اسکین دستیاب انتخاب محمد علی ردولوی

ناعمہ عزیز

لائبریرین
صفحہ نمبر ۴۵۱
باتیں کیں۔ میں نے کہا راجہ صاحب خدا ٓپ کو اچھا کر دے مگر احتیاط سب کا فرض ہے ۔ اگر کچھ روپیہ وغیر ہ نج کی تحویل میں ہو تو ریاست کے خزانے میں داخل کروا دیجیے ۔ یہ بھی آپ کا وہ بھی آپ کا ۔راجہ صاحب نے کہا اچھا داخل کروا دیجیے۔ میں نے کہا جواہرات وغیرہ بھی ہوں تو وہ بھی داخل کروا دیجیے۔
راجہ صاحب۔ جواہرات وغیرہ تو کچھ رہے نہیں۔ پچپن ہزار کے زیورات تھے وہ میں نے اپنی بی بی کی لاش کو پہنا کر تربدا میں بہا دیا تھااب کچھ نہیں ہے۔ دوسرے دن پرتھی پال سنگھ ختم ہو گئے ان کی لاش بھی ان کی وصیت کے مطابق تربدا کو لے جائی گئی تھوڑے دنوں میں وہ متبنی لڑکا بھی ختم ہو گیا۔​
ہم سا کوئی گمنام زمانے میں نہ ہو گا
گم ہو وہ نگیں جس پر کھدے نام ہمارا​
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
غریبی میں امیری کا بقیہ
ڈپٹی کمشنر نے جائیداد ضائع ہونے کا حال سنا اور صرف افسوس ہی نہیں ہمدرد بھی ہو گئے۔ چناں چہ نوکری بسم اللہ اور تمت یوں ہوئی کہ تین مہینوں کے لئے کورٹ کی ضلع داری مل گئی ۔ چھوٹی نوکری ، قلیل تنخواہ ۔ محلے بھر کر لوگ خدمت گار، باورچی کے نام سے حاضر بدقسمتی سے سال تمام بھی انھیں کو بنایا تھا۔ تین سو روپے کی کمی تحویل میں پڑی ۔ کنجی خود اپنے پاس رکھتے تھے پھر روپیہ آخر گیا کہاں ۔ کوئی خرچ بھی یادد نہیں پڑتا تھا۔ راتوں کی نیندیں حرا م ہو گئیں مگر گمشدہ روپے کسی بھی طرح نا ملتی۔ رشوت تولیتے نا تھے۔ اب روپیہ کہاں سے آوے۔ نہ معلوم کہاں سے انتظام کر کے روپیہ داخل کیاگیا۔ کسی کو کانوں کان خبرنہ ہوئی۔ اللہ کا شکر بھیجا کہ مال گیا ۔ مگر آبرو بچی ۔ اتنے میں مستقل ضلع دار واپس آگئے ۔ مال تمام داخل کرنے لے گئے ۔ یہاں بڑی الجھنیں رہیں۔ آخر کا ر پتا چلا کہ مبلغ تین سو روپے ضلع دار کا ہے جو شاہی تحویل میں زیادہ داخل ہو گیا ہے۔​
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
صفحہ نمبر۴۵۲
چودھری محمد علی ردولوی​
یادِ احباب
دیوجانس یاابی قورس؟​
تقریباََ ۱۸۸۰ میں تعلقہ داران اودھ کا ایک البم نکلا تھا۔ اس میں آٹھ نو برس کے لڑکے ک بھی تصویر تھی۔ اس مجمع کا یہ آخری بڈھا تھا جس نے تقریبا آٹھ نو برس ہوئے انتقال کیا ۔اب وہ محفل پوری کفن پوش ہو چکی ۔ ان کا نام درگاہی خان تھا۔ اونچ گاؤں ان کے تعلقے کا نام تھااور مسلمان ٹھاکر تھے ۔ میں ان کا نام دیکھنے کے بہت پہلے سنتاتھا۔ مجھ سے عمر میں بہت بڑے تھے ۔ مگر ایک زمانہ ایسا تھا کہ ہمارے اور ان کے دونوں نے علاقے کورٹ آف واڈس میں تھے ۔ نہایت کم سنی میں میرے کورٹ کی شروع تھی اور ان کے نابالغی کے زمانے کا صرف دم چھلا باقی تھا اسی وجہ سے ان کا نام اکثرسنتا تھا۔ جب ہوش سنبھالا تو ان کے واقعات زیادہ دلچسبی سے سننے لگا۔ پھروہ وقت بھی آگیا کہ ملاقات ہوئی ۔ تھوڑے بہت مراسم بھی ہو گئے ۔ لیکن ہمارے ان کے گھروں کے درمیان جنگل ، دریا، پگڈنڈیاں ، نالے ، کہوئے ،اوسل ، بنجر،کھادڑخاک، دھول بلا اتنے حائل تھے کہ ملنے کا اتفاق کم ہوتا تھا۔ لیکن ان کی طبیعت اس طرح کی واقع ہوئی تھی کہ اگر کوئی ایک مرتبہ بھی دیکھ لیتا تو عمر بھر نہ بھولتا۔ پڑھے لکھے کم تھے ۔ وضع قطع بالکل ہندو کی۔ بڑی سی چوٹی بھی تھی جس کو کہتے تھے کہ کچھوچھے شریف کی منت ہے۔ سنا جاتا ہے کہ جس قدر علم تھا بھی اس کو نہایت احتیا ط سے چھپاتے تھے ۔ بچپن میں کچھ انگریزی بھی پڑھی تھی مگر کیا مجال جو کوئی اس کا پتہ پا جائے۔ بعضوں کا خیال تھا کہ جو کچھ بھی پڑھایا گیا تھا وہ بھول گئے تھے۔ اکثر وں کا خیال تھا کہ درگاہی خاں ان لوگوں میں نہ تھے جو کوئی چیز بھی بھول جائیں ۔ ان کی زبان بالکل جاہل دیہاتیوں کی تھی۔ ش۔ق ۔کی چھاؤں بھی نہ تھی مگر مطالب مارکس ، اریبلس ، سقراط، جرمی، نبہبتم، حافظ شیرازی ، برٹرنڈرسل کے ہوتے تھے۔ اندازِگفتگو میں ڈاکٹر جانسن کی جھلک پائی جاتی تھی۔ اور پھر دیکھئے تو خالص دیہاتی بانگڑو۔ کم سے کم الفاظ میں زیادہ سے زیادہ معنی پہنانے والا بہت دور کی کوڑی لانے والا۔ عقلِ سلیم کا لطف رکھنے والا۔ جنگلی ، ہوش، ان پڑھ، بڑاکو اور کندہ ۔ناتراش۔ غرض کہ ہمارے دوست تمام متضاد باتوں کا مجموعہ تھے ۔ حضرات ناظرین۔ بابو درگاہی خان کی فلمی تصویر نہ میں کھنیچ سکتا ہوں نہ آپ اس کو سمجھ سکتے ہیں۔ مگر مثالوں سے شاید کچھ اندازہ ہوجائے ۔ ایک دن کسی نے پوچھا بابو صاحب آپ کے کئے صاحبزادے ہیں۔ بولے چار ہیں۔​
 

جاسمن

لائبریرین
433
