علم الصرف وعلم النحو سے متعلق کچھ معلومات×××

ام اویس

محفلین
*مفعول کی کچھ اقسام

*مفعول مطلق*

مفعول مطلق مصدر ہوتا ہے ۔ وہ مصدر جو مفعول ہو اور اس سے پہلے اسی مصدر سے فعل آیا ہو ۔

مثال ۔۔۔ لَعِبَ حسنٌ لَعْباً

حسن کھیل کھلتا ہے ۔

غور کرو ۔۔لعبٌ مصدر ہے ۔ لَعِبَ ۔۔۔ فعل ماضی ۔۔۔ فعل ۔۔۔ حسن ۔۔۔ فاعل ۔۔۔ اور

لَعْبًا ۔۔۔۔ اسی مصدر سے مفعول آ رہا ہے

مفعول مطلق کا استعمال تین طرح سے ہوتا ہے ۔

ایک ۔۔۔ فعل کی تاکید کرنے کے لئے ۔۔۔ یَشْرِبُ الطِّفْلَ اللَّبَنَ شُرباً ۔۔۔ بچے نے واقعی دودہ پیا

ضَرَبَ الْخادِمُ العَقْرَبَ ضَرْبَۃً۔ ۔۔۔ خادم نے بچھو کو مار ڈالا

دو ۔۔۔ فعل کس قسم کا ہے یہ بیان کرنے کے لئے ۔۔۔۔ مَشٰی الطِّفْلُ مِشْیَۃ الْوَالد ۔۔۔ یعنی نوعیت بیان کر رہا ہے ۔۔۔ بچہ باپ کی طرح چلا ۔ اور

جَلَسْتُ جَلْسَۃَ القَارِی ۔۔۔ میں پڑھنے والے کی طرح بیٹھا ۔۔۔ جلستُ ۔۔۔ فعل ۔۔فاعل اور جَلْسہ۔۔ مفعول مطلق

تین ۔۔۔ تعداد بیان کرنے کے لئے ۔۔۔ تَدُورُ الْاَرْضُ دَوْرَۃً فِی الْیَوْم ۔۔۔ زمین ایک دن میں کئی چکر لگاتی ہے ۔

ضربْتُ الْفاطمہ ضربۃً ۔۔۔ میں نے فاطمہ کو ایک چپیڑ لگائی

قاعدہ اس کا یہ ہے کہ قسم یا نوعیت بیان کرنے کے لئے " فِعْلَۃً " کے وزن پر ۔۔۔ اور ۔۔۔ تعداد بیان کرنے کے لئے " فَعلَۃً " کے وزن پر مصدر بنایا جاتا ہے

سمجھ میں آیا ۔۔۔ خوب سمجھ لو

*مفعول لہ*

مفعول لہ ۔۔ وہ مفعول ہے جو کام کرنے کی وجہ بتائے ۔ مفعول لہ کا معنی بنتا ہے " اس کے لئے " یا " اس کی وجہ سے " ۔ جیسے

عاقِبَ الاستاذُ التلمیذَ تادیباً ۔۔۔ استاد نے ادب سکھانے کے لئے شاگرد کو سزا دی

یہ مفعول بتاتا ہے کہ فعل کس وجہ سے کیا گیا ۔
عَاقبَ ۔۔ فعل ۔۔ الاستاذُ ۔۔۔ فاعل ۔۔۔ التلمیذَ ۔۔۔ مفعول ۔۔۔ تادیبا۔۔۔ مفعول لہ

اور سب مل کر جملہ فعلیہ

اب مفعول مطلق اور مفعول لہ میں فرق یہ ہے کہ دونوں مصدر ہوتے ہیں ۔۔۔مفعول مطلق اپنے فعل کا مصدر ہوتا ہے یعنی فعل اور مفعول ایک ہی مصدر سے آتے ہیں ۔

اور مفعول لہ اپنے فعل کے مصدر سے مختلف مصدر ہوتا ہے ۔

ضربتُ ضرباً ۔۔۔ اور

قُمْتُ احتراماً ۔۔

قاعدہ اس کا یہ ہے "مفعول لہ " ۔ وہ مصدر منصوب ہے جو کام کے کرنے کی وجہ بتائے

مفعول مطلق ۔۔۔۔ تاکید ، کیفیت یا تعداد بتاتا ہے ۔ اور مفعول لہ وجہ یا سبب بتاتا ہے ۔

کچھ سمجھ آئی ۔۔ یا پہلی بھی گئی

*مفعول فیہ*

سمجھ لو کہ ۔۔۔" فیہ "۔۔ قواعد میں جہاں بھی ہو گا ظرف کا معنی دے گا ۔ یعنی اس میں یا تو " وقت " کا ذکر ہو گا یا پھر " جگہ" کا ۔ اور جیسا کہ معلوم ہے ظرف کی دو قسمیں ہیں

ظرف زماں اور ظرف مکاں

اب ۔۔ مفعول فیہ ۔۔ وہ مفعول منصوب ہے جس سے کام ہونے کے وقت یا جگہ کا پتہ چل سکے ۔

جیسے ۔۔ مَکَثْتُ فی لاھور شھراً ۔۔ میں لاھور میں ایک مہینہ ٹھری ۔

یعنی مدت معلوم ہوئی

شرِبَ المریضُ الدواء مَسَاءً ۔ ۔۔۔ مریض نے شام کو دوا پی ۔

شرب ۔۔ فعل ۔۔۔ المریض ۔۔۔ فاعل ۔۔ دوا ۔۔۔ مفعول ۔۔۔ اور مساء ۔۔ مفعول فیہ

یہ تو ہوئی ظرف زماں کی مثال

اور ظرف مکاں میں جگہ کے بارے میں علم ہوتا ہے ۔

جَرَیٰ عَلِیُّ مِیْلاً ۔۔ علی ایک میل دوڑا

مَشَیْتُ اَمْسِ فَرْسَخاً

میں شام کو ایک فرسخ چلی ۔

۔ (ایک میڑ چلی ایل ڈی کی طرف ) ۔

سمجھے یا نہ سمجھے ۔

*مفعول معہ*

مفعول معہ ۔۔ اس مفعول منصوب کو کہتے ہیں جو "واو معیت

" with

کے بعد فعل کے معمول کا ساتھی یا شریک بن کر آتا ہے ۔ مثال سے سمجھو

سِرْتُ والنّھر

میں نہر کے ساتھ چلی ۔

اور

سَافَر النَّاسُ و الظَّلاَ مَ

لوگوں نے تاریکی کے ساتھ ساتھ سفر کیا ۔

ہر جملے میں پہلے ایک فعل اپنے معمول کے ساتھ آیا ہے ۔ اس کے بعد "واو" ہے جو مع کے معنی میں ہے ۔ اس کے بعد ایک اسم آیا جو " منصوب " ہے یہ اسم فعل کا معمول نہیں بلکہ ساتھی بن کر آیا ہے ۔

