19ہزار افراد نے193ارب کے قرضے معاف کرائے

گوہر

محفلین
22 دسمبر 2009 منگل کو ایک خبر(VOA) کے مطابق عدالت عظمیٰ میں سٹیٹ بینک آف پاکستان نے ان 19ہزار افراد اور تنظیموں کی فہرست چیف جسٹس افتخارمحمد چوہدری کی سربراہی میں تین رکنی بنچ کے سامنے پیش کی جنہوں نے 1997ء سے 2009ء کے دوران بینکوں سے قرضے لیے جنہیں بعد میں معاف کردیا گیا۔ ان قرضوں کی مجموعی مالیت اصل بمع سود 193ارب روپے ہے۔
واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے 2007ء کے اواخر میں از خود نوٹس لیتے ہوئے بینکوں اور مالیاتی اداروں سے قرضے معاف کرانے کے اس متنازع قانون کی وضاحت سٹیٹ بینک آف پاکستان سے طلب کی تھی لیکن اسی سال سابق صدر پرویز مشرف کی طرف سے ایمرجنسی لگا کر ججوں کو برطرف کرنے کے بعد اس مقدمے کی مزید سماعت نہ ہوسکی۔ اب عدالت عظمیٰ نے ایک بار پھر اس مقدمے کی کارروائی شروع کی ہے اور منگل کو ہونے والی سماعت میں سٹیٹ بینک کے وکیل نے عدالت کے حکم پر قرض معاف کرانے والوں کی فہرست پیش کی۔عدالت میں پیش کی گئی فہرست ان افراد پر مشتمل ہے جن کے ذمے کم سے کم پانچ لاکھ یا اس سے زائد رقم واجب الادا تھی۔
سٹیٹ بینک کے وکیل نے عدالت عظمیٰ کو بتایا کہ 1971ء سے 1997ء تک معاف کیے جانے والے قرضوں کی فہرست بھی تیار کی جارہی ہے۔ سپریم کورٹ کی ہدایت پر انھوں نے وعدہ کیا کہ دو فروری کو دوبارہ سماعت کے موقع پر عدالت کے سامنے ان 19ہزار افراد کے ناموں کی تفصیلات بھی پیش کی جائیں گی جنہوں نے پچھلی ایک دہائی کے دوران قرض معاف کرائے۔
عدالتی کارروائی کے بارے میں عدالتی معاون بیرسٹر عبدالحفیظ پیرزادہ نے صحافیوں کو بتایا کہ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے سماعت کے دوران کہا کہ جس طرح بینک قرض دیتے اور انہیں معاف کرتے ہیں وہ امتیازی قانون ہے اور فہرست کا جائزہ لینے کے بعد جن لوگوں نے قرضے معاف کرائے ان سے رقوم واپس لی جائیں۔
بیرسٹر پیرزادہ نے کہا کہ جب انھوں نے عدالت کو بتایا کہ اس پر بینکوں اور مالیاتی اداروں کی طرف سے مزاحمت درپیش ہوسکتی ہے تو جج صاحبان کا کہنا تھا کہ وہ اس کا مقابلہ کرنے کو تیار ہیں۔
گزشتہ ہفتے متنازع قومی مصالحتی آرڈیننس کو سپریم کورٹ نے کالعدم قرار دینے کے بعد اس قانون کے تحت فائدہ اٹھانے والے آٹھ ہزار سے زائد افراد کے خلاف بدعنوانی اور فوجداری کے مقدمات دوبارہ بحال کردیے تھے ۔ ملک کی اعلیٰ عدلیہ کے اس فیصلے کو خاصی پذیرائی ملنے کے ساتھ ساتھ ان مطالبات میں بھی تیزی آگئی ہے کہ سیاسی اثرورسوخ استعمال کرکے قرضے معاف کرانے والوں کے ناموں سے بھی قوم کو آگاہ کیا جائے۔
 

arifkarim

معطل
بہت خوب۔ بینک کونسا اپنے پلے سے قرض دیتے ہیں۔ سیدھا سیدھا نوٹ (رسید) دے کر کہتے ہیں‌یہ لو عیش کرو۔ :)
 

