ابن بطوطہ
محفلین
ں ارشاد الحق اثری
جزاک اللہ خیر، برادر عادل سہیل اختلاف کا جو الزام آپ لگارہے ہیں مجھے بتائیے اس کی بنیاد کیا آپ پر کی جانے والی تنقید ہے؟۔ کیونکہ قرآن اور حدیث کی واضع نصوص پر کوئی بھی مسلمان اعتراض نہیں کر سکتا اور جو اعتراض کر رہا ہے تو سوچنا یہ ہے کہ اعتراضات کا یہ شوشہ اسلام کے نزول سے ہی جاری و ساری ہے جو قیامت تک جاری رہے گا عقلمند شخص وہ ہوتا ہے جو مسائل کے اختلاف سے زیادہ اُس فتنے میں پڑنے والوں کے عقائد کی درستگی پر توجہ دے کیونکہ اختلافی مباحث صدیوں پُرانے ہیں تقلید کے رسیا اور قرآن وحدیث کے علمبردار علماء وصالحین اس طرح کے موضوعات پر سیر حاصل بحث کر کے خوب خوب داد تحقیق دے چُکے ہیں یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے کہ خیر القرُون کے سیدھے سادھے دُور کے مُدتوں بعد ایجاد ہونے والے مذاہب اربعہ کے مقلد فقہاء نے اپنے اپنے مذہب کی ترجیح میں کیا کیا گُل نہیں کھلائے حتٰی کے اپنے مذہب کے جنون میں اپنے مخالف امام کو نیچا دکھانے سے بھی دریغ نہیں کیا گیا۔
بقول شاہ ولی اللہ محدث دہلوی تقلیدی سلسلے قائم ہونے سے قبل قرُون اولٰی کے علماء کی دو قسمیں رہی ہیں ایک فقہائے محدثین اور دوسرے فقہائے اہل الرائے اول الذکر میں امام احمد رحمہ اللہ علیہ اور امام بخاری رحمہ اللہ وغیرھما ہیں اور حضرت امام ابراہیم نخعی رحمہ الہ اور امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ وغیرھما اہل الرائے کے سُرخیل ہیں فقہائے محدثین نے استخران واستنباط مسائل کے لئے قرآن وحدیث کو بنیاد بنایا جب کے اہل الرائے فقہائے نے اپنے اساتذہ اور اپنے اصحاب مذہب کے اقوال وآراء کو نصوص قرآن وحدیث کے مقابلے میں زیادہ اہمیت دی اور استخراج اور استنباط میں انہی آرائے رجال کو سامنے رکھا۔ اب سوال یہ معلوم کرنا ہے کہ حق پر کون ہے؟۔
میرے نزدیک نظریاتی اختلاف سوائے فتنے کے اور کچھ نہیں لہذا اس نظریاتی اختلاف کا خلاصہ پیش کرنا زیادہ ضروری ہے ناکہ اختلاف کی دُم پکڑ کر ایک دوسرے پر جو اسلام کے دعوے دار ہیں پر کیچڑ اچھالی جائے۔ سب سے پہلے ہم دیکھیں گے کہ نظریاتی اختلافات کے طریقہ کار کیا ہونا چاہئے۔
١۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس اختلاف کو ناپسند فرمایا اور سوائے ایک جماعت حُقہ کے باقی سب کو دوزخ کی وعید سنائی۔
٢۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس اختلاف میں حق و باطل کی پہچان کا معیار معین فرمایا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے طریقے اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی روش پر ہو وہ حق پر ہوگا۔
٣۔ آپ نے ان تمام اُمور کو جو دین کے نام پر بعد میں ایجاد کئے گئے ہیں بدعت فرمایا۔
٤۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایجاد بدعات کی علت کو خواہشات کی پیروی کو قرار دیا۔
٥۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی اُمت کو ہدایت فرمائی کہ ایسے وقت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سُنت اور خلفائے راشدین کے طریقے پر سختی سے قائم رہیں۔
