]::::: اسلام میں موسیقی اور گانے ::::: پہلا حصہ ::: شرعی حیثیت :::::

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

دوست

محفلین
فی الحال ایمرجنسی طور پر یہ دو احادیث ٹائپ کی ہیں اس لیے کہ صرف عورتیں ہی نہیں گاتی تھیں مرد بھی گاتے تھے۔ جیسا کہ نیچے کی احادیث سے پتا چلتا ہے اور یہ غالبًا اس وقت کی روایات ہیں جب حضور ﷺ مدینہ میں ہجرت کرکے وارد ہوئے تھے۔
مسند کی ایک روایت
ان الحبشۃ کانو یدفون بین یدی رسول الل ﷺ ویرقصون و یقولون محمدعبد صالح۔ فقال ﷺ مایقولون؟ قال: محمد عبد صالح
حبشی لوگ حضور کے سامنے دف بجا بجا کر رقص کررہے تھے اور محمد عبد صالح گاتے جاتے تھے۔ حضور ﷺ نے پوچھا یہ کیا کہہ رہے ہیں۔ کہا: محمد عبد صالح کہہ رہے ہیں۔
مسند احمد کی روایت حضرت انس رض سے یوں مروی ہے
کانت الحبشۃ یزفنون بین یدی النبی ﷺ و یرقصون محمد عبد الصالح (جلد 3 صفحہ 152)
حبشی حضور ﷺ کے سامنے پاؤں مار مار کر (تھرک تھرک کر) ناچتے اور الاپتے تھے کہ محمد ﷺ اللہ کے صالح بندے ہیں۔
 
1۔ دوست آپ کا شکریہ کہ آپ نے رسول اکرم کے ایک فعل یعنی سنت رسول کو دوستوں کے سامنے رکھا، یہ روایات میں بھی ایک سے زائید کتاب میں پڑھ چکا ہوں۔ اگر دونوں طرف کی روایات ہوں تو ہم پر فرض‌ہے کہ ہم اپنے مذہب کی بنیادی کتاب سے رجوع کریں اور ان اصولوں کو دیکھیں جو ہماری ہمیشہ رہنمائی کرتے ہیں۔ آئیے دیکھتے ہیں۔

2۔ میں‌یہ سمجھتا ہوں‌ کہ رسول پر بہتان باندھنا ڈایریکٹ اللہ تعالی پر بہتان باندھنا ہے۔ جب بھی لوگوں نے رسول کو جھوٹا ٹھیرانے کی کوشش کی اللہ تعالی نے ایسے بہتان کو خود اپنے آپ پر بہتان تراشی کہا ، اسی لئے فرمایا کہ

[ayah]53:3[/ayah] [arabic]وَمَا يَنطِقُ عَنِ الْهَوَى[/arabic]
[ayah]53:4 [/ayah][arabic] إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَى [/arabic]
اور وہ (اپنی) خواہش سے کلام نہیں کرتے اُن کا ارشاد سَراسَر وحی ہوتا ہے جو انہیں کی جاتی ہے

یہ ثابت ہے کہ رسول اکرم اللہ کی طرف سے ارشاد کیا ہوا کلام کرتے تھے۔ اس لئے رسول پر بہتان باندھنا اللہ پر بہتان باندھنا ہوا۔

اگر اللہ تعالی نے کسی چیز یا کسی امر کو واضح طور پر حلال یا حرام نہیں فرمایا تو کوئی اس کو حلال یا حرام نہیں کرسکتا۔

1۔ حرام یا حلال کرنے کی نسبت اللہ اپنے رسول کو کیا فرمانے کا حکم دے رہے ہیں؟
[ayah]10:59[/ayah] [arabic] قُلْ أَرَأَيْتُم مَّا أَنزَلَ اللّهُ لَكُم مِّن رِّزْقٍ فَجَعَلْتُم مِّنْهُ حَرَامًا وَحَلاَلاً قُلْ آللّهُ أَذِنَ لَكُمْ أَمْ عَلَى اللّهِ تَفْتَرُونَ [/arabic]
فرما دیجئے: ذرا بتاؤ تو سہی اللہ نے جو رزق تمہارے لئے اتارا سو تم نے اس میں سے بعض کو حرام اور حلال قرار دے دیا۔ فرما دیں: کیا اللہ نے تمہیں اجازت دی تھی یا تم اللہ پر بہتان باندھ رہے ہو

اب اپنے آپ سے سوال کیجئے کہ آپ (‌جی آپ ) کو اللہ نے کسی بھی چیز یا امر کو حرام یا حلال کرنے کی اجازت دی ہے؟ جو لوگ زندہ ہیں ان سے یہ سوال کیا جائے گا۔ جو لوگ نہیں ہیں ان کا عمل ان کے سر۔

جس چیز کے بارے میں آپ کو تفصیل نہییں بتائی گئی، جیسے موسیقی، اس پر کیا آپ سوال در سوال کرتے رہیں گے یا اصطلاحات میں کھوجتے رہیں گے؟
[ayah]5:101[/ayah] [arabic]يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ لاَ تَسْأَلُواْ عَنْ أَشْيَاءَ إِن تُبْدَ لَكُمْ تَسُؤْكُمْ وَإِن تَسْأَلُواْ عَنْهَا حِينَ يُنَزَّلُ الْقُرْآنُ تُبْدَ لَكُمْ عَفَا اللّهُ عَنْهَا وَاللّهُ غَفُورٌ حَلِيمٌ[/arabic]
اے ایمان والو! مت پُوچھو ایسی باتیں کہ اگر ظاہر کردی جائیں تم پر تو بُری لگیں گی تمہیں اور اگر پُوچھو گے تم یہ باتیں ایسے وقت کہ نازل ہورہا ہے قرآن تو ظاہرکردی جائیں گی تم پر۔ درگزر کیا اللہ نے اُن سے اور اللہ بخشنے والا، بردبار ہے۔

موسیقی حلال یا حرام ہونے کا کوئی ثبوت قرآن ا کسی مستند قول و فعل رسول سے نہیں ملتا ہے۔ لہذا یہ ان امور میں‌شامل ہوئی جن کا فیصلہ باہمی مشورہ سے کیا جاتا ہے۔ اب تک کی تاریخ‌گواہ ہے کہ کسی اجتماعی جماعت نے موسیقی کو حرام کرنے کے لئے کوئی اجتماعی قانون نہیں بنایا۔ انفرادی قانون ساز امام، فقہا یا مولوی یا ٹیچر کی بارے میں بات نہیں ہورہی ہے بلکہ قانون ساز شوری کی بات ہورہی ہے۔

یہ مسئلہ اس طرح‌ کا ہے کہ آپ کار کافروں (برطانویوں اور استراالویوں) کی طرح سڑک کے دائین طرف چلائیں گے ؟ یا پھر کافروں (امریکیوں، کنیڈین ) کی طرح سڑک کے بائیں‌طرف چلائیں گے؟

یا پھر مسلمانوں کی طرح سڑک کے بیچوں‌بیچ چلائیں گے؟

تھوڑی سی بکواس کی اجازت دیجئے:
اگر آپ نے کار چلانے میں‌ کفار کے طور طریقوں پر عمل کیا تو آپ بھی کافر ہوئے۔ اسی طرح‌آپ نے اگر کافروں کا ایجاد کیا ہوا کمپیوٹر استعمال کیا جس پر موسیقی سنی جاسکتی ہے تو یہ بھی حرام ہوا۔ اس لئے جو لوگ موسیقی کو حرام سمجھتے ہیں وہ فوراً اس کمپیوٹر کو استعمال کرنا چھوڑ دیں۔ کہ یہ کمپیوٹر موسیقی کا ایک حرام باجا ہے۔

کار کس طرف چلانا حرام ہے اور کس طرف چلانا حلال ہے؟ قرآن کی آیات اور مستند روایات سے ثابت کیجئے۔ کیا ٹیلیفون یا کمپیوٹر استعمال کیا جاسکتا ہے؟ ذہن مین رکھئے کہ یہ موسیقی کے لئے استعمال ہوسکتے ہیں؟

بھائی اگر یہ ساری بات لہو الحدیث نہیں تو پھر اور کیا ہے۔ موسیقی کے بارے میں ایسی بحث کرنا ہی لہو الحدیث ہے۔ ایسی بحث ایسی بات جو بے معنی ہو یقیناً حرام ہے۔
 

یہ مسئلہ اس طرح‌ کا ہے کہ آپ کار کافروں (برطانویوں اور استراالویوں) کی طرح سڑک کے دائین طرف چلائیں گے ؟ یا پھر کافروں (امریکیوں، کنیڈین ) کی طرح سڑک کے بائیں‌طرف چلائیں گے؟

یا پھر مسلمانوں کی طرح سڑک کے بیچوں‌بیچ چلائیں گے؟

تھوڑی سی بکواس کی اجازت دیجئے:
اگر آپ نے کار چلانے میں‌ کفار کے طور طریقوں پر عمل کیا تو آپ بھی کافر ہوئے۔ اسی طرح‌آپ نے اگر کافروں کا ایجاد کیا ہوا کمپیوٹر استعمال کیا جس پر موسیقی سنی جاسکتی ہے تو یہ بھی حرام ہوا۔ اس لئے جو لوگ موسیقی کو حرام سمجھتے ہیں وہ فوراً اس کمپیوٹر کو استعمال کرنا چھوڑ دیں۔ کہ یہ کمپیوٹر موسیقی کا ایک حرام باجا ہے۔

کار کس طرف چلانا حرام ہے اور کس طرف چلانا حلال ہے؟ قرآن کی آیات اور مستند روایات سے ثابت کیجئے۔ کیا ٹیلیفون یا کمپیوٹر استعمال کیا جاسکتا ہے؟ ذہن مین رکھئے کہ یہ موسیقی کے لئے استعمال ہوسکتے ہیں؟

بھائی اگر یہ ساری بات لہو الحدیث نہیں تو پھر اور کیا ہے۔ موسیقی کے بارے میں ایسی بحث کرنا ہی لہو الحدیث ہے۔ ایسی بحث ایسی بات جو بے معنی ہو یقیناً حرام ہے۔
کیا استدلال پیش فرمایا ہے۔
 
مجھے یقین تھا کہ آپ کو میری بکواس واضح نظر آجائے گی اور اس کی روشنی مٰں موسیقی کے حلال یا حرام ہونے کی بحث بھی ایک بکواس سے زیادہ نہیں،

