اسکین دستیاب انتخاب محمد علی ردولوی

سید فصیح احمد

لائبریرین
405صفحہ

اور بری طرح نکالیں گے۔ بھلا میں کہتا ہوں کہ دوسرے فریق سے مل نہیں گیا ہے اور جو مسل سرا میں بھی نہ ہوئی تو۔ یہ بڑا بے وقوف ہے اس کا اعتبار تو شاید دشمن بھی نہ کریں۔

شیخ جی : جی نہیں اتنے دنوں کا رہا سہا ہے ایسا تو کیا کرے گا دیکھیے معلوم ہوا جاتا ہے۔ اگر پیشی کے وقت تک نہ آیا تو کوئی نہ کوئی ترکیب نکلالی ہی جائے گی۔ آپ پریشان نہ ہوں۔

بڑے مرزا صاحب: پریشان کیسے نہ ہوں۔ سب کرائی محنت غارت غول ہوئی جا رہی ہے۔نقصان مایہ اور شماتت، ہمسایہ اوپر سے۔ خدا کرے ابھی پکار نہ ہو۔

مرزا صاحب یہ دعائیں مانگ ہی رہے تھے کہ قیامت کا صور پھنک گیا۔مرزا فلاں بن فلاں کوئی حاجر ہے۔ چہرے پر ہوائیاں چھوٹنے لگیں۔ کلیجہ بلیوں اچھلنے لگا۔ ہاتھ پاؤں برف ہو گئے حواس یہ جا وہ جا۔ خدمت گار سے جا ملے۔

بڑے مرزا صاحب: اب کیا ہو گا شیخ جی۔

شیخ جی : چلیے تو عدالت سے عذر کریں گے۔

خدا نے خیر کی کہ وہاں پہنچتے ہی معلوم ہوا کہ تاریخ بڑھ گئی۔ جان میں جان آئی۔ باہر نکلے۔ کچھ خوش کچھ غصہ۔ لمبے لمبے قدم رکھتے چلے کہ مسل کی خبر لیں۔ سرا کے پھاٹک پر نائب صاحب کا نوکر دکھائی دیا۔

بڑے مرزا صاحب: اور وہ کیوں نہیں آیا۔

نوکر: اس نے کہا کہ میرے پاؤں میں موچ آ گئی ہے۔ تُم لے جاؤ۔

بڑے مرزا صاحب: شیخ جی مٹھائی کی خیر نہیں معلوم ہوتی۔

دور ہی سے کوٹھڑی کی کنڈی اتری ہوئی اور دروازہ بھڑا ہوا دکھائی دیا۔ مرزا صاحب نے چال بدل دی اور دبے پاؤں چلنے لگے۔ دراڑ سے مل کر ملاحظہ کیا۔ دیکھتے کیا ہیں کہ پلنگ پررنگ برنگ کی مٹھائی کا چورا اور ٹکڑے بکھرے ہوئے بہار دکھا رہے ہیں۔ ٹوکری کا گریبان پہلے ہی تار تار ہو چکا ہے اور رقیب روسیاہ کا منھ اور جیبیں پھولی ہوئی ہیں اور وہ پانچوں انکلیاں زمین پر رگڑ رگڑ کر صاف چادر پر موقع موقع سے کتے کے پاؤں بنا رہا ہے۔ دروازہ کھلا دھڑ سے چٹاخ پٹاخ چٹ پٹ۔ دھم پٹ تڑ۔ بھلا بے اندھی رانڈ کے جنے آج پکڑا گیا نا۔

==== OOOOOO ====​
 

سید فصیح احمد

لائبریرین
صفحہ 406

چودھری محمد علی ردولوی

زندگی کا مقصد


۰۱۸۷۰-۷۵ کا قصہ ہے ظاہراًکوئی سبق بھی نہیں حاصِل ہوتا مگر واقعہ سچا ہے، جس کا ہونا نوجوانوں کی سمجھ میں مشکل سے آئے گا۔البتہ مرزا صاحب مرحوم جنہوں نے وہ زمانہ دیکھا تھا ان کو روز مرہ کی بات معلوم ہوتی تھی۔ اس قصے کے ہیرو آغا صاحب کہلاتے تھے۔ان کے یہاں پشمینے کا کارخانہ تھا اور نمکین چائے خوب بنتی تھی۔ان سے ایک دیہاتی رئیس صاحب سے ملاقات ہو گئی۔ آغا صاحب نے ان کی چائے کی دعوت کی۔ دیہاتی رئیس نے خواب میں بھی ایسی چائے کبھی کاہے کو پی ہو گی۔ جب کبھی لکھنو جانے کا اتفاق ہوتا تھا آغا صاحب کے لیے دیہات کے تحفے لے جاتے تھےاور چائے کی فرمائش ہوتی تھی۔ رفتہ رفتہ پینگیں بڑھ گئیں۔ اب یہ اسرار شروع ہوا کہ آغا صاحب ہمارے یہاں چلیے تا کہ وہاں کے لوگ بھی یہ چائے پی لیں۔مہینوں کا زمانہ وعدہ و عید میں ملا۔ پھر مہینوں تہیہ کرنے میں صرف ہو گئے۔ اس کے بعد ایک دن آغا صاحب امام ضامن بندھوا کر چل کھڑے ہوئے۔بڑے آؤ بھگت، بڑی خاطریں ہوئیں۔جن صاحب کے یہاں آغا صاحب مہمان گئے تھے ان کے یہاں دن عید رات شبِ برات۔ مکان کا پھاٹک کبھی بند ہی نہ ہوتا تھا۔ ناچ رنگ اور اسی قبیل کے مشاغل زندگی کا مزا دوبالا کیے ہوئے تھے۔گئے تو تھے ایک ہی دن کے لیئے مگر کچھ ایسا لطف آیا کہ ایک اور دن بھی رہ گئے۔ تیسرے دن چلنے کا ارادہ کیا۔ لوگوں نے توجہ دلائی کہ تیسرا دن مہمان کے جانے کا نہیں ہوتا۔ چوتھا دن اسی رعایت سے گزرا۔ پانچویں دن ارادہ مصمم ہو گیا کہ آج ضرور جائیں گے۔ اتفاق سے اسی دن سنیما کی زبان میں ایک نئی آرٹسٹ کامجرا تھا۔ کہا گیا کہ غضب کی جیے گا بغیر ان کو سنے چلے جائیے گا۔اس کے بعد آغا صاحب نے کپڑے نہ ہونے کا عذر کیا۔ خیر یہ کوئی ایسا مشکل مسئلہ نہ تھا۔ اسی وقت درزی بیٹھ گئے۔ مردانے جوڑوں کی تیاری میں کتنی دیر لگتی ہے۔ ایک چھوڑ کئی جوڑے تیار ہو گئے۔ اس عذر میں ایک کے بجائے دو دن گزر گئے۔ اب پھر روانگی کا پاتراب ہوا مگر دن کی نحوست کے خیال سے ارادہ فسخ ہو گیا۔ اسی طرح کبھی تاریخ نحس ہوئی ، کبھی پچھم کا چالا نہ ہوا، آج قمر در عقرب ہے تو کل تحت الشعاع، کبھی ریل چھوٹ گئی۔ کبھی کوئی خاص دوست سے عین وقت پر رخصت نہ ہو سکے۔ غرض کہ روانگی کی گھڑی یوں ہی ٹلتی رہی۔ حضرت ناظرین اگر روز
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
اسکین صفحہ نمبر 32 تا 40
33.png


34.png


35.png


36.png


37.png


38.png


39.png


40.png

سید فصیح احمد بھائی
 

الف عین

لائبریرین
!!! ہو یا ؟؟؟، دونوں سے یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ لفظ کو بغور دیکھنے کی ضرورت ہے۔ آئندہ کم از کم تین سوالیہ نشان لگائے جائیں ایسے الفاظ پر تو بہتر ہے۔
 

سید فصیح احمد

لائبریرین
!!! ہو یا ؟؟؟، دونوں سے یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ لفظ کو بغور دیکھنے کی ضرورت ہے۔ آئندہ کم از کم تین سوالیہ نشان لگائے جائیں ایسے الفاظ پر تو بہتر ہے۔
جی استادِ محترم ،، میں نے ؟؟؟ کی علامت ہی استعمال کی۔ اور آئندہ بھی اسی کو استعمال کروں گا۔ بہت شکریہ!
 