ترکیب دیکھو ۔۔۔

سِرْتُ وَ النَّھْرَ

سِرْتُ ۔۔۔ سار ۔۔ فعل اور اس میں ۔۔۔ "تُ" ضمیر متصل فاعل ہے ۔ اس کے بعد مع کے معنی میں "و" اور "و" کے بعد النھرَ اسم ۔۔ منصوب آیا ہے ۔ جو فعل کے معمول یعنی ضمیر واحد متکلم "تُ" کے ساتھ چلنے میں شریک ہے ۔

مطلب یہ ہوگا ۔۔۔ میں ندی کے ساتھ ساتھ چلی ۔۔۔ یعنی چلنے کے دوران ندی میرے ساتھ ساتھ رہی ۔

اسی طرح ۔۔

سَافَرَ النَّاسُ وَ الظَّلامَ

سافر ۔۔۔ فعل ۔۔۔ النّاس ۔۔۔ فاعل اس کا معمول ہے ۔۔۔ واؤ مع کے معنی میں اور اس کے بعد " الظّلام" منصوب ہو کر آیا ہے ۔ جو فعل کے معمول یعنی " النّاس " کا سفر کے دوران شریک رہا ۔۔۔ مطلب یہ ہوا کہ ۔۔۔ لوگوں نے تاریکی کے ساتھ ساتھ سفر کیا ۔۔۔ یعنی لوگوں کے سفر کے دوران تاریکی بھی ساتھ رہی ۔

خوب دھیان سے سمجھ لو ۔

مفعول کی حالت نصبی ۔۔۔ یعنی ۔۔ زبر والی ہوتی ہے

علم النحو ۔۔۔ میں

بعض اوقات کلمہ پر " زبر " نظر نہیں آتی لیکن اس کی حالت نصبی ہوتی ہے ۔۔۔
 

ام اویس

محفلین
علم الصرف ۔۔۔ تعلیلات ۔۔۔ ۱

صحیح ۔ یعنی ۔ ضرب ۔ فعل ۔ نصر ۔ جس میں تینوں حروف اصلی ہوں

حرف علت کہتے ہیں الف ۔ واؤ اور یا کو ۔۔۔ جیسے انگلش میں وول حروف ہوتے ۔ اصلی حروف میں تو کوئی مسئلہ نہیں ہوتا ۔ اصل مسئلہ الف۔ واؤ ۔ اور یا میں ہوتا ہے انہیں حروف علت یا ویک ورڈز کہتے ہیں ۔ کیونکہ یہ حرکت کی وجہ سے یا آواز کی وجہ سے یا عامل کی وجہ سے بدل جاتے ہیں ۔

جب الف کے اوپر کوئی حرکت یعنی زیر ۔ زبر یا پیش ہو تو اسے ہمزہ کہتے ہیں ۔ اور مھموز کا مطلب ہمزہ والا لفظ ہوا ۔

اسم مفعول پڑھا ہے نا ۔۔۔ مَھْمُوْزٌ ۔۔۔ بروزن ۔۔۔ مَفْعُوْلٌ ۔۔۔ ہمزہ دیا گیا ۔

دماغ استعمال کر لیا کرو ۔۔۔

اب کیونکہ ہم تھری ورڈز ( ف ۔ ع ۔ ل ) ۔ پڑھ رہے ہیں ۔ تو اس کی تین شکلیں ہوں گی ۔ اگر سب سے پہلا لفظ ہمزہ ہو تو اسے مہموز الفاء کہیں گے ۔

دوسرا لفظ ہمزہ ہو تو مہموز العین ۔۔۔ اور تیسرا لفظ ہمزہ ہو تو مہموز اللام ۔ سمجھے ؟

مثالیں دیکھ لو ۔ اور اچھی طرح یاد کر لو ۔
86-CCAC43-147-D-409-D-A857-76-CF5405-DFC1.jpg
 

ام اویس

محفلین
علم الصرف ۔۔۔ تعلیلات ۔۔۔ ۲

اب شروع ہوتی ہے واؤ اور یا کی بحث ۔۔۔ جب تین حروف اصلی میں سے کوئی حرف" واؤ یا۔ "ی۔ ہو ۔ تو یہ دو قسم پر ہو گا ۔ یا تو حرف ویک یا علت ۔۔۔ ایک ہو گا یا پھر دو ہوں گے یعنی ڈبل آرہے ہوں گے ۔ جب ایک ہو ۔ یعنی تین اصلی حروف میں سے ایک و" یا ی"۔ ہو تو اس کی تین صورتیں ہوں گی ۔

معتل فاء ۔۔۔۔ جس کا پہلا کلمہ "و ۔۔۔ یا ۔۔ ی" ہو ۔۔۔ اس کو مثال کہیں گے ۔

معتل عین ۔۔۔ جس کا دوسرا کلمہ و" ۔۔۔ یا ۔۔۔ ی" ہو ۔۔ اس کو اجوف کہیں گے

معتل لام ۔۔۔ جس کا تیسرا کلمہ و" ۔۔۔ یا ۔۔۔ ی" ہو ۔۔۔ اس کو ناقص کہیں گے

اب ایک اور بات جانو ۔۔۔

اجوف جوف سے ہے ۔ جس کا مطلب پیٹ ۔۔۔ درمیان ۔۔

اگر حرف ویک علت " واؤ ہو تو واوی کہیں گے ۔ یعنی ۔۔ مثال واوی ۔ اجوف واوی ۔ ناقص واوی