میری طرف سے واضح کردینے کے بعد بھی کہ یہ بکواس ہے، آپ میری اس بکواس پر غور فرمانے سے پہلے۔ کام کی بات یعنی کلام اللہ پر غور کیجئے۔

میری بکواس کو بکواس ہی رہنے دیجئے۔ استدلال قرار نہیں دیجئے۔ لہو الحدیث یعنی بے کار بات یعنی بکواس حرام ہے اس پر غور کیجئے۔

اگر آپ کی نظر اوپر دی ہوئی آیات پر نہیں پڑی تو کیا وہ آٰیات دوبارہ نذر کروں؟
 
اللہ کی کتاب قرآن جن کتب پر ایمان لانے کے لئے کہتی ہے ، ان میں سے ایک ہے زبور۔
آپ دنیا بھر سے زبور کا ایک بھی نسخہ ایسا دکھا دیجئے جو نثر میں‌ہو اشعار میں نہ ہو۔
آپ دنیا بھر میں زبور کے نغمے مع موسیقی کے اللہ کی حمد میں گانے والوں کی عبادت کا کوئی ایسا طریقہ دکھا دیجئے جہاں‌موسیقی نہ ہو اور یہ اشعار نہ ہوں۔ ان کا مذہب بہت پہلے سے چلا آرہا ہے۔ جو کہ حضرت داؤد علیہ السلام کے زمانے سے ہیں۔ جو جب عبادت کرتے تھے تو پہاڑ‌اور پرندے ان کے ساتھ ان ہی نغموں کی تسبیح کرتے تھے۔ آپ اتنی بڑی شہادت کیسے رد کرسکتے ہیں؟
السلام علیکم و رحمۃُ اللہ و برکاتہ ، فاروق بھائی ، سابقہ نازل شدہ کتابوں اور سابقہ امتوں میں کیے جانے والے کاموں سے اس آخری شریعت کے احکام اخذ کرنے کے بارے میں ایک مضمون بعنوان """ سابقہ نازل شدہ کتابوں اور سابقہ امتوں میں کیے جانے والے کاموں کی شرعی حیثیت """ ملاحظہ کیجیے ،
دیکھئے، اللہ کی حمد ثناء کے گیت گانے کے بارے میں۔ اگر موسیق یا گیت گانا حرام ہوا تو ایسی روایت ممکن ہی نہیں تھی کہ فرشتے اللہ کے تعریفی گیت گاتے ہیں۔ اگر گیت گانا گناہ ہوتا تو فرشتے جو معصوم ہیں کیسے اللہ کے تعریفی گیت گاتے؟
http://www.usc.edu/dept/MSA/fundamentals/hadithsunnah/muslim/026.smt.html#026.5538
فاروق بھائی یہاں صحیح مسلم کی جس حدیث کے ترجمے میں سے آپ شاید انگریزی کے الفاظ """ Then (the Angels) supporting the Throne sing His glory, then sing the dwellers of heaven who are near to them until this glory of God reaches them who are in the heaven of this world. """"کو اپنی دلیل بنا رہے ہیں ، اس حدیث کا عربی متن مندرجہ ذیل ہے ،
((( أَنَّهُمْ بَيْنَمَا هُمْ جُلُوسٌ لَيْلَةً مع رسول اللَّهِ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم رُمِيَ بِنَجْمٍ فَاسْتَنَارَ فقال لهم رسول اللَّهِ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم مَاذَا كُنْتُمْ تَقُولُونَ في الْجَاهِلِيَّةِ إذا رُمِيَ بِمِثْلِ هذا قالوا الله وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ كنا نَقُولُ وُلِدَ اللَّيْلَةَ رَجُلٌ عَظِيمٌ وَمَاتَ رَجُلٌ عَظِيمٌ فقال رسول اللَّهِ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم فَإِنَّهَا لَا يُرْمَى بها لِمَوْتِ أَحَدٍ ولا لِحَيَاتِهِ وَلَكِنْ رَبُّنَا تَبَارَكَ وَتَعَالَى اسْمُهُ إذا قَضَى أَمْرًا سَبَّحَ حَمَلَةُ الْعَرْشِ ثُمَّ سَبَّحَ أَهْلُ السَّمَاءِ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ حتى يَبْلُغَ التَّسْبِيحُ أَهْلَ هذه السَّمَاءِ الدُّنْيَا ثُمَّ قال الَّذِينَ يَلُونَ حَمَلَةَ الْعَرْشِ لِحَمَلَةِ الْعَرْشِ مَاذَا قال رَبُّكُمْ فَيُخْبِرُونَهُمْ مَاذَا قال قال فَيَسْتَخْبِرُ بَعْضُ أَهْلِ السَّمَاوَاتِ بَعْضًا حتى يَبْلُغَ الْخَبَرُ هذه السَّمَاءَ الدُّنْيَا فَتَخْطَفُ الْجِنُّ السَّمْعَ فَيَقْذِفُونَ إلى أَوْلِيَائِهِمْ وَيُرْمَوْنَ بِهِ فما جاؤوا بِهِ على وَجْهِهِ فَهُوَ حَقٌّ وَلَكِنَّهُمْ يَقْرِفُونَ فيه وَيَزِيدُونَ أَنَّهُمْ بَيْنَمَا هُمْ جُلُوسٌ لَيْلَةً مع رسول اللَّهِ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم رُمِيَ بِنَجْمٍ فَاسْتَنَارَ فقال لهم رسول اللَّهِ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم مَاذَا كُنْتُمْ تَقُولُونَ في الْجَاهِلِيَّةِ إذا رُمِيَ بِمِثْلِ هذا قالوا الله وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ كنا نَقُولُ وُلِدَ اللَّيْلَةَ رَجُلٌ عَظِيمٌ وَمَاتَ رَجُلٌ عَظِيمٌ فقال رسول اللَّهِ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم فَإِنَّهَا لَا يُرْمَى بها لِمَوْتِ أَحَدٍ ولا لِحَيَاتِهِ وَلَكِنْ رَبُّنَا تَبَارَكَ وَتَعَالَى اسْمُهُ إذا قَضَى أَمْرًا سَبَّحَ حَمَلَةُ الْعَرْشِ ثُمَّ سَبَّحَ أَهْلُ السَّمَاءِ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ حتى يَبْلُغَ التَّسْبِيحُ أَهْلَ هذه السَّمَاءِ الدُّنْيَا ثُمَّ قال الَّذِينَ يَلُونَ حَمَلَةَ الْعَرْشِ لِحَمَلَةِ الْعَرْشِ مَاذَا قال رَبُّكُمْ فَيُخْبِرُونَهُمْ مَاذَا قال قال فَيَسْتَخْبِرُ بَعْضُ أَهْلِ السَّمَاوَاتِ بَعْضًا حتى يَبْلُغَ الْخَبَرُ هذه السَّمَاءَ الدُّنْيَا فَتَخْطَفُ الْجِنُّ السَّمْعَ فَيَقْذِفُونَ إلى أَوْلِيَائِهِمْ وَيُرْمَوْنَ بِهِ فما جاؤوا بِهِ على وَجْهِهِ فَهُوَ حَقٌّ وَلَكِنَّهُمْ يَقْرِفُونَ فيه وَيَزِيدُونَ ))) صحیح مسلم ، کتاب السلام ، باب تحریم الکھانۃ و اتیان الکھان ،
فاروق بھائی ذرا دیکھیے تو ، کہاں ہیں ایسے الفاظ جنہیں """sing""" کہا جائے ، میرے بھائی اگر آپ تراجم اور بھی ایسی زبان میں جو عربی سے بالکل دور ہے ، اُن تراجم میں استعمال شدہ الفاظ کی بنیاد پر قران و حدیث کو سمجھیں گے تو پھر ایسا ہو گا ہی ، میرے بھائی ، قران و سنت کو اس طرح کے ترجموں کی مدد سے نہیں سمجھا جانا چاہیے ، اور نہ ہی ایسے ذرائع سے جو اللہ کی مقرر کردہ کسوٹیوں پر پورے نہ اترتے ہوں ،
اس حدیث کے علاوہ آپ نے کچھ اور احادیث کے ترجموں کے لنک بھی لکھے ہیں ، کیا ہی اچھا ہو کہ اُن احادیث کا عربی متن اپنے ترجمے کے ساتھ ذکر کیجیے ، تو ان شاء اللہ ان پر بات کی جائے ،
کیا مزے کی بات ہے کہ قرآن نغمہ یا موسیقی کے بارے میں کچھ بھی نہیں کہتا پھر بھی لوگ، مبہم باتوں سے اپنی خواہشات کے مطابق اپنا رنگ پیش کرتے ہیں۔ اور کہیں کی آیت کہیں لگاتے ہیں
جی نہیں فاروق بھائی ، مزے کی نہیں افسوس کی بات ہے قران و سنت کی بات کو لوگ کن ذرائع سے سمجھتے ہیں اور جو ذریعے اللہ نے مقرر کیے ہیں اُن کی طرف کم کم ہی آتے ہیں ، جس کی ایک مثال ابھی ابھی آپ کی بات میں سے میں نے ذکر کی ہے ، فاروق بھائی ، شریعت کے احکام سمجھنے کے لیے اللہ کی مقرر کردہ کسوٹیاں جاننے کے لیے """ احکام شریعت سمجھنے کی کسوٹیاں """ ملاحظہ فرمائیے ، و السلام علیکم ۔
 
بھائی عادل آپ نے بہت ساری باتیں ایک ہی سانس میں کردی ہیں۔ قران اور کتب روایات دو مختلف قسم کی کتب ہیں۔ چونکہ الگ الگ کتب ہیں لہذا ان کو الگ الگ ہی پڑھا اور سمجھا جائے گا۔

قرآن کے لئے میں 23 تراجم پر مشتمل ایک حوالہ اوپن برہان ڈاٹ نیٹ استعمال کرتا ہوں۔ لہذا کوئی مغالطہ نہیں ہوتا۔ پھر میرا اپنی عربی پروفیشیئنسی الحمد للہ کافی حد تک بہتر ہے، اس لئے کوئی دشواری نہیں ہوتی ہے۔

