وہ دن دور نہیں ۔۔ نزہت وسیم

ام اویس

محفلین
وہ لسٹ میں تیسرے نمبر پر تھا۔ محترم وزیر اعظم نے اس کی فائل کھولی اور غور سے پڑھنے لگے، اس کے اعزازات اور کامیابیوں کی تفصیل پڑھ کر ان کی آنکھیں چمکنے لگیں، وہ زیر لب بولے: “آزمانے میں کیا حرج ہے۔”
۔۔۔۔۔۔
آسیہ نے پانچ سالہ ننھے معصوم بچے کو سینے سے لگاتے ہوئے کہا: “احمد میرے لختِ جگر! میری ساری امیدیں تم سے ہیں، خوب محنت کرنا، کبھی ہمت نہ ہارنا اور کبھی اپنا مقصد نہ بھولنا، میری دعائیں تمہارے ساتھ ہیں۔”
اور اسے اپنے بھائی کے ساتھ رخصت کر دیا۔
۔۔۔۔۔
ماموں نے کبھی اسے مقصد سے ہٹنے نہیں دیا، اپنی جوانی کے سنہرے سال اپنی بہن کے خواب کو مجسم کرنے میں لگا دئیے۔ درحقیقت یہ صرف اس کی بہن کا خواب نہیں بلکہ اس کا اور اس کے آباء و اجداد کا خواب تھا،جس کی تکمیل کے لیے وہ دن رات محنت کر رہے تھے۔
۔۔۔۔۔
وہ جب وزارتِ عظمی کی کرسی پر بیٹھا تو ملکی حالات سخت انتشار کا شکار تھے۔ ہر طرف کرپشن، اقربا پروری، رشوت، بے ایمانی، جھوٹ اور لاقانونیت کا راج تھا۔ وسائل پر قبضے کی خواہش نے اشیاء کی مصنوعی قلت و بحران پیدا کرنے کا ہنر سیکھ لیا تھا۔ تباہ ہوتی معیشت اور مہنگائی نے عوام کو موت کے منہ میں پہنچا دیاتھا۔ سیاست دان ذاتی مفاد کے لیے ہر ادارے کا ستیا ناس کر چکے تھے، یوں محسوس ہوتا تھا کہ اب سدھرنا ناممکن ہے۔
وزیر اعظم بننے کے بعد اس نے کچھ دن حالات کا بغور جائزہ لیا، پھر احکام جاری کر دئیے۔ سود کا مکمل طور پر خاتمہ کر دیا جائے۔ تمام عدالتیں مکمل طور پر ختم کر دی جائیں، قاضی موقع پر فیصلہ کریں، جس پر کرپشن ثابت ہو جائے اسے سرعام پھانسی پر لٹکا دیا جائے، جو سفارش کے لیے آئے اس کا بھی کھاتہ کھول دیا جائے، چوروں کے ہاتھ کاٹ دئیے جائیں ، راشی افسروں کو سرعام کوڑے لگائے جائیں۔ ملاوٹ کرنے والوں کی دکانیں سیل کرکے مال ضائع کر دیا جائے۔ بغیر کسی ثبوت کے جھوٹی باتیں پھیلانے والوں کے منہ سی دئیے جائیں۔ بے حیائی کے تمام ذرائع بند کر دئیے جائیں۔ پورے ملک میں تھرتھلی مچ گئی، ہر طرف ہنگامہ برپا تھا۔ چند بڑے سیاست دانوں کو پھانسی پر لٹکایا گیا، سفارشی فون بند کرکے، گھروں میں بیٹھ گئے،عوام راشیوں کو کوڑے لگتے دیکھ کر وزیرِ اعظم زندہ باد کے نعرے لگانے لگی۔ ملاوٹ شدہ مال سے کوڑا گھر بھر گئے، میڈیا سے سب اینکر اور اداکار منہ لپیٹ کر غائب ہوگئے۔
چند ایماندار اور محب وطن وزراء کے علاوہ سب مشیروں کو فارغ کر دیا گیا، جنہوں نے وزیراعظم پر اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے ہر حال میں ایماندار رہنے کا حلف اٹھایا۔ اس سب کے پیچھے یقینا اس ادارے کی سپریم کمانڈ تھی جس نے ایک مقصد کی خاطر حاصل کیے گئے وطن کو آخر کار اس کی اصل منزل تک لے جانے کا عزم کر لیا تھا۔ لیکن اس کے سربراہ کی ریٹائرمنٹ کا وقت آ چکا تھا۔ نئے سپہ سالار کے انتخاب کے لیے وزیر اعظم کے پاس چار افراد کے نام اور ان کی فائلیں بھیج دی گئیں۔ وہ لسٹ میں تیسرے نمبر پر تھا۔ محترم وزیر اعظم نے اس کی فائل کھولی اور غور سے پڑھنے لگے، اس کے اعزازات اور کامیابیوں کی تفصیل پڑھ کر ان کی آنکھیں چمکنے لگیں، وہ زیر لب بولے: “آزمانے میں کیا حرج ہے۔”
