حسان خان

لائبریرین
(رباعی)
گر مرده بُوَم برآمده سالی بیست
چه پنداری که گورم از عشق تهی‌ست
گر دست به خاک برنِهی کاینجا کیست
آواز آید که حالِ معشوقم چیست
(ابوسعید ابوالخیر)

اگر مجھے مرے ہوئے بیس سال گذر چکے ہوں تو یہ کیوں گمان کرتے ہو کہ میری قبر عشق سے خالی ہے؟ اگر تم [میری] خاک پر [اپنا] دست رکھو [اور کہو] کہ "یہاں کون ہے؟" تو آواز آئے گی کہ "میرے معشوق کا حال کیا ہے؟"
 
آخری تدوین:
رباعی از ابو سعید ابو الخیر

گه شانه کش طرهٔ لیلا باشی
گه در سر مجنون همه سودا باشی
گه آینهٔ جمال یوسف گردی
گه آتش خرمن زلیخا باشی

منظوم ترجمہ از حامد حسن قادری

تو شانہ کش طرہ لیلیٰ ہے کبھی
قیس کے سر میں تو ہی سودا ہے کبھی
ہے تو کبھی آئینہ حسن یوسف
اور آتش خرمن زلیخا ہے کبھی
 
امروز ما مهمان تو مست رخ خندان تو
چون نام رویت می‌برم دل می‌رود والله ز جا
(مولانا رومی)

آج ہم تیرے مہمان ہیں، تیرے رخِ خنداں سے مست ہیں۔جب میں تیرے چہرے کا نام لیتا ہوں تو واللہ دل جگہ سے ہٹ جاتا ہے۔
 

ضیاءالقمر

محفلین
؂بر خیز کہ دل جوئی من بر تو حرام است
اے آنکہ ندانی خبرم ز آں سرِ کو داد

غالبؔ
عاشق اپنے چارہ گر سے مخاطب ہو کے کہتا ہے:
اُٹھ (چلا جا)کہ تو میری دلجوئی کے قابل نہیں،(میری دلجوئی تجھ پر حرام ہے)
تو اُس (معشوق)کے کوچے کے بارے میں کوئی بات نہیں کر سکا۔
یعنی تو میرا غمگسار ہوتا تو میرے معشوق کے کوچے کی بات کرتا۔
(مترجم و شارح :صوفی غلام مصطفیٰ تبسم)
 

ضیاءالقمر

محفلین
؂ز آنچہ دل ز ہم باشد لب چہ طرف بر بندد
یا مجال گفتن دہ یا نہ گفتہ باور کن

غالبؔ
جو کچھ میرے دل سے اُبھرتا ہے (ز ہم باشد)اس سے کسے نمٹ سکتا ہے یعنی اُس سے کیسے عہدہ برآ ہو سکتا ہے۔
اے خدا تو بات کہنے کی مجال عطا کر یا جو کچھ میں نہیں کہتا اُس کا بن کہے ہی اعتبار کر لے۔
انسان اگر اپنا دکھ بیان نہ کر سکے تو کیا ہے۔خدا تو دلوں کے راز جانتا ہے
اُسے خود فریاد رسی کرنی چاہیے
(مترجم و شارح :صوفی غلام مصطفیٰ تبسم)
 
حسن_یوسف دم_عیسی ید_بیضاداری آنچہ خوباں ہمہ دارند تو تنہا داری


ترجمہ


حضرت یوسف کا بے پناہ حسن ، حضرت عیسٰی کا مُردوں: کو زندہ کرنا ، حضرت موسٰی کا معجزہ جس میں ان کے ہاتھ میں انڈے جتنی جگہ روشن ہو جاتی تھی ۔۔۔ شاعر کہتا ہے کہ میرے محبوب تجھ اکیلے میں ان تینوں پیغمروں جیسی عظیم خوبیاں پائی جاتی ہیں ۔۔۔
 

حسان خان

لائبریرین
ز قحطِ سخن مانَدم خامه غالب
به نخلی کز آوردنِ بار مانَد
(غالب دهلوی)

