23 مارچ 1940 کیوں

23 مارچ 1940 کو لاہور کے منٹو پارک موجودہ اقبال پارک میں قرارداد پاکستان منظور ہوئی اور اسی دن 1956 میں پاکستان کا پہلا آئین منظور ہوا۔ اس روز لو یوم پاکستان کے طور پر منانے کا اعلان سرکاری طور پر ہوا۔ اس تاریخ کو وفاقی دارالحکومت اور چاروں صوبائی دارالحکومتوں میں فوجی پریڈ منعقد ہوتی ہے۔


23 مارچ کو لاہور کے منٹو پارک میں آل انڈیا مسلم لیگ کے تین روزہ سالانہ اجلاس کے اختتام پر وہ تاریخی قرار داد منظور کی گئی تھی جس کی بنیاد پر مسلم لیگ نے برصغیر میں مسلمانوں کے جدا وطن کے حصول کے لیے تحریک شروع کی تھی اور سات برس کے بعد اپنا مطالبہ منظور کرانے میں کامیاب رہی۔
برصغیر میں برطانوی راج کی طرف سے اقتدار عوام کو سونپنے کے عمل کے پہلے مرحلے میں 1936/1937 میں جو پہلے عام انتخابات ہوئے تھے ان میں مسلم لیگ کو بری طرح سے ہزیمت اٹھانی پڑی تھی اور اس کے اس دعوی کو شدید زک پہنچی تھی کہ وہ بر صغیر کے مسلمانوں کی واحد نمائندہ جماعت ہے۔ اس وجہ سے مسلم لیگ کی قیادت اور کارکنوں کے حوصلے ٹوٹ گئے تھے اور ان پر ایک عجب بے بسی کا عالم تھا۔

مولوی فضل الحق
کانگریس کو مدراس، یو پی، سی پی، بہار اور اڑیسہ میں واضح اکثریت حاصل ہوئی تھی، سرحد اور بمبئی میں اس نے دوسری جماعتوں کے ساتھ مل کر مخلوط حکومت تشکیل دی تھی اور سندھ اور آسام میں بھی جہاں مسلمان حاوی تھے کانگریس کو نمایاں کامیابی ملی تھی۔
پنجاب میں البتہ سر فضل حسین کی یونینسٹ پارٹی اور بنگال میں مولوی فضل الحق کی پرجا کرشک پارٹی کو جیت ہوئی تھی۔
غرض ہندوستان کے 11 صوبوں میں سے کسی ایک صوبہ میں بھی مسلم لیگ کو اقتدار حاصل نہ ہو سکا۔ ان حالات میں مسلم لیگ ایسا محسوس ہوتا تھا، برصغیر کے سیاسی دھارے سے الگ ہوتی جارہی ہے۔
اس دوران کانگریس نے جو پہلی بار اقتدار کے نشے میں کچھ زیادہ ہی سر شار تھی، ایسے اقدامات کیے جن سے مسلمانوں کے دلوں میں خدشات اور خطرات نے جنم لینا شروع کردیا۔ مثلاً کانگریس نے ہندی کو قومی زبان قرار دے دیا، گاؤ کشی پر پابندی عائد کردی اور کانگریس کے ترنگے کو قومی پرچم کی حیثیت دی۔
اس صورت میں مسلم لیگ کی اقتدار سے محرومی کے ساتھ اس کی قیادت میں یہ احساس پیدا ہورہا تھا کہ مسلم لیگ اقتدار سے اس بناء پر محروم کر دی گئی ہے کہ وہ اپنے آپ کو مسلمانوں کی نمائندہ جماعت کہلاتی ہے۔ یہی نقطہ آغاز تھا مسلم لیگ کی قیادت میں دو جدا قوموں کے احساس کی بیداری ک۔
اسی دوران دوسری عالم گیر جنگ کی حمایت کے عوض اقتدار کی بھر پور منتقلی کے مسئلہ پر برطانوی راج اور کانگریس کے درمیان مناقشہ بھڑکا اور کانگریس اقتدار سے الگ ہوگئی تو مسلم لیگ کے لیے کچھ دروازے کھلتے دکھائی دئے۔ اور اسی پس منظر میں لاہور میں آل انڈیا مسلم لیگ کا یہ 3 روزہ اجلاس 22 مارچ کو شروع ہوا۔

