]::::: اسلام میں موسیقی اور گانے ::::: پہلا حصہ ::: شرعی حیثیت :::::

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

ابن بطوطہ

محفلین
ں ارشاد الحق اثری

جزاک اللہ خیر، برادر عادل سہیل اختلاف کا جو الزام آپ لگارہے ہیں مجھے بتائیے اس کی بنیاد کیا آپ پر کی جانے والی تنقید ہے؟۔ کیونکہ قرآن اور حدیث کی واضع نصوص پر کوئی بھی مسلمان اعتراض نہیں کر سکتا اور جو اعتراض کر رہا ہے تو سوچنا یہ ہے کہ اعتراضات کا یہ شوشہ اسلام کے نزول سے ہی جاری و ساری ہے جو قیامت تک جاری رہے گا عقلمند شخص وہ ہوتا ہے جو مسائل کے اختلاف سے زیادہ اُس فتنے میں پڑنے والوں کے عقائد کی درستگی پر توجہ دے کیونکہ اختلافی مباحث صدیوں پُرانے ہیں تقلید کے رسیا اور قرآن وحدیث کے علمبردار علماء وصالحین اس طرح کے موضوعات پر سیر حاصل بحث کر کے خوب خوب داد تحقیق دے چُکے ہیں یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے کہ خیر القرُون کے سیدھے سادھے دُور کے مُدتوں بعد ایجاد ہونے والے مذاہب اربعہ کے مقلد فقہاء نے اپنے اپنے مذہب کی ترجیح میں کیا کیا گُل نہیں کھلائے حتٰی کے اپنے مذہب کے جنون میں اپنے مخالف امام کو نیچا دکھانے سے بھی دریغ نہیں کیا گیا۔

بقول شاہ ولی اللہ محدث دہلوی تقلیدی سلسلے قائم ہونے سے قبل قرُون اولٰی کے علماء کی دو قسمیں رہی ہیں ایک فقہائے محدثین اور دوسرے فقہائے اہل الرائے اول الذکر میں امام احمد رحمہ اللہ علیہ اور امام بخاری رحمہ اللہ وغیرھما ہیں اور حضرت امام ابراہیم نخعی رحمہ الہ اور امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ وغیرھما اہل الرائے کے سُرخیل ہیں فقہائے محدثین نے استخران واستنباط مسائل کے لئے قرآن وحدیث کو بنیاد بنایا جب کے اہل الرائے فقہائے نے اپنے اساتذہ اور اپنے اصحاب مذہب کے اقوال وآراء کو نصوص قرآن وحدیث کے مقابلے میں زیادہ اہمیت دی اور استخراج اور استنباط میں انہی آرائے رجال کو سامنے رکھا۔ اب سوال یہ معلوم کرنا ہے کہ حق پر کون ہے؟۔

میرے نزدیک نظریاتی اختلاف سوائے فتنے کے اور کچھ نہیں لہذا اس نظریاتی اختلاف کا خلاصہ پیش کرنا زیادہ ضروری ہے ناکہ اختلاف کی دُم پکڑ کر ایک دوسرے پر جو اسلام کے دعوے دار ہیں پر کیچڑ اچھالی جائے۔ سب سے پہلے ہم دیکھیں گے کہ نظریاتی اختلافات کے طریقہ کار کیا ہونا چاہئے۔

١۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس اختلاف کو ناپسند فرمایا اور سوائے ایک جماعت حُقہ کے باقی سب کو دوزخ کی وعید سنائی۔
٢۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس اختلاف میں حق و باطل کی پہچان کا معیار معین فرمایا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے طریقے اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی روش پر ہو وہ حق پر ہوگا۔
٣۔ آپ نے ان تمام اُمور کو جو دین کے نام پر بعد میں ایجاد کئے گئے ہیں بدعت فرمایا۔
٤۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایجاد بدعات کی علت کو خواہشات کی پیروی کو قرار دیا۔
٥۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی اُمت کو ہدایت فرمائی کہ ایسے وقت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سُنت اور خلفائے راشدین کے طریقے پر سختی سے قائم رہیں۔

اب اگر کوئی بھی زی شعور مسلمان اس پر غور کرے تو بخوبی جان سکتا ہے کہ حسب پیشنگوئی وہ ناپسندیدہ نظریاتی اختلاف اُمت میں رونما ہوئے اور جن لوگوں نے اپنی نسبت ان نظریاتی اختلاف کے ساتھ جوڑی وہ جماعت حقہ سے جُدا ہوگئے چونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حق وباطل کی پہچان کا معیار معین فرمایا ہے یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے طریقے یعنی کتاب وسنُت اور صحابہ کرام کی روش پر ہونا پس اس سے بالوضاحت معلوم ہوگیا کے جس کا انتساب ان مُختلف نظریاتی فرقوں سے نہ ہو وہی حق پر ہے۔

یعنی یہ بات واضح جاتی ہے کہ اسلام میں جو مختلف فرقے وجود میں آئے وہ فروعی اور اجتہادی اختلاف کی وجہ سے وجود میں نہیں بلکہ نظریاتی اختلاف کی وجہ سے وجود پذیر ہیں اس کا واضع ثبوت یہ ہے کہ صحابہ کرام اور تابعین وغیرہ فروعی اختلافات کے باوجود مختلف فرقوں میں منقسم نہ ہوئے لہذا صحابہ کرام کے بعد جو فرقے بنے وہ یقینی طور پر نظریاتی اختلاف کے حامل ہیں یہ جو بحث ومباحثے کرتے ہیں یہ کوئی دودھ پیتے بچے نہیں ہیں ہر شخص جانتا ہے کہ خواہشات کی پیروی نے ہی اختلافات کو جنم دیا لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہم اختلافات کو سامنے رکھ کر کسی شخص کو نشانہ بنائیں۔

میں یہاں پر ایک کتاب کا لنک مہیا کرنا چاہ رہا ہوں اسلام اور موسیقی جاوید احمد غامدی کا رد
اس کتاب کے مؤلف ہیں ارشاد الحق اثری اور جس کتاب سے برادر باذوق نے اقتباسات کو پیش کیا ہے وہ یہ کتاب یہاں سے ڈاونلوڈ کر سکتے ہیں اگر اُس کے بعد بھی کوئی دوست یا ہمدرد اسلام میں موسیقی کو جائز قرار دینے پر بضد ہے تو ہم صرف اُس کے لئے ہدایت کی دُعا ہی کرسکتے ہیں۔

والسلام علیکم۔
 

خرم

محفلین
اس کا واضع ثبوت یہ ہے کہ صحابہ کرام اور تابعین وغیرہ فروعی اختلافات کے باوجود مختلف فرقوں میں منقسم نہ ہوئے لہذا صحابہ کرام کے بعد جو فرقے بنے وہ یقینی طور پر نظریاتی اختلاف کے حامل ہیں
بھیا پہلے بھی اس بات پر کافی عزت افزائی ہوئی تھی لیکن ایک دفعہ پھر عرض کرتا ہوں کہ صحابہ کرام میں نظریاتی اختلافات کی بنا پر نا صرف فرقہ بازی تھی بلکہ بعض اوقات تو جنگ و جدل بھی ہوئی اگرچہ اس کی وجہ علمی سے زیادہ سیاسی تھی لیکن یہ بہرحال ہوا ضرور۔ نعوذ باللہ اس سے ان کی شان گھٹانا مقصود نہیں بلکہ صرف یہ کہنا مقصود ہے کہ اختلاف رائے صحابہ کرام کے زمانہ سے ہی چلا آرہا ہے اور مختلف آیات و احادیث کی تشریح صحابہ کرام نے مختلف کی ہے اس لئے ائمہ کرام کو صرف اس بنیاد پر غلط نہیں قرار دیا جاسکتا کہ انہوں نے چند اصحاب کے افعال یا اقوال پر دلالت کی۔ باقی جو آپکی بات ہے کہ ائمہ اربعہ نے قرآن حدیث کی بجائے اپنے اساتذہ کے اقوال کو ترجیح دی تو یہ بات صریحاً غلط ہے۔
 
صاف و واضح، قرآن کی آیات اور مستند اقوال و افعال رسول اکرم ( سنت رسول) اور ضوء القرآن سے کوئی بات ثابت نہیں تو وہ غیر القرآن کے زمرہ میں میں رکھئے۔ اگر اختلاف رائے پایا جاتا ہے جیسے کہ اس امر میں تو اس امر کو خاص طور پر قرآن کی روشنی میں دیکھا جائے تو زیادہ بہتر ہے۔ قرآن آپ کو ہم کو غور کرنے کے لئے کہتا ہے، سو کیجئے۔
 

