سورۃ لقمان کی آیت نمبر 6 کے تراجم ،
ان سب سے لھو الحدیث کسی طور "گانا بجانا" نہیں بنتا۔ یہ آیت خود کہہ رہی ہے کہ لھو الحدیث ایسا کلام ہے جس کا نتیجہ اللہ کی راہ سے بہکانا ہو۔ یہ ایک ایسا بیان یا کتاب بھی ہو سکتی ہے جو انسانوں کو قرآن کے مخالف اصولوں کی طرف مائیل کرے۔
سورۃ لقمان آیت 6 کے ترجمے:
اور لوگوں میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جو بیہودہ کلام خریدتے ہیں تاکہ بغیر سوجھ بوجھ کے لوگوں کو اﷲ کی راہ سے بھٹکا دیں اور اس (راہ) کا مذاق اڑائیں، ان ہی لوگوں کے لئے رسوا کن عذاب ہے
Ahmed Ali اور بعض ایسے آدمی بھی ہیں جو کھیل کی باتوں کے خریدار ہیں تاکہ بن سمجھے اللہ کی راہ سے بہکائیں اور اس کی ہنسی اڑائیں ایسے لوگو ں کے لیے ذلت کا عذاب ہے
Ahmed Raza Khan اور کچھ لوگ کھیل کی باتیں خریدتے ہیں کہ اللہ کی راہ سے بہکادیں بے سمجھے اور اسے ہنسی بنالیں، ان کے لیے ذلت کا عذاب ہے،
Shabbir Ahmed اور انسانوں میں سے کوئی ایسا بھی ہے جو خرید کر لاتا ہے غافل کرنے والی باتیں تاکہ گمراہ کردے اللہ کی راہ سے بے سمجھے بوجھے۔ اور اڑائے اس (کی باتوں) کا مذاق۔ انہی لوگوں کے لیے ہے عذاب، رسوا کرنے والا۔
Literal And from the people who buys the information's/speeches' amusement/fun to misguide from God's way/path without knowledge, and He takes it mockingly/making fun, those, for them (is) a humiliating/degrading torture.
Yusuf Ali But there are, among men, those who purchase idle tales, without knowledge (or meaning), to mislead (men) from the Path of Allah and throw ridicule (on the Path): for such there will be a Humiliating Penalty.
Pickthal And of mankind is he who payeth for mere pastime of discourse, that he may mislead from Allah's way without knowledge, and maketh it the butt of mockery. For such there is a shameful doom.
Arberry Some men there are who buy diverting talk to lead astray from the way of God without knowledge, and to take it in mockery; those -- there awaits them a humbling chastisement.
صاحب ان آیات سے کسی طور ثابت نہیں ہوتا کہ یہ گانے بجانے کے بارے میں ہیں۔ پھر جو روایت منسوب کی جارہی ہے وہ رسول اللہ کا بیان نہیں ہے بلکہ ایک صحابی کا بیان ہے۔ اسلام اللہ تعالی کی آیات اور سنت رسول کا مجموعہ ہے ۔
لہذا ہمارا سوال اپنی جگہ ہے کہ ایک واضح آیت یا واضح سنت رسول (قول و عمل) کی ہونی ضروری ہے کسی چیز کو جائز یا ناجائز قرار دینے کے لئے۔
چونکہ اللہ تعالی ہی حاکم اور بنیادی اصول ساز اور بنیادی قانون ساز ہے، جس کے قوانین مفصل ہیں ۔ مبہم نہیں، ایک اصطلاح سے اتنی ساری بات نکالنا اپنی خواہشات کی تکمیل اور کچھ لوگوںکی اندھی تقلید ہے۔ دیکھئے
[AYAH]6:114[/AYAH] [ARABIC]
أَفَغَيْرَ اللّهِ أَبْتَغِي حَكَمًا وَهُوَ الَّذِي أَنْزَلَ إِلَيْكُمُ
الْكِتَابَ مُفَصَّلاً وَالَّذِينَ آتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ يَعْلَمُونَ أَنَّهُ مُنَزَّلٌ مِّن رَّبِّكَ بِالْحَقِّ فَلاَ تَكُونَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِينَ [/ARABIC]
(فرما دیجئے
کیا میں اﷲ کے سوا کسی اور کو حاکم (و فیصل) تلاش کروں حالانکہ
