا اب بھی رسیلی آنکھوں میں
ساون کے ستارے روشن ہیں؟
اور اُس کے گلابی ہونٹوں پر
بجلی کے شرارے روشن ہیں؟
او دیس سے آنے والے بتا!

او دیس سے آنے والے بتا!
کیا اب بھی شہابی عارض پر
گیسوئے سیہ بل کھاتے ہیں؟
یا بحرِ شفق کی موجوں پر
دو ناگ پڑے لہراتے ہیں؟
اور جن کی جھلک سے ساون کی
راتوں کے سے سپنے آتے ہیں؟
او دیس سے آنے والے بتا!

او دیس سے آنے والے بتا!
اب نامِ خدا، ہو گی وہ جواں
میکے میں ہے یا سسرال گئی؟
دوشیزہ ہے یا آفت میں اُسے
کم بخت جوانی ڈال گئی؟
گھر پر ہی رہی، یا گھر سے گئی
خوشحال رہی، خوشحال گئی؟
او دیس سے آنے والے بتا!


شاعر: اختر شیرانی
ماخذ: کلیاتِ اختر شیرانی
مُرتّبہ: گوپال متّل
ناشر: موڈرن پبلشنگ ہاؤس (9 گولا مارکیٹ دریا گنج نئی دھلی)
 
آخری تدوین:

نایاب

لائبریرین
توجہ دلانے پر بہت شکریہ بہت دعائیں محترم سید بھائی
بلا شبہ بہت خوب غزل ہے ۔
سچے احساسات و جذبات کے موتی خوب پروئے محترم شیرانی صاحب نے ۔۔۔
سنی غزل عابدہ پروین کی زبانی ۔ کچھ ہنسا کچھ رویا ۔۔۔۔۔
 
Top