باذوق

محفلین
جناب میں نے یہ بات کسی بنیاد پر ہی کہی تھی۔ اور اب بھی کہتا ہوں کہ قرآن میں گانے کی حرمت پر کوئی واضح آیت موجود ہی نہیں۔ اور جن چار آیات کی آپ بات کررہے ہیں ان کی بھی تفاسیر سے یہ بات نکالی جاتی ہے کہ یہاں اس لفظ سے مراد گانا ہے۔ میں انشاءاللہ آئندہ دنوں میں اس پر ایک مفصل تحریر پوسٹ کرتا ہوں جو کتاب اسلام اور موسیقی از مولانا شاہ محمد جعفر پھلواروی سے ماخوذ ہوگی۔ اس میں صحابہ، تابعین، تبع تابعین، صلحائے امت اور صوفیاء سے متعدد ایسے واقعات درج ہیں کہ وہ گانا سنتے بھی تھے اور اس کا شوق بھی رکھتے تھے۔ مزید اس میں تواتر کے ساتھ کئی احادیث سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ صرف گانا سنا بلکہ اس سے منع بھی نہیں کیا۔ اور اسی میں قرآن کی ان آیات کی تفسیر بھی آجائے گی جن سے گانے کی حرمت ثابت کی جاتی ہے۔ تفسیر حجت نہیں حجت قرآن اور حدیث ہے۔ اگر ایک بزرگ نے ایک خیال پیش کیا ہے تو اس کے مقابلے میں اسی آیت کی تفسیر کسی اور نے بالکل مختلف انداز میں کی ہے۔ تفسیر مفسر کی ذاتی آراء اور سمجھ بوجھ پر مشتمل ہے چناچہ آپ کو اختیار ہے کہ کس تفسیر کو قبول کرتے ہیں۔ بہرحال مجھے دلیل اور حجت اور تفسیر کی حیثیت پر کوئی بات کرنے کا حق نہیں لیکن مذکورہ بالا کتاب سے انشاءاللہ کمپوز کرکے یہاں پوسٹ کرتا ہوں جس سے بہت ساری غلط فہمیوں کا ازالہ ہوجائے گا۔ انشاءاللہ۔
وسلام
محترم دوست !
کیا یہ بہتر نہیں ہوگا کہ آپ ذیل کے جملے کو ذرا درست کر لیں ۔۔۔۔
اس میں صحابہ، تابعین، تبع تابعین، صلحائے امت اور صوفیاء سے متعدد ایسے واقعات درج ہیں کہ وہ گانا سنتے بھی تھے اور اس کا شوق بھی رکھتے تھے۔ مزید اس میں تواتر کے ساتھ کئی احادیث سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ صرف گانا سنا بلکہ اس سے منع بھی نہیں کیا۔

آپ سو دیڑھ سو سال قبل کی ایک شخصیت کی تحقیق پر اعتماد کر کے درج بالا جملہ کہہ رہے ہیں ۔۔۔۔
جبکہ چھٹی صدی ہجری کے محقق امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ نے اپنے رسالہ "السماع و الرقص" میں لکھا تھا :
جو کوئی اس قسم کے سماع کے جواز و عدم جواز پر بحث کرتا ہے اور اسے گانے پر قیاس کرتا ہے جو عید وغیرہ خوشی کے موقعوں پر عورتیں لگایا کرتی تھیں ، تو وہ سخت غلطی کا ارتکاب کرتا ہے۔ دراصل وہ اہل فلاح اور اہل خسران کے راستوں‌ میں سرے سے فرق و امتیاز ہی نہیں کر سکا ہے۔ کہاں یہ گانا اور کہاں وہ صدر اول میں عورتوں کا عید وغیرہ میں سادہ گانا؟

اور ۔۔۔۔۔
امام احمد بن حنبل رحمة اللہ علیہ سے جب تالی ، ڈھول ، بانسری یا رباب پر مبنی قوالی کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا :
[arabic]اکرهه[/arabic] (میں اسے ناپسند کرتا ہوں)
پوچھا گیا : کیا آپ ایسے لوگوں کی صحبت میں بیٹھ سکتے ہیں؟
آپ نے جواب دیا : نہیں !


اور ۔۔۔۔۔
امام شافعی رحمة اللہ علیہ نے فرمایا : میں بغداد میں ایک ایسی چیز چھوڑ آیا ہوں ، جسے زندیقوں نے ایجاد کیا ہے یعنی : گانا بجانا۔ اس کے ذریعے انہوں نے لوگوں سے قرآن چھڑا دیا ہے۔

دوست ! درج بالا ائمہ دین کے اقوال پیش کر کے میں یہ نہیں کہہ رہا ہوں کہ ان پر ایمان لایا جائے۔ بلکہ میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ آپ تیرھویں/چودھویں صدی کی ایک غیرمعروف شخصیت کی "تحقیق" پر اتنا اعتماد کرتے ہیں کہ اس ہی بنیاد پر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) ، صحابہ، تابعین، تبع تابعین کو بھی "گانا سماعت کرنے والے" بیان کر جاتے ہیں ۔۔۔۔ تو ہم کیوں نہ اُن ائمہ دین کی باتوں پر اعتماد کریں جو "خیرالقرون" سے زیادہ قریب اور امت میں علم و تقویٰ کے لحاظ سے زیادہ معروف ہیں؟

اگر آپ کہیں کہ فلاں فلاں شخصیت کی "تحقیق" کے پیچھے قرآن و سنت کے دلائل ہیں تو پھر یہی بات میں بھی کہوں گا کہ انہی مشہور و معروف ائمہ دین کی تصریحات و تشریحات سے واضح ہے کہ ان کے فیصلے قرآن و سنت کے مضبوط دلائل پر قائم ہیں ، الحمدللہ۔
لہذا "تحقیق" کو آپ بھی سامنے لائیں اور ہم بھی ۔۔۔۔۔ باقی ہدایت تو اللہ کے ذمہ ہے !!
 

باذوق

محفلین
بھیا پہلے بھی اس بات پر کافی عزت افزائی ہوئی تھی لیکن ایک دفعہ پھر عرض کرتا ہوں کہ صحابہ کرام میں نظریاتی اختلافات کی بنا پر نا صرف فرقہ بازی تھی بلکہ بعض اوقات تو جنگ و جدل بھی ہوئی اگرچہ اس کی وجہ علمی سے زیادہ سیاسی تھی لیکن یہ بہرحال ہوا ضرور۔ نعوذ باللہ اس سے ان کی شان گھٹانا مقصود نہیں بلکہ صرف یہ کہنا مقصود ہے کہ اختلاف رائے صحابہ کرام کے زمانہ سے ہی چلا آرہا ہے اور مختلف آیات و احادیث کی تشریح صحابہ کرام نے مختلف کی ہے اس لئے ائمہ کرام کو صرف اس بنیاد پر غلط نہیں قرار دیا جاسکتا کہ انہوں نے چند اصحاب کے افعال یا اقوال پر دلالت کی۔ باقی جو آپکی بات ہے کہ ائمہ اربعہ نے قرآن حدیث کی بجائے اپنے اساتذہ کے اقوال کو ترجیح دی تو یہ بات صریحاً غلط ہے۔
محترم خرم صاحب ! ابن بطوطہ کے اس قول :
ائمہ اربعہ نے قرآن حدیث کی بجائے اپنے اساتذہ کے اقوال کو ترجیح دی
پر آپ نے فوری ردّ عمل کے تحت جو یوں جواب دیا ہے : یہ بات صریحاً غلط ہے۔
بالکل اسی طرح آپ کے اس قول :
صحابہ کرام میں نظریاتی اختلافات کی بنا پر نا صرف فرقہ بازی تھی بلکہ بعض اوقات تو جنگ و جدل بھی ہوئی ۔۔۔ ۔۔۔۔ اختلاف رائے صحابہ کرام کے زمانہ سے ہی چلا آرہا ہے اور مختلف آیات و احادیث کی تشریح صحابہ کرام نے مختلف کی ہے
پر میرا فوری ردّ عمل والا جواب آپ جیسا ہی ہوگا ۔۔۔ یعنی : یہ بات صریحاً غلط ہے۔

دراصل ہمارے معاشرے میں‌ دینی علوم سے درست واقفیت کی کمی ہے اور اسی سبب ہم لوگ ۔۔۔
"اختلاف" اور "اجتہاد"
"مختلف"‌ اور "متنوع"
جیسی اصطلاحات میں‌ فرق کرنے سے قاصر رہ جاتے ہیں‌ !!

اور اللہ ہی ہم تمام کو ہدایت دینے والا ہے۔
 

باذوق

محفلین
اللہ کی کتاب قرآن جن کتب پر ایمان لانے کے لئے کہتی ہے ، ان میں سے ایک ہے زبور۔
بےشک ! لیکن ۔۔۔۔ کسی اور جگہ غالباً آپ نے ہی کہا ہے کہ سوائے قرآن کے اللہ نے کسی کتاب کی حفاظت کی ذمہ داری نہیں لی ہے۔ لہذا آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ جو "زبور" اس وقت دنیا میں پائی جاتی ہے وہ من و عن وہی ہے جو داؤد علیہ السلام پر نازل ہوئی تھی؟
ہمارا ایمان تو اُس کتاب پر ہے جو داؤد علیہ السلام پر نازل ہوئی تھی اس پر نہیں جو آج دنیا میں "زبور" کے نام سے پائی جاتی ہے۔ لہذا جو "اصل کتاب" موجود ہی نہیں اس کے متعلق آپ کا یہ کہنا :
آپ اتنی بڑی شہادت کیسے رد کرسکتے ہیں؟
غیر ضروری امر ہے !!

