دھاری دار پاجامے والا لڑکا

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

سید عمران

محفلین
یعنی 22 عرب ریاستیں قبول ہیں۔ ایک یہودی ریاست قبول نہیں۔ ٹھیک!!!
AvsI.jpg
سو فیصد ٹھیک!!!
 

م حمزہ

محفلین
تو پھر مسئلہ یہودیوں میں نہیں آپ میں ہے کہ عربوں / مسلمانوں کی 22 ریاستیں پا کر بھی خوش نہیں ہیں۔ جبکہ یہودی ایک چھوٹی سی ریاست میں بھی خوش و خرم ہیں۔
یہودی بالکل بھی خوش نہیں ہیں۔ بلکہ گریٹر اسرئیل کی کوشش میں لگے ہیں۔ اتنا ہی نہیں ! بلکہ جہاں جہاں مسلمان رہتے ہیں ان کا صفیا یا کرنے کی مذموم و ناکام کوشش میں دن رات لگے رہتے ہیں۔ چاہے بھارت ہو، پاکستان ہو یا کشمیر ہو یا فلسطین یا اور کوئی ملک۔
 

جاسم محمد

محفلین
یہودی بالکل بھی خوش نہیں ہیں۔ بلکہ گریٹر اسرئیل کی کوشش میں لگے ہیں۔
۱۹۶۷ میں ۶ روزہ جنگ کے بعد اسرائیل نے مصر، شام، لبنان اور اردن کا ایک بڑا علاقہ اپنے قبضہ میں لے لیا تھا۔ البتہ ہمسایوں سے قیام امن کی خاطر ان میں سے بہت سے علاقے واپس کر کے مصر اور اردن سے امن معاہدہ ہو چکا ہے۔
باقی رہ گئے لبنان، شام اور فلسطین تو وہ بھی جب اسرائیل سے جنگ بند کر دیں گے تو ان کے مقبوضہ علاقے واپس کر دئے جائیں گے۔ لیکن شرط وہی مصر اور اردن والی ہوگی کہ پہلے اسرائیل سے امن معاہدہ کریں
8018-E1-D9-7799-41-B2-98-BE-C6-AAFAC49-D6-F.jpg
 

سید عمران

محفلین
تو پھر مسئلہ یہودیوں میں نہیں آپ میں ہے کہ عربوں / مسلمانوں کی 22 ریاستیں پا کر بھی خوش نہیں ہیں۔ جبکہ یہودی ایک چھوٹی سی ریاست میں بھی خوش و خرم ہیں۔
شر تھوڑا سا ہو تو بھی ناقابل قبول ہے...
جبکہ یہ تو فتنہ عظیم ہے!!!
 
کجھوروں والی سرزمین پر یہودی قبیلوں کی آمد اسلام کے آنے سے بہت پہلے کی ہے اور اسلام یا مسلمانوں سے ان کی ٹسل بھی اس وقت سے جاری ہے۔ لیکن یہودیوں نے ایسا کیا کیا کہ جرمن مسیحیوں نے لاکھوں کی تعداد میں مختلف طریقوں سے مار دئیے۔ پائین ذرا اس پر بھی تھوڑا بہت یہودانہ اندھیرا ڈالیے۔
 

فاخر

محفلین
کجھوروں والی سرزمین پر یہودی قبیلوں کی آمد اسلام کے آنے سے بہت پہلے کی ہے اور اسلام یا مسلمانوں سے ان کی ٹسل بھی اس وقت سے جاری ہے۔ لیکن یہودیوں نے ایسا کیا کیا کہ جرمن مسیحیوں نے لاکھوں کی تعداد میں مختلف طریقوں سے مار دئیے۔ پائین ذرا اس پر بھی تھوڑا بہت یہودانہ اندھیرا ڈالیے۔
جاسم محمد ذرا اس پر بھی ’’اندھیر‘‘ ڈالیں ! آپ کا کانا خدا آپ کا بھلا کرے !
 

