جلال لکھنوی

  1. کاشفی

    اُٹھا کے آنکھ کو دیکھا جو دھیان سے اوپر - حکیم میر ضامن علی صاحب جلال لکھنوی

    غزل (حکیم میر ضامن علی صاحب جلال لکھنوی) اُٹھا کے آنکھ کو دیکھا جو دھیان سے اوپر تو پایا ان کو بہت لامکان سے اوپر کھڑے تھے وہ سرِبالیں مگر نہ دیکھ سکا نگہ نہ کی گئی مجھ ناتوان سے اوپر پڑے ہیں سوزجگر کے بیان سے چھالے زباں کے نیچے، زباں پر، زبان سے اوپر اثر کو عالمِ بالا میں جا کے...
  2. کاشفی

    یاد آکے ترے ہجر میں سمجھائے گی کس کو - حکیم میر ضامن علی صاحب جلال لکھنوی

    غزل (حکیم میر ضامن علی صاحب جلال لکھنوی) یاد آکے ترے ہجر میں سمجھائے گی کس کو دل ہی نہیں سینے میں تو بہلائے گی کس کو دم کھنچتا ہے کیوں آج یہ رگ رگ سے ہمارا کیا جانے اِدھر دل کی کشش لائے گی کس کو جب مار ہی ڈالا ہمیں بیتابیء دل نے کروٹ شبِ فرقت میں بدلوائے گی کس کو مرجائیں گے بے...
  3. کاشفی

    عرضِ مطلب میں شان جاتی ہے - حکیم میر ضامن علی صاحب جلال لکھنوی

    غزل (حکیم میر ضامن علی صاحب جلال لکھنوی) عرضِ مطلب میں شان جاتی ہے بات اے مہربان جاتی ہے عشق میں آن بان جاتی ہے آن جاتی ہے شان جاتی ہے بیمروت ہے پوری مرگِ فراق چھوڑ کر نیم جان جاتی ہے بات تو کرنے دے ہمیں اے ضبط کام ہی سے زبان جاتی ہے شب وصل اس کی دیکھیں اپنے بعد کس کے گھر...
  4. کاشفی

    زہے قسمت جو تم اپنی گلی میں - حکیم میر ضامن علی صاحب جلال لکھنوی

    غزل (حکیم میر ضامن علی صاحب جلال لکھنوی) زہے قسمت جو تم اپنی گلی میں جگہ مر رہنے کی دو زندگی میں نہ پوچھو گے نہ درد دل کہوں گا یونہی رہ جائیگی بس جی کی جی میں خیالِ دوست تونے کی شبِ ہجر عجب بیکس نوازی بیکسی میں فلک کیا ہم کو سمجھا ہے کوئی زخم رُلاتا ہے جو تو اکثر ہنسی میں...
Top