ارسطو کے سنہری مشورے آمروں کیلیے

محمد وارث

لائبریرین
یوں تو دنیائے سیاسیات میں چانکیہ اور میکاؤلی ہی زیادہ بدنام ہیں کہ انہوں نے بادشاہوں اور مطلق العنان حکمرانوں اور آمروں کو اپنی بادشاہت اور آمریت بچانے کیلیے ایسے ایسے نادر مشورے دیئے ہیں کہ ان دونوں کی عیاری اور مکاری ضرب المثل بن چکی ہے۔ لیکن ایک دلچسپ اقتباس مجھے ارسطو کی کتاب 'سیاسیات' میں ملا جس میں ارسطو، جس کا مقام علم و فضل و حکمت کی دنیا میں کسی سے چھپا ہوا نہیں ہے، کسی طرح بھی چانکیہ اور میکاؤلی سے کم نہیں ہے۔ یوں تو ارسطو نے اپنی اس کتاب میں جبر و استبداد کی حکومت اور آمریت کو حکومتوں کی بدترین قسم قرار دیا ہے اور یہ بھی لکھا ہے کہ کسی بھی مطلق العنان آمر سے زیادہ برا شخص کوئی نہیں ہوسکتا لیکن ساتھ ہی ان کو اپنی آمریت بچانے کے ایسے بیش بہا اور نادر مشورے دیے ہیں کہ دنیا کے "پڑھے لکھے" آمروں نے ان کو آبِ زر سے لکھا ہوگا۔

مذکورہ مشوروں کا ترجمہ و تخلیص لکھ رہا ہوں۔

ارسطو فرماتے ہیں کہ ایک آمر کو اپنی آمریت بچانے کیلیے چاہیئے کہ وہ

- کسی بھی غیر معمولی صلاحیتوں کے حامل فرد کی اٹھان کو روکے، اس پر مقدمہ چلا کر اسے پھانسی دے دے یا اگر ضروری ہو تو اسے قتل کروا دے۔

- وہ بڑے اور اجتماعی کھانوں اور ملنے جلنے کی جگہوں کلبوں وغیرہ پر پابندی لگا دے تا کہ لوگ نہ آپس میں گھلے ملیں اور نہ اس کے خلاف اجتماع کر سکیں، اور ہر اسطرح کی تعلیم پر بھی جس سے اسکے خلاف جذبات ابھر سکتے ہوں۔

- اسکے ملک میں کسی بھی قسم کے علمی اور فکرانگیز اجتماع یا مباحث نہیں ہونے چاہیئں۔

- وہ لوگوں کو آپس میں گھلنے ملنے اور ایک دوسرے کو جاننے سے روکے۔

- وہ ہر جگہ اپنے جاسوس پھیلا دے

- وہ ہر وقت لوگوں میں فتنہ و فساد و لڑائی جھگڑے کے بیج بوتا رہے، دوستوں کو دوستوں کے ساتھ بھڑا دے، عوام کو اشرافیہ کے ساتھ اور امراء کو امراء کے ساتھ۔

- وہ عوام کو ہمیشہ غربت کی چکی میں پیستا رہے، اور ان پر ٹیکسوں کا بار بڑھاتا ہی رہے۔

- وہ اپنی عوام کو ہر وقت کسی نہ کسی بڑے اور عظیم منصوبے میں مصروف رکھے جیسے کہ مصر کے فرعونوں نے اپنی عوام کو اہرام بنانے میں مصروف کر دیا تھا۔

- وہ عورتوں اور غلاموں کو زیادہ سے زیادہ حقوق دے تا کہ وہ اسکے زیرِ بار احسان ہو کر اسکے جاسوس بن سکیں، عورتیں اپنے خاوندوں کے خلاف جاسوسی کریں اور غلام اپنے مالکوں کے خلاف۔

- اسے جنگیں لڑنی چاہیئں (یا اسکی تیاریوں میں مصروف رہے) تا کہ اسکی عوام مصروف رہے اور انہیں ہمہ وقت کسی لیڈر کی ضرورت محسوس ہوتی رہے۔

اور یہ سب لکھنے کے بعد ارسطو دو مزید 'سنہری مشورے' آمروں کو دیتا ہے جس سے وہ اپنی آمریت کو بچا سکتے ہیں، ایک تو یہ کہ وہ اعتدال پسند (اور روشن خیال) ہو جائیں اور اپنے آپ کو انصاف پسند حکمران کے طور پر ظاہر کریں اور دوسرا یہ کہ وہ انتہائی مذہبی نظر آئیں۔