اگر ی" ہو تو یائی کہیں گے ۔۔۔ یعنی ۔ مثال یائی ۔ اجوف یائی ۔۔۔ ناقص یائی ۔

تو یہ کُل ملا کے ہو گئیں چھ قسمیں ۔ مثالیں دیکھ کر خوب سمجھ لو

BFCBD929-BEC7-4871-8-C6-D-581-F3-CCD05-AA.jpg
 

ام اویس

محفلین
تعلیلات ۔۔۔ ۳

لفیف ۔۔

جس کلمہ میں دو حروف علت ( ویک ورڈز ) ہوں اسے لفیف کہتے ہیں ۔ لفیف کی دو قسمیں ہیں ۔

لفیف مفروق

لفیف مقرون

27-AC2-ED5-F4-D2-4-E1-A-9-F07-373633-E7-A1-C8.jpg
 

ام اویس

محفلین
تعلیلات ۔۔۔ ۴

*مضاعف*

مضاعف ۔۔۔۔ وہ کلمہ ہے جس میں دو حرفِ اصلی ایک جنس کے ہوں ۔

جیسے

سَرَّ ۔۔۔۔ سَرْرَ

یعنی ع" کلمہ بھی "ر اور ل" کلمہ بھی "ر

سَبَبٌ ۔۔

مضاعف کی دو قسمیں ہیں ۔

مضاعف ثلاثی ۔۔۔

Three words

جس میں "ع اور " ل ایک جنس ہوں ۔

Same

مضاعف رباعی

Four words

جس میں فا کلمہ اور پہلا لام " اور عین کلمہ اور دوسرا لام " ایک جنس ہوں ۔

جیسے

مَضْمَضَ ۔۔۔۔ حَصْحَصَ


فَعْلَلَ

کے وزن پر مضاعف رباعی ہیں ۔

00671381-0723-4-D2-E-96-E4-6-A82601-CB48-C.jpg
 

ام اویس

محفلین
*حروف ِ علّت* weak words

حروف علت تین ہیں ۔ "واؤ۔ ۔۔۔ " الف ۔۔۔ " یا اور ان کا مجموعہ " وای" ہے ۔

بالکل ایسے جیسے انگلش میں واول حروف ہوتے ہیں ۔ ۔۔۔ یہ تینوں حروف پیش ، زبر اور زیر کو کھینچنے سے پیدا ہوتے ہیں ۔

ضمہ یعنی پیش کو کھینچنے سے "واؤ ۔۔۔

فتحہ ۔۔۔ یعنی زبر کو کھینچنے سے " الف۔ ۔۔۔

اور کسرہ ۔۔ یعنی زیر کو کھینچنے سے " یا ۔

اس لئے واؤ کو۔ " اُخت ضمہ ( پیش کی بہن ) ۔ " الف کو " اُخت فتحہ اور " یا کو " اُخت کسرہ کہتے ہیں ۔

عربی زبان میں حروف علت کو ثقیل کہتے ہیں ۔ یعنی بوجھل ۔۔۔ بھاری ۔۔ مشکل

جیسے ۔ ۔۔۔ اَقْوُلْ ۔۔۔ کہنا مشکل اور ۔۔ قُل" کہنا آسان ہے ۔

اسی لئے کبھی حرفِ علت کو گرا دیتے ہیں ۔ کبھی بدلتے ہیں اور کبھی ساکن کر دیتے ہیں ۔

سب سے بوجھل اور ثقیل ۔۔ " واؤ ہے ۔ اس کے بعد " ی اور اس کے بعد " الف

الف اور ہمزہ میں فرق ۔۔۔ یہ ہے کہ الف بالکل ساکن ہوتا ہے اس کے پڑھنے میں زبان کو جھٹکا نہیں دینا پڑتا ۔ بلکہ آرام سے ادا ہو جاتا ہے ۔ اور اس پر کوئی حرکت نہیں ہوتی ۔

اور جو الف کی صورت میں متحرک ہو ۔۔۔ یا ساکن ہو اور زبان کو جھٹکا دے کر پڑھا جا رہا ہو اسے " ہمزہ۔ کہتے ہیں ۔

جیسے ۔۔۔ اَمَرَ ۔۔۔ سَأَلَ ۔۔۔ رأْسٌ

حروفِ علت جب ساکن ہوں اور ان سے پہلے حرف پر حرکت ان کے موافق ہو تو " مدّہ کہلاتا ہے ۔

جیسے یَقُوْلُ ۔۔۔ یَبِیْعُ

مدّہ کو لمبا کرکے پڑھتے ہیں ۔ مد کے معنی کھینچنے اور لمبا کرنے کے ہیں ۔

اور جب پہلے حرف کی حرکت زبر ہو تو "لین کہلائے گا

جیسے ۔۔۔ قَوْلٌ ۔۔۔ بَیْعٌ

لین کو نرمی سے پڑھتے ہیں ۔ کیونکہ لین کے معنی نرمی کے ہیں ۔ اور یہ حروف سکون کی حالت میں نرمی سے ادا ہو جاتے ہیں

اور جب حرفِ علت شروع میں ہو تو نہ مدّہ "ہوتا ہے نہ لین " ۔

جیسے۔۔۔ وَعَدَ ۔۔۔ یَسَرَ

خوب سمجھ لو ۔۔۔ اور دماغ میں بٹھا لو

47-B0-D523-A30-A-42-CA-BDE2-E4-B1-F57-B7-F49.jpg
 

ام اویس

محفلین
علم النحو

*آخری حرف کی تبدیلی کے اعتبار سے کلمہ کی اقسام*

آخری حرف کی تبدیلی کے اعتبار سے کلمہ کی دو قسمیں ہیں

*معرب*

*مبنی*

معرب وہ کلمہ ہے جس کے آخری حرف کا اعراب ہمیشہ بدلتا رہتا ہے

معرب کے لغوی معنی ہیں، اظہار کی جگہ

اور اصطلاح میں معرب وہ کلمہ ہے جس کا آخری حرف ہمیشہ بدلتا رہتا ہو۔

پس جس وجہ سے یہ تبدیلی ہوتی ہے اس کو عامل کہتے ہیں

اور جو چیز آخری حرف پر بدلتی ہے اس کو اعراب کہتے ہیں۔

جیسے ۔۔۔ جَاءَ زَیدٌ

ضَرَبَ عمروٌ زَیْداً

مَرَرْتُ بِزَیْدٍ

زید " اس مثال میں معرب ہے، جاء عامل ہے


دو پیش، دو زبر اور دو زیر وغیرہ اعراب ہیں۔

اور دال محل اعراب ہے یعنی وہ جگہ جہاں اعراب واقع ہو رہے ہیں اور یہ کلمہ کا آخری حرف ہوتا ہے۔