فاخر

محفلین
مذہبی انتہا پسندی پر بات کرنے کا یہ مطلب نہیں کہ فلاں شخص قادیانی /یہودی ہے۔
قادیانیوں میں بھی دیگر مذاہب کی طرح کٹر انتہا پسند پائے جاتے ہیں جو مرزا مسرور کے پاؤں دھود ھو کر پیتے ہیں۔

مذہبی انتہا پسندی یہ ایک حیلہ ہے اسلام کو نشانہ بنانے کے لیے کہ اگر کوئی شخص اپنے دین متین پر تصلب کا اظہار کرے اور ملعون نجس العین کی چکنی چپڑی باتوں میں نہ آئے تو وہ شدت پسند ہے ۔ لاحول ولا قوۃ الحمد للہ ہم اپنے دین متین پر کمزور ایمان کے ساتھ ہی سہی ؛لیکن تصلب و سختی سے جمے ہیں اور اسی کو اپنے لیے سامانِ بخشش سمجھتے ہیں ۔ ہمارے دامن میں کوئی اچھائیاں تو نہیں ہیں ؛لیکن عشق محمدﷺ کا سرمایہ ہے ان کے پاک نام کی حرمت و عظمت کا احساس باقی ہے ۔ اگر کوئی اس تصلب کو شدت پسندی سمجھے تو سمجھے ان کی اس سمجھ کو ہم اپنی جوتیوں کے نوک پر رکھ کر فضاؤں میں اچھالتے ہیں ۔
 

جاسم محمد

محفلین
۔ لیکن یہودیوں نے ایسا کیا کیا کہ جرمن مسیحیوں نے لاکھوں کی تعداد میں مختلف طریقوں سے مار دئیے۔
سام دشمنی
لفظ سام دشمنی سے مراد یہودیوں کے خلاف تعصب یا نفرت ہے۔ ہالوکاسٹ یعنی نازی جرمنی اور اس کے حلیفوں کی طرف سے 1933 سے 1945 کے دوران ریاستی سرپرستی میں یورپی یہودیوں پر ہونے والا ظلم و ستم اور قتل عام سام دشمنی کے حوالے سے تاریخ کی سنگین ترین مثال ہے۔ سام دشمنی کی اصطلاح 1879 میں جرمن صحافی ول ھیم مار نے تخلیق کی جس سے مراد یہودیوں سے نفرت کے علاوہ یہودیوں سے منصوب مختلف لبرل کاسماپولیٹن اور اٹھارویں اور اُنیسویں صدی کے عالمی سیاسی رجحانات سے نفرت کا اظہار ہے۔ جن رجحانات پر نکتہ چینی کی جاتی تھی اُن میں شہری حقوق، آئینی جمہوریت، آزاد تجارت، سوشلزم، فنانس، سرمایہ داری اور عدم تشدد کے نظریات شامل تھے۔

تاہم یہودیوں سے مخصوص نفرت جدید دور اور سام دشمنی کی اصطلاح کے رائج ہونے سےپہلے موجود تھی۔ تمام تر تاریخ کے دوران سام دشمنی کے اظہار کے عام ترین رویوں میں پوگروم یعنی یہودیوں کے خلاف تشدد آمیز فسادات تھے۔ سرکاری حکام اکثر ایسے اقدامات کی حوصلہ افزائی کرتے رہتے تھے۔ اکثریہ تشدد آمیز فسادات اس لئے ہوئے کیونکہ یہودیوں کے متعلق یہ جھوٹی افواہیں پھیلا دی گئیں کہ وہ لوگ اپنے دینی مقاصد میں عیسائی بچوں کا خون استعمال کرتے ہیں۔