ارسطو کے مشورے آپ نے پڑھ لیے، ہو سکتا ہے کہ ارسطو کے کسی شارح اور مداح نے یہ لکھا ہو کہ یہ سارے مشورے ارسطو نے طنز کے طور پر لکھے ہیں کیونکہ وہ ایک آمر کو بدترین انسان اور آمریت کو بدترین حکومت سمجھتا تھا لیکن ارسطو کے ناقد برٹرنڈ رسل نے ایسی کسی بات کا اظہار نہیں کیا۔

میں، ملکی اور بین الاقوامی سیاست سے جتنا بھی غیر متعلق رہوں، سیاسیات سے بہ لحاظ ایک علم کے غیر متعلق نہیں رہ سکتا اور برٹرنڈ رسل کی شہرہ آفاق کتاب 'ہسٹری آف ویسٹرن فلاسفی' سے یہ باب پڑھتے ہو جو ایک بات بار بار میرے ذہن میں آ رہی تھی اور جو اس پوسٹ کا محرک بنی وہ یہ کہ پاکستان کے مشہور و معروف (اب تک کے) تین جرنیلوں، یا انکے مداحین سے معذرت کے ساتھ آمروں نے، کیا ارسطو کے مذکورہ مشوروں کا مطالعہ کر رکھا تھا؟ آفٹر آل جرنیل "پڑھے لکھے" شخص ہوتے ہیں۔ آمر نما جمہوری سیاستدانوں کا ذکر اس لیے نہیں کر رہا کیونکہ مجھے علم ہے کہ ان میں سے کسی نے بھی ارسطو کا بحیثیت ایک سیاسی مفکر کے نام بھی سنا ہو تو غنیمت ہے۔

جو قارئین ارسطو کی کتاب 'سیاسیات' سے مذکورہ اقتباس پڑھنا چاہیں وہ اس ربط سے پڑھ سکتے ہیں۔

مکمل کتاب اس ربط پر پڑھی جا سکتی ہے۔
 

آفت

محفلین
شریف الدین پیرزادہ نے یہ سنہری اصول ارسطو ہی سے سیکھے ہوں گے ۔ ویسے ارسطو یونان میں پیدا ہوا اس لیے اس کی اس حوالے سے قدر نہیں کی گئی اگر پاکستان میں پیدا ہوتا تو اربوں میں کھیل رہا ہوتا ۔
 

طالوت

محفلین
یقینا یہ "سنہرے اصول"ہیں آمر کے لئے ۔ گواہی میں گذشتہ چار آمریتیوں خصوصا دو آخری کی تاریخ پڑھ لیں ۔
وسلام
 

arifkarim

معطل
زبردست اور آجکل مغرب میں‌انہی پر عمل ہو رہا ہے:
- کسی بھی غیر معمولی صلاحیتوں کے حامل فرد کی اٹھان کو روکے، اس پر مقدمہ چلا کر اسے پھانسی دے دے یا اگر ضروری ہو تو اسے قتل کروا دے۔
بہت سے اینٹی مین اسٹریم افراد خفیہ طور پر یا تو لاپتہ ہو چکے ہیں یا "قدرتی" طور پر ہلاک ہو چکے ہیں۔ جو کوئی بھی مغرب کے پردے فاش کرنے یا اسکی پالیسیز کو دھمکانے کوشش کرتا ہے، اسکے ساتھ اسی قسم کا سلوک کیا جاتا ہے۔ مثالیں: بھٹو، شاہ فیصل، صدام، اسامہ ، بینظیر، صدام وغیرہ۔-
وہ بڑے اور اجتماعی کھانوں اور ملنے جلنے کی جگہوں کلبوں وغیرہ پر پابندی لگا دے تا کہ لوگ نہ آپس میں گھلے ملیں اور نہ اس کے خلاف اجتماع کر سکیں، اور ہر اسطرح کی تعلیم پر بھی جس سے اسکے خلاف جذبات ابھر سکتے ہوں۔
جمہوریت کے علاوہ تمام دوسرے نظریات پر پابندی۔ تعلیم و تاریخ پر ایک طرفہ دباؤ تاکہ وقت گزرنے کیساتھ متبادل علوم اپنے آپ ضائع ہو جائیں

