جیہ
لائبریرین
میرے والد صاحب نے یہاں کے ایک مقامی روزنامے میں چند کالم لکھےتھے۔ کل یہاں تذکرہ چلا تو ظفری اور ابن سعید بھائی نے فرمائش کی کہ اس کالم کو محفل پر تحریری شکل میں پیش کروں۔ ان کی فرمائش کی تعمیل میں یہ کالم پیش خدمت ہے۔ یہ کالم 2011 میں چھپا تھا۔ جیہ
ہمارا اخبار پڑھنےکا شوق صرف سرخیاں پڑھنے تک ہی محدود ہے ۔ خدا را! سرخیوں سے صنفِ نازک والی سرخیاں مراد نہ لیں۔ نہ اب ان باتوں کی عمر رہی اور نہ شوقِ فضول۔
اخباری سرخیوں سے خائستہ خان بھی اکثر نالاں رہتا ہے۔ اس دن کہنے لگا کہ اخبار کی شہ سرخی اور سرخی تو سیاہ رنگ میں چھپتی ہیں تو پھر ان کو سرخی کیوں کہتے ہیں؟ میں نے اس کو سمجھانے کی ناکام کوشش کی کہ بھئی! یہ اردو زبان ہے اور اہلِ زبان اسے یوں ہی بولتے، لکھتے اور پڑھتے ہیں۔ یک دم غصہ ہو کر اپنی زبان نکال کر کہا۔ میں بھی اہلِ زبان ہوں۔ گونگا تھوڑی ہوں۔ ہم نے خاموش ہو جانے ہی میں مصلحت جانی۔ بقول شاعر
؏ ہم ہنس دیئے ہم چپ رہے منظور تھا پردا ترا
ہاں تو ہم اپنی اخبار بینی کا ذکر کر رہے تھے جو کہ صرف سرخیوں تک محدود ہے۔ تفصیل پڑھنے کا ہمارا دل گردہ ہی نہیں کیوں کہ اکثر خبریں ہمیں غم زدہ کر دیتی ہیں۔ بہت عرصہ ہوا آپ کی طرح ہم نے بھی کوئی خوش کُن خبر نہیں پڑھی۔ آج کل جو خبریں چھپتی ہیں ، ان خبروں کی تفصیل جاننا نہ جاننا برابر ہے۔ بقولِ غالب
؏ کہ بن کہے ہی انہیں سب خبر ہے، کیا کہیے
سچ کہوں تو اخباروں میں رکھا ہی کیا ہے۔ اشتہاروں اور سیاسی خبروں سے جو جگہ بچ جاتی ہے، اس کو مہنگائی، لوڈ شیڈنگ اور قتل و غارت کی خبروں سے پُر کر کے اپنے فرائض سے عہدہ براں ہو جاتے ہیں۔
مگر کل ایک خبر نظر سے گزری تو عنوان نے ہمیں چونکا دیا اور ہم خبر کی تفصیل جانے بغیر نہ رہے۔ عنوان تھا "افریقہ:ملیریا پھیلانے والے مچھر غائب۔"
خبر کے مطابق " ایک سائنسی رسالے نے خبر دی ہے کہ افریقہ کے کچھ حصوں سے ملیریا پھیلانے والے مچھر غائب ہوتے جا رہے ہیں لیکن سائنسدان اس کی وجہ جاننے میں ناکام رہے ہیں۔ سائنسدانوں کی یہ ٹیم گزشتہ دس برسوں سے تنزانیہ میں مچھروں کو پکڑ کر ان کے مطالعے میں مصروف ہے. اس ٹیم نے سنہ 2004 میں پانچ ہزار مچھر پکڑے تھے مگر یہ سائنسدان سنہ 2009 میں صرف چودہ مچھر پکڑ پائی۔ "
تفصیل پڑھکر تو ہمارا وہ حال ہوا۔۔۔۔۔۔ کہ ؏ حیراں ہوں، دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو مَیں
اور خائستہ خان کو ساری خبر سنا ڈالی۔ وہ پہلے تو حیران ہوا، پھر پریشان ہوا پھر ہنسنے لگا۔ اب حیران ہونے کی باری ہماری تھی۔ وجہ پوچھی تو کہنے لگا کہ حیران اس وجہ سے ہوا کہ مچھر کہاں گئے؟ پریشان اس وجہ سے ہوا کہ اب بے چارے افریقیوں کا مچھروں کے بغیر گزارا کیسے ہوگا؟ ہم نے عرض کیا کہ ہنسے کیوں تھے؟ کہنے لگا کہ ان سائنسدانوں کی بے خبری پر ہنسی آ گئی تھی۔ انہیں یہ بھی نہیں پتا کہ دنیا میں ایک ملک ہے پاکستان۔ اور وہاں مچھروں کی کوئی کمی نہیں۔ اگر افریقہ میں مچھر نہیں ملتے تو یہاں سے کیوں ایکسپورٹ نہیں کرتے؟ یہ کہہ کر اٹھ کر جانے لگا۔ میں نے پوچھا حضرت! کہاں چل دیئے؟ کہنے لگا ‘مچھر پکڑنے۔۔۔۔
