30 سال کی قید کے بعد بےقصور

امریکہ کی جنوب مشرقی ریاست الاباما کے ایک قیدی کو 30 سال جیل میں گذارنے کے بعد بے گناہ پایا گیا اور انھیں جیل سے رہائی مل گئ۔

58 سالہ اینتھونی ہنٹن کو برمنگھم میں سنہ 1985 میں ایک ریسٹورنٹ کے دو منیجروں کے قتل کے جرم میں سزا دی گئی تھی لیکن گذشتہ سال ان کی درخواست پر انہیں دوبارہ سماعت کا موقع فراہم کیا گیا۔

موقع واردات پر ملنے والی گولی کی جانچ کے بعد یہ بات سامنے آئی کہ مسٹر ہنٹن کے گھر سے ملنے والی بندوق سے وہ گولی نہیں چلی تھی اور اسی بات نے ججوں کو کیس خارج کرنے کی تحریک دی۔

مسٹر ہنٹن کے وکیل برائن سٹیونسن نے کہا کہ ان کے موکل کو سزا اس لیے ہوئی کہ وہ کسی اچھے وکیل کے اخراجات کے متحمل نہیں ہو سکتے تھے۔

برمنگھم میں جیفرسن کنٹری جیل سے نکلتے ہوئے مسٹر ہنٹن اپنے اہل خانہ سے گلے ملے ۔

انھوں نے تین دہائیوں تک قتل کی سزا بھگتنے کی وضاحت کرتے ہوئے کہا: ’انھیں تو صرف بندوق کی جانچ کرنی تھی۔‘

150403202640_anthony_ray_hinton_624x351_ap.jpg

مسٹر ہنٹن جیل سے نکلنے کے بعد اپنے خاندان کے لوگوں سے گلے ملے
موقع واردات پر جو گولیاں ملی تھیں وہی صرف مسٹر ہنٹن کے جرم کے شواہد تھے۔

وکیل نے کہا کہ جدید فرانزک طریقہ کار گولی اور ریوالر کا تعلق پانے میں ناکام رہے۔

انھوں نے کہا: ’ہردن، ہر ماہ اور ہر سال حکومت نے ان سے جو کچھ لیا ہے اسے واپس لوٹانے کی حکومت کے پاس قوت نہیں ہے۔‘

ہنٹن کے وکیل کے خیال میں ان کے موکل کے پاس اپنی پہلی سماعت کے وقت صرف 1000 امریکی ڈالر تھے اور وہ ایک ماہر وکیل نہیں رکھ سکتے تھے۔

اس وقت جرح کے دوران جب ان کے وکیل جواب نہیں دے پا رہے تھے تو مبینہ طور پر ججز ان پر ہنس رہے تھے۔

گذشتہ سال سپریم کورٹ نے کہا کہ چونکہ مسٹر ہنٹن کو مناسب وکیل نہ مل سکا تھا اس لیے ان کے مقدمے کو از سر نو سماعت کے لیے پیش کیا جانا چاہیے۔
 
Top