جاسمن

لائبریرین
376
رفتہ رائے قائم کرتے جائیے۔ مدی کے ہر انداز میں نسوانیت کوٹ کوٹ کر بھری تھی۔ ایک بات البتہ تھی جو گو عورتوں میں بھی ہوتی ہے،مگر ،ہم ایسے بوژوا لوگ اس کو مرد ہی سے منسوب کرتے ہیں،یعنی اپنے ہم طبقہ عورتوں میں اور اسی طبقے کے مردوں میں مدی حکومت خوب کر لیتی تھیں۔ہر شخص عورت ہو کہ مرد ان کا تابع فرمان رہتا تھا،اور ان کے اشارے پر چلنے کو تیار۔اب شروع سے قصہ سنیے،تحصیل دار صاحب کا نام کیا کیجیے گا جان کر مرحوم بڑے اچھے آدمی تھے۔مگر بے عیب خدا کی ذات،کچھ خاص خاص کمزوریاں کہی جاتی تھیں۔پرانی وضع کے لوگ تھے۔بڑی شان سے تحصیل داری کی۔ لاکھوں کمائے اور ہزاروں اڑائے مگر اولاد نہ ہونے کی وجہ سے ان کی زندگی کچھ بے مرکز سی ہو گئی تھی۔بی بی بہت دن ہوئے مر چکی تھی۔کوئی قریب کا عزیز بھی نہ تھا۔صرف ایک نوکر تھا وہی سیہ سفید کا مالک ٹھہرا۔ میاں کے کپڑے اور کھانا بھی میاں حسن علی ہی پسند کرتے تھے۔ حسن علی کسی کام کو بازار گئے۔دو تھان رادھا نگری ڈوریے کے لیے چلے آتے ہیں۔ میاں کےکرتے بنیں گے مگر میاں کو اس وقت خبر ہوئی کہ جب درزی قطع کرنے(؟؟؟) گا۔
"ارے میاں حسن علی،یہ ڈوریہ کیا لائے ہو؟"
حسن علی:"آپ کے کرتوں کے لئے۔ ڈوریہ وضع دار ہے۔ سلنے پر اور کھلے گا۔"
کھلے گا تو مگر کرتے تو میرے پاس تھے۔ ابھی اس دن شربتی لے آئے۔آج ڈوریہ لئے چلے آتے ہیں آخر پوچھ تو لیا ہوتا۔"
"پوچھ کے کیا کرتا۔ آپ ہی تو کہتے کہ رہنے دو گھر میں ایک چیز ہو گئی۔ برسات کا زمانہ ہے۔ دھوبی دیر میں آیا کرے گا۔ دو جوڑے فاضل اچھے ہوتے ہیں۔"
"خیر بھئی!"
تحصیل دار کھانے پر بیٹھے ہیں۔ "میاں حسن علی آج بازار میں مچھلی نہیں آتی۔"
"آتی تو ہے مگر گرمیوں کی وجہ سے میں نے نہیں منگوائی۔ اس فصل میں مچھلی نقصان کرتی ہے۔صبح کو مرغ پک جائے گا۔"تحصیل دار صاحب پر حسن علی کی شخصیت ایسی غالب آئی تھیکہ جو بات وہ پسند کرتے تھے تحصیل دار سمجھتے تھے کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے۔ اسی وجہ سے غیر ذمہ دار لوگ دونوں کا ذکر کر کے مسکراتے تھے اور آپس میں آنکھیں مارتے حسن علی کا استرے سے صفا چٹ چہرہ اور تحصیل دار صاحب کی بھبھو داڑھی پر چہ میگوئیاں ہوتی تھیں۔ داڑھی مونچھوں کا صفایا صرف انگریزی دان حضرات کا حق ہے۔اگر حسن علی ایسے اپنی چال چھوڑ کر ہنس کی چال چلیں گے تو اللہ ہی نے کہا ہے کہ لوگ کوئی نہ کوئی فی نکالیں گے۔
بہر حال اصلیت کی خبر خدا کو ہے۔ ہم تو جو کچھ بھی دیکھتے تھے، وہ یہ تھا کہ تحصیل دار کا ہمدرد دنیا جہاں میں حسن علی کے علاوہ کوئی نہ تھا حسن علی کو بھی اس سے اچھا آقااگر چراغ لے کے
 

جاسمن

لائبریرین
378
رہیں تو ایک رات نہیں تو اسی دن واپس آ گئیں۔سسرال والے جاہل،شوہر بھی الف کے نام لٹھا نہیں جانتے۔ گو مدی بھی بغدادی قاعدہ اور عم کے سپارے کے آگے نہیں پڑھی تھیں مگر پھر بھی پڑھے ہوئے کی پالی ہوئی تھی۔ عمر بھر امیری کارخانہ دیکھا تھا مدی کا دل سسرال میں کم لگتا تھا۔ کم سنی میں بیاہ کا تجربہ کچھ اچنبھے میں ڈالے تھا۔ شادی کے بعد اگر عورت پر کنوار پنے کی آب نہیں رہ جاتی تو سہاگ کی رونق چہرہ چمکا دیتی ہے۔ مگر احمدی کے چہرے سے نہ اس بات کا پتہ چلتا تھا نہ اس کا۔میاں بیوی کےبرتاؤ کا حال دو چار دن میں کیا کھلتا ۔ مگر کسی خاص خوشی یا اطمینان کا اندازہ اس میں بھی نہیں دکھائی دیتا تھا۔ کچھ ہی دنوں میں یہ بھی نہ رہ گیا اور کھلم کھلّا نا خوشی کے آثار ظاہر ہونئ لگے۔ شوہر صاحب کچھ دبے دبے سے تھے۔ تحصیل دار صاحب کے یہاں آ کر وہ بھی اپنی شوہریت کا برتر درجہ بر نہیں سکتے تھے۔خود اپنی ہیچ میرزی اور بی بی کی بلبدی ان کی نظر میںکھٹکٹتی تھی۔ ضرورتیں مجبار کرتی تھیں نئی نئی بی بی ،کچھ روپیہ پیسہ بھی ہاتھ آ جاتا تھا۔ اس لیے چپ تھے۔ ایک دن ایسا اتفاق ہؤا کہ مدی جو سو کر اٹھیں تو ایک چھڑا غائب۔ بستر پر ادھر ادھر دیکھا،دلائی جھاڑی،پائنتی جھک کے دیکھا،گھر میں ادھر ادھر تلاش کیا مگر کہیں نہ ملا۔ نہ معلوم کیا سمجھ کر چپ ہو گئی۔ دوپہر کے قریب ماں سے آ کر کہا۔ ماں نے شور مچا دیا۔تحصیل دار صاحب تک خبر ہوئی انھوں نے سنتے ہی کہہ دیا کہ یہ حرکت سوائے مدی کے دولھا کے اور کسی کی نہیں ہو سکتی یہ بھی کہا کہ اس کے جوا کھیلنے کی خبر بھی مجھ تک پہنچ چکی ہے۔ لیجیے صاحب شوہر بھی روٹھ گئے۔دو چار دن کے بعد رخصتی کا اصرار ہوا۔ مگر چھڑے والی بات پکڑ کر مدی کے ماں باپ نے انکار کر دیا۔ ایک روز مدی کے شوہر نے علی حسن کے گھر آ کر بہت سخت سست سنایا،اور غصے میں یہ بھی کہا کہ حرام زادی کو جھونٹے پکڑ کر گھسیٹتا نہ لے جاؤں تب ہی کہنا۔اس وقت تک مدی نے کسی کی جانب داری نہیں کی تھی لیکن اب وہ بھی فرنٹ ہو گئی۔اور ایسی فرنٹ ہوئی کہ مرتے دم تک پھر منہ نہ دیکھا۔حسن علی نے بھی خیال کیا،داماد ممکن ہے کچھ شہداپن ہی کر بیٹھے اس لیے مدی کا پورے طور سے تحصیل دار صاحب ہی کے ہاں رہنا اچھا ہے۔ شوہر صاحب ہمیشہ کے لیے معطل کر دیے گئے۔
جب سے مدی کی شادی ہوئی تھی۔ تحصیل دار صاحب کچھ چپ سے رہتے تھے اس واقعے کے بعد وہ بھی نحال ہو گئے۔ مدی کے شوہر نے اپنی مفاہمت سے یہ بھی کہا کہ تحصیل دار صاحب نے اس سے آشنائی کر رکھی ہے مگر اس کو کون باور کرتا۔ حسن علی والی بات پر تو لوگ ہنسی مذاق بھی کرتے تھے۔ مگر اس بات کو کسی نے جھوٹوں بھی یقین نہ کیا۔ البتہ تحصیل دار صاحب تجربہ کار آدمی تھے انھوں نے موت زندگی کا خیال کر کے مدی کے لیے علاحدہ گھر اور کچھ بودگی کا انتظام کرنا شروع کیا۔ اس واقعے کے دوسرے سال کے اندر تحصیل دار صاحب کا انتقال ہو گیا۔تحصیل دار صاحب مرحوم کے یا تو کوئی نہیں تھا یا یکبارگی نہ معلوم کتنے وارث پیدا ہو گئے اور آپس میں مقدمہ
 