کے نہیں آیا تھا۔البتہ ہنسی ٹھٹھے میں شروع ہی سے یہ حال تھا کہ میر باقر جہاں جاتے تھےوہاں محلے بھر کو معلوم ہو جاتا تھا۔اجنبی جگہوں میں تو یہاں تک ہوا کہ لوگ صبح کو ان کے میزبان کے یہاں خیریت پوچھنے آئے۔
دوسرا باب اس دفتر کا اس وقت شروع ہوتا ہے جب کہ اس گھر کی لچھمی اٹھ گئی یعنی میاں باقر صاحب کی والدہ کا انتقال ہو گیا۔خرچ کی تنگی اب بھی نہیں تھی دوچار آدمی اب تک ان کے قرض دار تھے۔مگر وہ بات جاتی رہی تھی۔پھر ان کا گھر بیماریوں نے دیکھ لیا۔دولت،بودگی زیادہ تر دواعلاج میں اور کچھ رکھ رکھاؤ میں ختم ہو گئی۔بستی کی جائداد کا بھی وارا نیارا ہو چکا۔یہاں تک کہ تنگی سے بسر ہونے لگی۔کثرتِ اولاد،بڑا کنبہ،مشکلیں زیادہ ہو گئیں۔چھوٹا بھائی جو ان کے بڑے لڑکے کے ہم سن تھا اس کو پڑھانے میں دقتیں پیش آنا شروع ہو گئیں۔غریبی بڑا سخت امتحان ہے اس امتحان میں پاس کا درجہ کسی کو مل جائے مگر آنرز ہزاروں میں سے کہیں ایک کو نصیب ہوتا ہے۔ہمارے ہیرو کا بھی یہی حال ہوا کہ ادھر ادھر ملازمت کی تلاش کرنے لگے۔سن زیادہ،کوئی ڈگری نہیں،پابندی سے کام کے عادی نہیں۔اگر کسی جگہ ٹھکانہ ہوا بھی تو مصاحب کی صورت میں۔اب تو ان کی بذلہ سنجی،ہنسی ٹھٹھے کی دھوم بھی گئی۔اس کے بعد لڑکے جوان ہو گئے۔ کوئی سو کمانے لگا کوئی دو سو۔چھوٹا بھائی وکیل ہو گیا مگر مگر میاں باقر کی نہ کوئی ضرورت پوری کر سکا اور نہ انھوں نے َاپنا رویہ بدلا۔گورکھ پور بستی میں نشوونما ہوئی تھی وہاں تاڑی شراب کے قظرے بڑی بڑی ڈاڑھیوں پر دکھائی دیتے تھے۔کسی طرح بدقسمتی سے یہ بھی اس کے مزےسے واقف ہو گئے۔ میں یہ ذکر ہرگز نہ کرتا کیوں کہ یہ ذاتی فعل ہے جس سے دوسرے کو واسطہ نہیں۔یہ تزکرہ صرف اس وجہ سے آگیا کہ بغیر اس کے ان کے واقعات ادھورے رہ جائیں گے۔جوانی میں مجھ کو ایک کتاب آئر لیند کے متعلق پڑھنے کا اتفاق ہوا تھا جس میں ایک خاص کلب کے ممبروں نے یہ قسم کھائی تھی کہ مذاق کی بات چاہے اپنی ماں ہی کی کیوں نہ ہو ہر ممبر ضرور بیان کرے گا۔میاں باقر نہ آئر لینڈ گئے تھے نہ اس زمانے میں پیدا ہوئے تھے جب یہ کلب قائم تھامگر کسی نہ معلوم طریقے سے یہ اس کے ممبر ہو گئے تھے اور ہنسنے کا چسکہ ایسا پڑ گیا کہ اپنی برائی یا کسی کی بات ہو اگر اس میں ہنسنے کی گنجائش ہوئی تو میاں باقر اس کے بیان کرنے سے نہ رکیں گے۔ بدقسمتی سے گھوڑدوڑ کھیلنے کا بھی شوق ہو گیا۔شوق کے بعد عادت ہوئی،عادت کے بعد لت ہو گئی۔ اس شوق کے پورا کرنے میں شاید میری بھی کچھ ذمہ داری ہو،بلکہ ضرور ہے، میں تو بچ گیا مگر وہ مرحوم"فنا فی الگھوڑدوڑ" ہوگئے۔ اس مشغلہ میں روپیے کا خرچ اور یہاں پیسہ پاس نہیں مگر انھوں نے ایک ترکیب نکالی۔کسی کرنل جنرل کا کوئی خانساماں تھا جس نے بہت سا اندوختہ کرنے کے بعد ریس کے احاطے کے اندر چائے وغیرہ کا ٹھیکہ لینا شروع کیا تھا۔گھوڑ دوڑ کی آمدورفت میں اس سے یاداللہ ہو گئی اب راوی چین لکھتا ہےمیاں باقر ہوٹل کا پاس لٹکائے اوّل اسٹیند پر،دوسرے اسٹیند پر،پیڈک میں،
 

جاسمن

لائبریرین
خود ہی کر دیتی ہون۔
پسندیدہ۔بہترین۔واہ جی واہ۔ شاباش جاسمن۔لگے رہو منا بھائی:D
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
صفحہ نمبر ۴۵۳
مرے جیسے سسردوئی جانو۔ اسی طرح کسی نے خبر سنائی کہ فلاں تعلقہ دار کا علاقہ کورٹ آف وارڈس سے چھوٹ گیا ۔ بولے بھیا ۔۔۔۔۔کا علاقہ چھوٹ گوا۔ تو اب مہرون کی پھلواری لاگ ہوئی۔یعنی اب عورتوں کا باغ لہلہا رہا ہوگا۔ ایک دن ایک دوست کے یہاں ملاقات ہوئی۔ بڑے تپاک سے ملے ۔ میں نے خوش دلی اور خلوص سے کہا۔ بابو صاحب ہم آپ کے یہاں آئیں گے۔ کہنے لگے ۔ کون پوادے ایہو۔ یعنی تمکو کیا حق ہے آنے کا ۔ کس بنا پر آؤ گے ۔ میں نے جواب دیا خیر میں آؤنگا ضرور۔ آپ کا دل چاہے تو نکلوا دیجیے گا۔ فرمانے لگے نہیں۔ ایہو توبکرا مرئیں کا پڑہیے۔ مل بے بلائے کوئی یہاں جاب ٹھیک نہیں ۔ یعنی آؤ گے تو بکرا حلال ہی کرنا پڑے گا۔ مگر بغیر بلائے کسی کے یہاں جانا اچھی بات نہیں ہے۔ درگاہی خاں صاحب بڑے اچھے تعلقہ داروں میں تھے۔ ایک دن میں نے ان سے ترکیب پوچھی کہ اخراجات کیوں کر کم کیے جائیں ۔کہنے لگے کہ یہ میز ، کرسی، کوچ،سوفا جس مکان میں رکھے ہو اس کو بند کر دو اور ا س حصہ مکان کی طرف اشارہ کرکے جو قدیم وضع کا دیوان خانہ کہلاتا ہے ۔ وہاں چارپائی بچھا کر بیٹھو اور معزز مہمان کو سرہانے جگہ دو۔ خرچ ابھی کم ہو جائے۔ خود اپنا واقعہ بیان کرتے تھے کہ جن ا ن کا علاقہ داگذارہوا تو ناچ اور رنگ تھا ۔عیش اور جوانی کی امنگ تھی اسی سلسلے میں ایک پچھلی کا بیاہ بھی رچایا تھا۔ مچھلی کا بیاہ کیوں کر ہوا تھا یہ نہیں معلوم۔ پچاسوں رنڈیاں ، ڈیرہ دار موجود تھیں۔ بڑےزور کا مجرا ہو رہا تھا۔ اتنے میں مسند کے پیچھے ایک پشاوری سودااگر آکر کھڑا ہوااور بھری محفل میں کہنے لگا۔ بابو صاحب ہمارا روپیہ کب دوگے۔ تھیٹر میں جیسے جادوگر کے آتے ہی پردہ پھٹتا ہے اورسین بدل جاتا ہے اسی طرح بابو صابو اٹھ کھڑے ہوئے۔​