رہی کتب روایات کی بات تو بھائی ان کتب میں‌روایات کی تعداد، متن، تراجم، ترتیب، اور قدامت سے اس قدر فرق پڑتا ہے کہ بہت کم روایات قابل اعتبار ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ میں‌ روایات کا حوالہ دینے سے حتی الامکان احتراز و پرہیز کرتا ہوں۔ کہ آپ ایک روایات پیش کریں اور فوراً اختلافی روایتوں کی غلیل بای شروع ہوجاتی ہے۔ تو برادر من آپ اس حوالہ کو ڈسکاؤنٹ کردیجئے۔

اقباس:
جی نہیں فاروق بھائی ، مزے کی نہیں افسوس کی بات ہے قران و سنت کی بات کو لوگ کن ذرائع سے سمجھتے ہیں اور جو ذریعے اللہ نے مقرر کیے ہیں اُن کی طرف کم کم ہی آتے ہیں ، جس کی ایک مثال ابھی ابھی آپ کی بات میں سے میں نے ذکر کی ہے ، فاروق بھائی ، شریعت کے احکام سمجھنے کے لیے اللہ کی مقرر کردہ کسوٹیاں جاننے کے لیے """ احکام شریعت سمجھنے کی کسوٹیاں """ ملاحظہ فرمائیے ، و السلام علیکم ۔


جو کہنے جارہا ہوں، اس پر پیشگی معذرت۔ معاف کیجئے، میرا مذہب شریعت نہیں، میرا مذہب صرف اور صرف قرآن و سنت پر مبنی اسلام ہے۔ سنت کو پرکھنے کی صرف ایک کسوٹی وہ ہے قران۔

آپ دیکھیں گے کہ جہاں‌بھی اضافیات یا اسرئیلیات استعمال ہونگی۔ وہاں اسلام کا نام فوراً‌ تبدیل ہو کر شریعت ہو جاتا ہے۔ سنی ازم ، شیعہ ازم ہو جاتا ہے۔ طریقت ہوجاتا ہے۔ اب میں اپنا سوال دہراؤں گا۔

واضح آیات یا سنت سے موسیقی وغیرہ کو ترک کیے جانے ، حرام قرار دیے جانے کے بارے میں میں جاننا، ہمارا اور آپ کا حق ہے یا نہیں ؟ لہذا میرا سوال برقرار ہے کہ ایک عدد ایسی آیت یا مستند روایت کہ اپنے اعمال و اقوال سے رسول اکرم نے موسیقی کو منع فرمادیا۔ پیش کردی جائے تو بہت آسانی رہے گی۔ آپ جانتے ہیں‌ کہ اس پر صاف اور واضح دلائل 1400 سال سے موجود نہیں ہیں۔
 

دوست

محفلین
یہ ہمیشہ سے ایک متنازعہ مسئلہ رہا ہے۔ امت کے ایک طبقے خصوصًا فقہا نے اسے فتنے کے ڈر سے ہمیشہ حرام قرار دینے کی کوشش کی لیکن ہمارے پاس تواتر سے رسول اللہ ﷺ کی احادیث موجود ہیں جن سے یہ ثابت ہے کہ آپ ﷺ نے گانا سنا۔ میرے دوست تو اس بات سے ہی تھرا جاتے ہیں کہ "ہیں رسول اللہ ﷺ نے گانا سنا" ان کے خیال میں یہ معاذ اللہ ان پر بہتان عظیم ہے۔ جبکہ اوپر کسی پوسٹ میں آپ امام تمیبہ کا قول سادہ سا گانا بھی دیکھ چکے ہونگے۔ ہماری سمجھ میں یہ کیوں نہیں آتا کہ وہ سادہ سا گانا جس میں دف شامل تھا آج بھی تو حلال ہوسکتا ہے۔ اس وقت اگر طبلہ، سارنگی، ستار اور ہارمونیم نہیں تھا تو 1400 سال میں اتنی تو رعایت ہونی چاہیے کہ ان کو ایجاد کرکے شامل کیا جاسکے۔ موسیقی کی درجہ بندی کی جاسکے، مختلف راگ ایجاد کیے جاسکیں اور عربی کے علاوہ علاقائی زبان گانے کے لیے استعمال کی جاسکے۔ لیکن ہمارے علماء تو اسی خوشی کے موقعے اور عید کے موقعے اور ایک دف پر اٹک جاتے ہیں۔ جب ہماری ثقافت ہی نہیں دف تو ہم کیسے دف پر گا سکتے ہیں عربوں کی تو ثقافت تھی۔ گانا صرف خوشی کے موقع پر ہی ثابت نہیں ہے۔
 

وجی

لائبریرین
محترم وجی صاحب !
پوسٹ نمبر:53 میں جو فتویٰ جس سائیٹ سے کاپی کیا گیا ہے ، براہ مہربانی اس سائیٹ کا حوالہ بھی ضرور دیا کریں۔ حالانکہ ہم میں سے بیشتر کو اس سائیٹ کا پتا ہے۔ پھر بھی یہ دیانتداری کا تقاضا ہے اور دوسرے اس سائیٹ پر بھی یہ اعلان درج ہے کہ مواد اگر دوسری جگہ کاپی کیا جائے تو ان کی سائیٹ کا حوالہ ضرور دیا جائے۔
دوسرے یہ کہ میری ناقص سمجھ میں یہ بات نہیں‌ آ سکی کہ آپ فونٹ کا سائز ہمیشہ اتنا بڑا کیوں رکھتے ہیں؟ نارمل فونٹ‌ سائز کیوں‌ استعمال نہیں کرتے ؟ اگر آپ کو نظر کا کوئی مسئلہ ہے تو اس کے حل کے دیگر طریقے بھی ہیں‌ مگر یہ طریقہ درست نہیں کہ اس سے دیگر تمام صارفین کا حرج ہوتا ہے۔
تیسری اور آخری بات یہ کہ ۔۔۔۔ کیا یہ کافی نہیں‌ ہے کہ پورا مواد جوں کا توں‌ یہاں کاپی کرنے کے بجائے صرف متعلقہ ربط دے دیا جائے؟؟
امید کہ میری گذارشات کا برا نہیں مانیں‌ گے۔

یہ لیں باذوق صاحب وہ ربط

اور فونٹ سائیز بڑا رکھنا اگر آپ کو برا لگتا ہے تو میں کیا کرو بھائی مجھے اچھا لگتا ہے اور نظر کا مجھے کوئی مثلہ نہیں ہے
 