قحط: کال، کمیابی، خشک سالی۔ قحطِ سخن: شعر گوئی کا فقدان۔ مانَدم: (از مصدرِ مانستن: مثل و مانند ہونا) میں مانند لگتا ہوں۔ خامہ: قلم، کلک۔ مانَدم خامه: ظاہری معنی ہیں: میں قلم جیسا لگتا ہوں لیکن اس شعر میں اس کے معنی ہیں: میرا قلم لگتا ہے۔ نخل: کھجور کا درخت (فارسی زبان کے شعراء نے اس لفظ کو عام درخت کے معنی میں استعمال کیا ہے)۔ کز: مخففِ که از۔ آوردن: لانا۔ برآوردن: باہر نکالنا۔ بار: پھل۔
غالب! سخن گوئی کے فقدان کی وجہ سے میرا قلم اس درخت کی مانند ہو کر رہ گیا ہے جس میں اب پھل نہیں آتا۔
توضیح: اس شعر کے مصرعِ اول میں 'مانَدم خامه' کی ضمیرِ متکلم 'م' لفظِ 'خامہ' کی جانب راجع (لوٹتی) ہے۔ یہاں غالب کا مقصود یہ ہے کہ میرا قلم اس نخل کی مانند لگتا ہے جو اب سوکھ چکا ہے۔
(مترجم و شارح: یونس جعفری)
 

حسان خان

لائبریرین
رسیده‌ایم به کویِ تو، جایِ آن باشد
که عمر صَرفِ زمین‌بوسیِ قدم گردد
(غالب دهلوی)
رسیده‌ایم: (از مصدرِ رسیدن: پہنچنا) ہم پہنچ گئے ہیں۔ کوی: گذرگاہ، گلی۔ جایِ آن باشد: یہ مناسب معلوم ہوتا ہے۔ زمین‌بوسی: (از مصدرِ بوسیدن: چومنا) زمین چومنے کا عمل۔
ہم تیری گلی تک پہنچ گئے ہیں اور یہ وہ مقام ہے کہ جہاں ایک عمر تیری قدم گاہ کو بوسہ دیے جانے کی خاطر صَرف کر دینی چاہیے۔
توضیح: آدابِ محفل میں یہ چیز شامل ہے کہ جب کوئی آدمی کسی محترم و بزرگ شخص کی خدمت میں حاضر ہو تو از روئے احترام یا بنا بر عقیدت اس صاحبِ عظمت شخص کے ساتھ آنکھ ملا کر بات نہ کرے بلکہ اس کے قدموں کی طرف ادب کے ساتھ نگاہ کیے رہے۔ غالب نے بھی یہاں اپنے محبوب کے قدم کی برکت کا ذکر کرتے ہوئے اس امر کا اظہار کیا ہے کہ محبوب کی قدم گاہ وہ مقدس جگہ ہے جسے تمام عمر چومتے ہی رہنا چاہیے تاکہ اس کے فیضان سے سعادتِ جاودانی حاصل ہو سکے۔
(مترجم و شارح: یونس جعفری)
 

حسان خان

لائبریرین
تو نالی از خلهٔ خار و ننگری که سپهر
سرِ حسینِ علی بر سنان بگرداند
(غالب دهلوی)

نالی: (از مصدرِ نالیدن: رونا) تو روتا ہے۔ خله: (حاصلِ مصدر از خلیدن: کھٹکنا، چبھنا) کھٹک، چبھن۔ ننگری (از مصدرِ نگریستن: غور کرنا) تو غور سے نہیں دیکھتا، تو غور نہیں کرتا۔ حسینِ علی: (بہ اضافتِ حرفِ نون) حسین ابنِ علی، حسین فرزندِ علی۔ سنان: برچھی۔ بگرداند: (از مصدرِ گردانیدن: گھمانا) گھماتا ہے۔
تو کانٹے کی کھٹک (چبھن) سے روتا ہے اور (اس واقعے کے بارے میں) غور نہیں کرتا کہ آسمان حضرت علی کے فرزند حضرت امام حسین کے سر کو نیزے کی نوک پر رکھ کر اسے چاروں طرف گھماتا ہے۔
توضیح: حضرت امام حسین نے میدانِ کربلا میں جو مصائب برداشت کیے وہ عام انسان کو درسِ شکیبائی دیتے ہیں۔ یہ دنیا دشتِ کربلا ہے جہاں آسمان ہر وقت انسانوں کو ایذا پہنچاتا رہتا ہے۔ اگر انسان حضرت امام حسین کے درد و الم کو یاد کرے تو اس نتیجے پر پہنچے گا کہ آپ کے درد و کرب کے مقابلے میں اس کے بدن میں خلشِ خار تکلیف کے اعتبار سے کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔
(مترجم و شارح: یونس جعفری)
 

حسان خان

لائبریرین
هزار خسته و رنجور در جهان داری
یکی ز غالبِ رنجورِ خسته‌تن یاد آر
(غالب دهلوی)