ہم نے کہاکہ جب ایسے میں مہاجن کرجہ مانگ بیٹھا تو ای گانے ماکون مجارہگوا۔(میں نے کہا کہ جب قرض خواہ بھری محفل میں اپنا قرضہ مانگ بیٹھا تو عیش کہاں باقی رہا) محفل برخاست۔ رنڈی ، بھردے، حوالی ، موالی، تماشائی، طفیلیے رخصت۔ مصاحب، خوشامدی، نیمبونچوڑ، مہتمم ناظرات، میراثی، بھانڈا ، بھگتیے رخصت سب یک قلم برطرف۔ رات تو جوں تو کٹی ۔ صبح سے دوسرا رنگ۔ دوسرا ڈھنگ ، دوسرا سامان،خیمے، شامیانےغائب۔فرش وفروش جہاں کے تہاں پہنچے۔ خالی چوپال کے چھپر میں بابو صاحب کھٹیا(یعنی چارپائی) پر بیٹھے۔ سیر کا غلہ تلوا تلوا کر دیہاتیوں کو ڈیڑھی سوائی پر بانٹ رہے ہیں۔ تھوڑے ہی دنوں میں ریوولیوشن ختم ہوا۔ قرضہ ، بد انتظامی قصہ، پارینہ ہو گیا۔ ایوولیوشن کا وقت آیا۔ علاقے بھر میں جتنے پیشہ ور مثلا تیلی، موچی، جلاہے ہیں سب بابو صاحب کے قرض دار ۔ جتنے کاشت کاررعایا ہیں سب سے ڈیڑھی ، سوائی کا بیوبار۔ خود ہی زمین دار ، خود ہی ساہو کار ۔ دل کی کھڑکی بند ہو گئی۔ دماغ کا دروازہ کھل گیا۔ رعایا برایا اگر خوش نہیں تو مطمئن ضرور ہو گئے۔ بابو صاحب نے ابیقورس کا فلسفہ چھوڑ کر دیوجانس کا
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
صفحہ نمبر ۴۵۴
اختیار کیا۔ گاندھی کے کھدر کا کسی نے خواب بھی نہ دیکھا تھا، اس وقت بابو درگاہی خاں گاڑھا زیب تن کیے اور اس پر کچھ رنگ ملامتی فقرا کا اضافہ کیے نظر آتے ہیں ۔ مقامی صنعت و حرفت کی مدد کا خیال صرف کتابوں میں رہا ہو گا اس وقت بابو صاحب اپنے علاقے کے چماروں کا بنایا ہوا جوتا پہننے لگےتھے۔ اسی کے ساتھ امارت کی شان باقی تھی ۔ گاڑھے کے کرنے میں بڑے بڑے سونے کے بٹن جو شاید چھبنی سے کاٹے گئے تھے ، لگے ہیں ۔ تین آنے کے نربل حقے میں دس تولے کا دست پنا سونے لٹکایا گیا ہے۔ مگر اس میں بجائے زنجیر کے ستلی بندھی ہوئی ہے۔ اسی طرح بٹنوں میں بھی سوت کی ڈوری کرتے کے نیچے بندھی تھی ۔ ضلع اور صوبے کے دربار کے لئے اک پوشاک معہ ایک کام دار ٹوپی کے رکھتے تھے۔ مگر اس انداز سے پہنتے تھے کہ جس سے کپڑے کی شان اور دربار کا ڈھونگ دونوں کی ٹھیک نکل جائے۔ ان کے ضلع کے ڈپٹی کمشنر مجھ سے کہتے تھے کہ جب درگاہی خاں ملنے آتے ہیں تو ہمارے دفتر کے سامنے وہ جو آنبہ کا پیڑ اس کے نیچے درباری کپڑے زیب تن کرکے اطلاع کروا دیتے ہیں۔ لکھنو سے بابو صاحب کا مکان تقریبا ساٹھ میل ہو گا۔ یہ لکھنو کے دربار وغیر ہ میں ہمیشہ چھکڑے پر جاتے۔ گھر سے جنس اور ایندھن ساتھ لے جاتے تھے اور سوا پانی کے لکھنو کی کسی چیز کے شرمندہ نہ ہوتے تھے۔ سپاہی، باورچی ،سب ساتھ ہوتے تھے۔ غربت میں وطن کا لطف اٹھاتے تھے۔ آخر زمانے میں کبھی کبھی ایک اکا بھی ہمراہی ہوتا تھا جس کو خود ہانکتے تھے۔ میں نے ان کو مچھلی کے بیاہ کے پہلے نہیں دیکھا تھا۔لیکن ان کی بات میں استہزا اور سماج سے نہ ڈرنے کا پہلو ایسا نکلتا تھا کہ جس سے شک ہوتا تھا کہ طبیعت کا رنگ جب سے بدل تب سے ہی سینک ہو گئے تھے۔ عموما اودھ کے دیہاتی زمین داروں کا یہ حال ہوتا کہ ممکن ہے خود اپنی رعایا پر سختی کر لیں لیکن دوسرے کے مقابلے میں اپنے اسامی کے لئے جان دینے کو تیار ہو جاتے ہیں ۔ بابو صاحب نہ اس رنگ میں تھے نہ اس رنگ میں مگر اسی کے ساتھ ساتھ وہ اضافہ بھی نہ کرتے تھے۔ بندوبست کے بعد جس قدر مال گزاری بڑھی اسی حساب سے انھوں نے آنکھیں بند کر کے اضافہ کر لیا۔ پھر اس کے بعد ہفت سالہ یا بے دخلی اور نت نیا انتظام جس میں لگان بڑھایا جائے ان کے یہاں نہیں ہوتا تھا۔ ۲۱ کے نان ک آپریشن او ر کسان سبھا کے زمانے میں ایک دن وہ میرے یہاں بیٹھے تھے کہ چند کانگریس کے لوگ آ گئے۔ اور مختلف علاقہ جات میں جو شورشیں ہو رہی تھیں ان کا ذکر کرنے لگے۔ بابو صاحب نے کہا اگر آپ لوگ ہمارے علاقے میں بدامنی پھیلویں تو ہم سو روپیہ آ پ کو مٹھائی کھانے کو دیں ۔ ارد گرد کے علاقوں میں آفتیں مچی تھیں مگر جہاں تک سنا گیا ان کے یہاں امن ہی رہا۔ اس کے بہت سے وجوہ ہوسکتے ہیں اور میرے خیال میں وہ سب تھے۔ نذرانہ وغیر ہ نہ لینا ہر شخص کو قرضہ دے کر قابو میں رکھنا، ڈیڑھی سوائی کی وجہ سے رعایا کا ٹوٹا ہونا ، پکی سڑک اور ریل سے دور ہونا اور بے جا ظلم اور تشدد نہ کرنا۔ اضافے اور نذرانے والا فائدہ ڈیڑھی سوائی سے نکال لینا۔ ان کے ضلعے میں