دوست

محفلین
سورہ لقمان کی آیت 6 کو یہاں گانے کی حرمت کے دلائل میں پیش کیا گیا۔ اس کی تفاسیر آپ کم از کم دو پوسٹس میں پڑھ چکے ہونگے۔ اب یہ بھی پڑھ لیجیے۔ عقل سلیم سے تو اللہ کریم نے سب کو نوازا ہے امید ہے مطالب و معانی واضح ہوجائیں گے۔
لھو الحدیث
یہ ہم پہلے لکھ چکے ہیں کہ قرآن کریم اس باب میں‌خاموش ہے۔ بلکہ ہر حسن و جمال کو پسند کرتا ہے خواہ اس کا تعلق دید سے ہو یا شنید سے، لیکن بعض آیات ایسی بھی ہیں جن کو بعض علماء نے غنا کے عدم جواز کی دلیل کے طور پر پیش کیا ہے۔ ایک مشہور آیت یہ ہے۔
. وَمِنَ النَّاسِ مَن يَشْتَرِي لَهْوَ الْحَدِيثِ لِيُضِلَّ عَن سَبِيلِ اللَّهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَيَتَّخِذَهَا هُزُوًا أُولَئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ مُّهِينٌ۔ وَإِذَا تُتْلَى عَلَيْهِ آيَاتُنَا وَلَّى مُسْتَكْبِرًا كَأَن لَّمْ يَسْمَعْهَا كَأَنَّ فِي أُذُنَيْهِ وَقْرًا فَبَشِّرْهُ بِعَذَابٍ أَلِيمٍ (لقمان6۔7)
ترجمہ: بعض آدمی ایسے بھی ہیں جو "لہو حدیث" خریدتے ہیں تاکہ بغیر کسی دانست کے راہ خدا سے بھٹکائیں اور آیات ربانی کا مذاق بنائیں، یہ ہیں جن کے لیے اہانت آمیز سزا ہے، جب اس پر ہماری آیات تلاوت کی جاتی ہیں تو سرکشی کے ساتھ اس طرح رخ پھیر لیتا ہے گویا اس نے سنا ہی نہیں جیسے اس کے کانوں میں ڈاٹ پڑی ہو، لہذا سے تو دردناک سزا کی خوشخبری سنا دیجیے۔
بات بہت صاف ہے۔ سیاق و سباق نے بھی کوئی الجھن نہیں رہنے دی۔ لیکن مفسرین اس آیت کی مختلف تفاسیر کرتے ہیں۔ ان کو ہم تفسیر ابن کثیر کے صفحہ 441-42 سے الگ الگ نقل کرتے ہیں۔
1۔ یہ آیت عطف ہے اوپر کی آیت پر (جس میں‌ محسنین مفلحین کا ذکر ہے) اس میں‌ ان بدبختوں کا ذکر ہے جو کلام الٰہی سن کر فائدہ اٹھانے کی طرف سے بے رُخی برتتے ہیں اور مزامیر اور سو ز و ساز سننے کی طرف متوجہ ہوجاتے ہیں۔
2۔ ابوصہبا بکری سے روایت ہے کہ عبد اللہ بن مسعود سے اس آیت کے بارے میں دریافت کیا گیا تو ان کو یہ کہتے سنا کہ قسم اس ذات کی جس کے سوا کوئی الہ نہیں، اس سے مراد غنا (گانا) ہے۔ ابن مسعود نے تین بار اسے دوہرایا۔
3۔ ابن عباس، جابر، عکرمہ، سعید بن جبیر، مجاہد، مکحول، عمرو بن شعیب اور علی بن بذیمہ سے بھی یہی تفسیر مروی ہے۔
4۔ حسن بصری کہتے ہیں کہ یہ آیت غنا و مزامیر کے متعلق نازل ہوئی۔
5۔ قتادہ کہتے ہیں اس آیت میں یشتری سے مراد یہ نہیں‌کہ اس میں‌روپیہ صرف کیا جاتا ہے بلکہ اس سے مراد انسان کا اپنی حد کے اندر گمراہی کو یوں پسند کرنا ہے کہ وہ باطل گفتگو کو گفتگوئے حق پر اور مضر کو نفع بخش چیز پر ترجیح دے کر اختیار کرے۔
6۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ یہاں خریدنے سے مراد گانے والی لڑکیوں کو خریدنا ہے۔
7۔ ابوامامہ حضور ﷺ کا یہ ارشاد نقل کرتے ہیں کہ گانے والی عورتوں کی خرید و فروخت جائز نہیں اور ان کی قیمت کھانا حرام ہے۔ (سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر گانے والی عورت کو فروخت کرکے قیمت کھانا حرام ہے تو نا گانے والی عورت کو فروخت کرکے قیمت کھانا کب حلال ہوگا؟) اور ان ہی کے معتلق یہ آیت نازل ہوئی ہے۔
8۔ ترمذی اور ابن جریر نے بھی عبید اللہ بن زمر سے اس طرح کی روایت کو نقل کیا ہے۔
9۔ اپنی ہی اس روایت کو ترمذی نے غریب اور اس کے ایک راوی علی بن یزید کو ضعیف بتایا ہے۔
10۔ میں (ابن کثیر) کہتا ہوں‌کہ علی بن یزیدا ور ان کے شیخ اور ان سے روایت کرنے والا سب کے سب ضعیف ہیں۔
11۔ ضحاک اس آیت کے متعلق کہتے ہیں کہ اس سے مراد شرک ہے اور یہی قول عبد الرحمن بن زید بن اسلم کا بھی ہے۔
12۔ ابن جریر کی اختیار کردہ تفسیر یہ ہے کہ ہر وہ کلام جو آیات الہی اور اتباع راہ خداوندی سے روک دے (وہ لھو الحدیث ہے)۔
ان تمام تفاسیر کو سمیٹا جائے تو مندرجہ ذیل تفاسیر حاصل ہوتی ہیں۔
1۔ گانا بجانا (غنا و مزامیر)
2۔ گفتار باطل کو گفتگوئے حق کے مقاملے میں اورضرر رساں باتوں کو نفع بخش کے مقابلے میں اختیار کرنا۔
3۔ گانے والی لڑکیوں کی خرید و فروخت۔
4۔ شرک
5۔ ہر وہ کلام جو آیات الہی اور اتباع الہی سے روک دے۔
ان پانچ تفاسیر میں سے کسی ایک کو دلائل کی ترجیح کے ساتھ مان لینے کا ہر ایک کو حق حاصل ہے۔ اور اگر کوئی عقل سلیم دوسری تفسیر بھی پیدا کرسکے تو اس سے بھی روکا نہیں جاسکتا۔ جہاں تک ہم غور کرسکے ہیں لہو الحدیث کے معنی گانا بجانا، یا گانے والی لڑکیاں یا شرک لینے کی کوئی معقول وجہ معلوم نہیں ہوتی۔ اسے سردست چھوڑئیے کہ تفسیری روایات کا مقام کیا ہے اور اسے بھی جانے دیں کہ ترمذی اور ابن کثیر نے گانے والی لڑکیوں‌کی تفسیر والی روایت کو خود ہی ساقط الاعتبارقرار دیا ہے۔ دیکھنے کی بات تو یہ ہے کہ لفظ میں کوئی ایسا پہلو موجود ہے جس میں‌لغوی حیثیت سے یا تفسیرالقرآن بالقرآن کے اصول کے مطابق گانے بجانے کا کوئی مفہوم داخل کیا جاسکے؟ عربی لغات سے "لھو" کے معنی دیکھ لیجیے اور "حدیث" کے معنی بھی دیکھ لیجیے ۔ پھر اس آیت کے سیاق و سباق کو دیکھ لیجیے اور قرآن کریم کی ان آیات کو بھی دیکھ لیجیے جن میں یہ لفظ آئے ہیں بات واضح ہوجائے گی۔
لھو کے معنی:
امام راغب اصفہانی اپنی مفردات میں لکھتے ہیں:
جو چیز انسان کو مفید مطلب بات سے ہٹا دے وہ لہو ہے۔
صاحب اقرب لموارد لکھتے ہیں:
لھو وہ چیز ہے جس میں انہماک پیدا ہوجائے اور غفلت و بے توجہی ہوجائے خواہ وہ کوئی خواہش ہو کیف ہو یا کچھ اور ۔ صاحب تعریفات لکھتے ہیں لہو وہ چیز ہے جس سے انسان لطف حاصل کرلے اور وہ اسے غافل کردے پھر وہ گذر جائے۔ طرطوسی کہتے ہیں لہو کے اصل معنی ہیں‌خلاف حکمت طریقے سے دل خوش کرنا۔
قرآن میں لفظ لھو:
إِنَّمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا لَعِبٌ وَلَهْوٌ(سورہ محمد ﷺ 36)
بس دنیا کی زندگی تو محض کھیل اور تماشا ہے(قرآن میں‌چار جگہ دنیا کو کھیل تماشا قرار دیا گیا ہے ہم نے صرف ایک مثال پر اکتفا کی ہے)
وَذَرِ الَّذِينَ اتَّخَذُواْ دِينَهُمْ لَعِبًا وَلَهْوًا وَغَرَّتْهُمُ الْحَيَاةُ الدُّنْيَا(الانعام 70)
اور آپ ان لوگوں کو چھوڑے رکھیئے جنہوں نے اپنے دین کو کھیل اور تماشا بنا لیا ہے۔
پہلی آیت میں حیات دنیا ایک قرآنی اصطلاح ہے جس کے معنی ایسی زندگی کے ہیں جس کا رخ اسلام کی طرف نہ ہو، اور جس زندگی کا رخ اسلام کی طرف ہو وہ حیات طیبہ ہے۔ غیر اسلامی زندگی کو "لھو" کہا گیا ہے اور اس کے لھو ہونے میں کوئی شک نہیں۔ گویا دنیا کی زندگی فی نفسہ لہو نہیں یہ اس وقت لہو بنتی ہے جب اس کا رخ غلط سمت کی طرف ہوجاتا ہے۔ اسی طرح دوسری آیت میں دین فی نفسہ لہو نہیں، دین تو سرتاپا حقیقت ہے لیکن جب اس کا مصرف غلط لیا جائے یا اسے Exploit کیاجائے تو یہی دین کھیل اور لھو ہوجاتا ہے۔
اس کے بعد لفظ "حدیث" کو دیکھیے۔ اس کا سیدھا سادا ترجمہ ہماری زبان میں "بات " ہے۔ خواہ منظوم ہو یا منثور۔ خدا کا کلام ہو یا انسان کا۔ بیداری میں ہو یا خواب میں۔اپنے آپ سے ہو یا کسی سے مخاطب ہوکر۔ اعلٰی گفتگو ہو یا بیہودہ بکواس، گاکر ہو یا بے گائے، یہ ساری اقسام گفتگو حدیث کے لفظ میں آجاتی ہیں۔
لہذا خلاصہ یہ نکلا کہ "لھو الحدیث" کا مطلب ہر ایسی گفتگو ہے جو دلچسپ تو ہو لیکن کوئی اعلٰی مقصد پیش نظر نہ ہو۔ ایسی گفتگو اپنے درجے کے لحاظ سے ایک اضافی حقیقت ہے۔ جو مطلق مباح بھی ہوسکتی ہے اور مستحب بھی، مکروہ بھی اور حرام بھی۔ اگر محض تفریح، اظہار خوشی یا اعلان مقصود ہو تو اس کے مستحب ہونے میں کوئی شک و شبہ نہیں۔ اگر بے مقصد شوروغل مقصود ہے تو بلاشبہ یہ مکروہ تنزیہی ہوگا۔ اور اگر بقول ابن جریر، اس کا مقصد راہ حق سے ہٹانا ہو تو اس کے حرام ہونے میں کوئی شبہ نہیں۔ یہی ہے لھو الحدیث کی وہ قسم جو زیر بحث آیت میں صاف لفظوں میں بیان کی گئی ہے۔
. وَمِنَ النَّاسِ مَن يَشْتَرِي لَهْوَ الْحَدِيثِ لِيُضِلَّ عَن سَبِيلِ اللَّهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَيَتَّخِذَهَا هُزُوًا أُولَئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ مُّهِينٌ
بعض آدمی ایسے بھی ہیں جو "لہو حدیث" خریدتے ہیں تاکہ بغیر کسی دانست کے راہ خدا سے بھٹکائیں اور آیات ربانی کا مذاق بنائیں ۔۔۔۔
اسی کیفیت کی تشریح اگلی آیت میں یوں بیان ہوئی ہے۔
وَإِذَا تُتْلَى عَلَيْهِ آيَاتُنَا وَلَّى مُسْتَكْبِرًا كَأَن لَّمْ يَسْمَعْهَا كَأَنَّ فِي أُذُنَيْهِ وَقْرًا فَبَشِّرْهُ بِعَذَابٍ أَلِيمٍ
اور جب اس پر ہماری آیتیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو وہ غرور کرتے ہوئے منہ پھیر لیتا ہے گویا اس نے انہیں سنا ہی نہیں، جیسے اس کے کانوں میں (بہرے پن کی) گرانی ہے، سو آپ اسے دردناک عذاب کی خبر سنا دیں۔
ایسے لہو حدیث کی خریداری کو کون مسلمان حرام نہ کہے گا؟ یہ نظم ہو، نثر ہو، غنا و مزامیر کے ساتھ ہو یا ان کے بغیر ہو، ایسا کلام انسانی ہو یا اللہ اور اس کے کسی رسول (ﷺ) کی طرف منسوب ہو، بیداری سے تعلق رکھتا ہو یا خواب سے ، خود سے کہے یا کسی دوسرے سے مخاطب ہوکر، کسی باندی کو خرید کر ہو یا بے خریدے، زبانی ہو یا کتابت میں آجائے۔ کچھ بھی ہو اگر حدیث و گفتار کا یہ انداز اور یہ مقصد ہو تو بلاشبہ وہ حرام ہے لیکن اگر یہ انداز و مقصد ۔۔۔ اصلال عن سبیل الل بغیر علم، آیات الہی کو مذاق بنانا، غرور و استکبار کے ساتھ سنی ان سنی کردینا وغیرہ نہ ہو تو اس آیت کو صرف راگ پر چسپاں کرنا پہلی غلطی ہے اور آیت کے عموم کو گانے والیوں کی خریداری کے ساتھ مخصوص کردینا دوسری غلطی۔
 