*اعراب*

اعراب کی دو قسمیں ہیں

حرکتی 1️⃣

زبر ۔۔۔ فتحہ

زیر ۔۔۔ کسرہ

پیش ۔۔۔ ضمہ

سکون یا جزم

حرفی 2️⃣

واؤ ۔۔۔ الف ۔۔۔ یا

قاعدہ

کُلُّ فَاعِلٌ مَرْفُوْعٌ

کُلُّ مَفْعُوْلٌ مَنْصُوْبٌ

کُلُّ مُضَاف اِلَیْہِ مَجْرُوْرٌ

کُلُّ جَارٍ مَّجْرُوْرٌ

28-EFA1-B6-8-FE9-49-C0-87-FB-810669238-EE5.jpg
 

ام اویس

محفلین
مبنی

مبنی کے لغوی معنی ہیں ۔۔

اپنی بنیاد پر قائم

بنائ کیا ہوا۔

اور اصطلا ح میں مبنی وہ کلمہ ہے جو ہمیشہ ایک حال پر رہتا ہے۔ یعنی عامل کے بدلنے سے اس کی آخری حرکت میں کچھ تبدیلی نہیں ہوتی۔

جیسے ’’جاءَ ھٰذا، را،ٰیتُ ھٰذا، اور مررت ُبھٰذا ‘‘

ان مثالوں میں ھٰذا مبنی ہے اور ہر حالت میں ِ یکساں ہے۔
58-C08-F1-D-1-BFB-4-EA7-AE8-D-0-A7-CAF548-F36.jpg
 

ام اویس

محفلین
*مَنصوبات*

منصوبات کا لغوی معنی ہے ۔۔۔ نصب دئیے گئے

صرف میں ۔۔۔ مَنْصُوْبَاتٌ ۔۔۔ صیغہ جمع مؤنث اسم مفعول ہے

یعنی مطلب اس کا یہ ہوا کہ زبر " دئیے گئے

منصوبات کُل بارہ ہیں ۔

مفعول بہ ۔۔۔

مفعول مطلق ۔۔۔

مفعول لہ ۔۔۔

مفعول معہ ۔۔۔

مفعول فیہ ۔۔۔

حال ۔۔۔

تمیز ۔۔۔

اِنَّ وغیرہ کا اسم ۔۔۔

ما" و لا" کی خبر ۔۔۔

لا نفی جنس " کا اسم ۔۔۔

کان " وغیرہ کی خبر ۔۔۔

مُستثنٰی ۔۔۔۔
EA8150-CA-0542-4044-A70-A-86127-A0-E530-F.jpg
 

ام اویس

محفلین
*مفعول بہ*

وہ اسم جس پر فاعل کا فعل واقع ہو اسے مفعول بہ کہتے ہیں ۔

جیسے

اَکَلَ زَیدٌ طَعَامًا

اَکَلَ ۔۔۔ فعل

زَیْدٌ ۔۔۔ فاعل

طَعَاماً ۔۔۔ مفعول

فعل ۔۔ فاعل اور مفعول مل کر جملہ فعلیہ خبریہ بنے ۔

مفعول بہ ۔۔۔ کا فعل کچھ حالتوں میں حذف ہوتا ہے ۔۔ یعنی موجود نہیں ہوتا

۔ 1️⃣۔۔۔۔۔ خوشی کے موقع پر ۔۔۔ جیسے

اَھْلاً وَّ سَھْلاً

اصل میں تھا

اَتَیْتَ سَھْلاً وَّ وَطَیْتَ سَھْلاً

آپ اپنوں ہی کے پاس تشریف لائے خوشگوار جگہ آپ پر کوئی مشقت نہیں ۔

اس میں ۔۔ اَتَیْتَ ۔۔۔ اور ۔۔۔ وَطَیْتَ ۔۔ فعل محذوف ہیں

۔ 2️⃣〰۔ ڈرانے کے موقع پر ۔۔۔

اِیّاکَ وَالْاَسَدُ

اصل میں تھا

اِتَّقِ نَفْسَکَ مِنَ الْاَسَدِ

بچا تو اپنے آپ کو شیر

یہاں اِتَّقِ فعل محذوف ہے

۔ 3️⃣کسی کو بلانے کے موقع پر

جیسے

یَا غُلامَ زَیْدٍ

اصل میں تھا

اَدْعُوا غُلامَ زَیْدٍ

میں زید کے غلام کو بلاتا ہوں

یہاں ۔۔۔ اَدْعُوا فعل محذوف ہے

یَا غُلامَ زَیْدٍ

یَا ۔۔۔ حرف ندا ۔۔۔ غُلامُ ۔۔۔ مضاف ۔۔۔ زَیْدٍ ۔۔۔ مضاف الیہ

مضاف اور مضاف الیہ ملکر مرکب اضافی بن کر منادٰی بنے یا" ۔۔۔ حرفِ ندا کے

اور اگر منادٰی مضاف ہو تو منصوب ہوتا ہے

جیسے ۔۔۔ یا عَبْدَ الله ِ ۔۔۔ یَا عَبْدَ الرَّحْمٰنِ

اگر منادٰی مشابہ مضاف ہو تو بھی منصوب منوّن ہوتا ہے

جیسے ۔۔۔ یا قَارِئاً کِتَابًا

اے کتاب کے پڑھنے والے

اگر منادٰی نکرہ غیر معینہ ہو تو وہ بھی منوّن منصوب ہوتا ہے

یَا رَجُلاً خُذْ بِیَدِی

اے آدمی میرا ہاتھ پکڑ

اگر منادٰی مفرد معرفہ ہو تو وہ مرفوع ہوتا ہے

جیسے ۔۔۔ یَا زَیْدُ

یَا مُبَشِّرُ

اگر منادٰی معرّف باللام ہو تو

حرف ندا ۔۔۔ اور منادٰی ۔۔۔ کے درمیان ۔۔ اَیُّھَا ۔۔ اور اَیَّتُھَا سے وصل کرنا لازم ہے ۔

