دھاری دار پاجامے والا لڑکا

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

جاسم محمد

محفلین
دھاری دار پاجامے والا لڑکا
02/06/2019 احمد نعیم چشتی


فلم بہت جاندار ہے۔ آپ دیکھنا شروع کریں تو پھر آپ دیکھتے ہی چلے جاتے ہیں۔ ایک سحر ہے جو آپ کو جکڑ لیتا ہے۔ کہانی ایسی ہے کہ دل میں اترتی جاتی ہے۔ بلکہ یوں کہیے کہ دل میں ہی کہیں ٹھہر سی جاتی ہے۔ فلم کا اختتام ایسا ہے کہ آپ دم بخود رہ جاتے ہیں اور آنکھوں میں نمی پھیل جاتی ہے۔

فلم The Boy in Striped Pajamas اسی نام کے ناول پہ مبنی ہے جو سن دوہزار چھ میں شائع ہوا۔ آئرش مصنف جان بائنے کی تخلیق ہے جو شائع ہوتے ہی دنیا بھر میں مشہور ہو گیا۔

فلم دوسری جنگ عظیم میں جرمنی کے نازی کیمپوں میں بد ترین نسل کشی اور بربریت کو انوکھے انداز میں پیش کرتی ہے۔ یہ یہودیوں پر ہونے والے ظلم کی داستان ہے جسے ہم ایک بچے کی آنکھ سے دیکھتے ہیں۔



یہ ایک آٹھ سالہ برونو کی کہانی ہے جس کا والد نازی کیمپ میں کمانڈنٹ تعینات ہے۔ اسے معلوم نہیں کہ کیمپ میں قید لوگوں پہ کیا کیا ظلم ڈھائے جاتے ہیں۔ اپنے گھر کی کھڑکی سے دور کیمپ میں پھرتے قیدیوں کو دیکھ کے سوچتا ہے کہ شاید یہ محنت کش کسان ہیں جو کھیتوں میں کام کرتے پھرتے ہیں۔

برلن سے آکر دیہاتی علاقے میں رہنا اسے پسند نہیں۔ نہ باہر جانے کی اجازت نہ کوئی گھر میں کھیلنے والا دوست۔ اس کے سبھی دوست تو برلن میں ہی رہتے تھے۔ وہ تنہائی کا شکار ہے اور اداس سا پھرتا رہتا ہے۔ ایک دن گھر کی دیوار پھلانگ کر جنگل میں نکل جاتا ہے اور کیمپ کی خاردار باڑ تک جا پہنچتا ہے۔

باڑ کے پار آٹھ سالہ سیموئیل سے بات چیت ہوتی ہے جو اپنے والد کے ساتھ قید ہے۔ دونوں دوست روز ملنے لگتے ہیں۔ برونو سیموئیل کے لیے کھانے کی چیزیں اور کھیلنے کے لیے گیند اور بورڈ بھی لے آتا ہے۔ دونوں ایک دوسرے سے گپ شپ کرتے ہیں۔ دونوں معصوم بچے نہیں جانتے کہ کیمپ میں کیسے لوگوں کا قتل عام کیا جاتا ہے۔



ایک دن سیموئیل پریشان ہوتا ہے۔ کہتا ہے کہ میرا والد مارچ کرنے گیا اور نہ جانے کہاں کھو گیا۔ وہ نہیں جانتا کہ اس کے والد کو گیس چیمبر میں ہجوم کے ساتھ راکھ کر دیا گیا۔

برونو اس کے والد کی تلاش میں مدد کرنا چاہتا ہے۔ سیموئیل اس کے لیے دھاری دار وردی اور ٹوپی لاتا ہے جو برونو پہن کر باڑ کے نیچے سے زمین کھود کر کیمپ میں چلا جاتا ہے۔ جہاں برونو اور سیموئیل ایک ہجوم کے ساتھ ہی گیس چیمبر میں ٹھونس دیے جاتے ہیں اور بھسم ہو جاتے ہیں۔