دیکھئے، اللہ کی حمد ثناء کے گیت گانے کے بارے میں۔ اگر موسیق یا گیت گانا حرام ہوا تو ایسی روایت ممکن ہی نہیں تھی کہ فرشتے اللہ کے تعریفی گیت گاتے ہیں۔ اگر گیت گانا گناہ ہوتا تو فرشتے جو معصوم ہیں کیسے اللہ کے تعریفی گیت گاتے؟
http://www.usc.edu/dept/MSA/fundamentals/hadithsunnah/muslim/026.smt.html#026.5538
آپ سے غالباً پہلے بھی کئی بار عرض کیا جا چکا ہے کہ عربی متن سے حوالہ دیں۔ مجھے امید ہے کہ آپ اس حدیث کے عربی متن کا لنک ضرور دیں گے تاکہ اس پر بھی تفصیل سے بات ہو۔

اب یہ دیکھئے ، یہ روایت لڑکیوں‌کو گانے سے منع نہیں کررہی ہے بلکہ گانے کی اجازت دے رہی ہے
http://www.usc.edu/dept/MSA/fundamentals/hadithsunnah/muslim/004.smt.html#004.1942
ان شاءاللہ اس حدیث پر آگے چل کر تفصیل سے بات ہوگی۔

باجوں‌کے ضمن میں‌عرض یہ ہے کہ رسول اکرم نے ایک صحابی عبداللہ بن قیس الاشعری کی خوش الحانی سے متاثر ہو کر یہ فرمایا کہ تمہارے گلے میں‌داؤد علیہ السلام جیسی نغمگی ہے؟
http://www.usc.edu/dept/MSA/fundamentals/hadithsunnah/muslim/004.smt.html#004.1734
اس کا جواب تفصیل سے میں نے یہاں دے دیا ہے۔ اگر اس جواب کے نکات پر آپ مزید وضاحتیں چاہتے ہوں تو براہ مہربانی واضح کر کے لکھیں۔

باذوق صاحب نے اوپر ایک بھائی کو خوب لتاڑا کہ --- حضرت سلیمان علیہ السلام نہیں - بلکہ -- حضرت داؤد علیہ السلام خوش الحانی سے اپنے رب کی حمد و ثناء کرتے تھے۔ وہ شاید یہ بھول گئے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام ، حضرت داؤدعلیہ السلام کے صاحبزادے تھے اور حضرت سلیمان علیہ السلام بھی زبور کے گیت ہی گایا کرتے تھے۔ بھائی باذوق کچھ احتیاط کر لیں اپنی علمیت کا "رعاب" جھاڑنے اور کسی کو لتاڑنے سے پہلے۔ وہ بھائی ٹھیک کہہ رہے ہیں، زبور اور سلیمان علیہ السلام کے بارے میں۔
arifkarim صاحب کے لیے میرے اصل الفاظ یوں تھے :
بھائی محترم ! آپ سے ادباً گذارش کروں گا کہ : جہاں علم نہ ہو وہاں خاموشی بہتر ہوتی ہے۔
غالباً آپ یہاں داؤد علیہ السلام لکھنا چاہ رہے تھے کیونکہ "مزمار" کے الفاظ حضرت داؤد علیہ السلام سے متعلق ہیں۔
اور یہ تو انبیاء کی توہین ہوگی جو ہم یوں کہیں کہ انہیں ساز اور راگوں کا علم دیا گیا تھا۔
اگر arifkarim صاحب خود کہہ دیں کہ اس طرز بیان سے انہیں ایسا محسوس ہوا ہے کہ میں انہیں لتاڑ رہا ہوں تو یقیناً ان سے معافی مانگنے میں مجھے رتی برابر بھی جھجھک نہیں ہوگی۔ اگر وہ ایسا نہیں کہتے تب فاروق صاحب کو چاہئے کہ وہ یہاں یہ بھی کہہ دیں کہ درج بالا اقتباس کے ذریعے دراصل وہ arifkarim صاحب کی نمائیندگی کر رہے ہیں۔
باقی رہا ۔۔۔۔ فاروق صاحب کا یہ فرمان :
حضرت سلیمان علیہ السلام بھی زبور کے گیت ہی گایا کرتے تھے۔
تو عرض ہے کہ اس کا حوالہ قرآن کی کسی آیت یا کسی صحیح حدیث (مگر آپ کے بقول : روایت) سے دیجئے۔
یہ تو ہم سب کا ماننا ہے کہ ہم یہاں ایک معاملے (اسلام میں موسیقی) پر دینی بحث کر رہے ہیں ۔۔۔ لہذا یہاں فلموں یا ناولوں یا تحریف شدہ آسمانی کتب کے حوالے نہیں چل سکتے !

اتنی ساری برعکس روایات کی موجودگی میں، ضروری ہے کہ کوئی بہت ہی واضح آیت ہو جو موسیقی کو حرام قرار دیتی ہو۔ بناء اللہ تعالی کے حکم کے کسی بھی شے کو حرام یا حلال قرآر دینا ایک صریح‌ گناہ ہے۔ ۔ موسیقی اور نغمے پر رسول اکرم کی واضح‌سنت عطا فرمائیے کہ فلاں ابن فلاں گا رہا تھا اور رسول اکرم نے اس کو روک دیا ہو؟ اس کے برعکس ہم کو یہ روایت ملتی ہے کہ کچھ لڑکیاں گاتی رہیں اور جب ان کو منع کیا گیا تو رسول اکرم نے منع کرنے والے کو روک دیا - حوالہ اوپر دے چکا ہوں۔
آپ نے صرف تین (3) حوالے دئے ہیں جنہیں آپ "اتنی ساری" بھی کہتے ہیں۔
خیر۔ اپنی بات پر زور دینے اور اسے منوانے کا ایسا طریقہ بہت کامن ہے۔ اِٹس نو پرابلم۔
میں پہلے کہہ چکا ہوں کہ اس روایت پر بحث آگے آئے گی۔ لیکن ایک بات ضرور بتائیے کہ ۔۔۔۔ کیا نابالغ لڑکیوں کا اشعار پڑھنا اور بالغ مردوں/عورتوں کا ساز و آواز کے ساتھ محفلِ نغمہ برپا کرنا ۔۔۔۔ ایک ہی معنوں میں آتا ہے؟؟

جبکہ صحیح مسلم میں امام نووی رحمة اللہ نے ان احادیث (بچیوں کا اشعار پڑھنا) پر یوں عنوان دیا ہے :
[ARABIC]فصل فی جواز لعب الجواری الصغار و غنائهن وضربهن بالدف يوم العيدين[/ARABIC]
(یہ فصل ہے عیدین کے روز چھوٹی بچیوں کے کھیلنے اور ان کے گانے اور دف بجانے کے جواز میں)
بحوالہ : شرح مسلم ، ج:1 ، ص:291

اور ۔۔۔
امام الحلیمی نے لکھا ہے :
دف بجانا صرف عورتوں کے لیے حلال ہے کیونکہ یہ دراصل انہی کا عمل ہے جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان مردوں پر لعنت فرمائی ہے جو عورتوں کی مشابہت اختیار کرتے ہیں۔
بحوالہ : شعب الایمان ، ج:4 ، ص:283

اور ۔۔۔
علامہ ابن قدامہ نے فرمایا ہے :
مَردوں کا دف بجانا بہرحال مکروہ ہے کیونکہ دَف عورتیں اور وہ مخنث بجاتے تھے جو عورتوں کے مشابہ ہوتے ہیں۔ اس لیے مردوں کا دف بجانا عورتوں سے مشابہت ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان مردوں پر لعنت فرمائی ہے جو عورتوں کی مشابہت اختیار کرتے ہیں۔
بحوالہ : المغنی ، ج:12 ، ص:41

اور ۔۔۔
امام ابن تیمیہ نے لکھا ہے :
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں نہ تو کوئی مرد دَف بجاتا تھا اور نہ ہی تاڑی۔
بحوالہ : مجموعہ الرسائل الکبریٰ ، ج:2 ، ص:301

نابالغ لڑکیوں یا لونڈیوں کی جانب سے دعائیہ کلمات پر مبنی گانے کو "موسیقی" کا نام دے کر موسیقی کو حلال یا مباح قرار دینا ۔۔۔۔ کس آیت یا کس حدیث کی شرح ہے اور متقدمین ائمہ میں سے کن کن نے اس کی تائید کی ہے اس کا حوالہ ضرور دیا جانا چاہئے !!