جیسے ۔۔۔ یَاَیُّھَا النَّاسُ ۔۔۔ یَاَیَّتُھَا النَّفْسُ

منادٰی میں ترخیم بھی جائز ہے ۔ یعنی نرمی کے لئے آخری حرف کو گرا دیتے ہیں

جیسے ۔۔ یَا مَالِکُ ۔۔۔ سے ۔۔ یَا مَالُ

یَا مَنْصُوْرُ۔۔۔ یَا مَنْصُ

منادٰی مرخّم میں اصلی حالت بھی جائز ہے ۔ اور ضمہ بھی

یَا مَالُ ۔۔۔ یَا مَالِ

بھی پڑھ سکتے ہیں
 

ام اویس

محفلین
*حرفِ تنکیر اور حرفِ تعریف*

1- عربی میں عموما اسم نکرہ پر تنوین یعنی دو پیش پڑھی جاتی ہے ۔ اس حالت میں اس تنوین کو حرفِ تنکیر ( تنکیر مطلب نکرہ کو معرفہ بنانے والا ) ۔
سمجھا جاتا ہے ۔ اردو میں اس کا ترجمہ کوئی ایک ۔ کچھ ۔ ایک کیا جاتا ہے ۔
جیسے
رَجُلٌ ۔ کوئی ایک مرد یا ایک مرد ۔۔۔ مَآءٌ ۔ کچھ پانی

لیکن ہر جگہ تنوین کا ترجمہ کرنے کی ضرورت نہیں

2- الف لام ۔ عربی کا حرف تنکیر ہے جسے لام تنکیر بھی کہتے ہیں

جیسے انگلش میں لفظ The استعمال ہوتا ہے ۔

لام تعریف کسی اسم نکرہ پر لگایا جائے تو وہ اسم معرفہ بن جاتا ہے ۔ اسے مُعَرَّفْ بِاللَّام بھی کہتے ہیں ۔

جیسے ۔ فَرَسٌ ۔ کوئی گھوڑا ۔ سے اَلْفَرَسُ ۔ مخصوص گھوڑا

3- تنوین والے حرف پر اَلْ لگادیں تو تنوین ہٹا دی جاتی ہے ۔ جیسے ۔ کِتَابٌ ۔ ایک کتاب

سے اَلْکِتَابُ ۔ خاص کتاب

4- معرّف باللّام سے پہلے کوئی لفظ آئے تو اسے اَلْ سے ملا کر پڑھنا چاہئیے ۔

اس وقت اَلْ کا ہمزہ جسے ہمزۃ ُ الوصل کہتے ہیں بولنے میں نہیں آئے گا ۔

جیسے ۔ بَابُ اَلْبَیْتِ پڑھنا غلط ہے ۔ بلکہ بابُ الْبیْتِ پڑھا جائے گا ۔

اسی طرح ۔ اَلرّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ہے ۔

5- اَلْ جب ایسے حرف کے شروع میں لگایا جو حرف شمسی ہو تو

اَلْ کا لام ۔ حرف شمسی میں مُدْغَمْ ہو جاتا ہے ۔ اور لام کے بجائے حرف شمسی ہی کا

تلفظ ہوتا ہے ۔ جیسے ۔ اَلشَّمْسُ ۔۔ الرَّجُلُ

حروف شمسی یہ ہیں ۔ ت۔ث ۔د۔ ذ ۔ ر ۔ز ۔س ۔ ش۔ ص ۔ ض ۔ ط۔ ظ ۔ ن

ان کے علاوہ باقی حروف قمری ہیں ۔ شمسی حروف اَلشَّمْس کی طرح

اور قمری حروف اَلْقَمَرُ کی طرح پڑھے جاتے ہیں ۔
جیسے ۔۔۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم ۔۔۔ میں لام نہیں پڑھا جاتا بلکہ ر" ہی کی آواز آتی ہے ۔
اور ۔ رَبْ ا لْعَا لَمِیْنَ ۔۔ العالمین میں لام کی آواز آتی ہے ۔ ع " قمری حرف ہے ۔

خوب سمجھ لو ۔۔۔
 

ام اویس

محفلین
*تذکیر و تانیث*

جنس کے اعتبار سے اسم دو قسم کا ہوتا ہے ۔

مذکر ۔۔ مؤنث

جیسے ۔۔ اِبْنٌ ۔۔۔ بیٹا ۔۔۔ مذکر

اِبْنَُۃٌ ۔۔ بیٹی ۔۔۔ مؤنث

آؤ تمہیں اسم مؤنث کی پہچان بتائیں

سب سے پہلی پہچان گول ۃ" ہے

اسم مذکر کے آخر میں ۃ " تانیث بڑھانے سے مؤنث بن جاتا ہے ۔ جیسے

حسَنٌ سے حَسَنَۃٌ

مَلِکٌ ۔۔ ( بادشاہ ) ۔۔ سے مَلِکَۃٌ ۔۔ ملکہ وغیرہ

دوسری پہچان الف مقصورہ ہے

چھوٹی ی" کے اوپر کھڑی زبر ہو تو اسے الف مقصورہ کہتے ہیں ۔

جیسے ۔۔۔ حُسْنٰی ۔۔۔ صغْرٰی ۔۔ وغیرہ

تیسری پہچان الف ممدودہ ہے

یعنی مد" اور ھمزہ" والا الف " ۔

جیسے زَھْرَآءُ ۔۔۔ سَوْدَآءُ وغیرہ

پس اسم مؤنث کی تین علامتیں ہوئیں ۔ لیکن رکو ابھی کچھ اور بھی مؤنث ہوتے ہیں

جیسے عورتوں کے نام ۔۔ اگرچہ ان میں ان تینوں علامتوں میں سے کوئی علامت نہ پائی جائے

جیسے ۔۔زینب ۔۔۔ مریم ۔۔ وغیرہ چنانچہ عورتوں کے تمام نام مؤنث ہی ہوں گے کیونکہ عورتیں مؤنث ہوتی ہیں

اب اس کے بعد اُختٌ" کو سمجھو ۔ عربی میں اُخت بہن کو کہتے ہیں

اس لئے جیسا کہ اُردو زبان کا قاعدہ ہو جو لفظ عورت کے لئے استعمال ہو وہ مؤنث ہوتا ہے ۔
اسی طرح عربی کا معاملہ ہے ۔ جیسے ۔۔ اُمٌ ( ماں ) ۔۔ بِنْتٌ ۔۔ ( بیٹی ) ۔

اس کے علاوہ ایک مؤنث سماعی بھی ہوتی ہے ۔اہل زبان یعنی عرب ان کو مؤنث ہی بولتے ہیں