- اسکے ملک میں کسی بھی قسم کے علمی اور فکرانگیز اجتماع یا مباحث نہیں ہونے چاہیئں۔
مغرب نے انپر ظاہری پابندی تو نہیں لگائی، پر انپر عمل کروانے والے اقدام پر لگا دی۔

- وہ لوگوں کو آپس میں گھلنے ملنے اور ایک دوسرے کو جاننے سے روکے۔
مختلف اور بلارابطہ حکومتی ڈپارٹمنٹس کا قیام جسکی بدولت بیروکروسی کا رواج عام ہوا۔ عام آدمی بیچارا اسی چکی میں پس کر ہلاک ہو جاتا ہے

- وہ ہر جگہ اپنے جاسوس پھیلا دے
سی آئی اے، موساد، ایف بی آئی اور مزید انگنت خفیہ ایجنسیز کا قیام۔ جنکا مقصد اندرونی و بیرونی خطرات سے نبٹنا اور بغاوتی عناصر کو قدرتی طور پر گہری نیند میں‌سلا دینا۔ حال ہی میں حماس کا ایک لیڈر دبئی میں خاموشی سے سلا دیا گیا

- وہ ہر وقت لوگوں میں فتنہ و فساد و لڑائی جھگڑے کے بیج بوتا رہے، دوستوں کو دوستوں کے ساتھ بھڑا دے، عوام کو اشرافیہ کے ساتھ اور امراء کو امراء کے ساتھ۔
توڑو اور حکومت کرو۔ یہ پالیسی سب سے زیادہ مغربیوں نے اپنائی اور آج بھی اسی کی بدولت حکمرانی کر رہے ہیں
- وہ عوام کو ہمیشہ غربت کی چکی میں پیستا رہے، اور ان پر ٹیکسوں کا بار بڑھاتا ہی رہے۔
انکم ٹیکس سب سے پہلے مغرب نے متعارف کروایا۔ یعنی ہر شہری جو بھی کمائے اسمیں سے ایک خاص فیصد حکومت کا حصہ۔ اسکے علاوہ ہزار ہا قسم کے ٹیکسز مغربی معاشی نظام میں‌پائے جاتے ہیں۔ جنکو بھرتے بھرتے عمر گزر جاتی ہے اسکے باوجود واجب الداء ہوتے ہیں!

- وہ اپنی عوام کو ہر وقت کسی نہ کسی بڑے اور عظیم منصوبے میں مصروف رکھے جیسے کہ مصر کے فرعونوں نے اپنی عوام کو اہرام بنانے میں مصروف کر دیا تھا۔
آجکل مادہ پرستی اور دہشت گردی کیخلاف جنگ میں‌ مصروف کر رکھا ہے۔ اس سے پہلے سرد جنگ اور اس سے پہلے جنگ عظیم میں مصروف کیا ہوا تھا!
- وہ عورتوں اور غلاموں کو زیادہ سے زیادہ حقوق دے تا کہ وہ اسکے زیرِ بار احسان ہو کر اسکے جاسوس بن سکیں، عورتیں اپنے خاوندوں کے خلاف جاسوسی کریں اور غلام اپنے مالکوں کے خلاف۔
سب سے پہلے مغرب نے تحریک نسواں اور غلاموں کے حقوق کو قبول کیا۔ اور آجکل فحاشی اس نہج پر پہنچ گئی ہے کہ ہم جنسوں میں شادیاں اور انکو اولاد رکھنے کے "حقوق" بھی معیوب فعل نہیں سمجھا جاتا۔ بچوں کو اسکولوں میں والدین پر کڑی نظر رکھنے کی تلقین کی جاتی ہے۔ ذرا سا تشدد ہو جائے تو فٹا فٹ حقوق بچگان تنظیمیں آکر بچہ اغوا کرکے لیجاتی ہیں اور غیروں کے ہاں منتقل کر دیتی ہیں!
- اسے جنگیں لڑنی چاہیئں (یا اسکی تیاریوں میں مصروف رہے) تا کہ اسکی عوام مصروف رہے اور انہیں ہمہ وقت کسی لیڈر کی ضرورت محسوس ہوتی رہے۔
مثالیں: پہلی جنگ عظیم، دوسری جنگ عظیم، جنگ کوریا، جنگ ویت نام، کویت جنگ، جنگ افغانستان، جنگ عراق، سرد جنگ، وغیرہ
اور یہ سب لکھنے کے بعد ارسطو دو مزید 'سنہری مشورے' آمروں کو دیتا ہے جس سے وہ اپنی آمریت کو بچا سکتے ہیں، ایک تو یہ کہ وہ اعتدال پسند (اور روشن خیال) ہو جائیں اور اپنے آپ کو انصاف پسند حکمران کے طور پر ظاہر کریں اور دوسرا یہ کہ وہ انتہائی مذہبی نظر آئیں۔
روشن خیالی میں مغرب سے بڑا اور کوئی ہو تو پلیز مطلع کر دیں۔ نیز تمام امریکی صدور مذہب کو اپنا خلفیہ بناتے ہیں۔ صدر بش نے 9/11 ڈراموں کے بعد ایک نئی صلیبی جنگ کا اعلان کیا تھا!
نوٹ: اگر کہیں غلطی ہو گئی ہو تو مطلع کردیں! :)
 

