کاشفی

محفلین
اے مسلماں اپنے دل سے پوچھ، مُلّا سے نہ پوچھ
ہوگیا اللہ کے بندوں سے کیوں خالی حرم

(ڈاکٹر علامہ محمد اقبال رحمتہ اللہ علیہ)
 

کاشفی

محفلین
میں جانتا ہوں انجام اس کا
جس معرکے میں مُلّا ہوں غازی

(ڈاکٹر علامہ محمد اقبال رحمتہ اللہ علیہ)
 

کاشفی

محفلین
خنجر چلے کسی پہ، تڑپتے ہیں ہم، امیر!
سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے

(امیر مینائی رحمتہ اللہ علیہ)
 

کاشفی

محفلین
ڈھونڈو گے اگر ملکوں ملکوں، ملنے کے نہیں، نایاب ہیں ہم
تعبیر ہے جس کی حسرت و غم، اے ہم نفسو! وہ خواب ہیں ہم

(شاد عظیم آبادی)
 

کاشفی

محفلین
ناحق ہم مجبوروں پر یہ تہمت ہے مختاری کی
چاہیں ہیں سو آپ کریں ہیں ہم کو عبث بدنام کیا

(میر تقی میر)
 

کاشفی

محفلین
پھرتا ہوں، پھیرتا ہے وہ پردہ نشین جدھر
پتلی کی طرح سے نہیں میں اختیار میں

(حیدر علی آتش)
 

کاشفی

محفلین
تیرے دریا میں طوفاں کیوں نہیں ہے؟
خودی تیری مسلماں کیوں نہیں ہے؟

عبث ہے شکوہء تقدیر یزداں
تو خود تقدیر یزداں کیوں نہیں ہے

(علامہ ڈاکٹر محمد اقبال رحمتہ اللہ علیہ)
 

کاشفی

محفلین
کافر ہے تو ہے تابع تقدیر مسلماں
مومن ہے تو وہ آپ ہے تقدیر الہٰی

(علامہ ڈاکٹر محمد اقبال رحمتہ اللہ علیہ)
 

کاشفی

محفلین
نشاں یہی ہے زمانے میں زندہ قوموں کا
کہ صبح و شام بدلتی ہیں اُن کی تقدیریں

(علامہ ڈاکٹر محمد اقبال رحمتہ اللہ علیہ)
 

mohsin ali razvi

محفلین
جهان برباد

آدمیت زه کجا شد ابلیس اشرف ال خلق نه پیدا به جهان
بی مرام و دل خالی انسان همچو دیوی پلیدست زه جهان
شرم و غیرت فرو ریخت و همان گشته آدم گرگی به جهان
ذات و هم ذات نداند چو بشر بَدرد و بخورد کل جهان
فقر و فحشا نمودی او را بی لباس و برهنه به جهان
شیر مادر بنوشد کودک در جوانی ندهد نان به همان
دست در دست پدر گردان است وقت پیری نشود سائه آن
منقسم شد انسان چو هوا در فضا است آلوده جهان
زر و ثروت چو بیابد انسان راه و رسمش دگر گون زه زمان
در لباس مذهب انسان است بی مروت و بی رحم به جهان
کار وی فتوا زدن گردن حق نشود انسان منصف زه جهان
ای خدا بهر چه تخلیق نمودی انسان بهر گم گشتگی حق زه زمان
خاخمو ملا و پندت نه کشیش اند منصف مجرمند و دور از نور زمان
عامل از درد جهان مرگ گلان شور زمان جُور کلان نالان است
بر بچین رب خ۔َلق ظلم و ستم جور و جفا درد و خطا های جهان
عامل شیرازی
 

کاشفی

محفلین
جی ڈھونڈتا ہے پھر وہی فرصت کے رات دن
بیٹھے رہیں تصورِ جاناں کئے ہوئے

(غالب رحمتہ اللہ علیہ)
 

کاشفی

محفلین
دھوپ کی تابش، آگ کی گرمی
وَقِناَ رَبَّنا عَذََابَ النَّار

(غالب رحمتہ اللہ علیہ)
نوٹ: اس شعر کا دوسرا مصرع پورا عربی میں ہے۔ اور یہ قرآنی آیت " رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ" سے ماخوذ ہے۔ یہاں غور طلب بات یہ ہے کہ آیت کے الفاظ ہیں وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ، جب کہ غالب نے کہا ہے وَقِناَ رَبَّنا عَذََابَ النَّار۔
یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ غالب کو عربی زبان اور عربی قواعد سے کماحقہ واقفیت تھی ورنہ وہ یہ مصرع ہرگز نہیں کہہ سکتے تھے۔
 
آخری تدوین:

کاشفی

محفلین
یہ مسائلِ تصوّف یہ ترا بیان غالب
تجھے ہم ولی سمجھتے جو نہ بادہ خوار ہوتا

(غالب رحمتہ اللہ علیہ)
 

سید عاطف علی

لائبریرین
دھوپ کی تپش، آگ کی گرمی
وَقِناَ رَبَّنا عَذََابَ النَّار

(غالب رحمتہ اللہ علیہ)
نوٹ: اس شعر کا دوسرا مصرع پورا عربی میں ہے۔ اور یہ قرآنی آیت " رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ" سے ماخوذ ہے۔ یہاں غور طلب بات یہ ہے کہ آیت کے الفاظ ہیں وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ، جب کہ غالب نے کہا ہے وَقِناَ رَبَّنا عَذََابَ النَّار۔
یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ غالب کو عربی زبان اور عربی قواعد سے کماحقہ واقفیت تھی ورنہ وہ یہ مصرع ہرگز نہیں کہہ سکتے تھے۔
پہلے مصرع میں تپش نہیں بلکہ تابش ہے۔تپش سے شعر کا وزن بھی ذرا درست نہیں رہتا۔
 

کاشفی

محفلین
فلک جناب و ملائک جناب تھی دلّی
بہشت و خلد سے بھی انتخاب تھی دلّی

(داغ دہلوی رحمتہ اللہ علیہ)
 
Top