شعر و شاعر (اشعار اور خالق)

طارق شاہ

محفلین

تِری آواز سویرا، تِری باتیں تڑکا
آنکھیں کُھل جاتی ہیں اعجازِ سُخن کیا کہنا

نیلگوں شبنمی کپڑوں میں بدن کی یہ جَوت
جیسے چَھنتی ہو سِتاروں کی کِرن کیا کہنا

فِراق گورکھپُوری
 

طارق شاہ

محفلین

شہرِ گُل کے خس و خاشاک سے خو ف آتا ہے
جس کا وارث ہُوں، اُسی خاک سے خوف آتا ہے

رحمَتِ سیّدِ لولاکؐ پہ کامِل ایمان !
اُمّتِ سیّدِ لولاکؐ سے خوف آتا ہے

اِفتخار عارف
 

طارق شاہ

محفلین

کیا کیا نہ کُچھ گزرتا گیا زندگی کے ساتھ
اِک خوابِ خُوب رُوئے زمانہ نہیں گیا

کم وَلوَلے ہوں کیسے، کہ ہر دم ابھی اُسے
پیشِ نظر خیال میں پانا نہیں گیا

شفیق خلؔش
 

طارق شاہ

محفلین

جو نقش دِل پہ تھے، وہ تو سارے اُتر گئے
نظروں سے اُس کا دِل میں سمانا نہیں گیا

یادوں سے مَحو ہوگئے ماضی کے سب خیال
اِک عکس اُس حَسِیں کا سُہانا نہیں گیا

شفیق خلؔش
 

طارق شاہ

محفلین

اب بھی طلَب ہے میری نِگاہوں کو حُسن کی
جینے کو زندگی سے بہانہ نہیں گیا

چُھوٹے ہیں زندگی کے سبھی کام، پر خلش !
کُوچے میں اُس کے اب بھی وہ جانا نہیں گیا

شفیق خلؔش
 

عنبر

محفلین
افتخار نسیم افتی کی یہ غزل جس کتاب میں ہے مجهے وہ کتاب آنلائن یا اس غزل کی تصویر مل سکتی ہے جو کتاب سے لی گئ ہو؟ ریفرنس چاہئے دراصل شاعر کی لکهی صحیح غزل کا

وہ ثمر تها میری دعاوں کا اسے کس نے اپنا بنا لیا
میری آنکه کس نے اجاڑ دی ، میرا خواب کس نے چرا لیا
 

طارق شاہ

محفلین

کل جو گلشن میں گیا مَیں، کہ ذرا غم بُھولے !
واں بھی، ہر گُل نے مجھے یاد دِلائی تیری

نظؔیر اکبر آبادی
 

طارق شاہ

محفلین

تھما جب زندگی کا جوش، پُرخاشِ اجَل جاگی
عمل کو دیکھ کر، مدہوش پاداشِ عمل جاگی

ستاروں کی نگاہوں نے دُھواں اُٹھتا ہُوا دیکھا
مگر خورشید نے کچھ بھی نہ مٹّی کے سِوا دیکھا

حفیظ جالندھری
 

عنبر

محفلین
تھما جب زندگی کا جوش، پُرخاشِ اجَل جاگی
عمل کو دیکھ کر، مدہوش پاداشِ عمل جاگی

ستاروں کی نگاہوں نے دُھواں اُٹھتا ہُوا دیکھا
مگر خورشید نے کچھ بھی نہ مٹّی کے سِوا دیکھا

حفیظ جالندھری
طارق صاحب آپ کی کولیکشن پچهلے دو سال سے پڑہ رہی ہوں میں اور مجهے امید ہے کہ میری ایک الجهن میں آپ کا علم اور تجربہ کام آ سکتا ہے- افتخار نسیم افتی کی یہ غزل جس کتاب میں ہے مجهے وہ کتاب آنلائن یا اس غزل کی تصویر مل سکتی ہے جو کتاب سے لی گئ ہو؟ ریفرنس چاہئے دراصل شاعر کی لکهی صحیح غزل کا

وہ ثمر تها میری دعاوں کا اسے کس نے اپنا بنا لیا
میری آنکه کس نے اجاڑ دی ، میرا خواب کس نے چرا لیا
 

طارق شاہ

محفلین
السلام و علیکم !
کتاب میرے پاس نہیں ، سوری !
انٹر نیٹ پر کچھ یوں ہے :

۔۔۔
وہ ثمر تھا میری دُعاؤں کا، اُسے کِس نے اپنا بنا لیا
مِری آنکھ کِس نے اُجاڑ دی،مِرا خواب کِس نے چُرا لیا

