ام اویس

محفلین
علم التجوید

تجوید لفظ کا مطلب ہے ۔۔ عمدہ کرنا ، سُتھرا کرنا ، کھرا کرنا ۔

اصطلاح میں اس سے مراد ہے ۔
حروف کو ان کے مخارج مقررہ سے تمام صفاتِ لازمہ اور صفاتِ عارضہ کے ساتھ بغیر کسی تکلّف کے ادا کرنا ۔

※※※※※※※※※※

غرض و غایت

ہر علم کو سیکھنے کی کوئی وجہ ہوتی ہے ۔ علم التجوید سیکھنے سے حروف کو صحیح طور پر ادا کرنا آ جاتا ہے ۔
اصل غرض اور وجہ یہ ہے کہ قرآن مجید پڑھنے کی اس ادا اور تلفظ پر قدرت حاصل کرنا جس طرح رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے سیکھا اور حاصل کیا گیا ۔
اور اس علم کے سیکھنے کا فائدہ یہ ہے کہ کلام الله کو عمدہ طریقہ سے درست درست پڑھنے پر الله کریم کی رضا و خوشنودی حاصل ہوتی ہے ۔

※※※※※※※※※※※
علم التجوید کا موضوع :-

علم التجوید کا موضوع حروفِ ھجائیہ ا۔۔۔ ب۔۔ ت۔۔۔ ث وغیرہ ہیں ۔
حروف ھجائیہ کی تعداد انتیس ہے اور انہی سے پورا قرآن مجید مرتب ہے ۔

※※※※※※※※※※

قرآن مجید الله کریم کی وہ خاص کتاب ہے جس نے گمراہ انسانوں کو سیدھا راستہ دکھایا ۔ اسی کتاب کی بدولت الله تعالی اور اس کے رسول صلی الله علیہ وسلم کا انکار کرنے والے دنیا کے عظیم ترین راہنما بن گئے ۔ آج جب کہ انسانیت پر لا دینیت چھا رہی ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ قرآن مجید کی تعلیمات کو عام کیا جائے ۔ تاکہ لوگ تعلیمات قرآن مجید پر عمل کرکے اچھی اسلامی زندگی گزار سکیں ۔
قرآن مجید کی سمجھ اور شعور پیدا کرنے کے لئے اس کو صحیح طور پر پڑھنا ضروری ہے ۔ اور ظاہر ہے کہ جب ہم اسکو صحیح پڑھ نہیں سکیں گے تو اس کے معانی اور مطالب پر غور کیسے کریں گے ۔ اور جب سمجھ نہیں آئے گی تو عمل کرنے کا تصور ہی پیدا نہیں ہوتا ۔ حاصلِ کلام یہ کہ سب سے پہلے قرآن مجید کا صحیح پڑھنا ضروری ہے ۔ کیونکہ غلط پڑھنے سے معنی اور مطلب بدل جاتے ہیں ۔ جس سے نماز بھی فاسد ہو جاتی ہے ۔
مثال کے طور پر ۔

قُلْ ھُوَ الله ُ اَحَدٌ

کہہ دیجئے کہ الله ایک ہے ۔ اگر " قل " کو " کل " پڑھ دیا تو اس کا مطلب ہے ۔ کھا لو الله ایک ہے ۔( نعوذ بالله ) ۔

※※※※※※※※※
علم التجوید سیکھنے کا حکم

علم التجوید سیکھنا جس سے حروف کی درست ادائیگی ہو ۔ اور قرآن مجید کے معنی نہ بدلیں فرض عین ہے ۔ اور اس سے زیادہ علم قراءت و تجوید فرض کفایہ ہے ۔

پس قرآن مجید کے حروف کا اس حد تک صحیح پڑھنا کہ اس سے حروف میں کمی زیادتی ، تبدیلی اور اعراب کی غلطی پیدا نہ ہو اور قرآن مجید کے معنی نہ بگڑیں ۔ ہر حرف دوسرے سے الگ نمایاں ، مستقل معلوم ہو ہر مسلمان پر فرض عین ہے ۔

مرد ہو خواہ عورت ہو ، عربی ہو یا عجمی ہو ۔ سفید ہو سرخ ہو یا گندمی ۔ نماز کے اندر ہو یا باہر ۔ حفظ پڑھے یا ناظرہ ۔ تھوڑا پڑھے یا زیادہ ۔ جلدی جلدی حدر سے پڑھے یا ٹہراؤ سےیا درمیانہ رفتار سے ۔ مجمع میں پڑھے یا اکیلا ۔ بہر صورت ہر وقت ہر حال میں اس حد تک قرآن مجید کا صحیح پڑھنا ہر عاقل و بالغ کے لئے فرضِ عین ہے ۔ اور غیر صحیح طریقہ پر تلاوت کرنے والا مرتکبِ حرام اور گناہ گار ہے ۔ اور اس کی ضرورت اور فرضیت کا انکار کرنے والا سخت گنہگار ہے ۔