معصوم بچوں کا گیس چیمبر میں جلنا یہ ظاہر کرتا ہے کہ جرمنی میں معصوم لوگوں کی نسل کشی انسانیت کے لیے شرمناک عمل تھا۔ کسی خاص کمیونٹی سے تعلق رکھنا کون سا جرم ہے؟

برونو اور سیموئیل امن اور محبت کی علامت ہیں جو محبت، دوستی اور ایک دوسرے کا خیال رکھنے پہ یقین رکھتے ہیں۔ دونوں بچے خوبصورت احساسات کے مجسمے ہیں۔ انسانوں کے تعلقات ان بچوں کے رشتے ایسے ہونے چاہیے۔

فلم سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ فطرت انسان کو خوبصورت پیدا کرتی ہے۔ معصوم اور محبت کرنے والا۔ جیسے انسان بڑا ہوتا ہے اس میں نفرت اور بے جا غرور جیسے گھٹیا جذبے پیدا ہو جاتے ہیں۔ وہ خطرناک درندہ بن جاتا ہے۔ کیا عقل انسان کے لیے مسائل پیدا کرتی ہے؟ یہ سوال جنم لیتا ہے۔

برونو کا باپ کیمپ میں قیدیوں کے قتل میں براہ راست ملوث ہوتا ہے۔ اس کا اپنا بیٹا بھی اسی ظلم کا شکار ہو جاتا ہے۔ ظلم جنگل کی آگ کی مانند ہوتا ہے جس کی لپیٹ میں سب کچھ راکھ ہو جاتا ہے۔

فلم کے آخر پہ برونو کے باپ کی چیخ نازی کیمپوں میں زندہ جلائے جانے والے ہر قیدی کی پکار ہے۔

گیس چیمبر سے بدبودار دھواں اٹھتا رہتا ہے۔ انسانی جسموں اور ہڈیوں کے جلنے سے پیدا ہونے والا دھواں۔

فضا میں برونو اور سیموئل کے معصوم جسموں کی سڑاند دراصل اس درندگی کا نتیجہ ہے جو دوسری جنگ عظیم میں جرمنی کی تاریخ کا سیاہ باب بنی۔ آٹھ سالہ بچوں کے جذبے کتنے پاکیزہ تھے۔ ان کی دوستی کتنی سچی تھی۔ ان کے احساسات کتنے خوبصورت تھے۔ وہ سب نفرت کی آگ میں راکھ ہو گئے۔ فلم ہمارے اندر بسی نفرت کی چنگاری کو گلزار بنانے کی سعی کرتی ہے۔

فلم نہایت متاثر کن ہے۔ دیکھنے کے قابل ہے۔

 

سید عمران

محفلین
یہودیوں کے ظلم و بربریت کا شکار لاکھوں شامی، افغانی، عراقی، یمنی، پاکستانی بچوں پر ایسی کہانیاں کون لکھے گا؟؟؟
 
یہودیوں کے ظلم و بربریت کا شکار لاکھوں شامی، افغانی، عراقی، یمنی، پاکستانی بچوں پر ایسی کہانیاں کون لکھے گا؟؟؟
ظلم صرف وہ ہوتا ہے جو یہود پر کیا جائے، اس کے علاوہ جو کچھ بھی ہے وہ امن قائم رکھنے کے لیے اٹھائے جانے والے اقدامات ہیں۔ سو ان پر کوئی کہانی کیوں لکھی جائے یا کوئی فلم کیوں بنائی جائے۔

مطالبہ / خواہش ریجیکٹیڈ۔ :)
 

جاسم محمد

محفلین
یہودیوں کے ظلم و بربریت کا شکار لاکھوں شامی، افغانی، عراقی، یمنی، پاکستانی بچوں پر ایسی کہانیاں کون لکھے گا؟؟؟
یہودی محققین اور تاریخ دانوں نے لاتعداد تاریخی شواہد سے جرمن نازیوں کی بربریت کو دنیا پر عیاں کیا تھا۔ اکثر مسلمان پھر بھی تسلیم نہیں کرتے اور ہولوکاسٹ کو یہودیوں کی سازش قرار دیتے ہیں۔
 