هزار: یہاں بمعنیِ لاتعداد استعمال کیا گیا ہے۔ خسته: تھکا ہوا۔ رنجور: بیمار، دائمی مریض۔ خسته و رنجور: ناتواں اور عاجز و لاچار۔ خسته‌تن: ناتواں، جسمانی طور پر لاچار۔
یوں تو دنیا میں ایسے لاتعداد اشخاص موجود ہیں (جو تیرے عشق میں) عاجز و درماندہ ہو کر رہ گئے ہیں۔ انہی میں سے ایک غالب بھی ہے جس کا جسم چُور چُور ہے، تو کبھی اسے بھی یاد کر لیا کر۔
(مترجم و شارح: یونس جعفری)
 

ضیاءالقمر

محفلین
؂"کُن"بپارسی گفتی ساز مدعا کردم
ہم بخویش در تازی گفتہ را مکرر کن

غالبؔ
لغت: "کُن"فارسی مصدر کردن سے فعل امر ہے یعنی "کر"اور عربی کی حالت میں مصدر "کون"سے بھی فعل امر ہے جس کا مطلب ہے "ہو جا"تو نے فارسی زبان میں "کر"کا لفظ ارشاد فرمایا میں نے ساز مدعا یعنی خواہشوں کا ساز و سامان فراہم کر لیا۔
(اوردل میں آرزوؤں کا طوفان بپا کر لیا ان آرزوؤں کو پورا کرنے کی کوئی صورت ہونی چاہیے)اب تو خود ہی عربی (تازی)میں "کن"یعنی ہو جاکا لفظ کہ دے تاکہ ہماری یہ خواہشات پوری ہو سکیں
مقصود یہ ہے کہ االلہ تعالٰی نے انسان کو کائنات کی نعمتوں سےتو نوازا لیکن انسانی خواہشات اتنی زیادہ ہیں کہ اُن کے پورا ہونے کا امکان نہیں سوائے اس کے کہ قدرت خود ہی ان سے تمتع حاصل کرنے کا سامان بھی پیدا کرے۔
(مترجم و شارح :صوفی غلام مصطفیٰ تبسم)
 

حسان خان

لائبریرین
گیرم که به افشاندنِ الماس نیَرزم
مُشتی نمکِ سُوده به زخمِ جگرم ریز
(غالب دهلوی)

گیرم: میں نے مانا، میں نے فرض کیا، میں نے یہ تسلیم کیا۔ افشاندن: برسانا، بکھیرنا۔ الماس: ہیرا۔ نیَرزم: (از مصدرِ ارزیدن: قابلِ قدر ہونا، قیمتی ہونا، گراں بہا ہونا) قیمت نہیں رکھتا، قابل نہیں ہوں میں۔ مُشتی: مٹھی بھر۔ نمکِ سُودہ: (از مصدرِ سُودن: پیسنا) پسا ہوا نمک۔
یہ میں نے مانا کہ میں اس قابل نہیں ہوں کہ مجھ پر ہیرے نثار کیے جائیں۔ (ایسی صورت میں) مٹھی بھر پسا ہوا نمک ہی تُو میرے زخمِ جگر پر چھڑک دے۔
(مترجم و شارح: یونس جعفری)
 
بدم گفتی و خرسندم عفاک الله نکو گفتی
سگم خواندی و خشنودم جزاک الله کرم کردی
(سعدی شیرازی)

تو نے مجھے برا کہا اور میں خوش ہوں۔ خدا تجھے بخشے، تو نے نیک بات کہی۔تو نے مجھے سگ پکارا اور میں خوش ہوں۔جزاک اللہ تو نے کرم کیا۔

بدم گفتی و خرسندم،عفاک اللہ نکو گفتی
جوابِ تلخ می زیبد لبِ لعلِ شکرخا را
(حافظ شیرازی)

تو نے مجھے برا کہا اور میں خوش ہوں۔ خدا تجھے بخشے، تو نے نیک بات کہی۔شَکر چبانے والے لبِ لعل کو جوابِ تلخ ہی زیب دیتا ہے۔
 
خیز تا خاطر بدان ترکِ سمرقندی دهیم
کز نسیمش بوی جوی مولیان آید همی
(حافظ شیرازی)

اُٹھ تاکہ ہم اس تُرکِ سمرقندی کو دل دیدیں جس کی نسیم سے جوئے مولیاں کی خوشبو آرہی ہے۔

یہ رودکی کے درجِ ذیل مشہور شعر پر تضمین ہے:
بوی جوی مولیان آید همی
یادِ یارِ مهربان آید همی
 