کیا مزے کی بات ہے کہ قرآن نغمہ یا موسیقی کے بارے میں کچھ بھی نہیں کہتا پھر بھی لوگ، مبہم باتوں سے اپنی خواہشات کے مطابق اپنا رنگ پیش کرتے ہیں۔ اور کہیں کی آیت کہیں لگاتے ہیں
آپ بےشک اس کو "مزا" سمجھ لیں لیکن حقیقت بہرحال وہی ہے جو عادل سہیل صاحب پیش کر چکے ہیں۔
میں ایک بار پھر یہاں دہرا دیتا ہوں :

[ARABIC]وَمِنَ النَّاسِ مَن يَشْتَرِي لَهْوَ الْحَدِيثِ لِيُضِلَّ عَن سَبِيلِ اللَّهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَيَتَّخِذَهَا هُزُوًا أُولَئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ مُّهِينٌ[/ARABIC]
( سورة لقمان : 31 ، آیت : 6 )
اِس آیت میں فرمائے گئے اِلفاظ [ARABIC]''لَهْوَ الْحَدِيثِ''[/ARABIC] کی تفسیر میں عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ ُ نے تین بار فرمایا:
[ARABIC]الغناء والذي لا إله إلا هو .[/ARABIC]
اللہ کی قسم جِس کے عِلاوہ کوئی سچا معبود نہیں اِس کا مطلب گانا ہے۔
مصنف ابن ابی شیبہ ، ج:5 ، ص:76

[ARABIC]عن ابن عباس: في قوله عز وجل: ﴿ ومن الناس من يشتري لهو الحديث﴾ [لقمان: 6] قال: "الغناء وأشباهه".[/ARABIC]
ترجمان القرآن حضرت ابن عباس نے فرمایا : اللہ تعالیٰ کے اس قول [ARABIC]﴿ ومن الناس من يشتري لهو الحديث﴾[/ARABIC] کا مطلب گانا اور اس جیسے دیگر کام ہیں۔
صحیح الادب المفرد للبخاری ، ح:1265 ، ص:275
 

دوست

محفلین
جناب پچھلے تین دن سے میں اسی کو ٹائپ کررہا ہوں اور انشاءاللہ یہاں پوسٹ بھی کروں گا۔ انشاءاللہ اس میں ان شخصیات کا بھی ذکر ہوگا جو خیر القرون میں سے ہیں۔ بلکہ اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر بھی اس میں شامل ہے۔
چھٹی صدی ہجری کے محقق امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کے مطابق وہ "سادہ گانا تھا" تو مجھے حیرت ہورہی ہے کہ دف کا اس گانے میں استعمال طلع البدر علینا میں تو ہم سب ہی جانتے ہیں۔ اور اس چھوٹی سی ریاست، سادہ سی تہذیب اور چودہ سو سال پرانی ایک سوسائٹی سے جس کے روابط اپنے پڑوس کی ریاستوں سے اتنے مضبوط بھی نہیں ہوئے ہم اور کس چیز کی توقع کریں؟ ہارمونیم؟ طبلہ؟ سارنگی یا ستار؟ اس وقت کا ساز دف تو اس "سادہ سے گانے" میں شامل ہے۔
اور مزید یہ کہ یہاں ڈسکو کے گانے، یا فحش مضامین والے گانے یا آج کل کے ہاؤ ہو کو جائز کوئی بھی نہیں کہہ رہا۔ بات ہورہی ہے گانے کی وہی سادہ گانا جس کی بات امام صاحب نے کی ہے۔ لیکن اس میں آج کے دور کے مطابق دف کی بجائے طبلہ بھی ہوسکتا ہے، سارنگی بھی، ستار بھی اور ہارمونیم بھی اور آج کے اشعار بھی۔
وسلام
 

دوست

محفلین
آہ واپڈا۔ میری تین دن کی محنت بجلی کے ایک جھٹکے سے اڑ گئی۔ معذرت کے ساتھ آپ کو مزید انتظار کرنا ہوگا ورنہ میرا ارادہ تھا کہ کل تک منتخب حصہ ٹائپ ہوجائے گا اور پوسٹ کردوں گا۔ تصاویر اس لیے پوسٹ نہیں‌ کررہا کہ بیس بچیس تصاویر بہت نامناسب لگیں گی فورم پر ویسے بھی اس پر پابندی ہے۔
وسلام
 

باذوق

محفلین
دوست !
میری آپ سے خاص گذارش رہے گی کہ آپ ایک علیحدہ تھریڈ میں سلسلہ وار لگا دیں۔
اور اُس تھریڈ کا لنک یہاں دے دیں۔ اس طرح وہ کتاب (یا اس کتاب کے اہم اقتباسات) ایک تھریڈ میں علیحدہ طور پر محفوظ رہیں گے اور حوالہ دینے کے طور پر بھی آسانی رہے گی۔
 

باذوق

محفلین
جناب پچھلے تین دن سے میں اسی کو ٹائپ کررہا ہوں اور انشاءاللہ یہاں پوسٹ بھی کروں گا۔ انشاءاللہ اس میں ان شخصیات کا بھی ذکر ہوگا جو خیر القرون میں سے ہیں۔ بلکہ اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر بھی اس میں شامل ہے۔
ایسی باتوں کا مطالعہ شائد میرے اب تک کے مطالعے کا پہلا تجربہ ہوگا۔ بہرحال اس کا انتظار ہے۔
چھٹی صدی ہجری کے محقق امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کے مطابق وہ "سادہ گانا تھا" تو مجھے حیرت ہورہی ہے کہ دف کا اس گانے میں استعمال طلع البدر علینا میں تو ہم سب ہی جانتے ہیں۔ اور اس چھوٹی سی ریاست، سادہ سی تہذیب اور چودہ سو سال پرانی ایک سوسائٹی سے جس کے روابط اپنے پڑوس کی ریاستوں سے اتنے مضبوط بھی نہیں ہوئے ہم اور کس چیز کی توقع کریں؟ ہارمونیم؟ طبلہ؟ سارنگی یا ستار؟ اس وقت کا ساز دف تو اس "سادہ سے گانے" میں شامل ہے۔
میں پچھلی پوسٹ میں حوالہ دے چکا ہوں کہ دف کا استعمال نابالغ بچیوں اور لونڈیوں کے لیے روا رہا ہے۔ میرے ناقص علم کی حد تک اب تک تو کوئی ایک ایسی صحیح حدیث نظر سے نہیں گزری جس سے کسی صحابی کا دف بجانا یا گانے سماعت فرمانا ثابت ہوتا ہو۔
خود جاوید احمد غامدی صاحب نے اپنے رسالہ "اشراق" میں لکھا تھا کہ :
فقہ کے چاروں مکاتب کا بالعموم اس بات پر اتفاق ہے کہ موسیقی اور آلات موسیقی مطلق طور پر حرام ہیں۔
حوالہ : اشراق ، جلد:16 ، شمارہ:3 ، مارچ۔2004ء ، ص:48
حالانکہ متعدد دلائل سے یہ بھی ثابت کیا جا سکتا ہے کہ صرف فقہائے اربعہ رحمہم اللہ ہی نہیں بلکہ موسیقی اور آلاتِ موسیقی کی حرمت پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا بھی اتفاق ہے۔
حافظ ابن حجر العسقلانی نے تو صاف صاف لکھا ہے :
ان سے ایسی کوئی چیز ثابت نہیں ہوتی۔
حوالہ : فتح الباری ، ج:10 ، ص:543

مزید ۔۔۔
علامہ البانی نے لکھا ہے :
سلف سے ایسی کوئی روایت ثابت نہیں ، ان میں اکثر ایسی ہیں جن کی نہ کوئی کوہان ہے ، نہ نکیل۔
حوالہ : تحريم آلات الطرب ، 5 - الفصل الخامس ، ص:98
اور مزید یہ کہ یہاں ڈسکو کے گانے، یا فحش مضامین والے گانے یا آج کل کے ہاؤ ہو کو جائز کوئی بھی نہیں کہہ رہا۔ بات ہورہی ہے گانے کی وہی سادہ گانا جس کی بات امام صاحب نے کی ہے۔ لیکن اس میں آج کے دور کے مطابق دف کی بجائے طبلہ بھی ہوسکتا ہے، سارنگی بھی، ستار بھی اور ہارمونیم بھی اور آج کے اشعار بھی۔
مجھے معاف کیجئے جناب۔ میں‌ ایک بار پھر لاحول ولا قوۃ دہراؤں‌ گا۔
 

خرم

محفلین
محترم خرم صاحب ! ابن بطوطہ کے اس قول :

پر آپ نے فوری ردّ عمل کے تحت جو یوں جواب دیا ہے : یہ بات صریحاً غلط ہے۔
بالکل اسی طرح آپ کے اس قول :

پر میرا فوری ردّ عمل والا جواب آپ جیسا ہی ہوگا ۔۔۔ یعنی : یہ بات صریحاً غلط ہے۔

دراصل ہمارے معاشرے میں‌ دینی علوم سے درست واقفیت کی کمی ہے اور اسی سبب ہم لوگ ۔۔۔
"اختلاف" اور "اجتہاد"
"مختلف"‌ اور "متنوع"
جیسی اصطلاحات میں‌ فرق کرنے سے قاصر رہ جاتے ہیں‌ !!

