اسکین دستیاب انتخاب محمد علی ردولوی

جاسمن

لائبریرین
435
تو پی چکے تھے اس کی خاطر سے ذری سی چکھ لی مگر وہ ادھے کا ادھا چڑھا گئی۔ اختلاط کی بے تکلفی میں ہماری واسکٹ میں دو ایک روپے اور ریزگاریاں تھیں پان مٹھائی کے نام سے پہلے اس نے وہ ایٹنھے نوٹ وغیرہ نیفے میں تھے اس پر ہاتھ نہیں ڈالا اس کے بعد نشانی کے نام سے انگوٹھیاں لے لیں۔ہم کو اس طرح کا اتفاق کاہے کو ہوا تھا مگر اس وقت حالت بھی کچھ ایسی ہی باتوں کی تھی بندھا خوب مار کھاتا ہے ہمار آنکھ قریب تین بجے کے کھلی۔گھوڑ دوڑ سے لے کر اس وقت تک کے تمام واقعات نگاہ کے سامنے آگئے اپنے اوپر غصہ، ان داڑھیوں کے اوپر غصہ کچھ اپنی حرکتوں کا انفعال لاحول ولا قوۃ مگر قسم قرآن کی سب سے زیادہ غصہ اس رنڈی پر تھا۔بھلا دیکھیے تو طئے کیا ہوا تھا اور لے کیا کچھ گئی۔انگلیاں خالی کر دیں چڑیل نے۔اور وہ فیروزہ بھی تو نہیں ہے،اماں کی نشانی تھی اور دہان فرنگ والی انگوٹھی بھی اینٹھ لی۔پھوپھی اماں مرحومہ کے پیٹ میں جب درد ہوتا تھا تو دھو دھو کر پلائی جاتی تھی۔حرام زادی قحبہ قطامہ شفتل غیبانی اور دیکھو تو کیسی میٹھی نیند سو رہی ہے۔رہ جاؤ ہم باقر کاہے کو جو اس کی کسر نہ نکالی ہو۔ بھیا میں اٹھا اور اس کا لوٹا پاندان گلاس پان کی ڈبیا سب میں نے سنبھالی۔ دل نے کہا باقر شراب تو پیتے ہی تھے رنڈی بازی بھی کر گذرے اب سب پر طرہ یہ کہ اچکا پن بھی کرو گے۔ اس خیال کے آتے ہی مجھ کو ہنسی کی گدگدی اٹھی۔ یہ گدگدی پیدا ہوتے ہی تمام رکاوٹیں کافور ہو گئیں۔بڑے آہستہ اہستہ میں زینے سے اترنے لگا۔ اب جو اندھیرے میں کنڈی چھوتا ہوں تو قفل دبا ہوا ہے۔ اس کے لوگوں کو چور اچکوں سے روز ہی سابقہ رہتا ہے۔ پاؤں سے سر تک ایک سناکا ہوا۔پنڈلیاں کانپنے لگیں۔پسینہ اگیا۔ سب چیزیں جہاں جہاں سے اٹھائی تھیں وہیں پر جما دیں اور مجبوراَََ اس کو جگاما چاہا کہ کنجی دو وہ اس وقت تک نشے میں انٹا غفیل تھی۔ اوں اوں کر کے کہنے لگی تکیے کے نیچے ہے اور پھر کروٹ لے کر خراٹوں کی سادھی۔ہم نے کہا اس میں کیا گیا۔ محمد علی قسم رسول ص مقبول کی میں نے پھر سب چیزیں اٹھائیں بغل میں پاندان ایک ہاتھ میں لوٹا گلاس دوسرے ہاتھ میں ڈبیا اور کنجی۔ قفل تو کسی نہ کسی طرح میں نے کھول لیا۔ اب جو کنڈی کھولتا ہوں تو بغل ڈھیلی پڑ گئی کھڑبڑکھڑبڑ کر کے زینے پر پاندان گرا۔ اسی گڑبڑ میں لوتا گلاس وغیرہ بھی میں نے پھینک دیا۔ اور سر پر پاؤں رکھ کر بھاگا۔ قسم قرآن کی اس وقت سمجھ میں آیا کہ چوری آسان کام نہیں۔ گلی میں سناٹا تھا۔ میرے پر لگ گئے تھے مگر قسم امام حسین کی معلوم ہوتا تھا کہ فوج پیچھے دھاوا کرتی چلی اتی ہے۔ایک دو ہی موڑیں میں نے پار کی ہوں گی اب چال بھی آہستہ کر دی تھی کہ ایک طرف سے آواز آئی"چائے گرما گرم" دل پر جیسے موگری سی پڑی آواز تو تھی چائے والے کی مگر قسم خدا کی مجھ کو معلوم ہوتا تھا جیسے کوئی کہتا ہے وہ چوما جاتا ہے پکڑنا جانے نہ پاوے۔ اگر راستے میں کتا بھی ملتا تھا تو معلوم ہوتا تھا پولیس کے انسپکٹر جنرل ہی ا گئے۔خیر بھئی کسی نہ کسی طرح امین آباد پہنچے۔ قسم کلام پاک کی حواس اس وقت درست ہوئے۔ باقر چچا نے ٹھیک اندازہ کیا تھا۔یہ بات میں بھی ہضم نہ کر سکا اور یہ قصہ اچھا خاصا عام ہو گیا۔
 

جاسمن

لائبریرین
436
مگر باوجود اس کے لوگوں نے باقر صاحب کے بارے میں رائے وہی رکھی جو ہمیشہ سے تھی۔ اسی امید پر یہ قصہ میں بھی لکھ گیا ہوں کہ پڑھنے والے بھی صرف مذاق پر نظر کریں گے اور مرحوم کو واقعی چور اچکا نہ سمجھیں گے۔
میرے پڑھنے والے!آدمی اپنے دوستوں سے پہچانا جاتا ہے آپ کو پورا اختیار ہے کہ میرے اور میرے دوست سید محمد باقر مرحوم کے لئے وہی رائے قائم کیجیے جس کے ہم دونوں آدمی سزاوار ہیں۔ مگر پھر بھی میں یہی کہے جاؤں گا کہ میاں باقر چوری کے کبھی قریب نہیں گئے تھے۔ میرا دل گواہی دیتا ہےکہ اگرآپ باقر مرحوم کو ایسا جانے ہوتے جیسا میں نے جانا یا میرے قلم میں وہ طاقت ہوتی کہ ان کی سچی تصویر آپ کے سامنے آجاتی تو آپ بھی میرے ہم خیال ہو جاتے۔مذاق کی تعریف کی گئی ہے۔"دو غیر چیزوں کو ایک خاص انداز سے ملا دینا"۔باقر مرحوم میں یہ مادہ اس درجہ تھا کہ کہاں اس کا موقع آجاتا تھا وہاں وہ بے بس ہوجاتے تھے۔گذشتہ واقعے میں غور کیجیے تو باوجود میری کج مج بیانی کے شاید اس بات کا پتہ چل جائے۔میاں باقر جن کو رنڈی سے کبھی کا لگاؤ نہیں رہا۔چوری سے کہیں دور کا بھی واسطہ نہیں باوجود اپنی حرکتوں کے اپنے زعمِ ناقص میں شریف تھے۔ مذاق کی سورت بندھ جائے تو بے اختیار ہو جاتے تھے ان سب چیزوں کو یکجا کیجیے تو شاید آپ بھی مرحوم اور راقم الحروف کو معاف کر دیں اور ان کے سچے محسن اور دلی ہمدردوں کوان کی اکثر یہ شکایت پیدا ہو جاتی تھی کہ یہ ایک طرف کی بات دوسری طرف لگا دیتے تھے جس کے زیر بار احسان تھے اس کی بھی ہنسی اڑا جاتے تھے اس طرح کے اور بھی الزامات ان پر لگائے جاتے تھے۔ لیکن ان کے جاننے والے اکثر اس کا تجزیہ کرنے بیٹھے ہیں اور یہ بات ہمیشہ ثابت ہو گئی ہے کہ اگر کوئی مذاق کا پہلو نکل آیا تو چاہے تیسری جنگ عظیم ہی کیوں نہ چھڑ جائے میاں باقر راز فاش کئے بنا نہیں رہ سکتے۔ اس مذاق کے چسکے کے پیچھے جو شخص خود اپنا مضحکہ کروادے اس سے دوسروں کو کیا شکایت ہوسکتی ہے۔
ایک زمانے میں باقر صاحب بہت پریشان ہوگئے تھے ناچار ایک بڑی ریاست میں درخواست دی تھی اِن کے بچپن کے ہم مکتب کے دوست ایک قاضی صاحب وہاں پہلے سے ملازم تھے۔یہ قاضی صاحب نہایت بے وقوف مذاق سے ہزاروں کوس دور۔ بانگڑو نیک نیت باوی قسم کے آدمی تھے۔کنگڑ بھی تھے۔جب میاں باقر ان کو بناتے تھے تو یہ ان کو ہاتھ پاؤں سے جواب دیتے تھے۔اس لئے میاں باقر ان کو صرف ایسے وقت میں چھیڑتے تھے جب جان لیتے تھے کہ قاضی صاحب کا دسترس ان تک ممکن نہیں ہے۔قاضی صاحب رخصت پر آئے میاں باقر نے اپنی درخواست کا حال سنایا۔ قاضی صاحب نے نہایت ہمدردی کا اظہار کیا اس کے ساتھ یہ بھی کہا کہ میں دفتر میں ایک معمولی جگہ پر ہوں میں تمہاری کیا امداد کر سکتا ہوں لیکن اگر مینیجر صاحب کے نام تم ایک درخواست یاددہانی کی مجھ کو لکھ کر دے دو تو میں وہاں دفتر میں یہ کوشش کر سکتا ہوں کہ
 

جاسمن

لائبریرین
437
وہ درخواست آخری حکم کے لئے پیش کر دی جائے۔منظوری نہ منظوری تمہاری قسمت کے ہاتھ ہے۔
میر باقر۔ہم کو قاضی ساحب آپ سے یہی امید ہے۔ تو بھائی صاحب جب واپس جانے لگیں تو میرا خط لیتے جائیے گا۔ بھولیے گا نہیں،عنایت ہو گی۔
قاجی ساحب۔ نہیں، بولوں گا کیسے اور کسی قابل خدا نے نہیں کیا تو کیا اتنی خدمت بھی دوست کی نہ کریں گے۔ہم کوئی ہفتے عشرے میں جائیں گے۔ اس وقت خط لے لیں گے۔اس گفتگو کے آٹھ دس دن بعد ایک روز میاں باقر ہمارے یہاں آئے۔ کہنے لگے افوہ بہت مارا سالے نے قاضی کاہے کو قسائی ہے قسم کلام مجید کی ہڈیا ہڈیاں توڑ دیں۔
میں۔کہو کیا ہوا۔
میر باقر۔ارے میاں وہی درخواست نوکری کی جو ہم نے دی تھی نا۔تمہارے سامنے تو باتیں ہوئیں تھیں۔
میں۔ہاں ہاں تھوڑی دیر ہوئے وہ تو تم کو ڈھونڈنے یہاں بھی آئے تھے۔
