- 16؍اپریل 1951!!!! معروف شاعر ”#آرزوؔ_لکھنؤی صاحب“ کا یومِ وفات...

سیما علی

لائبریرین
آج - 16؍اپریل 1951

ممتاز قبل از جدید شاعر، جگر مرادآبادی کے معاصر اور معروف شاعر ”#آرزوؔ_لکھنؤی صاحب“ کا یومِ وفات...

نام #سیّد_انور_حسین، عرف #منجھو_صاحب، اور تخلص #آرزوؔ تھا۔ 17؍فروری 1873ء کو لکھنؤ میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد میر ذاکر حسین ،یاسؔ تخلص کرتے تھے۔ جناب آرزو کو بہت کم سنی سے شعرو سخن کا شوق تھا۔ جب ان کے والدکو ان کے شوق کا حال معلوم ہوا تو جلال لکھنوی کے پاس لے گئے اور ان کا شاگرد کرادیا۔آرزو نے مالی مشکلات کی وجہ سے کلکتہ میں فلم کمپنیوں کے لیے ڈرامے اور گیت لکھے۔ بمبئی میں بھی فلموں کے لیے گیت لکھے۔ تقسیم ہند کے بعد کراچی آگئے اور یہیں 16؍اپریل1951ء کو انتقال ہوا۔آپ کے تین شعری مجموعے ’’فغانِ آرزو‘‘، ’’جانِ آرزو‘‘ اور ’’سریلی بانسری‘‘ شائع ہوچکے ہیں۔ آرزو، جلال لکھنوی کے جانشین تھے۔ ان کی شاعری صحت زباں کے لحاظ سے سند کا درجہ رکھتی ہے۔ ’’سریلی بانسری‘‘ میں خالص ہندوستانی زبان میں شاعری کی ہے۔
بحوالۂ:پیمانۂ غزل(جلد اول)،محمد شمس الحق،صفحہ:260

💐💐💐💐💐💐💐💐💐💐💐💐💐💐💐💐💐💐💐💐💐💐💐💐💐💐💐💐💐



💐 ممتاز شاعر آرزوؔ لکھنؤی صاحب کے یومِ وفات پر منتخب اشعار بطورِ خراجِ عقیدت... 💐

اپنی اپنی گردش رفتار پوری کر تو لیں
دو ستارے پھر کسی دن ایک جا ہو جائیں گے
---
اس چھیڑ میں بنتے ہیں ہشیار بھی دیوانے
لہرایا جہاں شعلہ اندھے ہوئے پروانے
---
اللہ اللہ حسن کی یہ پردہ داری دیکھیے
بھید جس نے کھولنا چاہا وہ دیوانہ ہوا
---
اول شب وہ بزم کی رونق شمع بھی تھی پروانہ بھی
رات کے آخر ہوتے ہوتے ختم تھا یہ افسانہ بھی
---
ایک دل پتھر بنے اور ایک دل بن جائے موم
آخر اتنا فرق کیوں تقسیم آب و گل میں ہے
---
بھولے بن کر حال نہ پوچھ بہتے ہیں اشک تو بہنے دو
جس سے بڑھے بے چینی دل کی ایسی تسلی رہنے دو
---
پوچھا جو ان سے چاند نکلتا ہے کس طرح
زلفوں کو رخ پہ ڈال کے جھٹکا دیا کہ یوں
---
تیرے تو ڈھنگ ہیں یہی اپنا بنا کے چھوڑ دے
وہ بھی برا ہے باؤلا تجھ کو جو پا کے چھوڑ دے
---
جو دل رکھتے ہیں سینے میں وہ کافر ہو نہیں سکتے
محبت دین ہوتی ہے وفا ایمان ہوتی ہے
---
خالی نہ عندلیب کا سوز نفس گیا
وہ لو چلی کہ رنگ گلوں کا جھلس گیا
---
آرزوؔ ختم حقیقت پہ ہوا دور مجاز
ڈالی کعبے کی بنا آڑ سے بت خانے کی
---
خزاں کا بھیس بنا کر بہار نے مارا
مجھے دورنگئ لیل و نہار نے مارا
---
خموشی میری معنی خیز تھی اے آرزوؔ کتنی
کہ جس نے جیسا چاہا ویسا افسانہ بنا ڈالا
---
دو تند ہواؤں پر بنیاد ہے طوفاں کی
یا تم نہ حسیں ہوتے یا میں نہ جواں ہوتا
---
دوست نے دل کو توڑ کے نقشِ وفا مٹا دیا
سمجھے تھے ہم جسے خلیل کعبہ اسی نے ڈھا دیا
---
مثالِ شمع اپنی آگ میں کیا آپ جل جاؤں
قصاص خامشی لے گی کہاں تک اے زباں مجھ سے
---
نام منصور کا قسمت نے اچھالا ورنہ
ہے یہاں کون سا حق گو کہ سر دار نہیں
---
کچھ تو مل جائے لبِ شیریں سے
زہر کھانے کی اجازت ہی سہی
---
کچھ کہتے کہتے اشاروں میں شرما کے کسی کا رہ جانا
وہ میرا سمجھ کر کچھ کا کچھ جو کہنا نہ تھا سب کہہ جانا
---
ہاتھ سے کس نے ساغر پٹکا موسم کی بے کیفی پر
اتنا برسا ٹوٹ کے بادل ڈوب چلا مے خانہ بھی
---
اے مرے زخمِ دل نوازِ غم کو خوشی بنائے جا
آنکھوں سے خوں بہائے جا ہونٹوں سے مسکرائے جا
---
پھیر جو پڑنا تھا قسمت میں وہ حسب معمول پڑا
خندۂ گل سے اڑا وہ شرارہ خرمن دل پر پھول پڑا
---
تقدیر پہ شاکر رہ کر بھی یہ کون کہے تدبیر نہ کر
وا باب اجابت ہو کہ نہ ہو زنجیر ہلا تاخیر نہ کر
---
آپ آرزوؔ اب خاموش رہیں کچھ اچھی بری کھل کر نہ کہیں
ہیں جتنے منہ اتنی باتیں محفل آخر محفل ہی تو ہے

🌷🍄🌷🍄🌷🍄🌷🍄🌷🍄🌷🍄🌷🍄🌷🍄🌷🍄🌷🍄🌷🍄🌷🍄🌷🍄🌷🍄🌷
 
Top