اور اللہ ہی ہم تمام کو ہدایت دینے والا ہے۔

آپ کی بات سر آنکھوں پر بھیا لیکن یہی تنوع اور اجتہاد جب کوئی اور اپنی دلیل میں استعمال کرے تو اسے آپ تفرقہ بازی کہہ دیتے ہیں۔ اگر اصحاب کے اجتہاد کی بنا پر ائمہ نے ایک راستہ اختیار کیا تو اسے تفرقہ بازی کہنا میرے نزدیک تو صریحاً غلط ہے۔
 

زیک

مسافر
میں پچھلی پوسٹ میں حوالہ دے چکا ہوں کہ دف کا استعمال نابالغ بچیوں اور لونڈیوں کے لیے روا رہا ہے۔

ایک تو اسلام نے لونڈیوں کو بہت آزادی دے رکھی تھی۔ ہر چیز ان کے لئے حلال تھی۔ :p

ویسے موسیقی حلال کرنے کا تو پھر آسان طریقہ ہے کہ تمام گلوکاروں کو غلام بنا دیا جائے۔ :rolleyes:
 

وجی

لائبریرین


كيا اسلامى نظميں آلات موسيقى كے ساتھ سننى جائز ہيں، آپ سے گزارش ہے كہ كتاب و سنت پر مشتمل جواب سے نوازيں ؟


الحمد للہ:

قرآنى آيات اور احاديث نبويہ گانے بجانے كے آلات اور موسيقى كى مذمت پر دلالت كرتے ہيں، اور انہيں استعمال نہ كرنے كا كہتے ہيں، اور قرآن مجيد راہنمائى كرتا ہے كہ ايسى اشياء كا استعمال ضلالت و گمراہى اور اللہ تعالى كى آيات كو مذاق بنانے كا باعث ہے.

جيسا كہ اللہ تعالى كا فرمان ہے:

﴿ اور لوگوں ميں سے كچھ ايسے بھى ہيں جو لغو باتيں خريدتے ہيں، تا كہ لوگوں كو بغير علم اللہ كى راہ سے روك سكيں، اور اسے مذاق بنائيں، يہى وہ لوگ ہيں جن كے ليے ذلت آميز عذاب ہو گا ﴾لقمان ( 6 ).

اكثر علماء كرام نے لہو الحديث كى تفسير گانا بجانا اور آلات موسيقى اور ہر وہ آواز جو حق سے روكے بيان كى ہے.

امام طبرى ابن ابى الدنيا اور ابن جوزى رحمہم اللہ نے درج ذيل آيت كى تفسير ميں مجاہد رحمہ اللہ كا قول نقل كيا ہے:

فرمان بارى تعالى ہے:

﴿ اور ان ميں سے جسے بھى تو اپنى آواز بہكا سكے بہكا لے، اور ان پر اپنے سوار اور پيادے چڑھا لا، اور ان كے مال اور اولاد ميں سے بھى اپنا شريك بنا لے، اور ان كے ساتھ جھوٹے وعدے كر لے، اور ان كے ساتھ شيطان كے جتنے بھى وعدے ہوتے ہيں وہ سب كے سب فريب ہيں ﴾الاسراء ( 64 - 65 ).

مجاہد رحمہ اللہ كہتے ہيں: يہ گانا اور آلات موسيقى اور بانسرى وغيرہ ہيں.

اور طبرى نے حسن بصرى سے ان كا قول نقل كيا ہے كہ: اس كى آواز دف ہيں.

ديكھيں: جامع البيان ( 15 / 118 - 119 ) ذم الملاہى ( 33 ) تلبيس ابليس ( 232 ).

اور ابن قيم رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" يہ اضافت تخصيص ہے، جس طرح اس كى طرف گھڑ سوار اور پيادے كى اضافت كى گئى ہے، چنانچہ ہر وہ كلام جو اللہ تعالى كى اطاعت كے بغير ہو، اور ہر وہ آواز جو بانسرى يا دف يا ڈھول وغيرہ كى ہو وہ شيطان كى آواز ہے " انتہى.

ديكھيں: اغاثۃ اللھفان ( 1 / 252 ).

امام ترمذى رحمہ اللہ نے ابن ابى ليلى كى سند سے حديث بيان كى ہے وہ عطاء سے بيان كرتے ہيں، اور وہ جابر رضى اللہ تعالى عنہ سے بيان كرتے ہيں كہ:

رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم عبد الرحمن بن عوف رضى اللہ تعالى عنہ كے ساتھ نكلے تو ان كا بيٹا ابراہيم موت و حيات كى كش مكش ميں تھا، رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے بيٹے كو گود ميں ركھا تو ان كى آنكھوں سے آنسو بہنے لگے.

تو عبد الرحمن كہنے لگے: آپ رونے سے منع كرتے ہيں، اور خود رو رہے ہيں ؟

تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" ميں رونے سے منع نہيں كرتا، بلكہ دو احمق اور فاجر قسم كى آوازوں سے منع كرتا ہوں، ايك تو مزامير شيطان اور موسيقى كے آلات اور نغمہ كے وقت نكالى جانے والى آواز سے، اور دوسرى مصيبت كے وقت چہرے پيٹنے اور گريبان پھاڑنے كےساتھ آہ بكا كرنے كى آواز "

سنن ترمذى حديث نمبر ( 1005 ) امام ترمذى كہتے ہيں، يہ حديث حسن ہے، اور اسے امام حاكم نے المستدرك ( 4 / 43 ) اور بيہقى نے السنن الكبرى ( 4 / 69 ) اور الطيالسى نے مسند الطيالسى حدي نمبر ( 1683 ) اور امام طحاوى نے شرح المعانى ( 4 / 29 ) ميں نقل كيا ہے، اور علامہ البانى نے اسے حسن قرار ديا ہے.

امام نووى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" اس سے مراد گانا بجانا اور آلات موسيقى ہيں "

ديكھيں: تحفۃ الاحوذى ( 4 / 88 ).

صحيح حديث ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا يہ بھى فرمان ہے:

" ميرى امت ميں كچھ لوگ ايسے آئينگے جو زنا اور ريشم اور شراب اور گانا بجانا اور آلات موسيقى حلال كر لينگے، اور ايك قوم پہاڑ كے پہلو ميں پڑاؤ كريگى تو ان كے چوپائے چرنے كے بعد شام كو واپس آئينگے، اور ان كے پاس ايك ضرورتمند اور حاجتمند شخص آئيگا وہ اسے كہينگے كل آنا، تو اللہ تعالى انہيں رات كو ہى ہلاك كر ديگا، اور پہاڑ ان پر گرا دے گا، اور دوسروں كو قيامت تك بندر اور خنزير بنا كر مسخ كر ديگا "

امام بخارى نے اسے صحيح بخارى ( 10 / 51 ) ميں معلقا روايت كيا ہے، اور امام بيہقى نے سنن الكبرى ( 3 / 272 ) ميں اسے موصول روايت كيا ہے، اور طبرانى ميں معجم الكبير ( 3 / 319 ) اور ابن حبان نے صحيح ابن حبان ( 8 / 265 ) ميں روايت كيا ہے، اور ابن صلاح نے علوم الحديث ( 32 ) ميں اور ابن قيم نے اغاثۃ اللھفان ( 255 ) اور تہذيب السنن ( 2 / 1270 - 272 ) اور حافظ ابن حجر نے فتح البارى ( 10 / 51 ) اور علامہ البانى رحمہ اللہ نے سلسلۃ الاحاديث الصحيحۃ ( 1 / 140 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فتح البارى ميں كہتے ہيں:

" المعازف يہ گانے بجانے كے آلات ہيں، اور قرطبى نے جوہرى سے نقل كيا ہے كہ: معازف گانا ہے، اور ان كى صحاح ميں ہے كہ: يہ گانے بجانے كے آلات ہيں، اور ايك قول يہ بھى ہے كہ: يہ گانے كى آوازيں ہيں.

اور دمياطى كے حاشيہ ميں ہے: معازف دف اور ڈھول وغيرہ ہيں جو گانے ميں بجائے جاتے ہيں، اور لہو و لعب ميں بجائے جائيں . انتہى

ديكھيں: فتح البارى ( 10 / 55 ).

اور ابن قيم رحمہ اللہ كہتے ہيں:

اس كى وجہ دلالت يہ ہے كہ:

معازف سب آلات لہو كو كہا جاتا ہے، اس ميں اہل لغت كے ہاں كوئى اختلاف نہيں، اور اگر يہ حلال ہوتے تو اسے حلال كرنے كى بنا مذمت نہ كى جاتى، اور نہ ہى اس كا حلال كرنا شراب اور زنا كے ساتھ ملايا جاتا. انتہى.