اب اگر کوئی بھی زی شعور مسلمان اس پر غور کرے تو بخوبی جان سکتا ہے کہ حسب پیشنگوئی وہ ناپسندیدہ نظریاتی اختلاف اُمت میں رونما ہوئے اور جن لوگوں نے اپنی نسبت ان نظریاتی اختلاف کے ساتھ جوڑی وہ جماعت حقہ سے جُدا ہوگئے چونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حق وباطل کی پہچان کا معیار معین فرمایا ہے یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے طریقے یعنی کتاب وسنُت اور صحابہ کرام کی روش پر ہونا پس اس سے بالوضاحت معلوم ہوگیا کے جس کا انتساب ان مُختلف نظریاتی فرقوں سے نہ ہو وہی حق پر ہے۔
یعنی یہ بات واضح جاتی ہے کہ اسلام میں جو مختلف فرقے وجود میں آئے وہ فروعی اور اجتہادی اختلاف کی وجہ سے وجود میں نہیں بلکہ نظریاتی اختلاف کی وجہ سے وجود پذیر ہیں اس کا واضع ثبوت یہ ہے کہ صحابہ کرام اور تابعین وغیرہ فروعی اختلافات کے باوجود مختلف فرقوں میں منقسم نہ ہوئے لہذا صحابہ کرام کے بعد جو فرقے بنے وہ یقینی طور پر نظریاتی اختلاف کے حامل ہیں یہ جو بحث ومباحثے کرتے ہیں یہ کوئی دودھ پیتے بچے نہیں ہیں ہر شخص جانتا ہے کہ خواہشات کی پیروی نے ہی اختلافات کو جنم دیا لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہم اختلافات کو سامنے رکھ کر کسی شخص کو نشانہ بنائیں۔
میں یہاں پر ایک کتاب کا لنک مہیا کرنا چاہ رہا ہوں اسلام اور موسیقی جاوید احمد غامدی کا رد
اس کتاب کے مؤلف ہیں ارشاد الحق اثری اور جس کتاب سے برادر باذوق نے اقتباسات کو پیش کیا ہے وہ یہ کتاب یہاں سے ڈاونلوڈ کر سکتے ہیں اگر اُس کے بعد بھی کوئی دوست یا ہمدرد اسلام میں موسیقی کو جائز قرار دینے پر بضد ہے تو ہم صرف اُس کے لئے ہدایت کی دُعا ہی کرسکتے ہیں۔
والسلام علیکم۔
جزاک اللہ خیر، برادر عادل سہیل اختلاف کا جو الزام آپ لگارہے ہیں مجھے بتائیے اس کی بنیاد کیا آپ پر کی جانے والی تنقید ہے؟۔ کیونکہ قرآن اور حدیث کی واضع نصوص پر کوئی بھی مسلمان اعتراض نہیں کر سکتا اور جو اعتراض کر رہا ہے تو سوچنا یہ ہے کہ اعتراضات کا یہ شوشہ اسلام کے نزول سے ہی جاری و ساری ہے جو قیامت تک جاری رہے گا عقلمند شخص وہ ہوتا ہے جو مسائل کے اختلاف سے زیادہ اُس فتنے میں پڑنے والوں کے عقائد کی درستگی پر توجہ دے کیونکہ اختلافی مباحث صدیوں پُرانے ہیں تقلید کے رسیا اور قرآن وحدیث کے علمبردار علماء وصالحین اس طرح کے موضوعات پر سیر حاصل بحث کر کے خوب خوب داد تحقیق دے چُکے ہیں یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے کہ خیر القرُون کے سیدھے سادھے دُور کے مُدتوں بعد ایجاد ہونے والے مذاہب اربعہ کے مقلد فقہاء نے اپنے اپنے مذہب کی ترجیح میں کیا کیا گُل نہیں کھلائے حتٰی کے اپنے مذہب کے جنون میں اپنے مخالف امام کو نیچا دکھانے سے بھی دریغ نہیں کیا گیا۔
بقول شاہ ولی اللہ محدث دہلوی تقلیدی سلسلے قائم ہونے سے قبل قرُون اولٰی کے علماء کی دو قسمیں رہی ہیں ایک فقہائے محدثین اور دوسرے فقہائے اہل الرائے اول الذکر میں امام احمد رحمہ اللہ علیہ اور امام بخاری رحمہ اللہ وغیرھما ہیں اور حضرت امام ابراہیم نخعی رحمہ الہ اور امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ وغیرھما اہل الرائے کے سُرخیل ہیں فقہائے محدثین نے استخران واستنباط مسائل کے لئے قرآن وحدیث کو بنیاد بنایا جب کے اہل الرائے فقہائے نے اپنے اساتذہ اور اپنے اصحاب مذہب کے اقوال وآراء کو نصوص قرآن وحدیث کے مقابلے میں زیادہ اہمیت دی اور استخراج اور استنباط میں انہی آرائے رجال کو سامنے رکھا۔ اب سوال یہ معلوم کرنا ہے کہ حق پر کون ہے؟۔