اس سے زیادہ اس علم کے قاعدوں کو یاد کرنا فرضِ کفایہ ہے ۔ کہ اڑتالیس میل کی حد کے اندر ایک ماہر تجوید و فن و عالِم فن قارئ قرآن کا ہونا ضروری ہے ورنہ سب کے سب گنہگار ہوں گے ۔

※※※※※※※※※※※※
 

ام اویس

محفلین
7-BAFA197-BE32-4-F8-A-9-BE6-A2-A974-B95255.jpg
 

عرفان سعید

محفلین
یہ بات تو بدیہی ہے کہ علم التجوید کا جب نام لیا جاتا ہے تو ذہن فورا قرآن مجید کی قرات کی طرف مبذول ہو جاتا ہے۔ عربی زبان قرآن کے نزول سے بھی پہلے موجود ہے اور حروف کو درست مِخارج سے ادا کرنا تب بھی ضروری ہوتا ہو گا۔ تو کیا یہ کہا جا سکتا ہے کہ علم التجوید قرآن کے نزول سے پہلے بھی موجود تھا؟ اس علم کی تاریخ کے بارے کیا آپ کے پاس کچھ معلومات ہیں؟
 

ام اویس

محفلین
یہ بات تو بدیہی ہے کہ علم التجوید کا جب نام لیا جاتا ہے تو ذہن فورا قرآن مجید کی قرات کی طرف مبذول ہو جاتا ہے۔ عربی زبان قرآن کے نزول سے بھی پہلے موجود ہے اور حروف کو درست مِخارج سے ادا کرنا تب بھی ضروری ہوتا ہو گا۔ تو کیا یہ کہا جا سکتا ہے کہ علم التجوید قرآن کے نزول سے پہلے بھی موجود تھا؟ اس علم کی تاریخ کے بارے کیا آپ کے پاس کچھ معلومات ہیں؟
علم التجوید در حقیقت قرآن مجید کو ترتیل سے پڑھنے کا نام ہے اس لیے نزول قرآن سے قبل اس علم کا موجود ہونا ممکن نہیں
فن تجوید قرآنی علوم کے بنیادی علوم میں سے ایک ہے ۔ اس علم کی تدوین کا آغاز دوسری ہجری صدی کے نصف سے ہوا۔جس طرح حدیث وفقہ پر کام کیا گیا اسی طرح قرآن مجید کے درست تلفظ وقراءت کی طرف توجہ کی گئی
 

ام اویس

محفلین
علم التجوید قرآن مجید کو درست طریقے سے پڑھنے کا علم ہے اور اجماع صحابہ ؓ سے ثابت ہے۔اس علم کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ آنحضرت ﷺ خود صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کو وقف و ابتداء کی تعلیم دیتے تھے جیسا کہ حدیث ابن ِعمرؓ سے معلوم ہوتا ہے۔
ابن ِعمرؓ فرماتے ہیں کہ ہم اپنے زمانے میں ایک طویل مدت تک اسی طرح زندگی گزارتے رہے کہ ہم میں سے ہر ایک قرآن حاصل کرنے سے پہلے ہی ایمان لے آتااور نبی ﷺ پر کوئی سورت نازل ہوتی تو ہم سب آپ ﷺسے اس کے حلال وحرام کی تعلیم حاصل کرتے اور ان مقامات کو معلوم کرتے کہ جہاں وقف کرنا چاہیے ۔ جس طرح آج کل تم قرآن کی تعلیم حاصل کرتے ہو ۔بے شک آج ہم بہت سے ایسے لوگوں کو دیکھتے ہیں کہ جو ایمان لانے سے قبل قرآن کی تلاوت کرتے ہیں وہ سورۃالفاتحہ سے سورۃالناس تک قرآن پڑھ لیتے ہیں مگرانہیں اس چیز کا ادراک نہیں ہوتا کہ قرآن کا امر کیا ہے اور زجر کیاہے اور نہ ہی معلوم کرتے ہیں کہ قرآن پڑھتے ہوئے کون کون سے مقامات پروقف کرنا چاہیے ۔
 

ام اویس

محفلین
تجوید کا واجب ہونا

علم التجوید کا سیکھنا واجب ہے ۔ اور اس کا وجوب قرآن مجید ۔ سنت رسول صلی الله علیہ وسلم ۔ اجماع وقیاس ۔ فقہ و اقوال علماء سبھی سے ثابت ہے ۔

قرآن مجید میں الله کریم کا فرمان ہے ۔

الَّذِينَ آتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ يَتْلُونَهُ حَقَّ تِلَاوَتِهِ أُولَئِكَ يُؤْمِنُونَ بِهِ وَمَن يَكْفُرْ بِهِ فَأُولَئِكَ هُمُ الْخَاسِرُونَ

سورہ بقرہ ۔ آیہ ۱۲۱

جن لوگوں کو ہم نے کتاب عنایت کی ہے وہ اس کو ایسا پڑھتے ہیں جیسا اس کے پڑھنے کا حق ہے۔ یہی لوگ اس پر ایمان رکھتے ہیں اور جو اس کو نہیں مانتے وہی خسارہ پانے والے ہیں۔