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
صفحہ نمبر ۴۵۵​
زراعتی نمائش تھی۔ رؤسا اور تعلقہ داروں نے بڑے بڑے سامان کیے۔ ہر شخص نے نمائش کے میدان میں اپنے کیمپ قائم کئے۔ سپاہیوں کی وردیاں بنیں۔تلواروں کے قبضوں پر چاندی کا پانی پھیرا۔ کاٹھیوں پر محمل پھر سے چڑھایا گیا ۔ قصہ مختصر ہر شخص نے علی قدر حیثیت خوب شان دکھائی۔ بابو صاحب کے وہی ٹھاٹھ رہے جو ہمیشہ سے تھے۔ وہی چھکڑا وہی گھر سے اناج وغیرہ ساتھ آنا۔ نہ رتھ ، نہ ہسلی، نہ بیلوں کی نئی جھول ، نہ چاندی کی سینگوٹیاں ۔ البتہ ان کی گوئی نے ضلعے بھر میں اول انعام پایا۔ دروازے پر ایک شان دار مگر نہایت ہی بیوقوف مینڈھا بندھا رہتاتھا۔ اس غریب کو خبر ہی نہ ہوئی اور بابو صاحب نے اس کا بھی اول انعام اپنے ڈب میں کیا۔ خود فخریہ حساب بتانے لگے کہ اور لوگوں نے اپنی آمدنی کا متعد بہ حصہ خرچ کیا ۔ اور ہم بجائے خرچ کرنے کے کچھ کما ہی لائے۔ نمائش کے سلسلے میں راجہ صاحب مرحوم حسن پور نے سب تعلقہ اداروں کی دعوت کی تھی۔ جس میں بابو صاحب بھی تھے۔ سب سے پہلے ان کی نظر مرعفر پر پڑیاور ذرا چکھ کر طشتری دسترخوان پر سے اٹھا کر اپنے پہلو میں رکھ لی۔ میزبان نے اس کی وجہ پوچھی ۔
بابو صاحب۔ نابیں اب بہ کھیبا۔ای کا جگنو کے کھاتر لے جیبا۔(نہیں اب نہیں کھائیں گے اس کو جگنو کے واسطے لے جائیں گے)
میزبان۔ یہ جگنو کون ہیں
بابو صاحب۔ جگنو ہمری مہرو آئین (جگنو ہماری بی بی ہیں )
میزبان ۔ یہ خطاب ان کو آپ کے یہاں دیا گیا یا پہلے ہی سے ان کا یہ نام تھا۔
بابو صاحب۔ نابیں جب آتی رہے تو اس لونکے جس دیا کی ٹیون ۔ تو ہم کہا جگنو آئے۔
(نہیں جب بیاہ کے آئی تھی تو ایسے چمکتی تھی جیسے شمع کی لو۔تو ہم نے کہا یہ جگنو ہے)
پڑھنے والوں نے یہ الفاظ تو دیکھ لیے مگر کہتے وقت درگاہی خاں کا چہرہ کب دیکھا؟ آپ اگر کسی رکاب دار سے عمدہ چٹنی بنوائیےاور کسی اور کو کھلا کر اس کا چہرہ غور سے ملاحظہ کیجیے تو شاید بابو درگاہی خاں کے چہرے کا کچھ اندازہ ہو سکے۔ مچھلی کے بیاہ کے زمانے کی رنگینی آج بھی باقی تھی مگر ڈھنگ دوسرا تھا۔ تب دنیا بھر کی آخور بٹیرنیں ، بن پتریاں ، چمر بگھیاں بھری رہتی تھیں۔ اب بجائے ان کے لمبے گھونگھٹ والی دیہاتنیں ، الھڑ نادان بے سمجھ مگر فطرت کی دولت سے مالا مال نیچ قوم کی عورتیں تھیں جو اکثر سیر اور کاشت کاری کے سلسلہ میں گھر پر کام کرنے آتی تھیں۔خود فرمایا کرتے تھے کہ ایمان ایک اور وبات ہے ( یعنی اس میں ایک فائدہ اور بھی ہے) پھر اناج چوری جانے کا ڈر نہیں ریجات ہے ۔ ( یعنی اس میں اناج وغیرہ کی چوری کا ڈر نہیں رہ جاتا) اور سسری پھر اپنے مال جانے لگت ہیں(یعنی ان تعلقات کے بعد پھر وہ بے وقوف لوگ اپنا مال سمجھنے لگتی ہےاور بجائے چوری کے الٹے حفاظت کرتی ہیں) اس کے بعد بے تکلفی میں بابو صاحب نے صنف نازک کے بارے میں کچھ میرے تجربات دریافت کرنا چاہے ۔ مگر میں نے یہ کہہ کر سلسلہ کلام​
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
صفحہ نمبر ۴۶۷
جار ی رکھا کہ وسط حیات میں پہنچ کر ہم سن دل نہیں گرماتی اور کم سن سے شرم آتی ہے۔ کہنے لگے ڈراوانہ کرو۔ روپیہ پیسہ، مٹھائی ، کٹھائی سب کی کمی پوری کر دیتی ہے ۔ معاملے کے بہت صاف تھے اور زبان سے جو کہہ دیتے تھے پتھر کی لکیر ہو جاتا تھا۔ اسی ذیل میں ووٹ دینا بھی تھا مگر ایک با ت اور بھی کرتے تھے یعنی مبلغ ۵۵ روپے کرائے کے نام سے لے لیتے تھے ۔ پھر کوئی ہزار روپیہ بھی دے مگر درگاہی یہی کہتے تھے کہ ہم تو بکائے گئیں ( یعنی اب ہم بک گئے اب کچھ نہیں ہو سکتا) اس معاملے میں ان کی دور بینی اور دور اندیشی کا قائل ہو جانا پڑتا ہے۔ یوں دیکھنے میں بڑی ذلیل سی بات ہے مگر جب یہ دیکھا جاتا ہے کہ ان سے زیادہ دولت مند ان سے زیادہ پڑھے لکھے بات کھلم کھلا کرتے ہیں اور پھر کوئی تعداد بھی نہیں جس قدر مل جائےشہر مادر تو صرف مرحوم کا گناہ ہلکا ہی نہیں ہو جاتا بلکہ یہ بھی تسلیم کرنا پڑتا ہے۔ پھر انہوں نے برسوں پہلے وہ کچھ دیکھ لیا تھا جو دوسروں کو نہ سجھائی دیا تھا۔ بعد کو انہوں نے رقم دوگنی کر دی۔ میں نے وجہ پوچھی ۔ کہنے لگے فلاں راجہ کے انتخاب میں گئے تھے۔ بڑی خاطر ، مدارات ، ہر وقت مزاج پرسی کے لئے ذی عزت ملازمین موجود، خدمت کے لئے نوکروں کی کمی نہیں ، سواری بھی حاظر ، لیکن ووٹ گزرنے کے بعد کوئی بات نہیں پوچھتا ۔ ہم لاوارث لڑکے کی طرح ادھر ادھر مارے مارے پھر رہے ہیں۔ اتنے میں راجہ صاحب نے دیکھ لیا ۔ راجہ صاحب۔ارے بابو صاحب آپ کو سوار ی نہیں ملی۔ کوئی ہے لاؤ موٹر کار آپ کے لئے ۔ اس کے بعد نائب صاحب آئے۔ ارے بابو صاحب آپ کو بڑی تکلیف ہوئی۔ معاف کیجیے گا۔ موٹر سب سواری میں گئے ہیں۔ جوڑی حاضر ہے۔ اسی پر چلے جائیے۔ تھوڑی دیر بعد مختار صاحب آئے۔ بابو صاحب ارے ابھی تک آپ کے لئے سوار ی نہیں آئی ۔ دیکھیے میں ابھی منگواتا ہوں البتہ آپ کو تکلیف ہو گی اس وقت سواریوں کا ایسا توڑا ہو گیا ہے کہ کیا کہوں۔ تانگہ منگواتا ہوں سپاہی سے۔ جاؤ ایک اچھا سا تانگا لاؤ۔ دیکھ لینا ذرا صاف صوف ہو۔ابھی آتا ہے تانگا۔ یہ کہہ کر وہ بھی تشریف لے گئے۔ کیسی کار کیسی جوڑی۔کیسا تانگا۔ جوتیاں چٹخاتے ڈیرے پہنچے۔ تب سے ایک سو دس روپے کر دین۔ اسی طرح کے ایک انتخاب کے سلسلے میں مجھ کو بھی ایک دوست کی سفارش میں ایک خط بابو صاحب کو لکھنا پڑا۔ جواب آیا کہ مجھے آپ کو کہنے میں کوئی عذر نہیں ہے لیکن ایک سو دس امرود اپنے باغیچے سے بھجوادیجیے۔ چنانچہ میرے دوست کے کارکن صاحب ایک سو دس امردو رائج الوقت چہرہ دار لے کر گئے۔ اس خاص معاملت پسندیدگی کی مہر لگانے کی غرض سے دو عدد پیڑے مختار کو عنایت ہوئے جن کا رنگ امتداد زمانہ سے بدل کر سفید کا سبز ہو گیا تھا۔ مختار نے وہاں سے واپسی پر مجھ کو دکھائے اور اس کے بعد اپنے آقا کو دکھانے کے لئے لیتے گئے۔
ووٹ حاصل کرنے کے بعد میں جو خوشامدیں ، چاپلوسیاں اور اہلہ فریبیاں کرنی پڑتی ہے معلوم ہیں۔ جو دھوکے اٹھانے پڑتے ہیں وہ بھی ظاہر ہیں۔ چناں چہ آموزدہ کار مختار نے غور کرنا شروع​
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
صفحہ نمبر ۴۵۷
کیا کہ مکان فرنیچر ، باغ ، سواریاں، کوئی چیز بھی تو ایسی نہیں کہ جن کی تعریف کرکے میزبان کو خوش کیا جائے۔ جب ہر طرف سے مایوس ہو گئے تو کہنے لگے کہ بابو صاحب آپ کے مکان کے سامنے میدان بڑا عمد ہ ہے جس میں تازہ ہوا کا فائدہ کھلا کھلا ہے۔ وہاں ایسے واقعہ پرست سے سابقہ ہوا تھا جو خوشامدی کی لغویت اسی وقت کھو ل دیتا تھا۔ لہذا بابو صاحب نے ایک غلط انداز ہوں بلکہ ہو۔۔۔۔ م میں تضنع اور دنیا سازی کا بھانڈا پھوڑ دیا۔ مختار نے دوسرا حملہ کیا۔ بابو آپ کے دروازے مسجد بڑے موقع سے ہے ۔مگر اس کی چھت پٹوا دی جائے۔ اب کہ بابو صاحب مقابلے پر تیار ہو گئے۔ سنو مکھتیار صاحب ان کا جو بہت مٹھ لگاوااو کا پتا ہے۔ دیکھا۔ بس اتنے بہت ہے۔ عالم ہوئے گوا کہ ہم ان کا مانت سن ۔ اور کا چہیے ۴ او کچھ ہمری نماج کے بھوکے بیں کہ ان کار ہے کا گھر جیئیے۔ اس جگہ غالب کا ایک شعر یاد آیا​
بز م ترا نہ شمع و گل خستگی بو تراب
ساز ترز زیر و بم واقعہ کربلا​
بابو درگاہی خاں انکسار و خاکساری کی تصویر تھے۔ ان کے ملازمین اکثر ان سے صاف ستھرے رہتے تھے۔ ایک دن ان کے ساتھ ایک اہل قلم ملازم تھے جن کو میں سمجھا کہ ان کے کوئی عزیز ہو ں گئے ۔میں نے دریافت کیا۔
بابو صاحب۔ نابیں اجیج نہ آئیں لالہ ہوئیں ہمرے یہاں کام کرت ہیں ۔ (دبی زبان میں ) ریل پر سب کود ہمیں کوؤ دھکیاوت ہیں ۔ ان کا رستہ دیت ہیں ۔ (صاف کپڑوں کی طرف اشارہ کر کے) ( ریل پر سب لوگ ہم ہی کو دھکا دیتے ہیں اور ان کے لیے راستہ چھوڑ دیتے ہیں ) اک مرتبہ انہوں نے غضب ہی کیا ۔ میرے یہاں آئے معلوم ہوا کہ میں ایک دوست کے یہاں ہوں ۔ وہ بھی وہاں پہنچے۔ دیکھتا کیا ہوااں کہ بیچو بیچ بیٹھ کر کوئی چھ انچ مربع سرخ چھینٹ کا پیوند لگا ہوا ہے۔ واپسی میں مجھ سے رہا نہ گیا میں نے کہا کہ دوسرے کی رائے سے بے پروائی کی ایک انتہا ہوتی ہے۔ بابو صاحب نے اعتراض کا جواب معذرت سب دو لفظوں میں کی۔ مسکراہٹ کے ساتھ آنکھ مار کر۔ بہرون کے لہنگا کا ہوئے ’’( یہ پیوند عورتوں کے لہنگے کا لگایا ہے)‘‘ ایک پہلو ان کی شخصیت کا اور سن لیجیے۔اگر موقع آن پڑے تو بابو درگاہی دبنگ بھی تھے۔ پہلی جنگ میں ضلع کے پار سی ڈپٹی کمشنر سے ملنے گئے ۔کسی بات پر مزاج برہم تھا۔ ڈپٹی کمشنر ۔ بابو صاحب آپ نے جنگ میں کتنا چندہ دیا ہے۔ بابو صاحب ہم کچھو نا ہیں دیا ہے۔ ہم سنا کہ جرمن آوت ہیں اور چھین لے ہیں تون ہم قرضہ بانٹ دیا۔
ڈپٹی کمشنر۔ یہ کیسی بات ہے۔ آپ نے اپنی سند پڑھی ہے۔ اس میں لکھا ہے کہ سرکار تم کو یہ علاقہ عطا کرتی ہے۔ جب سرکار کو ضرورت ہوتو اس کی مدد کرو۔ آپ کو معلوم ہے کہ سرکار آپ کا علاقہ واپس لے سکتی ہے۔​
 

جاسمن

لائبریرین
434
