سید شہزاد ناصر
محفلین
اوہودر اصل یہ ٹائپو ہے تو اخبار میں چھپائی کے وقت بھی سرزد ہو چکا ہے۔
اوہودر اصل یہ ٹائپو ہے تو اخبار میں چھپائی کے وقت بھی سرزد ہو چکا ہے۔
شاید یوں ہونا تھا؟مقطع میں آ پڑی ہے سخن گسترانہ بات
مقصودنہیںاس سے ترک محبت نہیں مجھے
شاید نہیں یقیناَشاید یوں ہونا تھا؟
بے معنی باتیں پڑھنے آیا تھا پڑھ کر پتا پڑا کہ یہ تو بامعنی باتیں ہیں۔
اب میرا کیا واسطہ بامعنی باتوں سے۔۔ یہ نا انصافی ہے۔۔۔ ۔
بہت شکریہ جناب۔ بابا دانستہ مختصر لکھتے ہیں ۔ کہتے ہیں لوگوں پاس اتنا بے کار ٹائم نہیں ہوتا ان بے کار چیزوں کے لئے÷کالم دوبار پڑھا ہے
یہ د راصل فکاہیہ کالم ہے اور فکاہیہ کالم کے لئے جو لوازمات ہوتے ہیں وہ حالات حاضرہ اور سیاسی کالم سے یکسر محتلف ہوتے ہیں
اچھا لکھا ہے عنوان بھی اچھا منتخب کیا ہے نفس مضمون بھی خوب ہے کچھ تفصیل کی کمی محسوس ہوئی لگتا ہے کہ وقت کی کم کی وجہ سے اس کو لپیٹ دیا ورنہ اس میں کافی گنجائیش تھی بحثیت مجموعی کالم اچھا لکھا ہے
اس سب تنقید آپ کی فرمائیش پر کی ہے ورنہ
مقطع میں آ پڑی ہے سخن گسترانہ بات
مقصود نہیں اس سے ترک محبت مجھے
سدا خوش رہیں
نہیں جی۔۔ مجھ میں بھی لکھنے کا ملکہ (بشرط یہ کہ اگر واقعی ہے) خداداد ہے۔ بابا کے اس کالم موجود غالب کے مصرعے میرے کہنے پر درج ہیںمجھے تو ان کے اندا زتحریر میں شامل ظرافت اور نکتہ بینی نے بے حد متاثر کیا۔ بہت خوبصورت انداز میں عام سی بات کو مزاح میں بدل دینا بلا شبہ کمال ہے۔ مثلاً سرخی کے متعلق اور اہلِ زبان کی تعریف۔
اب سمجھا کہ جیہ میں لکھنے کا فن کہاں سے آیا۔
شکریہ درویش خُراسانی ۔ نعیم صاحب سے مجھے بھی اتفاق ہے۔ جہاں تک میری ذات ہے میں کچھ بھی نہیں بس یہ آپ سب کی محبت ہےکہتے ہیں کہ اگر متاثر ہونا ہے اور بہتری کی کوشش کرنی ہے تو جو آپ سے اچھے کاموں میں بڑھ کر ہیں ، انکی طرف دیکھو۔
میں نے یہ تو پڑھا تھا کہ دارالعلوم کراچی میں 50 ہزار تک کتب ہیں ،فلاں جامعہ میں کتب خانہ اتنے کتب پر مشتمل ہے۔لیکن ذاتی کسی فرد کے بارئے میں نہیں پڑھا کہ اسکے پاس اتنے کتب ہیں۔
لیکن جب سے یہ پڑھا تھا کہ آپکے پاس چار ہزار کتب ہیں اور روزانہ آپ 50 صفحوں تک مطالعہ کرتی ہیں۔تو مجھے اپنے اساتذہ کی باتیں یاد آئی تھی کہ بیٹے مطالعہ کسی حالت میں نہیں چھوڑنا ، چاہئے ایک کتاب کئی بار کیوں نہ پڑھی ہو،اور چاہے مطالعہ پانچ منٹ ہی کیوں نہ ہو،کیونکہ ہر بار مطالعے سے بندے کو نئی بات معلوم ہوجاتی ہے۔
تو آپکے بارئے میں جان کر کہ ایک اللہ کی بندی طلب علم کیلئے محنت کر رہی ہے۔دل خوش بھی ہوا تھا اور علم کی جستجو دیکھ کر متاثر بھی۔
نیز ہمارے ایک اردو بلاگر جن کا تعلق سوات سے ہیں،اور اکثر خوبصورت مضامین لکھتے ہیں، تو انہوں نے بھی ایک بار ملالہ کا ذکر کرتے ہوئے بتایا تھا کہ جناب ملالہ سے متاثر ہونے کی ضرورت نہیں ،اگر آپ سوات کے طالبات کا جائزہ لیں تو ان میں آپ کو سینکڑوں ایسی طالبات مل جائیں گئ کہ جو ملالہ سے بھی حد درجہ قابل ہیں،لیکن انکو کوئی مناسب موقع نہیں دیا جارہا کہ وہ ملک و ملت کی خدمت کریں۔جو کہ ہمارئے ملک کا ایک عمومی مسئلہ ہے کہ قابل اور ذہین لوگ یا تو ملک چھوڑ جاتے ہیں اور یا انکی صلاحیت ضائع ہوجاتی ہے،کہ انکے لئے کوئی مناسب راہنمائی نہیں ہوتی۔
تو میں آپ کی علمی محبت دیکھ کر سمجھتا کہ واقعی نعیم خان نے درست کہا ہے۔
لیکن اسکے ساتھ ساتھ میں آج اس بات کا اور بھی قائل ہوگیا،کہ والدین کا اثر بچوں میں ضرور پایا جاتا ہے،جس کی زندہ مثال ہمارئے سامنے ہے۔
آپکے والد محترم کے کالم شئیر کرنے کا شکریہ