جدید دور میں سام دشمنوں نے اپنی نفرت کے نظرئیے میں سیاسی جہت کا بھی اضافہ کر دیا۔ اُنیسویں صدی کی آخری تہائی کے دوران جرمنی، فرانس اور آسٹریا میں یہود دشمن سیاسی جماعتیں تشکیل دی گئیں۔ "پروٹوکول آف دی ایلڈرلی آف زائیون" جیسی تصنیفات نے ایک بین الاقوامی یہودی سازش کے فراڈ پر مبنی نظریات کیلئے حمایت فراہم کی۔ سیاسی سام دشمنی کا ایک اہم حصہ قوم پرستی تھا جس میں اکثر یہودیوں کی غیر وفادار شہریوں کے طور پر مذمت کی جاتی تھی۔

اُنیسویں صدی کی غیر ملکیوں سے خوف پر مبنی قومی اور نسلی تحریک "والکِش تحریک" (لوک یا عوامی تحریک) جرمن فلسفیوں، دانشوروں اور فنکاروں پر مشتمل تھی جو یہودی روح کو جرمن قوم کیلئے اجنبی خیال کرتے تھے اور اُنہوں نے یہودی نظرئیے کو غیر جرمن ہونے کی حیثیت سے متعارف کرایا تھا۔ نسلی بشریات کے نظریہ سازوں نے اِس تصور کیلئے جعلی سائینسی جواز فراہم کیا۔ نازی پارٹی کو 1919 میں قائم کیا گیا اور اِس کی قیادت ایڈولف ہٹلر نے سنبھالی۔ نازی پارٹی نے نسل پرستی پر مبنی نظریات کو سیاسی اظہار دیا۔ نازی پارٹی نے اپنی مفقبولیت جزوی طور پر یہود مخالف پراپیگنڈے کی تشہیر کی بنیاد ہر ہی حاصل کی۔ لاکھوں افراد نے ہٹلر کی کتاب "مائین کیمپف" (یعنی میری جدوجہد) خریدی جس میں یہودیوں کو جرمنی سے خارج کر دینے پر زور دیا گیا۔

حاجی امین الحسینی کی ہٹلر سے ملاقات
اس جرمن پروپیگنڈہ نیوزریل میں یروشلم کے سابق مفتی اعظم حاجی امین الحسینی، جو ایک عرب قوم پرست اور ممتاز مسلمان مذہبی رہنما تھے، پہلی بار ہٹلر سے ملاقات کرتے ہیں۔
mufti.jpeg

سلطنت کی چانسلری میں منعقدہ اس ملاقات کے دوران ہٹلر نے ایک عوامی بیان دینے یا ایک خفیہ مگر رسمی معاہدہ طے کرنے کے بارے میں الحسینی کی درخواست ماننے سے انکار کر دیا- اس معاہدے میں جرمنی کو درج ذیل باتوں کا عہد کرنا تھا: 1) عرب زمین پر قبضہ نہ کرنے کا عہد، 2) آزادی کے لیے عرب جدوجہد کو تسلیم کرے گا، اور 3) فلسطین میں مجوزہ یہودی وطن کو "ہٹانے" کی حمایت کرے گا۔ ہٹلر نے تصدیق کی کہ "فلسطین میں ایک یہودی وطن کے خلاف جدوجہد" یہودیوں کے خلاف اُن کی جدوجہد کا حصہ رہے گی۔ ہٹلر نے کہا کہ: وہ "یہودی کمیونسٹ یورپی سلطنت کی مکمل تباہی تک اپنی جدوجہد جاری رکھیں" گے؛ اور جب جرمن افواج عرب دنیا کے بالکل قریب پہنچ جائیں گی تو جرمنی عرب دنیا کیلئے ایک یقین دہانی جاری کرے گا کہ "آزادی کا لمحہ اب اُن کی مُٹھی میں ہے۔" اس کے بعد الحسینی کی ذمہ داری ہو گی کہ "وہ عرب کارروائی سرانجام دینے کی تیاری کریں جو اُنہوں نے خفیہ طور پر تیار کی ہے"۔ فیوہرر یعنی جرمن رہنما نے کہا کہ جرمنی عربوں کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کرے گا اور جرمن مقصد صرف "اس وقت برطانوی اقتدار کے تحفظ کے ماتحت رہنے والے یہودیوں کا مکمل خاتمہ ہو گا۔"