جاسمن

لائبریرین
379
بازی شروع ہو گئی۔ بی مدی نے بھاری پتھر چوم کے چھوڑا۔اٹھ کے اپنے گھر چلی آئیں۔تخت،چارپائیوں،الماریوں پر نہ ان کاحق تھا نہ انھوں نے دعویٰ کیا۔ نقد جو کچھ تحصیل دار صاحب ان کو دے گئے ہوں کون لے سکتا تھا۔ہاتھ،ناک،گلے میں جو کچھ تھا وہ ان کا تھا ہی۔مدی نے حسن علی کی صلاح سے یہ طریق اختیار کیا کہ اپنے طبقے سے اونچی ہو کر رہنا پسند نہ کیا بلکہ جس حیثیت کے لوگ ان کے ماں باپ تھے اسی برادری میں رہیں۔البتہ روپیہ پیسہ اور سلیقہ ہونے کی وجہ سے اپنے طبقے میں یوں رہیں جیسے مالی کی نگاہ میں سب پھولوں میں گلاب کا پھول ہوتا ہے۔
تحصیل دار صاحب کےسال ہی بھر بعدطاعون بڑے زوروں کا پڑا۔اس میں میاں حسن علی اور ان کی بی بی بھی چل بسیں،اب صرف بی مدی اور ان کا چھوٹا بھائی رہ گئے۔
اس وقت تک مدی نے جو کچھ کیا برا کیا ہو گا اس کی ذمہ داری صرف ان کے اوپر نہ تھی کیوں کہ ہر معاملے میں تحصیل دار مرحوم اور اس کے کم درجہ تک ان کے باپ کی رائے شامل رہتی تھی۔اس کے بعد جو کچھ پیش آیا وہ البتہ ان کے دل و دماغ کا نتیجہ تھا۔مدی کا برتاؤ ہر شخص سے عمدہ تھا۔ کوئی شاکی نہ تھا بلکہ اڑوس پڑوس کی عورتیں ہر وقت ان کے گھر میں موجود رہتی تھیں ۔ ان سے بھی جو ہو سکتا تھا آنے جانے والیوں کے ساتھ سلوک کرتی تھیں۔گھر میں کپڑا سینے کی مشین تھی۔ دن بھر لوگوں کے کپڑے مفت سیا کرتی تھی۔ کسی کو اگر روپے دو روپے کی ضرورت ہوتی ہو بھی قرض کے نام سے دے دیے۔ جس کسی کا کہیں ٹھکانہ نہ لگے وہ مدی کے یہاں چلا آئے۔ روٹی اپنی پکائے دال بی مدی سے لے لے۔پان پتا بھی بی مدی کے پاندان سے کھائے۔اسی زمانے میں ایک عورت نہ معلوم کہاں کی باہر سے آئی۔ اس کو بھی مدی نے رکھ لیا۔عورت سلیقہ مند تھی۔اپنا بار بھی ان پر نہیں ڈالتی تھی۔بلکہ پیسے دو پیسے کا سلوک خود ہی کر دیتی تھی۔کچھ انگوٹھیاں،کچھ کیلیں،لیس،صابون وغیرہ بیچتی تھیں۔صبح ہوئیاور برقع اوڑھ کر نکل گئیں۔ دوپہر کو آئیں،کھانا کھایا،آرام کیا،اس کے بعد پھر نکل گئیں۔شام کو لوٹیں۔ یہ مسماۃ آئی تھیں تو یہ کہہ کر کہ دو چار دن میں سودا کر کے دوسری جگہ چلی جائیں گی۔ مگر مدی سے کچھ ایسی پرگت ملی کہ گھر کی طرح رہنے لگیں۔ محبت و یگانگی کی وہ پینگیں بڑھیں کہ سگی بہنیں مات تھیں۔صورت شکل کی تو معمولی تھیں مگر قد کشادہ تھا۔ جب برقع اوڑھ کر راستہ چلتی تھی تو معلوم ہوتا تھا کہ مرد بھیس بدلے ہوئے چلا آتا ہے چال ڈھال قد کے علاوہ بھی کچھ اور باتیں مردوں کی ایسی تھیں مثلاََ ہاتھ پاؤں کے دیکھتے سینہ کم تھا۔ کمر،کولھے،پاؤں کی چوڑی چوڑی ایڑیاں بھی عورتوں کی ایسی نہ تھیں۔تھوڑے ہی دنوں میں یہ ہو گیا کہ دن کو ویسا ہی مجمع رہتا تھا مگر رات کو دوسری عورتیں کمرہنے لگیں۔جب منہ نہیں پایا تو پرائے گھر میں کیسے ٹھہرتیں۔پہلے تو عورتوں میں سر گوشیاں ہوئیں پھر محلے میں ہر شخص اسی کا ذکر کرنے لگا۔ مگر مدی اور اس عورت نے بجائے تردید کرنے کے ایک آزادانہ بے پر وائی کا انداذ اختیا کر لیا۔ان عورتوں نے کہا،ہم لوگ کسی کی بہو بیٹی ہیں
 

