Microsoft Academic Day 13-14 December 2005

اکبر سجاد

محفلین
بنی گالا سے گالا ڈنر تک
مائیکروسافٹ کے ایام علمی (یام دراسیہ) اردو پاک نستعلیق فانٹ کی پیش کش
ڈاکٹر عطش درانی

مائیکروسافٹ کی ونڈوز اور آفس کو اردو میں تبدیل کر کے کمپیوٹر سکرین کو اردو میں بدلنے کا خواب تو پورا ہو چلا تھا مگر یہ خبر اچانک ملی کہ مائیکروسافٹ نے دوحہ (قطر) میں ساحل سمندر کے پاس اپنے پارٹنر اور رفیقان کار کو گالا ڈنر پر جمع کرنے کا اہتمام بھی کر رکھا ہے۔ ٹکٹ اور ویزا آ رہا ہے پاسپورٹ دکھلائیں، نہیں تو اس کا نمبر ہی بھجوا دیں۔
تین چار روز میں 1976ء میں بنے ہوئے پاسپورٹ کو نئے مشینی پاسپورٹ میں بدلنے کا کام جس طرح سے اکبرسجاد کی معاونت سے جھٹ پٹ ہو گیا، اس کا ذکر طوالت چاہتا ہے۔ مائیکروسافٹ (کراچی دفتر) کے جواد الرحمان اور وقار خمیسانی ویزے اور ٹکٹ کا اہتمام کر رہے تھے اور بڑے خلوص سے ملک بھر سے اپنے رفیقوں اور ساتھیوں کو جمع کرنے میں لگے تھے۔
آن لائن ویزا کی ایک چٹ پرنٹر سے نکال لی تھی اور میں ہاتھ میں خالی پاسپورٹ اور ٹکٹ لیے اپنے گھر بنی گالا سے گالا ڈنر تک جانے کے لیے نکل کھڑا ہوا۔ مقتدرہ کے صدرنشین پروفیسر فتح محمد ملک اور سیکرٹری کابینہ ڈویژن جناب اعجاز رحیم نے کمال مہربانی سے میرا اس کانفرنس میں جانا ضروری سمجھا کہ جہاں کمپیوٹر سے وابستہ تعلیمی، تحقیقی اور کاروباری اداروں کی نمائندگی ہو رہی ہے، وہیں اردو کا یہ ادارہ بھی اپنی بساط بھر کاوشیں میری وساطت سے بروئے کار لا سکے۔
مائیکروسافٹ نے 13، 14 دسمبر 2005ء کے دو ایام "ایامِ علمی" (Academic Days) کے نام پر مختص کیے تھے اور مشرق وسطی اور افریقہ سے کمپیوٹر سے وابستہ اہل علم و فن کو میریٹ ہوٹل دوحہ (قطر) میں جمع کر لیا تھا۔
اسلام آباد ایئر پورٹ پر علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے ڈاکٹر نذیر سانگھی اور NUSTکے ڈاکٹر ارشد علی ساتھ آن ملے۔معیار بندی کے لیے مقتدرہ قومی زبان کی کمیٹی USTC میں یہ لوگ کب سے ہمارے ساتھی تھے اور کمپیوٹر سائنس کے ساتھ ساتھ اردو میں بھی ہماری کوششوں میں معاون بنے ہوئے تھے۔
ایسے ہی ہمارے ایک اور ساتھی پشاور یونیورسٹی کے ڈاکٹر عابد خان ہیں جو مشین ٹرانسلیشن کے میدان میں نام رکھتے ہیں۔ وہ بھی ہمراہ ہوئے۔ کامسیٹ کے ڈاکٹر طارق بھی امارات کی اسی فلائٹ پر تھے۔ دوبئی پہنچے تو مائیکروسافٹ کراچی کے وقار خمیسانی کراچی اورسندھ کے بہت سے نمائندوں سمیت دوحہ کی فلائٹ میں آن ملے۔ ان میں سے ڈاکٹر ارشد صدیقی کو مائیکروسافٹ کی "پاکستان کاری" کے موضوع پر مقالہ پڑھنا تھا۔
دوحہ ایئر پورٹ پر پاکستان سے آنے والے سبھی نمائندے جمع تھے اور مائیکروسافٹ ہی کے باعث جلد ہی وہاں سے فارغ ہو کر ہوٹل فور سیزن کی طرف رواں دواں تھے۔