وہ (اﷲ) ہی ہے جس نے تمہاری طرف مفصّل (یعنی واضح لائحہ عمل پر مشتمل) کتاب نازل فرمائی ہے، اور وہ لوگ جن کو ہم نے (پہلے) کتاب دی تھی (دل سے) جانتے ہیں کہ یہ (قرآن) آپ کے رب کی طرف سے (مبنی) برحق اتارا ہوا ہے پس آپ (ان اہلِ کتاب کی نسبت) شک کرنے والوں میں نہ ہوں (کہ یہ لوگ قرآن کا وحی ہونا جانتے ہیں یا نہیں)
جب اللہ تعالی فیصلہ کرنے والے ہیں اور جب اللہ تعالی نے یہ کتاب مفصل عطا فرمائی ہے تو کیا وجہ ہے کہ ساری کائنات کو نغمہ و موسیقی و خوبصورتی سے بنانے والے نے، ہمیں نغمہ و موسیقی کو مطقاً حرام کرنے کا حکم واضح طور پر نہیں دیا؟
اللہ تعالی ، رسول اکرم سے سوال کرتے ہیں کہ تم کیوں اپنے اوپر وہ حرام کرتے ہو جو اللہ نے حلال کی ہے؟
[AYAH]66:1 [/AYAH]
اے نبی کیوں حرام کرتے ہو تم وہ چیز جو حلال کی ہے اللہ نے تمھارے لیے۔ (کیا) چاہتے ہو تم (اس طرح) خوشنودی اپنی بیویوں کی؟ اور اللہ ہے بہت معاف کرنے والا، رحم فرمانے والا۔
اللہ تعالی کو قوانین اور اصول بنانے کے لیے کسی بھی امام، صحابی، تابعین کی ضرورت نہیں ہے اور نہ تھی۔ بہت سے لوگ گمراہ کرتے ہیں اپنی خواہشات کو پورا کرنے کے لئے اور حد سے بڑھ جاتے ہیں۔
[AYAH]6:119[/AYAH] [ARABIC] وَمَا لَكُمْ أَلاَّ تَأْكُلُواْ مِمَّا ذُكِرَ اسْمُ اللّهِ عَلَيْهِ وَقَدْ فَصَّلَ لَكُم مَّا حَرَّمَ عَلَيْكُمْ إِلاَّ مَا اضْطُرِرْتُمْ إِلَيْهِ وَإِنَّ كَثِيرًا لَّيُضِلُّونَ بِأَهْوَائِهِم بِغَيْرِ عِلْمٍ إِنَّ رَبَّكَ هُوَ أَعْلَمُ بِالْمُعْتَدِينَ[/ARABIC]
آخر کیا وجہ ہے کہ تم نہیں کھاتے اس میں سے کہ لیا گیا ہو نام اللہ کا اس پر؟ جبکہ تفصیل سے بیان کرچُکا ہے تمہارے لیے (اللہ) وہ چیزیں جو حرام کردی ہیں اس نے تم پر سوائے اس صُورت کے کہ مجبور ہوجاؤ تم اس (کے کھانے) پر
اور بے شک بہت سے لوگ گمراہ کرتے ہیں دوسروں کو اپنی خواہشات کی بنا پر، بغیر علم کے۔ بے شک تیرا رب ہی خُوب جانتا ہے ان حد سے بڑھنے والوں کو۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب اللہ تعالی نے موسیقی کے بارے میں واضح طور پر منع نہیںفرمایا تو پھر موسیقی حرام ہوئی یا حلال۔ اس سوال کا جواب ہم کو صاف صاف اس آیت سے ملتا ہے کہ اپنی طرف سے اللہ پر بہتان مت باندھا کرو کہ یہ حلال ہے وہ حرام ہے۔
[AYAH]16:116[/AYAH]
اور وہ جھوٹ مت کہا کرو جو تمہاری زبانیں بیان کرتی رہتی ہیں کہ یہ حلال ہے اور یہ حرام ہے اس طرح کہ تم اللہ پر جھوٹا بہتان باندھو، بیشک جو لوگ اللہ پر جھوٹا بہتان باندھتے ہیں وہ (کبھی) فلاح نہیں پائیں گے
جب آپ جانتے ہیں کہ اللہ تعالی نے یہ کتاب مفصل عطا فرمائی ہے، وہی حرام و حلال کا قرار دینے والا ہے اور منع فرماتا ہے کہ جھوٹ مت کہا کرو کہ یہ حلال ہے یہ حرام ہے تو آپ کے پاس کیا وجہ ہے کہ اپنی خواہشات کی تکمیل کے لیے خود سے کسی ایسی شے کو حرام و حلال قرار دیں، جس کا تذکرہ اللہ تعالی نے نہیں فرمایا؟
کیا رسول اللہ کو غیب کا علم تھا؟ خود رسول اللہ کی زبان سے ، اللہ تعالی کے الفاظ سنئے، دیکھئے اور پڑھئے ۔۔۔۔
[AYAH]7:188[/AYAH] [ARABIC]
قُل لاَّ أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعًا وَلاَ ضَرًّا إِلاَّ مَا شَاءَ اللّهُ وَلَوْ كُنتُ أَعْلَمُ الْغَيْبَ لاَسْتَكْثَرْتُ مِنَ الْخَيْرِ وَمَا مَسَّنِيَ السُّوءُ إِنْ أَنَاْ إِلاَّ نَذِيرٌ وَبَشِيرٌ لِّقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ[/ARABIC]
