5 دسمبر جوش کا یوم پیدائش

1610849_399397710211356_4822729251865556090_n.jpg

اردو کے ایک بڑے شاعر جوش ملیح آبادی 5 دسمبر 1898ء کو ملیح آباد میں پیدا ہوئے۔
جوش کے والد نواب بشیر احمد خان، دادا نواب محمد احمد خاں اور پر دادا نواب فقیر محمد خاں گویا سبھی صاحب دیوان شاعر تھے۔
جوش نے نو برس کی عمر میں پہلا شعر کہا۔ ابتدا میں عزیز لکھنوی سے اصلاح سخن لی۔ پھر یہ سلسلہ منقطع ہوگیا اور خود اپنی طبیعت کو رہنما بنایا۔ عربی کی تعلیم مرزا ہادی رسوا سے اور فارسی اور اردو کی تعلیم مولانا قدرت بیگ ملیح آبادی سے حاصل کی۔
جوش نے حیدرآباد (دکن)، دہلی، کراچی اور اسلام آباد کئی شہروں میں زندگی گزاری۔ دو رسالوں کلیم اور آج کل کے مدیر رہے، کئی فلموں کے گانے اور مکالمے لکھے اور پاکستان آنے کے بعد اردو لغت کے مدیر رہے۔
جوش ملیح آبادی نے متعدد شعری مجموعے یادگار چھوڑے۔ اپنی خودنوشت یادوں کی برات کے نام سے تحریر کی۔ جنگل کی شہزادی، ایسٹ انڈیا کمپنی کے فرزندوں سے خطاب، مناظر سحر، تلاشی اور فتنہ خانقاہ آپ کی مشہور نظمیں ہیں۔ حسین اور انقلاب وہ مرثیہ ہے، جس نے مرثیہ گوئی کے ایک نئے دبستان کی بنیاد رکھی۔
ستر کی دہائی میں جوش کراچی سے اسلام آباد منتقل ہوگئے۔ 1978ء میں انہیں ان کے ایک متنازع انٹرویو کی وجہ سے ذرائع ابلاغ میں بلیک لسٹ کردیا گیا مگر کچھ ہی دنوں بعد ان کی مراعات بحال کردی گئیں۔
٭22 فروری 1982ء کو جوش ملیح آبادی نے اسلام آباد میں وفات پائی اور وہیں آسودۂ خاک ہوئے۔
ان کی تاریخ وفات معروف شاعر نصیر ترابی نے ان کے اس مصرع سے نکالی تھی:

میں شاعر آخر الزماں ہوں اے جوش
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سورہء رحمن کا منظوم ترجمہ بقلم جوش

اے فنا انجام انسان کب تجهے ہوش ائے گا؟
تیرگی میں ٹھوکریں آخر کہاں تک کهائے گا؟
اس تمرد کی روش سے بهی کبھی شرمائے گا؟
کیا کرئے گا سامنے سے جب حجاب اٹھ جائے گا؟
کب تک آخر اپنے رب کی نعمتیں جهٹلائے گا؟

یہ سحر کا حسن یہ سیار گاں اور فضا
یہ معطر باغ یہ سبزہ یہ کلیاں دلربا
یہ بیاباں یہ کهلے میدان یہ ٹهنڈی ہوا
سوچ تو کیا کیا کیا ہے تجھ کو قدرت نے عطاء
کب تک آخر اپنے رب کی نعمتیں جهٹلائے گا؟

خلد میں حوریں تیری مشتاق ہیں آنکھیں اٹها
نیچی نظریں جن کا زیور جن کی آرائش حیا
جن و انساں میں کسی نے بهی نہیں جنکو چهوا
جن کی باتیں عطر میں ڈوبی ہوئی جیسے صبا
کب تک آخر اپنے رب کی نعمتیں جهٹلائے گا؟

اپنے مرکز سے نہ چل منھ پهیر کر بہر خدا
بهولتا ہے کوئی اپنی ابتدا و انتہا؟
یاد وہ دور بهی تجھ کو کہ جب تو خاک تها
کس نے اپنی سانس سے تجھ کو منور کر دیا
کب تک آخر اپنے رب کی نعمتیں جهٹلائے گا؟

سبز گہرے رنگ کی بیلیں چڑهی ہیں جابجا
نرم سانسیں جهومتی ہیں رقص کرتی ہے صبا
پهل وہ شاخوں میں لدے ہیں دلفریب و خوشنما
جن کا ہر رشتۂ ہے شہد و قند میں ڈوبا ہوا
کب تک آخر اپنے رب کی نعمتیں جهٹلائے گا؟

پهول میں خوشبو بهری جنگل کی بوٹی میں دوا
بحر سے موتی نکالے صاف روشن خوشنما
آگ سے شعلہ نکلا ابر سے آب صفا
کس سے ہو سکتا ہے اس کی بخششوں کا حق ادا
کب تک آخر اپنے رب کی نعمتیں جهٹلائے گا؟

هر نفس طوفان ہے ہر سانس ہے اک زلزلہ
موت کی جانب رواں زندگی کا قافلہ
مضطرب ہر چیز ہے جنبش میں ہے ارض و سما
ان میں قائم ہے تو تیرے رب کے چہرے کی ضیاء
کب تک آخر اپنے رب کی نعمتیں جهٹلائے گا؟
بشکریہ
آردو کلاسک پیج

 
"جوش کا جوش "
ہاشم رضا زیدی صاحب پاکستان کے ایک معروف بیوروکریٹ تھے ایک مرتبہ جوش ان سے کسی کام کے سلسلے میں ملاقات کو گئے سیکرٹری نے کہا صاحب میٹنگ میں ہیں
جوش صاحب نے ایک چٹ لی اور لکھا
ہاشم رضا میں "شمر" ہے سارا چھپا ہوا
زیدی میں چاروں حرف ہیں شامل یزید کے
یہ پرچی دی اور چلے آئے۔

اسی طرج ایک دفعہجوش ملیح آبادی ایک بار گرمی کے موسم میں مولانا ابو الکلام آزاد سے ملاقات کی غرض سے ان کی کوٹھی پر پہنچے وھاں ملاقاتیوں کا ایک جم غفیر پہلے سے موجود تھا کافی دیر تک انتظار کے بعد بھی ملاقات کیلئے باری نہ آئی تو انھوں نے اکتا کر ایک چٹ پر یہ شعر لکھ کر چپراسی کے ہاتھ مولانا کی خدمت میں بھجوا دیا
نامناسب ہے خون کھولانا
پھر کسی اور وقت مولانا
مولانا نے یہ شعر پڑھا تو زیرلب مسکرائے اور فی الفور جوش صاحب کو اندر طلب کر لیا۔
 
Top