جاسمن

لائبریرین
377
ڈھونڈتے تو نہ ملتا۔
اللہ میاں نے دو جنس بنائی تھیں۔ عورت اور مرد یورپ کے ڈاکٹروں نے تحقیقات کر کے ایک اور جنس ایجاد کی ہے جو اپنے ہی جنس کی طرف راغب ہو۔اس جنس میں عورتیں بھی شامل ہیں اور مرد بھی۔ اب نہ معلوم تحصیل دار اور حسن علی اس تیسری جنس میں سے تھے یا ویسے ہی تھے جیسے ہم آپ یا بعد کو کچھ ادل بدل ہوئی۔اس کو نہ ہم جانتے ہیں نہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔وہ جانیں اور ان کا کام۔بظاہر ان دونوں کے افعال سے دوسروں کی سماجی زندگی میں کوئ فرق نہیں پڑتا تھا۔اس لئے ہم کوکھوج کی کوئی ضرورت بھی نہیں معلوم ہوتی۔تحصیل دار صاحب بھاری بھرکم آدمی تھے۔اولاد نہ ہونے کا دکھڑا کروتےمگر اولاد کی تمنا اس بات سے ظاہر ہوتی تھی کہ جب کھانا کھاتے تو حسن علی احمدی کو بلوا بھیجتے تھے کہ دستر خوان پر بیٹھ جائے۔اسی وجہ سے کھانا تنہائی میں کھانے لگے تھے۔ نوکر کی لڑکی کو دستر خوان پر کھلاتے کچھ اچھا نہیں لگتا تھا۔اس کے علاوہ اگر سب کے سامنے کھلاتے تو صاحبِ اولاد نہ ہونے کا رنج اور بچوں کی تمنا لوگوں پر کھل جاتی۔بی احمدی خانم عرف مدی بیگم کا سن چار برس کا رہا ہو گا۔ دستر خوان پر شوربا گرانا۔لقمہ ڈبونے میں دال کا پیالہ گھنگول دینا بچوں کا شیوہ ہے۔اور نفیس لوگ ا سی وجہ سے بچوں کو الگ کھلاتے ہیں۔ گو کہتے یہی ہیں کہ جوانوں والا کھانا بچوں کو نقصان کرتا ہے۔ مگر تحصیل دار کو اس میں لطف آتا تھا۔ ادھر دستر خوان پر بیٹھے اور ادھر بی مدی کی طلب ہوئی۔ رفتہ رفتہ مدی خود وقت پہچان گئیں۔تھوڑے دنوں میں مدی تحصیل دار صاحب ہی کے یہاں رہنے لگیں۔ یا گھر میں ایک طرف چھوٹا بھیا اور بیچ میں حسن علی کی بی بی تھیں یا ان کی پلنگڑی الگ بنی۔صاف چادر لگائی گئی۔چھوٹے چھوٹے تکیے بنوائے گئے۔تحصیل دار صاحب کے پاس ان کی بھی پلنگڑی بچھنے لگی۔ جوتے پہنے رہنے کی تاکید ہوئی کہ بچھونا میلا نہ ہو۔لڑکی تھی پیدائشی سلیقہ مند۔ ایک بار سے دوسری بار بتانے کی ضرورت نہیں ہوئی تھی۔پانچ چھ ہی برس کے سِن میں ایسا سلیقہ آگیا کہ آدھی بی بی معلوم ہوتی تھیں۔تحصیل دار صاحب کے پان خود بناتی تھیں۔دس گیارہ برس کے سِن میں جنسی تلوانا،کھانا پکوانا،سب کچھ مدی کے ہاتھ ہو گیا تھا۔دن جاتے کچھ دیر نہیں لگتی۔چوھدویں برس مدی کا شباب دمک اٹھا۔دیکھنے والوں کا دل چاہتا کہ دیکھا ہی کریں۔مدی بھی جب بال بنانے کھڑی ہوتی تھی تو آئینے کا ساتھ خود بھی متحیر رہ جاتی تھی۔اب ماں کو شادی کی فکر ہوئی۔تحصیل دار صاحب کو کہا گیا۔انھوں نے کہا جلدی کیا ہے ہو جائے گی۔مگر لڑکی حسن علی کے بھتیجے کو بچپن ہی سے مانگی تھی۔ادھر سے بھی اصرار ہوا کی جوان لڑکی کا امیروں کے گھر میں رہنا اچھا نہیں لیجیے صاحب شادی ہو گئی۔تحصیل دار صاحب نے خود تو اپنے گھر سے شادی نہیں کی،مگر جہیز وغیرہ خوب سا دیا۔چوتھی چالے کے بعد پھر وہی تحصیل دار صاحب کے یہاں کا رہنا۔مدی کے دولھا بھی تحصیل دار صاحب کے یہاں آتے تھے۔ مدی سسرال کم جاتی تھی۔گئیں بھی تو کھڑی سواری بہت
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
اسکین صفحہ نمبر 41

نیک کام

مرزا صاحب کہنے لگے لوگ اپنی نیکیاں نہیں بیان کرتے ہم کو اپنے نیک کام کا ذکر کرکے لطف آتا ہے۔ اس کی کیا وجہ ہے؟ شاید یہ ہو کہ ہم اپنی چھوٹی چھوٹی برائیاں بھی کہہ گزرتے ہیں اور پیٹ میں کوئی اچھی بات رکھ نہیں سکتے، ممکن ہے یہ سبب ہو کہ جو لوگ نیکیاں کرتے ہیں وہ کہاں تک یاد رکھیں اور ہم سے اگر کوئی اچھی بات ہو جاتی ہے تو وہ ہروقت دماغ میں کھیلا کرتی ہے۔ جیسے وہ عورت جس کا ایک ہی بچہ ہو اور وہ چاہے کہ اس کا بچہ کسی وقت نگاہ سے اوجھل نہ ہو۔ اگر کسی کے بہت سے ہوئے ممکن ہے کہ اس کے خیال سے بعض وقت کوئی بچہ اتر بھی جائے۔ یا یہ بات ہو کہ مذہب کی طرف سے ہم کچھ بے پروا سے ہیں اور اچھائیاں برائیاں جہنم کے خوف یا بہشت کے لالچ سے نہ کرتے ہوں۔ بلکہ زیادہ تر فطرت کے تقاضے سے کرتے ہوں اور بہشت دوزخ بجائے دوسری دنیا کے خود اپنے دل ہی میں پاتے ہوں۔ بہرحال جو کچھ ہوا واقعہ سنیے ہم کو تھوڑی دیر کے لیے بھاڑ میں جھونکیے۔ میں اس وقت یہی کوشش کر رہا ہوں گو مشکلیں پڑ رہی ہیں اللہ کرے کامیاب ہو جاؤں۔
گرمیوں کا زمانہ ہے، پہاڑی کا مقام ہے ہوٹل میں ہمارا کمرہ شاگرد پیشہ کے پاس ہے۔ ہوٹل کے فیشن ایبل مہمان اس طرف کا راستہ بھی نہیں چلتے۔ حالاں کہ پہاڑ کی سنہری دھوپ کا لطف جیسا اس طرف ہے دوسری طرف خواب میں بھی نہیں دکھائی دیتا ۔ پاسس ہی نوکروں چاکروں کے لڑکے کھیل رہے ہیں۔ میلے ، کچیلے، دبلے بعض بیمار بھی ہوں گے بعض کی صورتیں اچھی بھی ہیں مگر گندے کپڑوں اور میلے چہروں میں ایسے چھپے ہیں کہ پتہ ہی نہیں چلتا۔ مگر سب خوش ہیں اور شور مچا رہے ہیں۔ ان کو دیکھ کر مفلسی، بیماری، غریبی کا خیال اللہ میاں کے خزانے کی تازہ ہوا اور جنت کے ایسے موسم کا مزا کرکرا کر دیتا ہے اسی لیے بڑے بڑے روشن خیال فلاسفر اور قومی خدمت کرنے والے رفارمر جو ہوٹل میں ٹھہرتے ہیں ادھر نہیں آتے ہیں۔ ان بچوں میں ایک لڑکی بھی ہے کوئی آٹھ نو برس کی ہوگی۔ یہ کھیل میں کیوں نہیں شریک ہوتی؟ اے ہے۔ یہ تو ایک ہی ہاتھ کی ہے۔ دوسرے ہاتھ میں کوڑھ کا اثر معلوم ہوتا ہے۔ ارے تیرا ہاتھ دیکھیں؟ نہیں کوڑھ نہیں ہے۔ جل گیا ہے۔ یہ کیسے جلا؟
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
اسکین صفحہ نمبر 42