اصطبل میں ہر جگہ موجود ،تمام جاکیوں سے ملاقات،اکثر بکیوں سے جان پہچان ماؤٹس سے اس سے ملی مار بہتر سے بہتر ٹپ ان کو ملنے لگے مگر اس تباہ کن کھیل میں سوا جوا کھلانے والے کے اور کسی کو امیر ہوتے دیکھا نہیں۔ پھر اس کے لئے بڑے سرمائے کی بھی ضرورت ہے۔ یہاں ننگی کیا نہائے کیا نچوڑے وہی روپیہ دو روپیہ کا کھیل مگر شوق پورا ہوتا رہا مجھ سے ان سے زمین داری وغیرہ کے معاملے میں شکر رنجی بلکہ اس بھی بڑھ کر نوبتیں پہنچ گئیں۔ معاملات نے اکثر بہت طول کھینچا مگر ہنسنے ہنسانے کے مراسم اسی طرح رہے مثلاََ عرض کرتا ہوں۔ایک دن دورانِ ملال میں آئے کہنے لگے محمد علی قسم ہے کلامِ مجید کی تم ہزارہمارے دشمن ہو جاؤ مگر خدا کی قسم ہم سے یہ نہیں ہو سکتا کہ مزاق کا کوئی واقعہ پیش آوے اور تم سے نہ کہیں مگر دیکھو واللہ کسی سے کہنا مت۔
میں۔۔ہاں ہاں نہ کہیں گے۔کہو تو۔
میر باقر۔ ارے تم ضرور کہو گے قسم رسول مقبول ص کی تم بغیر کہے نہیں رہ سکتے۔ تمہارے پیٹ میں بات ہی نہیں رہتی اور تم کیا ہم خود کہیں گے مگر ابھی تازہ تازہ واقعہ ہے قسم امام حسین رح کی اگر تم نے کہا تو مجھے بہت تکلیف ہو گی۔
میں۔ بالکل ٹھیک میں سمجھتا ہوں تم کہہ چلو۔
میر باقر۔ چند طالب علموں نے مل کر امین آباد میں ایک مکان لے رکھا تھا۔ اس میں ہمارا چھوٹا بھائی بھی شریک ہے۔ جگہ ضرور تنگ ہے مگر ان لڑکوں کے اعزا کو ضرورت کے وقت ایک چارپائی کی جگہ مل ہی جاتی ہے۔ہم جو ریس سے لوٹے تو وہیں چلے۔ آج بڑا اچھا دن تھا قسم امام حسین کی اگر ہمارے پاس روپیہ ہوتا تو آج امیر ہو گئے ہوتے۔ تین گھوڑے ہمارے نکلے ایک ایک پلیس اور دو اول فیورٹ تو فیورٹ ہم کو تو آؤٹ سائڈر کی ٹپ ایسی ملی مگر کیا کریں صرف پانچ روپے پلیس پر لگائے پچیس ملے خدا کی قسم اج پانچ ریسوں میں تو بکیوں کا دوالا نکل گیا۔ اچھا خیر۔ دل خوش تھا اس لئے ذری زیادہ پی گئے گھر پہنچتے پہنچتے نو بج گئے تھے زینے پر چڑھنے لگے تو کیا دیکھتے ہیں کہ ردولی کے فلاں فلاں کئی ریشائیل بیٹھے ہیں۔ بھلے کو زینے پر اندھیرا تھا نہیں تو قسم خدا کی بڑا غضب ہوا تھا۔ہم الٹے پاؤں واپس آئے اب امین آباد میں اس ادھیڑ بن میں ٹہل رہے ہیں کہ چلّے کے جاڑے ہم اس حالت میں کمبل لینے بھی نہیں جا سکتے۔ کیا کریں گے۔ ایک بڑھیا پان بیچ رہی تھی اس سے گلوریاں لینے لگے وہ بھانپ گئی کہ نرم چارہ ہے۔ کہنے لگی میاں کہیں ٹھکانہ کیجیے گا؟ قسم قرآن کی محمد علی میں نے کہا وہ مارا سب مشکلیں یک بارگی حل ہو گئیں۔نہ لحاف کی فکر نہ رضائی کی۔ گھر جانے میں فصیحتے کا خوف۔ہم تیار ہو گئے۔تم جانتے ہو کہ ہم کو ان باتوں کا شوق کبھی نہیں رہا مگر یہ موقع ایسا تھا کہ سوا اس کے اور کون صورت تھی۔اس بڑھیا نے ایک چھوٹی سی لڑکی میرے ساتھ کی اس سے کہا میاں کو اپنی آپا جان کے پاس لے جاؤ۔گلی در گلی وہاں پہنچے صورت دیکھتے ہی کہنے لگی جنیا ہمیں بھی پلواؤ خٰیر ایک ادھا منگوایا تعاملو اثتم تعاشِروَا کی ٹھہری۔ہم
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
صفحہ نمبر ۴۵۸
بابو صاحب۔ ’’ ہاں صاحب اے کا نابیں عالم رہے(یہ کہیے یہ ہم کو نہیں معلوم تھاا) اچھا کیو صاحب بتائے دیو ( اچھا کیا آپ نے بتا دیا) اب ہم اوکے پاس نہ جاب( اب ہم اس کے پاس نہ جائیں گے) ہاں صاحب پرائی چمچ کے پاس جائی مارے جائی(ہاں صاحب دوسرے کی چیز کے پاس جائیں مارے جائیں )
ڈپٹی کمشنر ۔ نہیں نہیں یہ مطلب نہیں ۔ آپ کا علاقہ آپ کے پاس رہے گا ۔ لیکن آ پ کو سرکار کی مدد کرنا چاہئے۔
بابوصاحب۔ نابیں صاحب الاکا ہمراہو ئیے نہ کرے تو رہیئے کیسے ہمرے پاس اب صاحب تم جانوالا کا جانے۔ ( نہیں صاحب جب ہمارا علاقہ ہمارا ہی نہیں تو رہئے گا کیسے ہمارے پاس اب آپ جانیے اور علاقہ جانے)
مالگجاری والگھاری اب ہم سے نہ مانگیو۔ اپنا وصول کر لئیو۔ ہم پرائی چمچ کے پاس کیسے جان ۔( مالگزاری والگزاری اب آپ ہم سے نہ مانگیے گا۔ خود وصول کیجیے گا۔ ہم دوسرے کے مال کے پاس کیسے جائیں)
ڈپٹی کمشنر۔ نہیں نہیں
بابو صاحب۔ نابیں نابیں اب ہم سے کود مطلب نہیں ۔
ڈپٹی کمشنر پریشان کہ ذرا سی بات کے لئے کیا لوکل گورنمنٹ کو لکھا جائے اور کیا گورنمنٹ آف انڈیا کو لکھا جائے پشنبی دار علاقہ سے کیوں دست بردار ہو رہا ہے۔ کیا سختی کی گئی جس کا نتیجہ یہ ہوا ہے۔ خیر اس وقت تو بابو صاحب ہی کی جیت رہی مگر بعد کو قرضہ، جنگ دینا ہی پڑا۔
اسی طرح ایک سینیر ڈپٹی کلکٹر سے میں نے ملایا اور کہا کہ آپ کے ضلع میں یہ ڈپٹی کمشنر ہو کر آنے والے ہیں۔

بابو صاحب۔ ہاں کا ہے نابیں۔بہت آئے بہت چلے گئے۔