امام غزالی رحمہ الله فرماتے ہیں ۔ حقِ تلاوت یہ ہے کہ زبان و عقل اور دل تینوں شریک ہوں ۔

پس زبان کا حصہ حروف کی درست اور عمدہ ادائیگی

عقل کا حصہ معنی و مطالب کی تفسیر

اور دل کا حصہ اطاعت اور عمل کی کوشش ہے ۔

فرمان الله جل جلالہ ہے ۔

وَرَتِّلِ الْقُرْآنَ تَرْتِيلًا

مزمل ۔ ۴

اور قرآن کو اچھی طرح ٹھہر ٹھہر کر پڑھا کرو۔

بیضاوی رحمہ الله فرماتے ہیں ۔

اَیْ جَوِّدِ الْقُرْآنَ تَجْوِیْداً

یعنی قرآن مجید کو تجوید کی خوبصورتی کے ساتھ مزین کرنا ۔

اور حضرت علی رضی الله عنہ کا فرمان ہے ۔

اَلتَّرتِیْلُ ھُوَ تَجْوِیْدُ الْحُرُوْفِ وَ مَعْرِفَۃُ الْوُقُوْف

یعنی ترتیل سے پڑھنا نام ہے حروف کو تجوید کے ساتھ ادا کرنا اور وقف و ابتداء کی جگہ اور طریقہ پہچاننے کا ۔

حدیث مبارکہ میں فرمان رسول الله صلی الله علیہ وسلم ہے ۔

حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد نقل فرمایا : قرآن کا ماہر ان ملائکہ کے ساتھ ہوگا جو فرشتوں کے سردارہیں اور جو شخص قرآن شریف کو اٹکتا ہوا پڑھتا ہے اور اس میں دقت اٹھاتا ہے اس کے لئے دوہر ا اجر ہے۔

بخاری ومسلم

حضرت عبیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’قرآن والو!قرآن سے تکیہ نہ لگاؤ اور شب وروز اس کی ویسے تلاوت کرو جیسا کہ تلاوت کرنے کا حق ہے ۔ قرآن کی اشاعت کرو اسے اچھی آواز سے پڑھو ۔ اس کے معانی میں تدبرکرو تا کہ تم فلاح پاجاؤ اور اس کا صلہ (دنیا ہی میں )طلب نہ کرو کیونکہ اس کا (آخر ت میں) عظیم صلہ ملے گا (اور اعمال کا صلہ ملنے کی اصل جگہ تو آخرت ہی ہے


بیھقی فی شعب الایمان


ابن مسعود رضی الله تعالی عنہ ایک شخص کو قرآن مجید پڑھا رہے تھے ۔ اس نے


اِنَّما الصَّدَقَاتُ لِلفُقَرَآءِ کو بغیر مد کے پڑھا ۔ آپ نے فرمایا مجھے تو رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے اس طرح نہیں پڑھایا ۔


ملا علی قاری شرح مقدمہ جزریہ میں فرماتے ہیں ۔ کہ اس میں کسی کو اختلاف نہیں کہ تجوید کے قواعد کا جاننافرض کفایہ ہے ۔ اور ان کے موافق عمل کرنا ہر قراءت و روایت میں فرض عین ہے ۔ اگرچہ خود تلاوت قرآن مجید مسنون و مستحب ہے ۔ نہ کہ فرض و واجب ۔

قرآن مجید لفظ و معنی دونوں کا نام ہے ۔ چنانچہ معنی کی طرح الفاظ کی تصحیح بھی ضروری ہے ۔ فقہاء کرام نے لکھا ہے کہ قرآن مجید کا تجوید کے ساتھ پڑھنا واجب اور ضروری ہے ۔ کیونکہ غلط پڑھنے سے بعض اوقات معنی اس حد تک بدل جاتے ہیں کہ نماز فاسد ہو جاتی ہے ۔ اور اس بارے میں خود اس کا اپنا خیال معتبر نہیں بلکہ محقق اور ماہر قاری کی گواہی ضروری ہوگی ۔ اور اگر حروف کی درست ادائیگی کی کوشش نہ کرے تو نماز ادا نہ ہو گی ۔

حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی رحمہ الله وَ رَتِّلِ الْقُرآنَ کی تفسیر میں فرماتے ہیں ۔

لغت کی رو سے ترتیل " کے معنی واضح اور صاف پڑھنا ہے ۔ اور شریعت میں ان سات چیزوں کی رعایت رکھنے کا نام ترتیل ہے

ہر حرف کو اسکی صحیح جگہ سے ادا کرنا ۔۔۔۔ وقف اور ابتداء کا لحاظ کرنا ۔۔۔ تینوں حرکتوں کو صاف ادا کرنا ۔۔۔ آواز کا قدرے بلند کرنا ۔۔۔ آواز کا عمدہ بنانا ۔۔۔ تشدید اور مدّ کا خیال رکھنا ۔۔۔ ترہیب اور عذاب کی آیات پر دعا اور استغفار اور ترغیب و ثواب کی آیات پر سوال جنت کرنا ۔

