اشعار جو اپنے خالق کو پیچھے چھوڑ گئے

فاتح

لائبریرین

مغزل

محفلین
شکریہ میں نے پڑھ لیا ہے ۔ مضمون کے بقول حفیظ جالندھری کا ہے ۔ میں تصدیق کے لیے کچھ مہلت چاہتا ہوں
 

مغزل

محفلین
مطالعے میں تو تھا نام معلوم نہیں ، اپنے رویے کے اعتبار سے 50 کی دہائی کے شعراء میں سے کسی کا ہوسکتا ہے ۔ معلوم ہوسکا تو اطلاع کردی جائے گی۔ انشا اللہ
 

راجہ

محفلین
قسمت کی خوبی دیکھیے ٹوٹی کہاں کمند
دو چار ہاتھ جبکہ لبِ بام رہ گیا
علامہ محمد اقبال

اقبال رح کو جنہوں نے سرسری سا بھی پڑھا ہے وہ جانتے ہیں کہ اقبال کا اپنا ہی مزاج اور انداز ہے اور بادی النظر میں ہی یہ شعر ان کا نہیں لگتا
وہ تو ستاروں پر کمند ڈالنے کی بات کرتے ہیں کمند ٹوٹنے کی کیسے کریں گے ؟
 

فرخ منظور

لائبریرین
دل پا کے اُس کی زلف میں آرام رہ گیا
درویش جس جگہ کہ ہوئی شام رہ گیا
جھگڑے میں ہم مبادی کے یاں تک پھنسے کہ آہ!
مقصود تھا جو اپنے تئیں کام رہ گیا
ناپختگی کا اپنی سبب اُس ثمر سے پوچھ
جلدی سے باغباں کی جو وہ خام رہ گیا
صیّاد تو تو جا ہے پر اُس کی بھی کچھ خبر
جو مرغِ ناتوں کہ تہِ دام رہ گیا
قسمت تو دیکھ ٹوٹی ہے جا کر کہاں کمند
کچھ دُور اپنے ہاتھ سے جب بام رہ گیا
ماریں ہیں ہم نگینِ سلیماں کو پشتِ دست
جب مٹ گیا نشان تو گو نام رہ گیا
نے تجھ پہ وہ بہار رہی اور نہ یاں وہ دل
کہنے کو نیک و بد کے اِک الزام رہ گیا
موقوف کچھ کمال پہ یاں کامِ دل نہیں
مجھ کو ہی دیکھ لینا کہ ناکام رہ گیا
قائم گئے سب اُس کی زباں سے جو تھے رفیق
اِک بے حیا میں کھانے کو دشنام رہ گیا

(قائم چاند پوری)
 

محمد وارث

لائبریرین
باباجانی اصل شعر یوں ہے
غزلاں تم تو واقف ہو کہو مجنوں کے مرنے کی
دوانہ مر گیا آخر کو ، ویرانے پہ کیا گزرا
یہ شعر نواب سراج الدولہ کی رحلت پر کہا گیا تھا۔
شاعر کا نام راجہ رام نارائن ہے اور ان کا تخلص ’’موزوں ‘‘تھا

مغل صاحب، آج صبح ہی فیس بُک پر یہ شعر میں نے ادا جعفری کے نام کے ساتھ دیکھا تھا، حیرت ہوئی اب علم ہوا کہ کس کا ہے۔ نوازش
 

مغزل

محفلین
شکریہ وارث صاحب۔ اصل میں ادا صاحبہ کی ایک کتاب کا نام "" غزالاں تم تو واقف ہو ‘‘ ہونے کی وجہ سے بہت سے لوگ اس شعر کو ادا جعفری صاحبہ کا سمجھتے ہیں۔
 
تو بھی دکھلاتا رہا خاموشیوں کے شعبدے
میں بھی مچھلی کی طرح پلٹا ہوں پتھر چاٹ کے

یہ شعر حفیظ احمد کا ہے جو ستر کی دہائی میں فیصل آباد سے شائع ہونے والے مجلے ”نئی آوازیں‘‘ میں شائع ہوا تھا
 