ديكھيں: اغاثۃ اللہفان ( 1 / 256 ).

اس حديث سے گانے بجانے كے آلات كى حرمت ثابت ہوتى ہے، اور اس حديث سے كئى طرح استدلال ہوتا ہے:

پہلى وجہ:

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان: " وہ حلال كر لينگے "

يہ اس بات كى صراحت ہے كہ يہ مذكور اشياء شريعت ميں حرام ہيں، تو يہ لوگ انہيں حلال كر لينگے، اور ان مذكورہ اشياء ميں معازف يعنى گانے بجانے كے آلات بھى شامل ہيں.

دوم:

ان گانے بجانے والى اشياء كو ان اشياء كے ساتھ ملا كر ذكر كيا ہے جن كى حرمت قطعى طور پر ثابت ہے، اگر ان معازف اور گانے بجانے والى اشياء كى حرمت ميں اس حديث كے علاوہ كوئى ايك آيت يا حديث نہ بھى وارد ہوتى تو اس كى حرمت كے ليے يہى حديث كافى تھى، اور خاص كر اس طرح كے گانے كى حرمت ميں جو آج كل لوگوں ميں معروف ہے، يہ وہ گانے ہيں جس ميں فحش اور گندے قسم كے الفاظ استعمال ہوتے ہيں، اور اسے مختلف قسم كى موسيقى و ساز اور طبلے و ڈھول اور سارنگى و بانسرى، اور پيانو و گٹار وغيرہ كے ساز پائے جاتے ہيں، اور اس ميں آواز ہيجڑوں، اور فاحشہ عورتوں كى ہوتى ہے.

ديكھيں: حكم المعازف للالبانى.

اور تصحيح الاخطاء و الاوھام الواقعۃ فى فھم احاديث النبى عليہ السلام تاليف رائد صبرى ( 1 / 176 ).

اور شيخ ابن باز رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" معازف ہى وہ گانے ہيں جن كے متعلق رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے يہ خبر دى تھى كہ آخرى زمانے ميں كچھ لوگ ايسے آئينگے جو شراب و زنا اور ريشم كى طرح اسے بھى حلال كر لينگے، يہ حديث علامات نبوت ميں شامل ہوتى ہے، كيونكہ يہ سب كچھ واقع ہو چكا ہے، اور يہ حديث جس طرح شراب، اور زنا اور ريشم كو حلال كرنے والے كى مذمت پر دلالت كرتى ہے، اسى طرح اس كى حرمت اور اسے حلال كرنے والے كى مذمت پر بھى دلالت كرتى ہے.

گانے بجانے، اور آلات لہو سے اجتناب كرنے والى آيات و احاديث بہت زيادہ ہيں، اور جو شخص يہ گمان ركھتا ہے كہ اللہ تعالى نے گانا بجانا اور آلات موسيقى مباح كيے ہيں اس نے جھوٹ بولا ہے، اور عظيم قسم كى برائى كا مرتكب ہوا ہے، اللہ تعالى ہميں شيطان اور خواہشات كى اطاعت سے محفوظ ركھے.

اور اس سے بھى بڑا اور قبيح جرم تو اسے مباح كہنا ہے، اس ميں كوئى شك و شبہ نہيں كہ يہ اللہ تعالى اور اپنے دين سے جہالت ہے، بلكہ يہ تو اللہ تعالى اور اس كى شريعت پر جھوٹ بولنے كى جسارت و جرات ہے.

صرف شادى بياہ كے موقع پر دف بجانى جائز ہے، اور يہ بھى صرف عورتوں كے ليے خاص ہے كہ وہ آپس ميں دف بجا سكتى ہيں، تا كہ نكاح كا اعلان ہ اور سفاح اور نكاح كے مابين تميز ہو سكے.

اور عورتوں كا آپس ميں دف بجا كر شادى بياہ كے موقع پر گانے ميں كوئى حرج نہيں ليكن شرط يہ ہے كہ اس ميں برائى و منكر پر ابھارا نہ گيا ہو، اور نہ ہى عشق و غرام كے كلمات ہوں، اور يہ كسى واجب اور فرض كام سے روكنے كا باعث نہ ہو، اور اس ميں مرد شامل نہ ہوں، بلكہ صرف عورتيں ہى سنيں، اور نہ ہى اعلانيہ اور اونچى آواز ميں ہو كہ پڑوسيوں كو اس سے تكليف اور اذيت ہو، اور جو لوگ لاؤڈ سپيكر ميں ايسا كرتے ہيں وہ بہت ہى برا كام كر رہے ہيں، كيونكہ ايسا كرنا مسلمان پڑوسيوں وغيرہ كو اذيت دينا ہے، اور شادى بياہ وغيرہ موقع پر عورتوں كے ليے دف كے علاوہ كوئى اور موسيقى كے آلات استعمال كرنا جائز نہيں، مثلا بانسرى گٹار، سارنگى وغيرہ، بلكہ يہ برائى ہے، صرف انہيں دف بجانے كى اجازت ہے.

ليكن مردوں كے ليے دف وغيرہ ميں سے كوئى بھى چيز استعمال كرنى جائز نہيں، نہ تو شادى بياہ كے موقع پر اور نہ ہى كسى اور موقع پر، بلكہ اللہ سبحانہ و تعالى نے تو مردوں كے ليے لڑائى كے آلات اور ہنر سيكھنے مشروع كيے ہيں كہ وہ تير اندازى اور گھڑ سوارى اور مقابلہ بازى كريں اور اس كے علاوہ جنگ ميں استعمال ہونے والے دوسرے آلات مثلا ٹينك ہوائى جہاز اور توپ اور مشين گن اور بم وغيرہ جو جھاد فى سبيل اللہ ميں معاون ثابت ہوں.

ديكھيں: مجموع الفتاوى ابن باز ( 3 / 423 - 424 ).

اور شيخ الاسلام رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" يہ علم ميں ركھيں كہ قرون ثلاثہ الاولى جو سب سے افضل تھے اس ميں نہ تو سرزمين حجاز ميں اور نہ ہى شام اور يمن ميں اور نہ مصر اور مغرب ميں، اور نہ ہى عراق و خراسان كے علاقوں ميں اہل دين، اور تقوى و زہد اور پارسا و عبادت گزار لوگ اس طرح كى محفل سماع ميں شريك اور جمع ہوتے تھے جہاں تالياں اور شور شرابہ ہوتا، نہ تو وہاں دف بجائى جاتى اور نہ ہى تالى اور سارنگى اور بانسرى، بلكہ يہ سب كچھ دوسرى صدى كے آخر ميں بدعت ايجادى كى گئى، اور جب آئمہ اربعہ نے اسے ديكھا تو اس كا انكار كيا اور اس سے روكا " اھ۔

ديكھيں: مجموع الفتاوى ( 11 / 569 ).

اور رہا ان نظموں اور ترانوں كا جنہيں اسلامى نظموں اور ترانوں كا نام ديا جاتا ہے، اور ان ميں موسيقى بھى ہوتى ہے، تو اس پر اس نام كا اطلاق اسے مشروع نہيں كرتا، بلكہ حقيقت ميں يہ موسيقى اور گانا ہى ہے، اور اسے اسلامى نظميں اور ترانے كہنا جھوٹ اور بہتان ہے، اور يہ گانے كا بدل نہيں سكتے، تو ہمارے ليے يہ جائز نہيں كہ ہم خبيث چيز كو خبيث چيز سے بدل ليں، بلكہ ہم تو اچھى اور پاكيزہ چيز كو خبيث اور گندى كى جگہ لائينگے، اور انہيں اسلامى سمجھ كر سننا اور اس سے عبادت كى نيت كرنا بدعت شمار ہو گى جس كى اللہ نے اجازت نہيں دى.

اللہ تعالى سے ہم سلامتى و عافيت كى دعا كرتے ہيں.

مزيد تفصيل كے ليے آپ درج ذيل كتب كا مطالعہ كريں:

تلبيس ابليس ( 237 ) المدخل ابن حجاج ( 3 / 109 ) الامر بالاتباع والہنى عن الابتداع للسيوطى ( 99 ) ذم الملاہى ابن ابى الدنيا.

الاعلام بان العزف حرام ابو بكر جزائرى.

تنزيہ الشريعۃ عن الاغانى الخليعۃ

تحريم آلات الطرب للالبانى.

واللہ اعلم .