علامہ مشرقی
اجلاس سے 4 روز قبل لاہور میں علامہ مشرقی کی خاکسار جماعت نے پابندی توڑتے ہوئے ایک عسکری پریڈ کی تھی جس کو روکنے کے لیے پولیس نے فائرنگ کی۔ 35 کے قریب خاکسار جاں بحق ہوئے۔ اس واقعہ کی وجہ سے لاہور میں زبردست کشیدگی تھی اور پنجاب میں مسلم لیگ کی اتحادی جماعت یونینسٹ پارٹی برسراقتدار تھی اور اس بات کا خطرہ تھا کہ خاکسار کے بیلچہ بردار کارکن، مسلم لیگ کا یہ اجلاس نہ ہونے دیں یا اس موقع پر ہنگامہ برپا کریں۔
موقع کی اسی نزاکت کے پیش نظر قائداعظم محمد علی جناح نے افتتاحی اجلاس سے خطاب کیا جس میں انہوں نے پہلی بار کہا کہ ہندوستان میں مسئلہ فرقہ ورارنہ نوعیت کا نہیں ہے بلکہ بین الاقوامی ہے یعنی یہ دو قوموں کا مسئلہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہندوؤں اور مسلمانوں میں فرق اتنا بڑا اور واضح ہے کہ ایک مرکزی حکومت کے تحت ان کا اتحاد خطرات سے بھر پور ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ اس صورت میں ایک ہی راہ ہے کہ ان کی علیحدہ مملکتیں ہوں۔
دوسرے دن انہی خطوط پر 23 مارچ کو اس زمانہ کے بنگال کے وزیر اعلی مولوی فضل الحق نے قرار داد لاہور پیش کی جس میں کہا گیا تھا کہ اس وقت تک کوئی آئینی پلان نہ تو قابل عمل ہوگا اور نہ مسلمانوں کو قبول ہوگا جب تک ایک دوسرے سے ملے ہوئے جغرافیائی یونٹوں کی جدا گانہ علاقوں میں حد بندی نہ ہو۔ قرار داد میں کہا گیا تھا کہ ان علاقوں میں جہاں مسلمانوں کی عددی اکثریت ہے جیسے کہ ہندوستان کے شمال مغربی اور شمال مشرقی علاقے، انہیں یکجا کر کے ان میں آزاد مملکتیں قائم کی جائیں جن میں شامل یونٹوں کو خود مختاری اور حاکمیت اعلی حاصل ہو۔

مولانا ظفر علی خان اور قائداعظم محمد علی جناح
مولوی فضل الحق کی طرف سے پیش کردہ اس قرارداد کی تائید یوپی کے مسلم لیگی رہنماچوہدری خلیق الزماں ، پنجاب سے مولانا ظفر علی خان، سرحد سے سردار اورنگ زیب سندھ سے سر عبداللہ ہارون اور بلوچستان سے قاضی عیسی نے کی۔ قرارداد 23 مارچ کو اختتامی اجلاس میں منظور کی گئی۔
اپریل سن 1941 میں مدراس میں مسلم لیگ کے اجلاس میں قرارداد لاہور کو جماعت کے آئین میں شامل کر لیا گیا اور اسی کی بنیاد پر پاکستان کی تحریک شروع ہوئی۔ لیکن اس وقت بھی ان علاقوں کی واضح نشاندہی نہیں کی گئی تھی جن پر مشتمل علیحدہ مسلم مملکتوں کا مطالبہ کیا جارہا تھا۔