یوں دو کو چھوڑ کر اس کا انتخاب ہوا۔
۔۔۔۔۔
حلف اٹھاتے ہی احمد نے فوج کو تیاری کا حکم دے دیا، بھارت سرکار کو گڑبڑ کا احساس ہوا تو وہ چیخ اٹھی اور ملکی و غیر ملکی ہر سطح پر دھمکیاں دینی شروع کر دیں۔ چیف مارشل احمد بن قاسم نے انہیں واشگاف الفاظ میں ایک ہفتے کے اندر کشمیر سے اپنی افواج واپس بلانے کا الٹی میٹم دے دیا۔ بری فوج کو فورا سرحدوں پر پہنچا دیا گیا، بحری فوج کو الرٹ کرنے کے ساتھ پاکستان ائیر فورس کو کھلم کھلا حکم دے دیا کہ ہندوستان کی تمام اہم تنصیبات کو نشانے پر رکھ لیا جائے۔ اعلان کر دیا گیا کہ اگر ایٹم بم استعمال کرنے کی نوبت آئی تو اس سے بھی گریز نہیں کیا جائے گا۔ عوام میں جوش وخروش دوڑ گیا، رضاکاروں کے جھنڈ کے جھنڈ ہر قسم کے معاملات کو سنبھالنے میں دن رات مصروف ہوگئے۔ پوری دنیا کی نظریں پاکستان پر جمی تھیں،عالمی راہنماؤں نے جنگ کے خوفناک انجام سے ڈرایا۔ امریکہ کے صدر نے وزیراعظم سے ہاٹ لائن پر بات کرنا چاہی مگر انہوں نے انکار کر دیا۔ اقوام متحدہ کی طرف سے اقتصادی پابندیاں لگانے کی دھمکیاں دی گئیں انہیں بھی خاطر میں نہ لایا گیا۔ لوگوں نے اپنی ضروریات کو محدود کردیا، عورتوں نے اپنے زیورات فوجی فنڈ میں جمع کروانے شروع کر دئیے۔ عوام دل و جان سے وزیر اعظم اور سپاہ سالار کے ساتھ کھڑی تھی۔ عوام کا ایک ہی نعرہ تھا ہم بھوک برداشت کریں گے، ہر تکلیف سہہ لیں گے لیکن اس مشن سے نہیں ہٹیں گے۔ کشمیر ہماری شاہ رگ ہے، ہم کشمیر کے ساتھ ہیں، کشمیر کو آزاد کرو۔
آخر کشمیر کے محاذ پر دنیا کی سب سے بڑی جنگ کا آغاز ہو گیا۔ جدید پاکستانی ٹینک، میزائل ، توپیں اور ڈرونز کے حملوں کو ہندوستانی فوج روک نہ سکی اور ڈھیر ہو گئی۔ بے مثال جراءت اور بہترین حکمتِ عملی سے دنیا کی نمبر ون کہلانے والی پاکستانی فوج نے میدان مار لیا اور اپنی شہہ رگ کو بزدل دشمن کے منہ سے نکال لیا۔بھارتی فوج کشمیر چھوڑ کر بھاگ نکلی، بے شمار بھگوڑوں کو قیدی بنا لیا گیا۔ ہر طرف نعرہ تکبیر کی گونج تھی، کشمیر کے لٹے پٹے، فاقہ زدہ لوگ روتے ہوئے گھروں سے نکل آئے۔ سر زمین کشمیر الله اکبر، پاکستان زندہ باد، پاک فوج زندہ باد کے نعروں سے گونج اٹھی۔
احمد نے خود وزیر اعظم کو فتح کی خبر دی، جسے سنتے ہی وہ سجدہ شکر بجا لائے۔ اگلے دن احمد اپنی ماں، بڑے بھائی اور ہزاروں شہیدوں کی قبر وں پر سبز پرچم لہرا رہا تھا۔ قبرستان میں گارڈ آف آنر پیش کیا جا رہا تھا۔ اچانک کسی نے زور سے نعرہ تکبیر کہا اور سارا میدان الله اکبر کی صدا سے گونج اٹھا۔
نئے افق کے سالگرہ نمبر ، کشمیر کہانی نمبر ، قلم پارے میں چھپنے والی میری تحریر ۔۔۔
میرا خواب (تحریر بھی اور اشاعت بھی)
 

ام اویس

محفلین
8-F8-AB406-43-A6-47-AC-8027-72-C42-DCC6492.jpg
C05-A67-DC-3-A62-42-E1-9645-795344-CCB4-A4.jpg
 
Top