مکمل نقل
جرمن رہنما نے یروشلم کے مفتی اعظم سے ملاقات کی جو عرب قوم پرستی کے سب سے زیادہ بااثر افراد میں سے ایک تھے۔ مفتی اعظم بیک وقت فلسطین میں عربوں کے مذہبی رہنما اور ان کے سب سے بڑے منصف اعلیٰ اور مالیاتی منتظم تھے۔ اُن کی قوم پرستی کی وجہ سے انگریزوں نے انہیں بری طرح پریشان کیا اور اُن کے سر کی قیمت 25,000 پاؤنڈ لگا دی۔ اُن کا مہم جوئی سے پر سفر اُنہیں اٹلی سے جرمنی لے آیا۔

1933 میں نازیوں کے اقتدار پر قبضے کے ساتھ پارٹی نے یہود مخالف اقتصادی بائیکاٹ کا حکم دیا۔ کتابوں کو نذر آتش کیا اور تعصب پر مبنی یہود مخالف قانون سازی کی۔ 1935 میں نیورمبرگ قوانین نے نسلی بنیادوں پر "خون" کے حوالے سے یہودیوں کی توجیح کی اور آرین اور غیر آرین کے درمیان مکمل علیحدگی کا حکم دیا اور یوں نسلی تعصب پر درجہ بندی کو قانونی حیثیت دے دی۔ 9 نومبر 1938 کی شب نازیوں نے یہودی عبادت گاہوں (سناگاگز) کو تباہ کر دیا۔ (اِس اقدام کو کرسٹک ناخٹ پوگروم یا ٹوٹے شیشے کی رات کہا جاتا ہے)۔ اِس واقعے سے تباہی کے دور کی طرف سفر کا آغاز ہو گیا جس میں قتل و غارتگری نازیوں کی یہود دشمنی کا واحد نقطہ ارتکاز بن گئی۔
 

جاسم محمد

محفلین
یار میں نے براہ راست کہا کہ :’ قادیانیت کی نجاست کے متعلق راست طور پر مجھ سے بات کریں قسم اس خدا کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے ،اگر دن میں تارے نہ دکھادیئے تو میں دیوبند کا بیٹا نہیں ۔ پھر میں کہتا ہوں کہ اگر قادیانی کو اپنے جوتیوں پر ناک رگڑنے پر مجبور نہ کردیا تو میں حجۃ الاسلام قاسم نانوتوی ، علامہ انورشاہ کشمیری ،حضرت پیر مہر علی گولڑہ شریف کی روحانی اولاد نہیں !!!!
آپ بڑے ہو کر شہباز شریف بنیں گے :)
 

فاخر

محفلین
آپ بڑے ہو کر شہباز شریف بنیں گے :)
آپ نے غلط گمان کرلیا میں بڑا بن کر سید المرسلین ، امام الانبیاء شہنشاہ کونین محمدعربیﷺ کے غلاموں کے غلاموں کی غلامی کروں گا ۔
میری زندگی کا مقصد تیرے (محمدﷺ)دیں کی سرفرازی
میں اسی لیے مسلماں میں اسی لیے نمازی !
 

جاسم محمد

محفلین
جاسم محمد ذرا اس پر بھی ’’اندھیر‘‘ ڈالیں !
کشمیر، برما، چین، بوسنیا وغیرہ کے بے گناہ مسلمانوں نے آخر ایسا کیا کر دیا تھا جو ان پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ دئے گئے / توڑے جا رہے ہیں؟
اس سوال کے جواب میں ہٹلر کی یہود دشمنی پوشیدہ ہے۔
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top