میر باقر۔ ہاں ہاں، آیا ہو گا۔سب کہیں تلاش کرتے کرتے شاہ صاحب کے یہاں پہنچا۔ہم لوگ کوٹھے پر خوش گپیاں کر رہے تھے۔نیچے سے میاں باقر میاں باقر کی ہانکیں لگانا شروع کیں۔ممیں نے کہا کیا ہے۔ قاضی صاحب کہنے لگے بھئی میں آج دوپہر کی گاڑی سے جاؤں گا۔ ردولی بھر کے صدقے ہو آیا تب تم یہاں ملے ہو۔وہ خط دے دو تو جو کچھ میرے بس میں ہو گا دفتر میں کوشش کروں گا۔ میں نے بہت بہت شکریہ ادا کیا اور خط لکھنے بیٹھ گیا مگر قاضی مردود کا سبز کشمیرے کا دگلہ اور اس کا سڑک پر سے گردن ٹیڑھی کر کے باتیں کرنا کچھ ایسا تھا کہ میں نے درخواست کی یاددہانی یوں کی۔
جناب مینیجر صاحب! تسلیم۔یہ افریقہ کا بوٹ(بروزن نوٹ)حاضرِ خدمت ہوتا ہے اس وقت میں ایک ضروری کام میں مصروف ہوں لہٰذا تکلیف کر کے آپ اس کو پانچ جوتے پٹوا دیجیے۔مشکور ہوں گا۔
لفافہ بند کر کے میں نے اسے دے دیا اور شکریہ ادا کیا اس نے کہا میاں باقر کیا شرمندہ کرتے ہو اور کسی قابل نہیں تو میں دوست کی اتنی سی خدمت سے بھی گیا وہ تو چل کھڑا ہوا تھا مگر یاروں نے اس سے کہہ دیا کہ قاضی صاحب میاں باقر کاخط ہے کسی اور کا نہیں ذرا پڑھ لیجیے گا تو پیش کیجیے گا۔ اس نے جو پرھا تو میاں کوٹھے پر چڑھ آیا کسی اور طرف راستہ نہیں بس اس نے پکڑ لیا۔ بہت مارا۔خیر ہم بھی کسی دن کسر نکال لیں گے جاتے کہاں ہو بچہ۔
سید باقر صاحب کے گھن اور ہتھوڑے والے مذاق کا ذکر آپ نے سنا بکنے اور ہنسنے کا جس کو عارضہ ہو وہ نظیر اکبر ابادی ہو جائے مگر میر تقی میر کی نزاکتین ہر جگہ نہیں پیدا کر سکتا۔مگر
 
آخری تدوین:

ناعمہ عزیز

لائبریرین
صفحہ نمبر ۴۴۲
میں نوکروں کو انعام بٹ گیااور احباب کی دعوتیں ہو گئیں کہ منجھلے نے کلکتہ یونیورسٹی سے انٹر پاس کیا ہے۔ اسی زمانے میں ایک گونگا لڑکا نہ معلوم کہاں سے آگیا۔ راحت حسین بھائی کی والدہ نے اس کی پرورش اپنے ذمے لے لی۔ قسمت کا لکھا اس کو دق ہو گئی۔ بڑی بیگم صاحبہ نے اس کی تیمارداری خود کی۔ لوگوں نے سمجھایا کہ اس مرض میں بڑی احتیاط چاہیے مگر انہوں نے کہا کہ جیسے میرے تین بیٹے ویسے ہی چوتھا۔ قصہ مختصر اس کا جنازہ اسی گھر سے نکلا۔ اس زمانے میں دیہات میں اصول حفظان صحت اور چھوت نامعلوم چیزیں تھیں جن کا ذکر خواب میں بھی کسی نے نہ سنا تھا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ دق ایسی گھر میں گھس کر بیٹھی جیسے ہندوستان میں اغیار۔ نواب صاحب اور نواب صاحب کے بچے ، ان کی بہنیں اورا ن کے بچے خدا جھوٹ نہ بلوائے اسی گھر سے تو پندرہ بیس جنازے میری آنکھوں کے سامنے نکل چکے ہیں۔ نوابی کا یہ اثر بھی تھا کہ ان بیماریوں میں آخری وقت تک یہی اثر ہوتا رہتا تھا کہ پرسوں تک مرض کی تشخیص ہی غلط ہوئی تھی ۔