فاخر

محفلین
یہودیوں کے ظلم و بربریت کا شکار لاکھوں شامی، افغانی، عراقی، یمنی، پاکستانی بچوں پر ایسی کہانیاں کون لکھے گا؟؟؟
ان شاءاللہ الرحمٰن بندہ ناچیز اس سمت کام کررہا ہے ۔ وقتاً فوقتاً اس طرح کی مختصر کہانی پیش کروں گا۔
 

فاخر

محفلین
دھاری دار پاجامے والا لڑکا
02/06/2019 احمد نعیم چشتی


فلم بہت جاندار ہے۔ آپ دیکھنا شروع کریں تو پھر آپ دیکھتے ہی چلے جاتے ہیں۔ ایک سحر ہے جو آپ کو جکڑ لیتا ہے۔ کہانی ایسی ہے کہ دل میں اترتی جاتی ہے۔ بلکہ یوں کہیے کہ دل میں ہی کہیں ٹھہر سی جاتی ہے۔ فلم کا اختتام ایسا ہے کہ آپ دم بخود رہ جاتے ہیں اور آنکھوں میں نمی پھیل جاتی ہے۔

فلم The Boy in Striped Pajamas اسی نام کے ناول پہ مبنی ہے جو سن دوہزار چھ میں شائع ہوا۔ آئرش مصنف جان بائنے کی تخلیق ہے جو شائع ہوتے ہی دنیا بھر میں مشہور ہو گیا۔

فلم دوسری جنگ عظیم میں جرمنی کے نازی کیمپوں میں بد ترین نسل کشی اور بربریت کو انوکھے انداز میں پیش کرتی ہے۔ یہ یہودیوں پر ہونے والے ظلم کی داستان ہے جسے ہم ایک بچے کی آنکھ سے دیکھتے ہیں۔



یہ ایک آٹھ سالہ برونو کی کہانی ہے جس کا والد نازی کیمپ میں کمانڈنٹ تعینات ہے۔ اسے معلوم نہیں کہ کیمپ میں قید لوگوں پہ کیا کیا ظلم ڈھائے جاتے ہیں۔ اپنے گھر کی کھڑکی سے دور کیمپ میں پھرتے قیدیوں کو دیکھ کے سوچتا ہے کہ شاید یہ محنت کش کسان ہیں جو کھیتوں میں کام کرتے پھرتے ہیں۔

برلن سے آکر دیہاتی علاقے میں رہنا اسے پسند نہیں۔ نہ باہر جانے کی اجازت نہ کوئی گھر میں کھیلنے والا دوست۔ اس کے سبھی دوست تو برلن میں ہی رہتے تھے۔ وہ تنہائی کا شکار ہے اور اداس سا پھرتا رہتا ہے۔ ایک دن گھر کی دیوار پھلانگ کر جنگل میں نکل جاتا ہے اور کیمپ کی خاردار باڑ تک جا پہنچتا ہے۔

باڑ کے پار آٹھ سالہ سیموئیل سے بات چیت ہوتی ہے جو اپنے والد کے ساتھ قید ہے۔ دونوں دوست روز ملنے لگتے ہیں۔ برونو سیموئیل کے لیے کھانے کی چیزیں اور کھیلنے کے لیے گیند اور بورڈ بھی لے آتا ہے۔ دونوں ایک دوسرے سے گپ شپ کرتے ہیں۔ دونوں معصوم بچے نہیں جانتے کہ کیمپ میں کیسے لوگوں کا قتل عام کیا جاتا ہے۔



ایک دن سیموئیل پریشان ہوتا ہے۔ کہتا ہے کہ میرا والد مارچ کرنے گیا اور نہ جانے کہاں کھو گیا۔ وہ نہیں جانتا کہ اس کے والد کو گیس چیمبر میں ہجوم کے ساتھ راکھ کر دیا گیا۔