لڑکی۔ ہم کو نہیں معلوم ہم بہت چھوٹے تھے تب جلا تھا۔
میں۔ ارے اس زخم کی دوا نہیں کرتی ہے۔
ایک نوکر۔ جاتی تو ہے اسپتال۔ مگر روز چھٹی کہاں پاوے۔
میں۔ کیوں اس کو کون کام ہے۔
نوکر۔ اس کو مالی نے اپنے لڑکے کے واسطے دو سو کی مول لیا تھا اس کی ساس بڑی جالم ہے۔
میں۔ ارے اس کا بیاہ ہوگیا ہے۔
لڑکی ایک ذرا سا گھونگھٹ نکال لیتی ہے اور چہرے پر سے بچپن دور کرکے بیاہی عورت کی ذمہ داریاں لانے کی کوشش کرتی ہے۔
ناظرین تیار ہو جائیے۔ قصے کا نچوڑ آگیا۔ میں تصویر کھینچنے کی کوشش کرتا ہوں۔ آپ بھی مو قلم لے کر بیٹھ جائیے۔ جہاں مجھ سے رنگ بھرتے نہ بنے وہاں آپ میری مدد کیجئے گا اور اپنی لطافت خیال سے تصویر مکمل کیجئے گا۔ اتنا سمجھ لیجئے کہ ہندوستانی لڑکیاں سرد ملکوں کی لڑکیوں سے پہلے نسوانیت کی ذمہ داریاں محسوس کرنے لگتی ہیں۔ یہ نکتہ مجھ کو سر آرتھر سائمن نے سروجنی نائیڈو کے حال بیان کرنے میں بتایا تھا۔ دوسری بات میں خود عرض کرتا ہوں۔ غریبی کی درس گاہ میں بچہ بہت جلد پڑھ لکھ کر فاضل ہو جاتا ہے۔ اگر اس کے ساتھ بیماری حیرانی بھی لگ گئی جیسا کہ اکثر ہو جاتا ہے تو کیا کہنا۔ پھر تو زمانے کا گرم سرد ایسا سمجھنے لگتا ہے کہ ہم آپ جن پر مصیبت نہیں پڑی ہے کیا سمجھیں گے۔ آپ نے کسی چھوٹے بچے کو پیاس کے ؟؟؟ میں مبتلا نہیں دیکھا ہے جتنی مصیبت وہ بے زبان اپنی آنکھوں سے کہہ گذرتا ہے عاشق کی نگاہ کیا کہے گی۔
دوسرا نوکر۔ حضور یہ تو ہاتھ کی وجہ سے سو روپے کی بھی مہنگی تھی نہ جانے مالی نے اس کو اتنے داموں پر کیوں لے لیا۔
اب لڑکی پر نہ بچپن کا الڑھ پن پایا جاتا تھانہ ہی بیاہی عورت کی ذمہ داری کا اثر۔ اس کا چہرہ ہر طرح کے تاثر سے بالکل خالی اور صاف ہوگیا۔ اس طرح کے مباحثے اپنی بابت جب سے اس گھر میں آئی تھی ہمیشہ سنتے سنتے عادی ہوگئی تھی اس لیے اس کے چہرے پر نہ غصہ تھا، نہ تعجب، نہ شرم۔ ان سب کے بجائے میرے دماغ میں وہ چھوٹا سا گھوڑا پھر گیا جو بچپن میں میرے لیے ایک مرتبہ خریدا جا رہا تھا اور لوگ اس کی بال بھونری دیکھ کر اس کے دام لگا رہے تھے۔ جانور کو اس کی کیا خبر کہ اس کی تقدیر کا فیصلہ کیوں کر ہوتا رہتا ہے۔ لیکن انسان کے بچے پر اگر سماجی ظلم ایسی مصیبت ڈھاتا ہے تو وہ سمجھے یا نہ سمجھے مگر اس کا شعور باطن برچھی پر برچھی اور گھاؤ پر گھاؤ کھاتا رہتا ہے۔ لڑکی کی دلی کیفیات کا حال اللہ جانے مگر مجھ کو کسی نے دھکیل کر اس لڑکی کے قریب
بقیہ ص419 پر)
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
اسکین صفحہ نمبر 43

نفاست
مرزا صاحب نے بڑی عمر پائی۔ 109 برس کے سن میں ابھی تھوڑے دن ہوئے کہ انتقال کیا ہے۔ مرنے کے دو چار دن پہلے تک وہی انداز رہا جو ہم لوگ ہمیشہ سے دیکھتے چلے آئے تھے۔ کچھ انگریزی سے بھی واقف تھے۔ نہیں معلوم نوابی میں کس سے پڑھی تھی۔ نئی باتوں میں تو حافظہ ضرور کم زور ہوگیا تھا مگر پرانی باتیں اسی طرح یاد تھیں اور اس وضاحت سے بیان کرتے تھے کہ تصویر کھینچ جاتی تھی۔ الفاظ منھ سے نکلتے تھے اور معلوم ہوتا تھا کہ تختے پر مو قلم کا کام کر رہا ہے۔
خوش بیانی کی تعریف نہیں ہوسکتی۔ منھ سے پھول جھڑتے تھے۔ جی یہی چاہتا تھا کہ "وہ کہیں اور سنا کرے کوئی۔" بچہ ہو، جوان ہو، بوڑھا ہو، عورت مرد سب یہی چاہتے تھے کہ مرزا صاحب باتیں کیے جائیں۔ ملیا انگلستان کی کاہے کو یورپ کی مشہور گانے والی کے نام سے کسی نے اپنی تصنیف کو یوں عنوان دیا تھا۔ "اس بلبل غریب کے نام جو ملیا کو سن کر چپ ہوگئی۔" بس مرزا صاحب جب باتیں کرتے تھے تو اسی بلبل کی طرح سب چپ ہو جاتے تھے۔ احباب میں سے کسی نے شعر پڑھا:
اتنی نہ بڑھا پاکیِ داماں کی حکایت
دامن کو ذرا دیکھ ذرا بندِ قبا دیکھ