کل سے مرض کا پتہ چل گیا ہے اب آج مریض بالکل اچھا ہے۔ لوگ نہ معلوم کیا شکوک دل میں لاتے تھے،نہ معلوم کون کون بدفال زبان سے نکالتے تھے۔ اور تھا صرف نزلہ۔ ایک ہی خوراک میں صحت ہو گئی ۔ اب ماشااللہ جیسے بیما ر ہی نہ تھے۔ آج صبح کو یہ کہااور کل ہی جنازہ نکلا ۔ صبر و استقلال اس درجے کا تھا کہ جوان بیٹے ، بیٹیاں ، بھانجے ، بھانجیاں ، بہنوں کو اپنے ہاتھوں سپرد خاک کر آئے مگر اظہار غم نہ کیا۔ دل پر جو گذرتی رہی ہو، اس کو وہ جانتے تھے اور ان کا بنانے والا۔
ہمارے بھائی راحت حسین بذلہ سنج اور شیریں گفتار تو تھے ہی نثار بھی اچھے تھے۔جوانی میں اخبار میں مضامین وغیرہ لکھتے تھے۔ آخر میں ایک سوانخ عمری لکھ رہے تھے۔ کسس کی سوانخ عمری۔ جی اس حقیر کی ۔ انداز سے مجھ کو معلوم ہو گیا تھا کہ میری بابت کچھ لکھا جا رہا ہے مگر مجھ کو دیکھنے کا موقع نہ ملا تھا۔ ایک دن تنہائی میں ملاقات ہو گئی۔ چند اوراق میں نے دیکھے ۔ میرے حواس باحتہ ہو گئے۔ حضرت یوسف کی خوبصورتی ، اکبر اعظم کا حوصلہ ، نعمت علی خان کی بذلہ سنجی ، حاتم کی سخاوت، رستم کی طاقت سب ہی کچھ تو مجھ میں تھی۔ میں گھبرا گیا ۔ ہاتھ جوڑ کر کھڑا ہو گیا۔ نہ معلوم کتنی منت سماجت کتنی لجاجت کی ۔ قسمیں دلائیں ، تب وہ مانے ۔ نہیں تو میری رسوائی کا سامان مکمل ہو گیا تھا۔ اسی کتاب کا جملہ سن لیجیے اور اس کے بعد بھول جانے کی کوشش کیجیے، ریل پر کوئی بھائی صاحب راحت حسین کو ملے ۔ عند الذکر انھوں نے پوچھا کہ ردولی میں قابل زیارت کوئی چیز ہے۔ بھائی صاحب مرحوم فرمانے لگے دو چیزیں ہی ۔ ایک حضرت مخدوم احمد عبد الحق قد سرہ کا مزار اور دوسرے چودھری محمد علی۔ ایک مرتبہ بھائی صاحب مرحوم نے نوکری بھی کی تھی۔ قصہ ذرا طولانی ہے ۔ نہ معلوم کس کے کہنے سے ڈپٹی کمشنر سے ملنے چلے گئے۔​
(بقیہ صفحہ نمبر ۴۵۱ پر)
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
صفحہ نمبر ۴۴۳​
راجہ پرتھی پال سنگھ
پودوں میں ایک قسم ہوتی ہے جن کو انگریزی میں ’’ پیرا سائٹس‘‘ کہتے ہیں۔ اپنے ملک کی زبان میں ان کو بیل کہہ لیجیے۔ ان میں یہ بات ہو تی ہے کہ دوسری کے بل بوتے پر خوب اچھلتے ہیں ۔ اگر یوں زمین پر بود دیجیے تو تھوڑے سے بڑھ کر رہ جاتے ہیں اگر کوئی چیز ایسی پا گئے جس پر چڑھ سکیں تو جی بھر کر پھلتے پھو لتے ہیں ۔ ہمارے بچپن کے یار ساتھ کھیلے، ساتھ پڑھے راجہ پرتھی پال سنگھ تعلقہ دار سورج پور کی افتاد طبعیت ایسی ہی تھی۔ اگر اس بات کو یاد رکھیے گا تو ان کی زندگی کا ہر پہلو ان کے ہر قول و فعل ہر کام کی چھپی ہوئی تہہ آپ پر کھل جائے گی۔ میرا ان کا ساتھ کا لون تعلقہ دار کالج میں جواس زمانے میں سکول کہلاتا تھا ۱۸۹۲ سے ہوا۔ یہ کوئی گیارہ برس کے ہوں گے اور میں دس برس کا تھا۔ پرتھی پال سنگھ کی خصوصیات حسب ذیل تھے: صاف دلی ، ذہانت ، نیکی ، بعض باتوں میں بہت نڈر ، بعض باتوں میں بہت ڈرپوک ، مثلا اندھیرے میں سے ہو کر دو تو بے ہوش ہو کر گر پڑیں ، بجلی چمکے تو لحاف سے منھ بند کر کے لیٹ رہیں۔ اگر بات پر اڑ جائیں تو چاہے جان ہی جائے اس پر قائم رہیں۔دوست احباب کے کام آ نے کے موقعے ڈھونڈھا کریں۔ موٹے تھتھلے آدمی تھے۔ فٹ بال فیلڈ میں خود فٹ بال معلوم ہوتے تھے ۔ ٹینس غنیمت کھیلتے تھے۔ گھوڑے پر اچھا چڑھ لیتے تھے۔ ان کی عشق پیچاں والی افتاد طبیعت کا پہلا نمو نہ جو میں نے دیکھا وہ یہ تھا کہ ہمارے رائڈنگ اسکول کے دفعہ دار کے مرید ہو گئے ۔ دفعہ دار بے چارہ ان پڑھ سرکاری پنشن خوار، سپاہی بھرتی ہوئے اور دفعہ داری سے پنشن پائی تھی۔ پا ل سنگھ کے مشیر تھے۔ انگریزی کپڑے بنوائیں گے تو دفعہ دار مشورہ کر کے ٹینس کا بلا خریدیں گے تو دفعہ دار سے پوچھ کے، حتی کے کوئی کتاب بھی مول لیں گے تو دفعہ دار سے صلاح لینے کے بعد:​
چلتا ہوں تھوڑی دور ہر اک راہرو کے ساتھ
پہچانتا نہیں ہوں ابھی راہبر کو میں​
یہ سلسلہ پڑھے لکھے ، جاہل ، نیم تعلیم یافتہ لوگوں کے ساتھ عمر بھر جاری رہا۔ پڑھنے لکھنے میں بہت تیز تھے ۔ مذہبی تعصب کہیں چھو تک نہیں گیا تھا۔ چوکا برتن تو بڑے احتیاط سے ہوتاتھا مگر چھوت چھات سے پیدائشی نفرت تھی۔ اتنی جرات تو تھی نہیں کہ پندرہ سولہ برس کے سن میں کھلم کھلا ہم لوگوں کے ساتھ کھانا کھاتے مگر چوری چھپے کسی چیز سے پرہیز نہیں تھا۔ اس کے​
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
صفحہ نمبر ۴۴۴
بعد دو آدمیوں کا اثر ان کے اوپر بہت پڑا ایک کورٹ آف وارڈس کے ہیڈ کلارک تھے اور دوسرے میرے خیال میں ایک تھیا سو فسٹ وکیل تھے۔ کلرک نے تو شیمپین اور گزک کے آزاد خیالی اور آزادہ روی کی راہ لگائی۔ بڑی جھج داڑھی والے وکیل زیادہ اہم باتوں کی طرف لے گئے۔ پولٹیکل خیالات ، ہندو مسلم فرق ، ملک کی سیوا ، انگریزوں سے نفرت یہ باتیں پختہ ہونے لگیں۔ اس جگہ پرتھی پال سنگھ کی مضبوطی کا ایک واقعہ سن لیجیے۔ یقیناَََ ہم لوگ ۱۹ ،۲۰ برس کے رہے ہوں گے ہم لوگوں کے علاقے ابھی تک ابھی تک کورٹ کے انتظام میں تھے۔ فیص آباد میں ایک کمشنر تھا جو نہایت منصف مگر بہت بددماغ مشہور تھا۔علاوہ اور باتوں کے ایک سنک اس میں یہ بھی تھی کہ اگر لوگ اس سے ملتے نہیں تھے تو وہ برا مانتا تھاا۔بعض انگریز تھے جو ملاقاتیوں کا آنا پسند نہیں کرتے تھے۔ا س لیے ہم غریب نابالغوں کو بڑی دقت پڑتی تھی۔حکام میں کوئی غراتا تھا کوئی دم ہلاتا تھا اور ہم بد قسمتوں کو ملنے سے پہلے یہ پتہ نہیں چلتا تھا کہ یہ انگریز غرانے والا ہے یا دم ہلانے والا ۔ بعض تھے جو غراتے بھی تھے اور ساتھ ہی ساتھ دم بھی ہلاتے جاتے تھے۔ ان کا سمجھنا مشکل تھا کہ کس سرے کا اعتبار کیا جائے۔ چناچہ سب سے پہلے کمشنر نے اس بوڑھے ذی تعلقہ دار کو جھنجھوڑ کھایا۔ ان سے اس نے پوچھا آپ ہم سے کبھی اور ملے ہیں۔ انھوں نے کہ نہیں ۔ اس نے کہا تو آپ ہم سے نہیں ملنا چاہتا۔ یہ کہہ کر اٹھ گیا۔ بے چارے بہت شرمندہ ہوئے۔ ان کو عمر بھر ایسا اتفاق نہیں ہوا تھا۔ ان کی تکلیف کا اندازہ کرنا مشکل ہے۔ اس کے بعد یہ مصیبت مجھ پر پڑی۔ میں مبہوث رہ گیا اور اٹھ کر چلنے لگا۔ لیکن اس نے پھر بٹھا لیامگر مجھ سے کچھ کرتے دھرتے نہ بن پڑتا تھا۔ تیسرا واقعہ پرتھی پال سنگھ کا ہوا ۔ اس نے بھی یہی کہا۔ انھوں نے جواب دیا مجھ کو بڑا افسو س ہے کہ میں ایسے گستاخ آدمی سے ملنے آیا اور اٹھ کر چلے آئے۔اس کے بعد اور پہلے کا لحاظ کیے ہوئے ہمارے دوست کا ایک اور واقعہ سن لیجیے جو تصویر کا دوسرا رخ دکھاتا ہے۔اس وقت ہم لوگوں کا سن اور بھی کم تھا۔ مگر ٹھیک وقت یاد نہیں۔ بڑے دن کی چھٹی ہونے کو دو تین دن باقی ہیں۔ دل ک خوشیاں بڑھ رہی تھیں۔ رات کے تقریبا آٹھ بجے ہوں گے ۔ پرتھی پال سنگھ ہیڈ ماسٹر کے پاس پرائیویٹ ٹیوشن لے رہے تھے۔ پڑھنے کے بعد رخصت ہوتے ہیں۔ برآمدے میں اندھیرا ہےکونے میں کیا دیکھتے ہیں کہ ایک کالا بھجنگ آدمی دس فٹ کا مٹکے کا ایسا سرا لئے کھڑا ہے۔ یہ ایک چیخ مار کر بھی کمرے میں گھس گئے اور ہیڈ ماسٹر پر پھٹ پڑے۔ جھڑپ جو لگی تو لیمپ بھی گر کر بجھ گیا۔ اچانگ واقعہ ایسا ہوا کہ ہیڈ ماسٹر صاحب نے بھی پرتھی پال سنگھ کی چیخ میں چیخ ملائی ۔ نوکر جن تک آویں آویں کالا دیو رفو چکر ہو گیا تھا۔ لیمپ جلا تو لوگوں کے حواس بجا ہوئے ۔ ہیڈ ماسٹر صاحب جو رضائی اوڑھے بیٹھے تھےاس وقت کرسے کے گدے کا کام بھی دے رہی تھی صبح کو بیچ میں دھوئی نچوڑی ہیڈ ماسٹر صاحب کی دیوار پر پھیلی تھی​
 
Top