برونو اس کے والد کی تلاش میں مدد کرنا چاہتا ہے۔ سیموئیل اس کے لیے دھاری دار وردی اور ٹوپی لاتا ہے جو برونو پہن کر باڑ کے نیچے سے زمین کھود کر کیمپ میں چلا جاتا ہے۔ جہاں برونو اور سیموئیل ایک ہجوم کے ساتھ ہی گیس چیمبر میں ٹھونس دیے جاتے ہیں اور بھسم ہو جاتے ہیں۔

معصوم بچوں کا گیس چیمبر میں جلنا یہ ظاہر کرتا ہے کہ جرمنی میں معصوم لوگوں کی نسل کشی انسانیت کے لیے شرمناک عمل تھا۔ کسی خاص کمیونٹی سے تعلق رکھنا کون سا جرم ہے؟

برونو اور سیموئیل امن اور محبت کی علامت ہیں جو محبت، دوستی اور ایک دوسرے کا خیال رکھنے پہ یقین رکھتے ہیں۔ دونوں بچے خوبصورت احساسات کے مجسمے ہیں۔ انسانوں کے تعلقات ان بچوں کے رشتے ایسے ہونے چاہیے۔

فلم سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ فطرت انسان کو خوبصورت پیدا کرتی ہے۔ معصوم اور محبت کرنے والا۔ جیسے انسان بڑا ہوتا ہے اس میں نفرت اور بے جا غرور جیسے گھٹیا جذبے پیدا ہو جاتے ہیں۔ وہ خطرناک درندہ بن جاتا ہے۔ کیا عقل انسان کے لیے مسائل پیدا کرتی ہے؟ یہ سوال جنم لیتا ہے۔

برونو کا باپ کیمپ میں قیدیوں کے قتل میں براہ راست ملوث ہوتا ہے۔ اس کا اپنا بیٹا بھی اسی ظلم کا شکار ہو جاتا ہے۔ ظلم جنگل کی آگ کی مانند ہوتا ہے جس کی لپیٹ میں سب کچھ راکھ ہو جاتا ہے۔

فلم کے آخر پہ برونو کے باپ کی چیخ نازی کیمپوں میں زندہ جلائے جانے والے ہر قیدی کی پکار ہے۔

گیس چیمبر سے بدبودار دھواں اٹھتا رہتا ہے۔ انسانی جسموں اور ہڈیوں کے جلنے سے پیدا ہونے والا دھواں۔

فضا میں برونو اور سیموئل کے معصوم جسموں کی سڑاند دراصل اس درندگی کا نتیجہ ہے جو دوسری جنگ عظیم میں جرمنی کی تاریخ کا سیاہ باب بنی۔ آٹھ سالہ بچوں کے جذبے کتنے پاکیزہ تھے۔ ان کی دوستی کتنی سچی تھی۔ ان کے احساسات کتنے خوبصورت تھے۔ وہ سب نفرت کی آگ میں راکھ ہو گئے۔ فلم ہمارے اندر بسی نفرت کی چنگاری کو گلزار بنانے کی سعی کرتی ہے۔

فلم نہایت متاثر کن ہے۔ دیکھنے کے قابل ہے۔





اس طرح کی کہانیوں سے یہودی نوازی جھلکتی ہے کیا آپ نےفلسطین، شام ،افغانستان ،عراق اورپاکستان جیسے دیگر نام نہاد اسلامی ملکوں میں معصوم کی کہانی اور دلخراش سانحہ یاد نہیں ؟ کم از کہانی کار کو انصاف پسند ہونا چاہیے ۔ آپ کی نظروں میں قصور ہے آپ نے شام کے مہاجر بچے ایلین کی ترکی کے ساحل پر اوندھی منھ پڑی لاش نہیں دیکھی؟
 