اسی رات میریٹ ہوٹل میں ایک استقبالیہ تھا، عرب ممالک اور افریقہ سے آئے ہوئے کئی مندوبین سے وہیں ملاقات ہوئی اور معلوم ہوا کہ زیادہ تر پروفیسر اور اہل علم جمع ہیں جو کمپیوٹر کے نئے چیلنجوں کا جائزہ لینے اور مستقبل میں اپنے نصابات کا رخ موڑنے کے لیے بیتاب ہیں۔
استقبالیہ سے ابھی فارغ ہوئے ہی تھے کہ قطر میں پاکستان آرٹ سوسائٹی کے سیکرٹری جنرل عدیل اکبر اور ان کے ساتھی سید عاصم جاوید مجھے تلاش کرتے ہوئے میریٹ ہوٹل آن پہنچے۔ حوالہ پروفیسر فتح محمد ملک ہی کا تھا مگر ایک اور باہمی حوالہ اردو زبان ہے،جو قطر کی ادبی فضا میں ایک مشترک عنصر کی حیثیت رکھتی ہے۔ عدیل اکبر مدتوں سے پاکستان اور بھارت سے آنے والے عالموں ، ادیبوں اور شاعروں کی پذیرائی کر رہے ہیں اور نہ صرف علمی ادبی تقریبات کا اہتمام کرتے ہیں بلکہ فنون اور ثقافت کے فروغ میں بھی قابل قدر کردار ادا کرتے ہیں۔ ان کے ہم خیال دوستوں کی یہ جماعت 1986ء سے پاکستان سے دانشوروں، ادیبوں اور شاعروں کو مدعو کر کے پاکستانیت اور اردو کے فروغ کے لیے کوشاں ہیں۔
شب بھر دوحہ کے ساحل سمندر کی سیر کرتے کرتے ہم پاکستانی ہوٹل شیزان جا پہنچے۔ پاکستان سے آنے والے اکثر ادیبوں اور شاعروں کا ٹھکانا اسی ہوٹل میں ہوتا ہے اور اس کے لاہوری مالک جناب جمشید اقبال کی ادب نوازی اور سخن فہمی کا تو کیا ہی کہنا۔ باتوں اور سیخ کبابوں کی خوشبو بھی جاری تھی اور قطر کی ادبی فضاؤں کے رنگ بھی ہویدا تھے۔ میرے میزبانوں نے مجھے اس وقت تک اپنے ہوٹل میں جا کر کچھ دیر کمر سیدھی کرنے کی اجازت نہ دی جب تک یہ وعدہ نہ لے لیا کہ مائیکروسافٹ کی میزبانی سے فارغ ہو کر دوحہ کے اردو ادیبوں اور شاعروں سے ملاقات کا کچھ وقت نہیں نکال لیتا۔
ایام علمی کا افتتاح جسے عربی میں "ایام دراسیہ" کہا گیا تھا، 13۔ دسمبر 2005ء کو ٹھیک نو بجے صبح میریٹ ہوٹل کے ہال میں ہوا۔ قطر یونیورسٹی کے شیخ ڈاکٹر شیخا مسناد کے کلیدی خطبے کے بعد مائیکروسافٹ کے ماریشیو اولار گوئی اور رام راجو نے مائیکروسافٹ کے آئندہ پروگراموں اور ای اکیڈمی ELMS کے بارے میں معلومات فراہم کیں۔ مائیکروسافٹ کے مڈل ایسٹ اور افریقہ کے منیجر جناب رضوان طفیل نے مشرق وسطی اور افریقی علاقوں میں مائیکروسافٹ کی ترجیحات پر روشنی ڈالی۔ الیگزینڈر ہولی نے بتایا کہ نئے وژوئل سٹوڈیو 2005ء میں نیا کیا ہے اور ونڈوز وسٹا میں انھوں نے کیا کمال دکھایا ہے۔ اس روز متعدد مقالے پڑھے اور سنے گئے۔ باتیں یہ سمجھ میں آئیں کہ اب پرانے کمپیوٹر قصہ پارینہ ہو رہے ہیں جو 32 بٹ پر چل رہے تھے اور نئے آلات 64 بٹ پر آ گئے ہیں جو 2009ء میں 128 بٹ پر چلے جائیں گے اور یوں ہر شخص کا ذاتی سپر کمپیوٹر وجود میں آ جائے گا کیونکہ ونڈوز کا کلسٹر سرور بھی آ چکا ہے، اور مائیکروسافٹ کے تمام سافٹ ویئر اس میں یکجا ہو چکے ہیں۔