الشيخ محمد صالح المنجد
 
بھائی باذوق ، جب آپ کو کوئی روایت پیش کی جاتی ہے تو وہ آپ کو قابل قبول نہیں ہوتی، اس کے الفاظ کے مروجہ معانی آپ کو قابل قبول نہیں ہوتے۔ اس کا مفہوم آپ کوقابل قبول نہیں ہوتا۔ آپ ہر روایت کو توڑ مروڑ کر ٹھوک پیٹ‌کر اپنے کام کا بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ آپ کو صرف اپنے ترجمے پر بھروسہ ہے، دوسرے مترجمین قابل بھروسہ نہیں۔ آپ کے مفسرین ہی درست ہیں، کوئی دوسرا مفسر ہی نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ میں قرآن کے علاوہ دوسرے حوالہ جات نہیں دیتا۔ آپ لہو الحدیث‌سے گانا، بجانا، موسیقی کسی طور ثابت نہیں‌کرسکتے ہیں۔ اور کوئی واضح آیت آپ کو ملتی نہیں ہے۔

آپ کو قابل قبول ہوتا ہے تو صرف وہ جو آپ کی ذاتی خواہشات پر پورا اترے۔ یہی حال آیات کا ہے۔ دف بجانا، دیگر آلات موسیقی بجانا، صاحب روایات و تاریخ‌سے ثابت ہے۔ لیکن آپ ان روایات کو قابل قبول نہیں سمجھتے۔

زبور کے بارے میں جناب کا علم بہت کم ہے۔ سوال میرا یہ تھا کہ آپ متن کو ایک طرف رکھئے، کیا آپ کوئی ایسی زبور پیش کرسکتے ہیں جو اشعار و شاعری و نغموں کی شکل میں نہ ہو؟‌ آپ کی سمجھ میں‌یہ سوال ہی نہیں آیا بھائی۔

ان کتب کے پیرو کار ان کتب کے نغموں کو آج بھی اپنے چرچوں میں آلات موسیقی کے ساتھ نہ گاتے ہوں؟ متن ایک طرف رکھئے، ان کے اعمال و عبادات پر نظر کیجئے۔ اور ان اعمال و عبادات کی وجہ بیان کیجئے۔ میں سمجھتا ہوں کہ نا آپ نے زبور کے پیروکاروں‌کی عبادات دیکھی ہیں اور نہ ہی سنی ہیں؟

میرے آپ سے کچھ سوال ہیں:
جس طرح حضرت عیسی کے پیروکار اپنے آپ کو عیسائی کہتے ہیں، حضرت موسی کے پیروکار اپنے آپ کو یہودی کہتے ہیں۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ یہودیوں کا وہ فرقہ جو داؤد اور سلیمان علیہ السلام کے پیروکار ہیں، اپنے آپ کو آج کیا کہتے ہیں؟
ان کےمذہب کا نام کیا ہے؟
ان کو قرآن میں کس نام سے پکارا گیا ہے؟ اور وہ کیا وجہ ہے کہ یہ یقین کیا جائے کہ قرآن میں استعمال ہونے والا یہ نام یقینی طور پر ان کا ہی ہے؟
کیا ان کو جنت کی بشارت دی گئی ہے؟
اگر نہیں تو کس وجہ سے اور کن آیات میں اور اگر ہاں تو کن شرطوں پر اور کن آیات میں؟
کیا آپ نے ان کے کسی چرچ میں کبھی ان کو عبادت کرتے دیکھا ہے اور ان کی عبادت کو سنا ہے؟
وہ کس کس علوم و فنون کے لئے مشہور ہیں؟

بھائی، میں‌ یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ آپ اس بارے میں کچھ بھی نہیں جانتے اور ان سوالوں کے گول مول جواب دیں گے، جو ذاتی انا پرستی کی نشانی ہے۔ اگر آپ اس مذہب کے پیرو کاروں کا نام بھی نہیں جانتے تو جان لیجئے کہ آپ کے بیانات کی اساس کیا ہے صاحب۔

آپ بناء علم رکھتے ہوئے، ایسے لوگوں کی بابت بات کررہے ہیں جن کے فرقہ کا نام، جن کا کام، ان کی عبادات کے بارے میں آپ کچھ بھی نہیں جانتے ، ماسوائے ان چند کتابچوں کے جن میں صرف ان انبیاء کا نام ہوتا ہے۔ ان کے بارے میں آپ کو کوئی معلومات نہیں۔ ضروری نہیں کہ اگر آپ کے علم میں نہ ہو تو ایسے لوگ موجود ہی نہ ہوں؟ اور آپ انکے ایمان اور ان کی عبادات کو بیک قلم رد کردیں۔ جی؟

آپ کے ماننے یا نا ماننے سے جس طرح سارے ہندو اور سکھ غائب نہیں ہوتے ہیں۔ اس طرح سے حضرت داؤد علیہ السلام اور حضرت سلیمان علیہ السلام کے پیروکار بھی غایب نہیں ہوتے ہیں اور نہ ہی ان کی عبادات اور ایمان اور ان کی زبور غائب ہوتی ہے۔

اس کا تذکرہ میں نے کیوں کیا؟ اس لئے کہ جب تک آپ یہ جانیں گے ہی نہیں‌کہ یہ لوگ کیا کرتے ہیں اور کس طرح عباد ت کرتے ہیں آپ نہ ان حدیثوں کے ریفرنس سمجھ سکتے ہیں جو ان کے بارے میں ہیں اور نہ ہی ان آیات کے ریفرنس جو ان لوگوں کے بارے میں ہیں۔

آپ کی بات درست کہ موجودہ زبور کے متن میں تبدیلی ہوسکتی ہے۔ لیکن صاحب ، میں کم از کم ایک آیت کے بارے میں کہہ سکتا ہوں کہ ----- زبور کی یہ ایک آیت درست ہے ----- وہ اس لئے کہ زبور کی اس آیت کا حوالہ اللہ تعالی نے قرآن میں دیا ہے ---- اتفاق سے یہ آیت بھی زبور کے ایک عبرانی گیت کا حصہ ہے، جو آج بھی مخصوص یہودی چرچوں میں گائی جاتی ہے ---- جس کا شاہد میں خود بھی ہوں۔

کیا آپ قرآن کی وہ آیت بتا سکتے ہیں جو زبور میں بھی موجود ہے اور اللہ تعالی نے قرآن میں اس کا حوالہ دیا ہے؟
شاید آپ نہیں جانتے۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ زبور ، رسول اکرم کے زمانے میں کس صورت میں موجود تھی، وہ کون صحابی تھے جو یہ زبان جانتے تھے؟ کیا یہ کتاب یا اس کا کچھ حصہ رسول اکرم کو پڑھ کر سنایا گیا ، اس کی کیا روایات ہیں ( صحیح یا ضعیف کے بارے میں نہیں‌پوچھ رہا)؟

اگر آپ کی معلومات میں نقص ہے اور آپ کے بیانا صرف اور صرف کنجیکچرز ( تکوں ) پر مبنی ہیں یا اس بارے میں آپ کے خیالات ایرانی زرتشت طبقہ کے خیالات سے ملتے جلتے ہیں یا پھر آپ کی ذاتی خوہشات کی تکمیل ہورہی ہے تو پھر بھائی اس کنجیکچر (تکوں) کی جگہ بہتر ہے کہ کچھ وقت آپ اس پر ریسرچ میں لگائیے۔ جس میں زرتشت سماج و مذہب کی روایات کو قرآن سے رنگنے کے بجائے، کچھ داؤدی و سلیمانی مذہب و سماج و روایات کے بارے میں ریسرچ فرمائیے۔

داؤدی اور سلیمانی مذہب آج بھی موجود ہے لیکن آپ کو- زبور کے علاوہ -- اس کے بارے میں لکھا ہوا بہت ہی کم ملے گا۔
کیا آپ اس کی وجہ جانتے ہیں ؟
اگر نہیں تو چلئے اتنا بتا دیتا ہوں کہ آج بھی یہ مذہب -- استاد کی زبان سے شاگرد کے سینے میں اتارا جاتا ہے --- اس مذہب کا ہر پیروکار اپنے مذہب کے تمام باتیں زبانی یاد کرتا ہے ، لیکن لکھ نہیں سکتا۔ اس کے ہر پیرو کار کو قسم کھانی ہوتی ہے کہ وہ کبھی کسی طور لکھے گا نہیں ، صرف یاد کرے گا اور یاد کرائے گا۔

کیا اس اصول میں‌ آپ کو کتب روایات اور ان روایات کو زبانی یاد رکھنے کی شرط کچھ مماثلت ملتی ہے؟

مؤدبانہ عرض‌یہ ہے باذوق بھائی کہ جن امور پر آپ کا علم مظبوط ہے اس پر خوب بات کیجئے۔ افسوس یہ ہے کہ آپ نے صرف اور صرف کتب روایات اور وہ بھی جن کو آپ پسند کرتے ہیں پڑھی ہیں۔ قرآن کی تعلیم آپ نے صرف عبادات تک یا جو کچھ تھوڑا بہت آپ کی پسند کے مصنفین نے لکھ دیا وہیں تک محدود ہے۔ لہذا جن امور کے بارے میں آپ کی معلومات نہیں ان میں کنجیکچرز (تکے ) استعمال کرنے سے پرہیز کیا جائے تو بہتر ہے۔