حسن اصفہانی
پہلی بار پاکستان کے مطالبے کے لیے علاقوں کی نشاندہی 7 اپریل سن 1946 دلی کی تین روزہ کنونشن میں کی گئی جس میں مرکزی اور صوبائی اسمبلیوں کے مسلم لیگی اراکین نے شرکت کی تھی۔ اس کنونشن میں برطانیہ سے آنے والے کیبنٹ مشن کے وفد کے سامنے مسلم لیگ کا مطالبہ پیش کرنے کے لیے ایک قرارداد منظور کی گئی تھی جس کا مسودہ مسلم لیگ کی مجلس عاملہ کے دو اراکین چوہدری خلیق الزماں اور حسن اصفہانی نے تیار کیا تھا۔ اس قراداد میں واضح طور پر پاکستان میں شامل کئے جانے والے علاقوں کی نشاندہی کی گئی تھی۔ شمال مشرق میں بنگال اور آسام اور شمال مغرب میں پنجاب ، سرحد ، سندھ اور بلوچستان۔ تعجب کی بات ہے کہ اس قرارداد میں کشمیر کا کوئی ذکر نہیں تھا حالانکہ شمال مغرب میں مسلم اکثریت والا علاقہ تھا اور پنجاب سے جڑا ہوا تھا۔
یہ بات بے حد اہم ہے کہ دلی کنونشن کی اس قرارداد میں دو مملکتوں کا ذکر یکسر حذف کر دیا گیا تھا جو قرارداد لاہور میں بہت واضح طور پر تھا اس کی جگہ پاکستان کی واحد مملکت کا مطالبہ پیش کیا گیا تھا۔
قراردادِ لاہور کے مسودہ کا خالق کون تھا؟

سر سکندر حیات خان
غالباً بہت کم لوگوں کو اس کا علم ہے کہ قراردادِ لاہور کا اصل مسودہ اس زمانہ کے پنجاب کے یونینسٹ وزیر اعلی سر سکندر حیات خان نے تیار کیا تھا۔ یونینسٹ پارٹی اس زمانہ میں مسلم لیگ میں ضم ہو گئی تھی اور سر سکندر حیات خان پنجاب مسلم لیگ کے صدر تھے۔
سر سکندر حیات خان نے قرارداد کے اصل مسودہ میں بر صغیر میں ایک مرکزی حکومت کی بنیاد پر عملی طور پر کنفڈریشن کی تجویز پیش کی تھی لیکن جب اس مسودہ پر مسلم لیگ کی سبجیکٹ کمیٹی میں غور کیا گیا تو قائد اعظم محمد علی جناح نے خود اس مسودہ میں واحد مرکزی حکومت کا ذکر یکسر کاٹ دیا۔
سر سکندر حیات خان اس بات پر سخت ناراض تھے اور انہوں نے 11 مارچ سن 1941 کو پنجاب کی اسمبلی میں صاف صاف کہا تھا کہ ان کا پاکستان کا نظریہ جناح صاحب کے نظریہ سے بنیادی طور پر مختلف ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ ہندوستان میں ایک طرف ہندؤ راج اور دوسری طرف مسلم راج کی بنیاد پر تقسیم کے سخت خلاف ہیں اور وہ ایسی بقول ان کے تباہ کن تقسیم کا ڈٹ کر مقابلہ کریں گے۔ مگر ایسا نہ ھوا۔
سر سکندر حیات خان دوسرے سال سن 1942 میں 50 سال کی عمر میں انتقال کر گئے یوں پنجاب میں محمد علی جناح کو شدید مخالفت کے اٹھتے ہوئے حصار سے نجات مل گئی۔