یہ دونوں واقعات ہندوستانیوں کے ساتھ ہوئے۔ نہ معلوم انگریز کے ساتھ بابو صاحب یہی برتاؤ کرتے تھے یا نہیں ۔ اس کا تجربہ نہیں ہوا۔ ایک مرتبہ بابو صاحب ایک صاحب کے یہاں گئے ۔ وہاں دوسرے کمرے میں ایک بہت بڑے شخص بیٹھے تھے اور چاہتے تھے کہ بابو صاحب کی دیہاتی باتوں سے لطف اٹھائیں۔ ان کے مصاحب نے بابو صاحب کو وہاں بلانا چاہا بابو صاحب نے کہا۔ کاکری ہواں آئے کہ ہم ڈونگیاں اوئی جہاج ۔ تنی سے دھکا لاگےڈوب جائی۔
(کیا کریں ہم وہاں آکر ہم ذرا سے پن سوئی اور وہ جہازری سے دھکا لگے تو ہم ڈوب جائیں گے)
ایک مرتبہ ایک دعوت کا رقعہ موصول ہوا جس میں بجائے بسم اللہ کے حمد لکھا تھا ۔ رقعہ تین دن یا تینن و قتوں کی مسلسل دعوت کا تھا۔ مگر جو چیز مجھے پسند آئی وہ تمتہ تھا ۔ باضابطہ خط
(بقیہ صفحہ نمبر ۳۷۴)​
 
آخری تدوین:

ناعمہ عزیز

لائبریرین
صفحہ نمبر ۴۵۹​
کشکو ل محمد علی شاہ فقیر
(۱)​
نواب سعادت علی خاں کے وقت میں کاہو ادار ریڈنٹ کی چوکڑی سے آگے نکل گیا۔ نواب نے کہاروں کو انعام دیا۔ حالاں کہ سعادت علی خاں سے ذرا تعجب ہے ۔ کہار لوگ اس خوشی میں ناچے ۔ یہ ناچ کہروا کہلایا ۔ یہ ناچ دلی میں نہ تھا صرف لکھنو میں ایجاد ہوا۔ اس کے لے ہے۔​
دھن دھاگے ناتے نک ۔ دھن دھا۔
’’دھا‘‘ پرسم ہے​
عشق میں جی کو صبر و تاب کہاں اس سے آنکھیں لگیں تو خواب کہاں
جاگ پڑی میں تو پیار کے جگائے بھور ہوت جب پیا مورے آئے
ان نٹین میں نیند کہاں ہے جن نیٹن میں آپ سمائے
یہ ٹھمری عالی جاہا والا نواب وزیر مرزا ( چولکھی والے)کی ہے۔مرحوم نے اس کو تلنگ میں باندھا ہے۔
مدرس صاحب اعتراض نہ فرمائیں کہ صبح کو نیند آگئی تو دوسرے مصرع کا دعوی غلط ہو گیا۔
صبح کو ذری سے آنکھ لگ جانا فطرت ہے ۔ مثل ہے کہ نیند تو سولی پر آجاتی ہے۔ مگر اس نیند کو نیند کون کہے گا۔
اس محرومی پر نظر کیجیے کہ جس کی وجہ سے نیندیں اُڑ گئیں اسی نے صبح ہوتے جگایا۔ وہ یہ سمجھ نہ سکا کہ اس نے رات بھر تارے گئے تھے ۔​
ان کے دیکھے سے جو آجاتی ہے منھ پر رونق
وہ سمجھتے ہیں کہ بیمار کا حال اچھا ہے
(۲)​
مسلمان ، یہود، نصاری، اور ستارہ پرست لوگ ان میں سے جو اللہ اور آخرت پر ایمان لائے اور اچھے کام کرتے رہے ، بے شک یہ لوگ اپنے رب سے اپنا اجر پائیں گے۔ نہ ان کو کچھ خوف ہو گا نہ کچھ غم ہو گا۔ یہ آیت (۶۲) باسٹھویں آیت آٹھویں رکوع پر سورہ بقر میں ہے۔ اور پھر یہی​
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
صفحہ نمبر ۴۶۰
آیت بہترو یں (۷۲) آیت آٹھویں رکوع پر سورہ مائدہ میں ہےاور پھر یہی آیت کچھ اختلاف معنی اور الفاظ کے ساتھ سورہ حج میں سترھویں (۱۷) آیت ہے۔ اس آیت کے منسوخ ہونے کا گما ن نہیں ہے۔ کیوں کہ سورہ مائدہ جہاں تک خیال پڑتا ہے تنزیل کی رو سے آخری سورۃ ہے ۔ اور پھر یہ آیت بہ تکرار آئی ہے۔ اس سلسلے میں لوگ پہلے بھی لکھ چلے ہیں اور آج عبد اللہ ابن یوسف علی نے صائبین کی بڑی تحقیقات کی ہیں۔ اس کے بعد لکھتے ہیں کہ باوجود کہ بہت سے مفسرین اختلافات کریں گے لفظ ’صائبین‘ کے معنی ہیں ازروئے قیاس نیک نیت زرشتی وید کے ماننے والے بودھ کنفیوشش اور دوسرے اخلاق کے معلمین کے پیرو بھی شامل کیے جا سکتے ہیں۔​
(۳)​
سائیں کی جھولی میں بندے کا دیا ، اللہ کا دلوایا ، کیا کچھ نہیں نکلتا۔ ایک شعر استاد جرات کا سناتا ہوں۔ یہ ایر سٹاکر یٹک شعر نہ روس والا کہہ سکتا ہے نہ امریکہ والا۔ یہ ہندوستان جنت کی نشان دہی کی سرزمین ہے جہاں یہ پودا اگتا ہے ، پھبکتا ہے۔​
نالہ و آہ و فغان سب مرادم بھرتے ہیں
آپ کا جان کے سب مجھ پہ کرم کرتے ہیں​
دیدی ناچت ہیں منہوں نچہوں ( میری بڑی بہن ناچتی ہے میں بھی ناچوں گی) ارے صاحب وہ جوان ہے ، اس کے دل میں جوانی کا جوش ہے۔ سن کا تقاضا ہے ۔ امنگ ہے ترنگ ہے ۔ آپ چیاں ریزی کس پر برتے پر ناچیں گی ۔ نہ چھپ نہ تختی۔ گات نہ گولائی۔ کیا سبزہ۔ روئیدہ ابھرے گا۔ کیا توڑا ڈالیں گی مگر نہیں ناچیں گی ضرور۔ اچھا ناچو خوش رہو بابا ہم اللہ کے فقیر ہم کو ا س سے واسطہ؟​
ایک جاپانی عورت کا شعر​
جیسے گہرے سمندر کا پہاڑ ہوتا ہے جوار میں بھی پان تہہ میں رہتا ہے اور اور بھاٹے میں بھی ۔ اسی طرھ میری آستین ہمیشہ آنسوؤں سے تر رہی ہے۔​
سات اور جاپانی اشعار​
۱۔اے شبنم کے قطرو ۔ لاؤ میں اپنی مصیبت زدہ زندگی کے دھبے تم سے دھو لوں۔
۲۔ راستے میں چھوٹا پھول کھلا تھا کہ مسافروں کو دیکھے گا۔ گدھا آیا اور اس کو چر گیا ۔
۳۔ پیاری چھوٹی چڑیا یہ ننھی منی مکھی پھولوں کے بیچ میں مگن ہے اس کو کیا کروگی کھا کے۔​
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
صفحہ نمبر ۴۶۱
۴۔ دور دراز کی جھیل ۔ مدتوں سے سکون کی نیند سو رہی تھی۔ نہ لہر نہ ہچکولا۔​
اے لو مینڈک اس میں کود پڑا​
