2018ء سے پہلے پاکستان کتنا آسودہ حال تھا؟

جاسم محمد

محفلین
امتیاز گل
2018ء سے پہلے پاکستان کتنا آسودہ حال تھا؟

مختلف نظریات اور ایک دوسرے کی سخت سیاسی مخالف جماعتوں کا اتحاد ‘جمہوریت کی بحالی‘ عوام کی فلاح و بہبود اور قانون کی حکمرانی اور بالا دستی کے لیے ملک گیر سفر جاری ہے۔ عوام کی حالت ِزار(بلاشبہ مہنگائی میں ہوشربا اضافہ ایک انتہائی باعثِ تشویش امر ہے) کا رونا روتے ہوئے یہ جماعتیں خود کو relevant رکھنے اور دوبارہ اقتدار کی سیڑھی پر چڑھنے کے لیے کوشاں ہیں۔مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ ملک کی معاشی بدحالی کا رونا کچھ ایسے انداز میں رویا جارہا ہے جیسے گزشتہ پندرہ بیس برس میں اس ملک میں دودھ اور شہد کی نہریں بہہ رہی تھیں‘مہنگائی کا نام و نشان نہیں تھا‘ ملک میں قانون کی حکمرانی تھی اورمؤثر گورننس تھی‘ صحت اور تعلیم میں ملک ترقی کی نئی منزلوں کو چھو رہا تھا‘ جرائم کا نام و نشان مٹ چکا تھا‘ راوی چین ہی چین لکھتا تھا اور عوام ہر لحاظ سے پر سکون تھے‘ مگر جب سے دو تہائی اکثریت کے ساتھ ''منتخب حکومت‘‘ کی جگہ ''سلیکٹڈ‘‘ حکومت نے لی‘ بقول ان موروثی سیاست میں رنگے ہوئے جمہوریت کے دعویداروں کے‘ پاکستان کی معاشی ترقی تہس نہس ہو کر رہ گئی اور عوام مشکلات کے بھنور میں پھنس گئے ہیں۔ مزید دلچسپ تو یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ نواز شریف‘ شہباز شریف‘ حمزہ شہباز اور مریم صفدر کا تعلق بھی مختلف جمہور پسند گھرانوں سے ہے‘ اسی طرح آصف زرداری‘ فریال تالپور اور بلاول بھٹو زرداری کا بھی آپس میں اور کوئی رشتہ نہیں ‘ یہ سب جمہوریت سے محبت‘ آئین و قانون کے احترام اور انسدادِ کرپشن کے جذبے کی ایک ڈوری میں پروئے ہوئے موتی ہیں اور گویا 2018ء کے الیکشن سے پہلے پاکستان میں جرمنی یا سوئٹزرلینڈ کا سماں تھا۔
اب ذرا نظر دوڑائیے ان اشاریوں پر جو دنیا بھر میں پاکستان کی شناخت ہیں۔ اعدادوشمار کی طرف جانے سے پہلے ایک بات جاننا بہت ضروری ہے کہ گزشتہ 20‘ 25 سال میں اس ملک میں کچھ نہیں بدلا اور یہ حالتِ زار‘ عوام اس وقت جس کا سامنا کر رہے ہیں‘ یہ ہولناک مہنگائی ‘ بڑھتی ہوئی بے روزگاری ‘ کاروباری دقتیں ‘ معاشی مشکلات ‘ الغرض یہ سبھی مسائل جو اس وقت پاکستان کے عوام کو درپیش ہیں ‘ یہ کوئی نئی بات نہیں ‘اور صرف اسی وقت یا اسی حکومت میں نہیں پیدا ہوئے بلکہ پہلے بھی یہی صورتحال رہی ہے۔ مگر پروپیگنڈا یہ کیا جارہا ہے کہ ملک کے حالات پہلی دفعہ خراب ہوئے ہیں۔
سیاست کرنا اپوزیشن کا حق ہے‘ لیکن اس سیاست کے ذریعے عوام کے سامنے جھوٹ بول کر ایک ایسی تصویر پیش کرنا کہ کسی طرح عوام کو دھوکے میں رکھا جائے‘ یہ نہ تو عوام کی خدمت ہے اور نہ ہی حقیقی اپوزیشن‘بلکہ یہ صرف ایک طریقہ ہے کہ کسی طرح اقتدار کی کرسی تک پہنچا جاسکے۔اگر عوام کیلئے اپوزیشن واقعی کوئی سنجیدہ کوشش کرنا چاہتی ہے تو اسے ان مسائل کی نشاندہی کے ساتھ حل کی تجاویز میں بھی حصہ ڈالنا چاہیے۔مسائل کی نشاندہی پر اتنی توانائیاں کیوں خرچ کی جاتی ہیں‘ حالانکہ اس کی تو ضرورت ہی نہیں ‘کہ یہ سب ظاہر و باہر ہے ۔ اصل کام تو یہ ہے کہ مسائل کا حل تلاش کیا جائے اور اس سلسلے میں اپوزیشن اپنی ذمہ داریوں سے فرار حاصل نہیں کر سکتی۔ اپوزیشن کا بھی فرض ہے کہ وہ ملک کے حقیقی مسائل کو سنجیدگی سے لے اور سنجیدگی سے ان کا حل تلاش کرنے میں مدد کرے۔ اگر اپوزیشن یہ نہیں کرنا چاہتی تو اس کا مطلب صاف ظاہر ہے کہ وہ ان حالات میں صرف تماشائی کا کردار ادا کرنا چاہتی ہے اور صرف سیاسی فائدہ اٹھانے کی خواہش مند ہے۔