و با لله التوفیق ۔۔۔
 

ام اویس

محفلین
علم التجوید کی ضرورت

تجوید کے خلاف قرآن مجید پڑھنا یا غلط پڑھانا یا بے قاعدہ پڑھنا لحن کہلاتا ہے ۔ جس کا معنی غلطی ہے ۔

لحن کی دو قسمیں ہیں ۔

لحن جلی ~~~

لحن خفی ~~~

لحن جلی ※※※

ایک حرف کی جگہ دوسرا حرف۔ پڑھ دیا ۔۔۔ الحمد ۔۔۔۔ الھمد

ث " کی جگہ س" پڑھ دیا

ذ" کی جگہ ز" پڑھ دیا

ص " کی جگہ س" پڑھ دیا

ض" کی جگہ ذ" یا ظ " یا ز" پڑھ دی ۔

ع" کی جگہ ء " پڑھ دیا

اور ایسی غلطیوں میں اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگ بھی مبتلا ہیں ۔

کسی حرف کو بڑھا دیا ※※※

جیسے۔ الحمد لله " میں د" کو کے پیش کو اور ہ" کے زیر کو اس طرح کھینچ کر پڑھا ۔۔۔ الحمدو للھی

کسی حرف کو گھٹا دیا ※※※

جیسے لَمّ یُوْلَدْ " میں واؤ کو ظاہر نہ کیا ۔ اور اس طرح پڑھا لم یُلَد "

کسی حرکت کو بدل دیا ※※※

زبر ، زیر اور پیش ، جزم میں ایک کو دوسرے کی جگہ پڑھ دیا ۔

جیسے اِیَّاکَ کے کاف" پر زیر پڑھ دیا ۔ یا اِھْدِنَا" میں الف کے اوپر زبر پڑھ دیا ۔ یا اَنْعَمْتَ " کی ت" پر پیش پڑھ دیا ۔

ان غلطیوں کو لحن جلی کہتے ہیں ۔ جلی کا مطلب ہے واضح ، روشن کھلی ہوئی ۔

لحن جلی کا حکم

لحن جلی حرام ہے ۔ بعض جگہ اس سے مطلب بدل جاتا ہے اور نماز فاسد ہو جاتی ہے ۔

لحن خفی چھوٹی غلطی

یہ ایسی غلطی تو نہیں لیکن حروف کے حسین ہونے کے جو قاعدے مقرر ہیں ان کے خلاف پڑھا ۔

جیسے ر" پر جب زبر یا پیش ہو اسے پُر یعنی منہ بھر کر پڑھتے ہیں ۔ الصّرَاط کا ر" مگر باریک پڑھ دیا ۔ اس کو لحن خفی کہتے ہیں ۔ یہ غلطی پہلی غلطی سے ہلکی ہے ۔

لحن خفی کا حکم

ایسی غلطی مکروہ ہے ۔ اس سے بچنا بھی ضروری ہے ۔
 

ام اویس

محفلین
سبق نمبر 3
مخارج کا بیان

تجوید سیکھنے کے لئے پانچ چیزوں کا جاننا ضروری ہے ۔
مخارج
صفاتِ لازمہ
صفاتِ عارضہ
وقف کہاں کریں
سانس ٹوٹنے پر وقف

مخارج

منہ کے جن حصوں یا جگہوں سے الفاظ ادا ہوتے ہیں ان کو مخارج کہتے ہیں ۔

عربی زبان میں کُل حروف ھجائیہ کی تعداد اُنتیس ہے ۔ اور یہ حروف منہ کے سترہ حصوں سے ادا ہوتے ہیں

چنانچہ حروف کے مخارج کُل سترہ ہیں

مخرج نمبر 1
جوف دھن
جوف دھن یعنی منہ کے اندر کا خلا
اس سے تین حروف ادا ہوتے ہیں ۔
واو ۔۔۔ یا ۔۔۔ الف
جب یہ حروف مدّہ ہوں ۔
حروف مدّہ
واو ۔۔۔ یا ۔۔۔ الف ۔۔ جب یہ خود ساکن ہوں اور ان سے پہلے حرف کی حرکت ان کے موافق ہو ۔
واو کی موافق حرکت پیش" ہے ۔ یعنی جب واؤ خود ساکن ہو اور اس سے پہلے حرف پر پیش ہو تو اسے واؤ مدّہ کہیں گے
جیسے ۔۔۔ اَعُوْذُ ۔۔۔ کی واو
یا کے موافق حرکت زیر" ہے ۔ یعنی جب یا خود ساکن ہو اور اس سے پہلے حرف کے نیچے زیر ہو ۔ تو اسے یا مدّہ کہیں گے ۔
جیسے ۔۔۔۔اَلرَّحِیْم ۔۔۔ کی یا
الف کی موافق حرکت زبر" ہے ۔
جب الف خود ساکن ہو اور اس سے پہلے حرف پر زبر" ہو تو اسے الف مدّہ کہیں گے ۔

جیسے ۔۔ اَلرَّحْمَان ۔۔ کا الف

یاد رہے کہ الف وہ ہوتا ہے جس کے اوپر کسی طرح کی کوئی حرکت نہ ہو ۔ اور اس کو جھٹکے کے بغیر پڑھتے ہیں ۔