تجھے کیا بتائیں کہ دِلنشیں! تِرے عِشق میں، تِری یاد میں
کبھی گفتگو رہی پُھول سے، کبھی چاند چھت پہ بُلا لیا

مِری جنگ کی وہ ہی جیت تھی،مِری فتح کا ، وہی جشن تھا
میں گرا ، تو دَوڑ کےاُس نےجب ، مجھے بازوؤں میں اُٹھا لیا

مِری چاند چُھونے کی حسرتیں،مِری خوشبُو ہونے کی خواہشیں
تُو ملا، تو ایسا لگا صنم! مجھے جو طلب تھی، وہ پا لیا

مِرے دشمنوں کی نظر میں بھی، مرا قد ، بڑا ہی رہا سدا
مِری ماں کی پیاری دعاؤں نے،مجھے ذِلّتوں سے بچا لیا

مجھے پہلے پہلے جو دیکھ کر تِرا حال تھا مجھے یاد ہے!
کبھی جَل گئیں تِری رَوٹیاں، کبھی ہاتھ تُو نے جلا لیا

مِری ڈائری، مِری شاعری، مِرے افتی ! پڑھ کے وہ رَو پڑی
مِرے پاس آ کے کہا مجھے! بڑا روگ تُو نے لگا لیا

اِفتخار نسیم افؔتی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
غزل میں بہت سی باتیں مجھے سمجھ نہیں آئیں ، مثلاََ

دعاؤں کا ثمر ودیعت ہوئی شے ٹھہری، اسے دوسرا کون اپنا کرسکتا ہے ؟
وہ ثمر تھا، مطلب رہا نہیں، اگر رہا نہیں تو سوال کیسا کہ کس نے اجاڑ دی، کس نے چرا لیا ؟
یقیناََ جس نے دعاؤ ں میں بخشی تھی، اسی نے ، کہ آپ کے علم میں بھی ہے کہ وہ
ثمر تھا
۔۔۔
مِری ماں کی پیاری دُعاؤں نے ۔۔۔۔۔
بھی
مِری پیاری ماں کی دعاؤں نے ۔۔۔۔۔
کردینے سے درست لگتا ہے
ورنہ ماں کی دعاؤں کی قسمیں (پیاری، سادہ، معیاری) وغیرہ ہو ئیں صاف نظر آتی ہیں
۔۔۔۔۔
مِرے پاس آ کے کہا مجھے! بڑا روگ تُو نے لگا لیا
بالا مصرع سے یہ مفہوم ملتا ہے کہ اس سے قبل والے مصرعے کا عمل
ذرا سے فاصلے ، یا دُوری پر کھڑے، بیٹھے ہی

کتاب نہیں اس لئے یہ تبصرہ یا خیال آرائی بھی بیکار ہی ہے کہ پتہ نہیں اسی طرح لکھی بھی ہے مرحوم نے یا نہیں
ورنہ دیسی بھایئوں سے کچھ بھی بعید نہیں کہ کسی کے نام سے کچھ بھی لکھ دیں ، یا کسی کے لکھے کو یتیم کردیں کہ اپنا نام دیں

فی امان اللہ
 
آخری تدوین:

طارق شاہ

محفلین

وہ ہم نہیں ، کہ مریں ، عُمرِ جاوِداں کے لیے
دُعائیں مانگتے ہیں، مرگِ ناگہاں کے لیے

فلک کو ہجر کی شب بادلوں نے ڈھانپا ہے
یہ اِنتظام ہُوئے ہیں مِری فُغاں کے لیے

ابوالاثر حفیظ جالندھری
 

طارق شاہ

محفلین

تِرے حضُور، مجھے لے تو آئے ہیں یا رب !
سمجھ کے حکم مِلے بندۂ بُتاں کے لیے


ابوالاثر حفیظؔ جالندھری
 

عنبر

محفلین
آپ کے تفصیلی جواب کا شکریہ- دراصل معلوم یہی کرنا تها کہ کیا واقعی غزل یونہی لکهی بهی گئ ہے یا نہیں- انٹرنیٹ نے آسانیاں تو بہت کر دی ہیں مگر شاعری کو مروڑ تروڑ کر بهی بہت پیش کیا جاتا ہے یہاں- بہر کیف، آپ کی رائے کا شکریہ-
 

طارق شاہ

محفلین

پِھرے ہیں مشرق و مغرب سے تا جنوُب و شُمال
تلاش کی ہے صنم ہم نے چار سُو تیری

شبِ فِراق میں اِک دَم نہیں قرار آیا
خُدا گواہ ہے، شاہد ہے آرزُو تیری

خواجہ حیدر علی آتشؔ
 
Top