جاسم محمد

محفلین
اس طرح کی کہانیوں سے یہودی نوازی جھلکتی ہے کیا آپ نےفلسطین، شام ،افغانستان ،عراق اورپاکستان جیسے دیگر نام نہاد اسلامی ملکوں میں معصوم کی کہانی اور دلخراش سانحہ یاد نہیں ؟ کم از کہانی کار کو انصاف پسند ہونا چاہیے ۔ آپ کی نظروں میں قصور ہے آپ نے شام کے مہاجر بچے ایلین کی ترکی کے ساحل پر اوندھی منھ پڑی لاش نہیں دیکھی؟
جب آپ کے پاس بھی 60 لاکھ مسلمانوں کا جان لیوا گیس سے شہادت سے متعلق کوئی سانحہ موجود ہو تو دنیا کی نظر میں یہودیوں کی طرح مظلوم بن جایئے گا۔
 

سید عمران

محفلین
جب آپ کے پاس بھی 60 لاکھ مسلمانوں کا جان لیوا گیس سے شہادت سے متعلق کوئی سانحہ موجود ہو تو دنیا کی نظر میں یہودیوں کی طرح مظلوم بن جایئے گا۔
تو کیا آپ لوگوں نے عراق شام افغانستان پاکستان میں صرف ساٹھ لوگ مارے ہیں؟؟؟
 

سید عمران

محفلین
یہودی محققین اور تاریخ دانوں نے لاتعداد تاریخی شواہد سے جرمن نازیوں کی بربریت کو دنیا پر عیاں کیا تھا۔ اکثر مسلمان پھر بھی تسلیم نہیں کرتے اور ہولوکاسٹ کو یہودیوں کی سازش قرار دیتے ہیں۔
وہ تو ان سازشیوں کی سازش یقینی طور پر ہے...
ویسے بھی آپ کو ہمیشہ کی طرح مسلمانوں کا قتل و غارت نظر نہیں آیا جو اس بات کا جواب نہیں دیا!!!
 

فاخر

محفلین
جب آپ کے پاس بھی 60 لاکھ مسلمانوں کا جان لیوا گیس سے شہادت سے متعلق کوئی سانحہ موجود ہو تو دنیا کی نظر میں یہودیوں کی طرح مظلوم بن جایئے گا۔

آپ 60لاکھ کی بات کرتے ہیں شاید آپ کورچشمی کے شکار ہیں معاف کریں آپ کوفغانستان،عراق ،شام لیبا ،پاکستان اور پوری دنیا میں مسلمانوں کا بہتا ہوا خون نظر آتا؟ اگر آنجناب کو نظر نہیں آتا ہے تو پھر قصور اس میں ہمارا نہیں ؛بلکہ اس چشم کا قصور ہے جو افغانستان اور عراق شام فلسطین میں آئے روز مسلمانوں کا قتل عام نظر نہیں آتا ہے۔ جان لیجئے ! کل بھی یہود ’’قتلواتقتیلا‘‘ کے شکار ہوئے تھے ان شاء اللہ الرحمٰن آنے والے کل میں بھی ’’قتلوا تقتیلا‘‘کے عذاب میں گرفتار ہوں گے۔ آج یہود ’’کانے دجال‘‘ کی آمد کے جشن میں ہیں یادرکھئے گا ’’کانے دجال‘‘ کے ساتھ ظہور مہدی بھی ہوگا اور پھر حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی اسی سرزمین شام و فلسطین میں اتریں گے۔ یہوداگر ’’کانے دجال‘‘ کی آمد کے منتظر ہیں تو ہم ظہور مہدی کے منتظر ہیں اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی آئیں گے ۔ وما قتلوہ و صلبوہ بل رفعہ اللہ الیہ‘‘ ۔ قرآن تو صاف کہتا ہے :’’ذرھم یأکلو و یتمتعوا فسوف یعلمون‘‘۔ ہم بھی یہی کہتے ہیں:’یہود آج چند روزہ زندگی میں جو کچھ کرنا چاہے کرلے پھر ان کو ابدی طور پر کف افسوس ہی ملنا پڑے گا۔
 
ahmad-naeem-chishti-300x235.jpg
کیا عکس بالا میں مابدولت بہمراہ دیگر عزیز محفلین عزیزی جاسم محمد کے دیدار قلب و نگاہ خوش کن سے فیضیاب ہورہے ہیں ؟ :):)
 