اس شعر کے متعلق باتیں ہو رہی تھیں کہ مرزا صاحب آگئے۔ حسب عادت ہم لوگ اپنے خیالات چھوڑ کر مرزا صاحب کی باتیں سننے کے مشتاق ہوئے، اور شعر پھر سے پڑھا گیا۔ مرزا صاحب۔ "شعر کے اچھے ہونے میں کلام کیا ہے۔ مگر مجھ کو ایک واقعہ یاد آگیا ہے۔ ساٹھ برس سے اوپر کی بات ہوگی۔ نوابی جا چکی تھی مگر نوابی کی بو ویسے ہی باقی تھی۔ ناچ گانے کے جاننے والے اور پہنچاننے والے جب گھروں کے اندر بیٹھتے تھے تو بھول جاتے تھے کہ دنیا بدل گئی ہے۔
کتھکوں کا ایک خاندان شجاع الدولہ بہادر کے وقت سے لکھنو میں آ کر بسا تھا ہر صاحبِ کمال قدر دان کی تلاش میں رہتا ہے۔ اسی وجہ سے یہ لوگ بھی اس شہر پر جان فدا کیے ہوئے تھے۔ اور یہیں کے نام سے بکتے تھے۔ اس خاندان نے ناچ میں لکھنو کا نام اونچا کر دیا تھا۔ لکھنو نے بھی ان کے ساتھ یہ کیا تھا کہ پرانی مثل یعنی "کتھکوں کی بساہند نہیں جاتی" ان کے لیے غلط ٹھہرا دی تھی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جہاں تک تر بہنگ کا تعلق تھا یہ عیب ان میں نام کو نہیں رہ گیا تھا۔ دوسرے خالص ناچوں کا حال جو جانتے ہوں وہ جانیں ۔ ناچ علم سینہ بھی ہے اور علم سفینہ
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
اسکین صفحہ نمبر 44

بھی۔ جس کو جس قدر پہنچا ہے سامنے رکھ دے اور دامن جھاڑ کر ہٹ آوئے اس امانت میں خیانت کی گنجائش نہیں۔ دوسرے چیز بھاؤ بتانا ہے۔ اس میں ہر شخص کی ذہانت اور جودت اس کے ساتھ ہے۔ استاد کا کام صرف راہیں دکھا دینا ہے۔ آگے تم جانو تمہارا کام۔ ذہن رسا جہاں تک لے جائے بڑھتے جاؤ۔ مگر یہ کھیل ایسا نازک ہے کہ جس میں اچھائی برائی کے مدارج نہیں قائم کیے جاسکتے۔ اگر اچھا ہے تو بھاؤ ہے اور اگر بھونڈا ہے تو کوئی دوسری بلا ہے۔ بات شیطان کی آنت ہوگئی مگر آپ لوگ میری بکواس سنتے ہیں اس لیے اگر کہیے تو بھاؤ بتانے کی ایک مثال بھی دیتا چلوں۔ ہم لوگ "ضرور ضرور" مرزا صاحب۔ "بہت خوب۔" میر مونس کے پڑوس میں ایک بھانڈ رہتا تھا۔ بچپن میں دونوں ساتھ کھیلے تھے۔ بڑھ کر دونوں کی راہیں جدا ہوگئی تھیں مگر رشتہ باقی تھا۔ ایک مرتبہ اس بھانڈ کو ایک مشکل آن پڑی۔ مشکل یہ تھی کہ "کوری کگریا" بتانا تھا۔ مگر ذہن وہاں تک نہیں پہنچ رہا تھا۔ موقعہ پا کر میر مونس مرحوم کے پاس ایا۔ ادھر ادھر دیکھ کر کہنے لگا ایک کام ہے اگر کر دینے کا وعدہ کیجئے تو کہوں۔ کہو تو۔ نہیں وعدہ کر لیجئے۔ وعدہ کیسے کر لیں۔ اگر امکان میں ہوا تو کریں گے ۔ آہستہ سے، کوری کگریا سمجھ میں نہیں آتا کہ کیسے بتاؤں۔ ہائیں۔ لاحول ولا قوۃ میں کیا جانوں۔ بھانڈ(پاؤں کا پنجہ پکڑ کر)۔ حضور میں تو یہ قدم نہ چھوڑوں گا۔ میر صاحب (سنجیدہ ہر کر) "کواڑ بند کراؤ۔" مونس صاحب نے بائیں ہاتھ کی پانچوں انگلیاں اوپر کیں جیسے پھول کی آدھی سے ایک ذرا زیادہ کھلی ہوئی کلی ہوتی ہے۔ ہاتھ چہرے کے برابر، اور سامنے لائے داہنے ہاتھ سے ڈھیلی ڈھیلی متھی باندھی اور بیچ کی انگلی کو سیدھی کرکے آدھی اس طرح خم کی کہ بیچ کا پور دوسرے پوروں سے آگے نکلا رہا اور بائیں ہاتھ کی انگلیوں سے کچھ بلندی پر خیالی کگریا کو ٹھنکا مار دیا۔ خیر یہ تو جملہ معترضہ تھا۔ بھاؤ بتانے میں صرف ذاتی ذہانت ہی سے کام نہیں لینا پڑتا بلکہ یہ بھی دیکھنا پرتا ہے کہ کس کے سامنے کمال دکھایا جا رہا ہے۔ انھیں کتھکوں میں کا ایک فن کار، عالی قدر والا جاہ نواب وزیر مرزا بہادر چو لکھی والے "کدرپیا" کے سامنے مجرا کر رہا تھا۔ جوانی کا عالم تھا جوہر شناس کا سامنا تھا۔ جان توڑ کر اپنے کمالات دکھائے۔ اصطلاحوں میں باتیں ہوئیں۔ انکسار کے ساتھ داد چاہی ۔ فراخ دلی سے حوصلہ افزائی کی گئی۔ ناچ کے بعد بھاؤ بتانے کا وقت آیا۔ گانے کی چیز کوئی ہو فن کار نہ معلوم کتنی خوب صورتیاں نکال لیتا ہے۔ کتنی جدتیں پیدا کر لیتا ہے۔ سویفٹ کے لیے کسی نے کہا کہ اگر وہ جھاڑو کی سوانح عمری لکھنے بیٹھتے تو وہ بھی دل آویز ہوتی۔ یہی حال بھاؤ بتانے والے کا ہے کہ اگر لطافت رکھتا ہو تو کیسی ہی بھدی چیز ہو۔ خوب صورت سے خوب صورت تصویریں دکھاتا چلا جائے گا، چیز جو اس نے شروع کی آپ کے شعر سے ملتی جلتی تھی "وہی جاؤ جہاں رہے رتیاں۔" کئی طرح ابھیسار دکھایا۔ مان دکھایا۔ برہا کا خاکہ اتارا اور نہ معلوم کتنے پہلو، گوشے پیش نظر کر دیے آخر میں ایک پاؤں ڈگ گیا۔ کی کرائی محنت پر پانی پھر گیا۔ موقع
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
اسکین صفحہ نمبر 45