اس رات ہوٹل فور سیزن میں مائیکروسافٹ کی طرف سے گالا ڈنر کا اہتمام تھا۔ مندوبین کے علاوہ قطر کے اعلی طبقے اور عرب و افریقہ کے متعدد معززین مدعو تھے۔ عربی اور دوسری ڈشوں کا وسیع تر اہتمام تھا۔ اک ہم پاکستانیوں کے علاوہ باقی افراد انتخاب اور اختصاص ہی سے داد ہنر دیتے ہوئے پائے گئے۔ ابھی گالا ڈنر سے فارغ ہوئے ہی تھے کہ جناب عدیل اکبر اور سید عاصم جاوید پھر سے ہماری پذیرائی کو آن موجود ہوئے۔ ان کے ہمراہ ہمایوں رشید اور محمد ممتاز راشد جیسے بڑے سخن فہموں کے ساتھ کچھ وقت گزارنے کا موقع ملا۔
اگلے روز تقریب حسب معمول جاری تھی پر ہمارے پلے تو اتنا پڑا کہ جہاں سافٹ ویئر اور کمپیوٹروں پر وائرس کا حملہ ہوتا ہے وہیں کمپیوٹر سائنس کی دنیا کو ایک بھڑمانس (Were Wolf) سے بھی واسطہ پڑتا ہے جو چودھویں کی رات کو نصف شب اچھے بھلے انسان سے حیوان (بھیڑیے) میں تبدیل ہو جایا کرتا ہے۔ اس سے واسطہ اس علم کے طلبہ اور اساتذہ کو بہت پڑتا ہے۔ اس سے ہم کو بچ کر رہنا ہے۔ خوف اتنا بڑھا کہ میں نے سید عاصم جاوید کو ندا دی کہ چلو کہیں باہر سے ہو آئیں۔
طے یہ ہوا تھا کہ قطر یونیورسٹی کے مختلف شعبے دیکھے جائیں گے۔ سید عاصم جاوید کے ساتھ یونیورسٹی کا رخ کیا تو معلوم ہوا کہ وہاں آئی ٹی کے شعبے کی صدارت بھی ایک پاکستانی کے پاس ہے۔ پروفیسر محمد جاوید فیصل آباد کے رہنے والے ہیں اور قطر یونیورسٹی کے انسٹرکشنل اور انفارمیشن ٹیکنالوجی مرکز کے ڈائریکٹر ہیں۔ کچھ وقت ان کے پاس گزارنے سے معلوم ہوا کہ مائیکروسافٹ کے پروگرام عربی میں منتقل کرنے میں مقامی عربوں کا ہاتھ اتنا زیادہ نہیں جتنا امریکی عربوں اور مصر، دوبئی کے بعض تجارتی اداروں کا ہے۔ اردو کے لیے مقتدرہ قومی زبان کی طرز پر کسی قومی ادارے نے کمپیوٹر سکرین کو عربی میں بدلنے کی کوئی خاطر خواہ کوشش نہیں کی۔ عربوں کے سیاہ سونے کی قوت نے خود بخود ہی یہ کام کروا دیا ہے۔
واپس ہوئے تو سید عاصم جاوید کی دعوت پیزا سے سیر ہو کر ہوٹل میریٹ میں ڈاکٹر ارشد صدیقی کا مقالہ سنا۔ عنوان تھا "جونیئر ڈویلپر کری کولم" یعنی چھوٹوں کے نصاب کی پاکستان کاری۔ لب لباب یہ تھا کہ نویں دسویں جماعت کے طلبہ کے لیے مائیکروسافٹ کے نصاب کو مقامی ناموں، تصویروں اور واقعات کی صورت میں بدل کر پیش کیا جا رہا ہے۔ گفتگو یہاں تک بڑھی کہ مقتدرہ کی اردو کے لیے کاوشیں اب اس رخ کو مجبور کر رہی ہیں کہ یہ جونیئر نصاب بھی اردو میں بدل دیا جائے اور یوں اردو میں کمپیوٹر کی تربیت کا آغاز ہو جائے۔