ایسا الف جس پر کوئی حرکت مثلا زیر " ۔ زبر" ۔ پیش " یا جزم " ہو وہ الف نہیں بلکہ ھمزہ کہلاتا ہے ۔

اگرچہ عام لوگ اس کو بھی الف کہتے ہیں ۔ خوب ذہن نشین کر لو

جیسے ۔۔ اَلْحَمْدُ کا الف " یا بَأْسَ کے درمیان میں جو الف ہے حقیقت میں ھمزہ ہے ۔

ان حروف کو یعنی واؤ۔۔۔ الف ۔۔ اور یا کو اس حالت میں جب کہ وہ مدّہ ہوں ۔ حروفِ مدّہ اور حروفِ ھوائیہ بھی کہتے ہیں ۔

مدّہ اس لئے کہ کبھی ان پر مدّ بھی ہوتی ہے ۔ اور ہوائیہ اس لئے کہ یہ حروف ہوا پر ختم ہوتے ہیں ۔

※※※※※※※

مخرج معلوم کرنے کا طریقہ ۔
جس حرف کا مخرج معلوم کرنا ہو اس کو ساکن کرکے اس سے پہلے ھمزہ متحرک لگاتے ہیں ۔
ادا کرتے ہوئے جس جگہ آواز ختم ہو گی وہی اس حرف کا مخرج ہو گا ۔
مثلا اگر ت" کا مخرج معلوم کرنا ہو تو اسے ساکن کرکے اس سے پہلے ھمزہ متحرک لگائیں گے
آتْ ۔۔۔ جس جگہ آواز ختم ہو گی وہی ت" کے ادا ہونے کا موقع اور جگہ ہو گی ۔
اسی طرح ۔۔۔ اَجْ ۔۔۔ اَمْ ۔۔۔ اَنْ ۔۔۔ وغیرہ
 

ام اویس

محفلین
مخرج نمبر~~~ 2~~~3~~~4

اقصیٰ حلق

یعنی حلق کا پچھلا حصہ ۔ سینے کی طرف والا ۔

اقصی کا مطلب ہے جڑ" ۔

اس سے دو حروف ادا ہوتے ہیں ۔

ہمزہ ۔۔ ھا

مثلا ۔ اَنُؤْمِنُ

اِھْدِنَا

مخرج معلوم کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ جس حرف کا مخرج معلوم کرنا ہو اس کو ساکن کریں اور اس سے پہلے اَ" لگا دیں ۔

جس جگہ آواز رکے گی وہ ہی اس لفظ کو ادا کرنے کی صحیح جگہ ہو گی ۔

ءْ

اس سے پہلے اَ" لگایا تو

اَءْ

اَہْ

اور ہمزہ زیر ، زبر ، پیش اور جزم والے الف" کو کہتے ہیں ۔ جب اس پر جزم یا سکون کی علامت ہو تو اسے جھٹکے سے ادا کرتے ہیں ۔

یُؤْمِنُوْنَ

میں واؤ " کو ہلکا سا جھٹکا دے کر پڑھیں گے ۔

مخرج نمبر 3

وسطِ حلق

یعنی حلق کا درمیان والا حصہ

اس سے یہ حروف ادا ہوتے ہیں

عین ۔۔۔ حا

بغیر نقطے والے

اَعْ

اَحْ

اَعُوْذُ ۔۔۔ اَلْحَمْدُ

یہ دونوں حروف عربی کے ساتھ مخصوص ہیں اور دوسری زبانوں میں فصیح اور صحیح نہیں ہیں ۔

اس لئے ان کی درستی اور مشق میں خوب محنت کی ضرورت ہے ۔

پس ان کو نہایت نرمی ، لطافت اور عمدگی سے ادا کرنا چاہئیے ۔ اس طرح کہ نہ گلا گُھٹے اور نہ شدت اور سختی ہو

خوب مشق کر لینی چاہئیے ۔

مخرج نمبر 4

ادنٰی حلق

یعنی حلق کا وہ حصہ جو منہ کی طرف ہے ۔

گلے کا ہونٹوں سے نزدیکی کنارا جو زبان کی جڑ کے پاس ہے

اس سے یہ حروف ادا ہوتے ہیں ۔

غین ۔۔۔ خا

نقطے والے حروف

اَغْ

اَخْ

غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ ۔۔۔ خَسِرَ ۔۔۔ یُخْرِبُوْنَ