ضیاءالقمر

محفلین
شبنمے را طعمہء خورشید کن
خویش را قربانی ایں عید کن
تیرگی نبرد اے تا رخشاں شوی
قطرگی بگزار تا عماں شوی
غالبؔ
اپنی شبنم (وجود)کو آفتاب (ذات حق)میں گم کر دے
اور اپنی ہستی کو اس عید (مشاہدہ جمال)کے موقع پر قُربانی کر
اگر منور ہونا چاہتا ہے تو ظلمت کو دور کر اور اگر سمندر ہونے کی آرزو ہے
تو قطرگی سے دست بردار ہو​
 

سید عاطف علی

لائبریرین
افسوس کہ نامہء جوانی طی شد
ویں تازہ بہار زندگانی دی شد
آں مرغ طرب کہ نام او بود شباب
ہیہات ندانم کہ کی آمدو کی شد۔
خیام
آزاد جوانی تھی سو اب صید ہوئی
سرخی جو بہاروں میں تھی نا پید ہوئی
اڑتی تھی جو کل مرغ چمن کی صورت
افسوس ہمیشہ کے لیے قید ہوئی۔

ترجمانی ۔سید عاطف علی
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
خیز تا خاطر بدان ترکِ سمرقندی دهیم
کز نسیمش بوی جوی مولیان آید همی
(حافظ شیرازی)

اُٹھ تاکہ ہم اس تُرکِ سمرقندی کو دل دیدیں جس کی نسیم سے جوئے مولیاں کی خوشبو آرہی ہے۔

یہ رودکی کے درجِ ذیل مشہور شعر پر تضمین ہے:
بوی جوی مولیان آید همی
یادِ یارِ مهربان آید همی
بعض شارحوں کا خیال ہے کہ یہاں 'تُرکِ سمرقندی' سے امیر تیمور مراد ہے۔ مثلاً دکتر عبدالحسین جلالیان جلالی اپنی شرح میں اِس غزل کے ذیل میں لکھتے ہیں:
تُرکِ سمرقندی: تیمور که تُرک و اهل سمرقند بوده و در اوایل فتوحات خود به هر کجا می‌رسید عرفا و دانشمندان را محترم می‌شمرد و خود مردی فاضل و باهوش بود.
ماخذ
تُرکِ سمرقندی = تیمور، جو تُرک اور اہلِ سمرقند تھا اور جو اپنی فتوحات کے اوائل میں جہاں بھی جاتا تھا عارفوں اور دانشمندوں کو محترم رکھتا تھا اور وہ خود ایک فاضل و باہوش مرد تھا۔

رُودکی کے مذکورہ قصیدے سے ایک اور شعر:
ای بخارا! شاد باش و دیر زی
میر زی تو شادمان آید همی
(رُودکی سمرقندی)

اے بخارا! شاد رہو اور دیر تک جیو۔۔۔ امیر تمہاری جانب شادمان آ رہا ہے۔

اب امیروں کا زمانہ تو ختم ہو گیا ہے، لیکن رُودکی کی دعا 'ای بخارا! شاد باش و دیر زی' ہنوز ہر محبِ بخارا و محبِ تمدنِ فارسی کی زبان پر ہے۔ آمین! ثم آمین!
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
غالبِ سوخته‌جان را چه به گفتار آری
به دیاری که ندانند نظیری ز قتیل
(غالب دهلوی)