میرے نزدیک نظریاتی اختلاف سوائے فتنے کے اور کچھ نہیں لہذا اس نظریاتی اختلاف کا خلاصہ پیش کرنا زیادہ ضروری ہے ناکہ اختلاف کی دُم پکڑ کر ایک دوسرے پر جو اسلام کے دعوے دار ہیں پر کیچڑ اچھالی جائے۔ سب سے پہلے ہم دیکھیں گے کہ نظریاتی اختلافات کے طریقہ کار کیا ہونا چاہئے۔
١۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس اختلاف کو ناپسند فرمایا اور سوائے ایک جماعت حُقہ کے باقی سب کو دوزخ کی وعید سنائی۔
٢۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس اختلاف میں حق و باطل کی پہچان کا معیار معین فرمایا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے طریقے اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی روش پر ہو وہ حق پر ہوگا۔
٣۔ آپ نے ان تمام اُمور کو جو دین کے نام پر بعد میں ایجاد کئے گئے ہیں بدعت فرمایا۔
٤۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایجاد بدعات کی علت کو خواہشات کی پیروی کو قرار دیا۔
٥۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی اُمت کو ہدایت فرمائی کہ ایسے وقت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سُنت اور خلفائے راشدین کے طریقے پر سختی سے قائم رہیں۔
اب اگر کوئی بھی زی شعور مسلمان اس پر غور کرے تو بخوبی جان سکتا ہے کہ حسب پیشنگوئی وہ ناپسندیدہ نظریاتی اختلاف اُمت میں رونما ہوئے اور جن لوگوں نے اپنی نسبت ان نظریاتی اختلاف کے ساتھ جوڑی وہ جماعت حقہ سے جُدا ہوگئے چونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حق وباطل کی پہچان کا معیار معین فرمایا ہے یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے طریقے یعنی کتاب وسنُت اور صحابہ کرام کی روش پر ہونا پس اس سے بالوضاحت معلوم ہوگیا کے جس کا انتساب ان مُختلف نظریاتی فرقوں سے نہ ہو وہی حق پر ہے۔
یعنی یہ بات واضح جاتی ہے کہ اسلام میں جو مختلف فرقے وجود میں آئے وہ فروعی اور اجتہادی اختلاف کی وجہ سے وجود میں نہیں بلکہ نظریاتی اختلاف کی وجہ سے وجود پذیر ہیں اس کا واضع ثبوت یہ ہے کہ صحابہ کرام اور تابعین وغیرہ فروعی اختلافات کے باوجود مختلف فرقوں میں منقسم نہ ہوئے لہذا صحابہ کرام کے بعد جو فرقے بنے وہ یقینی طور پر نظریاتی اختلاف کے حامل ہیں یہ جو بحث ومباحثے کرتے ہیں یہ کوئی دودھ پیتے بچے نہیں ہیں ہر شخص جانتا ہے کہ خواہشات کی پیروی نے ہی اختلافات کو جنم دیا لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہم اختلافات کو سامنے رکھ کر کسی شخص کو نشانہ بنائیں۔
میں یہاں پر ایک کتاب کا لنک مہیا کرنا چاہ رہا ہوں اسلام اور موسیقی جاوید احمد غامدی کا رد
اس کتاب کے مؤلف ہیں ارشاد الحق اثری اور جس کتاب سے برادر باذوق نے اقتباسات کو پیش کیا ہے وہ یہ کتاب یہاں سے ڈاونلوڈ کر سکتے ہیں اگر اُس کے بعد بھی کوئی دوست یا ہمدرد اسلام میں موسیقی کو جائز قرار دینے پر بضد ہے تو ہم صرف اُس کے لئے ہدایت کی دُعا ہی کرسکتے ہیں۔
والسلام علیکم۔