ایسا کہنے کی مظبوط وجہ ایک تو اوپر دئے ہوئے سوالات ہیں اور
دوسری وجہ غیر القرآن والی روایت ہے۔ آپ کو یاد ہے کہ آپ اس درست روایت کو بھی نہ سمجھ سکے، بلکہ ملول قرار دیتے رہے۔ آپ کتابت اور لکھنے میں ہی اٹک کر رہ گئے، اور غیر القرآن پر نظر بھی نہیں کی۔ بھائی، اس وقت میں آپ کے سوچنے کے لئے بات چھوڑ گیا تھا۔ بات یہ ہے کہ اگر رسول اکرم سے منسوب کرکے غیر قرآنی کچھ بھی لکھا جائے تو رسول اس کے لئے "فلیمحہ" کے الفاظ سے ممانعت فرماتے ہیں۔ بہت ہی سادہ سی بات ہے، جو کچھ بھی غیر قرآنی ہے وہ غیر قرآنی ہے، اس کو قرآنی بنا بنا کر کیوں لکھا جائے؟ صرف اس لئے کہ کسی کے پسندیدہ مصنف نے اپنی ذاتی خوہشات کو پورا کرنے کے لئے لکھ دیا یا پھر کسی پسندیدہ مصنف سے منسوب کرکے رسول اکرم کی طرف سے گھڑ دیا۔ ایسی غیر قرانی روایات کو کیوں قرآنی قرار دیتے ہو بھائی، جب کہ اس برعکس روایات بھی انہی کتب میں‌موجود ہیں؟ اس قدر اختلاف کا پایا جانا ہی ان کتب روایات کی صحت کے بارے میں بہت کچھ بتا دیتا ہے۔

دو الفاظ کی ایک اصطلاح - لہو الحدیث - سے اللہ تعالی کا حضرت انسان کو عطا کیا ہو ایک تخلیقی فن آپ اپنے مفسرین کے کہنے پر رد کرتے ہیں۔ اس اسطلاح --- لہو الحدیث -- کے بارے میں رسول اکرم نے کیا بیان فرمایا، حوالہ عطا فرمائیں گے؟

میں کہ ایک طالب علم قرآن ہوں ، لہذا، ‌عموماً مصالحانہ روش رکھتا ہوں ، چیلنج نہیں کرتا، لیکن اس بار آپ کی معلومات اور سمجھ کو چیلنج کررہا ہوں تاکہ آپ کو اپنی کمزوریوں کا اندازہ ہوسکے اور آپ ان کمزوریوں کو مناسب علم حاصل کرکے دور فرماسکیں۔

اب۔ آپ ایک ایک کرکے ان کے جوابات تحریر فرمائیے مع حوالہ جو آپ سے کئے گئے ہیں۔
 

باذوق

محفلین
ایک تو اسلام نے لونڈیوں کو بہت آزادی دے رکھی تھی۔ ہر چیز ان کے لئے حلال تھی۔ :p
ویسے موسیقی حلال کرنے کا تو پھر آسان طریقہ ہے کہ تمام گلوکاروں کو غلام بنا دیا جائے۔ :rolleyes:
" ہر چیز " سے آپ کی کیا مراد ہے؟
اگر گلوکار کو "غلام" بنا دیا جائے تو کیا اس کی صنف بھی تبدیل ہو جائے گی؟ آپ یہ پوسٹ پھر ایک بار تفصیل سے پڑھیں۔ جہاں عورتوں کے دف بجانے کی بات ہو رہی ہے مَردوں کی نہیں۔
اور اس سوال کا جواب اگر کسی کے پاس ہو تو براہ مہربانی یہاں پیش کیا جائے تاکہ ہم تمام کے علم میں‌ اضافہ ہو :
نابالغ لڑکیوں یا لونڈیوں کی جانب سے دعائیہ کلمات پر مبنی گانے کو "موسیقی" کا نام دے کر موسیقی کو حلال یا مباح قرار دینا ۔۔۔۔ کس آیت یا کس حدیث کی شرح ہے اور متقدمین ائمہ میں سے کن کن نے اس کی تائید کی ہے اس کا حوالہ ضرور دیا جانا چاہئے !!
 
سوالات، درج ذیل امور پر آیات فراہم کیجئے۔ صرف آیات درکار ہیں۔ تفسیر یعنی ذاتی کمنٹری نہیں۔
1- کیا اللہ کے علاوہ کوئی انسان، یا رسول بشمول رسول اللہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے کچھ بھی مطلقاً حلال یا حرام کرسکتے ہیں؟
2۔ قرآن اگر کسی بات پر خاموش ہے یعنی اللہ تعالی نے کسی موضوع پر اگر دانستہ کچھ بھی نہیں کہا تو مسلمانوں کو کیا کرنے کا حکم ہے۔

شکریہ والسلام
 

باذوق

محفلین
بھائی باذوق ، جب آپ کو کوئی روایت پیش کی جاتی ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محترم فاروق صاحب !
اس میں شک نہیں کہ اِس دھاگے میں آپ کے دو مراسلے غور و فکر کے قابل ہیں۔
پوسٹ نمبر:34 اور پوسٹ نمبر:54
لیکن میری آپ سے ادباً درخواست ہے کہ ان دونوں کو الگ الگ لڑیوں کی شکل میں پوسٹ کیا جائے۔
دراصل آپ کے ان دونوں مراسلوں کے موضوعات قابلِ قدر ہونے کے باوجود اِس دھاگے کے اصل موضوع سے مناسبت نہیں رکھتے۔

میں نے بعض احباب کی رائے کو ترجیح دیتے ہوئے یہ فیصلہ کیا ہے کہ جس دھاگے کی گفتگو میں حصہ لوں گا تو دھاگے کے اصل موضوع سے ہٹ کر بات کرنے سے گریز کروں گا۔
مجھے امید ہے کہ آپ میرے اس فیصلے سے ناراض نہیں ہوں گے کہ یہی مشورہ مجھے بعض ناظمین نے بھی دیا تھا۔
شکریہ۔
 

باذوق

محفلین
1- کیا اللہ کے علاوہ کوئی انسان، یا رسول بشمول رسول اللہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے کچھ بھی مطلقاً حلال یا حرام کرسکتے ہیں؟
براہ مہربانی ۔۔۔۔ درج بالا سوال کو ذرا آسان پیرائے میں بیان کریں۔
یا پھر ۔۔۔۔ جیسا کہ میں‌ نے یہ سوال سمجھا ہے ، ( اس کو ذیل میں لکھ رہا ہوں ) اگر یہ آپ کی نظر میں درست ہے تو بتا دیں کہ آپ کا سوال یہی رہا ہے۔

1- کیا اللہ کے علاوہ کوئی انسان (چاہے وہ کوئی عام آدمی / نبی / رسول / حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہی کیوں نہ ہوں) کچھ بھی مطلقاً حلال یا حرام کرسکتا ہے؟
 

باذوق

محفلین
محترم وجی صاحب !
پوسٹ نمبر:53 میں جو فتویٰ جس سائیٹ سے کاپی کیا گیا ہے ، براہ مہربانی اس سائیٹ کا حوالہ بھی ضرور دیا کریں۔ حالانکہ ہم میں سے بیشتر کو اس سائیٹ کا پتا ہے۔ پھر بھی یہ دیانتداری کا تقاضا ہے اور دوسرے اس سائیٹ پر بھی یہ اعلان درج ہے کہ مواد اگر دوسری جگہ کاپی کیا جائے تو ان کی سائیٹ کا حوالہ ضرور دیا جائے۔
دوسرے یہ کہ میری ناقص سمجھ میں یہ بات نہیں‌ آ سکی کہ آپ فونٹ کا سائز ہمیشہ اتنا بڑا کیوں رکھتے ہیں؟ نارمل فونٹ‌ سائز کیوں‌ استعمال نہیں کرتے ؟ اگر آپ کو نظر کا کوئی مسئلہ ہے تو اس کے حل کے دیگر طریقے بھی ہیں‌ مگر یہ طریقہ درست نہیں کہ اس سے دیگر تمام صارفین کا حرج ہوتا ہے۔
تیسری اور آخری بات یہ کہ ۔۔۔۔ کیا یہ کافی نہیں‌ ہے کہ پورا مواد جوں کا توں‌ یہاں کاپی کرنے کے بجائے صرف متعلقہ ربط دے دیا جائے؟؟
امید کہ میری گذارشات کا برا نہیں مانیں‌ گے۔
 
دو سوالات کے ضمن میں : حرام و حلال اور جس موضوع پر اللہ تعالی نے کچھ نہیں فرمایا، ءسوال آپ کے سامنے ہیں۔ آپ جو بھی سمجھتے ہیں، موافقت میں یا مخالفت میں۔ ان سوالوں کے جواب میں مناسب آیات پیش کر دیجئے۔ قرآن کا کیا مؤقف ہے وہ زیادہ اہم ہے۔ سوالات سے میرا مطلب کسی کو الجھانا نہیں۔ اس ضمن میں آیات موجود ہیں اور بہت ہی واضح الفاظ میں ہیں۔ یہ اسی موضوع کے بارے میں سوالات ہیں جو یہاں چل رہا ہے۔
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top