اُٹھا کے آنکھ کو دیکھا جو دھیان سے اوپر - حکیم میر ضامن علی صاحب جلال لکھنوی

کاشفی

محفلین
غزل
(حکیم میر ضامن علی صاحب جلال لکھنوی)

اُٹھا کے آنکھ کو دیکھا جو دھیان سے اوپر
تو پایا ان کو بہت لامکان سے اوپر

کھڑے تھے وہ سرِبالیں مگر نہ دیکھ سکا
نگہ نہ کی گئی مجھ ناتوان سے اوپر

پڑے ہیں سوزجگر کے بیان سے چھالے
زباں کے نیچے، زباں پر، زبان سے اوپر

اثر کو عالمِ بالا میں جا کے ڈھونڈ اے آہ
جہاں اک اور بھی ہے اس جہان سے اوپر

یہ قیس و وامق و فرہاد کے سب افسانے
گزر چکے ہیں مری داستان سے اوپر

زمیں سے خاک نشینوں کا تیرے اُٹھ کے غبار
پہنچ گیا ہے کہیں آسمان سے اوپر

جلال عشق حقیقی کا رہنما ہے مجاز
چڑھے ہیں عاشق اسی نردبان سے اوپر



HakimZamin.jpg
 

فرخ منظور

لائبریرین
بہت عمدہ انتخاب ہے کاشفی صاحب۔ میں نے غزل درست کر کے دوبارہ پوسٹ کر دی ہے۔ امید ہے ناگوارِ خاطر نہ ہو گا۔

اُٹھا کے آنکھ کو دیکھا جو دھیان سے اوپر
تو پایا ان کو بہت لامکان سے اوپر

کھڑے تھے وہ سرِبالیں مگر نہ دیکھ سکا
نگہ نہ کی گئی مجھ ناتوان سے اوپر

پڑے ہیں سوزجگر کے بیان سے چھالے
زباں کے نیچے، زباں پر، زبان سے اوپر

اثر کو عالمِ بالا میں جا کے ڈھونڈ اے آہ
جہاں اک اور بھی ہے اس جہان سے اوپر

یہ قیس و وامق و فرہاد کے سب افسانے
گزر چکے ہیں مری داستان سے اوپر

زمیں سے خاک نشینوں کا تیرے اُٹھ کے غبار
پہنچ گیا ہے کہیں آسمان سے اوپر

جلالِ عشق حقیقی کا رہنما ہے مجاز
چڑھے ہیں عاشق اسی نردبان سے اوپر
 
Top