یہ تھا اب مکرو نہیں۔ تمہارے کپڑوں کی خوش بو سے یہ ثابت ہے کہ تم سوت کے یہاں تھے۔ دیکھو تمہارے لباس میں کون عطر ہے اور تمہاری بغل سے کس زنانے عطر کی لپیٹیں آ رہی ہیں۔ معشوق کو بغل سے جو نسبت ہے وہ ظاہر ہے مگر بغل سے مطلب پہلو ہے اور کتھک نے غضب کیا کہ واقعی بغل کی طرف اشارہ کیا بس غضب ہوگیا۔ حضور کی لطافت طبع نزاکت مزاج کو ایسی ٹھیس لگی کہ منھ پھیر لیا۔ ہے ہے بد مذاقی کی انتہا کر دی۔ یہی بات دکھانی تھی تو پہلے آستینیں سونگھتا پھر دامن سونگھتا دونوں میں مختلف خوش بوئیں کہاں سے آئیں "وہیں جاؤ جہاں رہے رتیاں" مطلب حاصل تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نیک کام کا بقیہ:۔
کر دیا اور میرا ہاتھ بڑھا کر اس کی ٹھڈی میں لگا دیا۔ اس کے چہرے کو پیار سے دیکھنے کے لیے میری گردن کو ایک طرف جھکا دیا۔ مجھ کو نہیں معلوم جو الفاظ میری زبان سے نکلے وہ کس نے کہلائے لیکن میرے کانوں نے سنا کہ میں کہہ رہا ہوں دو سو روپے! دو سو روپے تو بہت کم ہیں۔ ہم سے کوئی تین سو روپے ابھی لے لے!!!
لیونارڈو۔ ڈا۔ونچی کی روح میری مدد کر۔
چھوٹی سے مالن کے چہرے پر نئی بات سن کر پہلے تو تعجب ظاہر ہوا اس کے بعد شکر گزاری کی جھلک دکھائی دی۔ پھر خوب صورتی کا احساس۔ دل آویزی کی ادعا۔ ناز و شوخی کی جھلک پیدا ہوئی پھر بن بیدھے موتی کی آب اور عورت کی خودی نے چہر کو بو قلموں بنا دیا۔ اے ہے پھر بھی تصویر ناقص رہ گئی۔ ان سب بااتوں کے ساتھ بچپن کی خوشی بھی چہرے پر کھیلنے لگی۔ ہماری مالن اپنی کوٹھری کی طرف مسکراتی چلی جاتی تھی اور مجھ کو پھر پھر کر دیکھتی جاتی تھی اور میرا دل چاہتا تھا کہ اس بچی کے قدموں کے نیچے آنکھیں بچھاتا جاؤں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
اسکین صفحہ نمبر 46

مرزا منش

یاد احباب کے سلسلے میں رطب و یابس سب ہی آ جاتا ہے۔ قصہ بھی میرے بچپن کا ہے بہت سی باتیں خیال سے اتر گئی ہوں گی۔ ہماری یاد کے ہیرو دو بھائی تھے بڑے کا نام مرزا عابد اور چھوٹے کا نام مرزا سجاد تھا۔ ان لوگوں نے بہتر دن دیکھے تھے اور ان کے خاندان والوں کا بڑا زمانہ تھا۔ عالی ہستی اور دولت مندی کی نشانیاں آج بھی کھنڈر کی صورت میں باقی ہیں۔ ان کے مورث کئی پشتوں سے ردولی میں آ کر بسے تھے۔ سب صاحبِ جائداد۔ مرزا سجاد کے نانا چکلے دار تھے جن کا امام باڑہ پائیں باغ۔ ٹوٹے دریا وقعت گواہ ہیں۔ مرزا صاحب کے والد کی شادی لکھنو میں ہوئی تھی۔ اس سلسلے میں ان دونوں بھائیوں نے تربیت یا بے تربیتی لکھنو میں حاصل کی تھی۔ یہ تو پرانی باتیں ہوئیں اس وقت خاندانی اور اکتسابی صفات غریبی کی وجہ سے حسب ذیل پائے جاتے تھے۔
بہادری، سیر چشمی، قد کی لمبائی مع اپنے دوسرے لوازم کے، فضول خرچی، دوستی کا نباہ، ڈنڈے بازی اور ضرورت پڑے تو چکو بازی بھی ۔
چھوٹے چھوٹے مشاغل مثل مرغ بازی، بٹیر بازی کے شریفانہ زندگی کی حماقتیں تھیں۔ بڑے بھائی کو ان چیزوں کا شوق خاندانی روایات کی وجہ سے رہا ہوگا مگر ہم نے جب دیکھا تب صرف چھوٹے بھائی انہماک رکھتے تھے۔ مرزا عابد اپنے چھوٹے بھائی کو اولاد کی طرح چاہتےتھے اسی وجہ سے ہر شوق میں چھوٹے بھائی کی پشت پناہی کیا کرتے تھے۔ گذر اوقات کے لیے لکھنو میں ایک سدا برت تھا جو پجاس ساٹھ برس ادھر خوب بٹا کیا اور اب بھی کبھی کبھی دیکھنے میں آ جاتا تھا۔ سدا برت ان پرانی چیزوں کا ہوتا ہے جو بگڑے رؤسا کاروباری زندگی سے ناواقف ہونے کی وجہ سے احباب یا دوسرے آدمیوں کے ذریعے سے بیچا کرتے ہیں۔ اس میں ہزاروں چیزیں ہوتی تھیں۔ سونا، چاندی، جواہرات، شال کے ریزے، پرانی چینی، تصویریں، قلمی نسخے، اس کو سدابرت اس لیے کہا گیا ہے کہ بگڑی سرکاروں سے یہ چیزیں برآمد ہوتی تھیں اور سو ان سرکاروں کے سب کو مالا مال کر دیتی۔ مرزا صاحب بھی یہی کرتے تھے ۔ اس کے علاوہ کچھ عطر، کچھ قوام کا تمباکو وغیرہ بھی رکھتے تھے۔ اسی طرح دوڑ دھوپ کر چھوٹے بھائی کے شوق اور گھر کی روٹیاں پوری کیا کرتے تھے ان کی طبیعت میں نرمی بردباری تھی مگر خاندانی خصوصیات ضرورت کے وقت ان میں بھی موجود تھے۔ قصہ مختصر بس یہ سمجھ لیجئے کہ مرزا عابد، شری رام چندر جی کی طرح نرمی ہی برت سکتے تھے مگر
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
47