حسین شہید سہروردی

سن 1946 کے دلی کنونشن میں پاکستان کے مطالبہ کی قرارداد حسین شہید سہروردی نے پیش کی اور یو پی کے مسلم لیگی رہنما چوہدری خلیق الزماں نے اس کی تائد کی تھی۔ قراردادِ لاہور پیش کرنے والے مولوی فضل الحق اس کنونشن میں شریک نہیں ہوئے کیونکہ انہیں سن 1941 میں مسلم لیگ سےخارج کردیا گیا تھا۔
دلی کنونشن میں بنگال کے رہنما ابو الہاشم نے اس قرارداد کی پر زور مخالفت کی اور یہ دلیل پیش کی کہ یہ قرارداد لاہور کی قرارداد سے بالکل مختلف ہے جو مسلم لیگ کے آئین کا حصہ ہے- ان کا کہنا تھا کہ قرارداد لاہور میں واضح طور پر دو مملکتوں کے قیام کا مطالبہ کیا گیا تھا لہذا دلی کنونشن کو مسلم لیگ کی اس بنیادی قرارداد میں ترمیم کا قطعی کوئی اختیار نہیں-
ابوالہاشم کے مطابق قائد اعظم نے اسی کنونشن میں اور بعد میں بمبئی میں ایک ملاقات میں یہ وضاحت کی تھی کہ اس وقت چونکہ برصغیر میں دو الگ الگ دستور ساز اسمبلیوں کے قیام کی بات ہو رہی ہے لہذا دلی کنونشن کی قرارداد میں ایک مملکت کا ذکر کیا گیا ہے۔

چوہدری خلیق الزماں اور آغا خان سوم
البتہ اس وقت جب پاکستان کی دستور ساز اسمبلی آئین مرتب کرے گی تو وہ اس مسئلہ کی حتمی ثالث ہوگی اور اسے دو علیحدہ مملکتوں کے قیام کے فیصلہ کا پورا اختیار ہوگا۔
لیکن پاکستان کی دستور ساز اسمبلی نے نہ تو قائد اعظم کی زندگی میں اور نہ اس وقت جب سن 1956 میں ملک کا پہلا آئین منظور ہو رہا تھا بر صغیر میں مسلمانوں کی دو آزاد اور خود مختار مملکتوں کے قیام پر غور کیا۔
25 سال کی سیاسی اتھل پتھل اور کشمکش اور سن 1971 میں بنگلہ دیش کی جنگ کی تباہی کے بعد البتہ برصغیر میں مسلمانوں کی دو الگ الگ مملکتیں ابھریں جن کا مطالبہ قرارداد لاہور کی صورت میں آج بھی محفوظ ہے۔
 
انہوں نے کہا کہ ہندوؤں اور مسلمانوں میں فرق اتنا بڑا اور واضح ہے کہ ایک مرکزی حکومت کے تحت ان کا اتحاد خطرات سے بھر پور ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ اس صورت میں ایک ہی راہ ہے کہ ان کی علیحدہ مملکتیں ہوں۔
دوسرے دن انہی خطوط پر 23 مارچ کو اس زمانہ کے بنگال کے وزیر اعلی مولوی فضل الحق نے قرار داد لاہور پیش کی جس میں کہا گیا تھا کہ اس وقت تک کوئی آئینی پلان نہ تو قابل عمل ہوگا اور نہ مسلمانوں کو قبول ہوگا جب تک ایک دوسرے سے ملے ہوئے جغرافیائی یونٹوں کی جدا گانہ علاقوں میں حد بندی نہ ہو۔ قرار داد میں کہا گیا تھا کہ ان علاقوں میں جہاں مسلمانوں کی عددی اکثریت ہے جیسے کہ ہندوستان کے شمال مغربی اور شمال مشرقی علاقے، انہیں یکجا کر کے ان میں آزاد مملکتیں قائم کی جائیں جن میں شامل یونٹوں کو خود مختاری اور حاکمیت اعلی حاصل ہو۔
 

arifkarim

معطل
مجھے کوئی بتائے گا کہ پاکستان میں 23 مارچ 1940 کی تاریخ کیوں اہم ہے؟

اٹھارویں صدی میں مغرب میں قوم اور قومی ریاستوں کے تصور کے ظہور سے قبل ہی ہندوستان میں ہندو اور مسلمان صدیوں سے دو علیحدہ قومیں تھیں، مگر 1858ء میں جب برطانیہ نے ہندوستان پر قبضہ کیا اور ہندوؤں اور مسلمانوں کو ایک قوم قرار دے کر حکمرانی شروع کی تو ہندوستان کے مسلمان بجا طور پر اپنے قومی تشخص کی حفاظت کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے (مسلم وقف الاولاد قانون کی برطانوی ہند میں منسوخی اور قائداعظم کی جدوجہد سے 1931ء میں اس کی بحالی اس امر کی ایک بڑی مثال ہے)۔ یہی امر دراصل قرارداد پاکستان کی بنیاد بنا جس نے مسلمانوں کے سیاسی مستقبل کا تعین کیا۔

