Indoor Plant

زرقا مفتی

محفلین
بہت دن بعد ایک سادہ سی نظم آپ کی بصارتوں کی نذر

ٰٰان ڈور پلانٹ

میں کسی سرمائی پودے کی طرح
تیرے ہی سائے تلے رہتی ہوں
روشنی مجھ سے گریزاں کب سے ہے
کب سے محرومِ صبا ہے تن مرا
کب سے ساون میں نہیں بھیگا بدن
چاند کھڑکی سے بھی تکتا ہی نہیں
تارے آنگن میں اُترتے ہی نہیں

دیکھ اب سانسیں مری رکنے لگیں
اب نہیں باقی مرے تن میں لچک
زرد چہرہ ، ڈھل چکا ہے جوبن
جل رہی ہیں میرے تن کی شاخیں
جھڑ گئے ہیں برگ جتنے تھے ہرے

اپنے سائے کو ہٹا لے اب تو
آخری سانسیں ہوا میں لے لوں
پھول کی خوشبو کودل میںبھر لوں
اک نظر میں آسماں کو چھو لوں
چاند تاروں سے دو باتیں کر لوں
اب مجھے آزاد کرہی دے تُو

زرقامفتی
 

الف عین

لائبریرین
خیال بہت عمدہ ہے زرقا۔ لیکن آزاد نظم میں بھی ایک ہی بحر کا التزام رکھا جاتا ہے، تجربہ کیا بھی جائے تو کم از کم ایک حصے میں مکمل ایک ہی بحر کے اوزان ہونا چاہئے، اور دوسرے حصے میں ، بطور ایپی لاگ، دوسرے ارکان استعمال کئے جا سکتے ہیں۔ لیکن اس نظم میں گڑبڑ ہے اس لحاظ سے۔ کہیہں فاعلاتن فَعِلاتن فعلن ہے تو کہیں فاعلاتن مفاعلن فعلن جب کہ زئیادہ تر نظم میں بحر ہے فاعلاتن فاعلاتن فاعلن۔ کچھ نوک پلک درست کر لو تو کیا بات ہے۔
اور یہ تو سب جانتے ہیں کہ میں خالی خولی تعریف نہیں کرتا۔ اپنی شاعری کو بھی بہتری کے لئے اکثر یہاں ہی احباب سے مشورہ مانگتا ہوں۔ یوں بھی آپ سب لوگ مجھے جانتے ہیں اور میرے اعتراضات کا برا نہیں مانتے۔
 

زرقا مفتی

محفلین
خیال بہت عمدہ ہے زرقا۔ لیکن آزاد نظم میں بھی ایک ہی بحر کا التزام رکھا جاتا ہے، تجربہ کیا بھی جائے تو کم از کم ایک حصے میں مکمل ایک ہی بحر کے اوزان ہونا چاہئے، اور دوسرے حصے میں ، بطور ایپی لاگ، دوسرے ارکان استعمال کئے جا سکتے ہیں۔ لیکن اس نظم میں گڑبڑ ہے اس لحاظ سے۔ کہیہں فاعلاتن فَعِلاتن فعلن ہے تو کہیں فاعلاتن مفاعلن فعلن جب کہ زئیادہ تر نظم میں بحر ہے فاعلاتن فاعلاتن فاعلن۔ کچھ نوک پلک درست کر لو تو کیا بات ہے۔
اور یہ تو سب جانتے ہیں کہ میں خالی خولی تعریف نہیں کرتا۔ اپنی شاعری کو بھی بہتری کے لئے اکثر یہاں ہی احباب سے مشورہ مانگتا ہوں۔ یوں بھی آپ سب لوگ مجھے جانتے ہیں اور میرے اعتراضات کا برا نہیں مانتے۔
محترم اعجاز صاحب
تسلیمات
میں نے اپنی طرف سے یہ نظم
فاعلاتن۔۔۔فاعلاتن۔۔۔فاعلن/ فعلن کے وزن پر کہنے کی کوشش کی تھی
میرے ناقص خیال میں آخری رُکن فاعلن کو فعلن سے بدلا جا سکتا ہے
اگر نہیں تو میری اصلاح فرما دیجئے