ایک گروہ میں یہ بھی زیر بحث آیا کہ اگر کمپیوٹر سکرین اردو میں بدل دی گئی ہے تو اردو کے ونڈوز اور آفس کے لیے عربی یعنی نسخ فانٹ کیوں استعمال کیا جا رہا ہے؟ نستعلیق کیوں نہیں۔ مائیکروسافٹ کا کہنا تھا کہ اردو میں ابھی تک ایسا کوئی نستعلیق فانٹ نہیں آیا جو کمپیوٹنگ کے تقاضے پورے کرتا ہو۔ اب تک وجود میں آنے والے اردو نستعلیق فانٹ بہت عمدہ ہیں لیکن صرف کمپوزنگ کے کام آتے ہیں اور دنیاکی فانٹ لسٹ میں شامل نہیں ہو پاتے۔
اس کا ایک سبب عالمی یونی کوڈ اور مائیکروسافٹ کی طرف سے طرف عربی کے لیے سپورٹ/ تعاون کا ہونا اور نستعلیق کے بعض فنی تقاضوں کے علی الرغم ایسی سپورٹ نہ ملنا بھی اس کا باعث ہے۔
اس حاصل بحث کو اس وقت ٹوٹ کر بکھرنا پڑا جب مقتدرہ کی طرف سے بنائے گئے پاک نستعلیق فانٹ کی ایک جھلک دکھائی گئی کہ اب ایسا فانٹ بنا لیا گیا ہے جو ایسی تمام ضرورتیں پوری کرے گا اور صرف یہی نہیں بلکہ موجودہ نستعلیق فانٹوں کی نسبت نوے گنا زیادہ رفتار اور دو ہزار گنا کم جگہ گھیرنے کے باعث قابل استعمال ہوگا۔ صرف یہی نہیں کہ اس سے تمام ایپلی کیشنز نستعلیق میںکی جا سکیں گی اور یوں اردو فانٹ دنیا بھر کے کمپیوٹر پر موجود ہوگا بلکہ یہ فانٹ مکمل ترقیمے (Ligature) کی بجائے حرف کی شکلوں کے بنیادی اجزاءاور نقطوں سے مل کر حروف اور الفاظ بناتا ہے۔ جس سے اردو کے علاوہ پشتو، سندھی، بلوچی، سرائیکی وغیرہ بھی لکھی جا سکیں گی تو مائیکروسافٹ نے اس فانٹ پر اپنی ٹیسٹ رپورٹ/ تجزیاتی جائزہ دینے کا وعدہ کیا۔
اس کامیابی پر پھولے نہ سماتے ہوئے جب شام کو اپنے ہوٹل کا رخ کیا تو عدیل اکبر اور عاصم جاوید وہاں پہلے ہی موجود تھے اور فوری طور پر ہوٹل سے چیک آؤٹ کرا کے اپنے ہمراہ لے جانے کے لیے آ چکے تھے۔
ان سے عرض کیا کہ میری فلائٹ آج رات کو ہے جس کے لیے ایک بجے تک ایئرپورٹ پہنچنا ضروری ہے تو حکم ہوا کہ ایک ادبی محفل، ایک بین الاقوامی مشاعرہ، کھانا اور پھر ایک بجے تک ایئرپورٹ جا سکتے ہیں۔
قطبہ ہوٹل میں ایک ادبی نشست کا اہتما م تھا۔ طارق پرویز چغتائی صاحب صدر محفل تھے۔ پاک یوتھ سوسائٹی کے صدر قاضی محمد اصغر آج کے میزبان تھے۔ مدیر سہ ماہی "خیال و فن" کے مدیر جناب محمد ممتاز راشد سیکرٹری کے فرائض انجام دے رہے تھے۔ جناب عدیل اکبر نے شرکاءسے مجھے متعارف کرایا۔ سید عاصم جاوید، ہمایوں رشید، طاہر محمود چودھری،محمد اجمل چودھری، شہریار ہمایوں، انجینئر شوکت یوسفزئی، سعادت علی سعادت، منصور اعظمی، یوسف کمال، کلیم اسحاق، شوکت علی ناز، فیروز آفریدی، اجمل علی سرور اور عزیز رشیدی شرکاء میں سے قابل ذکر افراد تھے۔ پہلے اردو مشاعرہ شروع ہوا۔ جناب عزیز رشیدی لکھنوی نے آغاز کلام کیا:،منتخب اشعار پیشِ خدمت ہیں۔۔