میں نے بھی سوچا کیوں نہ ایک مہم شروع کی جائے ‘۔۔۔ ‘آو مچھر پکڑیں۔۔"
آؤ مچھر پکڑیں۔
(بے معنی باتیں)
ازریاض مسعود
(بے معنی باتیں)
ازریاض مسعود
ہمارا اخبار پڑھنےکا شوق صرف سرخیاں پڑھنے تک ہی محدود ہے ۔ خدا را! سرخیوں سے صنفِ نازک والی سرخیاں مراد نہ لیں۔ نہ اب ان باتوں کی عمر رہی اور نہ شوقِ فضول۔
اخباری سرخیوں سے خائستہ خان بھی اکثر نالاں رہتا ہے۔ اس دن کہنے لگا کہ اخبار کی شہ سرخی اور سرخی تو سیاہ رنگ میں چھپتی ہیں تو پھر ان کو سرخی کیوں کہتے ہیں؟ میں نے اس کو سمجھانے کی ناکام کوشش کی کہ بھئی! یہ اردو زبان ہے اور اہلِ زبان اسے یوں ہی بولتے، لکھتے اور پڑھتے ہیں۔ یک دم غصہ ہو کر اپنی زبان نکال کر کہا۔ میں بھی اہلِ زبان ہوں۔ گونگا تھوڑی ہوں۔ ہم نے خاموش ہو جانے ہی میں مصلحت جانی۔ بقول شاعر
؏ ہم ہنس دیئے ہم چپ رہے منظور تھا پردا ترا
ہاں تو ہم اپنی اخبار بینی کا ذکر کر رہے تھے جو کہ صرف سرخیوں تک محدود ہے۔ تفصیل پڑھنے کا ہمارا دل گردہ ہی نہیں کیوں کہ اکثر خبریں ہمیں غم زدہ کر دیتی ہیں۔ بہت عرصہ ہوا آپ کی طرح ہم نے بھی کوئی خوش کُن خبر نہیں پڑھی۔ آج کل جو خبریں چھپتی ہیں ، ان خبروں کی تفصیل جاننا نہ جاننا برابر ہے۔ بقولِ غالب
؏ کہ بن کہے ہی انہیں سب خبر ہے، کیا کہیے
سچ کہوں تو اخباروں میں رکھا ہی کیا ہے۔ اشتہاروں اور سیاسی خبروں سے جو جگہ بچ جاتی ہے، اس کو مہنگائی، لوڈ شیڈنگ اور قتل و غارت کی خبروں سے پُر کر کے اپنے فرائض سے عہدہ براں ہو جاتے ہیں۔
مگر کل ایک خبر نظر سے گزری تو عنوان نے ہمیں چونکا دیا اور ہم خبر کی تفصیل جانے بغیر نہ رہے۔ عنوان تھا "افریقہ:ملیریا پھیلانے والے مچھر غائب۔"
خبر کے مطابق " ایک سائنسی رسالے نے خبر دی ہے کہ افریقہ کے کچھ حصوں سے ملیریا پھیلانے والے مچھر غائب ہوتے جا رہے ہیں لیکن سائنسدان اس کی وجہ جاننے میں ناکام رہے ہیں۔ سائنسدانوں کی یہ ٹیم گزشتہ دس برسوں سے تنزانیہ میں مچھروں کو پکڑ کر ان کے مطالعے میں مصروف ہے. اس ٹیم نے سنہ 2004 میں پانچ ہزار مچھر پکڑے تھے مگر یہ سائنسدان سنہ 2009 میں صرف چودہ مچھر پکڑ پائی۔ "
تفصیل پڑھکر تو ہمارا وہ حال ہوا۔۔۔۔۔۔ کہ ؏ حیراں ہوں، دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو مَیں
اور خائستہ خان کو ساری خبر سنا ڈالی۔ وہ پہلے تو حیران ہوا، پھر پریشان ہوا پھر ہنسنے لگا۔ اب حیران ہونے کی باری ہماری تھی۔ وجہ پوچھی تو کہنے لگا کہ حیران اس وجہ سے ہوا کہ مچھر کہاں گئے؟ پریشان اس وجہ سے ہوا کہ اب بے چارے افریقیوں کا مچھروں کے بغیر گزارا کیسے ہوگا؟ ہم نے عرض کیا کہ ہنسے کیوں تھے؟ کہنے لگا کہ ان سائنسدانوں کی بے خبری پر ہنسی آ گئی تھی۔ انہیں یہ بھی نہیں پتا کہ دنیا میں ایک ملک ہے پاکستان۔ اور وہاں مچھروں کی کوئی کمی نہیں۔ اگر افریقہ میں مچھر نہیں ملتے تو یہاں سے کیوں ایکسپورٹ نہیں کرتے؟ یہ کہہ کر اٹھ کر جانے لگا۔ میں نے پوچھا حضرت! کہاں چل دیئے؟ کہنے لگا ‘مچھر پکڑنے۔۔۔۔
میں نے بھی سوچا کیوں نہ ایک مہم شروع کی جائے ‘۔۔۔ ‘آو مچھر پکڑیں۔۔"