رضوان راز
محفلین
صاحب یہ ہی تو کمال ہوگا (اگر ہو گیا)سمجھ نہیں پایا کہ ایک پروٹین تمام سرطان کا علاج کیسے کرے گی۔ اگر ہو سکے تو اس موضوع پر سائنس اور ٹیکنالوجی کے زمرے میں لڑی شروع کریں۔
حیاتیاتی سالموں (Biological Molecules) میں پروٹین ایک طلسمی مالیکیول ہے۔ یہ ایک کثیر المقاصد مالیکیول ہے۔
ہمارے جسم میں بہ یک وقت بے شمار کیمیائی تعامل(Chemical Reactions) وقوع پذیر ہوتے ہیں۔ انہیں مجموعی طور پر میٹابولزم (استحالہ) کہا جاتا ہے۔
میٹابولزم کو قابو میں رکھنے اور اعتدال برقرار رکھنے کے لیے خامرے (Enzymes) استعمال ہوتے ہیں۔ جو کہ پروٹین (لحمیات)سے بنے ہوتے ہیں۔
اسی طرح جسم کے مختلف اعضاء آپس میں لاسلکی رابطے ( Wireless Communication) کے لیے ہارمونز ( انگیزوں) کا استعمال کرتے ہیں۔ یہ بھی پروٹین سے بنے ہوتے ہیں۔ جیسے کہ خون میں شکر کی مقدار کو اعتدال پر رکھنے کے لیے انسولین استعمال ہوتی ہے جو کہ جگر تک پیغام رسانی کا فریضہ سر انجام دیتی ہے۔
دوسری جانب جسم کا مدافعتی نظام اینٹی باڈیز پر مشتمل ہوتا ہے۔ اینٹی باڈیز بھی دراصل پروٹین ہی ہیں۔
الغرض یہ کہ جسم کے تمام افعال کی انجام دہی پروٹین کی مرہونِ منت ہے۔
اب آئیے سرطان کے متعلق جانتے ہیں۔
سرطان (کینسر) در اصل خلیات(Cells) کی بغاوت کا نام ہے۔ خلیہ ایک مقرر وقت پر ایک سے دو خلیات میں تقسیم ہو جاتا ہے۔ خلیاتی تقسیم (Mitotic Cell Division) کا یہ عمل ایک کڑی نگرانی میں مکمل ہوتا ہے۔ مختلف مراحل میں سخت جانچ پڑتال ہوتی ہے۔ اگر کہیں کوئی غلطی ہو تو درستی کا عمل (Rectification) شروع ہو جاتا ہے۔ لیکن اگر غلطی نا قابلِ اصلاح ہو تو خلیے کی موت کا حکم صادر ہوتا ہے اور خلیہ پہلے سے طے شدہ پروگرام کے مطابق بہ تدریج خود کُشی (Apoptosis) کر لیتا ہے۔
لیکن اگر کوئی بد خلقت خلیہ (Carcinoma) اس قدر سخت نگرانی کے باوجود بچ نکلے تو وہ بغاوت پر اتر آتا ہے اور تقسیم در تقسیم ہوتا رہتا ہے. تقسیم کا یہ عمل بے قابو اور بغیر کسی نگرانی کے ہوتا ہے۔ جس کے نتیجہ میں خلیات ایک گلٹی یا رسولی (tumor) کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔
اس ٹیومر کو جراحی (سرجری) کے ذریعہ جسم سے نکالا جاتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ کیمیائی علاج(Chemotherapy) اور شعاعی علاج (Radiation Therapy) بھی جاری رہتا ہے جو کہ ایک تکلیف دہ عمل ہے۔
ہماری تحقیق کا مقصود یہ ہے کہ پروٹین کے ذریعہ محفوظ طریقے سے ٹیومر کو تحلیل کیا جائے اور کینسر کے خلیات کا خاتمہ کیا جائے۔
اگر ایسا ہوگیا تو کینسر کا علاج بے حد آسان اور سستا ہو جائے گا۔
لیکن یہ ایک طویل اور صبر آزما سفر ہے۔