مرزا سجاد لچھمن جی کی طرح سپپر کلھا کی ناک کاٹنے پر تلے ہی رہتے تھے۔ اسی وجہ سے اکثر محلے والے ان حرکات سے پریشان ہو کر یہ شعر کہنے پر اتر آتے تھے۔
کریما بہ بخشائے برحال ما
ردولی سے آئے ہیں دو ظالماں
ہمارے دونوں مرزا منش مرغ اور بٹیر کی پالیوں میں بازیاں اسی انداز سے بدتے تھے جیسے آغا خان یا مہا راجہ بڑودہ گھوڑ دوڑ کھیلتے ہیں کہ جیت میں جتنا ہاتھ آیا اس سے پچاس گنا زیادہ خرچ ہوگیا مثلا فتح مند بٹیر یا مرغ کی سواری دولھا کی طرح حضرت عباس کی درگاہ جاتی تھی۔ چڑھاوے چڑھتے، نذریں دی جاتی تھیں۔ جب جائدادیں مہاجنوں کی بھینٹ چڑھ گئیں تو بازی لگاتے وقت نقصان کا بھی خیال ہونے لگا۔ ضرورت نے دوسروں کے مال پر اوپر کی بازیاں لگانے پر مجبور کیا۔ آج جتنا پیسہ فلش، سولو میں گھڑی بھر میں نکل جاتا ہے۔ اتنا دون تگون چوگون میں دن بھر میں نہیں نکلتا تھا مگر اس زمانے میں روپیہ اس قدر تھا کہاں۔ تب بھی تباہی پھیلانے کو جتنا تھا وہی کافی تھا۔ رہا لطف! حضرات اس کی نہ پوچھیے۔ انگریزی کھیل گالف دیکھنے میں بڑا نرم کھیل معلوم ہوتا ہے نہ کوئی جوش نہ خروش، گہما گہمی نہ طنطنا۔ کاندھے پر لکڑی رکھے کف دست میدان ملے کرتے۔ پوقدے چلے جاتے ہیں۔ کیڈی یعنی لکڑیاں لادنے والالونڈا دم میں لگا ہے۔ دیکھنے والے کی سمجھ ہی میں نہیں آتا کہ یوں ہی گھٹ مکر سے کی ٹھہری ہے یا کوئی نتیجہ بھی نکلے گا۔ مگر جو لوگ جانتے ہیں وہ جانتے ہیں جو نہ جانتے ہوں جان لیں کہ ہاتھ خالی جانے پر جز بز ہونا، پاؤں پٹخنا، دانت پیسنا، ڈیم کی جھڑ باندھ دینا، کھیل کے چٹخارے کو کافی چوکھا کر دیتا ہے۔
اسی طرح بٹیر بھی دیکھنے میں تو مٹھی بھر ہے مگر جب لڑتا ہے تو دونوں پالنے والے اس سے کڑے لڑتے ہیں۔ حریف کا بٹیر جو لات مارتا ہے وہ پالنے والے کے سینے پر موگری ہو کر پڑتا ہے جو منھ مارتا ہے وہ بٹیر باز کے کلیجے میں برچھی کی انی ہو کر چبھتاہے۔ پھر اس کے بعد حریف کے زبان کی چوٹیں تیر تلوار کا کام کرتی ہیں۔ تلوار کا زخم اچھا ہو جاتا ہے زبان کا زخم تب ہی بھرتا ہے جب دوسرا تیر ہمارا بھی ترازو ہو جائے اور ہم بھی چوکھے جملے تیز فقروں سے کسر نکال لیں
مرزا صاحب کا ایک بٹیر صوف کرتا تھا اور حریف کا گلا پکڑ کر جھنجھوڑیاں بتاتا اور سینہ تان کر پر پھلا کر مقابل کو ڈھکیل ڈھکیل کر پالی باہر کر دیتا تھااور چھوڑنے کے پہلے پوٹے میں پنجے گڑو کر ایسی لات بتاتا تھا کہ بٹیر باؤلا ہو جاتا تھا۔ اس صوفی کی دھاک بیٹھی ہوئی تھی۔ جس دن نواب الن صاحب کے کٹہروے کو اس نے بھگایا ہے بڑی شدت ہوئی۔ نواب کے بتیر نے بڑی راڑ ڈالی مگر صوفی وہ صوف کیا کہ حریف نوک دم نکل گیا۔ مرزا صاحب کی لمبائی کی رعایت سے نواب صاحب کے صاحبین کی طرف سے شور تھا مار ؟؟؟ ڈھیسک کو مرزا صاحب کی داڑھی کی رعایت سے پکار رہے تھے ہاں ؟؟؟گل بچھوؤں کی ٹھیک آج ہی نکل جائے۔ مرزا کا بٹیر بڑھ گیا ۔ پھر کیا
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
48

تھا مرزا صاحب کے طرف داروں کی چڑھ سجی تھی۔ قریب تھا کہ بٹیر کی جگہ آدمی لڑنے لگیں۔ مگر نواب صاحب خاندانی شائستہ، ان لوگوں کے منھ کیا لگتے۔ مصاحبین بھی کپڑوں میں بے موقع شکن پڑ جانے کے خیال سے طرح دے گئے۔
خیر یہ تو لکھنو کے لوگ تھے اگلا جمعہ ایسا پڑا جس میں باہر والوں سے شد تھی۔ پٹھان لوگ یوں ہی لڑنے کو تیار رہتے ہیں نہ کہ جب پالی پڑ جائے۔ دو چار موقعے ایسے ہو چکے تھے جس میں بٹیر کسی کا بڑھے مگر آدمی باہر ہی والوں کے زور دار رہتے تھے۔ دیہاتی کانوں کی لو تک لاٹھیاں باندھے فوج داری کے نہ معلوم کتنے میدان سر کیے۔ لکھنو والوں پر ایسی دھونس ڈالتے تھے کہ ان غریبوں کی زبان بند ہو جاتی تھی، منھ پر ہوائیاں اڑنے لگتی تھیں۔ مرزا سجاد کہنے لگے یار ان لوگوں نے تو کچا کر لیا ہے۔ جب دیکھو دبا لیتے ہیں۔ کیا لکھنو والے ایسے بیٹھے ہوگئے کہ جس کا جو جی چاہے کہہ جائے اور ہم لحا بدیں۔ دو چار منچلے نوجوان تیار ہوگئے۔ جمعہ آیا، گونگے نواب کی بارہ دری میں پالی تھی۔ دو چار شرفا جن کو اس تیاری کی سن گن مل چکی تھی گھر ہی سے نہ نکلے۔ باقی لوگ مرزا سجاد کی سرکردگی میں پہنچ گئے۔ دیہات والوں کا غول بھی پہنچ گیا کہ کریز تو بیٹھ چکے تھے دو ایک نو کارا بھی مد پر تھے۔ ان کی بھی لڑائی ختم ہوئی۔ لکھنو والوں کا پالا بہت گرم رہا ایک بٹیر بھی ان کا نہیں بھاگا نہ برابر پر چھوٹا۔ اب نئیوں کی باری آئی۔ مرزا صاحب نے ایک نئے پر بڑا ریاض کیا تھا۔جس بٹیر سے اس کی شد ہوئی وہ دو بٹیر بھگا چکا تھا۔ اس لیے اب کی مرزا صاحب کا بٹیر اس کے مقابلے پر آیا تھا۔ مرزا کے بٹیر نے کابک سے نکلتے ہی ٹھاٹھ کیا۔ مرزا صاحب کی چھاتی پہاڑ ہوگئی مگر اتنا بڑا کھلاڑی ایک بات میں چوک گیا۔ وجہ یہ ہوئی کہ آج جیت کی خوشی میں احتیاط ہاتھ سے جاتی رہی تھی۔ حریف کا بٹیر ان کا پہنچانا ہوا ضرور تھا مگر چوک یہ ہوئی کہ اس کو آج پھر اچھی طرح دیکھا نہیں۔ لیجیے صاحب لڑائی شروع ہوئی۔ ارے یہ کیا غضب ہوا۔ ہر منھ پر مرزا صاحب کا بٹیر سوکھتا چلا جاتا ہے۔ دوسری مصیبت یہ ہوئی کہ ان کے بٹیر کے منھ میں پر آگیا، اب جو غور سے دیکھتے ہیں تو حریف کے بٹیر کے نوک پنجے بنے ہوئے ہیں۔ یہ کیا ہوا اتنے اتنے بڑے مبصروں کا مجمع اور جیت کی خوشی میں آنکھوں پر ایسے پردے پڑ گئے کہ اس چین پر کسی نے نظر ہی نہ کی۔ ایں یہ کیا ہے! مرزا صاحب یہ کہہ ہی رہے تھے کہ بٹیر نکل گیا۔ وہ مارا کا شور ہوا۔ ایک طرف سے آواز آئی کل مغل پون۔ مرزا صاحب کے مورث بکسر میں کھت رہے تھے۔ شجاع الدولہ کی شکست کی یہ تاریخ ہوئی تھی۔ مرزا اپنے حواس سے چوک گئے۔ آنکھوں پر پردے پڑ گئے۔ حریف کا بٹیر دانے پر لگا تھا مرزا صاحب نے اٹھا کر پٹخ دیا۔ خان صاحب مرزا سے لپٹ گئے۔ لوگوں نے بیچ بچاؤ کرنے کے بجائےاپنی اپنی پالی الگ قائم کر دی۔لات، گھونسا، تماچہ، کشتم کشتا، گدم پٹخنی کا بازار گرم ہوگیا۔ کابکیں ٹوٹی پڑی ہیں۔ انگر کھے عشاق کا گریبان ہوگئے۔ مرزا صاحب کے بڑے بھائی جو الگ بیٹھے تھے وہ بھی اکھاڑے میں اتر آئے۔ اتنے میں پٹھانوں نے لاٹھیاں سنبھالیں۔ گونگے
 
Top