یاد آکے ترے ہجر میں سمجھائے گی کس کو - حکیم میر ضامن علی صاحب جلال لکھنوی

کاشفی

محفلین
غزل
(حکیم میر ضامن علی صاحب جلال لکھنوی)

یاد آکے ترے ہجر میں سمجھائے گی کس کو
دل ہی نہیں سینے میں تو بہلائے گی کس کو

دم کھنچتا ہے کیوں آج یہ رگ رگ سے ہمارا
کیا جانے اِدھر دل کی کشش لائے گی کس کو

جب مار ہی ڈالا ہمیں بیتابیء دل نے
کروٹ شبِ فرقت میں بدلوائے گی کس کو

مرجائیں گے بے موت غم ہجر کے مارے
آئے گی تو اب زندہ اجل پائے گی کس کو

مدفن نہ اگر ہوگا سر راہِ ہمارا
اٹھکیلی چال آپ کی ٹھکرائے گی کس کو

اچھا رہے تصویر کسی کی مرے دل پر
کمبخت نہ ٹھہرے گا تو ٹھہرائےگی کس کو

کچھ بیٹھ گیا دل ہی یہاں بیٹھ کے اپنا
غیرت تری محفل سے اب اُٹھوائے گی کس کو

اس وعدہ خلافی نے اگر جان ہی لے لی
پھر جھوٹی تسلی تری تڑپائے گی کس کو

کیوں لیں گے جلال آکے مرے دل میں وہ چٹکی
جھپکے گی پلک کاہے کو ، نیند آئے گی کس کو
 

فرخ منظور

لائبریرین
بہت خوب! شکریہ کاشفی صاحب۔ اس شعر میں شاید اٹھکیلی ہو گا۔ اسے دوبارہ دیکھ لیجیے۔
مدفن نہ اگر ہوگا سر راہِ ہمارا
اٹھلیکی چال آپ کی ٹھکرائے گی کس کو
 
Top