آؤ مچھر پکریں۔ میرے والد صاحب کا ایک فکاہیہ کالم

فاتح

لائبریرین
مجھے تو ان کے اندا زتحریر میں شامل ظرافت اور نکتہ بینی نے بے حد متاثر کیا۔ بہت خوبصورت انداز میں عام سی بات کو مزاح میں بدل دینا بلا شبہ کمال ہے۔ مثلاً سرخی کے متعلق اور اہلِ زبان کی تعریف۔
اب سمجھا کہ جیہ میں لکھنے کا فن کہاں سے آیا۔
 

عمراعظم

محفلین
بہت خوب۔۔ لاجوب۔۔۔ زبر دست
شراکت کے لیئے شکریہ جیہ ۔۔ آپ کے والد محترم درست فرماتے ہیں۔۔۔۔۔
ہر ایک حرف سے چنگاریاں نکلتی ہیں
کلیجہ چاہیئے اخبار دیکھنے کے لیئے
 

جیہ

لائبریرین
کالم دوبار پڑھا ہے :)
یہ د راصل فکاہیہ کالم ہے اور فکاہیہ کالم کے لئے جو لوازمات ہوتے ہیں وہ حالات حاضرہ اور سیاسی کالم سے یکسر محتلف ہوتے ہیں
اچھا لکھا ہے عنوان بھی اچھا منتخب کیا ہے نفس مضمون بھی خوب ہے کچھ تفصیل کی کمی محسوس ہوئی لگتا ہے کہ وقت کی کم کی وجہ سے اس کو لپیٹ دیا ورنہ اس میں کافی گنجائیش تھی بحثیت مجموعی کالم اچھا لکھا ہے
اس سب تنقید آپ کی فرمائیش پر کی ہے ورنہ
مقطع میں آ پڑی ہے سخن گسترانہ بات
مقصود نہیں اس سے ترک محبت مجھے
سدا خوش رہیں
بہت شکریہ جناب۔ بابا دانستہ مختصر لکھتے ہیں ۔ کہتے ہیں لوگوں پاس اتنا بے کار ٹائم نہیں ہوتا ان بے کار چیزوں کے لئے÷
 

جیہ

لائبریرین
مجھے تو ان کے اندا زتحریر میں شامل ظرافت اور نکتہ بینی نے بے حد متاثر کیا۔ بہت خوبصورت انداز میں عام سی بات کو مزاح میں بدل دینا بلا شبہ کمال ہے۔ مثلاً سرخی کے متعلق اور اہلِ زبان کی تعریف۔
اب سمجھا کہ جیہ میں لکھنے کا فن کہاں سے آیا۔
نہیں جی۔۔ مجھ میں بھی لکھنے کا ملکہ (بشرط یہ کہ اگر واقعی ہے) خداداد ہے۔ بابا کے اس کالم موجود غالب کے مصرعے میرے کہنے پر درج ہیں
 

منصور مکرم

محفلین
کہتے ہیں کہ اگر متاثر ہونا ہے اور بہتری کی کوشش کرنی ہے تو جو آپ سے اچھے کاموں میں بڑھ کر ہیں ، انکی طرف دیکھو۔

میں نے یہ تو پڑھا تھا کہ دارالعلوم کراچی میں 50 ہزار تک کتب ہیں ،فلاں جامعہ میں کتب خانہ اتنے کتب پر مشتمل ہے۔لیکن ذاتی کسی فرد کے بارئے میں نہیں پڑھا کہ اسکے پاس اتنے کتب ہیں۔

لیکن جب سے یہ پڑھا تھا کہ آپکے پاس چار ہزار کتب ہیں اور روزانہ آپ 50 صفحوں تک مطالعہ کرتی ہیں۔تو مجھے اپنے اساتذہ کی باتیں یاد آئی تھی کہ بیٹے مطالعہ کسی حالت میں نہیں چھوڑنا ، چاہئے ایک کتاب کئی بار کیوں نہ پڑھی ہو،اور چاہے مطالعہ پانچ منٹ ہی کیوں نہ ہو،کیونکہ ہر بار مطالعے سے بندے کو نئی بات معلوم ہوجاتی ہے۔

تو آپکے بارئے میں جان کر کہ ایک اللہ کی بندی طلب علم کیلئے محنت کر رہی ہے۔دل خوش بھی ہوا تھا اور علم کی جستجو دیکھ کر متاثر بھی۔

نیز ہمارے ایک اردو بلاگر جن کا تعلق سوات سے ہیں،اور اکثر خوبصورت مضامین لکھتے ہیں، تو انہوں نے بھی ایک بار ملالہ کا ذکر کرتے ہوئے بتایا تھا کہ جناب ملالہ سے متاثر ہونے کی ضرورت نہیں ،اگر آپ سوات کے طالبات کا جائزہ لیں تو ان میں آپ کو سینکڑوں ایسی طالبات مل جائیں گئ کہ جو ملالہ سے بھی حد درجہ قابل ہیں،لیکن انکو کوئی مناسب موقع نہیں دیا جارہا کہ وہ ملک و ملت کی خدمت کریں۔جو کہ ہمارئے ملک کا ایک عمومی مسئلہ ہے کہ قابل اور ذہین لوگ یا تو ملک چھوڑ جاتے ہیں اور یا انکی صلاحیت ضائع ہوجاتی ہے،کہ انکے لئے کوئی مناسب راہنمائی نہیں ہوتی۔