ان چھ حروف *ء " ہ" ع" ح" غ" خ" کو حروف حلقی کہتے ہیں ۔

کیونکہ یہ حلق سے ادا ہوتے ہیں
 

ام اویس

محفلین
مخرج نمبر ~~~5~~~6

لہات
لہات ۔۔۔ یعنی کوّے کے متصل زبان کی جڑ جب اوپر کے تالو سے ٹکرائے

اس سے قاف" ادا ہوتا ہے ۔

اَ قْ


اَلْمُسْتَقِیْم


مخرج نمبر 6

کاف

قاف کے مخرج کے ساتھ ہی منہ کی جانب ذرا نیچے ہٹ کر

اور اس سے

کاف " ادا ہوتا ہے

اَکْ


مَالِکِ

ان دونوں قاف" کاف" کو لہاتیہ کہتے ہیں

D1-FD9906-EEAA-43-CB-8689-4-D0-AF8704323.jpg
 

ام اویس

محفلین
مخرج نمبر ~~~ 7

وسط زبان اور اس کے مقابل اوپر کا تالو

اس سے یہ حروف ادا ہوتے ہیں

جیم " ۔۔۔ شین" ۔۔۔ یا" جبکہ مدہ نہ ہو

یا متحرک ہو اور یا " لین ہو

لِین ۔۔۔ ایسی یا کو کہتے ہیں جو خود ساکن ہو اور اس سے پہلے حرف پر زبر ہو

اَلْحُسْنَیَیْنِ ۔ یَھْدِی

اَلْحُسْنَیَیْن ۔۔۔ میں یا " متحرک اور یا" لین دونوں شامل ہیں

مدّہ ۔۔ ایسی یا کو کہتے ہیں جو ساکن ہو اور اس سے پہلے حرف کے نیچے زیر ہو

اور یا مدہ کا مخرج ۔۔۔ جوفِ دھن ہے

ان حروف کو حروف شجریہ " کہتے ہیں ۔

اور ان کا مجموعہ جَیْشٌ" ہے ۔


جیم ۔۔۔۔ حاجَجْتُمْ

شین ۔۔۔ اَلشَّیْطَان
4402-DB6-B-F023-4-AE7-B661-333-D493-EA9-D7.jpg
 

ام اویس

محفلین
دانتوں کے نام

آگے جو مخارج ہیں ان میں دانت استعمال ہوتے ہیں ۔ اس لئے دانتوں کے نام جاننا ضروری ہیں ۔

سامنے کے درمیان والے چار دانتوں کو ثنایا " کہتے ہیں

دو اوپر والے ثنایا علیا "

اور دو نیچے والے ثنایا سُفلٰی "

ان کے ساتھ ملے ہوئے چاروں دانتوں کو رُبَاعی " اور قواطع " کہتے ہیں ۔

یعنی درمیان والے دو دانتوں کے ساتھ دائیں بائیں دو اوپر اور دو نیچے ۔

قواطع ۔۔۔ یعنی کاٹنے والے

پھر ان کے ساتھ ملے ہوئے چار دانت جو نوکدار ہوتے ہیں ان کو انیاب " کہتے ہیں ۔

انیاب کے ساتھ والے دائیں بائیں کے اوپر اور نیچے کے چار دانتوں کو ضواحک" کہتے ہیں ۔

ضواحک ۔۔۔ ہنستے ہوئے ظاہر ہونے والی داڑھیں

ان کے ساتھ کی جو تین تین داڑھیں ہیں دائیں بائیں اور اوپر ، نیچے انہیں طواحن " کہتے ہیں ۔

طواحن ۔۔۔ غذا پیسنے والی ڈاڑھیں ۔

ان کے بعد میں بالکل آخر میں ایک ایک ڈاڑھ جسے عام طور پر عقل ڈاڑھ کہتے ہیں ۔ عربی میں انہیں نواجذ " کہتے ہیں

ان سب یعنی ضواحک ، طواحن اور نواجذ کو اضراس کہتے ہیں ۔ یعنی ڈاڑھیں

یاد کرنے کے لئے کسی نے ان ناموں کو نظم میں بیان کر دیا ہے

ہے تعداد دانتوں کی کل تیس اور دو

ثنایا ہیں چار اور رباعی ہیں دو دو

ہے انیاب چار اور باقی رہے بیس

کہ کہتے ہیں قرآء اضراس انہی کو

ضواحک ہیں چار اور طواحن ہیں بارہ

نواجذ بھی ہیں ان کے بازو میں دو دو۔

E61-CFFC7-5-A08-46-F8-877-A-65192-CFEDEC5.jpg
 

ام اویس

محفلین
زبان کے حصے

لسان یعنی زبان کے اوپر والے حصے یعنی جو تالو کی طرف ہوتا ہے اس کو " ظَھْرِ لِسان " کہتے ہیں ۔

لسان کا نیچے والا حصہ جو نیچے جبڑے سے ملا ہوتا ہے اس کو " بَطْنِ لسان" کہتے ہیں

زبان کے اگلے حصہ یعنی نوک کو " رأسِ لسان " اس کے دونوں طرف کے تھوڑے تھوڑے حصے کو " ناحیة اللسان " کہتے ہیں

اور زبان کے دونوں جانب کے کنارے کے بعد سے اخیر تک کے سارے حصے کو "حافۂ لسان " کہتے ہیں یعنی زبان کی کروٹ ۔

اسی کروٹ کا وہ حصہ جو حلق کی طرف ہے اور ڈاڑھوں کے مقابل ہے اس کو اقصائے حافہ اور جو اگلا حصہ نوک کی طرف ہے اسے ادنائے حافہ کہتے ہیں ۔