ملکوں کے نام ۔۔۔ الشّام ۔۔ مصر ۔۔ اَلرُّوم وغیرہ
جسم کے ان حصوں کے نام جو دو دو ہیں ۔ جیسے ۔۔ یَدٌ ۔ ( ہاتھ ) ۔ رِجْلٌ ( پاؤں ) ۔ اُذُنٌ ۔ ( کان ) وغیرہ
اس کے علاوہ ۔۔ اَرْضٌ ( زمین ) ۔۔ دارٌ ( گھر ) ۔۔ حَرْبٌ ( لڑائی) شمسٌ ( سورج ) ۔ نَارٌ ( آگ ) وغیرہ

حروف تہجی کے نام ۔۔۔ با، تا ، ثا ،جیم ، حا۔ وغیرہ بھی مؤنث ہیں ۔
فاعل جب اسم مؤنث ہو تو فعل بھی مؤنث آتا ہے ۔
اور فاعل مذکر ہو تو فعل بھی مذکر آتا ہے
بعض اسموں کے آخر میں ۃ" گول ہوتی ہے ۔ لیکن ان کا
استعمال مذکر جیسا ہوتا ہے ۔ اس لئے کہ وہ مَردوں کے لئے بولے جاتے ہیں ۔

جیسے ۔۔ خَلِیفَۃٌ ۔۔ مسلمانوں کے بادشاہ ۔۔۔ عَلّامَۃٌ ۔۔ بہت بڑے عالم وغیرہ

خوب سمجھ لو ۔۔۔
 

ام اویس

محفلین
وحدت و جمع

تعداد ظاہر کرنے کے لحاظ سے عربی میں اسم تین قسم کا ہوتا ہے ۔
واحد ۔۔۔ تَثْنِیَهْ ۔۔۔ جمع

واحد یا مفرد جو ایک چیز کو ظاہر کرے ۔ جیسے

رَجُلٌ ۔۔ ایک آدمی ۔۔۔ کِتَابٌ ۔۔۔ ایک کتاب

تَثْنِیَه ۔۔ جو دو پر دلالت کرے ۔جیسے

رَجُلاَنِ ۔۔ دو آدمی ۔۔۔ کِتَابَانِ ۔۔۔ دو کتابیں

بِنْتٌ ۔۔۔ ایک بیٹی ۔۔۔ بِنْتَانِ ۔۔ دو بیٹیاں

اُردو میں تثنیہ نہیں ہوتی ۔ بلکہ واحد ۔۔ ایک چیز ۔۔۔ اور جمع ۔۔ زیادہ

جبکہ عربی میں دو چیزوں کو تثنیہ کہا جاتا ہے ۔

جو واحد کے آخر میں الف" نون" یا ی" "نون بڑھانے سے بنتا ہے ۔

اور تین یا تین سے زیادہ چیزوں کو جمع کہا جاتا ہے ۔

جیسے ۔۔ رِجَالٌ ۔۔ زیادہ آدمی ۔۔ کتابوُنَ ۔۔ زیادہ کتابیں

فاعل چاہے واحد ہو ۔۔ تثنیہ ہو یا جمع ہو ۔۔ فعل ہمیشہ واحدآئے گا
 

ام اویس

محفلین
*جمع کی اقسام*

عربی میں جمع دو قسم کی ہوتی ہے ۔

جمع سالِم ۔۔۔ جمع مُکَسَّرْ

جمع سالم ۔۔۔ جس میں واحد کی شکل سلامت رہے
اور آخر میں کسی لفظ کا اضافہ ہوجائے ۔
اس کی دو قسمیں ہیں ۔

مذکر ۔۔۔ جس کے آخر میں --ُ ون بڑھائیں ۔ مُسلِمٌ سے مُسْلِمُوْنَ

مؤنث ۔۔۔ جس کے آخر میں --َ ا ت ٌ بڑھائیں ۔ مُسْلِمٌ سے مُسلِمَاتٌ

جمع مُکسَّر ۔۔۔ وہ ہے جس میں واحد کی صورت ٹوٹ جاتی ہے ۔یعنی بدل جاتی ہے

اس کے بنانے کا کوئی قاعدہ مقرر نہیں ۔ کبھی کچھ حرف گھٹا بڑھا دئیے جاتے ہیں

کبھی صرف حرکات و سکنات میں بدلاؤ آتا ہے ۔۔ جیسے

نَھْرٌ سے اَنْھَارٌ ۔۔۔ رَجُلٌ سے رِجَالٌ ۔۔۔وَزِیْرٌ سے وُزْرَآءٌ

کِتَابٌ سے کُتُبٌ ۔۔۔ خَشَبٌ۔ ( لکڑی ) سے خُشُبٌ وغیرہ

بعض مؤنث اسماء کی جمع مذکر سالِم کی طرح بھی آتی ہے ۔

جیسے ۔۔ سَنَةٌ ( سال ) کی جمع سِنُونَ ۔۔۔ یا ۔۔ سَنَوَاتٌ

ایک بات یاد رکھو ۔۔۔ تثنیہ اور جمع مذکر سالم کے آخر میں جو نون " آتا ہے ۔

وہ نون اعرابی کہلاتا ہے ۔

بعض الفاظ کی واحد جمع ایک ہی رہتی ہے ۔ جیسے ۔۔۔ فُلْکٌ ۔۔ کشتی ، کشتیاں

انکا شمار بھی جمع مکسر میں ہوتا ہے ۔

بعض اسماء واحد کی شکل میں ہوتے ہیں لیکن وہ ایک جماعت کے لئے بولے جاتے ہیں ۔
ان کے واحد کے لئے کوئی لفظ نہیں ہوتا ۔اس لئے کہ وہ حقیقت میں جمع نہیں ہیں ۔

ایسے اسم کو اسم جمع کہتے ہیں ۔

جیسے ۔۔۔ قومٌ ( قوم ) ۔ رَھْطٌ ( گروہ یا جماعت ) ۔
عبارت میں ان کا استعمال جمع کی طرح ہوگا ۔
 