تاہم آپ کے مشورے کے مطابق نظم کے مختلف ٹکڑوں کو ایک ہی وزن پر پھر سے ترتیب دیا ہے
ملاحظہ کیجئے اور بقدرِ ضرورت اصلاح بھی کر دیجئے

ٰٰان ڈور پلانٹ

میں کسی سرمائی پودے کی طرح
کب سے رہتی ہوں ترے سائے تلے
سُرمئی سا ہے اندھیرا ہر طرف
روشنی کا نہ صبا کا ہے گزر
کب سے ساون میں نہیں بھیگا بدن
چاند کھڑکی سے کبھی تکتا نہیں
تارے آنگن میں اُترتے ہی نہیں

دیکھ اس گوشے میں کتنی ہے گُھٹن
دیکھ لے سانسیں مری رُکنے لگیں
اب نہیں باقی مرے تن میں لچک
دیکھ چہرے کا خزاں رنگ ہوا
دیکھ اب توڈھل چکا جوبن مرا
جل رہی ہیں میرے تن کی ڈالیاں
جھڑ گئے سب پات جتنے تھے ہرے

اپنے سائے کو ہٹا لےاب ذرا
پھول کی خوشبو کودل میں بھر نے دے
اک نظر میں آسماں کو چھو نے دے
چاند تاروں سے دو باتیں کر نے دے
آخری سانسیں ہوا میں لینے دے

اے ستم گر، اب مجھے آزاد کر

والسلام
زرقا
 

محمد وارث

لائبریرین
میرے خیال میں اس بحر (رمل مسدس مخذوف) میں آخری رکن فاعلن کو فعلن سے نہیں بدل سکتے، اس میں صرف عملِ تسبیغ جائز ہے یعنی فاعلن کو فاعلان سے بدل سکتے ہیں، یعنی

فاعلاتن فاعلاتن فاعلن یا
فاعلاتن فاعلاتن فاعلان

مولانا روم کی مثنوی اور علامہ اقبال کی مثنویاں جاوید نامہ، اسرارِ خودی اور رموزِ بے خودی، جو تمام ہزاروں اشعار پر مشتمل ہیں اسی بحر میں ہیں۔
 

الف عین

لائبریرین
وارث نے سوال کا جواب تو دے ہی دیا ہے۔ اب بھی کچھ مصرعے دوسری بحر میں ہیں زرقا۔ کاپی پیسٹ کر لی ہے نظم۔ بعد میں دیکھتا ہوں کہ کون کون سے مصرعے درست کئے جا سکتے ہیں۔
 

محسن حجازی

محفلین
پہلے تو ہم سمجھے کہ ان ڈور پلانٹس لگانے کی بابت کچھ ہدایات ہوں گی :grin:
سو دو دن دھاگہ بس نظروں سے ہی گزارتے رہے کہ ہم کو کیا لگے انڈور پلانٹ سے۔ :rolleyes:
یہ تو بعد میں پتہ چلا کہ معاملہ کچھ اور ہے۔
ویسے یہ ہماری ہی داستان ہے، ہم بھی ان ڈور پلانٹ ہیں، صبح گھر سے دفتر، دفتر کے ائير کنڈیشنڈ تہہ خانے میں سارا دن، پھر واپس گھر کے سرد خانے میں۔ :rolleyes:
جانے کب یہ پودا مرجھا جائے۔۔۔ :(
 

مغزل

محفلین
پہلے تو میں نے خیال کیا کے زرقا جی نے نثری نظم لکھی ہے
زرقا جی یہاں دیکھ کر خوشی ہوئی ۔ آپ ’’وہاں‘‘ تشریف نہیں لارہیں آجکل ؟
نظم پر بات جاری ہے ۔۔ دیکھتے ہیں کیا ہوتاہے ۔
پیشگی مبارکباد
 