جاسم محمد

محفلین
ویسے بھی آپ کو ہمیشہ کی طرح مسلمانوں کا قتل و غارت نظر نہیں آیا جو اس بات کا جواب نہیں دیا!!!
آپ 60لاکھ کی بات کرتے ہیں شاید آپ کورچشمی کے شکار ہیں معاف کریں آپ کوفغانستان،عراق ،شام لیبا ،پاکستان اور پوری دنیا میں مسلمانوں کا بہتا ہوا خون نظر آتا؟
یہ فلم یہودی ہالوکاسٹ کے بارہ میں ہے۔ مسلمانوں کے قتل عام کا اس سے کوئی تعلق ہی نہیں۔ اور جو لوگ اس تاریخی سانحہ کو رد کرتے ہوئے اپنے سازشی نظریات پھیلاتے ہیں ۔ ان پر حال ہی میں’ یہودی‘ یوٹیوب نے پابندی لگا دی ہے۔
YouTube bans Holocaust denial videos in policy reversal
 

جاسم محمد

محفلین
جان لیجئے ! کل بھی یہود ’’قتلواتقتیلا‘‘ کے شکار ہوئے تھے ان شاء اللہ الرحمٰن آنے والے کل میں بھی ’’قتلوا تقتیلا‘‘کے عذاب میں گرفتار ہوں گے۔ آج یہود ’’کانے دجال‘‘ کی آمد کے جشن میں ہیں یادرکھئے گا ’’کانے دجال‘‘ کے ساتھ ظہور مہدی بھی ہوگا اور پھر حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی اسی سرزمین شام و فلسطین میں اتریں گے۔ یہوداگر ’’کانے دجال‘‘ کی آمد کے منتظر ہیں تو ہم ظہور مہدی کے منتظر ہیں اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی آئیں گے ۔ وما قتلوہ و صلبوہ بل رفعہ اللہ الیہ‘‘ ۔ قرآن تو صاف کہتا ہے :’’ذرھم یأکلو و یتمتعوا فسوف یعلمون‘‘۔ ہم بھی یہی کہتے ہیں:’یہود آج چند روزہ زندگی میں جو کچھ کرنا چاہے کرلے پھر ان کو ابدی طور پر کف افسوس ہی ملنا پڑے گا۔
غیر یہود اقوام کایہودیوں سے متعلق انہی شدت پسند نظریات و رویوں کی وجہ سے یہودی ریاست اسرائیل کا قیام ناگزیر تھا۔ اور یہی وجہ ہے کہ اسرائیل کا وجود آپ یہود مخالفین کواتنا کھٹکتا ہے۔ کیونکہ آپ کو اچھی طرح معلوم ہے کہ یہودیوں کو اسرائیل کے علاوہ تمام ممالک میں اقلیت ہونے کی وجہ سے ختم کیا جا سکتا ہے۔ لیکن یہود اکثریت اسرائیل میں ایسا ممکن نہیں۔ اسی لیے آپ لوگ اسرائیل کا خاتمہ چاہتے ہیں۔
فلسطینیوں کی حمایت کے پیچھے دراصل اسرائیل کا خاتمہ مقصود ہے۔
 
دھاری دار پاجامے والا لڑکا
02/06/2019 احمد نعیم چشتی


فلم بہت جاندار ہے۔ آپ دیکھنا شروع کریں تو پھر آپ دیکھتے ہی چلے جاتے ہیں۔ ایک سحر ہے جو آپ کو جکڑ لیتا ہے۔ کہانی ایسی ہے کہ دل میں اترتی جاتی ہے۔ بلکہ یوں کہیے کہ دل میں ہی کہیں ٹھہر سی جاتی ہے۔ فلم کا اختتام ایسا ہے کہ آپ دم بخود رہ جاتے ہیں اور آنکھوں میں نمی پھیل جاتی ہے۔