متلاشی

محفلین
مشرق سے ابھرتے ہوئے سورج کی جبیں پر
مرقوم تیرا نام ہے کچھ ہو کہ رہے گا

یہ شعر معلوم نہیں کس کا ہے کسی کو معلوم ہو تو بتا دیں۔شکریہ
 

چھوٹاغالبؔ

لائبریرین
آ عندلیب مل کر کریں آہ و زاریاں
تو ہائے گل پکار، میں چلاؤں ہائے دل

اور

تصویر بتاں اور چند حسینوں کے خطوط

اسکا پہلا مصرعہ اور شاعر کا نام بتا کر درویش کی دعا لیں
 

فاتح

لائبریرین
آ عندلیب مل کر کریں آہ و زاریاں
تو ہائے گل پکار، میں چلاؤں ہائے دل
آ عندلیب مل کے کریں آہ و زاریاں
تو ہائے گل پکار، میں چلّاؤں ہائے دل
یہ شعر سید محمد خان رند کا ہے۔
تصویر بتاں اور چند حسینوں کے خطوط

اسکا پہلا مصرعہ اور شاعر کا نام بتا کر درویش کی دعا لیں
پہلا مصرع تو یہی ہے بلکہ درست مصرع یوں ہے کہ "چند تصویرِ بتاں، چند حسینوں کے خطوط"
جب کہ دوسرا مصرع ہے کہ "بعد مرنے کے مرے گھر سے یہ ساماں نکلا"
اس دھاگے کی ورق گردانی سے قبل ہم اسے غالب ہی کا شعر سمجھتے تھے۔ آپ بھی پڑھیے۔
 
ن

نامعلوم اول

مہمان
یہ کنارہ چلا کہ ناؤ چلی
کہئے کیا درمیان میں آئی
یہ نہایت شاندار دھاگہ ہے۔مگر غالبًا اوپر کے شعر کا دوسرا مصرعہ مس ٹائپ ہوا ہے۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ دوسرامصرعہ کچھ یوں ہے: "کہیئے کیا بات دھیان میں آئی"۔ چونکہ یہ دھاگا زندہ رہنے والا ہے اس لیے تدوین مناسب ہو گی۔
 
یہ جبر بھی دیکھا ہے تاریخ کی نظروں نے٭لمحوں نے خطا کی تھی صدیوں نے سزا پائی
اس شعر کے خالق مظفر رزمی کا گزشتہ سال 19 ستمبر کو انتقال ہوا جو ہندوستان کے شہر کرانہ کے رہنے والے تھے ۔
 

warraichh

محفلین
اٹھو وگرنہ حشر نہیں ہو گا پھر کبھی
دوڑو زمانہ چال قیامت کی چل گیا
ہمایوں، جسٹس میاں شاہ دین۔(1868ء۔ 1918ء(
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
بھانپ ہی لیں گے اشارہ سر محفل جو کیا
تاڑنے والے قیامت کی نظر رکھتے ہیں

لالہ مادھو رام جوہر فرخ آبادی
کل فاتح بھائی نے یہ شعر لکھا تو مجھے یاد آگیا کہ اس شعر کے خالق سے بھی کم کم لوگ ہی واقف ہیں۔۔ تو شاید اس دھاگے کی مناسبت سے اس کو بھی جگہ مل جائے۔ :)
 

سید عاطف علی

لائبریرین
شکریہ وارث صاحب۔ اصل میں ادا صاحبہ کی ایک کتاب کا نام "" غزالاں تم تو واقف ہو ‘‘ ہونے کی وجہ سے بہت سے لوگ اس شعر کو ادا جعفری صاحبہ کا سمجھتے ہیں۔
میں نے یہ شعر اس طرح سنا تھا ۔
دوانہ مر گیا آخر، تو ویرانے پہ کیا گزری:unsure:
 
Top