دوست

محفلین
اس سلسلے میں دو اور آیات سے دلیل نکالی جاتی ہے ان کے بارے میں بھی انشاءاللہ پوسٹ کرتا ہوں۔
وسلام
 
سورۃ لقمان کی آیت نمبر 6 کے تراجم ،
ان سب سے لھو الحدیث کسی طور "گانا بجانا" نہیں بنتا۔ یہ آیت خود کہہ رہی ہے کہ لھو الحدیث ایسا کلام ہے جس کا نتیجہ اللہ کی راہ سے بہکانا ہو۔ یہ ایک ایسا بیان یا کتاب بھی ہو سکتی ہے جو انسانوں کو قرآن کے مخالف اصولوں‌ کی طرف مائیل کرے۔

سورۃ لقمان آیت 6 کے ترجمے:
اور لوگوں میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جو بیہودہ کلام خریدتے ہیں تاکہ بغیر سوجھ بوجھ کے لوگوں کو اﷲ کی راہ سے بھٹکا دیں اور اس (راہ) کا مذاق اڑائیں، ان ہی لوگوں کے لئے رسوا کن عذاب ہے
Ahmed Ali اور بعض ایسے آدمی بھی ہیں جو کھیل کی باتوں کے خریدار ہیں تاکہ بن سمجھے اللہ کی راہ سے بہکائیں اور اس کی ہنسی اڑائیں ایسے لوگو ں کے لیے ذلت کا عذاب ہے
Ahmed Raza Khan اور کچھ لوگ کھیل کی باتیں خریدتے ہیں کہ اللہ کی راہ سے بہکادیں بے سمجھے اور اسے ہنسی بنالیں، ان کے لیے ذلت کا عذاب ہے،
Shabbir Ahmed اور انسانوں میں سے کوئی ایسا بھی ہے جو خرید کر لاتا ہے غافل کرنے والی باتیں تاکہ گمراہ کردے اللہ کی راہ سے بے سمجھے بوجھے۔ اور اڑائے اس (کی باتوں) کا مذاق۔ انہی لوگوں کے لیے ہے عذاب، رسوا کرنے والا۔
Literal And from the people who buys the information's/speeches' amusement/fun to misguide from God's way/path without knowledge, and He takes it mockingly/making fun, those, for them (is) a humiliating/degrading torture.
Yusuf Ali But there are, among men, those who purchase idle tales, without knowledge (or meaning), to mislead (men) from the Path of Allah and throw ridicule (on the Path): for such there will be a Humiliating Penalty.
Pickthal And of mankind is he who payeth for mere pastime of discourse, that he may mislead from Allah's way without knowledge, and maketh it the butt of mockery. For such there is a shameful doom.
Arberry Some men there are who buy diverting talk to lead astray from the way of God without knowledge, and to take it in mockery; those -- there awaits them a humbling chastisement.

صاحب ان آیات سے کسی طور ثابت نہیں ہوتا کہ یہ گانے بجانے کے بارے میں ہیں۔ پھر جو روایت منسوب کی جارہی ہے وہ رسول اللہ کا بیان نہیں ہے بلکہ ایک صحابی کا بیان ہے۔ اسلام اللہ تعالی کی آیات اور سنت رسول کا مجموعہ ہے ۔

لہذا ہمارا سوال اپنی جگہ ہے کہ ایک واضح آیت یا واضح سنت رسول (قول و عمل) کی ہونی ضروری ہے کسی چیز کو جائز یا ناجائز قرار دینے کے لئے۔

چونکہ اللہ تعالی ہی حاکم اور بنیادی اصول ساز اور بنیادی قانون ساز ہے، جس کے قوانین مفصل ہیں ۔ مبہم نہیں، ایک اصطلاح سے اتنی ساری بات نکالنا اپنی خواہشات کی تکمیل اور کچھ لوگوں‌کی اندھی تقلید ہے۔ دیکھئے

[AYAH]6:114[/AYAH] [ARABIC] أَفَغَيْرَ اللّهِ أَبْتَغِي حَكَمًا وَهُوَ الَّذِي أَنْزَلَ إِلَيْكُمُ الْكِتَابَ مُفَصَّلاً وَالَّذِينَ آتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ يَعْلَمُونَ أَنَّهُ مُنَزَّلٌ مِّن رَّبِّكَ بِالْحَقِّ فَلاَ تَكُونَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِينَ [/ARABIC]
(فرما دیجئے:) کیا میں اﷲ کے سوا کسی اور کو حاکم (و فیصل) تلاش کروں حالانکہ وہ (اﷲ) ہی ہے جس نے تمہاری طرف مفصّل (یعنی واضح لائحہ عمل پر مشتمل) کتاب نازل فرمائی ہے، اور وہ لوگ جن کو ہم نے (پہلے) کتاب دی تھی (دل سے) جانتے ہیں کہ یہ (قرآن) آپ کے رب کی طرف سے (مبنی) برحق اتارا ہوا ہے پس آپ (ان اہلِ کتاب کی نسبت) شک کرنے والوں میں نہ ہوں (کہ یہ لوگ قرآن کا وحی ہونا جانتے ہیں یا نہیں)

جب اللہ تعالی فیصلہ کرنے والے ہیں اور جب اللہ تعالی نے یہ کتاب مفصل عطا فرمائی ہے تو کیا وجہ ہے کہ ساری کائنات کو نغمہ و موسیقی و خوبصورتی سے بنانے والے نے، ہمیں نغمہ و موسیقی کو مطقاً حرام کرنے کا حکم واضح طور پر نہیں دیا؟

اللہ تعالی ، رسول اکرم سے سوال کرتے ہیں کہ تم کیوں اپنے اوپر وہ حرام کرتے ہو جو اللہ نے حلال کی ہے؟
[AYAH]66:1 [/AYAH] اے نبی کیوں حرام کرتے ہو تم وہ چیز جو حلال کی ہے اللہ نے تمھارے لیے۔ (کیا) چاہتے ہو تم (اس طرح) خوشنودی اپنی بیویوں کی؟ اور اللہ ہے بہت معاف کرنے والا، رحم فرمانے والا۔

اللہ تعالی کو قوانین اور اصول بنانے کے لیے کسی بھی امام، صحابی، تابعین کی ضرورت نہیں ہے اور نہ تھی۔ بہت سے لوگ گمراہ کرتے ہیں اپنی خواہشات کو پورا کرنے کے لئے اور حد سے بڑھ جاتے ہیں۔

[AYAH]6:119[/AYAH] [ARABIC] وَمَا لَكُمْ أَلاَّ تَأْكُلُواْ مِمَّا ذُكِرَ اسْمُ اللّهِ عَلَيْهِ وَقَدْ فَصَّلَ لَكُم مَّا حَرَّمَ عَلَيْكُمْ إِلاَّ مَا اضْطُرِرْتُمْ إِلَيْهِ وَإِنَّ كَثِيرًا لَّيُضِلُّونَ بِأَهْوَائِهِم بِغَيْرِ عِلْمٍ إِنَّ رَبَّكَ هُوَ أَعْلَمُ بِالْمُعْتَدِينَ[/ARABIC]
آخر کیا وجہ ہے کہ تم نہیں کھاتے اس میں سے کہ لیا گیا ہو نام اللہ کا اس پر؟ جبکہ تفصیل سے بیان کرچُکا ہے تمہارے لیے (اللہ) وہ چیزیں جو حرام کردی ہیں اس نے تم پر سوائے اس صُورت کے کہ مجبور ہوجاؤ تم اس (کے کھانے) پر اور بے شک بہت سے لوگ گمراہ کرتے ہیں دوسروں کو اپنی خواہشات کی بنا پر، بغیر علم کے۔ بے شک تیرا رب ہی خُوب جانتا ہے ان حد سے بڑھنے والوں کو۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب اللہ تعالی نے موسیقی کے بارے میں واضح‌ طور پر منع نہیں‌فرمایا تو پھر موسیقی حرام ہوئی یا حلال۔ اس سوال کا جواب ہم کو صاف صاف اس آیت سے ملتا ہے کہ اپنی طرف سے اللہ پر بہتان مت باندھا کرو کہ یہ حلال ہے وہ حرام ہے۔

[AYAH]16:116[/AYAH] اور وہ جھوٹ مت کہا کرو جو تمہاری زبانیں بیان کرتی رہتی ہیں کہ یہ حلال ہے اور یہ حرام ہے اس طرح کہ تم اللہ پر جھوٹا بہتان باندھو، بیشک جو لوگ اللہ پر جھوٹا بہتان باندھتے ہیں وہ (کبھی) فلاح نہیں پائیں گے

جب آپ جانتے ہیں کہ اللہ تعالی نے یہ کتاب مفصل عطا فرمائی ہے، وہی حرام و حلال کا قرار دینے والا ہے اور منع فرماتا ہے کہ جھوٹ‌ مت کہا کرو کہ یہ حلال ہے یہ حرام ہے تو آپ کے پاس کیا وجہ ہے کہ اپنی خواہشات کی تکمیل کے لیے خود سے کسی ایسی شے کو حرام و حلال قرار دیں، جس کا تذکرہ اللہ تعالی نے نہیں فرمایا؟


کیا رسول اللہ کو غیب کا علم تھا؟ خود رسول اللہ کی زبان سے ، اللہ تعالی کے الفاظ سنئے، دیکھئے اور پڑھئے ۔۔۔۔

[AYAH]7:188[/AYAH] [ARABIC] قُل لاَّ أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعًا وَلاَ ضَرًّا إِلاَّ مَا شَاءَ اللّهُ وَلَوْ كُنتُ أَعْلَمُ الْغَيْبَ لاَسْتَكْثَرْتُ مِنَ الْخَيْرِ وَمَا مَسَّنِيَ السُّوءُ إِنْ أَنَاْ إِلاَّ نَذِيرٌ وَبَشِيرٌ لِّقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ[/ARABIC]
Tahir ul Qadri آپ (ان سے یہ بھی) فرما دیجئے کہ میں اپنی ذات کے لئے کسی نفع اور نقصان کا خود مالک نہیں ہوں مگر (یہ کہ) جس قدر اللہ نے چاہا، اور (اسی طرح بغیر عطاءِ الٰہی کے) اگر میں خود غیب کا علم رکھتا تو میں اَز خود بہت سی بھلائی (اور فتوحات) حاصل کرلیتا اور مجھے (کسی موقع پر) کوئی سختی (اور تکلیف بھی) نہ پہنچتی، میں تو (اپنے منصب رسالت کے باعث) فقط ڈر سنانے والا اور خوشخبری دینے والا ہوں ان لوگوں کو جو ایمان رکھتے ہیں٭