اور دونوں قسم کے حافات میں سے دائیں طرف والے حافہ کو "حافۂ یمنی" اور بائیں طرف والے کو "حافۂ یُسرٰی" کہتے ہیں ۔

اور زبان کا وہ آخری حصہ جو حلق کی طرف ہے اس کو " اقصائے لسان " کہتے ہیں

ظہر لسان کے درمیان والے حصہ کو وسط لسان کہتے ہیں ۔

خوب سمجھ لو اور یاد رکھو ۔
985-DCA2-C-6-A05-4630-824-A-06-D4255-E131-B.jpg
 

ام اویس

محفلین
*مخرج نمبر ~~~8*

*ضاد کا ہے*

حافۂ لسان۔ یعنی زبان کی کروٹ دائیں یا بائیں اضراسِ عُلیا یعنی اوپر والی ڈاڑھ کی جڑ سے لگائیں تو " ضاد " ادا ہوتا ہے

اور بائیں طرف سے ادا کرنا آسان ہے اور دونوں طرف سے ایک وقت نکالنا بھی صحیح ہے لیکن بہت مشکل ہے ۔

اس کو " حافیہ " کہتے ہیں

ضاد" کی ادائیگی میں اکثر لوگ بہت غلطی کرتے ہیں ۔ اس لئے کسی ماہر قاری سے اس کی مشق کرنا ضروری ہے ۔

ضاد" حرف "دال" پُر یا باریک کے مشابہ نہیں ہے ۔ ایسا ہرگز نہیں پڑھنا چاہئیے ۔ یہ بالکل غلط ہے ۔
اور نہ ہی خالی ظا" کی طرح پڑھا جاتا ہے ۔ اگر ضاد" کو اس کے صحیح مخرج سے صحیح طور پر نرمی کے ساتھ آواز کو جاری رکھ کر اور تمام صفات کا لحاظ رکھتے ہوئے ادا کریں تو اس کی آوازسننے میں "ظا کی آواز سے بہت زیادہ مشابہ ہوتی ہے ۔ دال کے مشابہ بالکل نہیں ہوتی ۔ تجوید و قراءت کی کتابوں میں ایسا ہی لکھا ہے ۔

*مخرج معلوم کرنے کا طریقہ*

یہ ہے کہ *ضاد" کو ساکن کر کے اس سے پہلے ھمزہ متحرک لگا دیں ۔

" آضْ " ۔ ادا کریں تو " ضاد کا مخرج معلوم ہو جائے گا ۔ کہ زبان کا کنارہ اوپر والی ڈاڑھوں کی جڑ کو لگے

ثقیلُ الصَّوت ۔۔۔ مشکل آواز
6-D2000-D7-C88-C-4-EAC-9-B7-E-A9096-C737-E02.jpg
 

ام اویس

محفلین
مخرج نمبر ~~~9

لام کا ہے

زبان کا کنارہ مع کچھ حافہ ( یعنی زبان کی کروٹ ) جب ثنایا اور رباعی اور انیاب اور ضواحک کے مسوڑھوں سے کسی قدر تالو کی طرف مائل ہو کر ٹکر کھائے تو لام ادا ہوتا ہے ۔
خواہ منہ کے دائیں طرف سے یا پھر بائیں طرف سے اور دائیں طرف سے ادا کرنا آسان ہے ۔
اور دونوں طرف سے ایک دفعہ نکالنا بھی صحیح ہے
لام کا مخرج وسیع ترین ہے ۔ اور کسی قدر تالو کی طرف۔ مائل ہونے کا مطلب ہے کہ لام " کا مخرج مسوڑھوں کا وہ حصہ ہے جو کچھ اوپر تالو کی جانب ہے نہ کہ وہ حصہ جو دانتوں کی جانب ہے ۔
081-E6507-B2-F1-4815-B938-E4-A95-F4-B9282.jpg
 

ام اویس

محفلین
مخرج نمبر~~~10

نون " کا ہے

زبان کا کنارہ مع کچھ حصہ حافہ جب ثنایا رباعی اور انیاب کے مسوڑھوں سے کسی قدر تالو کی طرف مائل ہو کر ٹکر کھائے تو نون " ادا ہوتا ہے ۔
لام" اور نون" کے مخرج میں دو فرق ہیں

اول یہ کہ ۔۔۔ لام " میں چار دانتوں کے مسوڑھوں کا دخل ہے ۔ اور " نون میں تین دانتوں کے مسوڑھوں کا ۔۔ پس نون " میں ضواحک کے مسوڑھوں کا دخل نہیں ۔

دوم یہ کہ ۔۔۔ نون" میں زبان دانتوں کی جڑ کی طرف والے مسوڑھوں سے لگتی ہے اور لام " میں زبان تالو کی جانب والے مسوڑھوں سے

