2050

سید رافع

محفلین
سن 2050 آچکا تھا۔ پاکستان میں اعلیجاہ کی خفیہ حکومت اپنے جوبن پر تھی۔ اعلیجاہ کی پارٹی ہر پاکستانی کی حرکات و سکنات یہاں تک کے اسکی تمام سوچوں تک رسائی چاہتی تھی۔ ہر قسم کی انفرادیت کو شک کی نگاہ سے دیکھا جا رہا تھا۔ تمام رسائل، جرائد، ویب سائٹس، ٹی وہ چینل اور انٹرنیٹ پر اعلیجاہ کی پارٹی کی سوچ کو آگے بڑھایا جا رہا تھا۔ وزارت سچائی تمام تحریروں پر کڑی نگاہ رکھ رہی تھی۔ اگر کسی کتاب یا اخبار میں کوئی ایسی بات نظر آتی جو اعلیجاہ کی پارٹی کے منشور کے خلاف ہو تو اس کتاب اور اخبار کے تمام اشاعتوں کو وزارت سچائی واپس منگوا لیتی۔ بھر اخبارات یا کتابوں کو آگ کی بڑی بڑی بھٹیوں میں جلا دیا جاتا اور انہی اخبارات اور کتابوں کی تحریف شدہ نئی اشاعت ملک کے تمام شہروں کو بھیج دی جاتی۔ تمام شہریوں کو امن و امان بحال رکھنے کے لیے یہ ضروری تھا کہ وہ ایسی تمام تحریروں کو جو پارٹی کے منشور کے خلاف ہوں، اپنے گھروں سے قریب وزارت سچائی کی قائم کردہ یاداشت ضایع کرنے کی بھٹیوں میں جلا دیں۔ کوئی فرد جرات نہیں کر سکتا تھا کہ وہ ایسی تحریروں کو اپنے پاس رکھے جو وزارت سچائی سے منظور شدہ نہ ہو۔ بصورت دیگر وہ شخص جلد نامعلوم ہو کر بھاپ میں تبدیل کر دیا جاتا تھا۔ گھر کے بچے، محلے کے پڑوسی، دفتر کے ساتھی ، ایسی تحریروں کی اگر معمولی سی خبر بھی شہروں میں گھومتی ہوئی خفیہ امن کے پیامبر کو کر دیں تو وہ شخص نامعلوم بھاپ بن سکتا تھا۔ کوئی ایسا رسک نہیں لیتا اور جلد از جلد تمام تحریروں کو کو یاداشت ضایع کرنے کی بھٹیوں میں جلا دیتا۔ صرف کچھ اونس کے دماغ میں آزادی اور یاداشت رکھی جاسکتی تھی اور اس سے باہر اعضاء سے کسی قسم کی مشتبہ حرکت اس فرد کو موت کی وادی میں لے جاسکتی تھی۔ ہر فون، ہر کمپیوٹر، ہر الیکٹرونک آلہ وزارت سچائی سے جڑا تھا۔ کون کس وقت کیا کر رہا ہے اعلیجاہ کی اس پر نظر تھی۔ ہر چند گھنٹے بعد اعلیجاہ کی پرسرار تصویر آلات پر ابھرتی اور خفیہ انداز سے غائب ہو جاتی۔ ہر فرد پر لازم تھا کہ وہ ان گہری موٹی آنکھوں والی بے ریش اعلیجاہ کی سرمئی تصویر کو دیکھے اور میں امن کا احترام کرتا ہوں کا بٹن دبائے۔

مجاہد کے آفس کا وقت ختم ہوا وہ تیزی سے کراچی میں واقع وزارت سچائی کے ریکارڈ کے شعبے نکل کر اپنے گھر کی طرف روانہ ہوا۔ سارا دن اس کا کام ملک بھر کی اشاعتوں میں رد و بدل کر کے اسے اعلیجاہ کی سوچ کے مطابق کرنا تھا۔ وہ واقعات کے سن تبدیل کرتا تو کبھی افراد کے نام تبدیل کرتا، کبھی پچھلی لکھی گئی کتابوں میں تحریف کرتا تا کہ وہ موجودہ کتابوں سے ہم آہنگ ہوں۔ یوں کسی کے لیے یہ ممکن نہ ہو کہ وہ اصل تاریخ اور اعلیجاہ کی حکومت آنے سے پہلے کے واقعات کو جان سکے۔ مجاہد اپنے گھر پہنچ چکا تھا۔ وہ پکا ارادہ کر چکا تھا کہ وہ اپنی یاداشت کو ایک ڈائری میں منتقل کرے گا۔ وہ چاہتا تھا کہ ماضی کے تمام واقعات اور اعلیجاہ کی حکومت سے قبل کے تمام حالات سچائی کے ساتھ درج کرے۔ یہ ایک بغاوت تھی جس کا انجام نامعلوم بھاپ بن جانا تھا۔ شہر بھر میں گھومتے محکمہ امن کے سینکڑوں کارندے مجاہد کی ایک ایک حرکت پر نظر رکھے ہوئے تھے۔ ایک معمولی سی غلطی اسکو موت کی نیند سلا سکتی تھی۔ یکایک اسکے کمرے کی دیوار پر ٹیلی اسکرین نے اعلیجاہ کا پیغام امن پڑھ کر سنایا۔ ٹیلی اسکرین پر نشر ہونے والے ہر پیغام کو دہرانا ضروری تھا۔ ٹیلی اسکرین کے ذریعے سچائی پارٹی ہر گھر کے اندر کے حالات پر نظر رکھتی تھی۔ مجاہد کے پاس قلم اور ڈائری کافی مشکوک ثابت ہو سکتی تھی چنانچہ اس نے چابکدستی سے انکو دراز کے اندر دکھیل دیا۔ اعلیجاہ کے پیغام کے بعد پارٹی کے ایک رہنما نے ٹیلی اسکرین پر دو منٹ کی نفرت کا پیغام نشر کر شروع کر دیا۔ ہر گھر، دکان اور دفتر سے دو منٹ کی نفرت کی آوازیں بلند ہونا شروع ہو گئیں۔ ہر طرف ایک شور برپا تھا۔ مردوں کی گردنوں کی نسیں تن گئی تھیں اور عورتوں کے بال کھل گئے تھے اور وہ چیخ چیخ کر سابقہ ادوار سے اپنی نفرت کا اظہار کر رہے تھے۔ دو منٹ بعد ٹیلی اسکرین سفید سے سرمئی اور پھر سیاہ ہو گیا اور ہر طرف آوازیں مدہم ہونا شروع ہو گئیں۔

مجاہد دراز سے ڈائری اور قلم نکالتے ہوئے اپنی سوچوں میں غرق ہونا شروع ہو گیا۔

جاری ہے۔۔۔
 
Top