زرقا مفتی

محفلین
میرے خیال میں اس بحر (رمل مسدس مخذوف) میں آخری رکن فاعلن کو فعلن سے نہیں بدل سکتے، اس میں صرف عملِ تسبیغ جائز ہے یعنی فاعلن کو فاعلان سے بدل سکتے ہیں، یعنی

فاعلاتن فاعلاتن فاعلن یا
فاعلاتن فاعلاتن فاعلان

مولانا روم کی مثنوی اور علامہ اقبال کی مثنویاں جاوید نامہ، اسرارِ خودی اور رموزِ بے خودی، جو تمام ہزاروں اشعار پر مشتمل ہیں اسی بحر میں ہیں۔

شکریہ وارث صاحب
میںنظم کو دوبارہ دیکھتی ہوں
والسلام
زرقا
 

الف عین

لائبریرین
لیں زرقا۔ میں نے ہی یہ کام کر دیا ہے۔ خدا کرے کہ مفہوم سے زیادہ کھلواڑ نہ ہو گئی ہو۔ دیکھیں شاید تصحیح قبول ہو۔ اس کو اصلاح نہیں کہہ رہا۔
میں کسی سرمائی پودے کی طرح
کب سے رہتی ہوں ترے سائے تلے
سُرمئی سا ہے اندھیرا ہر طرف
روشنی کا نے صبا کا ہے گزر
کب سے ساون میں نہیں بھیگا بدن
چاند کھڑکی سے کبھی تکتا نہیں
تارے آنگن میں اُترتے ہی نہیں

دیکھ اس گوشے میں کتنی ہے گُھٹن
دیکھ لے سانسیں مری رُکنے لگیں
اب نہیں باقی مرے تن میں لچک
دیکھ رُخ پر بھی خزاں کا رنگ ہے
دیکھ اب ڈھل بھی چکا جوبن مرا
جل رہی ہیں میرے تن کی ڈالیاں
جھڑ گئے سب پات جتنے تھے ہرے

اپنے سائے کو ہٹا لے اب ذرا
پھول کی خوشبو کودل میں بھر لوں میں
اک نظر میں آسماں کو چھو لوں میں
چاند تاروں سے دو باتیں کر لوں میں
آخری سانسیں ہوا میں لے لوں میں

اے ستم گر، اب مجھے آزاد کر
 

زرقا مفتی

محفلین
پہلے تو ہم سمجھے کہ ان ڈور پلانٹس لگانے کی بابت کچھ ہدایات ہوں گی :grin:
سو دو دن دھاگہ بس نظروں سے ہی گزارتے رہے کہ ہم کو کیا لگے انڈور پلانٹ سے۔ :rolleyes:
یہ تو بعد میں پتہ چلا کہ معاملہ کچھ اور ہے۔
ویسے یہ ہماری ہی داستان ہے، ہم بھی ان ڈور پلانٹ ہیں، صبح گھر سے دفتر، دفتر کے ائير کنڈیشنڈ تہہ خانے میں سارا دن، پھر واپس گھر کے سرد خانے میں۔ :rolleyes:
جانے کب یہ پودا مرجھا جائے۔۔۔ :(
محسن صاحب
اس شگفتہ تبصرے کے لئے شکریہ
فکر نہ کیجئے دفتر سے گھر جاتے اور پھر واپس آتے وقت آپ کو کافی آکسیجن مل جاتی ہے
سو آپ کے مرجھانے کا فی الحال امکان نہیں
خوش رہیئے
والسلام
زرقا
 