گزشتہ کئی برسوں سے ملک کی معاشی حالت کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی سطح پر درجہ بندیوں میں کوئی خاطرخواہ بہتری نہیں دیکھی گئی۔ گزشتہ سال حکومت کی عملداری کے حوالے سے 128 ممالک میں پاکستان کا نمبر 120 واں تھا۔ اگر بات کی جائے کرپشن کی تو بدعنوانی کے تاثرکے حوالے سے 2018ء میں پاکستان کا نمبر 117 واں تھا ‘جو مزید خراب ہوکر اب 120 پر جا پہنچا ہے۔ایک اور سروے کے مطابق پاکستان بحیثیت مجموعی انسانی ترقی کے حوالے سے 179 میں سے 150 ویں نمبر پر ہے‘ خوشحالی کے اشاریے میں پاکستان 166 ممالک میں سے 140 ویں نمبر پر ہے ‘ سکیورٹی کے حوالے سے 156‘ صحت میں 127 ‘جبکہ تعلیم کے حوالے سے 133 ویں نمبر پر کھڑا ہے۔
جھوٹ اور دھوکے کو پھیلانے میں میڈیا کے بعض حصے بھی کردار ادا کرتے ہیں۔اس حوالے سے وزیراعظم عمران خان کے تحفظات کو درست ماننا پڑے گا۔ بعض حضرات نہ چاہتے ہوئے بھی اپنی ذاتی پسند اور ناپسند کی وجہ سے اس کا شکار ہوجاتے ہیں اور شاید یہ دانستہ نہ ہو۔ میڈیا رائے عامہ ہموار کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اس کو چاہیے کہ وہ پیشین گوئی کے بجائے عوام کے سامنے حقیقت بیان کرے کیونکہ آج کل الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا کا بھی دور ہے۔ یہاں ہر سیاسی جماعت کے اپنے سوشل میڈیا ونگ ہیں جن کا کام ہی صرف اپنی جماعت کے ہر اقدام کا دفاع کرنا ہے چاہے اس کے لیے جھوٹ اور من گھڑت معلومات ہی عوام تک کیوں نہ پہنچائی جائیں۔ روزانہ کی بنیاد پر سوشل میڈیا پر ٹرینڈز بنتے ہیں اور ان میں بیشتر مضحکہ خیز ہیں۔ مثال کے طور پر جب کسی کی طرف سے کوئی دعویٰ کیا جاتاہے تو اس کی حمایت اور مخالفت میں یہ میڈیا سیل خبر کو اپنے من پسند طریقے سے بنانے کے بعد سوشل میڈیا خصوصاً ٹوئٹر اور فیس بک پر وائرل کر دیتے ہیں کہ جیسے صرف یہی حقائق پر مبنی خبر ہے۔
بدقسمتی سے ہمارے ہاں سیاسی جماعتوں میں یہ ایک رواج سا بن گیا ہے کہ یہ لوگ مہنگائی کا رونا روئیں گے‘ بے روزگاری اور معاشی مسائل کے متعلق گفتگو کریں گے۔ ان کی زیادہ توجہ مسائل کی طرف ہی ہوتی ہے‘ لیکن جب ان سے ان مسائل کے حل کا پوچھا جاتا ہے تو ہمیشہ اس سوال کو یا تو گول کردیا جاتا ہے یا پھر ان کی اہمیت کم دی جاتی ہے۔آج جتنی بھی اپوزیشن جماعتیں ملک گیر احتجاج کررہی ہیں ان میں سے تقریباً ہر جماعت گزشتہ 30 سال میں کسی نہ کسی سطح پر اقتدار میں رہ چکی ہے‘ لیکن کیا وجہ کہ مسائل ابھی تک وہیں پر موجود ہیں۔ اگر یہ لوگ اتنے ہی اچھے طریقے سے مسائل کو سمجھتے تھے تو پھر ان کے حل کے لیے کچھ کیوں نہ کر سکے؟ کتنا اچھا ہوتا کہ ان جماعتوں کے پیروکار یہ اعدادوشمار سامنے رکھتے اور ان سے مطالبہ کرتے کہ پاکستان کے ہر شہری کے لیے کم از کم پینے کے صاف پانی کا بندوبست کردیں اور ان سے پوچھیں کہ جب یہ اقتدار میں تھے تو فوجداری اور دیوانی قوانین میں تبدیلی اور نیب کے نظام اور قوانین میں ترمیم کرنے کی کوشش کیوں نہیں کی؟ VIP پروٹوکول کا خاتمہ کیوں نہ کیا‘ پولیس اصلاحات کیوں نہ کیں اور اپنے کاروباری معاملات کو سیاست سے علیحدہ کیوں نہیں کیا؟
ان سب سوالوں کا مختصر مگر جامع جواب یہ ہے کہ انہوں نے یہ سب اس لیے نہیں کیا کہ حکمران گھرانوں اور اشرافیہ کو Status quo زیب دیتا ہے۔ یہ ہمیشہ سے ایسا کرتے آئے ہیں اور یہی اس ملک کی سب سے بڑی بدقسمتی ہے۔
 
Top