ساجد

محفلین
بہت خوب۔ بینک کونسا اپنے پلے سے قرض دیتے ہیں۔ سیدھا سیدھا نوٹ (رسید) دے کر کہتے ہیں‌یہ لو عیش کرو۔ :)
عارف ، رسید بھی کسی بنیاد پہ بنتی ہے۔ جو ملک بھی اپنے محفوظ ذخائر سے زیادہ نوٹ چھاپے گا بالیقین افراط زر کا شکار ہو گا اور اقتصادی مشکلات بڑھیں گی۔ ان مشکلات پر قابو پانے اور محفوظ ذخائر کے بدلے رسیدیں "نوٹ" جاری کرنے کا عمل قدیم تاریخی تجربات کے ذریعہ وجود میں آیا۔ بلکہ اب تو رسید "نوٹ" کا استعمال بھی کم ہوتا جا رہا ہے۔ اس کی جگہ کریڈت کارڈز اور اون لائن بینکنگ کو ترجیح دی جاتی ہے۔ آپ بارٹر ٹریڈ سسٹم پر آئیں یا سونے کی اشرفیوں کی ترویج کا خیال اٹھائیں دونوں صورتیں اب کون قبول کرے گا؟ کوئی کرے یا نہ کرے کیا آپ یہ تصور کر سکتے ہیں کہ آپ ناروے سے اپنی کمائی کا کچھ حصہ سونے کی شکل میں پاکستان بھیجیں تو آپ کو کس قسم کی دشواریاں پیش آ سکتی ہیں؟
 

arifkarim

معطل
عارف ، رسید بھی کسی بنیاد پہ بنتی ہے۔ جو ملک بھی اپنے محفوظ ذخائر سے زیادہ نوٹ چھاپے گا بالیقین افراط زر کا شکار ہو گا اور اقتصادی مشکلات بڑھیں گی۔ ان مشکلات پر قابو پانے اور محفوظ ذخائر کے بدلے رسیدیں "نوٹ" جاری کرنے کا عمل قدیم تاریخی تجربات کے ذریعہ وجود میں آیا۔ بلکہ اب تو رسید "نوٹ" کا استعمال بھی کم ہوتا جا رہا ہے۔ اس کی جگہ کریڈت کارڈز اور اون لائن بینکنگ کو ترجیح دی جاتی ہے۔ آپ بارٹر ٹریڈ سسٹم پر آئیں یا سونے کی اشرفیوں کی ترویج کا خیال اٹھائیں دونوں صورتیں اب کون قبول کرے گا؟ کوئی کرے یا نہ کرے کیا آپ یہ تصور کر سکتے ہیں کہ آپ ناروے سے اپنی کمائی کا کچھ حصہ سونے کی شکل میں پاکستان بھیجیں تو آپ کو کس قسم کی دشواریاں پیش آ سکتی ہیں؟

متفق! شاید یہی وجہ ہے کہ ہر ملک کی کرنسی کی قوت خرید وقت کیساتھ ساتھ کم ہوتی جاتی ہے۔ اور آن لائن بینکنگ میں تو ذخائر والا چکر بھی ختم ہوگیا۔ دو بٹن دبا کر جتنا مرضی کریڈٹ بنایا جا سکتا ہے۔ ڈالر کی عالمی منڈی میں کم قیمت بھی اسی طرف اشارع کرتی ہے کہ اسوقت بےتحاشا ڈالر کی رسیدیں چھپ رہی ہیں۔;)
 

ساجد

محفلین
جی ہاں ۔ کاغذی کرنسی بھی تصویر کے دو رخ رکھتی ہے ۔ یہ بھی درست کہ اس کے آنے سے افراط زر اور مالی بے قاعدگیوں کو فروغ ملا لیکن اس میں یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ انسانی زندگی اور تجارت میں اس سے کتنی آسانیاں آئیں۔ اگر مالی معاملات کو مقررہ ضوابط کے تحت چلایا جائے تو رسیدوں کے منفی اثرات پہ بڑا مؤثر کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔ چین ، کوریا، سنگاپور اور ملائیشیا اس کی مثالیں ہیں۔
 
Top