ام اویس

محفلین
*مرکبات*

دو یادو سے زیادہ لفظوں کے تعلق کو ترکیب کہتے ہیں ۔اور اس مجموعے کو "مرکب "۔

مرکب دو قسم کا ہوتا ہے ۔
مرکب ناقص ۔۔۔ مرکب تام

*مرکب ناقص*
جس کو سن کر نہ کوئی خبر معلوم ہو نہ کوئی حکم سمجھا جائے اور نہ کوئی خواہش
بلکہ ایک ادھوری ، نامکمل بات ہو ۔ جیسے

صِرَاطُ الْمُسْتَقِیْمُ ۔۔۔ سیدھا راستہ ۔۔۔ کِتَابُ زَیْدٍ۔۔ زید کی کتاب

*مرکب تام*
جس کو سن کر بات سمجھ میں آجائے ۔ یعنی کوئی خبر معلوم ہو یا کوئی حکم ، خواہش وغیرہ ۔

جیسے ۔۔ اَلْحَمْدُ لِلهِ ۔۔۔ تعریف الله کے لئے ہے ۔۔۔ خُذِ الْکِتَابَ ۔۔۔ کتاب لے لو

اِھْدِنَا الصِّرَاطَ ۔۔۔ ہمیں راستہ دکھا ۔

مرکب تام کو جملہ اور کلام بھی کہتے ہیں ۔
 

ام اویس

محفلین
*مرکب توصیفی*

جس مرکب میں دوسرا لفظ پہلے کی صفت یا تعریف بتائے وہ مرکب توصیفی ہے ۔

جیسے ۔۔۔ رَجُلٌ صَالِحٌ ۔۔۔ کوئی ایک نیک مرد

الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ ۔۔۔ سیدھا راستہ

اور آج کے سبق میں ۔۔۔ اُمَّةً مُّسْلِمَةً ۔۔۔ فرمانبردار اُمّت

مرکب توصیفی میں پہلا حصہ اسم ذات اور دوسرا حصہ۔ اسم صفت ہے

رَجُلٌ ۔۔۔ اسم ذات ۔۔۔ اور صالِحٌ ۔۔۔ اسم صفت ہے

مرکب توصیفی میں پہلے جزو کو موصوف اور دوسرے کو صفت کہتے ہیں ۔

موصوف نکرہ ہو تو صفت بھی نکرہ ہو گی ۔ اور موصوف معرفہ ہو تو صفت بھی معرفہ

جیسے ۔۔ الصّراطَ الْمُسْتَقِیْمَ ۔۔ دونوں حصے معرفہ ہیں ۔

جو اعرابی حالت موصوف کی ہو گی وہی صفت کی ہو گی

جیسے ۔۔۔ اُمّةً مُسْلِمَةً ۔۔۔ نصبی حالت ۔۔۔ یعنی زبر والی حالت

مرکب توصیفی اور دوسرے مرکبات ناقصہ ہمیشہ جملے کا حصہ ہوتے ہیں ۔
 

ام اویس

محفلین
*مرکب اضافی*

جس مرکب میں دونوں حصے اسم ہوں ۔
اور پہلا دوسرے کی طرف منسوب ہو اسے مرکب اضافی کہتے ہیں ۔

جیسے ۔۔۔ کِتَابُ زَیْدٍ ۔۔۔ زید کی کتاب ۔۔ عَبْدُ اللهِ ۔۔۔ الله کا بندہ
صِبْغَۃُ الله ِ ۔۔۔ الله کا رنگ

دو اسموں میں اس قسم کی نسبت کا نام اضافت ہے ۔
مرکب اضافی کے پہلے حصے کو مضاف اور دوسرے حصے کو مضاف الیہ کہتے ہیں

مضاف پر نہ تو لام تعریف آتا ہے نہ تنوین

مضاف الیہ پر لام تعریف بھی آتا ہے اور تنوین بھی آ سکتی ہے

اَھْلُ الْبَیْتِ ۔۔۔ گھر کے رہنے والے ۔۔ غُلَامُ زَیْدٍ ۔۔۔ زید کا غلام

مضاف الیہ ہمیشہ مجرور یعنی "زیر والا" ہوتا ہے ۔

مضاف ہمیشہ پہلے اور مضاف الیہ بعد میں آتا ہے ۔

مرکب اضافی بھی مرکب توصیفی کی طرح پورا جملہ نہیں ہوتا ۔
بلکہ جملے کا حصہ ہوتا ہے ۔
بعض اوقات ایک جملے میں کئی مضاف و مضاف الیہ ہوتے ہیں

جیسے ۔۔ بَابُ بَیْتِ الْاَمِیْرِ ۔۔ امیر کے گھر کا دروازہ

لیکن کیونکہ بیچ والے اسم اپنے بعد والے کا مضاف ہوتے ہیں
اس لئے ان پر لام تعریف یا تنوین نہیں لگا سکتے ۔
اسم نکرہ جب معرفہ کی طرف مضاف ہو تو وہ بھی معرفہ ہو جاتا ہے ۔

جیسے ۔۔ عَبْدٌ ۔۔ نکرہ ہے لیکن ۔۔ عبدُ الله ۔۔۔ الله کا بندہ ۔۔۔ میں عبد معرفہ ہو جائے گا

کیونکہ معرفہ کی طرف مضاف ہے ۔

عربی میں مضاف اپنے مضاف الیہ سے پہلے آتا ہے
اور ان دونوں کے درمیان کوئی اور لفظ نہیں آ سکتا
اس لئے مضاف کی صفت مضاف الیہ کے بعد لانا چاہئیے ۔
جیسے ۔۔ غُلامُ الْمَرْأَۃِ الصَّالِحُ ۔۔۔ عورت کا نیک غلام

الصّالِحُ ۔۔ غُلام کی صفت ہے کیونکہ مرفوع ہے اور مذکر ہے ۔
 

ام اویس

محفلین
*مُسْنَدْ اور مُسْنَدْ اِلَیْہ*


. مسند حکم کو کہتے ہیں۔۔

. اور مسند الیہ ۔۔اس چیز کو کہتے ہیں کہ جس کے لئےحکم ثابت کیا جائے


مثلا ۔۔۔ ضَرَبَ زَیْدٌ ۔۔۔ زید نے مارا


اس میں مارا حکم۔۔۔ (مسند) ہے ۔

جسکو زید ۔۔۔ (مسند الیہ) کے لئے ثابت کیا جا رہا ہے ۔


. یہاں یاد رکھنا ہے کہ مسند (حکم) کو چونکہ کسی دوسری چیز (مسند الیہ) کے لئے ثابت کیا جا رہا ہے پس وہ اس وقت تک ثابت نہیں ہو سکتا جب تک مسند الیہ نہ ہو۔