۵۔ لڑائی کا میدان ہزاروں کے خون سے رنگین بنا آج بہار کے پھلوں سے بھرا پڑا ہے۔
شکست و فتح کے خوابوں کی تعبیر یہ ہے۔
۶۔ بوڑھے سفید بالوں والے کا جنازہ باپ داد ا کی ہڑواڑ میں رکھا ہے۔ جو زندہ ہیں لٹھیا پر ٹیک لگائے کھڑے ہیں۔
۷۔باغ کی گھاس کے کیڑے ابھی تو چوں چوں کر رہا تھا۔ کون کہہ سکتا کہ تو یک بارگی چپ ہو جائے گا۔​
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔​
اے ہے ان اشعار سے تو غم کے بادل چھا گئے ۔ میری محفل سے رنجیدہ نہ اٹھیے۔ ایک ہولی سن لیجیے۔اور خوش خوش گھر جائیے۔ نہیں تو مجھے شرمندگی ہوگی۔​
ساری ڈاروئیو موپہ رنگ کی گگر
ایسا دھوکہ دیا ۔ میں تو بھولے سے دیکھن لاگی ادھر
ساری ڈاردئیو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بن رنگ ڈارے میں جانے نہ دوگی
جاتے کہاں ہو کدر ۔ساری ڈاروئیو۔۔۔۔۔(کافی)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔​
صفحہ نمبر ۵۵۲ کا بقیہ:۔​
8. The Reconstruction of Religion Thought in Islam, Lahore. 1981.p.42
9.Ibid.p.128
10. Ibid. pp. 142. 43
11.Ibid. p. 147
۱۲۔ دیکھئے ۔ انور معظم ۔ اقبال کا تصور تہذیب۔ ذہن جدید۔ جلد ۲ شمار ۳،۱۹۹۱
۱۳۔ تشکیل جدید الہیات اسلامیہ۔ ترجمہ سید نذیر نیازی لاہور، ص ۱۸۶
۱۴۔حوالہ بالا ۔ ص ۔۱۸۵
۱۵۔حوالہ بالا۔ص۔۱۸۵
۱۶۔حوالہ بالا۔ص۔۱۸۶۔۱۸۵
۱۷۔انور معظم ۔ سر سید احمد خاں جمال الدین افغانی کی نظر میں ’’علی گڑھ میگزین‘‘ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ ۔۱۹۶۰​
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
صفحہ نمبر ۴۴۱
مفلسی کے گھٹے مضبوط ہو چکے ہیں مگر نہ چہرے پر شکن نہ ہمت میں کمی۔ ایک دن ایک صاحب نے بیان کیا کہ ہمارے کھانے کا سامان کہیں نہیں ہے۔ نواب صاحب نے کہا کہ آپ کھانا ہمارے یہاں آ کر کھا لیا کیجیے۔ پتا لگا کہ جس دن نواب صاحب یہ دریا دلی فرما رہے تھے اس دن ۹ بجے صبح تک ہانڈی نہیں چڑھی تھی۔ اسی دن شام کو ہم اور ایک اور مہربان نواب صاحب کے وہاں پہنچے ۔ محلے کی دو تین عورتوں کو دیکھا کہ اپنے گھروں سے مٹی کی رکابیاں لے کر آئی ہیں اور پلاؤ بھربھر کر لے جا رہی ہیں۔ پلاؤ بالکل معمولی تھا۔ جو شخص دو چار کو کھانا کھلائے بغیر نہ کھا سکے وہ اچھا پلاؤ کیسے کھا سکتا ہے۔
نواب صاحب کی والدہ مرحومہ اور ان کی بہنیں مجھ سے پردہ نہیں کرتی تھیں۔ کیونکہ بچپن سے مجھ کو دیکھا تھا۔ مگر بیگم صاحب اور جوان لڑکیاں مجھ سے پردہ کرتی تھیں۔ ان کی ایک لڑکی تھی اس کی آواز پڑ گئی ۔ اس لیے میں اس کو سامنے لے آیا جس میں حلق وغیرہ اچھی طرح دیکھ سکوں۔ اس واقعے کو برسوں ہوگئے۔ مگر افسوس آج تک باقی ہے کہ میں نے اس کو کیوں دیکھا تھا۔وہی نواب صاحب کی آنکھیں وہی نواب صاحب کا شاندار چہرہ، وہی شرافت کی جھلک، چار دن میں خاک کا پیوند ہو گئی۔ حلق کا دق تھا جو اپنا کام کر گیا ۔ رفتہ رفتہ بیگم صاحب بھی میرے سامنے ہونے لگیں اور ان آنکھوں نے دیکھا کہ ان کے گھر کے اندر امیری اور غریبی دونوں بہنیں کاندھے سے کاندھا جوڑے نہایت بے تکلفی سے بیٹھی رہتی تھیں۔ ایک طرف بیگم صاحب جو خود کھانا پکا رہی ہیں اور دوسری طرف روز کے آنے والے چند مہمان پہنچ گئے۔ گھر جن تک پونچھ کر کھا گئے۔ لیجیے صاحب گھر والوں کے لئے پھر سے ہانڈی چڑھی۔ بے حیا کھانے والے اور حمیت دار کھلانے والے دونوں ہنس رہے ہیں۔ کہیں فکر کا نشان نہیں ملتا۔
کرام ویل انگلستان کے پیش از وقت ڈکٹیٹر اور بادشاہ خوار کے پاس ایک مصور آیا کہ مجھ کو تصویر کھینچنے کی اجازت دی جائے۔ کرام ویل تیار ہو گئے اور کہنے لگے میرے چہرے پر بہت سے مسےّ ہیں اگر ایک بھی چھوٹا تو تم جانو گے ۔ اگر غور کیجیے تو بات بڑی پکی کہی تھی ۔ بھاٹوں کی طرح صرف چھائیاں ہی چھائیاں دکھانے سے نہ کسی شخص کا کیریکٹر ہی پیش کر سکتے ہیں نہ مسےّ چھوڑ جانے سے وہ چہرہ سامنے آتا ہے جس سے آدمی کی افتاد طبع معلوم ہو سکے۔ نواب صاحب کا حال بیان کرنے میں مجھے اسی طرح کی دو دقتیں ہیں ،ایک تو یہ کہ میں اپنی محبت کی وجہ سے شاید صحیح رائے نہ قائم کر سکتا ہوں۔ دوسرے جب تک ان کے بچپن اور ان کے خاندان کاحال نہ بیان ہو ان کی تصویر مکمل نہیں ہو سکتی۔ ہمارے قصبے کے رہنے والے نسل کی اصالت پر جان دینے والے شیخ انصاری کسی پشت میں ان کے یہاں کسی نے لکھنو میں شادی کر لی تھی تب سے یہ لوگ نام ہی کے نہیں بلکہ سچ مچ کے نواب ہو گئے اور گھر لٹا دیا۔ پچاس برس سے اوپر ہوئے ہوں گے کہ نواب راحت حسین لکھنو میں انگریزی پڑھنے بھیجے گئے۔ نہ معلوم کیا پڑھا کیا نہ پڑھا مگر گھر​
 
Top