آلْ ۔۔۔ آَنْ
E49-B4-EE8-31-DB-48-E7-8-E9-D-A0449163-B102.jpg
 

عرفان سعید

محفلین
معلومات کا بہت شکریہ!
دوسری صدی ہجری کے نصف میں اس علم کا آغاز کہاں سے ہوا تھا؟ اگر علم میں ہو تو ضرور بتائیے گا۔ مصر میں قرأت کے علم کو منتہائے کمال پر پہنچا دیا گیا، اس سے میرا غالب گمان ہے کہ اس کا آغاز مصر سے ہوا تھا۔ آپ کے پاس زیادہ صحیح معلومات ہوں تو ضرور مہیا کریں۔

مزید یہ دریافت کرنا چاہوں گا کہ جیسا کہ آپ نے بتایا:
۔ اس علم کی تدوین کا آغاز دوسری ہجری صدی کے نصف سے ہوا۔

اس کے بعد ذیل میں فرضِ عین اور فرضِ کفایہ کے احکامات فقہا کے اخذ کردہ ہیں۔ قرآن و سنت میں براہ راست کوئی تصریح اس معاملے میں نہیں ہے؟
علم التجوید سیکھنے کا حکم

علم التجوید سیکھنا جس سے حروف کی درست ادائیگی ہو ۔ اور قرآن مجید کے معنی نہ بدلیں فرض عین ہے ۔ اور اس سے زیادہ علم قراءت و تجوید فرض کفایہ ہے ۔

پس قرآن مجید کے حروف کا اس حد تک صحیح پڑھنا کہ اس سے حروف میں کمی زیادتی ، تبدیلی اور اعراب کی غلطی پیدا نہ ہو اور قرآن مجید کے معنی نہ بگڑیں ۔ ہر حرف دوسرے سے الگ نمایاں ، مستقل معلوم ہو ہر مسلمان پر فرض عین ہے ۔

مرد ہو خواہ عورت ہو ، عربی ہو یا عجمی ہو ۔ سفید ہو سرخ ہو یا گندمی ۔ نماز کے اندر ہو یا باہر ۔ حفظ پڑھے یا ناظرہ ۔ تھوڑا پڑھے یا زیادہ ۔ جلدی جلدی حدر سے پڑھے یا ٹہراؤ سےیا درمیانہ رفتار سے ۔ مجمع میں پڑھے یا اکیلا ۔ بہر صورت ہر وقت ہر حال میں اس حد تک قرآن مجید کا صحیح پڑھنا ہر عاقل و بالغ کے لئے فرضِ عین ہے ۔ اور غیر صحیح طریقہ پر تلاوت کرنے والا مرتکبِ حرام اور گناہ گار ہے ۔ اور اس کی ضرورت اور فرضیت کا انکار کرنے والا سخت گنہگار ہے ۔

اس سے زیادہ اس علم کے قاعدوں کو یاد کرنا فرضِ کفایہ ہے ۔ کہ اڑتالیس میل کی حد کے اندر ایک ماہر تجوید و فن و عالِم فن قارئ قرآن کا ہونا ضروری ہے ورنہ سب کے سب گنہگار ہوں گے ۔
 

ام اویس

محفلین
مخرج نمبر ~~~ 11

را " کا ہے ۔

یعنی زبان کی نوک اور اس کا کنارہ اور صرف دو دانتوں ( ثنایا اور رباعی ) اور اس کے مسوڑھوں کا وہ حصہ جو تالو اور جڑ کے درمیان یعنی دانتوں کی جڑوں سے کسی قدر اوپر ہے اور پشت زبان کا سرا اور تالو ۔۔
ان حصوں کے آپس میں ملنے سے را"۔ پُر اور باریک ادا ہوتی ہے ۔
را" پُر میں زیادہ ٹکاؤ پشت زبان کے سرے پر
اور را" باریک میں زیادہ اعتماد نوک زبان پر ہوتا ہے ۔
اور را" کا مخرج نون " کے مخرج کے قریب ہے ۔ مگر اس میں پشت زبان بھی شامل ہے ۔
نون" اور را " کے مخرج میں تین فرق ہیں ۔
اول ۔۔۔ نون میں تین دانتوں کے مسوڑھوں کا دخل ہے ۔ جبکہ را" میںفقط دو دانتوں کے مسوڑھے ہیں ۔
دوم ۔۔۔ نون" میں زبان زبان دانتوں کی جڑ کی طرف والے مسوڑھوں سے لگتی ہے ۔ اور را" میں زبان مسوڑھوں کے اس حصہ سے لگتی ہے جو لام" اور نون " دونوں کے مخارج ( تالو اور جڑ کی طرف والے دو حصوں ) کے درمیان ہے ۔
سوم ۔۔۔ یہ کہ را" میں پشت زبان کا سرا اور اس کے بالمقابل تالو کا بھی دخل ہے ۔ اور نون میں ان دونوں کا دخل نہیں ۔
خوب سمجھ لو ۔۔
ان تینوں یعنی۔ "لام "۔ نون " را" کو " طرفیہ " اور "ذلقیہ " کہتے ہیں
یعنی زبان کی تیز نوک سے ادا ہونے والے حروف
A981179-D-2-DD7-43-BB-BF82-46-B17-EE89575.jpg
 
Top