زرقا مفتی

محفلین
پہلے تو میں نے خیال کیا کے زرقا جی نے نثری نظم لکھی ہے
زرقا جی یہاں دیکھ کر خوشی ہوئی ۔ آپ ’’وہاں‘‘ تشریف نہیں لارہیں آجکل ؟
نظم پر بات جاری ہے ۔۔ دیکھتے ہیں کیا ہوتاہے ۔
پیشگی مبارکباد

شکریہ مغل صاحب
ایک سا ئٹ بنا رہی تھی اس لئے کسی بھی محفل میں جانا نہیں ہوا
جلد ہی اس کی تفصیل سامنے آ جائے گی
والسلام
زرقا
 

مغزل

محفلین
بہت شکریہ زرقا جی
میں منتظر ہوں کہ کب چلمن کی اوٹ سے رخِ سوادِ سیم تناں (ویب سائٹ) طلوع ہوتا ہے۔
 

زرقا مفتی

محفلین
لیں زرقا۔ میں نے ہی یہ کام کر دیا ہے۔ خدا کرے کہ مفہوم سے زیادہ کھلواڑ نہ ہو گئی ہو۔ دیکھیں شاید تصحیح قبول ہو۔ اس کو اصلاح نہیں کہہ رہا۔
میں کسی سرمائی پودے کی طرح
کب سے رہتی ہوں ترے سائے تلے
سُرمئی سا ہے اندھیرا ہر طرف
روشنی کا نے صبا کا ہے گزر
کب سے ساون میں نہیں بھیگا بدن
چاند کھڑکی سے کبھی تکتا نہیں
تارے آنگن میں اُترتے ہی نہیں

دیکھ اس گوشے میں کتنی ہے گُھٹن
دیکھ لے سانسیں مری رُکنے لگیں
اب نہیں باقی مرے تن میں لچک
دیکھ رُخ پر بھی خزاں کا رنگ ہے
دیکھ اب ڈھل بھی چکا جوبن مرا
جل رہی ہیں میرے تن کی ڈالیاں
جھڑ گئے سب پات جتنے تھے ہرے

اپنے سائے کو ہٹا لے اب ذرا
پھول کی خوشبو کودل میں بھر لوں میں
اک نظر میں آسماں کو چھو لوں میں
چاند تاروں سے دو باتیں کر لوں میں
آخری سانسیں ہوا میں لے لوں میں

اے ستم گر، اب مجھے آزاد کر

محترم اعجاز صاحب
تسلیمات
جواب میں تاخیر کے لئے معذرت چاہتی ہوں
پاکستان میں بجلی کے بحران نے بہت پریشان کر رکھا ہے
آپ کی سبھی تجاویز اچھی ہیں

آپ کے جواب سے پہلے میں نے آخری بند یوں لکھا تھا


اپنے سائے کو ہٹا لےاب ذرا
پھول کی خوشبو کودل میں بھر نے دے
اک نظر میں آسماں کو چھو نے دے
چاند تاروں سے دو باتیں کر نے دے
آخری سانسیں ہوا میں لینے دے

اے ستم گر، اب مجھے آزاد کر
اگر یہ مناسب ہو تو آپ کی باقیماندہ تجاویز کے ساتھ نظم میں تبدیلی کر لوں
آپ کی اصلاح سے ہم سب کو فائدہ ہوتا ہے اللہ آپ کو اس کارِخیر کی جزا دے
والسلام
زرقا
 

محمداحمد

لائبریرین
زرقا صاحبہ

بہت عمدہ نظم ہے اور بہت ارفع خیال ہے۔ مجھے بہت اچھی لگی یہ نظم ۔ داد حاضرِ خدمت ہے۔

مخلص
محمد احمد
 

الف عین

لائبریرین
شکریہ زرقا۔۔ خود ہی جو اصلاحات یا تصحیحات کی جائیں وہ بہترین ہوتی ہیں۔ اب نظم بہت بہتر ہو گئی ہے۔ اسی طرح کر دو۔
اور کون سا ایسا کارِ خیر تھا یہ!!!
 
Top