طالوت

محفلین
بنیادی غلطی ۔
آمریت اور جمہوریت دو مختلف طرز حکومت یا طریقہ واردات کہہ لیں ، ہیں ۔ اور مغرب میں جمہوریت ہے ناکہ آمریت ۔
وسلام
 

arifkarim

معطل
بنیادی غلطی ۔
آمریت اور جمہوریت دو مختلف طرز حکومت یا طریقہ واردات کہہ لیں ، ہیں ۔ اور مغرب میں جمہوریت ہے ناکہ آمریت ۔
وسلام

مغرب میں آمریت ہے، جمہوریت کے نام پر۔ آپ دوست نام کی بجائے انکے افعال کو دیکھیں۔ جنگی پالیسیز، ایک طرفہ تعلیمی نظام، ایک طرفہ معاشی و سیاسی نظام ۔ ہر شخص کو ایک ہی انداز سے گنا جاتا ہے۔ جاسوسیوں میں کمال مہارت۔ حقوق نسواں، حقوق بچگان، روشن خیالی، مادہ پرستی۔ اگر یہ سب جمہوریت ہے تو پھر آمریت کیا ہے؟
 

محمد وارث

لائبریرین
عارف کریم صاحب، آپ نے اپنے مخصوص نقطہ نظر کی وجہ سے سب کچھ "مغرب" پر تطبیق کر دیا حالانکہ آمر اور آمریت کا کوئی ملک و وطن نہیں ہوتا، ایشیائی اور افریقی آمریتیں کسی بھی طرح مغرب سے کم نہیں ہیں، وہاں تو پھر "جمہوریت" کا لبادہ ہے یہاں تو ننگی جارحیت ہے۔

اور میری پوسٹ اپنے پیارے ملک پاکستان کے تناظر میں تھی، علامہ اقبال سے کسی نے ایک بار کہا تھا کہ آپ کے ناقدین کہتے ہیں آپ کی شاعری "آفاقی" نہیں بلکہ صرف مسلمانوں کیلیے مخصوص ہے، اس پر انہوں نے کہا تھا کہ بھئی جس کی اپنی ماں بیمار ہوگی پہلے وہ اسکی فکر کرے گا نہ کہ دوسروں کی۔

فکری سطح پر، ارسطو نے چھ حکومتیں گنوائی تھیں، جس میں اشرافیہ کی حکومت کو وہ بہترین سمجھتا تھا اور آمریت کو بدترین، جمہوری حکومتیں بھی اسکے نزدیک بری حکومتوں میں شمار ہوتی تھیں (واضح رہے کہ اس وقت یعنی آج سے اڑھائی ہزار سال پہلے کی جمہوریتیں، موجودہ جمہوریتیں سے بہت مخلتف تھیں بلکہ ارسطو کا استاد افلاطون بھی اس وقت کی جمہوریتوں کا دشمن تھا کیونکہ اسکے استاد سقراط کو ایک جمہوری حکومت نے ہی موت کی سزا دی تھی)، برٹرنڈ رسل کے بقول، ارسطو نے جتنی بھی حکومتوں پر بحث کی ہے ان میں سے صرف آمریت ہی موجودہ زمانے میں کماحقہ جاری و ساری ہے۔
 
Top