تو میں آپ کی علمی محبت دیکھ کر سمجھتا کہ واقعی نعیم خان نے درست کہا ہے۔

لیکن اسکے ساتھ ساتھ میں آج اس بات کا اور بھی قائل ہوگیا،کہ والدین کا اثر بچوں میں ضرور پایا جاتا ہے،جس کی زندہ مثال ہمارئے سامنے ہے۔

آپکے والد محترم کے کالم شئیر کرنے کا شکریہ
 

منصور مکرم

محفلین
اگرچہ کالم طویل نہیں ،لیکن میرا سوال ہے کہ کیا یہ ضروری ہے کہ ہر کالم سینکڑوں الفاظ پر مشتمل ہو؟

میرے خیال میں تو یہ ضروری نہیں،اور یہ اسلئے کہ میں نے دیکھا ہے کہ جب بھی ہم بلاگ لکھتے ہیں تو کوشش ہوتی ہے کہ اسکو لمبا کریں،لیکن میرئے خیال میں یہ ایک غلط سوچ ہے۔ہمارئے بہت سے بلاگرز صرف سو ،دو سو الفاظ ہی لکھ کر مدعیٰ بیان کرتے ہیں،طوالت شائد کبھی کبھی ایسی ہی بےجا لفاظی بن جاتی ہے۔

ہاں اگر کم الفاظ میں مدعیٰ بیان نہ ہو اور تشنگی باقی رہے تو پھر الگ بات ہے۔
 

جیہ

لائبریرین
کہتے ہیں کہ اگر متاثر ہونا ہے اور بہتری کی کوشش کرنی ہے تو جو آپ سے اچھے کاموں میں بڑھ کر ہیں ، انکی طرف دیکھو۔

میں نے یہ تو پڑھا تھا کہ دارالعلوم کراچی میں 50 ہزار تک کتب ہیں ،فلاں جامعہ میں کتب خانہ اتنے کتب پر مشتمل ہے۔لیکن ذاتی کسی فرد کے بارئے میں نہیں پڑھا کہ اسکے پاس اتنے کتب ہیں۔

لیکن جب سے یہ پڑھا تھا کہ آپکے پاس چار ہزار کتب ہیں اور روزانہ آپ 50 صفحوں تک مطالعہ کرتی ہیں۔تو مجھے اپنے اساتذہ کی باتیں یاد آئی تھی کہ بیٹے مطالعہ کسی حالت میں نہیں چھوڑنا ، چاہئے ایک کتاب کئی بار کیوں نہ پڑھی ہو،اور چاہے مطالعہ پانچ منٹ ہی کیوں نہ ہو،کیونکہ ہر بار مطالعے سے بندے کو نئی بات معلوم ہوجاتی ہے۔

تو آپکے بارئے میں جان کر کہ ایک اللہ کی بندی طلب علم کیلئے محنت کر رہی ہے۔دل خوش بھی ہوا تھا اور علم کی جستجو دیکھ کر متاثر بھی۔

نیز ہمارے ایک اردو بلاگر جن کا تعلق سوات سے ہیں،اور اکثر خوبصورت مضامین لکھتے ہیں، تو انہوں نے بھی ایک بار ملالہ کا ذکر کرتے ہوئے بتایا تھا کہ جناب ملالہ سے متاثر ہونے کی ضرورت نہیں ،اگر آپ سوات کے طالبات کا جائزہ لیں تو ان میں آپ کو سینکڑوں ایسی طالبات مل جائیں گئ کہ جو ملالہ سے بھی حد درجہ قابل ہیں،لیکن انکو کوئی مناسب موقع نہیں دیا جارہا کہ وہ ملک و ملت کی خدمت کریں۔جو کہ ہمارئے ملک کا ایک عمومی مسئلہ ہے کہ قابل اور ذہین لوگ یا تو ملک چھوڑ جاتے ہیں اور یا انکی صلاحیت ضائع ہوجاتی ہے،کہ انکے لئے کوئی مناسب راہنمائی نہیں ہوتی۔

تو میں آپ کی علمی محبت دیکھ کر سمجھتا کہ واقعی نعیم خان نے درست کہا ہے۔

لیکن اسکے ساتھ ساتھ میں آج اس بات کا اور بھی قائل ہوگیا،کہ والدین کا اثر بچوں میں ضرور پایا جاتا ہے،جس کی زندہ مثال ہمارئے سامنے ہے۔

آپکے والد محترم کے کالم شئیر کرنے کا شکریہ
شکریہ درویش خُراسانی ۔ نعیم صاحب سے مجھے بھی اتفاق ہے۔ جہاں تک میری ذات ہے میں کچھ بھی نہیں بس یہ آپ سب کی محبت ہے
 
Top