Ahmed Ali کہہ دو میں اپنی ذات کے نفع و نقصان کا بھی مالک نہیں مگرجو اللہ چاہے اور اگر میں غیب کی بات جان سکتا تو بہت کچھ بھلائیاں حاصل کر لیتا اور مجھے تکلیف نہ پہنچتی میں تو محض ڈرانے والا اور خوشخبری دینے والا ہوں ان لوگوں کو جو ایمان دار ہیں
Ahmed Raza Khan تم فرماؤ میں اپنی جان کے بھلے برے کا خودمختار نہیں (ف366) مگر جو اللہ چاہے (ف367) اور اگر میں غیب جان لیا کرتا تو یوں ہوتا کہ میں نے بہت بھلائی جمع کرلی، اور مجھے کوئی برائی نہ پہنچی (ف368) میں تو یہی ڈر (ف369) اور خوشی سنانے والا ہوں انہیں جو ایمان رکھتے ہیں،
Shabbir Ahmed کہہ دو! کہ نہیں اختیار رکھتا میں اپنی ذات کے لیے بھی کسی نفع اور نہ کسی نقصان کا، مگر یہ کہ چاہے اللہ۔ اور اگر ہوتا مجھے علم غیب کا تو ضرور حاصل کرلیتا میں بہت فائدے اور نہ پہنچتا مجھے کبھی کوئی نقصان۔ نہیں ہوں میں مگر خبردار کرنے والا اور خوش خبری سُنانے والا اُن لوگوں کے لیے جو میری بات مانیں۔

یہ آیت ہم کو بہت صاف صاف بتاتی ہے کہ رسول اکرم کو مستقبل کہ جو غائب ہے اس کا علم نہیں تھا۔ تو پھر اس بات کی کیا بنیاد ہے کہ رسول اللہ نے مستقبل کے بارے میں بتایا کہ ایسے لوگ ہونگے جو یہ کریں گے یا ایسے لوگ ہونگے جو یہ کریں گے یا تہتر فرقہ ہونگے۔ بھائی اس وقت 180 سے زائید فرقہ ہیں۔ ایسی پیشین گوئیاں جو رسول اللہ سے منسوب ہیں کم فہمی اور توہم پرستی کی بنیاد پر ہیں۔ اگر کسی کا ایمان قران پر ہے اور وہ یہ اس آیت پر ایمان رکھتا ہے تو یہاں‌اللہ تعالی خود رسول اللہ کو کہہ رہے ہیں کہ لوگو ں کو بتادو کہ یہ رسول غیب کا علم نہیں رکھتا۔ آپ اس پر لاکھ سر پٹک لیں، یہ آیت ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ رسول اللہ مستقبل کا حال نہیں جانتے تھے۔ جو کچھ ان پر آشکار کیا گیا وہی جانتے تھے، اور جو کچھ ان پر آشکار کیا گیا، وہ قرآن میں شامل ہے۔ اس بات کی کوئی مثال یا شہادت کسی آیت سے نہیں‌ملتی کہ رسول اکرم کو مستقبل کا علم دیا گیا اور اس کو استعمال کرکے انہوں نے پیشین گوئیاں کیں۔

اگر یہ پیشین گوئیاں‌ممکن نہیں تو قرآن کی اس آیت کی رو سے یہ روایت کہ
۔۔۔۔۔ آنے والے وقتوں میں کچھ لوگ ایسے ہونگے جوموسیقی کو جائز کریں گے۔۔۔۔۔۔
یہ ایک باطل اور گھڑی ہوئی روایت ہے، قرآن میں اور سنت رسول (‌قول و فعل رسول )‌ میں‌تضاد نہیں ہے۔ یہاں اس آیت میں، جو کہ حدیث رسول بھی ہے۔ رسول اکرم یہ فرمارہے ہیں کہ وہ مستقبل کا حال نہیں جانتے، جو غیب کا حال ہے وہ نہیں جانتے وہ کیا قران کی اس آیت کے خلاف ایسی پیشین گوئیاں کریں گے؟ میں جانتا ہوں کہ آپ میں سے بہت سے لوگوں کا "دین" اس بات کو گوارہ نہیں کرے گا۔ لیکن صاحب اگر اسلام قرآن سے نہیں تو پھر اور کیا ہے؟

رسول اکرم سے پیشین گوئیاں منسوب کرنے سے پہلے ، اس آیت کو بار بار پڑھ لیجئے۔ جن لوگوں کے ذہنوں میں اس سے قرآن کی پیشین گوئیاں آتی ہیں وہ مطمئن رہیں کہ یہ اللہ تعالی کی طرف سے کی گئی پیشین گوئیاں تھیں۔
 

دوست

محفلین
سَمَدَ کا مطلب
دوسری آیت جسے حرمت غنا کی دلیل تصور کیا جاتا ہے:
أَزِفَتْ الْآزِفَةُ۔ لَيْسَ لَهَا مِن دُونِ اللَّهِ كَاشِفَةٌ۔ أَفَمِنْ هَذَا الْحَدِيثِ تَعْجَبُونَ۔وَتَضْحَكُونَ وَلَا تَبْكُونَ۔ وَأَنتُمْ سَامِدُونَ (النجم 57 تا 61)
قیامت قریب ہے جسے اللہ کے سوا کوئی نہیں ٹال سکتا تمہیں اس بات پر حیرت ہوتی ہے اور تم ہنستے ہو روتے نہیں اور تم سر اٹھائے کھیل میں لگے رہتے ہو۔
یہاں انتم سامدون کے لفظ سے بعض اہل علم جیسے قاضی بیضاوی نے یہ استدلال کیا ہے کہ غنا حرام ہے اس میں شک نہیں کہ سمد کے معنی گانا کے بھی ہیں جیسا کہ اقرب الموارد اور المنجد وغیرہ میں لکھا ہے۔ لیکن تنہا یہی معنی نہیں۔ اقرب میں جو معنی اس سے پہلے لکھے ہیں وہ یوں ہیں:
سر اُٹھا کر سینہ تان کر کھڑے ہوجانا
امام راغب اصفہانی نے اس لفظ کی تشریح میں غنا کا کوئی ذکر نہیں کیا وہ صرف ایک ہی معنی لکھتے ہیں۔
سامد کے معنی ہیں سر اٹھا کر لہو کرنے والا۔
تفسیر ابن کثیر جلد 4 صفحہ 260 میں مختلف معانی سامدون کے نقل کیے گئے ہیں ان کا نقشہ یہ ہے۔
1۔ ابن عباس اور عکرمہ سمد کے معنی غنا کے لیتے ہیں۔
2۔ ابن عباس، عکرمہ اور مجاہد دوسرتی روایت میں اس کا مطلب اعراض یا بےرُخی بتاتے ہیں۔
3۔ ابن عباس اور سدی اس کا مطلب تکبر و سرکشی بتاتے ہیں۔
4۔ حسن و علی رض کے نزدیک اس کا مطلب غافل ہوجانا ہے۔
پس ان مختلف معانی میں کسی ایسے معانی کو لینا زیادہ بہتر ہے جو زیادہ جامع ہو اور سیاق و سباق سے زیادہ مناسبت رکھتا ہو۔
آیت زیر بحث ے پہلے قیامت کا ذکر ہے کہ وہ آنے والی ہے جسے خدا کے سوا کوئی نہیں ٹال سکتا۔ تم اس حدیث (بات) پر تعجب کرتے ہو اور ہنستے ہو روتے نہیں اور اکڑے رہتے ہو۔ اور اس "حدیث" کے ساتھ لہو کا برتاؤ کرتے ہو۔ غور سے دیکھیئے کیا یہ وہی مضمون نہیں جو سورہ لقمان آیت 6 میں بیان ہوا ہے۔ حدیث قرآن کے جواب میں یہ انداز اختیار کرنا حرام ہی نہیں کفر صریح ہے۔ اور یہ کچھ گانے پر ہی موقوف نہیں، بغیر گائے ہوئے ہو، نثر میں ہو، لکھ کر ہو جب بھی یہ انداز ۔۔ جس سے یہ قیامت یا کسی حدیث خداوندی کا انکار لازم آئے حرام ہے بلکہ کفر ہے اور اس میں کوئی شبہ نہیں۔
سوال صرف یہ ہے کہ سامدوں کے معنی گانے والوں کے ہوں جب بھی اس آیت سے حرمت غنا پر استدلال درست ہوسکتا ہے؟ اس کا جواب ان ہی آیات میں موجود ہے جہاں ان منکرین قیامت کے متعلق وانتم سامدون کہا گیا ہے وہیں و تضحکون ولا تبکون بھی کہا گیا ہے۔ لیکن کیا آج تک کسی نے اس آیت سے یہ بھی استدلال کیا ہے کہ ہنسنا حرام ہے یا جب تک انسان روتا نہیں‌وہ ارتکاب حرام کرتا رہتا ہے؟ پس اگر اس سے ضحک اور عدم بکا کی حرمت سمجھنا صحیح نہیں‌تو اس آیت سے گانے کو اگر سامدون کے معنی گانے والوں کے مان بھی لیے جائیں ۔۔۔ حرام قرار دینا کب درست ہوسکتا ہے؟
صوت شیطانی
تیسری آیت جس سے حرمت غنا پر دلیل لائی گئی ہے یہ ہے
وَاسْتَفْزِزْ مَنِ اسْتَطَعْتَ مِنْهُمْ بِصَوْتِكَ وَأَجْلِبْ عَلَيْهِم بِخَيْلِكَ وَرَجِلِكَ وَشَارِكْهُمْ فِي الْأَمْوَالِ وَالْأَوْلادِ وَعِدْهُمْ وَمَا يَعِدُهُمُ الشَّيْطَانُ إِلاَّ غُرُورًا۔(بنی اسرائیل 64)
(اے شیطان) ان انسانوں میں سے جن پر تیرا قابو چلے اپنی آواز سے اکھاڑ پھینک اور اپنے سوار اور پیدل کو چڑھا اور ان کے مال اور ان کی اولا میں اپنا ساجھا کرلے اور ان سے وعدے وعید کرتا رہ۔
یہاں لفظ صوتک (شیطانی آواز) کی مجاہد نے یہ تفسیر فرمائی ہے کہ یہ گانا اور لہو ہے۔ ابن عباس، قتادہ اور ابن جریر کہتے ہیں:-
ہر وہ شے جو نافرمانی خدا کی دعوت دے۔(ابن کثیر جلد 3 صفحہ 49)
یہ تفسیرز یادہ قریب بہ صواب ہے۔ صوت کے معنی آواز کے ہیں خواہ کسی کی ہو۔ جب یہ شیطان کی طرف منسوب ہوگی تو اس میں صرف شیطانی غنا ہی نہیں آئے گا۔ تقریر، تحریر، نظم ، نثر، غنا و غیرغنا حتی کہ بے صوت وسوسے سب ہی حرام ہونگے۔ لیکن جس طرح خیل اور رجل (سوار اور پیدل) کو مطلقًا حرام کہنا بالکل بے معنی ہے اسی طرح مطلق صوت کو خواہ وہ گانا ہی ہو مطلقًا ناجائز قرار دینا بعید از معقولیت ہے۔ جس طرح خیل اور رجل یعنی سوار اور پیدل شیطانی ہونے کے بعد ناجائز ہے، اسی طرح صوت بھی شیطانی ہونے کے بعد ناجائز اور قابل احتراز ہوگی۔ اس سے کس کو انکار ہوسکتا ہے؟ آیت مندرجہ بالا مین شیطان کی طرف جہاں صوت کی اضافت کی گئی ہے وہاں ‌خیل اور رجل کو بھی مضاف لیا گیا ہے۔ پس جو حکم خیل اور رجل کا ہوگا وہی صوت کا بھی ہوگا۔ یہی خیل و رجل جب اہل اسلام کی طرف مضاف ہو تو یہ عین عبادت ہوگا کیونکہ اسکی غرض صحیح ہے۔ اب غور طلب بات صرف یہ ہے کہ بعینہ یہی حکم صوت کا بھی کیوں نہ ہوگا؟ مطلق صوت ہو یا حسن صوت یعنی گانا اس مین دونوں ہی پہلو موجود ہیں۔ استعمال میں لانے والا اگر شیطان ہے تو وہ سراسر شر ہوگا۔ اور اگر انسان صالح ہے تو اس میں خیر ہی کا پہلو ہوگا۔ مختصر یہ ہے کہ اس آیت کی تفسیرمیں پہلی غلطی تو یہ کی گئی ہے کہ صوت کی عمومیت کو صرف غنا کے معنی لے کر تنگ کردیا گیا ہے اور دوسری لغزش یہ ہے کہ ہر صوت اور ہر غنا کو شیطانی سمجھ لیا گیا ہے۔ اس لیے صحیح‌ تفسیر وہی ہے جو ابن عباس، قتادہ اور ابن جریر نے کی ہے یعنی" ہر وہ شے جو خدا کی نافرمانی کی دعوت دے " یہ ظاہر ہے کہ صوتک (شیطانی آواز) بجز معصیت کے اور کیا ہوسکتی ہے؟
غرض یہ کہ اوپر کی تینوں آیت میں‌ الفاظ لھو الحدیث، سمد اور صوت الشیطن سے گانا مراد لینے کی کوئی قوی دلیل نظر نہیں آتی۔ خود صحابہ رض سے مختلف تفاسیر مروی ہیں‌اور صحابہ و غیر صحابہ میں‌جن لوگوں نے اس سے مراد غنا لیا ہے ان کی اپنی تفسیریں ہیں ‌مرفوع کوئی بھی نہیں۔ اگر ان میں سے ایک کی تفسیر قبول کی جائے تو دوسرے کی بھی اسی طرح تسلیم کی جاسکتی ہے بلکہ ایک قدم آگے بڑھائیں تو ان تمام احادیث میں ہر جگہ غنا ہی مراد لیا جائے تو ان تمام صحیح احادیث کی توجیہ مشکل ہوجاتی ہے جن سے حضور ﷺ اور صحابہ رض اور بعد کے اکابر محدثین و قضاۃ کا گانا سننا ثابت ہے۔
 