اسکے لئے وائٹ بورڈ اور اسکے سٹینڈ کی مثال لیتے ہیں جیسے وائٹ بورڈ سٹینڈ کے بغیر کھڑا نہیں ہو سکتا البتہ سٹینڈ کو وائٹ بورڈ کے سہارے کی ضرورت نہیں وہ اکیلا بھی کھڑا ہو سکتا ہے ۔

اسی طرح زید (مسند الیہ) تو اکیلا کھڑا ہو سکتا ہے البتہ مارا (مسند) اکیلا کھڑا نہیں ہو سکتا بلکہ اسکو زید کی ضرورت ہے اسی طرح ایک مثال زید نیک ہے میں زید مسند الیہ ہے اور نیک ہونا مسند ہے۔

. اس بحث سے ہمیں علم ہوتا ہے کہ مسند الیہ وہ ہوتا ہے جس کے لئے کسی چیز یا حکم کو ثابت کیا جا رہا ہو تو وہ فعل یا حرف نہیں ہو سکتا بلکہ صرف اسم ہی ہو سکتا ہے

. پس الاسناد (مسند الیہ ہونا) اسم کی خاص علامت ہے ۔

. فعل صرف مسند ہو سکتا ہے ۔

. اور حرف نہ مسند ہوتا ہے نہ مسند الیہ ہوتا ہے بلکہ صرف ربط وغیرہ کے لئے آتا ہے
 

ام اویس

محفلین
*جملہ انشائیہ*
جملہ انشائیہ وہ جملہ ہے جس کے کہنے والے کو سچا یا جھوٹا نہ کہہ سکیں ۔
کیونکہ انشاء کے معنی ایک چیز کا پیدا کرنا
اور جملہ انشائیہ بھی کام کے پیدا کرنے کو بتاتا ہے ۔
سچ یا جھوٹ کا اس میں کوئی دخل نہیں ہوتا

*جملہ انشائیہ کی اقسام*
امر ۔۔۔
جیسے ۔۔۔ اِضْرِبْ ۔۔۔ تو مار
اَقِیْمُوا الصّلٰوۃ۔۔۔ نماز قائم کرو

نہی ۔۔۔
لاَ تُشْرِکْ بِاللهِ ۔۔۔ الله تعالی کے ساتھ شریک نہ ٹہرا

استفہام ۔۔۔ أَاِنَّکَ اَنْتَ یُوْسُفُ ؟ ۔۔۔ کیا تو یوسف ہے ؟

تمنّیٰ ۔۔۔
لَیْتَ الشّبَابَ یَعُوْدُ ۔۔۔ کاش جوانی لوٹ آئے

ترجی ۔۔۔
لَعَلَّ اللهُ یُحْدِثُ بَعْدَ ذٰلِکَ اَمْراً
امید ہے کہ الله تعالی اس کے بعد کوئی بات پیدا کرے

عقود ۔۔۔ یعنی معاملات
بِعْتُ وَ اِشْتَرَیْتُ ۔۔۔ میں نے خرید و فروخت کی
اَنْکَحْتُکَ فُلاَنَۃَ ۔۔۔ میں نے تیرا نکاح فلاں عورت سے کر دیا
قَبِلْتُ ۔۔ میں نے قبول کیا

نداء ۔۔۔
یَا اَللهُ۔۔۔ اے الله
یاَ تَلاَمِذَةُ فُذْتُمْ اِنِ اجْتَحِدْتُّمْ
اے طالب علموا ! تم کامیابی پاؤ گے اگر محنت کرو گے

عرض ۔۔۔
اَلَا تَاْتِیْنِی فَاُعْطِیْکَ دِیْنَاراً ۔۔۔
تو میرے پاس کیوں نہیں آتا میں تجھے اشرفی دوں
تعریف میں ۔۔۔ جیسے
نعم الصديق أنت۔۔۔۔ تو کسقدر سچاہے
مذمت میں ۔۔۔ جیسے
بئس العادة الكذب۔۔۔۔ جھوٹ بری عادت ہے

قسم ۔۔۔
تَاللهِ لَاَکِیْدَنَّ اَصْنَامَ کُمْ
الله کی قسم میں تمہارے بتوں پر داؤ چلاؤں گا

تعجب ۔۔۔
مَااَحْسَنَهُ ۔۔۔ کس نے اس کو حسین کر دیا
اَحْسِنْ بِهِ وہ کس قدر حسین ہے

ما ألطف كلامك ۔۔۔ تمہاری بات کسقدر خوبصورت ہے ۔
قُتِلَ الاِنْسَانُ مَا اَکْفَرَہُ۔۔۔۔ ہلاک ہو انسان کس چیز نے اسے کفر کرنے پر اکسایا

شرط ۔۔۔
اِنْ تَتَعَلَّمْ تَتَقَدَّمْ ۔۔۔ اگر تو سیکھ لے گا تو آگے بڑھ جائے گا

سوال ۔
السلام علیکم
جملہ انشائیہ یعنی ایسا جملہ جس میں سچا یا جھوٹا ہونے کا احتمال نہ ہو...
عقود کی مثال میں بعت و اشتریت کے اندر تو سچ اور جھوٹ ہونے کا احتمال ہونے میں الجھن ہے کہ ہوسکتا ہے کہ خریدنے والا یا فروخت کرنے والا جھوٹ بول رہا ہو ... اس کی وضاحت فرمائیں
جواب
وعلیکم السلام

مراد بعتُ سے یہ ہے کہ میں نے خرید لیا ۔۔۔۔ اور اشتریتُ ۔۔ میں نے خرید لیا ۔ یا بیچ دیا ( خریدنا ، بیچنا دونوں معنی آتے ہیں ) جب کام کر لیا تو اس میں جھوٹ کا احتمال نہیں ۔
 

ام اویس

محفلین
نحو کا لغوی معنٰی ۔۔۔۔

ارادہ ۔۔۔ قصد ۔۔۔ جانب ، طرف ۔۔۔ اعراض ۔۔۔ مقدار ۔۔۔ مانند ، مثل ۔۔۔ کنارہ راستہ

2-DD0-C8-B5-7483-4-FAE-91-E1-C1-D2-ED360-D4-D.jpg
 
Top