سوخته‌جان: (از مصدرِ سوختن) جان جلا، جس کی جان تک جل چکی ہو۔ چه: کیا۔ به گفتار آوردن: (از مصدرِ آوردن) بولنے پر مجبور کرنا، سخن سرائی کے لیے آمادہ کرنا۔ به دیاری که: اُس شہر میں۔ ندانند: (از مصدرِ دانستن) نہیں جانتے۔ نظیری: میرزا محمد حسین متخلص بہ نظیری (مُتَوَفّیٰ ۱۰۲۱ھ)، فارسی زبان کا مشہور شاعر، اس کا وطن نیشاپور تھا۔ دورِ اکبری میں ہندوستان آیا۔ قتیل: میرزا محمد حسین متخلص بہ قتیل، کھتری ہندو تھے۔ دہلی وطن تھا۔ یہیں مشرف بہ اسلام ہوئے۔ اردو اور فارسی میں شعر کہتے تھے۔ سنہ ۱۲۳۲ھ/۱۸۱۷ء میں غازی الدین حیدر کے دورِ حکومت میں بہ مقامِ لکھنؤ انتقال کیا۔
غالبِ سوختہ جاں کو تُو نے کیوں زبان کھولنے پر مجبور کر دیا ہے بالخصوص اُس شہر میں جہاں لوگ نظیری اور قتیل کے کلام میں تخصیص نہیں کر سکتے۔
توضیح: مغلوں کے حملے سے قبل ایران میں جو شیوۂ شعر گوئی رائج تھا وہ طرزِ عراقی کے نام سے مشہور تھا۔ چنانچہ یہی طرزِ سخن تُرک فاتحین کے ساتھ ہندوستان میں وارد اور یہاں شاعروں میں مقبول ہوا۔ تُرک اگرچہ شعر تو فارسی میں کہتے تھے مگر ان کی مادری زبان تُرکی تھی اسی وجہ سے شعوری یا غیرشعوری طور پر بہت سے تُرکی لفظ اور محاورات فارسی شاعری میں داخل ہو گئے۔ اکبر کے دور سے ایرانیوں اور تورانیوں (تُرک) کے درمیان سیاسی رقابت کے ساتھ ادبی چشمک بھی شروع ہو گئی۔ دونوں مکاتبِ فکر کے درمیان جو فرق تھا اسے وہی شخص محسوس کر سکتا تھا جس نے دونوں مکاتب کا بغور مطالعہ کیا ہو، عام مبتدی فارسی داں اس فرق کو محسوس نہیں کر سکتا۔ ہندوستان کے فارسی گو شاعر کسی ایک مکتبِ فکر کی پیروی اختیار کر لیا کرتے تھے۔ میرزا غالب اگرچہ نسلاً تُرک تھے مگر انہوں نے اصفہانی طرزِ شعر گوئی کی پیروی اختیار کی۔ خان آرزو ماوراءالنہری فارسی طرزِ شعر گوئی کے نقیب و علم بردار تھے۔ دہلی میں عام طور پر تُرکوں کی فارسی کا سکہ جما ہوا تھا۔ لکھنؤ میں اصفہانی اسلوبِ شعر گوئی کو عروج حاصل ہوا۔ قتیل کی پرورش تو دہلی میں ہوئی مگر چونکہ وہ غازی الدین حیدر کے زمانے میں لکھنؤ چلے گئے تھے اسی لیے انہوں نے وہاں اصفہانی مکتبِ فکر کی روش اختیار کرنا چاہی مگر کسی ایک روش پر گامزن نہ رہ سکے۔ کیونکہ ان کا اپنا کوئی خاص اسلوب نہ تھا اس لیے میرزا غالب ان کی شاعری کے قائل نہ تھے۔ اور اسی لیے انہوں نے قتیل کے طرزِ بیان کو کبھی تسلیم نہیں کیا۔
(مترجم و شارح: یونس جعفری)


"تُو نے غالبِ سوختہ جاں کو ایسے دیار میں سخن سرائی پر کیوں مامور کیا ہے، جہاں لوگ نظیری اور قتیل میں فرق نہیں کر سکتے۔"
(مترجم: صوفی غلام مصطفیٰ تبسم)
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
در عشق انبساط به پایان نمی‌رسد
چو گِردباد خاک شو و در هوا برقص
(غالب دهلوی)

لغت: "گِردباد" = بگولا۔
عشق میں خوشیوں کا سلسلہ کہیں ختم نہیں ہوتا۔ بگولے کی طرح خاک ہو جا اور دوشِ ہوا پر رقص کر۔
(مترجم و شارح: صوفی غلام مصطفیٰ تبسم)

اِنبِساط = کھلنا، پھیلنا، خوشی، مسرت، شادمانی۔ پایان: انتہا، انجام۔ به پایان ‌نمی‌رسد: (از مصدرِ رسیدن: پہنچنا) ختم نہیں ہوتا۔ گِردباد: بگولا، گرد و غبار کا بھنور۔ خاک شو: (از مصدرِ شدن: ہونا) خاک ہو جا، گرد و خاک بن جا۔ هوا: فضا۔
عشق و محبت میں مسرت و شادمانی کی کبھی انتہا نہیں ہوتی۔ تُو (بھی) گرد و خاک کا بگولا بن جا اور فضا میں رقص کر۔
(مترجم و شارح: یونس جعفری)
 

محمد وارث

لائبریرین
نہ ترسم ز آتشِ دوزخ نہ پروائے جناں دارم
منم شوریدۂ جاناں نہ خواہم حور و غلماں را


شیخ شرف الدین پانی پتی (معروف بہ بُو علی قلندر)

نہ میں آتشِ دوزخ سے ڈرتا ہوں اور نہ ہی مجھے جنت کی کوئی پروا ہے، میں (اُس ازلی) محبوب کا عاشق و دیوانہ ہوں (اور اُسی کا وصال چاہتا ہوں) مجھے حور و غلمان کی کوئی خواہش نہیں۔
 
Top