شکریہ دوست، جیسا کہ دیکھا جاسکتا ہے کہ نغمہ و موسیقی کسی قطعی اور واضح طور پر حلال یا حرام قرار نہیں پاتی ہیں۔ منسوب شدہ روایات قرآن کی کسوٹی پر پوری نہیں اترتی ہے کہ نغمہ و موسیقی حرام ہے۔ ایک سے زائید روایات موجود ہیں کہ رسول اکرم نے نغمہ و موسیقی کو سننے کے باوجود بڑھ کر نہیں روکا تو یہ اب ہماری صوابدید پر ہے کہ ہم نغمہ و موسیقی کو کس طور استعمال کرتے ہیں۔ موسیقی، نظم، نغمہ، شاعری یا نثر - یہ ان اشیاء کا استعمال ہے جو ان کو برا یا بھلا بناتا ہے۔

اگر نغمہ و موسیقی انسانی جذبات جو مرد و عورت کے درمیان ہوتے ہیں کی غمازی کرنے میں استعمال ہو تو کیا یہ حرام و مکروہ ہے ۔ کچھ مکتبہ فکر ان انسانی احساسات کو چھپا کر رکھنے کے قائیل ہیں۔ جبکہ مرد و عورت سے نسل انسانی کی تخلیق، اللہ تعالی کے عظیم مقاصد میں سے ایک ہے۔

[ayah]4:1[/ayah] اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تمہاری پیدائش (کی ابتداء) ایک جان سے کی پھر اسی سے اس کا جوڑ پیدا فرمایا پھر ان دونوں میں سے بکثرت مردوں اور عورتوں (کی تخلیق) کو پھیلا دیا، اور ڈرو اس اللہ سے جس کے واسطے سے تم ایک دوسرے سے سوال کرتے ہو اور قرابتوں (میں بھی تقوٰی اختیار کرو)، بیشک اللہ تم پر نگہبان ہے

[ayah]30:21[/ayah] اور یہ (بھی) اس کی نشانیوں میں سے ہے کہ اس نے تمہارے لئے تمہاری ہی جنس سے جوڑے پیدا کئے تاکہ تم ان کی طرف سکون پاؤ اور اس نے تمہارے درمیان محبت اور رحمت پیدا کر دی، بیشک اس (نظامِ تخلیق) میں ان لوگوں کے لئے نشانیاں ہیں جو غور و فکر کرتے ہیں
اگر کوئی نغمہ، شعر و شاعری یا اچھی بات اپنے اچھے اور باعزت احساسات کے اظہار کے لیے ، اس عظیم مقصد کی تکمیل میں استعمال ہوتی ہے حرام یا مکروہ کس طور ہوئی؟ کیا یہ فطرت نہیں؟ کیا اسلام دین فطرت نہیں؟
 

خرم

محفلین
فاروق بھائی اور شاکر بھیا ماشاء اللہ بات بہت اچھے طریقے سے آگے بڑھائی جارہی ہے۔
یہاں میں فاروق بھائی کی اس بات سے پرزور اختلاف کروں گا کہ نبی پاک صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اللہ تعالٰی نے مستقبل میں پیش آنے والے واقعات واحوال کے متعلق خبر نہ دی تھی۔ نبی پاک صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس اپنا ذاتی علم غیب قطعاً نہیں تھا کہ وہ صرف ذات حق کا خاصہ ہے لیکن اللہ کریم نے اپنے محبوب کو اپنی فیاضی کے شایان شان اس علم سے نوازا اور اس کے حق میں ایک سے زیادہ صحیح و متواتر احادیث و روایات موجود ہیں۔ مقصد کسی کو اس بحث میں الجھانا نہیں ہے بس توجہ دلانا مقصود تھا۔ آپ اپنی بات جاری رکھئے۔
 