یوں تو ہندوستان میں مسلمانوں کی ایک علیحدہ ریاست کے قیام کا جزوی اور واضح تصور بہت سارے دانشوروں، اہل علم اور سیاستدانوں نے دیا مگر مارچ 1940ء میں مسلم لیگ کے اجلاس میں جو قرارداد منظور ہوئی وہ درحقیقت علامہ ڈاکٹر محمد اقبالؔ کی کاوش کا نتیجہ تھی جو انھوں نے مئی 1936ء سے نومبر 1937ء کے عرصے میں قائداعظم محمد علی جناح کے ساتھ ہونے والی اپنی خط و کتابت میں کی تھی۔ اقبالؔ نے اپنے ان خطوط میں قائداعظم پر زور دیا تھا کہ وہ ہندوستان میں مسلمانوں کی علیحدہ ریاست کا مطالبہ کریں اور جلد از جلد مسلم اکثریتی علاقے لاہور میں مسلم لیگ کا اجلاس منعقد کریں۔ قائداعظم نے اقبالؔ کے ان خطوط کے بارے میں اظہار کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ انھوں نے اقبالؔ کے اس تصور کو اس لیے قبول کیا تھا کہ وہ ان کے اپنے خیالات کے مطابق تھا۔ یعنی ہندوستان میں مسلمانوں کے حقوق کی حفاظت کرتے ہوئے قائداعظم بھی اسی نتیجے پر پہنچے جس طرف اقبال نے ان کی توجہ مبذول کروائی۔

آل انڈیا مسلم لیگ کا ستائیسواں سالانہ اجلاس منٹو پارک لاہور میں منعقد ہوا جو 22 مارچ سے 24 مارچ 1940ء تک جاری رہا۔ اسی جگہ پر آج یادگار پاکستان قائم ہے۔ اس تاریخی اجلاس کی صدارت قائداعظم نے کی۔ جس کے لیے وہ دہلی سے بذریعہ ٹرین فرنٹیئر میل لاہور پہنچے تھے۔

یہ تاریخی اجتماع جہاں ایک طرف اسلامی اخوت اور بھائی چارے کا مظہر تھا۔ وہاں دوسری طرف مسلمانوں کی تہذیب و ثقافت اور تمدن کی جیتی جاگتی تصویر بھی تھا۔ اجلاس میں قائداعظم اور لیاقت علی خان کی آمد کا منظر بڑا خیرہ کن تھا۔ دونوں نے شیروانیاں زیب تن کر رکھی تھیں۔ صدیق علی خان کی قیادت میں مسلم لیگ گارڈز انھیں اپنے جلو میں لے کر ڈائس تک پہنچے۔ اے کے فضل الحق اور چوہدری خلیق الزماں بھی شیروانیوں میں ملبوس تھے۔ یہ تاریخی اور روح پرور اجتماع خواص و عوام کے سنگم سے عبارت تھا، جس میں ہندوستان کے مسلم اقلیتی اور اکثریتی علاقوں سے مسلم لیگ کے رہنماؤں نے شرکت کی۔ ان میں حیدرآباد دکن سے مسلم لیگی رہنما بہادر یار جنگ اور لاہور سے مولانا ظفر علی خان بھی شامل تھے۔ جب کہ بیگم مولانا محمد علی جوہر سر تا پاؤں کالے برقعے میں ملبوس اجلاس میں موجود تھیں۔ قرارداد پاکستان کی حمایت میں بولنے والوں میں ان کی آواز بھی شامل تھی۔