فلم The Boy in Striped Pajamas اسی نام کے ناول پہ مبنی ہے جو سن دوہزار چھ میں شائع ہوا۔ آئرش مصنف جان بائنے کی تخلیق ہے جو شائع ہوتے ہی دنیا بھر میں مشہور ہو گیا۔

فلم دوسری جنگ عظیم میں جرمنی کے نازی کیمپوں میں بد ترین نسل کشی اور بربریت کو انوکھے انداز میں پیش کرتی ہے۔ یہ یہودیوں پر ہونے والے ظلم کی داستان ہے جسے ہم ایک بچے کی آنکھ سے دیکھتے ہیں۔



یہ ایک آٹھ سالہ برونو کی کہانی ہے جس کا والد نازی کیمپ میں کمانڈنٹ تعینات ہے۔ اسے معلوم نہیں کہ کیمپ میں قید لوگوں پہ کیا کیا ظلم ڈھائے جاتے ہیں۔ اپنے گھر کی کھڑکی سے دور کیمپ میں پھرتے قیدیوں کو دیکھ کے سوچتا ہے کہ شاید یہ محنت کش کسان ہیں جو کھیتوں میں کام کرتے پھرتے ہیں۔

برلن سے آکر دیہاتی علاقے میں رہنا اسے پسند نہیں۔ نہ باہر جانے کی اجازت نہ کوئی گھر میں کھیلنے والا دوست۔ اس کے سبھی دوست تو برلن میں ہی رہتے تھے۔ وہ تنہائی کا شکار ہے اور اداس سا پھرتا رہتا ہے۔ ایک دن گھر کی دیوار پھلانگ کر جنگل میں نکل جاتا ہے اور کیمپ کی خاردار باڑ تک جا پہنچتا ہے۔

باڑ کے پار آٹھ سالہ سیموئیل سے بات چیت ہوتی ہے جو اپنے والد کے ساتھ قید ہے۔ دونوں دوست روز ملنے لگتے ہیں۔ برونو سیموئیل کے لیے کھانے کی چیزیں اور کھیلنے کے لیے گیند اور بورڈ بھی لے آتا ہے۔ دونوں ایک دوسرے سے گپ شپ کرتے ہیں۔ دونوں معصوم بچے نہیں جانتے کہ کیمپ میں کیسے لوگوں کا قتل عام کیا جاتا ہے۔



ایک دن سیموئیل پریشان ہوتا ہے۔ کہتا ہے کہ میرا والد مارچ کرنے گیا اور نہ جانے کہاں کھو گیا۔ وہ نہیں جانتا کہ اس کے والد کو گیس چیمبر میں ہجوم کے ساتھ راکھ کر دیا گیا۔

برونو اس کے والد کی تلاش میں مدد کرنا چاہتا ہے۔ سیموئیل اس کے لیے دھاری دار وردی اور ٹوپی لاتا ہے جو برونو پہن کر باڑ کے نیچے سے زمین کھود کر کیمپ میں چلا جاتا ہے۔ جہاں برونو اور سیموئیل ایک ہجوم کے ساتھ ہی گیس چیمبر میں ٹھونس دیے جاتے ہیں اور بھسم ہو جاتے ہیں۔

معصوم بچوں کا گیس چیمبر میں جلنا یہ ظاہر کرتا ہے کہ جرمنی میں معصوم لوگوں کی نسل کشی انسانیت کے لیے شرمناک عمل تھا۔ کسی خاص کمیونٹی سے تعلق رکھنا کون سا جرم ہے؟

برونو اور سیموئیل امن اور محبت کی علامت ہیں جو محبت، دوستی اور ایک دوسرے کا خیال رکھنے پہ یقین رکھتے ہیں۔ دونوں بچے خوبصورت احساسات کے مجسمے ہیں۔ انسانوں کے تعلقات ان بچوں کے رشتے ایسے ہونے چاہیے۔

فلم سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ فطرت انسان کو خوبصورت پیدا کرتی ہے۔ معصوم اور محبت کرنے والا۔ جیسے انسان بڑا ہوتا ہے اس میں نفرت اور بے جا غرور جیسے گھٹیا جذبے پیدا ہو جاتے ہیں۔ وہ خطرناک درندہ بن جاتا ہے۔ کیا عقل انسان کے لیے مسائل پیدا کرتی ہے؟ یہ سوال جنم لیتا ہے۔

