”کھایا پیا کچھ نہیں، گلاس توڑا....“

کیا انہوں نے قوم کو انتہائی احمق سمجھ لیا ہے، افغانستان کے ساتھ ٹرانزٹ ٹریڈ معاہدے پر دستخط کرنے کے بعد دعویٰ کررہے ہیں کہ ہم نے افغانستان کو بھارتی مال کی درآمد کیلئے راہداری دینے سے انکار کردیا ہے اور پھر یہ معاہدہ بھی پارلیمنٹ کو بائی پاس کرتے ہوئے آناً فاناً کیا گیا اور پاکستان کے ساتھ سٹرٹیجک ڈائیلاگ کا ڈرامہ رچانے کیلئے آئی ہوئی امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن کی موجودگی میں انہیں گواہ بنا کر کیا گیا۔ اس سے بڑی بے عزتی اور بے حمیتی ایک آزاد اور خودمختار ملک کی اور کیا ہوسکتی ہے کہ امریکہ کے ادنیٰ سے اشارے پر ہمارے اس مکار دشمن بھارت کو ہماری منڈیوں تک آسان رسائی دیدی گئی جو پہلے ہی کدالیں اٹھائے اس ملک کی بنیادوں کو کھوکھلا کرنے کی سازشوں میں مصروف ہے۔
ٹرانزٹ ٹریڈ کسی تیسرے ملک کو راستہ دینے کا ہی تو معاہدہ ہوتا ہے۔ بھارت اور افغانستان پہلے ہی ایک دوسرے کے ساتھ تجارتی معاہدوں میں بندھے ہوئے ہیں جس کا فائدہ بھارت تجارت کے بہانے اپنے تربیت یافتہ دہشت گردوں کو اسلحہ بارود سمیت افغانستان منتقل کرنے کی صورت میں اٹھا رہا ہے۔ یہی دہشت گرد افغانستان سے پاکستان میں داخل ہوتے ہیں اور بھارتی اشاروں پر ناچتے ہوئے یہاں دہشت و وحشت کا بازار گرم کئے رکھتے ہیں۔ پہلے بھارت کو اس ”ٹریڈ“ میں تھوڑی سی دقت ہوتی تھی کہ اسے افغانستان تک سڑک کی رسائی حاصل نہیں تھی اور اسے ہماری سالمیت کیخلاف اپنی مذموم سرگرمیوں کو پروان چڑھانے کیلئے فضائی مشقت اٹھانا پڑتی تھی۔ اب پاک افغان ٹریڈ ٹرانزٹ معاہدے نے بھارت کیلئے میدان کھلا چھوڑ دیا ہے۔ اب سڑکیں بھی ہماری اور اسکے ہاتھوں تباہی بھی ہماری۔ بھارت کیلئے اس سے زیادہ اور کیا سہولت حاصل ہوسکتی ہے اس لئے سب سے زیادہ خوشی اس معاہدے کی بھارت میں ہی منائی جا رہی ہے کہ ہلیری نے پاکستان آکر اسکے راستے میں پڑا بھاری پتھر ہٹوا دیا ہے جسے ہٹانے کیلئے پہلے اس کا کوئی حربہ اور کوئی منت سماجت بھی کارگر نہیں ہورہی تھی۔ پھر اندازہ لگائیں، ہمارے وزیر تجارت مخدوم امین فہیم نے کتنی ڈھٹائی کے ساتھ قوم کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کی ہے۔
ٹرانزٹ ٹریڈ کے اس معاہدے کے تحت بھارت افغانستان کو برآمد کرنے والا اپنا سامان واہگہ بارڈر پر لائےگا جہاں پر سامان ان لوڈ ہو کر افغانستان کے ٹرکوں اور کنٹینروں میں لوڈ کیا جائیگا اور پھر یہ ٹرک اور کنٹینر نیٹو فورسز کے ٹرکوں اور کنٹینروں کی طرح ہماری سڑکوں کو روندتے ہوئے افغانستان پہنچیں گے۔ اسی طرح افغانستان اپنا جو سامان بھارت کو برآمد کریگا وہ بھی افغان ٹرکوں اور کنٹینروں میں ہمارے شہر شہر گاﺅں گاﺅں سے گزر کر واہگہ بارڈر پر آئیگا اور یہاں ان لوڈ ہو کر بھارتی ٹرکوں اور کنٹینروں پر لادا جائیگا۔ راہداری اور کیا ہوتی ہے جناب، یہ تو اپنے لئے ”کھایا پیا کچھ نہیں، گلاس توڑا بارہ آنے“ والی بات ہوئی۔ آپ اترا رہے ہیں کہ اس معاہدے کے تحت ہمیں افغانستان کے ذریعے وسطی ایشیائی ریاستوں کی منڈیوں تک رسائی حاصل ہوگئی ہے جبکہ آپ نے درحقیقت ٹریپ میں آکر اپنی ساری منڈیاں اپنے دشمن بھارت کی تحویل میں دیدی ہیں۔ یہی تو بھارت کی اوّلین خواہش تھی اور وہ ہمارے ساتھ تجارت کے راستے کھولنے کیلئے ہی دباﺅ ڈال رہا تھا مگر اس کی یہ خواہش پوری نہیں ہوپارہی تھی۔ اب ہمارے خستہ مکان کے صحن میں اسے راستہ مل گیا ہے تو وہ اس مکان کو ہی گرا کر اپنے لئے راستہ کھلا اور وسیع کرنے کی کوشش کریگا اور یہی اکھنڈ بھارت کا ایجنڈہ ہے جسے پایہ تکمیل تک پہنچانے کیلئے امریکہ اسکی پشت پر کھڑا ہے جو نیٹو افواج کو افغانستان سے نکالنے کے بعد اس خطے کا سارا کنٹرول بھارت کو دینا چاہتا ہے کیونکہ انہوں نے مسلم امہ کیخلاف اپنی کروسیڈ میں ایک دوسرے کو اپنا فطری اتحادی بنایا ہوا ہے۔
http://www.nawaiwaqt.com.pk/pakista...rdu-online/Opinions/Columns/20-Jul-2010/13025
 
Top