ذیشان حیدر
محفلین
سے افسردہ رہنے لگی کہ یہاںسردی کا موسم بہت ہلکا ہوتا ہے۔ چھانی کا کمانڈنگ افسر جو پچھلا جاڑہ یہاںبسر کرچکاہے ، کہتا تھا کہ پونا سے کچھ زیادہ سردی تھی لیکن وہ بھی بہ مشکل بارہدن تک رہی ہوگی۔ عام طور پر دسمبر اور جنوری کا موسم یہاںایسا رہتا ہے جیسا دہلی اور پنجاب میںجاڑہ کے ابتدائی دنوں کا ہوتا ہے۔ ان خبروں نے طبیعت کو بالکل مایوس کردیا تھا، لیکن جونہی دسمبر شروع ہوا، موسم نے اچانک کروٹ لی۔ دو دن تک بادل چھایا رہا اور پھر جو مطلع کھلا، تو کچھ نہ پوچھیے موسم کی فیاضیوں کا کیا عالم ہوا؟ دہلی اور لاہور کے چلہ کا مزہ دیا آگیا ۔ یہاںکے کمروںکا بھلا آتش دان کہاں؟ لیکن اگر ہوتا تو موسم ایسا ضرور ہوگیا تھا کہ میں لکڑیوں چلنی شروع کردیتا۔ چیتہ خاں جوہر وقت خاکی تخفیفہ (یعنی شارٹ ۲۴) پہنچے رہتا تھا۔ یکایک گرم سوٹ پہن کرآنے لگا اور کہنے لگا کہ سردی سے میرے گھٹنوں میںدرد ہونے لگا ہے ۔ چھانی سے خبر آئی کہ ایک انگریز سپاہی جو رات کے پہرہ پر تھا ، صبح نمونیا میں مبتلا پایا گیا اور شام ہوتے ہوتے ختم ہوگیا ۔ ہمارے قافلہ کے زندانیوں کا یہ حال ہوا کہ دوپہر کے وقت بھی چادر جسم سے چمٹی رہنے لگی۔ جسے دیکھو، سردی کی بے جا ستانیوںکا شاکی ہے، اور دھوپ میںبیٹھ کر تیل کی شالش کر ا رہا ہے کہ تمام جسم پھٹ کر چھلنی ہوگیا۔ حتیٰ کہ جو صاحب دہلی اور یوپی کے رہنے والے ہیں اور نینی تال کے موسم کے عادی رہ چکے ہیں، وہ بھی یہاںکے جاڑے کے قائل ہوگئے۔
۳۰۱
چناںقحط سالے شاد اندر دمشق
کہ یاراں فراموش کردند عشق ۲۵
صلح کا کلکٹر اسی علاقہ کا باشندہ ہے۔ وہ آیا تو کہنے لگا کہ سالہا سال گذر گئے میں نے ایسا جاڑہ اس علاقہ میںنہیںدیکھا۔ پارا چالیس درجہ سے بھی نیچے اتر اچکا ہے۔ یہاں سب حیران ہیں کہ اس سال کونسی نئی بات ہوگئی ہے کہ اچانک پنجاب کی سردی احمد نگر پہنچ گئی۔ میں نے جی میںکہا: ان بے خبروں کو کیا معلوم کہ ہم زندانیوں اور اور خرابتیوں کی دُعائیں کیا اثر رکھتی ہیں۔ رباشعت مدفوع بالا بواب ، نواقسم علی اللہ لاابرہ ۲۶
۳۰۲
دفدِائے شیوہ رحمت کہ در لباس بہار
بعذر خواہی زندانَ باد نوش آمد
یہاںکے لوگ تو سردی کی سختیوں کی شکایت کر رہے ہیں،اور میرے دلَ آرزو سے ابھی صدائے ہل من مزید ۲۸اٹھ رہی ہے کلکتہ سے گرم کپڑے آئے پڑے میں نے ابھی تک انہیں چھوا بھی نہیں اس ڈر سے کہ اگر گرم کپڑے پہنوںگا تو سردی کا احسا س کمہو جائے گا اور تخیل کو جولانیوں کا موقع نہیںملے گا، ابھی تک گرمیوں ہی کے لباس میںوقت نکال رہا ہوں۔ البتہ صبح اُٹھتا ہوںتو اونی چادر دہری کر کے کاندھوںپر ڈال لیتا ہوں۔ میرا اور سری کے موسم کا معاملہ تو وہ ہوگیا ہے جو نظیری نیشا پوری کو پیش آیا تھا:
۳۰۳
اُد در وداع و من بجبزع، کزمئے و بہار
رطلے سہ چار ماندہ دروزے سہ چار خوش ۲۹
یہاںتک لکھ چکا تھا کہ خیال ہوا ، تمہید ہی میںگیارہ صفحے سیاہ ہوگئے اور ابھی تک حرفَ مد عازبانَقلم پر نہیں آیا۔ تازہ ترین واقعہ یہ ہے کہ ایک ماہ کی محرومی و انتظار کے بعد پرسوں چتہ خاں نے مژدہ کا مرانی سنایا کہ بمبئی کے آرمی اینڈ نیو ی اسٹورنے وہائٹ جیسمین چائے کہیں سے ڈھونڈھ نکالی ہے اور ایک پونڈ کا پارسل وی پی کر دیا ہے ۔ چنانچہ کل پارسل پہنچا۔ چیتہ خاں نے اس کی قیمت کا گلہ کرنا شروع کردیا کہ تمہیںایک پونڈ چائے کےلیے اتنی قیمت دینی پڑی۔ حالانکہ واقعہ یہ ہے کہ مجھے اس کی ارزانی نے حیران کردیا ہے ۔ اس نایابی کے زمانے میں اگر سٹور اس سے دوگنی رقم کا طالبگار ہوتا، جب بھی یہ جنس گرانما یہ ارزاں تھی:
۳۰۴
اے کہ می گوئی’’چراجمے، بجانے می خری؟‘‘
ایں سخن باساقی ماگو کہ ارزاں کردہ است ۳۰
حسن اتفاق دیکھیے کہ ادھر یہ پارسل پہنچا ادھر بمبئی سے بعض دوستوں نے بھی چند ڈبے چینی دوستوں سے لے کر بھجوا دئیے۔ اب گرفتاری کا زمانہ جتنا بھی طول کھینچے، چائے کی کمی کا اندیشہ باقی نہیںرہا ۔
بہرحال جو بات کہنی چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ اس ایک واقعہ نے صبح کے معاملہ کی پوری فضا بدل دی ، اور جوئے طبع افسردہ کا آپِ رفتہ پھر واپس آگیا۔ اب پھر وہی صبح کی مجلس طرب آراستہ ہے ، وہی طبع سیہ مست کی عالم فراموشیاں ہیںاور وہی فکر درماندہ کار
۳۰۱
چناںقحط سالے شاد اندر دمشق
کہ یاراں فراموش کردند عشق ۲۵
صلح کا کلکٹر اسی علاقہ کا باشندہ ہے۔ وہ آیا تو کہنے لگا کہ سالہا سال گذر گئے میں نے ایسا جاڑہ اس علاقہ میںنہیںدیکھا۔ پارا چالیس درجہ سے بھی نیچے اتر اچکا ہے۔ یہاں سب حیران ہیں کہ اس سال کونسی نئی بات ہوگئی ہے کہ اچانک پنجاب کی سردی احمد نگر پہنچ گئی۔ میں نے جی میںکہا: ان بے خبروں کو کیا معلوم کہ ہم زندانیوں اور اور خرابتیوں کی دُعائیں کیا اثر رکھتی ہیں۔ رباشعت مدفوع بالا بواب ، نواقسم علی اللہ لاابرہ ۲۶
۳۰۲
دفدِائے شیوہ رحمت کہ در لباس بہار
بعذر خواہی زندانَ باد نوش آمد
یہاںکے لوگ تو سردی کی سختیوں کی شکایت کر رہے ہیں،اور میرے دلَ آرزو سے ابھی صدائے ہل من مزید ۲۸اٹھ رہی ہے کلکتہ سے گرم کپڑے آئے پڑے میں نے ابھی تک انہیں چھوا بھی نہیں اس ڈر سے کہ اگر گرم کپڑے پہنوںگا تو سردی کا احسا س کمہو جائے گا اور تخیل کو جولانیوں کا موقع نہیںملے گا، ابھی تک گرمیوں ہی کے لباس میںوقت نکال رہا ہوں۔ البتہ صبح اُٹھتا ہوںتو اونی چادر دہری کر کے کاندھوںپر ڈال لیتا ہوں۔ میرا اور سری کے موسم کا معاملہ تو وہ ہوگیا ہے جو نظیری نیشا پوری کو پیش آیا تھا:
۳۰۳
اُد در وداع و من بجبزع، کزمئے و بہار
رطلے سہ چار ماندہ دروزے سہ چار خوش ۲۹
یہاںتک لکھ چکا تھا کہ خیال ہوا ، تمہید ہی میںگیارہ صفحے سیاہ ہوگئے اور ابھی تک حرفَ مد عازبانَقلم پر نہیں آیا۔ تازہ ترین واقعہ یہ ہے کہ ایک ماہ کی محرومی و انتظار کے بعد پرسوں چتہ خاں نے مژدہ کا مرانی سنایا کہ بمبئی کے آرمی اینڈ نیو ی اسٹورنے وہائٹ جیسمین چائے کہیں سے ڈھونڈھ نکالی ہے اور ایک پونڈ کا پارسل وی پی کر دیا ہے ۔ چنانچہ کل پارسل پہنچا۔ چیتہ خاں نے اس کی قیمت کا گلہ کرنا شروع کردیا کہ تمہیںایک پونڈ چائے کےلیے اتنی قیمت دینی پڑی۔ حالانکہ واقعہ یہ ہے کہ مجھے اس کی ارزانی نے حیران کردیا ہے ۔ اس نایابی کے زمانے میں اگر سٹور اس سے دوگنی رقم کا طالبگار ہوتا، جب بھی یہ جنس گرانما یہ ارزاں تھی:
۳۰۴
اے کہ می گوئی’’چراجمے، بجانے می خری؟‘‘
ایں سخن باساقی ماگو کہ ارزاں کردہ است ۳۰
حسن اتفاق دیکھیے کہ ادھر یہ پارسل پہنچا ادھر بمبئی سے بعض دوستوں نے بھی چند ڈبے چینی دوستوں سے لے کر بھجوا دئیے۔ اب گرفتاری کا زمانہ جتنا بھی طول کھینچے، چائے کی کمی کا اندیشہ باقی نہیںرہا ۔
بہرحال جو بات کہنی چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ اس ایک واقعہ نے صبح کے معاملہ کی پوری فضا بدل دی ، اور جوئے طبع افسردہ کا آپِ رفتہ پھر واپس آگیا۔ اب پھر وہی صبح کی مجلس طرب آراستہ ہے ، وہی طبع سیہ مست کی عالم فراموشیاں ہیںاور وہی فکر درماندہ کار