دوست

محفلین
حرمت مزامیر کے سلسلے میں یہ حدیث بھی پیش کی گئی تھی۔ اسے بخاری نے ابومالک سے یوں روایت کیا ہے
لیکونن فی امتی اقوام یستحلون الحر ولحریر ولخمر والمعازف ولیث لن اقوام الی جنب علم تروح علیھم سارحۃ لھم فیأتیھم رجل لحاجۃ فیقولون ارجع الینا غدا فیبتیہم ویضع العلم و ینسخ آخرین قردۃ وخنازیر الی یوم القیمۃ۔
میری امت میں کچھ لوگ ایسے ہوکر رہیں گے جو زنا، ریشم، شراب اور معازف یعنی باجوں کو حلال سمجھیں گے۔ کچھ لوگ ایک پہاڑ کے دامن میں اتریں گے جہاں ان کے مویشی چر کر شام کو آئیں گے ان کے پاس ایک آدمی اپنی کسی ضرورت کے لیے آئے گا تو وہ کہیں گے کل ہمارے پاس آنا۔ پھر اللہ تعالی انھیں شب کو سلا دے گا، اور پہاڑ کو اپنی جگہ سے ہٹا دے گا اور دوسروں کو مسخ کرکے قیامت تک کے لیے بندر اور سؤر بنا دے گا۔
اس حدیث کے متعلق سب سے پہلے نواب سید صدیق حسن خاں صاحب کا تبصرہ سن لیں۔ دلیل الطالب علی ارجح المطالب میں لکھتے ہیں:
ترجمہ: اس سے کوئی انکار نہیں‌کرسکتا کہ آنحضور ﷺ دف بجانے پر خاموش رہے۔ خود اسے سُنا اور منع نہیں‌فرمایا۔ جیسا کہ صحیح بخاری میں موجود ہے۔ اس بات کا (حدیث زیر بحث میں) احتمال موجود ہے کہ جن معازف کو حرام کیا گیا ہے وہ وہی باجے ہیں جو مے نوشی کے ساتھ پیوستہ ہوں۔ جیسا کہ ایک روایت میں ہے کہ "میری امت میں کچھ لوگ شرابیں‌پئیں گے شام کو ان کے پاس گانے والی غلام لونڈیاں آئیں‌گی اور دن کو باجے بجیں گے" اس روایت میں اس کا احتمال بھی ہے کہ اس سے مراد ان تمام چیزوں (زنا، ریشم، شراب اور باجے) کی مجموعی شکل ہو۔ اس صورت میں انفرادی تحریم کی دلیل نہ ہوگی۔ یہ ایک مسلّم قاعدہ ہے کہ چند ترتیب وار چیزوں کی ممانعت ہو تو ان سب کی مجموعی وعید اس مجموعے کے کسی ایک فرد کی وعید کی دلیل نہ ہوگی۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت قرآن کی یہ آیت ہے۔ (سورہ 69 آیت 30 تا 43)
اسے پکڑ کر گلے میں طوق ڈالو۔ پھر اسے جہنم میں لے جاؤ۔ پھر ستر گز کے حلقے والی زنجیر میں اسے جکڑ دو۔ یہ اللہ پر ایمان نہیں رکھتا تھا۔ اور مسکین کو کھلانے پر کسی کو ابھارتا نہ تھا۔
یہاں بلاشبہ اس وعید شدید کا سبب محض مسکین کو کھلانے پر نہ ابھارنا نہیں‌ہے اور نہ ایسا کرنا (یعنی مسکین کو کھلانے پر نہ ابھارنا) حرام ہے۔
نواب صاحب نے معقول بات لکھی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس قسم کی محزب الاخلاق سوسائٹیوں میں تو جائز چیز بھی اپنے دوسرے عوامل کے ساتھ مل جانے کی وجہ سے حرام ہوجاتی ہے۔ لیکن اس سے الگ کرکے دیکھا جائے تو اسے حرام نہیں کہا جاسکتا۔ اس حدیث میں ان چاروں کی مجموعی صورت ہی مراد ہے۔
اس کی مثال ہماری اپنی زبان میں ہمارے سامنے اکثر آتی رہتی ہے۔ ہم کہتے ہیں فلاں بدبخت ہر وقت "شراب و کباب" کے نشے میں بدمست رہتا ہے۔ ذرا غور کیجیے اس میں کیا کباب بھی ویسا ہی حرام ہے جیسی کہ شراب ہے؟ کون صاحب عقل ہے جو شراب و کباب کی مجموعی برائی کرنے کے باوجود دونوں کو انفرادًا بھی ایک ہی حکم میں داخل سمجھے؟ پس جس طرح یہاں‌شراب و کباب سے ان دونوں کی مجموعی صورت ہی مراد ہے اسی طرح زنا، ریشم، شراب اور معازف کا مجموعی شکل میں (زیر نظر حدیث میں) ذکر ہے نہ کر ہر فرد کا الگ الگ۔
اس میں‌دو چیزیں‌ہر حال میں حرام ہیں‌یعنی شراب اور زنا۔ جبکہ دو چیزیں‌ایسی ہیں جو ایک موقعے پر حرام اور دوسرے موقعے پر حلال ہوجاتی ہیں۔ یہ دونوں چیزیں‌ریشم اور باجے ہیں۔ ریشم کے متعلق دو احادیث سن لیجیے۔
رخص رسول اللہ ﷺ للزیبر و عبد الرحمن بن عوف فی لبس الحریر لحکۃ بھما۔ (رواہ السۃ الامکان عن انس رض)
حضور ﷺ نے زبیر اور عبد الرحمن بن عوف کو ریشم پہننے کی اجازت دی تھی کیونکہ ان دونوں کو خارش ہوگئی تھی۔
یہ تو خیر خارش کی وجہ سے ریشم کی اجازت دی گئی تھی۔ تھوڑے ریشم کی تو عام اجازت ہے۔
نھی النبی ﷺ عن لبس الحریر فی موضع اصبعین او ثلث او ربع (للستۃ الا مالکًا) حضور ﷺ نے ریشم پہننے سے منع فرمایا البتہ دو سے چار انگل تک ریشم جائز کیا ہے۔
ظاہر ہے جو صورت مسئلہ ریشم کے ساتھ وابستہ ہے وہ زنا کے ساتھ نہیں‌اور اسی طرح جیسی حرمت شراب کے ساتھ ہے وہ باجوں کے ساتھ نہیں۔ معازف کوئی سمندر تو ہے نہیں جو ناپاک شے کو پاک کردے یہ تو زیادہ سے زیادہ ایک کنواں ہے جس میں ناپاک چیز مل جائےتو خود بھی ناپاک ہوجاتا ہے۔ لیکن اگر پلیدی اس سے الگ رہے تو اسے محض اس لیے زہریلا کیوں مان لیا جائے کہ یہ زہر ملنے سے زہریلا ہوجاتا ہے۔
پھر ذرا اس پر بھی غورکرنا چاہیے کہ اس حدیث میں آگے کیا ارشاد ہے۔ آگے یہ ہے کہ ایک قوم پہاڑ کے دامن میں آئے گی ان کے مویشی چر کے واپس آئیں گے۔ ایک دن آدمی ان کے پاس کسی ضرورت سے آئے گا وہ کہیں گے کل آنا۔ پھر ان لوگوں‌کو رات کو سلا دیا جائے گا اور پہاڑ ٹل جائے گا اور دوسرے قیامت تک کے لیے بندر اور سؤر بنا دئیے جائیں‌گے۔
اگر فی الواقع باجے اس حد تک حرام ہیں اور لوگوں نے اپنی بدبختی سے حلال سمجھ لیں‌ہیں تو اس کے بعد کے تمام واقعات بھی پورے ہونے چاہئیں۔ کون سا پہاڑ اپنی جگہ سے ٹل گیا؟ اور کونسی قوم مسخ ہوکر بندر اور سؤر بن گئی ہے؟ ان سب باتوں کی تاریخی شہادت بھی پیش کرنی چاہئیے۔ اگر ان باتوں کی کوئی توجیہہ کی جائے تو حرمت مزامیر کی بھی ویسی ہی توجیہہ و تاویل کچھ دشوار نہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ محض کتاب یا روایات حدیث میں کسی بات کا درج ہونا اس کی سو فیصد صحت کی ضمانت نہیں۔ یہ بھی روایات ہی ہیں‌کہ پہلے انسان ساٹھ گز کے ہوا کرتے تھے۔ یہ بھی روایات ہی ہیں کہ کعبہ اور بیت المقدس کی تعمیر میں صرف چالیس سال کا فرق ہے اور یہ بھی روایت ہی ہے کہ ابراہیم ؑلیہ اسلام نے تین جھوٹ بولے تھے۔ یہ بھی روایت ہی ہے کہ بندروں‌نے ایک زنا کرنے والی بندریا کو سنگسار کیاتھا اور راوی (عمرو بن میمون) نے بھی اس سنگسار میں شرکت کی تھی۔ آخر اس کی کیا وجہ ہے کہ بخاری اور دوسری کتب احادیث کی روایات صحیحہ کو نہ مانا جائے جن سے حضور ﷺ و صحابہ کا گانا اور دف سننا ثابت ہے۔ اور اس روایت کو مان لیا جائے جس میں زنا اور غنا کو ایک ہی صف میں رکھ دیا گیا ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ اگر یہ روایت صحیح بھی ہو تو اسکا مفہوم وہی ہے جو نواب صاحب نے لکھا ہے کہ اس سے مراد تمام چیزوں کی مجموعی کیفیت ہے نہ کہ محض ایک فرد کی حرمت کا اظہار۔ اس روایت کا انداز اور سیاق و سباق ہی کچھ ایسا ہے جس کی وجہ سے اسے ابن حزم وغیرہ نے قابل استناد قرار دیا ہے۔ اوپر ہم متعدد جگہ محدثین کا قول لکھ چکے ہیں کہ حرمت غنا و مزامیر کے متعلق کوئی صحیح حدیث موجود نہیں۔
 
زنا اور غناء کی روایت کی اسناد میں سے ایک لنک ٹوٹا ہوا ہے۔ کوئی علم روایات کے ماہر اس پر روشنی ڈلیں کہ ایسا کیوں ہے اور اس سند کے ٹوٹنے کے باوجود اس روایت کو ضعیف کیوں نہیں قرار دیا جاتا؟
 

دوست

محفلین
قرآن میں ایسی کوئی آیت نہیں ملتی۔ جیسا کہ آپ دیکھ چکے ہیں جن تین آیات کو کھینچ تان کر موسیقی کی حرمت پر منڈھا گیا تھا انھیں آیات سے بالکل مختلف مطالب بھی نکل رہے ہیں۔
احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں دیکھیں تو آپ کو ایسی روایات تواتر کے ساتھ ملتی ہیں جن میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے دف بجایا جاتا ہے، گانا گایا جاتا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہتے ہیں۔
جن احادیث کو بطور حرمت غنا پیش کیا جاتا ہے اول تو وہ ضعیف ہیں دوسری صورت میں آپ اوپر والی میری ایک پوسٹ میں دیکھ ہی چکے ہونگے وہ خاص طور پر حرمت موسیقی کا اعلان نہیں کرتیں بلکہ ان کا انداز پیش گویانہ قسم کا ہے۔ جس میں شراب و زنا کے ساتھ گانے کو بھی شامل کرکے بیان کیا جاتا ہے جس کے مجموعی کے حکم کو اکیلے فرد کے حکم پر نافذ کرنا بعید از معقولیت ہے۔
حرمت غنا ہمیشہ ایک متنازعہ مسئلہ رہا ہے۔ جیسا کہ آپ دیکھ چکے ہیں کہ پروپیگنڈا اب سے نہیں پچھلے چودہ سو سال سے ہوتا آتا ہے کہ موسیقی حرام ہے۔ اس سلسلے میں کچھ لوگ اس کے حق میں بھی ہیں اور کچھ اس کے مخالف۔ موسیقی ایک مباح چیز ہے۔ یہ آپ کا عمل ہے جو اسے حلال یا حرام کردیتا ہے۔
آپ اذان کے وقت گانا سن رہے ہیں تو یہ راہ حق سے دھیان ہٹا رہا ہے حرام ہے آپ کفر کے مرتکب ہورہے ہیں۔ آپ نصیبو لعل کے گانے کو حلال کے زمرے میں شمار نہیں‌کرسکتے۔ نہ ہی آپ مخلوط محفلوں میں‌ شراب و کباب کے ساتھ ہونے والے بے ہنگم میوزک کو حلال کہہ سکتے ہیں۔ موسیقی وہی حلال ہے جو انٹرٹینمنٹ کے لیے ہو موقع چاہے خوشی کا ہے یا عید کا کوئی بھی۔ لیکن اس کی حدود ہیں۔ عقل سلیم اس کی حدود متعین کردیتی ہے اگر ذرا سا غور کیا جائے تو۔
ورنہ تاویلات ہزار، بہانے ہزار اور ان کے رد ہزار۔
وسلام
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top