Tahir ul Qadri آپ (ان سے یہ بھی) فرما دیجئے کہ میں اپنی ذات کے لئے کسی نفع اور نقصان کا خود مالک نہیں ہوں مگر (یہ کہ) جس قدر اللہ نے چاہا، اور (اسی طرح بغیر عطاءِ الٰہی کے)
اگر میں خود غیب کا علم رکھتا تو میں اَز خود بہت سی بھلائی (اور فتوحات) حاصل کرلیتا اور مجھے (کسی موقع پر) کوئی سختی (اور تکلیف بھی) نہ پہنچتی، میں تو (اپنے منصب رسالت کے باعث) فقط ڈر سنانے والا اور خوشخبری دینے والا ہوں ان لوگوں کو جو ایمان رکھتے ہیں٭
Ahmed Ali کہہ دو میں اپنی ذات کے نفع و نقصان کا بھی مالک نہیں مگرجو اللہ چاہے اور
اگر میں غیب کی بات جان سکتا تو بہت کچھ بھلائیاں حاصل کر لیتا اور مجھے تکلیف نہ پہنچتی میں تو محض ڈرانے والا اور خوشخبری دینے والا ہوں ان لوگوں کو جو ایمان دار ہیں
Ahmed Raza Khan تم فرماؤ میں اپنی جان کے بھلے برے کا خودمختار نہیں (ف366) مگر جو اللہ چاہے (ف367) اور
اگر میں غیب جان لیا کرتا تو یوں ہوتا کہ میں نے بہت بھلائی جمع کرلی، اور مجھے کوئی برائی نہ پہنچی (ف36
میں تو یہی ڈر (ف369) اور خوشی سنانے والا ہوں انہیں جو ایمان رکھتے ہیں،
Shabbir Ahmed کہہ دو! کہ نہیں اختیار رکھتا میں اپنی ذات کے لیے بھی کسی نفع اور نہ کسی نقصان کا، مگر یہ کہ چاہے اللہ۔
اور اگر ہوتا مجھے علم غیب کا تو ضرور حاصل کرلیتا میں بہت فائدے اور نہ پہنچتا مجھے کبھی کوئی نقصان۔ نہیں ہوں میں مگر خبردار کرنے والا اور خوش خبری سُنانے والا اُن لوگوں کے لیے جو میری بات مانیں۔
یہ آیت ہم کو بہت صاف صاف بتاتی ہے کہ رسول اکرم کو مستقبل کہ جو غائب ہے اس کا علم نہیں تھا۔ تو پھر اس بات کی کیا بنیاد ہے کہ رسول اللہ نے مستقبل کے بارے میں بتایا کہ ایسے لوگ ہونگے جو یہ کریں گے یا ایسے لوگ ہونگے جو یہ کریں گے یا تہتر فرقہ ہونگے۔ بھائی اس وقت 180 سے زائید فرقہ ہیں۔ ایسی پیشین گوئیاں جو رسول اللہ سے منسوب ہیں کم فہمی اور توہم پرستی کی بنیاد پر ہیں۔ اگر کسی کا ایمان قران پر ہے اور وہ یہ اس آیت پر ایمان رکھتا ہے تو یہاںاللہ تعالی خود رسول اللہ کو کہہ رہے ہیں کہ لوگو ں کو بتادو کہ یہ رسول غیب کا علم نہیں رکھتا۔ آپ اس پر لاکھ سر پٹک لیں، یہ آیت ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ رسول اللہ مستقبل کا حال نہیں جانتے تھے۔ جو کچھ ان پر آشکار کیا گیا وہی جانتے تھے، اور جو کچھ ان پر آشکار کیا گیا، وہ قرآن میں شامل ہے۔ اس بات کی کوئی مثال یا شہادت کسی آیت سے نہیںملتی کہ رسول اکرم کو مستقبل کا علم دیا گیا اور اس کو استعمال کرکے انہوں نے پیشین گوئیاں کیں۔
اگر یہ پیشین گوئیاںممکن نہیں تو قرآن کی اس آیت کی رو سے یہ روایت کہ
۔۔۔۔۔ آنے والے وقتوں میں کچھ لوگ ایسے ہونگے جوموسیقی کو جائز کریں گے۔۔۔۔۔۔
یہ ایک باطل اور گھڑی ہوئی روایت ہے، قرآن میں اور سنت رسول (قول و فعل رسول ) میںتضاد نہیں ہے۔ یہاں اس آیت میں، جو کہ حدیث رسول بھی ہے۔ رسول اکرم یہ فرمارہے ہیں کہ وہ مستقبل کا حال نہیں جانتے، جو غیب کا حال ہے وہ نہیں جانتے وہ کیا قران کی اس آیت کے خلاف ایسی پیشین گوئیاں کریں گے؟ میں جانتا ہوں کہ آپ میں سے بہت سے لوگوں کا "دین" اس بات کو گوارہ نہیں کرے گا۔ لیکن صاحب اگر اسلام قرآن سے نہیں تو پھر اور کیا ہے؟
رسول اکرم سے پیشین گوئیاں منسوب کرنے سے پہلے ، اس آیت کو بار بار پڑھ لیجئے۔ جن لوگوں کے ذہنوں میں اس سے قرآن کی پیشین گوئیاں آتی ہیں وہ مطمئن رہیں کہ یہ اللہ تعالی کی طرف سے کی گئی پیشین گوئیاں تھیں۔