برونو کا باپ کیمپ میں قیدیوں کے قتل میں براہ راست ملوث ہوتا ہے۔ اس کا اپنا بیٹا بھی اسی ظلم کا شکار ہو جاتا ہے۔ ظلم جنگل کی آگ کی مانند ہوتا ہے جس کی لپیٹ میں سب کچھ راکھ ہو جاتا ہے۔

فلم کے آخر پہ برونو کے باپ کی چیخ نازی کیمپوں میں زندہ جلائے جانے والے ہر قیدی کی پکار ہے۔

گیس چیمبر سے بدبودار دھواں اٹھتا رہتا ہے۔ انسانی جسموں اور ہڈیوں کے جلنے سے پیدا ہونے والا دھواں۔

فضا میں برونو اور سیموئل کے معصوم جسموں کی سڑاند دراصل اس درندگی کا نتیجہ ہے جو دوسری جنگ عظیم میں جرمنی کی تاریخ کا سیاہ باب بنی۔ آٹھ سالہ بچوں کے جذبے کتنے پاکیزہ تھے۔ ان کی دوستی کتنی سچی تھی۔ ان کے احساسات کتنے خوبصورت تھے۔ وہ سب نفرت کی آگ میں راکھ ہو گئے۔ فلم ہمارے اندر بسی نفرت کی چنگاری کو گلزار بنانے کی سعی کرتی ہے۔

فلم نہایت متاثر کن ہے۔ دیکھنے کے قابل ہے۔

لاجواب لکھا ہے
 

م حمزہ

محفلین
غیر یہود اقوام کایہودیوں سے متعلق انہی شدت پسند نظریات و رویوں کی وجہ سے یہودی ریاست اسرائیل کا قیام ناگزیر تھا۔ اور یہی وجہ ہے کہ اسرائیل کا وجود آپ یہود مخالفین کواتنا کھٹکتا ہے۔ کیونکہ آپ کو اچھی طرح معلوم ہے کہ یہودیوں کو اسرائیل کے علاوہ تمام ممالک میں اقلیت ہونے کی وجہ سے ختم کیا جا سکتا ہے۔ لیکن یہود اکثریت اسرائیل میں ایسا ممکن نہیں۔ اسی لیے آپ لوگ اسرائیل کا خاتمہ چاہتے ہیں۔
فلسطینیوں کی حمایت کے پیچھے دراصل اسرائیل کا خاتمہ مقصود ہے۔
جاسم بھائی! آپ کو یہودیوں سے اتنی شدت اور گہرائی سے محبت کیوں ہے؟؟؟
 

جاسم محمد

محفلین
جاسم بھائی! آپ کو یہودیوں سے اتنی شدت اور گہرائی سے محبت کیوں ہے؟؟؟
جب کسی کو قریب سے جانے بغیر محبت نہیں ہو سکتی تو نفرت کیسے ہو سکتی ہے؟
ملک میں کتنے فیصد لوگ ہیں جن کے روز مرہ کے حلقہ احباب میں یہودی باشندے شامل ہیں؟
پاکستان میں یہودی 80 کی دہائی تک موجود تھے جو کہ اب مکمل ناپید ہو چکے ہیں۔
No more in Karachi - DAWN.COM
یوں یہودیوں سے متعلق جو بھی تاثر باقی ہے وہ سیدھا اسرائیل مخالف عرب میڈیا سے آ رہا ہے۔ یا ان روایات سے جو تاریخ اسلام میں یہودیوں سے متعلق درج ہیں۔ جنہیں دور حاضر کے یہود پر زبردستی چسپاں کرکے غلط تاثر قائم کر نے کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔
آپ یہود سے نفرت کریں یا محبت۔ البتہ پہلے ان کو ایک بار بہت قریب سے جاننے کا موقع ضرور دیں۔
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top