اس تاریخی اجتماع کا آغاز 22 مارچ 1940ء کو ہوا۔ ابتدا میں میاں بشیر احمد کی نظم ’’ملت کا پاسباں‘‘ غیاث غازی آبادی نے پڑھی۔ قائداعظم نے اسی دن 22 مارچ 1940ء کو ان اہم اور تاریخی لمحات میں ڈھائی گھنٹے فی البدیہہ تقریر کی۔ اس تقریر میں انھوں نے فرمایا کہ ’’مسلمان کسی بھی تعریف کی رو سے ایک قوم ہیں، ہندو اور مسلمان دو مختلف مذہبی فلسفوں، سماجی عادات، علوم سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ لوگ نہ تو آپس میں شادی کر سکتے ہیں نہ یہ لوگ اکٹھے کھانا کھا سکتے ہیں اور یقیناً یہ لوگ مختلف تہذیبوں سے تعلق رکھتے ہیں جو بنیادی طور پر اختلافی خیالات اور تصورات پر محیط ہیں۔ یہ بالکل واضح ہے کہ ہندو اور مسلمان تاریخ کے مختلف ذرائع سے ہدایت حاصل کرتے ہیں۔ ان دونوں کے ہیروز اور قصے کہانیاں ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ اکثر ایک کا ہیرو دوسرے کا ولن ہے۔

یہی حال ان دونوں کی فتوحات اور شکستوں کے حوالے سے ہے۔ اس طرح کی دو قوموں کو ایک واحد ریاست میں اکٹھے رکھنا کہ جس میں عددی اعتبار سے ایک اقلیت میں ہو اور دوسری اکثریت میں سوائے تباہی اور بربادی کے کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔ مسلمان قوم کی کسی بھی تعریف کی رو سے ایک قوم ہیں اور ان کے پاس اپنا وطن، اپنا علاقہ اور اپنی ریاست ہونی چاہیے جہاں مسلمان مکمل طور پر اپنی روحانی، ثقافتی، اقتصادی، سماجی اور سیاسی زندگی کی اس طرح تعمیر کریں جسے ہم سب بہتر سمجھیں اور جو ہمارے تصور سے مطابقت رکھے اور ہمارے لوگوں کی خواہش کے مطابق ہو‘‘۔ قائداعظم کی تقریر ایسی سحر انگیز اور متاثر کن تھی کہ اس جلسے میں انسانوں کے سمندر پر جیسے سکوت طاری ہو گیا ہو۔ لوگوں کی اکثریت انگریزی سے نابلد تھی لیکن لوگ یہ محسوس کر رہے تھے کہ جیسے یہ ان کے دلوں کی آواز ہے۔

23 مارچ 1940ء کو وہ تاریخی لمحہ آ پہنچا جب آل انڈیا مسلم لیگ نے لاہور کے تاریخی اجتماع میں ہندوستان کے شمال مشرقی اور مغربی زونوں میں جہاں مسلمانوں کی اکثریت تھی ان پر مشتمل مسلمانوں کی ایک علیحدہ اور آزاد ریاست کے قیام کا مطالبہ کیا گیا۔ یہ قرارداد لاہور بعد ازاں قرارداد پاکستان کے نام سے مشہور ہوئی۔ اس قرارداد کو قائداعظم اور سکندر حیات نے تیار کیا جب کہ لیاقت علی خان نے 22 مارچ کو اسے سبجیکٹ کمیٹی میں پیش کیا۔ مولانا ظفر علی خان نے اس کا اردو ترجمہ کیا۔ اس قرارداد کو صوبہ بنگال کے وزیر اعلیٰ اے کے فضل الحق نے 23 مارچ کو کھلے اجلاس میں پیش کیا۔ یوپی کے چوہدری خلیق الزماں نے قرارداد کی تائید کی۔ جن اہم مسلم لیگی رہنماؤں نے قرارداد کی حمایت کی ان میں پنجاب سے مولانا ظفر علی خان، ڈاکٹر محمد عالم، سرحد سے سردار اورنگ زیب خان، سندھ سے حاجی سر عبداﷲ ہارون، بلوچستان سے قاضی عیسیٰ، یوپی سے بیگم مولانا محمد علی جوہر، سید ذاکر علی، مولانا عبدالحامد، بہار سے نواب محمد اسماعیل، سی پی سے سید عبدالرؤف شاہ اور مدراس سے عبدل حامد خان شامل تھے۔

یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ اس قرارداد کی حمایت کرتے ہوئے بیگم مولانا محمد علی جوہر نے سب سے پہلے قرارداد پاکستان کا لفظ استعمال کیا۔ ہندوستان کی تقسیم سے قبل ہی آل انڈیا مسلم لیگ نے 1941ء سے 23 مارچ کے دن ہندوستان بھر میں یوم پاکستان منانا شروع کر دیا تھا۔ قرارداد لاہور بعد ازاں قرارداد پاکستان کے نام سے مشہور ہوئی۔ اس قرارداد میں پاکستان کا لفظ شامل نہیں ہوا تھا۔ لفظ پاکستان کے خالق چوہدری رحمت علی تھے۔ 1943ء میں قائداعظم نے اپنی ایک تقریر میں قرارداد لاہور کے لیے پاکستان کا لفظ قبول کرتے ہوئے اسے قرارداد پاکستان قرار دیا۔

قائداعظم کے مخلص ساتھی اور آل انڈیا مسلم لیگ ورکنگ کمیٹی کے رکن ایم اے ایچ اصفہانی اپنی کتاب “Quaid-e-Azam Jinnah as I knew him” کے صفحہ نمبر 159 پر رقم طراز ہیں کہ ’’قائداعظم نے قرارداد لاہور میں لفظ States (ریاستیں) کے اندراج کو ٹائپنگ (Typing) کی غلطی قرار دیا تھا اور فرمایا تھا کہ حقیقی اہمیت نیت کی تھی نہ کہ لفظ کی‘‘۔

ستمبر 1944ء میں مہاتما گاندھی کے ساتھ اپنی خط و کتابت کے دوران گاندھی کی طرف سے پوچھے گئے قرارداد پاکستان کے بارے میں سوالات کے جواب میں قائداعظم نے وضاحت کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ ’’قرارداد پاکستان میں مشرقی اور مغربی زونوں کی اکائیاں (Units) پاکستان کی اکائیاں ہوں گی‘‘۔ چنانچہ یہاں بھی قائداعظم نے واضح کر دیا کہ قرارداد پاکستان میں ایک ریاست قائم کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے، دوسری طرف اس سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ قرارداد لاہور میں Units یا صوبوں کی آزادی اور خود مختاری سے مراد ایک وفاق کے اندر صوبوں کے انتظامی اختیارات تھے۔

مرکزی اور صوبائی اسمبلیوں کے تمام مسلم لیگی ارکان کا ایک کنونشن 7 اور 8 اپریل 1946ء کو اینگلو عربک کالج دہلی میں منعقد ہوا، 470 مسلم لیگی ارکان اسمبلی نے متفقہ طور پر قرارداد لاہور میں درج لفظ States کی جگہ “State” کر دیا۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ کسی بھی قرارداد، قانون یا دستور پر وقت کے ساتھ ساتھ نظرثانی ہوتی ہے اور ان میں موجود کسی بھی غلطی، سقم یا کمی کا تدارک کیا جاتا ہے، ان کی تصحیح ہوتی ہے اور خصوصاً جب کسی نئی ریاست کی تشکیل کا مرحلہ ہو تو اس کی گنجائش کچھ زیادہ ہی ہوتی ہے۔ 23 مارچ 1940ء کو قرارداد پاکستان اپنی ابتدائی شکل میں سامنے آئی جسے بعدازاں قائداعظم اور مسلم لیگ کے ارکان اسمبلی کے کنونشن 1946ء نے بہتر اور واضح شکل دی۔ اس قرارداد میں جو مطالبہ پیش کیا گیا تھا اس کی بنیاد پر مسلم لیگ نے 1946ء کے انتخابات میں بھرپور کامیابی حاصل کی اور 14 اگست 1947ء میں پاکستان کا قیام عمل میں آیا۔
http://www.express.pk/story/238337/
 
Top