سعادت علی سعادت (حیدر آباد۔ دکن)
بات اک لمحہ کی تھی آپ کو دینا تھا جواب
کٹ گئی عمر دلِ یاس کو سمجھانے میں

منصور اعظمی (اعظم گڑھ)
کوئی تو ہے جو سارے لوگوں کو
روٹی کپڑا مکان دیتا ہے

شوکت علی ناز (لاہور) جنرل سےکرٹری، بزمِ اُردو قطر، اِدارہ خیال و فن
کیوں روز سنا جاتا ہے نوحہ کوئی سورج
اک دن تو سنا دے ہمیں مژدہ کوئی سورج
یہ شوخ لباسی ہمیں اچھی نہیں لگتی!
ہم کو تو فقط چاہیئے سادہ کوئی سورج

یوسف کمال (حیدر آباد۔ دکن)
ہاتھوں کو یوں بڑھاؤ کہ دیوار گر پڑے
سر سے لرز کے کفر کی دستار گر پڑے

کلیم اسحاق(راولپنڈی) پرنسپل برائیٹ فیوچر پاکستانی سکول
دیدہ خواہش ہوں منظر چاہتا ہوں
خواب ہی ہو تیرا پیکر چاہتا ہوں
گنبد جاں میں کہاں تک غم رکھوں
ذات کی دیوار میں در چاہتا ہوں

امجد علی سرور (دربھنگہ۔بہار) صدر، بزمِ اُردو قطر
اتنے استعجاب و حیرانی کا اندازہ نہ تھا
قوت خاک و ہوا پانی کا اندازہ نہ تھا
ہم ردائے روشنیُ نو بہ نو اوڑھا کیے
آفتاب نو کی عریانی کا اندازہ نہ تھا

محمد ممتاز راشد (لاہور) چیئرمین بزمِ اُردو قطر، مدیر اعلیٰ سہ ماہی "خیال و فن " لاہور/دوحہ
دل کو بوجھل کر دیتی ہیں
پل میں جل تھل کر دیتی ہیں
یادوں کی سفاکی توبہ
یادیں پاگل کر دیتی ہیں

عزیز رشیدی لکھنوی (لکھنو) سرپرست، بزمِ اُردو قطر
محسوس کرو اور حقیقت سمجھو
جاتے ہوئے ہر لمحہ کی فطرت سمجھو
جا کر نہیں آتا کوئی واپس لمحہ
آتے ہوئے ہر لمحے کی عظمت سمجھو

راولپنڈی کے قاضی محمد اصغر نے اپنی نظم "آج"سنائی۔ فیروز آفریدی نے پشتو کلام سنایا۔
آخر میں مجھ سے بھی کلام سنانے کی فرمایش کی گئی۔ بنی گالا سے آنے والا کلام کیا کرتا۔ یہی عرض کیا کہ حضرت احسان دانش کے ہاں بیٹھنے والوں میں میں ضرور شامل ہوتا تھا مگر خوشہ چینی میں اردو زبان کا فہم پایا، شاعری کی طرف زیادہ متوجہ نہ ہو سکا۔ حاضرین کی فرمایش پر چند موزوں مصرعے اور پھر خاکہ "اماں سین" کا ایک حصہ پڑھ کر سنایا۔
اس ادبی نشست سے فراغت کے بعد میرے میزبان عدیل اکبر اور سید عاصم جاوید بنگالی چائے کے لیے ایک چائے خانہ کی طرف لے چلے۔ میں خوش کہ چلو مشرقی پاکستانیوں سے بھی ملاقات ہو جائے گی۔ وہاں دیکھا تو لکھا تھا "تالی ریستوران"۔ پوچھا یہ نام ایسا کیوں ہے؟ تو عدم واقفیت کا اظہار ہوا۔ دراصل یہ قطر میں تالی گنج (کلکتہ) کے بنگالیوں کا چائے خانہ تھا۔ تالی گنج میں ٹیپو سلطان کے شہزادوں کی اولاد اب ایسے ہی پیشوں اور ہنروں سے وابستہ ہے۔ بعض اردو شاعری بھی کرتے ہیں۔ اب نہ جانے اس ریستوران کا مالک ٹیپو کی انھی باقیات میں سے تھا یا نہیں،یہ جاننے کی حسرت میں دل ہی میں لیے ایئرپورٹ کا رخ کیا اور چھتیس گھنٹوں کی مسلسل تگ و دو کے بعد دوبئی، کراچی ہوتے ہوئے بنی گالا آن پہنچا۔ بنی گالا سے گالا ڈنر تک کا یہ سفر مائیکروسافٹ کے ساتھ ہمرکابی کی ایک اور سمت کا حصول تھا۔ ٭٭٭
 

نبیل

تکنیکی معاون
اکبر، زبردست۔ ہمیں تو معلوم ہی نہیں تھا کہ ڈاکٹر عطش درانی صاحب اتنا اچھا لکھتے بھی ہیں۔ اور یہ فتح محمد ملک وہی ہیں نا جو کہ نوائے وقت میں کالم بھی لکھتے ہیں؟
 
Top